یہودیوں کا تاریخی کردار یہ آیت اور اس کے بعد کی چار آیتیں نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہیں ۔ جب ان کے سامنے حبشہ کے ملک میں حضرت جعفر بن ابو طالب نے قرآن کریم پڑھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ۔ یہ خیال رہے کہ یہ آیتیں مدینے میں اتری ہیں اور حضرت جعفر کا یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیتیں اس وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جسے نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا کہ وہ آپ سے ملیں ، حاضر خدمت ہو کر آپ کے حالات و صفات دیکھیں اور آپ کا کلام سنیں ۔ جب یہ آئے آپ سے ملے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سنا تو ان کے دل نرم ہو گئے بہت روئے دھوئے اور اسلام قبول کیا اور واپس جاکر نجاشی سے سب حال کہا نجاشی اپنی سلطنت چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آنے لگے لیکن راستے میں ہی انتقال ہو گیا ۔ یہاں بھی یہ خیال رہے کہ یہ بیان صرف سدی کا ہے اور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ وہ حبشہ میں ہی سلطنت کرتے ہوئے فوت ہوئے ان کے انتقال والے دن ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان کے انتقال کی خبر دی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی ۔ بعض تو کہتے ہیں اس وفد میں سات تو علماء تھے اور پانچ زاہد تھے یا پانچ علماء اور سات زاہد تھے ۔ بعض کہتے ہیں یہ کل پچاس آدمی تھے اور کہا گیا ہے کہ ساٹھ سے کچھ اوپر تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ستر تھے ۔ فاللہ اعلم ۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں جن کے اوصاف آیت میں بیان کئے گئے ہیں یہ اہل حبشہ ہیں ۔ مسلمان مہاجرین حبشہ جب ان کے پاس پہنچے تو یہ سب مسلمان ہو گئے تھے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں پہلے یہ دین عیسوی پر قائم تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا اور قرآن کریم کو سنا تو فوراً سب مسلمان ہو گئے ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ ان سب اقوال کو ٹھیک کر دیتا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں خواہ وہ حبشہ کے ہوں یا کہیں کے ۔ یہودیوں کو مسلمانوں سے جو سخت دشمنی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سرکشی اور انکار کا مادہ زیادہ ہے اور جان بوجھ کر کفر کرتے ہیں اور ضد سے ناحق پر اڑتے ہیں ، حق کے مقابلہ میں بگڑ بیٹھتے ہیں حق والوں پر حقارت کی نظریں ڈالتے ہیں ان سے بغض و بیر رکھتے ہیں ۔ علم سے کورے ہیں علماء کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے اور علم اور ذی علم لوگوں کی کوئی وقعت ان کے دل میں نہیں یہی تھے جنہوں نے بہت سے انبیاء کو قتل کیا خود پیغمبر الزمان احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ بھی کیا اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ۔ آپ کو زہر دیا ، آپ پر جادو کیا اور اپنے جیسے بدباطن لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کئے لیکن اللہ نے ہر مرتبہ انہیں نامراد اور ناکام کیا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کبھی کوئی یہودی کسی مسلمانوں کو تنہائی میں پاتا ہے اس کے دل میں اس کے قتل کا قصد پیدا ہوتا ہے ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن ہے بہت ہی غریب ہاں مسلمانوں سے دوستی میں زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں حضرت مسیح کے تابعدار ہیں انجیل کے اصلی اور صحیح طریقے پر قائم ہیں ان میں ایک حد تک فی الجملہ مسلمانوں اور اسلام کی محبت ہے یہ اس لئے کہ ان میں نرم دلی ہے جیسے ارشاد باری آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ) 57 ۔ الحدید:27 ) یعنی حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور رحم ڈال دیا ہے ۔ ان کی کتاب میں حکم ہے کہ جو تیرے داہنے کلے پر تھپڑ مارے تو اس کے سامنے بیاں کلہ بھی پیش کر دے ۔ ان کی شریعت میں لڑائی ہے ہی نہیں ۔ یہاں ان کی اس دوستی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان میں خطیب اور واعظ ہیں قسسین اور قس کی جمع قسیسین ہے قسوس بھی اس کی جمع آتی ہے رھبان جمع ہے راہب کی ، راہب کہتے ہیں عابد کو ۔ یہ لفظ مشتق ہے رہب سے اور رہبت کے معنی ہیں خوف اور ڈر کے ۔ جیسے راکب کی جمع رکبان ہے اور فرسان ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں کبھی رہبان واحد کیلئے بھی آتا ہے اور اس کی جمع رہابین آتی ہے جیسے قربان اور قرابین اور جوازن اور جوازین اور کبھی اس کی جمع رہابنۃ بھی آتی ہے ۔ عرب کے اشعار میں بھی لفظ رہبان واحد کیلئے آیا ۔ حضرت سلمان سے ایک شخص ( قسیسین و رھبانا ) پڑھ کر اس کے معنی دریافت کرتا ہے تو آپ فرماتے ہیں قسیسین کو خانقاہوں اور غیر آباد جگہوں میں چھوڑ مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقین و رھبانا پڑھایا ( بزار اور ابن مردویہ ) الغرض ان کے تین اوصاف یہاں بیان ہوئے ہیں ان میں عالموں کا ہونا ۔ ان میں عابدوں کا ہونا ۔ ان میں تواضع فروتنی اور عاجزی کا ہونا ۔
82۔ 1 اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد و جحود، حق سے اعراض و استکبار اور اہل علم و ایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملہ میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ 82۔ 2 رُھْبَانُ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ قَسِّیْسِیْنَ سے مراد علما وخطبا ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم و تواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح حجود و استکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیح میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی ان کو پیش کردو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمان کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے، تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب و ہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
[١٢٨] یہود و نصاریٰ کے کردار کا تقابل :۔ عیسائیوں کی مسلمانوں سے کم تر دشمنی اور قریب تر دوستی کی اللہ نے تین وجوہ بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ ان میں عالم لوگ موجود ہیں۔ (یاد رہے عالم سے مراد ہمیشہ عالم باعمل ہوتا ہے) دوسرے ان میں مشائخ موجود ہیں اور تیسرے یہ عیسائی لوگ متکبر نہیں ہوتے بلکہ متواضع اور منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ اب ان کے مقابلہ میں یہود کے حالات دیکھئے ان کے علماء آیات اللہ کو بیچ کھانے والے آیات کو اور حق بات کو چھپا جانے والے اور سازشیں کرنے والے، ان میں رہبان یا مشائخ نام کو نہیں تھے بلکہ پوری قوم حب دنیا میں اس قدر مبتلا تھی کہ سود خوری اور حرام خوری سے باز نہیں آتے تھے اور ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے دولت حاصل کرتے تھے۔ پھر انہی منکرات کا یہ اثر تھا کہ انتہائی سنگدل، بخیل اور متکبر بن گئے تھے۔ ان کے سب سردار مثلاً کعب بن اشرف، سلام بن ابی الحقیق اور حیی بن اخطب سب کے سب ہی متکبر اور بدنہاد تھے۔ اگر ان کے مقابلہ میں ہرقل شہنشاہ روم، مقوقس شاہ مصر اور نجاشی شاہ حبشہ کے کردار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہود کے مقابلہ میں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے کس قدر قریب تر تھے اور اختلافات کے باوجود دوسروں کی نسبت مسلمانوں سے دوستی رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور یہود کی اسلام دشمنی کا یہ حال تھا کہ خود پیغمبر اسلام کو تین دفعہ ہلاک کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار اللہ نے آپ کو ان کے شر سے بچا لیا۔ ایک دفعہ نہایت سخت قسم کا جادو کر کے، دوسری بار زہریلی بکری کو کھلا کر اور تیسری بار چھت کے اوپر سے آپ پر ایک بھاری پتھر گرا کر جبکہ آپ نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً ۔۔ : اس لیے کہ یہودیوں میں عناد و انکار، حق سے دشمنی، تکبر اور اہل علم و ایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کو جھٹلانا بلکہ قتل کردینا ان کا شعار رہا ہے، حتیٰ کہ انھوں نے کئی مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کی، آپ پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی۔ اس معاملے میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ یہ واقعی ایک حقیقت ہے جس کا اس زمانے میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، آج بھی جو دشمنی یہودیوں اور مشرکوں (گائے اور بتوں کے پجاری ہندوؤں، دہریوں اور کمیونسٹوں) کو مسلمانوں سے ہے وہ بہرحال نصرانیوں کو نہیں ہے، ہاں جن نصرانیوں پر یہودیت غالب ہے وہ واقعی مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں۔ - ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ ۔۔ : یہود و نصاریٰ کی مسلم دشمنی میں جو فرق مذکور ہوا یہ اس کی علت ہے، جس طرح یہود کے عالم کو حبر کہا جاتا ہے، جس کی جمع احبار ہے، اسی طرح نصاریٰ کے رئیس اور عالم قسیس کہلاتے ہیں، یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں، جو واقعی عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ مسلمانوں کے نسبتاً قریب ہیں، کیونکہ ان میں علم اور زہد یعنی دنیا سے بےرغبتی پائی جاتی ہے اور دین مسیحی میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ پھر ان میں علماء، عبادت گزار اور زاہد لوگ بھی ہوتے ہیں، جو تواضع اختیار کرتے ہیں، یہودیوں کی طرح کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتے۔ نصرانیوں میں رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) کی بدعت رائج تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لاَ رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ) فرما کر اسے ممنوع قرار دے دیا۔ رہبانیت بیشک یہودیوں کی دنیا پرستی اور سخت دلی کے مقابلے میں قابل تعریف تھی، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رہبانیت ہر لحاظ سے قابل تعریف اور اچھی چیز ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر یہود اور مشرکین کی نسبت نصرانیوں کو مسلمانوں کے زیادہ قریب قرار دیا۔ ورنہ جہاں تک خود اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا تعلق ہے تو بغض و عناد نصرانیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب و ہلال کی صدیوں پر محیط لڑائیوں سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور اب تو اسلام کے خلاف مشرکین کے ساتھ یہودی اور نصرانی دونوں اکٹھے ہوگئے ہیں، اسی لیے قرآن نے مسلمانوں کو مشرکین کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ کی دوستی سے بھی منع فرمایا ہے۔
ربط آیات - اوپر یہود کا مشرکین سے دوستی رکھنا مذکور تھا، آگے ان کا مع مشرکین کے مسلمانوں سے عداوت رکھنا مذکور ہے جو اس دوستی کا اصلی سبب تھا اور چونکہ ہر معاملہ ایک درجہ میں شمار نہیں کیا، جس میں کوئی بڑا داعی ہے اس لئے یہود و نصاریٰ میں بھی سب کو ایک درجہ میں شمار نہیں کیا۔ جس میں کوئی خوبی تھی اس کا بھی اظہار کیا گیا، مثلاً نصاریٰ کی ایک خاص جماعت میں یہ بسنت ان یہود کے تعصب کا کم ہونا۔ اور ان نصاریٰ میں جنہوں نے حق قبول کرلیا تھا ان کا مستحق حسن ثناء و حسن جزا ہونا مذکور ہے۔ اور یہ خاص جماعت حبشہ کے نصاریٰ کی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو جبکہ ہجرت مدینہ کے قبل اور وہ اپنا وطن مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے تھے۔ کچھ تکلیف نہیں دی اور جو اور نصرانی ایسا ہی ہو وہ بھی حکما انہی میں داخل ہے اپنا وطن مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے تھے۔ کچھ تکلیف نہیں دی اور جو اور نصرانی ایسا ہی ہو وہ بھی حکماً انہیں میں داخل ہے اور ان میں سے جنہوں نے حق قبول کرلیا تھا وہ نجاشی بادشاہ اور ان کے مصاحب ہیں کہ حبشہ میں بھی قرآن سن کر روئے اور مسلمان ہوگئے۔ پھر تیس آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قرآن سن کر رو دیے اور اسلام قبول کیا، یہی اس آیت کا شان نزول ہے۔ - خلاصہ تفسیر - (غیر مؤمنین میں) تمام آدمیوں سے زیادہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یہود اور ان مشرکین کو پاویں گے اور ان (غیر مومن آدمیوں) میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی رکھنے کے قریب تر (بہ نسبت اوروں کے) ان لوگوں کو پائیں گے جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں (قریب تر کا یہ مطلب ہے کہ دوست تو وہ بھی نہیں، مگر دوسرے کفار مذکورین سے غنیمت ہیں) یہ (دوستی سے قریب تر ہونا اور عداوت میں کم ہونا) اس سبب سے ہے کہ ان (نصاریٰ ) میں بہت سے علم دوست عالم ہیں، اور بہت سے تارک دنیا درویش ہیں، (اور جب کسی قوم میں ایسے لوگ بکثرت ہوتے ہیں تو عوام میں بھی حق کے ساتھ زیادہ عناد نہیں رہتا، اگرچہ خواص و عوام حق کو قبول بھی نہ کریں) اور اس سبب سے ہے کہ یہ (نصاریٰ ) لوگ متکبر نہیں ہیں (قسیسین و رہبان سے جلدی متاثر ہوجاتے ہیں، اور نیز تواضع کا خاصہ ہے امر حق کے سامنے نرم ہوجانا اس لئے ان کو عداوت زیادہ نہیں، پس قسیسین و رہبان یعنی علماء و مشائخ کا وجود اشارہ ہے علت فاعلہ کی طرف اور عدم استکبار قابلیت کی طرف، بخلاف یہود و مشرکین کے کہ محب دنیا اور متکبر ہیں، اور گو یہود میں بھی بعض علماء حقانی تھے جو مسلمان ہوگئے تھے، لیکن بوجہ ان کی قلت کے عوام میں اثر نہیں پہنچتا تھا، اس لئے ان میں عناد ہے۔ جو سبب ہوجاتا ہے شدت عداوت کا، اسی لئے یہود تو مومن ہی کم ہوئے اور مشرکین میں سے جب عناد نکل گیا تب مومن ہونا شروع ہوئے) اور (بعضے ان میں جو کہ آخر میں مسلمان ہوگئے تھے ایسے ہیں کہ) جب وہ اس (کلام) کو سنتے ہیں جو کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا گیا ہے (یعنی قرآن) تو آپ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں، اس سبب سے کہ انہوں نے (دین) حق (یعنی اسلام) کو پہچان لیا (مطلب یہ کہ حق کو سن کر متاثر ہوتے ہیں اور) یوں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم مسلمان ہوگئے تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لیجئے (یعنی ان میں شمار کرلیجئے) جو (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے حق ہونے کی) تصدیق کرتے ہیں اور ہمارے پاس کونسا عذر ہے کہ اللہ تعالیٰ پر (حسب تعلیم شریعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو (دین) حق ہم کو (اب) پہنچا ہے اس پر ایمان نہ لاویں اور (پھر) اس بات کی امید (بھی) رکھیں کہ ہمارا رب ہم کو نیک (مقبول) لوگوں کی معیّت میں داخل کر دے گا، (بلکہ یہ امید موقوف اسلام پر ہے، اس لئے مسلمان ہونا ضروری ہے) سو ان (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ ان کے (اس) قول (مع الاعتقاد) کی پاداش میں ایسے باغ (بہشت کے) دیں گے جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور) یہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، اور نیکوکاروں کی یہی جزا ہے، اور (برخلاف ان کے) جو لوگ کافر رہے اور ہماری آیات (و احکام) کو جھوٹا کہتے رہے وہ لوگ دوزخ (میں رہنے) والے ہیں۔- معارف و مسائل - بعض اہل کتاب کی حق پرستی - ان آیات میں مسلمانوں کے ساتھ عداوت یا مودّت کے معیار سے ان اہل کتاب کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اپنی حق پرستی اور خدا ترسی کی وجہ سے مسلمانوں سے بغض و عداوت نہیں رکھتے تھے۔ مگر ان اوصاف کے لوگ یہود میں بہت کم، کالعدم تھے۔ جیسے حضرت عبداللہ ابن سلام وغیرہ۔ نصاریٰ میں نسبتاً ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی، خصوصاً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ملک حبشہ کا بادشاہ نجاشی اور وہاں کے حکام و عوام میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد تھی اور اسی سبب سے جب مکہ مکرمہ کے مسلمان قریش کے مظالم سے تنگ آگئے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا، اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ حبشہ کا بادشاہ خود ظلم کرتا ہے نہ کسی کو کسی پر ظلم کرنے دیتا ہے، اس لئے مسلمان کچھ عرصہ کے لئے وہاں چلے جائیں۔- اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے پہلی مرتبہ گیارہ حضرات حبشہ کی طرف نکلے، جن میں حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت رقیہ (رض) بھی شامل تھیں، اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کی سر کردگی میں مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ جو عورتوں کے علاوہ بیاسی مردوں پر مشتمل تھا، حبشہ پہنچ گیا، شاہ حبشہ اور وہاں کے باشندوں نے ان کا شریفانہ استقبال کیا، اور یہ لوگ امن و عافیت سے وہاں رہنے لگے۔- قریش مکہ کے غیظ و غضب نے ان کو اس پر بھی نہ رہنے دیا، کہ یہ لوگ کسی دوسرے ملک میں اپنی زندگی عافیت سے گزار لیں، انہوں نے اپنا ایک وفد بہت سے تحفے دے کر شاہ حبشہ کے پاس روانہ کیا، اور یہ درخواست کی کہ ان مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دیں، مگر شاہ حبشہ نے حالات کی تحقیق کی، اور حضرت جعفر ابی طالب (رض) اور ان کے رفقاء سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے حالات معلوم کئے، ان حالات اور اسلام کی تعلیمات کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی پیشینگوئی کے عین مطابق پایا، جس میں حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ذکر اور ان کی تعلیمات کا مختصر خاکہ، اور ان کا اور ان کے صحابہ کا حلیہ وغیرہ مذکور تھا، اس سے متاثر ہو کر شاہ حبشہ نے قریشی وفد کے ہدئیے، تحفے واپس کردیئے اور ان کو صاف جواب دے دیا کہ میں ایسے لوگوں کو اپنے ملک سے نکلنے کا کبھی حکم نہیں دے سکتا۔- حضرت جعفر بن ابی طالب کی تقریرکا شاہ حبشہ پر اثر - حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے نجاشی کے دربار میں اسلام اور اس کی تعلیمات کا ایک مختصر مگر جامع خاکہ کھینچ دیا تھا، اور پھر ان حضرات کے قیام نے نہ صرف اس کے دل میں بلکہ وہاں کے حکام و عوام سب کے دل میں اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی محبت و عظمت پیدا کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی، اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور صحابہ کرام کا مطمئن ہوجانا معلوم ہوا اور مہاجرین حبشہ نے مدینہ طیبہ جانے کا عزم کیا تو نجاشی شاہ حبشہ نے ان کے ساتھ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے بڑے بڑے علماء مشائخ کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، جو ستر آدمیوں پر مشتمل تھا، جن میں باسٹھ حضرات حبشہ کے اور آٹھ شام کے تھے۔- شاہ حبشہ کے وفد کی درگاہ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضری - یہ وفد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک درویشانہ اور راہبانہ لباس میں ملبوس حاضر ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سورة یسین پڑھ کر سنائی، یہ لوگ سنتے جاتے تھے، اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، سب نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے کتنا مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوتا تھا، اور یہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔- ان کی واپسی کے بعد حبشہ نجاشی نے بھی اسلام کا اعلان کردیا، اور اپنا ایک خط دے کر اپنے صاحبزادے کو ایک دوسرے وفد کا قائد بنا کر بھیجا، مگر سوء اتفاق سے یہ کشتی دریا میں غرق ہوگئی، الغرض حبشہ کا بادشاہ اور حکام و عوام نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف شریفانہ اور عادلانہ سلوک کیا بلکہ بالآخر خود بھی مسلمان ہوگئے۔- جمہور مفسرین نے فرمایا کہ آیات متذکرہ انہی حضرات کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں : وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى، اور بعد کی آیات میں ان کا خوف حق تعالیٰ سے رونا اور حق کو قبول کرنا بیان فرمایا گیا ہے، اس پر بھی جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اگرچہ یہ آیات نجاشی اور اس کے بھیجے ہوئے وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن الفاظ میں عموم ہے اس لئے اس کا حکم ان تمام نصاریٰ کے لئے عام اور شامل ہے جو اہل حبشہ کی طرح حق پرست اور انصاف پسند ہوں، یعنی اسلام سے پہلے انجیل کے متبع تھے، اور اسلام آنے کے بعد اسلام کے پیرو ہوگئے۔- یہود میں بھی اگرچہ چند حضرات اسی شان کے موجود تھے جو عہد موسوی میں تورات پر عامل رہے، پھر اسلام آنے کے بعد اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے، لیکن یہ اتنی کم تعداد تھی کہ امتوں اور قوموں کے ذکر کے وقت اس کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے، باقی یہود کا حال کھلا ہوا تھا، کہ وہ مسلمانوں کی عداوت اور بنچ کنی میں سب سے آگے تھے، اسی لئے صدر آیت میں یہود کا یہ حال ذکر فرمایا :۔- لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا، یعنی مسلمانوں کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود ہیں۔- خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس آیت میں نصاریٰ کی ایک خاص جماعت کی مدح فرمائی گئی ہے جو خدا ترسی اور حق پرستی کی حامل تھی، اس میں نجاشی اور اس کے اعوان و انصار بھی داخل ہیں اور دوسرے نصاریٰ بھی جو ان صفات کے حامل تھے، یا آئندہ زمانہ میں داخل ہوں، لیکن اس کے یہ معنی نہ آیات سے نکلتے ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں کہ نصاریٰ خواہ کیسے بھی گمراہ ہوجائیں اور اسلام دشمنی میں کتنے ہی سخت اقدام کریں ان کو بہر حال مسلمانوں کا دوست سمجھا جائے، اور مسلمان ان کی دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ کیونکہ یہ بداہتہ غلط اور واقعات کے قطعاً خلاف ہے، اس لئے امام ابوبکر جصاص رحمة اللہ علیہ نے احکام القرآن میں فرمایا کہ بعض جاہل جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ان آیات میں مطلقاً نصاریٰ کی مدح ہے اور وہ علی الاطلاق یہود سے بہتر ہیں۔ یہ سراسر جہالت ہے، کیونکہ اگر عام طور پر دونوں جماعتوں کے مذہبی عقائد کا موازنہ کیا جائے تو نصاریٰ کا مشرک ہونا زیادہ واضح ہے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ معاملات کو دیکھا جائے تو آج کل کے عام نصاریٰ نے بھی اسلام دشمنی میں یہودیوں سے کم حصہ نہیں لیا، وہاں یہ صحیح ہے کہ نصاریٰ میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوئی ہے، جو خدا ترس اور حق پرست تھے، اسی کے نتیجہ میں ان کو قبول اسلام کی توفیق ہوئی۔ اور یہ آیات ان دونوں جماعتوں کے مابین اسی فرق کو ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ خود اسی آیت کے آخر میں قرآن نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرما دیا ہے : ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ ، یعنی جن نصاریٰ کی مدح ان آیات میں کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں علماء اور خدا ترس، تارک الدنیا حضرات ہیں، اور ان میں تکبر نہیں کہ دوسروں کی بات پر غور کرنے کے لئے تیار نہ ہوں، مقابلہ سے معلوم ہوا کہ یہود کے یہ حالات نہ تھے۔ ان میں خدا ترسی اور حق پرستی نہ تھی، ان کے علماء نے بھی بجائے ترک دنیا کے اپنے علم کو صرف ذریعہ معاش بنا لیا تھا۔ اور طلب دنیا میں ایسے مست ہوگئے تھے کہ حق و ناحق اور حلال و حرام کی بھی پرواہ نہ رہی تھی۔- قوم و ملت کی اصلی روح حق پرست علماء و مشائخ ہیں - آیت مذکورہ کے بیان سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ قوم و ملت کی اصلی روح حق پرست، خدا ترس علماء و مشائخ ہیں۔ ان کا وجود پوری قوم کی حیات ہے جب تک کسی قوم میں ایسے علماء و مشائخ موجود ہوں جو دنیوی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں، خدا ترسی ان کا مقام ہو تو وہ قوم خیر و برکت سے محروم نہیں ہوتی۔
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ٠ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى ٠ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ٨٢- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- قسس - القِسُّ والْقِسِّيسُ : العالم العابد من رؤوس النصاری. قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْباناً [ المائدة 82] وأصل القُسِّ : تتبّع الشیء وطلبه باللیل، يقال : تَقَسَّسْتُ أصواتهم باللیل، أي : تتبّعتها، والْقَسْقَاسُ والْقَسْقَسُ : الدّليل باللیل .- ( ق س س ) القس والقسیس کے معنی رؤ سائ نصارٰ میں سے خدا پر ست عالم کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْباناً [ المائدة 82] یہ اس لئے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اصل میں قس کے معنی رات کے وقت کسی چیز کی جستجو کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ تقسست اصواتھم باللیل میں نے رات کے وقت ان کی آوازوں کی جستجو کیا لقسق اس وا لقسقس کے معنی رات کے وقت رہنمائی کرنے والے کے ہیں ۔- رَهْبانِيَّةً- والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها - [ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت - اور ترھب ( تفعل ) کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت میں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے کو رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها [ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا ) جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ نشین لوگ ) واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی ، جو اس کو واحد قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھابین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھابیۃ بنانا زیادہ مناسب ہے ۔ الارھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے رھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے ہیں مشہور محاورہ ہے : ۔ رَهَبُوتٌ خير من رحموت کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاکال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - الحمد لله پاره مکمل هوا
قول باری ہے ولتجدن قوبھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوا انا نصاری اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں تا آخر آیت ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر ، عطاء اور سدی کا قول ہے یہ آیت نجاشی شاہ حبشہ اور اس کے ساتھیوں بارے میں نازل ہوئی جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا تعلق اہل کتاب کے ایک گروہ سے تھا جس کے افراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے رہے ۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو یہ لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔ جاہلوں کا ایک گروہ بھی ہے جس کا گمان ہے کہ اس آیت میں نصاریٰ کی تعریف کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نصاریٰ یہود سے بہتر ہیں حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں اس چیز کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں تو صرف ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تھے۔ سلسلہ تلاوت میں ان لوگوں کا اپنے متعلق اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی خبر دینا اس پر دلالت کرتا ہے۔ صحیح سمجھ رکھنے والا جو شخص ان دو گروہوں یعنی یہود و نصاریٰ کے عقائد پر گہری نظر سے غور کرے گا اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہود کے عقائد کی بہ نسبت نصاریٰ کے عقائد قبیح ، زیادہ محال ، زیادہ فاسد ہیں۔ اس لیے کہ یہود فی الجملہ توحید کا اقرار کریت ہیں اگرچہ ان کے اندر بھی تشبیہ کا عقیدہ ہے جو ان کے فی الجملہ توحید کے عقیدے کے اندر نقص پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس کے برعکس نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کا اقرار کر کے توحید کے عقیدے سے منکر ہوگئے ہیں۔
(٨٢) اس کے ساتھ ساتھ ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے جو دشمنی ہے اللہ تعالیٰ اس کو بیان فرماتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں میں سب سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور صحابہ کرام (رض) سے دشمنی رکھنے والے آپ بنی قریظہ، بنی نضیر، فدک، خیبر اور مشرکین مکہ کو پائیں گے جو کفر وشرک میں بہت پختہ ہیں۔- اور آپ کے ساتھ اور صحابہ کرام (رض) کے ساتھ دوستی رکھنے کے قریب آپ حضرت نجاشی اور ان کے ساتھیوں کو پائیں گے جن کی تعداد بتیس ہے یا چالیس ہے جن میں سے بتیس تو حبشہ کے ہیں اور آٹھ شام کے ہیں، بحیرا راہب اور اس کے ساتھی اور ابرہی، اشرف، ادریس، تمیم، تمام، درید، ایمن اور یہ دوستی اس بنا پر ہے کہ بہت سے ان میں سے تارک الدنیا عابد ہیں، جنہوں نے اپنے سروں کو خاص علامت کے طور پر درمیان میں سے منڈوا رکھا ہے۔- اور بہت سے علم دوست عالم ہیں اور یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے میں متکبر نہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ولتجدن اقربہم “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور عروۃ بن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن امیہ ضمری کو روانہ کیا اور ان کے ساتھ حضرت نجاشی کے پاس ایک خط بھیجا چناچہ وہ نجاشی کے پاس آئے، نجاشی نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک پڑھا اور حضرت جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھ دوسرے مہاجرین کو بلایا اور علماء وتارک الدنیا راہبوں کو حکم دیا وہ آئے پھر حضرت جعفر (رض) کو حکم دیا، انہوں نے سب کے سامنے سورة مریم کی آیات تلاوت کیں، چناچہ قرآن کریم پر ایمان لے آئے اور سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، ان ہی حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ولتجدنھم “۔ سے ”۔ فاکتبنا مع الشاھدین “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٨٢ (لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج) - یہ بہت اہم آیت ہے۔ مکہ کے مشرکین بھی مسلمانوں کے دشمن تھے ‘ لیکن ان کی دشمنی کم از کم کھلی دشمنی تھی ‘ ان کا دشمن ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا ‘ وہ سامنے سے حملہ کرتے تھے۔ لیکن مسلمانوں سے بد ترین دشمنی یہود کی تھی ‘ وہ آستین کے سانپ تھے اور سازشی انداز میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں مشرکین مکہ سے کہیں آگے تھے۔ آج بھی یہود اور ہنود مسلمانوں کی دشمنی میں سب سے آگے ہیں ‘ کیونکہ اس قسم (بت پرستی) کا شرک تو اب صرف ہندوستان میں رہ گیا ہے ‘ اور کہیں نہیں رہا۔ ہندوستان کے بھی اب یہ صرف نچلے طبقے میں ہے جبکہ عام طور پر اوپر کے طبقے میں نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اب بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور ہنود کا گٹھ جوڑ ہے۔- (وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ط) - یہ تاریخی حقیقت ہے اور سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ جس طرح کی شدید دشمنی اس وقت یہود نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ویسی نصاریٰ نے نہیں کی۔ حضرت نجاشی (رح) (شاہ حبشہ) نے اس وقت کے مسلمان مہاجروں کو پناہ دی ‘ مقوقس (شاہ مصر) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہدیے بھیجے۔ ہرقل نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نامۂ مبارک کا احترام کیا۔ وہ چاہتا بھی تھا کہ اگر میری پوری قوم مان لے تو ہم اسلام قبول کرلیں۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ جس کا ذکر سورة آل عمران (آیت ٦١) میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ وہ لوگ اگرچہ مسلمان تو نہیں ہوئے مگر ان کارویّہ انتہائی محتاط رہا۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مخالفت میں وہ شدت نہ تھی جو یہودیوں کی مخالفت میں تھی۔- (ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ )- یعنی عیسائیوں میں اس وقت تک علمائے حق بھی موجود تھے اور درویش راہب بھی جو واقعی اللہ والے تھے۔ بحیرہ راہب عیسائی تھا جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچپن میں پہچانا تھا۔ اسی طرح ورقہ بن نوفل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے پہلے تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا۔ ورقہ بن نوفل تھے تو عرب کے رہنے والے ‘ لیکن وہ حق کی تلاش میں شام گئے اور عیسائیت اختیار کی۔ وہ عبرانی زبان میں تورات لکھا کرتے تھے۔ یہ اس دور کے چند عیسائی علماء اور راہبوں کی مثالیں ہیں۔ لیکن وہ قِسِّیسِین اور رُہْبان اب آپ کو عیسائیوں میں نہیں ملیں گے ‘ وہ دور ختم ہوچکا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قرآن نازل ہو رہا تھا۔ اس کے بعد جو صورت حال بدلی ہے اور صلیبی جنگوں کے اندر عیسائیت نے جو وحشت و بربر یت دکھائی ہے ‘ اور عیسائی علماء اور مذہبی پیشواؤں نے جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے اور اپنی قوم سے اس سلسلے میں جو کارنامے انجام دلوائے ہیں وہ تاریخ کے چہرے پر بہت ہی بد نما داغ ہے۔
56:: مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں میں چونکہ بہت سے لوگ دنیا کی محبت سے خالی ہیں، اس لئے ان میں قبول حق کا مادہ زیادہ ہے اور کم از کم انہیں مسلمانوں سے اتنی سخت دشمنی نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی محبت وہ چیز ہے جو انسان کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے، اس کے برعکس یہودیوں اور مشرکین مکہ پر دنیا پرستی غالب ہے، اس لئے وہ سچے طالب حق کا طرز عمل اختیار نہیں کرپاتے، عیسائیوں کے نسبۃً نرم دل ہونے کی دوسری وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ؛ کیونکہ انسان کی انا بھی اکثر حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے محبت میں قریب تر فرمایا گیا ہے اسی کا اثر یہ تھا کہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بہت سے مسلمانوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پناہ لی، اور نہ صرف نجاشی بلکہ اس کی رعایا نے بھی ان کے ساتھ بڑے اعزاز واکرام کا معاملہ کیا ؛ بلکہ جب مشرکین مکہ نے اپنا ایک وفد نجاشی کے پاس بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ جن مسلمانوں نے اس کے ملک میں پناہ لی ہے انہیں اپنے ملک سے نکال کرواپس مکہ مکرمہ بھیج دے تاکہ مشرکین ان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناسکیں، تونجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے ان کا موقف سنا اور مشرکین مکہ کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا اور جو تحفے انہوں نے بھیجے تھے وہ واپس کردئے ؛ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے قریب تر کہا گیا ہے یہ ان عیسائیوں کی اکثریت کے اعتبار سے کہا گیا ہے جو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی محبت سے دور ہوں اور ان میں تکبر نہ پایاجاتا ہو ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر زمانے کے عیسائیوں کا یہی حال ہے ؛ چنانچہ تاریخ میں ایسی بہت مثالیں ہیں جن میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین معاملہ کیا۔