احرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات حضرت ابن عباس فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا ۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہو سکتا ہو خواہ سختی سے ۔ چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آ پڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہو گئی تاکہ پوری آزمائش ہو جائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کر سکتے ہیں ۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہو جائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہو جائیں ، چنانچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا ، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو ۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے ، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے ، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کر دیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی ، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کر دیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں ۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابو لہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے ، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا ۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا ۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا ۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کر سکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا ۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں ۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا ۔ بعض احادیث میں غریب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے ۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے ۔ امام ملک فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے ۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے ۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں ۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے ۔ مجاہد بن جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی ۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہو گیا ۔ یہ قول بھی غریب ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری فرماتے ہیں قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا ۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی ۔ کیونکہ اس کے بعد آیت ( لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِهٖ ) 5 ۔ المائدہ:95 ) فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لئے بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو ۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہو جائے وہ قابل ملامت نہیں ۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں فجزاوہ ہے ان دونوں قرأت وں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہو گا ۔ امام ابو حنیفہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری ۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے ( بیہقی ) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کر دیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے ۔ فقہا نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کر دیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کر دیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا ۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کرلیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے ۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے ۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے ۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گر گیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہو گیا ۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے ۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا ۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہو جائے ۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں ۔ حضرت عمر کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہو گیا اچانک آپ کوڑہ لئے ہوئے آ گئے ۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تونے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے ۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا ۔ آپ نرم پڑ گئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے ۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کر دیتی ہے ۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کر لیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں ۔ حضرت طارق فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مر گیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کر لیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب ہے ۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو ۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے ، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام ابو حنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں ، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابو حنیفہ ان کے ساتھی ، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے ، امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے ، امام احمد فرماتے ہیں گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد ، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہو جائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے ، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے ، شارع علیہ السلام نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کر دیں یا تین دن کے روزے رکھیں ، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے ، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے ، عطاء کا قول بھی یہی ہے ، مجاہد فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے ، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں ، امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے ۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں ، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے ، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہو گا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہو گا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکے میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے ، اگر شتر مرغ یا گور خر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں ۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے ، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے ، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے ، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے ۔ سدی فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے ، امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے ، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے ، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا ۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہو گا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہو جائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے ، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہو گا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہو گا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آ گئی اور اسے جلا کر بھسم کر دیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت ( فینتقم اللہ منہ ) کے ۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آ جائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے ، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے ، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے ۔
94۔ 1 شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کر کے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں 4 آیات کا نزول ہوا جن کے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔ 94۔ 2 قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے تھے دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔
[١٤١] یعنی محرم شکار کے لیے نہ کسی دوسرے کو کہہ سکتا ہے نہ شکار کی طرف یا شکار کرنے کے لیے کسی کو اشارہ کرسکتا ہے اور نہ ہی شکار میں کسی طرح کی مدد کرسکتا ہے۔ البتہ اگر کسی غیر محرم نے شکار کیا ہو تو اس میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- خ محرم پر شکار کی پابندی :۔ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ ہم جب حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ کے تمام صحابہثنے احرام باندھا صرف میں نے نہیں باندھا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں اپنی جوتی سینے میں مشغول تھا لیکن انہوں نے مجھے نہ بتایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اسے دیکھ لوں۔ اچانک میں نے نظر اٹھائی تو گدھے کو دیکھا۔ میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوگیا اور (جلدی سے) کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا کر دے دو ۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم اس کام میں تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے۔ مجھے غصہ آگیا۔ خیر میں نے اتر کر کوڑا اور نیزہ پکڑا اور پھر سوار ہوگیا۔ پھر میں اس گدھے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ چبھو کر اسے روک دیا۔ میں نے پھر ان سے مدد طلب کی۔ انہوں نے پھر میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ الغرض ہم سب نے اس میں سے کھایا۔ پھر میں رسول اکرم سے جا ملا۔ میں نے کہا کہ ہم نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا ہے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا تھا یا حملہ کرنے کو کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا یا کسی قسم کی مدد کی تھی ؟ صحابہ نے کہا نہیں پھر آپ نے صحابہ سے جو کہ احرام باندھے ہوئے تھے کہا تم بھی اسے کھا سکتے ہو۔ پھر پوچھا کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے ؟ میں نے دستی پیش کی جسے آپ نے کاٹ کر کھایا۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب تحریم الصید للمحرم) بخاری۔ ابو اب العمرۃ۔ باب اذا رای المحرمون صیداً فضحکوا۔۔ الخ)- واضح رہے کہ جس طرح احرام باندھے ہوئے کو شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں داخل ہونے والے پر بھی حرام ہے کیونکہ انتم حرم کا لفظ ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔- اور یہ آزمائش اس لحاظ سے تھی کہ حدیبیہ کے سفر میں راستہ میں شکار کی بڑی افراط تھی اور مسلمانوں کی خوراک کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی حتیٰ کہ بعض جانور اور پرندے صحابہ کے خیموں اور ڈیروں میں گھس آتے تھے۔ تاہم مسلمان اس آزمائش میں پورے اترے جبکہ بنی اسرائیل کے سمندر کے کنارے بسنے والے ماہی گیر ایسے ہی امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے اور مکر و فریب سے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی جس کی پاداش میں وہ بندر بنا دیئے گئے تھے۔
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ ۔۔ : اس سے پہلے آیت : ( لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ ) [ المائدۃ : ٨٧ ] میں حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے سے منع کیا تھا، اب اس آیت میں وہ حلال چیزیں ذکر کی ہیں جو کچھ وقت کے لیے بطور امتحان حرام فرمائی ہیں، یعنی احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا منع کردیا، تاکہ فرماں برداروں اور نافرمانوں کی آزمائش ہوجائے کہ بن دیکھے اللہ سے کون ڈرتا ہے۔ - تَـنَالُهٗٓ اَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ : یعنی چھوٹے جانور یا جانوروں کے بچے جنھیں تم ہاتھ سے پکڑ سکتے ہو، یا بڑے جانور جن کا تم نیزوں سے شکار کرسکتے ہو۔ - فَمَنِ اعْتَدٰي بَعْدَ ذٰلِكَ ۔۔ : یعنی اب جبکہ احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار منع کردیا گیا ہے۔ (قرطبی) - یہ اور اگلی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان حدیبیہ میں احرام باندھے ہوئے تھے اور خلاف معمول چھوٹے بڑے جنگلی جانور ان کے خیموں میں گھس آئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کے شکار سے منع فرما دیا۔ (ابن کثیر)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللہُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَـنَالُہٗٓ اَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّخَافُہٗ بِالْغَيْبِ ٠ۚ فَمَنِ اعْتَدٰي بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٩٤- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- صيد - الصَّيْدُ : مصدرُ صَادَ ، وهو تناول ما يظفر بهممّا کان ممتنعا، وفي الشّرع : تناول الحیوانات الممتنعة ما لم يكن مملوکا، والمتناول منه ما کان حلالا، وقد يسمّى المَصِيدُ صَيْداً بقوله : أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] ، أي : اصْطِيَادُ ما في البحر، وأما قوله : لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] ، وقوله : وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] ، وقوله : غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] ، فإنّ الصَّيْدَ في هذه المواضع مختصّ بما يؤكل لحمه فيما قال بدلالة ما روي : «خمسة يقتلهنّ المحرم في الحلّ والحرم : الحيّة والعقرب والفأرة والذّئب والکلب العقور» - ( ص ی د ) الصید ( ض ) یہ صاد کا مصدر اور اس کے اصل معنی تو کسیمحفوظ چیز پر قدرت حاصل کر کے اسے پکڑا لینے کے ہیں مگر شرعا ان حیوانات کے پکڑنے پر بولا جاتا ہے جو اپنی حفاطت آپ کریں بشرطیکہ وہ جانور حلال ہوں اور کسی کی ملکیت نہ ہوں اور کبھی مصید یعنی شکار کئے ہوئے جانور کو بھی صید کہہ دیتے ہیں چناچہ آیت : ۔ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] کے معنی ہیں کہ ( احرام کی حالت میں ) تمہارے لئے سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا ۔ وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] اور جب احرام اتاردو ۔ تو ( پھر اختیار ہے کہ ) شکار کرو ۔ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] مگر احرام ( حج ) میں شکار کو حلال نہ جاننا ہیں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ یہاں الصید سے وہ جانور مراد ہیں جنکا گوشت کھایا جاتا ہے کیونکہ حدیث میں خمسۃ یقتلھن المحرام فی الحل والحرام الحیۃ والعقرب والفارۃ والذئب والکلب والعقور) پانچ جانور یعنی سانپ ، بچھو، چوہیا، بھٹیریا اور کاٹ کھانیوالے کتے یعنی درند ہ جانور کو محرم حرم کی حدود کے اندر اور باہر ہر جگہ قتل کرسکتا ہے ۔- نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - رمح - قال تعالی: تَنالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِماحُكُمْ [ المائدة 94] ، وقد رَمَحَهُ أصابه به، ورَمَحَتْهُ الدّابة تشبيها بذلک، والسّماک الرَّامِحُ سمّي به لتصوّر كوكب يقدمه بصورة رُمْحٍ له . وقیل : أخذت الإبل رِمَاحَهَا : إذا امتنعت عن نحرها بحسنها، وأخذت البهمى رُمْحَهَا : إذا امتنعت بشوکها عن راعيها .- ( ر م ح ) الرمح کے معنی نیزہ کے ہیں اس کی جمع رماح آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تَنالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِماحُكُمْ [ المائدة 94] جہانتک تمہارے ہاتھ اور نیزے سے مارنے پہنچ سکیں ۔ اور رمحہ کے معنی کسی کو نیزہ سے مارنے کے ہیں اور رمحتہ الدابۃ کے معنی جانور کے دولتی جھاڑنے کے ہیں السماک الرامح ایک ستارے کا نام ہے کیونکہ اس کے پیش پیش ایک دم دار ستارہ ہوتا ہے جو دیکھنے میں نیزے جیسا معلوم ہوتا ہے مثل مشہور ہے اخذت الابل رماحھا اونٹوں نے اپنے نیزے سنبھال لئے یعنی شیر دار یا موٹا ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ذبح سے بچا لیا ۔ اخذت البھمیٰ رمحھا : گھاس خار دار ہوگئی کیونکہ وہ بھی خادر ہونے کی وجہ سے چرواہوں سے محفوظ ہوجاتی ہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
احرام والے انسان کے لئے شکار کا حکم - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورما حکم۔ اے ایمان والو اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعے سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا۔ )- ایک قول ہے کہ اس جگہ حرف ” من “ تبعیض کے لئے ہے بایں طور کہ شکار سے مراد خشکی کا شکار ہو سمندر کا شکار نہ ہو، احرام کی حالت کا شکار ہو۔ احلال، یعی احرام نہ ہونے کی حالت کا شکار نہ ہو۔- ایک قول ہے کہ من تمیز کے طور پر واقع ہے جس طرح یہ قول باری ہے (فاجتنبوا الرجس من الاوثان نجاست یعنی بتوں سے بچو) یا جس طرح کوئی کہے ” باب من حدید یا ” ثوب من قطن “ (دروازہ یعنی لوہے کا یا کپڑا یعنی سوتی) یہ بھی جائز ہے کہ اس سے شکار کے اجزا مراد لئے جائیں اگرچہ یہ شکار کے تحت نہ آتے ہوں مثلاً انڈے، چوزے وغیرہ اس لئے کہ انڈے شکار کا جز ہوتے ہیں۔- اسی طرح چوزے اور پر نیز شکار کے دوسرے تمام اجزا بھی شکار کا جز ہوتے ہیں۔ اس صورت میں آیت ان تمام معانی کو شامل ہوگی اور بعض احوال میں بعض شکار کی حرمت ہوگی، وہ ہے احرام کی حالت میں خشکی کا شکار۔- آیت اس حکم کا بھی افادہ کرتی ہے کہ جو چیزیں شکار کا جز ہیں اور شکار سے ہی ان کی نمو ہوئی ہے وہ بھی حرام ہیں مثلاً انڈے، چوزے، گوبر وغیرہ ، قول باری (تنالہ ایدیکم) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اس سے مراد پرندوں کے چوزے اور چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد انڈے اور چوزے ہیں۔- حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک بدو پانچ انڈے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ” ہم حالت احرام میں ہیں۔ ہم یہ کھا نہیں سکتے آپ لے لیں۔ “ لیکن آپ نے انہیں قبول نہیں کیا۔- عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے، انہوں نے حضرت کعب بن عجرہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شتر مرغ کے انڈوں کے بارے میں جو ایک احرام والے شخص نے اٹھا لئے تھے ان کی قیمت ادا کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا ۔ حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابو موسیٰ سے شتر مرغ کے انڈوں کے متعلق جو محرم شخص اٹھا لے یہ مروی ہے کہ اس شخص پر ان انڈوں کی قیمت لازم ہوگی۔- اس بارے میں اہل علم کے درمیان ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ قول باری (ورما حکم) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد ڑے شکار ہیں۔
(٩٤) حدیبیہ کے سال احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔- یعنی حدیبیہ کے سال خشکی کے وحشی شکاروں کے بارے میں تمہارا امتحان لیں گے جب کہ ان کے انڈوں اور بچوں تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچے رہے ہوں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ظاہری طور پر بھی دیکھ لیں کے حالت احرام میں کون شکار سے باز رہتا ہے۔- سو جو اس کی حرمت اور اس کی جزاء کے بیان ہوجانے کے بعد بھی حدود شرعیہ سے نکلے گا تو اس کی پشت اور پیٹ پر سخت سزا قائم کی جائے گی۔
اس سورة مبارکہ کے شروع میں حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت آچکی ہے۔ اب اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے کہ اللہ اپنے ماننے والوں کو آزماتا ہے ‘ سخت ترین امتحان لیتا ہے۔ فرض کیجیے کہ حاجیوں کا ایک قافلہ جا رہا ہے ‘ سب نے احرام باندھا ہوا ہے ‘ اتفاق سے ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ اب ایک ہرن اٹھکیلیاں کرتے ہوئے قریب آ رہا ہے ‘ بھوک بھی ستا رہی ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو ذرا سا نیزہ ماریں اور شکار کرلیں یا ویسے ہی بھاگ کر پکڑ لیں ‘ لیکن پکڑ نہیں سکتے ‘ شکار نہیں کرسکتے ‘ کیونکہ احرام میں ہیں اور اس حالت میں اجازت نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح آزماتا ہے ۔- آیت ٩٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ ) (تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ ) ( لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بالْغَیْب ِج ) - شکار پہنچ میں بھی ہے ‘ ان کے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو شکار کرلیں ‘ لیکن مجبور ہیں ‘ کیونکہ احرام باندھا ہوا ہے۔ تو جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ اپنی بھوک کو برداشت کرے گا ‘ اللہ کے حکم کو نہیں توڑے گا۔
65: جیسا کے اگلی آیت میں آرہا ہے جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو اس کے لئے خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا حرام ہوجاتا ہے، عرب کے صحراؤں میں شکار کا مل جانا مسافروں کے لئے ایک نعمت تھی، اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ احرام باندھنے والوں کی آزمائش کے لئے اللہ تعالیٰ کچھ جانوروں کو ان کے اتنا قریب بھیج دے گا کہ وہ ان کے نیزوں کی زد میں ہوں گے، اس طرح ان کا امتحان لیاجائے گا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اس نعمت سے پرہیز کرتے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے ایمان کا اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا دل کسی ناجائز کام کے لئے مچل رہا ہو، اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس ناجائز کام سے باز آجائے۔