93۔ 1 حرمت شراب کے بعد بعض صحابہ (رض) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارے کئی ساتھی جنگوں میں شہید یا ویسے ہی فوت ہوگئے۔ جب کہ وہ شراب پیتے رہے ہیں۔ تو اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کردیا گیا کہ ان کا خاتمہ ایمان وتقویٰ پر ہی ہوا ہے کیونکہ شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی تھی۔
[١٣٩] سیدنا انس فرماتے ہیں جب شراب کی حرمت نازل ہوئی میں ابو طلحہ (رض) کے گھر میں لوگوں کو (ساقی بن کر) شراب پلا رہا تھا۔ جب شراب کی حرمت کی منادی ہوئی تو ابو طلحہ (رض) نے کہا کہ جا کر سب شراب بہا دو ۔ میں نے بہا دی جو مدینہ کی گلیوں میں بہتی چلی گئی۔ پھر بعض لوگ کہنے لگے کہ : ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ شہید ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- [١٤٠] ایمان کے مختلف درجے :۔ اس آیت میں تین بار ایمان اور تقویٰ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں کیونکہ ایمان اور تقویٰ کے مختلف درجات ہیں۔ ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو اس کا تقویٰ کم تر درجہ کا ہوتا ہے پھر جب صالح اعمال کرتا ہے تو اس کا ایمان بھی مضبوط ہوتا جاتا ہے اور تقویٰ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے بالفاظ دیگر ایمان اور تقویٰ معلوم کرنے کا معیار صالح اعمال کی کمی بیشی ہوتا ہے اور صالح اعمال کی بجا آوری سے ایمان اور تقویٰ میں اضافہ ہوتا ہے گویا یہ دونوں ایک دوسرے کے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ایمان اور تقویٰ کا بلند تر درجہ احسان ہے احسان کا لفظی معنی کسی کام کو اپنے دل کی رضاء ورغبت اور نہایت اچھے طریقے سے بجا لانا ہے۔ اور جو بھی عمل صالح ان شرائط سے بجا لایا جائے گا احسان کے درجہ میں ہوگا۔ حدیث جبریل میں ہے کہ آپ نے جبریل کے اس سوال کے جواب میں کہ احسان کیا ہے ؟ فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سوال جبریل النبی۔۔ ) اور عبادت کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ جس کا اطلاق ہر عمل صالح پر ہوسکتا ہے۔
لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ ۔۔ : یعنی اس کی حرمت سے پہلے ایمان اور عمل صالح والے جو لوگ شراب پیتے رہے اور جوا کھیلتے رہے، ان پر اس سے کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ یہ آیت اس وقت اتری جب شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ یہ کہنے لگے کہ ہمارے ان بھائیوں کا کیا حال ہوگا جو شراب پیتے اور جوا کھیلتے تھے اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کیا بدلہ ملے گا جو جنگ احد میں شہید ہوگئے، حالانکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی۔ (کبیر، ابن کثیر) - اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا۔۔ : یہاں تقویٰ کا حکم تین دفعہ دینے سے مراد یا تو تاکید ہے یا پہلے ” اتقوا “ سے مراد شرک سے بچے، دوسرے تقویٰ سے مراد شراب سے بچے اور تیسرے تقویٰ سے مراد سب بری باتوں سے بچے یا تقویٰ پر قائم رہے۔ - بعض نے لکھا ہے کہ پہلے ” آمنوا “ سے مراد شرک سے بچے، دوسرے سے مراد گناہوں سے بچے اور تیسرے سے مراد صغیرہ گناہوں سے بچے۔ اسی طرح ” اٰمَنُوْا “ میں پہلے ایمان سے مراد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہے اور دوسرے سے مراد ایمان پر ثابت رہنا ہے۔ تیسری مرتبہ ’ آمنوا “ کے بجائے ” احسنوا “ فرمایا یعنی لوگوں کے ساتھ احسان کریں اور عبادت میں احسان حاصل کریں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
ربط آیات - لباب میں مسند احمد سے بروایت ابی ہریرہ (رض) منقول ہے کہ جب اوپر کی آیت میں تحریم خمرو میسر نازل ہوچکی تو بعض لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت سے آدمی جو کہ شراب پیتے تھے اور قمار کا مال کھاتے تھے تحریم سے پہلے مر گئے، اور اب معلوم ہوا کہ وہ حرام ہے ان کا کیا حال ہوگا، اس پر آیت ليْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الخ نازل ہوئی۔- اور پیچھے (آیت) یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت میں تحریم طیبات کی ممانعت کا ذکر تھا، اب آیت يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَيْء الخ سے بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ خاص حالات میں خاص خاص چیزوں کو حرام قرار دیدیں (بیان القرآن) ۔- خلاصہ تفسیر - ایسے لوگوں پر جو ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں (اور اس وقت وہ حلال ہوگی بعد میں حرام ہوجاوے اور ان کو گناہ کیسے ہوتا) جبکہ (گناہ کا کوئی امر مقتضی نہ ہو بلکہ ایک امر مانع موجود ہو وہ یہ کہ) وہ لوگ (خدا کے خوف سے اس وقت کی ناجائز چیزوں سے) پرہیز رکھتے ہوں اور (دلیل اس خوف کی یہ ہو کہ وہ لوگ) ایمان رکھتے ہوں (جو کہ خدا سے ڈرنے کا سبب ہے) اور نیک کام کرتے ہوں (جو کہ خوف خدا کی علامت ہے، اور اسی حالت پر وہ عمر بھر رہیں، چناچہ اگر وہ حلال چیز جس کو پہلے کھاتے پیتے تھے آگے کبھی چل کر حرام ہوجائے تو) پھر (اسے سے بھی اسی خوف خدا کے سبب) پرہیز کرنے لگتے ہوں اور (اس خوف کی بھی دلیل مثل سابق یہی ہو کہ وہ لوگ) ایمان رکھتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں ( جو کہ موقوف ہیں ایمان پر، پس یہاں بھی سبب اور علامت خوف خدا کے مجتمع ہیں، مطلب یہ کہ ہر بار کی مکرر سہ کرّر تحریم میں ان کا یہی عمل درآمد ہو کچھ دو تین بار کی خصوصیت نہیں، پس باوجود مانع اور استمرار مانع کے ہمارے فضل سے بعید ہے کہ وہ گناہ گار ہوں) اور (ان کی یہ خاص طریقہ مذکور کی نیکوکاری صرف لزوم گناہ سے مانع ہی نہیں بلکہ وجود ثواب و محبوبیت کو مقتضی بھی ہے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں سے محبت رکھتے ہیں (پس ان میں مبغوض ہونے کا احتمال تو کب ہوسکتا ہے، یہ تو غیر مبغوض ہونے سے گزر کر محبوب ہونے کا درجہ رکھتے ہیں) ۔- اے ایمان والو اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک (بوجہ تم سے دور دور نہ بھاگنے کے) تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے (مطلب امتحان کا یہ کہ حالت احرام میں وحوش کے شکار کرنے کو تم پر حرام کر کے جیسا آگے تصریحاً آتا ہے ان وحوش کو تمہارے آس پاس پھراتے رہیں گے) تاکہ اللہ تعالیٰ (ظاہر طور پر بھی) معلوم کرے کہ کون شخص اس (حرمت) کے بعد (جس پر ابتلاء بھی دلالت کر رہا ہے) حدّ (شرعی) سے نکلے گا (یعنی شکار ممنوع کا مرتکب ہوگا) اس کے واسطے دردناک سزا (مقرر) ہے (چنانچہ شکاری جانور اسی طرح آس پاس لگے پھرتے تھے، چونکہ صحابہ میں بہت سے شکار کے عادی تھے اس میں ان کی اطاعت کا امتحان ہو رہا تھا، جس میں وہ پورے اترے، آگے ممانعت کی زیادہ تصریح ہے کہ) اے ایمان والو وحشی شکار کو (باستثناء ان کے کہ جن کو شرع نے مستثنیٰ کردیا) قتل مت کرو، جبکہ تم حالت احرام میں ہو (اسی طرح جبکہ وہ شکار حرم میں ہو گو شکاری احرام میں نہ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے) اور جو شخص تم میں اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر (اس کے فعل کی) پاداش واجب ہوگی جو کہ (باعتبار قیمت کے) مساوی ہوگی اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس (کے تخمینہ) کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں (کہ دینداری میں بھی قابل اعتبار ہوں، اور تجربہ و بصیرت میں بھی، پھر اس قاتل کو تخمینہ قیمت کے بعد اختیار ہے) خواہ (اس قیمت کا کوئی ایسا جانور خرید لے کہ) وہ پاداش (کا جانور) خاص چوپاؤں میں سے ہو (یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، نر ہو یا مادہ) بشرطیکہ نیاز کے طور پر کعبہ (کے پاس) تک (یعنی حرم کے اندر) پہنچائی جائے اور خواہ (اس قیمت کے برابر غلّہ بطور) کفارہ (کے) مساکین کو دے دیا جائے (یعنی ایک مسکین کو بقدر ایک صدقة الفطر کے دیا جائے) اور خواہ اس (غلہ) کے برابر روزے رکھ لئے جائیں (برابری کی صورت یہ ہے کہ ہر مسکین کے حصہ یعنی فطرہ کے بدلے ایک روزہ اور یہ پاداش اس لئے مقرر کی ہے) تاکہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے (بخلاف اس شخص کے جس نے قصداً شکار نہ کیا ہو کہ گو اس پر بھی جزاء تو یہی واجب ہے مگر وہ فعل کی سزا نہیں، بلکہ محل محترم یعنی شکار حرم جو کہ حرم کی وجہ سے محترم یا احرام کی وجہ سے کالمحترم ہوگیا ہے اس کا ضمان اور جزاء ہے اور اس جزاء کے ادا کردینے سے) اللہ تعالیٰ نے گذشتہ کو معاف فرما دیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا (چونکہ اکثر عود میں ایک گونہ پہلی بار سے زیادہ جرأت ہوتی ہے) تو (اس وجہ سے علاوہ جزاء مذکور کے جو کہ اصل فعل یا محل کا عوض ہے آخرت میں) اللہ تعالیٰ اس سے (اس جرأت کا) انتقام لیں گے (البتہ اگر توبہ کرلے تو انتقام کا سبب ختم ہوجاوے گا) اور اللہ تعالیٰ زبردست ہیں انتقام لے سکتے ہیں، تمہارے لئے (حالت احرام میں) دریا (یعنی پانی) کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا (سب) حلال کیا گیا ہے تمہارے انتقاع کے واسطے (اور تمھارے) مسافروں کے (انتقاع کے) واسطے (کہ سفر میں اسی کو توشہ بنادیں) اور خشکی کا شکار (گو بعض صورتوں میں کھانا حلال ہے مگر) پکڑنا (یا اس میں معین ہونا) تمہارے لئے حرام کیا گیا ہے، جب تک تم حالت احرام میں رہو اور اللہ تعالیٰ (کی مخالفت) سے ڈرو، جس کے پاس جمع (کرکے حاضر) کئے جاؤ گے۔- معارف و مسائل - محققین نے لکھا ہے کہ تقویٰ (یعنی مضار دینی سے مجتنب ہونے کے) کئی درجے ہیں۔ اور ایمان و یقین کے مراتب بھی بلحاظ قوت و ضعف متفاوت ہیں تجربہ اور نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ جس قدر آدمی ذکر و فکر، عمل صالح اور جہاد فی سبیل اللہ میں ترقی کرتا ہے اسی قدر خدا کے خوف اور اس کی عظمت و جلال کے تصور سے قلب معمور اور ایمان و یقین مضبوط و مستحکم ہوتا رہتا ہے۔ مراتب سیر الی اللہ کی اسی ترقی و عروج کی طرف اس آیت میں تقویٰ اور ایمان کی تکرار سے اشارہ فرمایا اور سلوک کے آخری مقام ” احسان “ اور اس کے ثمرہ پر بھی تنبیہ فرمادی۔ (تفسیر عثمانی)- مسئلہ : صید جو کہ حرم اور احرام ہے عام ہے، خواہ ماکول یعنی حلال جانور ہو یا غیر ماکول (یعنی حرام) (الاطلاق الآیة)- مسئلہ : صید یعنی شکار، ان جانوروں کو کہا جاتا ہے جو وحشی ہوں، عادةً انسانوں کے پاس نہ رہتے ہوں، پس جو خلقةً اہلی ہوں جیسے بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ، ان کا ذبح کرنا اور کھانا درست ہے۔- مسئلہ : البتہ جو دلیل سے مستثنیٰ ہوگئے ہیں اور ان کو پکڑنا، قتل کرنا حلال ہے، جیسے دریائی جانور کا شکار، لقولہ تعالیٰ اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ، اور بعضے خشکی کے جانور، جیسے کوا اور چیل اور بھیڑیا اور سانپ اور بچھو اور کاٹنے والا کتا، اسی طرح جو درندہ خود حملہ کرے اس کا قتل بھی جائز ہے، حدیث میں ان کا استثناء مذکور ہے، اس سے معلوم ہوا کہ الصید میں الف لام عہد کا ہے۔- مسئلہ : جو حلال شکار غیر احرام اور غیر حرم میں کیا جائے اس کا کھانا محرم کو جائز ہے، جب یہ اس کے قتل وغیرہ میں معین یا مشیر یا بتلانے والا نہ ہو، حدیث میں ایسا ہی ارشاد ہے، اور آیت کے الفاظ لَا تَقْتُلُوا میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ یہاں لَا تَقْتُلُوا فرمایا ہے لا تاکلوا نہیں فرمایا۔- مسئلہ : شکار حرم کو جس طرح قصداً قتل کرنے پر جزاء واجب ہے، اسی طرح خطاء و نسیان میں بھی واجب ہے۔ (اخرجہ الروح)- مسئلہ : جیسا پہلی بار میں جزاء واجب ہے اسی طرح دوسری تیسری بار قتل کرنے میں بھی واجب ہے۔- مسئلہ : حاصل جزاء کا یہ ہے کہ جس زمان اور جس مکان میں یہ جانور قتل ہوا ہے بہتر تو یہ ہے کہ دو عادل شخص سے اور جائز یہ بھی ہے کہ ایک ہی عادل شخص سے اس جانور کی قیمت کا تخمینہ کرائے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ وہ مقتول جانور اگر غیر ماکول ہے تب تو یہ قیمت ایک بکری کی قیمت سے زیادہ واجب نہ ہوگی، اور اگر وہ جانور ماکول تھا تو جس قدر تخمینہ ہوگا وہ سب واجب ہوگا۔ اور دونوں حال میں آگے اس کو تین صورتوں میں اختیار ہے، خواہ تو اس قیمت کا کوئی جانور حسب شرائط قربانی کے خریدلے، اور حدود جرم کے اندر ذبح کر کے فقراء کو بانٹ دے، اور یا اس قیمت کے برابر غلّہ حسب شرائط صدقہ فطر کے فی مسکین نصف صاع فقراء کو دیدے، اور یا بحساب فی مسکین نصف صاع جتنے مساکین کو وہ غلّہ پہنچ سکتا ہو اتنے شمار سے روزے رکھ لے اور تقسیم غلّہ اور روزوں میں حرم کی قید نہیں، اور اگر قیمت نصف صاع سے بھی کم واجب ہوئی ہے تو اختیار ہے خواہ ایک مسکین کو دیدے، یا ایک روزہ رکھ لے اسی طرح اگر فی مسکین نصف صاع دے کر نصف صاع سے کم بچ گیا تو بھی یہی اختیار ہے کہ خواہ وہ بقیہ ایک مسکین کو دیدے یا ایک روزہ رکھ لے، نصف صاع کا وزن ہمارے وزن کے اعتبار سے پونے دو سیر ہوتا ہے۔- مسئلہ : تخمینہ مذکور میں جتنے مساکین کا حصہ قرار پاوے اگر ان کو دو وقت کھانا شکم سیر کرکے کھلاوے تب بھی جائز ہے - مسئلہ : اگر اس قیمت کے برابر ذبح کے لئے جانور تجویز کیا، مگر کچھ قیمت بچ گئی تو اس بقیہ میں اختیار ہے خواہ دوسرا جانور خریدلے یا اس کا غلّہ دیدے، یا غلّہ کے حساب سے روزے رکھ لے، جس طرح قتل میں جزاء واجب ہے اسی طرح ایسے جانور کو زخمی کرنے میں بھی تخمینہ کرایا جائے گا کہ اس سے جانور کی کس قدر قیمت کم ہوگئی اس مقدار قیمت میں پھر وہی تین مذکورہ صورتیں جائز ہوں گی۔- مسئلہ : محرم کو جس جانور کا شکار کرنا حرام ہے اس کا ذبح کرنا بھی حرام ہے، اگر اس کو ذبح کرے گا تو اس کا حکم مردار کا سا ہوگا (وفی لاتقتلوا اشارة الیٰ ان ذبحہ کالقتل) ۔- مسئلہ : اگر جانور کے قتل ہونے کی جگہ جنگل ہے تو جو آبادی اس سے قریب ہو وہاں کے اعتبار سے تخمینہ کیا جائے گا۔- مسئلہ : اشارہ دلالت و اعانت شکار میں مثل شکار کرنے کے حرام ہے۔
لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ٠ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ٩٣ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
قول باری ہے (لیس علی الذین امنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی) حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت براء بن عازب، حضرت انس بن مالک، حسن مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ کچھ صحابہ کرام ایسے تھے جو شراب کا استعمال کرتے تھے لیکن حرمت کے نزول سے پہلے وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔- جب صحابہ کرام نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا کہ ان کا کیا بنے گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ عطاء بن السائب سے روایت ہے۔ انہوں نے عبدالرحمٰن السلمی سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں شام کے کچھ لوگوں نے شراب نوشی کی اور اپنے اس فع ل کے جواز کے لئے اس آیت سے استدلال کیا۔- حضرت عمر اور حضرت علی اس رائے پر متفق ہوگئے کہ ان لوگوں سے توبہ کرائی جائے۔ اگر یہ لوگ توبہ کرنے سے انکار کردیں تو ان کی گردن اڑا دی جائے۔ زہری نے روایت کی ہے کہ انہیں عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بتایا کہ نبو عبدالقیس کے سردار جارود اور حضرت ابوہریرہ دونوں نے قدامہ بن مظعون کے خلاف شراب پینے کی گواہی دی۔ حضرت عمر نے جب انہیں کوڑے مارنے کا فیصلہ سنایا تو وہ کہنے لگے کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لیس علی الذین امنوا و عملوا الصالحات جناح) تا آخر آیت - یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا :” قدامہ تم نے آیت کی غلط تاویل کی ہے۔ اگر تم پرہیز گاری اختیار کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرتے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قدامہ پر نافذ ہونے والا حکم شام میں شراب پینے والوں پر نافذ ہونے والے حکم کی طرح نہیں تھا۔ ان دونوں حکموں میں یکسانیت نہیں تھی۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کے شرابیوں نے شراب کو حلال سمجھ کر پیا تھا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کو حلال سمجھے وہ کافر وہتا ہے اسی لئے ان شربایوں سے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ قدامہ بن مظعون نے شراب حلال سمجھ کر نہیں پی تھی۔ انہوں نے آیت سے یہ مفہوم اخذ کیا تھا کہ ان کی موجودہ حالت نیز آیت میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ صفت کی ان کی ذات میں موجودگی ان کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔- پوری آیت یہ ہے (لیس علی الذین امنوا و عملوا الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا و امنوا و عملوا الصالحات ثم اتقوا و امنوا ثم اتقوا و احسنوا واللہ یحب المحسنین ۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہوا سے مانیں پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ - حضرت قدامہ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ آیت میں بیان کردہ صفات کے حام ل ہیں نیز شراب کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اگر وہ شراب پی بھی لیں تو وہ سزا کے مستحق قرار نہیں پاسکتے اور ان کا احسان یعنی نیک رویہ ان کی اس برائی کا کفارہ بن جائے گا۔- آیت میں اتقا یعنی بچنے اور پرہیز کرنے کا تین مرتبہ ذکر ہوا ہے لیکن ہر ایک سے الگ الگ مفہوم مراد ہے، پہلے کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ ماضی میں بچتے رہے، دوسرے سے آنے والے زمانے میں بچنا مراد ہے۔ تیسرے سے بندوں پر ظلم کرنے سے بچنا اور ان کیساتھ نیکی کرنا مراد ہے۔
(٩٣) مہاجرین وانصار میں سے کچھ حضرات نے رسول اکرم (رض) سے عرض کیا کہ ہم میں سے کچھ حضرات شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے انتقال کرگئے اور انہوں نے شراب پی ہے تو ان کا کیا ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان مومنین پر جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم بجا آوری کی، شراب کی حرمت سے قبل شراب پینے میں خواہ وہ زندہ وہوں یا انتقال فرما چکے ہوں کوئی گناہ نہیں، جب کہ وہ کفر وشرک اور فواحش سے بچتے اور ایمان اور حقوق اللہ کے پابند تھے اور پھر جو زندہ حضرات موجود ہیں، وہ شراب کی حرمت کے بعد اس سے بچتے ہوں اور انہوں نے اس کا پینا بالکل چھوڑ دیا ہو تو اللہ تعالیٰ اطاعت شعار لوگوں کو پسند فرماتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” لیس علی الذین امنوا وعملوالصلحت جناح “۔ (الخ)- امام نسائی (رح) اور بیہقی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ شراب کی حرمت دو انصاری قبیلوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- انھوں نے شراب پی، نشہ چڑھنے پر بعض نے کچھ حرکات وغیرہ کیں، جب نشہ اتر گیا، تو ہر ایک نے اپنے چہرے سر اور داڑھی میں دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ میرے ساتھ میرے فلاں بھائی نے یہ کیا ہے، حالانکہ کہ وہ سب بھائی تھے، ان کے دلوں میں کسی قسم کا کوئی کینہ اور دشمنی نہیں تھی، چناچہ اس نے کہا کہ اگر وہ میرا اوپر مہربان ہوتا تو ایسی بدتمیزی نہ کرتا، غرض کہ اس بنا پر ان کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو اس کے بعد کچھ حضرات بولے کہ یہ تو گندگی ہے اور فلاں کے پیٹ میں داخل ہوچکی ہے، اور وہ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں، اب کیا ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ” لیس علی الذین امنووعملوالصلحت جناح (الخ)
آیت ٩٣ ( لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا) - کسی شے کی حرمت کے قطعی حکم آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا گیا ‘ اس کا کوئی گناہ ان پر نہیں رہے گا۔ یہ کوئی ہڈیوں میں بیٹھ جانے والی شے نہیں ہے ‘ یہ تو شرعی اور اخلاقی قانون ( ) کا معاملہ ہے ‘ طبعی قانون ( ) کا نہیں ہے۔ طبعی ( ) طور پر تو کچھ چیزوں کے اثرات واقعی دائمی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ گناہ تو احد پہاڑ کے برابر بھی ہوں تو سچی توبہ سے بالکل صاف ہوجاتے ہیں۔ ازروئے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (اَلتَّاءِبُ مِنَ ا لذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ ) (١) گناہ سے حقیقی توبہ کرنے والا بالکل ایسے ہے جیسے اس نے کبھی وہ گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ صدق دل سے توبہ کی جائے تو نامۂ اعمال بالکل دھل جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی کسی تشویش کو بالکل اپنے قریب مت آنے دو ۔- ( اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) - یہ دراصل تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’ اسلام ‘ ہے۔ یعنی اللہ کو مان لیا ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مان لیا اور اس کے احکام پر چل پڑے۔ اس سے اوپر کا درجہ ’ ایمان ‘ ہے ‘ یعنی دل کا کامل یقین ‘ جو ایمان کے دل میں اتر جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ) ( الحجرات : ٧) کے مصداق ایمان قلب میں اتر جائے گا تو اعمال کی کیفیت بدل جائے گی ‘ اعمال میں ایک نئی شان پیدا ہوجائے گی ‘ زندگی کے اندر ایک نیا رنگ آجائے گا جو کہ خالص اللہ کا رنگ ہوگا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًر) (البقرۃ : ١٣٨) ۔ اور اس سے بھی آگے جب ایمان عین الیقین کا درجہ حاصل کرلے تو یہی درجۂ احسان ہے۔ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کی کیفیت یہ بیان ہوئی ہے : (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) (٢) یہ کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو پھر (یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ) وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ یعنی تم اللہ کی بندگی کرو ‘ اللہ کے لیے جہاد کرو ‘ اس کی راہ میں بھاگ دوڑ کرو ‘ اور اس میں تقویٰ کی کیفیت ایسی ہوجائے کہ جیسے تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ - احسان کی یہ تعریف حدیث جبرائیل میں موجود ہے۔ اس حدیث کو اُمّ السُّنَّۃ کہا گیا ہے ‘ جیسے سورة الفاتحہ کو اُمّ القرآن کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح سورة الفاتحہ اساس القرآن ہے ‘ اسی طرح حدیث جبرائیل ( علیہ السلام) سنت کی اساس ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) انسانی شکل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ صحابہ (رض) کا مجمع تھا ‘ وہاں انہوں نے کچھ سوالات کیے۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے پہلا سوال اسلام کے بارے میں کیا : یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ اس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ اد اکرو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تمہیں اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو۔ یعنی اسلام کے ضمن میں اعمال کا ذکر آگیا۔ پھر جبرائیل ( علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر ‘ اس کی کتابوں پر ‘ اس کے رسولوں پر ‘ یوم آخرت پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر۔ اب یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ایمان تو اسلام میں بھی موجود ہے ‘ یعنی زبانی اور قانونی ایمان ‘ لیکن دوسرے درجے میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کیا گیا ہے اور اعمال صالحہ کا تعلق ایمان کے بجائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں اتر کر یقین کی صورت اختیار کر جائے تو پھر اعمال کا ذکر الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایمان کے اس مرحلے پر اعمال لازماً درست ہوجائیں گے۔ پھر ایمان جب دل میں مزید گہرا اور پختہ ہوتا ہے تو اعمال بھی مزید درست ہوں گے۔ یوں سمجھئے کہ جتنا جتنا درخت اوپر جا رہا ہے اسی نسبت سے جڑ نیچے گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ایمان کی جڑ نے دل کی زمین میں قرار پکڑا تو اسلام سے ایمان بن گیا۔ جب یہ جڑ مزید گہری ہوئی تو تیسری منزل یعنی احسان تک رسائی ہوگئی اور یہاں اعمال میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ چناچہ جب حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب تین روایتوں میں تین مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے : (١) اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ۔۔ (٢) اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ ۔۔ (١) (٣) اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہُ (٢) ۔ اگلے الفاظ : (فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) تینوں روایتوں میں یکساں ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مؤمن اللہ کی بندگی ‘ اللہ کی پرستش ‘ اللہ کے لیے بھاگ دوڑ ‘ اللہ کے لیے عمل ‘ اللہ کے لیے جہاد ایسی کیفیت سے سرشار ہو کر کر رہا ہوگویاوہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو جب اللہ سامنے ہوگا ‘ تو پھر کیسے کچھ ہمارے جذبات عبدیت ہوں گے ‘ کیسی کیسی ہماری قلبی کیفیات ہوں گی۔ اس دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے ‘ لیکن یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو احسان کا ایک اس سے نچلا درجہ بھی ہے۔ یعنی کم از کم یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ہیں وہ تین درجے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ - تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں مولانا مودودی مرحوم کی ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے اسلام ‘ ایمان ‘ احسان اور تقویٰ چار مراتب بیان کیے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک تقویٰ علیحدہ سے کوئی مرتبہ ومقام نہیں ہے۔ تقویٰ وہ روح ( ) اور وہ قوت محرکہ ( ) ہے جو انسان کو نیکی کی طرف دھکیلتی اور ابھارتی ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر میں تقویٰ کی تکرار کا مفہوم یوں ہے کہ تقویٰ نے آپ کو سے اوپر اٹھایا اور اب آپ کے ایمان اور عمل صالح میں اور رنگ پیدا ہوگیا (اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) ۔ پھر تقویٰ میں مزید اضافہ ہوا اور تقویٰ نے آپ کو مزید اوپر اٹھایا تو اب وہ یقین والا ایمان پیدا ہوگیا (ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا) ۔ اب یہاں عمل صالح کے علیحدہ ذکر کی ضرورت ہی نہیں۔ جب دل میں ایمان اتر گیا تو اعمال خود بخود درست ہوگئے۔ پھر تقویٰ اگر مزید روبہ ترقی ہے (ثُمَّ اتَّقَوْا) تو اس کے نتیجے میں (وَاَحْسَنُوْا) کا درجہ آجائے گا ‘ یعنی انسان درجۂ احسان پر فائز ہوجائے گا۔ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔ آمین )- ایمان اور تقویٰ سے اعمال کی درستی کے ضمن میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہیے :- (اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً ‘ اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُُ کُلُّہٗ ‘ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُکُلُّہٗ ‘ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ) (١)- آگاہ رہو ‘ یقیناً جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے ‘ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ‘ درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔- (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) اور اللہ ایسے محسن بندوں کو محبوب رکھتا ہے۔- اللہ کے جو بندے درجۂ احسان تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔- اس سورة مبارکہ (آیت ٧١) میں پہلے ایک غلط راستے کی نشاندہی کی گئی تھی : (فَعَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ ) یہ گمراہی و ضلالت کے مختلف مراحل کا ذکر ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے پھر ڈھیل دی تو اس پر وہ اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے مزید ڈھیل دی تو وہ اور زیادہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اس راستے پر انسان قدم بہ قدم گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ مگر ایک راستہ یہ ہے ‘ ہدایت کا راستہ ‘ اسلام ‘ ایمان ‘ احسان ‘ اور تقویٰ کا راستہ۔ یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ترقی ملتی چلی جاتی ہے۔
63: جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو بعض صحابہ کرام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جو شراب حرمت کا حکم آنے سے پہلے پی گئی ہے کہیں وہ ہمارے لئے گناہ کا سبب نہ بنے، اس آیت نے یہ غلط فہمی دور کردی اور یہ بتادیا کہ چونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے شراب پینے سے صاف الفاظ میں منع نہیں کیا تھا، اس لئے اس وقت جنہوں نے شراب پی تھی اس پر ان کی کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ 64: احسان کے لغوی معنی ہیں اچھائی کرنا۔ اس طرح یہ لفظ ہر نیکی کو شامل ہے، لیکن ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ انسان اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے وہ اس کو دیکھ رہا ہے، یا کم از کم اس تصور کے ساتھ کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہونے کا دھیان رکھے۔