ایمان والو کی پہچان اوپر بیان گزر چکا ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں ان میں جو اچھے اوصاف ہیں مثلاً عبادت ، علم ، تواضع ، انکساری وغیرہ ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے حق کی قبولیت بھی ہے اللہ کے احکامات کی اطلاعت بھی ہے ادب اور لحاظ سے کلام اللہ سنتے ہیں ، اس سے اثر لیتے ہیں اور نرم دلی سے رو دیتے ہیں کیونکہ وہ حق کے جاننے والے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بشارت سے پہلے ہی آگاہ ہو چکے ہیں ۔ اس لئے قرآن سنتے ہی دل موم ہو جاتے ہیں ۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں دوری جانب زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیتیں حضرت نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ کچھ لوگ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جشہ سے آئے تھے حضور کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر ایمان لائے اور بےتحاشہ رونے لگے ۔ آپ نے ان سے دریاف فرمایا کہ کہیں اپنے وطن پہنچ کر اس سے پھر تو نہیں جاؤ گے؟ انہوں نے کہا ناممکن ہے اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں شاہدوں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی شہادت ہے پھر اس قسم کے نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ) 4 ۔ النسآء:159 ) یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جوان پر نازل کیا گیا ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں ۔ ان ہی کے بارے میں فرمان ربانی آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ 52 وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ 53 اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 54 وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ 55 ) 28 ۔ القصص:52 تا 55 ) ۔ کہ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے ہیں اور دونوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں؟ ان کے اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے والے ترو تازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے ۔ محسن ، نیکو کار ، مطیع حق ، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے ، وہ کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی ہوں ۔ جو ان کے خلاف ہیں انجام کے لحاظ سے بھی ان کے برعکس ہیں ، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے ۔
[١٢٩] ہجرت حبشہ اور نجاشی کا کردار :۔ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر ٥ ھ نبوی میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ شاہ حبشہ کے ساتھ قریش مکہ کے تجارتی مراسم تھے۔ ان کا ایک وفد ان کو واپس لانے کے لیے وہاں پہنچا۔ اور چند درباریوں سے مل کر انہیں تحفے اور تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ کل جب ہم نجاشی کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ہماری ہاں میں ہاں ملا دیں اور سفارش بھی کریں۔ دوسرے دن اس وفد نے دربار میں حاضر ہو کر کہا کہ ہمارے کچھ لوگ وہاں سے بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں۔ وہ ہمیں واپس کر دیجئے۔ رشوت لینے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔ لیکن نجاشی بڑا انصاف پسند بادشاہ تھا۔ اس نے کہا : جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سنوں گا میں انہیں تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا۔ چناچہ دوسرے دن مہاجر مسلمانوں کو دربار میں بلا کر ان کا بیان لیا گیا۔ جب انہوں نے ان مشرکوں کی ایذا رسانیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان سنائی تو اس نے مشرکین مکہ کو صاف جواب دے دیا اور انہیں اپنا سا منہ لے کر رخصت ہونا پڑا۔ اسی وفد کے ایک آدمی کو ایک تدبیر سوجھی جس کی کامیابی اسے یقینی محسوس ہونے لگی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ہم کل پھر دربار میں پیش ہوں گے اور میں ایک ایسی بات پیش کروں گا کہ بادشاہ از خود ان مسلمانوں کو ہمارے حوالہ کر دے گا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ اس وقت تک پوری عیسائی دنیا میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ رائج ہوچکا تھا جبکہ مسلمان انہیں ابن اللہ نہیں مانتے تھے۔ فقط اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی سمجھتے تھے۔ چناچہ دوسرے دن یہ وفد دربار میں حاضر ہوا اور نجاشی سے کہا : ان مفرور بےدینوں سے آپ یہ تو پوچھئے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ؟ اور کچھ غلط سلط باتیں بھی بتائیں دوسرے دن پھر مسلمانوں کی دربار میں طلبی ہوئی۔ انہیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کفار مکہ نے اب ہم پر جو نیا وار کیا ہے وہ کس قسم کا ہے۔ بہرحال ان مظلوم مسلمانوں نے آپس میں یہی طے کیا کہ جو بات بھی کہیں گے سچ ہی کہیں گے خواہ ہمیں اس کی کتنی ہی سزا بھگتنی پڑے۔ مسلمانوں نے اس غرض کے لیے سیدنا جعفر طیار کو جو سیدنا علی کے بھائی تھے اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ دوسرے دن جب نجاشی نے مسلمانوں سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار نے جواب میں سورة مریم کی متعلقہ آیات پڑھ کر سنا دیں۔ یہ آیات سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور مسلمانوں سے کہنے لگا واللہ جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ (علیہ السلام) اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔ نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری بھی برہم ہوئے اور قریشی سفارت کی تمام امیدوں پر اوس پڑگئی مگر نجاشی نے کسی کی بھی پروا نہ کی اور مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی کھلے دل سے اجازت دی۔ اور وفد کو بری طرح ذلیل ہو کر واپس آنا پڑا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد نجاشی نے ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل ایک وفد مدینہ میں رسول اللہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ لوگ جب قرآن سنتے تو ان پر رقت طاری ہوجاتی، وفور جذبات سے آنسو بہنے لگتے اور زبان سے ـ ( رَبَّنَا آمَنَّا) ۔۔ کہنا شروع کردیتے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔- خ نجاشی کا غائبانہ نماز جنازہ :۔ شاہ حبشہ نجاشی اگرچہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تاہم مسلمان ضرور ہوچکا تھا اور اس پر واضح دلیل یہ ہے کہ جب وہ فوت ہوا تو آپ نے مسلمانوں کو اس کی وفات کی خبر دی پھر اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب الصفوف علی الجنازۃ)
وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ ۔۔ : مفسرین کے بیان کے مطابق ان سے مراد نصاریٰ کے وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، سلمان (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو میں نے کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سلمان یہ کیا ہے ؟ “ میں نے کہا : ” صدقہ ہے۔ “ تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کھاؤ اور خود نہیں کھایا۔ چناچہ میں واپس آگیا، پھر کچھ کھانا اکٹھا کیا اور اسے لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : ” سلمان یہ کیا ہے ؟ “ میں نے کہا : ” ہدیہ ہے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بڑھایا اور کھایا اور (ساتھ ہی) اپنے ساتھیوں سے بھی فرمایا کہ کھاؤ۔ میں نے کہا : ” آپ مجھے نصاریٰ کے متعلق بتائیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان میں کوئی خیر نہیں ہے۔ “ میں بوجھل دل کے ساتھ اٹھ آیا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل کیں : (لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ ۔۔ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف پیغام بھیجا اور مجھے فرمایا : ” سلمان یہ ( آنسوؤں والے) تیرے وہ ساتھی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ “ [ المعجم الکبیر : ٦؍٤٩، ح : ٦١٢١ ] سلیم الہلالی اور ان کے ساتھی نے اس حدیث کو ” کتاب الاستیعاب فی بیان الاسباب “ میں صحیح کہا ہے۔- ان لوگوں میں نجاشی (رض) اور ان کے ساتھی بھی شامل ہیں کہ جب مکہ میں مسلمان ہونے والے صحابہ ہجرت کر کے نجاشی کے ملک حبشہ میں گئے اور انھیں کفار مکہ کے سفیروں کی شکایت پر بادشاہ کے دربار میں بلایا گیا تو جعفر (رض) نے اس کے سامنے تقریر کی اور اس میں سورة مریم کی تلاوت کی، جس میں مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کا ذکر ہے، تو نجاشی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور نجاشی ( رض ) مسلمان ہوگئے، اگرچہ وہ مدینہ نہیں جاسکے مگر ان کی وفات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا غائبانہ جنازہ پڑھایا۔ اس کے علاوہ ایسے مسلمان ہونے والے نصاریٰ کا ذکر دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٩٩) اور سورة قصص (٥٢ تا ٥٥) اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوہرے اجر کی بشارت دی۔ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ : ٩٧ ]- فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ : یعنی ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں داخل فرما کر ان کی طرح شہادت دینے والوں میں شامل فرما۔ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت سے متعلق دیکھیں سورة بقرہ (١٤٣) یا یہ کہ انبیاء اور مومنین جو توحید کی گواہی دیتے ہیں، ان کی جماعت میں شامل فرما۔
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ ٠ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ ٨٣- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- فيض - فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] - ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ - دمع - قال تعالی: تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة 92] . فالدّمع يكون اسما للسائل من العین، ومصدر دَمَعَتِ العینُ دَمْعاً ودَمَعَاناً.- ( د م ع ) دمعت ( ف ) العین دمعا ودمعانا ۔ آنسو جاری ہونا ۔ قرآن میں ہے :َ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة 92] تو ہ لوٹ گئے ۔ اور اس غم سے ۔۔۔۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ الدمع اسم بھی آتا ہے جس کے معنی ہیں آنسو اور ( باب مذکور کا ) مصدر بھی ۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔
(٨٣) اور جب وہ حضرات جعفر (رض) بن ابی طالب سے اس کلام کو سنتے ہیں جو کہ ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے، کیوں کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت سے اچھی طرح واقف ہیں تو ان کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے لہٰذا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں جو مومن حضرات ہیں ہمیں ان کے ساتھ شامل فرمالیجیے۔- شان نزول : (آیت) ” واذا سمعوا “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت نجاشی (رض) نے اپنے ساتھیوں میں سے تیس پسندیدہ حضرات کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں بھیجا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے سورة یسین کی تلاوت فرمائی وہ سب حضرات رونے لگے تو ان کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے۔- اور امام نسائی (رح) نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت نجاشی (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور امام طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح اس سے مفصل روایت نقل کی ہے۔
آیت ٨٣ (وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ ) (تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِ ج) - یہ ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مکی دورّ میں جب صحابہ (رض) ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے تو ان کے ذریعے سے وہاں کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پھر جب مدینہ منورہ میں اسلام کا غلبہ ہوگیا اور عرب میں امن قائم ہوگیا تو ان کا ایک وفد مدینہ آیاجوستر (٧٠) افراد پر مشتمل تھا اور اس میں کچھ نو مسلم بھی شامل تھے۔ آیت زیر نظر میں اس وفد کے ارکان کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے قرآن سناتو حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔
57: جب مسلمانوں کو حبشہ سے نکالنے کا مطالبہ لے کر مشرکین مکہ کا وفد نجاشی کے پاس آیا تھا تو اس نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلاکر ان کا موقف سنا تھا، اس موقع پر آنحضرتﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر ابن ابی طالب نے اس کے دربار میں بڑی مؤثر تقریر کی تھی جس سے نجاشی کے دل میں مسلمانوں کی عظمت اور محبت بڑھ گئی اور اسے اندازہ ہوگیا کہ آنحضرتﷺ وہی آخری نبی ہیں جن کی پیشینگوئی تورات اور انجیل میں کی گئی تھی، چنانچہ جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو نجاشی نے اپنے علماء اور راہبوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں بھیجا، آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے سورۂ یسین کی تلاوت فرمائی جسے سن کر ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے بہت مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا، چنانچہ سب لوگ مسلمان ہوگئے اور جب یہ واپس حبشہ گئے تو نجاشی نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، ان آیات میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔