طعام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ پانی میں سے جو زندہ پکڑا جائے وہ صید یعنی شکار ہے اور جو مردہ ہو کر باہر نکل آئے وہ طعام یعنی کھانا ہے حضرت ابو بکر صدیق حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین ، حضرت عکرمہ ، حضرت ابو سلمہ ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت حسن بصری رحمم اللہ سے بھی یہی مروی ہے ، خلیفہ بلا فصل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پانی میں جتنے بھی جانور ہیں وہ سب طعام ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) آپ نے ایک خطبے میں اس آیت کے اگلے حصے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ جو چیز سمندر پھینک دے وہ طعام ہے ( ابن جریر ) ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے ایک روایت میں ہے کہ جو مردہ جانور پانی نکال دے ۔ سعید بن مسیب سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ جس زندہ آبی جانور کو پانی کنارے پر ڈال دے یا پانی اس سے ہٹ جائے یا وہ باہر مردہ ملے ( ابن ابی حاتم ) ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابو ہیرہ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ ہم انہیں کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں نہ کھاؤ ، جب واپس آئے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عالی عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورہ مائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا جاؤ کہدو کہ وہ اسے کھا لیں یہی بحری طعام ہے ، امام ابن جریر کے نزدیک بھی قول مختار یہی ہے کہ مراد طعام سے وہ آبی جانور ہیں جو پانی میں ہی مر جائیں ، فرماتے ہیں اس بارے میں ایک روایت مروی ہے گو بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے آپ نے آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۚ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:96 ) پڑھ کر فرمایا اس کا طعام وہ ہے جسے وہ پھینک دے اور وہ مرا ہوا ہو ۔ بعض لوگوں نے اسے بقول ابو ہریرہ موقوف روایت کیا ہے ، پھر فرماتا ہے یہ منفعت ہے تمہارے لئے اور راہ رو مسافروں کے لئے ، یعنی جو سمندر کے کنارے رہتے ہوں اور جو وہاں وارد ہوئے ہوں ، پس کنارے رہنے والے تو تازہ شکار خود کھیلتے ہیں پانی جسے دھکے دے کر باہر پھینک دے اور مر جائے اسے کھا لیتے ہیں اور نمکین ہو کر دور دراز والوں کو سوکھا ہو اپہنچتا ہے ۔ الغرض جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے اس کی دلیل علاوہ اس آیت کے امام مالک کی روایت کردہ وہ حدیث بھی ہے کہ حضور نے سمندر کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا ، یہ لوگ کوئی تین سو تھے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں میں بھی ان میں سے تھا ہم ابھی راستے میں ہی تھے جو ہمارے توشے تھے ختم ہو گئے ، امیر لشکر کو جب یہ علم ہوا تو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو میرے پاس لاؤ چنانچہ سب جمع کر لیا اب حصہ رسدی کے طور پر ایک مقررہ مقدار ہر ایک کو بانٹ دیتے تھے یہاں تک کہ آخر میں ہمیں ہر دن ایک ایک کھجور ملنے لگی آخر میں یہ بھی ختم ہو گئی ۔ اب سمندر کے کنارے پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ کنارے پر ایک بڑی مچھلی ایک ٹیلے کی طرح پڑی ہوئی ہے ، سارے لشکر نے اٹھارہ راتوں تک اسے کھایا ، وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اس کے نیچے سے ایک شتر سوار نکل گیا اور اس کا سر اس پسلی کی ہڈی تک نہ پہنچا ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عنبر تھا ایک روایت میں ہے کہ یہ مردہ ملی تھی اور صحابہ نے آپس میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور اس وقت سخت دقت اور تکلیف میں ہیں اسے کھا لو ہم تین سو آدمی ایک مہینے تک وہیں رہے اور اسی کو کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم موٹے تازے اور تیار ہو گئے اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ہم چربی ہاتھوں میں بھر بھر کر نکالتے تھے تیرہ شخص اس کی آنکھ کی گہرائی میں بیٹھ گئے تھے ، اس کی پسلی کی ہڈی کے درمیان سے سانڈنی سوار گزر جاتا تھا ، ہم نے اس کے گوشت اور چربی سے مٹکے بھر لئے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے روزی تھی جو اللہ جل مجدہ نے تمہیں دی کیا اس کا گوشت اب بھی تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ ، ہمارے پاس تو تھا ہی ہم نے حضور کی خدمت میں پیش کیا اور خود آپ نے بھی کھایا ، مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اس واقعہ میں خود پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھھے اس وجہ سے بعض محدثین کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقع ہوں اور بعض کہتے ہیں واقعہ تو ایک ہی ہے ، شروع میں اللہ کے نبی بھی ان کے ساتھ تھے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہم سمندر کے سفر کو جاتے ہیں ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتا ہے اگر اسی سے وضو کرتے ہیں تو پیاسے رہ جائیں تو کیا ہمیں سمندر کے پانی سے وضو کر لینے کی اجازت ہے؟ حضور نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ، امام شافعی امام احمد اور سنن اربعہ والوں نے اسے روایت کیا ہے امام بخاری امام ترمذی امام ابن خزیمہ امام ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحابہ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہیریرہ فرماتے ہیں ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں تھے اتفاق سے ٹڈیوں کا دل کا دل آ پہنچا ہم نے انہیں مارنا اور پکڑنا شروع کیا لیکن پھر خیال آیا کہ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں انہیں کیا کریں گے؟ چنانچہ ہم نے جا کر حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ دریائی جانوروں کے شکار میں کوئی حرج نہیں ، اس کا ایک راوی ابو المہزم ضعیف ہے ، واللہ اعلم ابن ماجہ میں ہے کہ جب ٹڈیاں نکل آتیں اور نقصان پہنچاتیں تو رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے اللہ ان سب کو خاہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہلاک کر ان کے انڈے تباہ کر ان کا سلسلہ کاٹ دے اور ہماری معاش سے ان کے منہ بند کر دیے یا اللہ ہمیں روزیاں دے یقیناً تو دعاؤں کا سننے والا ہے ، حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ آپ ان کے سلسلہ کے کٹ جانے کی دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی ایک قسم کی مخلوق ہے آپ نے فرمایا ان کی پیدائش کی اصل مچھلی سے ہے ، حضرت زیاد کا قول ہے کہ جس نے انہیں مچھلی سے ظاہر ہوتے دیکھا تھا خود اسی نے مجھ سے بیان کیا ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے حرم میں ٹڈی کے شکار سے بھی منع کیا ہے جن فقہا کرام کا یہ مذہب ہے کہ سمندر میں جو کچھ ہے سب حلال ہے ان کا استدلال اسی آیت سے ہے وہ کسی آبی جانور کو حرام نہیں کہتے حضرت ابو بکر صدیق کا وہ قول بیان ہو چکا ہے کہ طعام سے مراد پانی میں رہنے والی ہر ایک چیز ہے ، بعض حضرات نے صرف مینڈک کو اس حکم سے الگ کر لیا ہے اور مینڈک کے سوا پانی کے تمام جانوروں کو وہ مباح کہتے ہیں کیونکہ مسند وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی آواز اللہ کی تسبیح ہے ، بعض اور کہتے ہیں سمندر کے شکار سے مچھلی کھائی جائے گی اور مینڈک نہیں کھایا جائے گا اور باقی کی چیزوں میں اختلاف ہے کچھ تو کہتے ہیں کہ باقی سب حلال ہے اور کچھ کہتے ہیں باقی سب نہ کھایا جائے ، ایک جماعت کا خیال ہے کہ خشکی کے جو جانور حلال ہیں ان جیسے جو جانور پانی کے ہوں وہ بھی حلال ہیں اور خشکی کے جو جانور حرام ہیں ان کی مشابہت کے جو جانور تری کے ہوں وہ بھی حرام ، یہ سب وجوہ مذہب شافعی میں ہیں حنفی مذہب یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو آیت ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۔ الخ ) 5 ۔ المائدہ:3 ) میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے ، ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جو تم شکار کر لو اور وہ زندہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھا لو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہو اسے نہ کھاؤ ، لیکن یہ حدیث مسند کی رو سے منکر ہے صحیح نہیں ، مالکیوں شافعیوں اور حنبلیوں کی دلیل ایک تو ہی عنبر والی حدیث ہے جو پہلے گزر چکی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال کئے گئے ہیں دو مردے مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی ، یہ حدیث مسند احمد ابن ماجہ دار قطنی اور بیہقی میں بھی ہے اور اس کے سواہد بھی ہیں اور یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے ، واللہ اعلم ، پھر فرماتا ہے کہ تم پر احرام کی حالت میں شکار کھیلنا حرام ہے ، پس اگر کسی احرام والے نے شکار کر لیا اور اگر قصداً کیا ہے تو اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا اور گنہگار بھی ہو گا اور اگر خطا اور غلطی سے شکار کر لیا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور اس کا کھانا اس پر حرام ہے خواہ وہ احرام والے ہوں یا نہ ہوں ۔ عطا قاسم سالم ابو یوسف محمد بن حسن وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں ، پھر اگر اسے کھا لیا تو عطا وغیرہ کا قول ہے کہ اس پر دو کفارے لازم ہیں لیکن امام مالک وغیرہ فرماتے ہیں کہ کھانے میں کوئی کفارہ نہیں ، جمہور بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں ، ابو عمر نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح زانی کے کئی زنا پر حد ایک ہی ہوتی ہے ، حضرت ابو حنیفہ کا قول ہے کہ شکار کر کے کھانے والے کو اس کی قیمت بھی دینی پڑے گی ، ابو ثور کہتے ہیں کہ محرم نے جب کوئی شکار مارا تو اس پر جزا ہے ، ہاں اس شکار کا کھانا اس کیلئے حلال ہے لیکن میں اسے اچھا نہیں سمجھتا ، کیونکہ فرمان رسول ہے کہ خشکی کے شکار کو کھانا تمہارے لئے حلال ہے جب تک کہ تم آپ شکار نہ کرو اور جب تک کہ خاص تمہارے لئے شکار نہ کیا جائے ، اس حدیث کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے ، ان کا یہ قول غریب ہے ، ہاں شکاری کے سوا اور لوگ بھی اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض تو منع کرتے ہیں جیسے پہلے گزر چکا اور بعض جائز بتاتے ہیں ان کی دلدل وہی حدیث ہے جو اوپر ابو ثور کے قول کے بیان میں گزری ، واللہ اعلم ، اگر کسی ایسے شخص نے شکار کیا جو احرام باندھے ہوئے نہیں پھر اس نے کسی احرام والے کو وہ جانور ہدیئے میں دیا تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ مطلقاً حلال ہے خواہ اسی کی نیت سے شکار کیا ہو خواہ اس کے لئے شکار نہ کیا ہو ، حضرت عمر حضرت ابو ہریرہ حضرت زبیر حضرت کعب احبار حضرت مجاہد ، حضرت عطا ، حضرت سعید بن جیر اور کوفیوں کا یہی خیال ہے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ غیر محرم کے شکار کو محرم کھا سکتا ہے؟ تو آپ نے جواز کا فتوی دیا ، جب حضرت عمر کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا اگر تو اس کے خلاف فتوی دیتا تو میں تیری سزا کرتا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی محرم کو اس کا کھانا درست نہیں ، ان کی دلیل اس آیت کے کا عموم ہے حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے اور بھی صحابہ تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے ہیں ۔ تیسری جماعت نے اس کی تفصیل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی غیر محرم نے کسی محرم کے ارادے سے شکار کیا ہے تو اس محرم کو اس کا کھانا جائز نہیں ، ورنہ جائز ہے ان کی دلیل حضرت صعب بن جثامہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو ا کے میدان میں یا ودان کے میدان میں ایک گور خر شکار کردہ بطور ہدئیے کے دیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا جس سے صحابی رنجیدہ ہوئے ، آثار رنج ان کے چہرے پر دیکھ کر رحمتہ للعالمین نے فرمایا اور کچھ خیال نہ کرو ہم نے بوجہ احرام میں ہونے کے ہی اسے واپس کیا ہے ، یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے ، تو یہ لوٹانا آپ کا اسی وجہ سے تھا کہ آپ نے سمجھ لیا تھا کہ اس نے یہ شکار خاص میرے لئے ہی کیا ہے اور جب شکار محرم کیلئے ہی نہ ہو تو پھر اسے قبول کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے بھی جبکہ وہ احرام کی حالت میں نہ تھے ایک گور خر شکار کیا صحابہ جو احرام میں تھے انہوں نے اس کے کھانے میں توقف کیا اور حضور سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے اسے اشارہ کیا تھا ؟ یا اسے کوئی مدد دی تھی ؟ سب نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا پھر کھا لو اور خود آپ نے بھی کھایا یہ واقعہ بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنگلی شکار کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اس حالت میں بھی کہ تم احرام میں ہو جب تک کہ خود تم نے شکار نہ کیا ہو اور جب تک کہ خود تمہارے لئے شکار نہ کیا گیا ہو ، ابو داؤد ترمذی نسائی میں بھی یہ حدیث موجود ہے ، امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی مطلب کا جابر سے سننا ثابت نہیں ، ربیعہ فرماتے ہی کہ عرج میں جناب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، آپ احرام کی حالت میں تھے جاڑوں کے دن تھے ایک چادر سے آپ منہ ڈھکے ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم کھا لو انہوں نے کہا اور آپ کیوں نہیں کھاتے؟ فرمایا مجھ میں تم میں فرق ہے یہ شکار میرے ہی لئے کیا گیا ہے اس لئے میں نہیں کھاؤں گا تمہارے لئے نہیں گیا اس لئے تم کھا سکتے ہو ۔
96۔ 1 صَیْدُ ، سے مراد زندہ جانور اور۔ طعَامُہُ سے مراد وہ مردہ (مچھلی وغیرہ) جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح کے حدیث میں وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو ابن کثیر)
[١٤٣] یہ اجازت محرم اور غیر محرم سب کو ہے۔ محرم صرف خشکی کے جانوروں کا شکار نہیں کرسکتا۔ سمندر کے شکار کی اجازت میں غالباً مصلحت یہ ہے کہ اگر سمندر میں زاد راہ ختم ہوجائے تو سمندر میں مزید زاد راہ کا حصول خشکی کی نسبت بہت مشکل ہوتا ہے۔- ہر طرح کا سمندری جانور حلال ہے :۔ اس آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں۔ البتہ مینڈک اور مگر مچھ یا اسی قبیل کا کوئی اور جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہو ان کی حلت میں اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں اور اگر چند لمحے زندہ بھی رہیں تو بھی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں جیسے مچھلی خواہ وہ زندہ ہو یا مرچکی ہو ہر حال میں حلال ہے۔ اور اگر زندہ مچھلی کو پانی سے نکال لیا جائے تو وہ چند ساعت بعد خودبخود مرجاتی ہے۔- [١٤٤] سمندری وہیل مچھلی اور غزوہ سیف البحر :۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے (٨ ھ میں) سمندر کے کنارے ایک لشکر بھیجا اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ص کو اس کا سردار مقرر کیا۔ یہ تین سو آدمی تھے اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ راستہ میں ہمارا زاد راہ ختم ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا توشہ لا کر اکٹھا کریں۔ ایسا کیا گیا تو کل زاد راہ کھجور کے دو تھیلے جمع ہوئے۔ ابو عبیدہ ان میں سے ہم کو تھوڑا تھوڑا دیا کرتے۔ حتیٰ کہ وہ بھی ختم ہونے کو آئے تو فی کس ایک کھجور یومیہ دینے لگے۔ وہب کہتے ہیں کہ میں نے (رض) سے پوچھا کہ ایک کھجور سے تمہارا کیا بنتا ہوگا۔ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی۔ پھر جب ہم سمندر پر پہنچے تو دیکھا کہ پہاڑ کی طرح ایک بہت بڑی مچھلی پڑی ہے۔ لشکر کے لوگ اٹھارہ دن تک اسی میں سے کھاتے رہے۔ پھر ابو عبیدہ نے حکم دیا۔ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچا۔ (بخاری۔ باب الشرکۃ فی الطعام وغیرہ)
اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ۔۔ :” الْبَحْرِ “ سے مراد پانی ہے، اس میں سمندر اور غیر سمندر سب پانی برابر ہیں اور اس میں وہ تمام جانور شامل ہیں جو پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتے، وہ مچھلی ہو یا کوئی اور جانور۔ زندہ بھی پکڑے جائیں تو ذبح کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن و حدیث میں پانی کے شکار کو حلال کہا گیا ہے اور کسی صحیح حدیث میں یہ نہیں کہ مچھلی کے سوا سب حرام ہیں۔ ” صَيْدُ الْبَحْرِ “ سے مراد پانی کا ہر وہ جانور ہے جو زندہ پکڑا جائے اور ” طَعَام “ سے مراد پانی کا وہ جانور ہے جو وہیں مرجائے اور سمندر یا دریا اسے باہر پھینک دے، یا مر کر پانی کے اوپر آجائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ تفسیر آئی ہے۔ ابن جریر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کیا ہے : ( طَعَامُہُ مَا لَفِظَہُ الْبَحْرُ مَیْتًا ) یعنی اس آیت میں ” طَعَام “ سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر مردہ حالت میں کنارے پر پھینک دے۔ ” ہدایۃ المستنیر “ کے مصنف نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ ابن جریر نے بہت سے صحابہ سے یہی معنی نقل فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے صرف مچھلی کو حلال اور پانی کے دوسرے تمام جانوروں کو حرام کہہ دیا ہے اور وہ بھی صرف وہ جو زندہ پکڑی جائے، اگر مر کر پانی کے اوپر آجائے تو اسے حرام کہتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں، کیونکہ وہ اس آیت کے خلاف ہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے پانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : ( ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاؤُہُ ، الْحِلُّ مَیْتَتُہُ ) ” سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔ “ [ الموطأ، الطہارۃ، باب الطھور للوضوء : ١٢۔ أبوداوٗد : ٨٣۔ ترمذی : ٦٩، صححہ الألبانی ] اسی طرح کچھ صحابہ کرام (رض) کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگی مہم پر بھیجا، ان کے پاس کھانے کی چیزیں ختم ہوگئیں تو انھوں نے ٹیلے جیسی ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی، جسے سمندر کا پانی کنارے پر چھوڑ کر ہٹ چکا تھا۔ ابو عبیدہ (رض) امیر تھے، انھوں نے اسے کھانے کی اجازت دے دی، ایک ماہ تک تین سو آدمی اسے کھاتے رہے اور خشک کر کے ساتھ بھی لے آئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت ہے تو ہمیں بھی دو ۔ “ چناچہ صحابہ نے کچھ گوشت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجا تو آپ نے تناول فرمایا۔ [ مسلم، الصید والذبائح،- باب إباحۃ میتات البحر : ١٩٣٥ ] - مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۚ : اس سے یہ اشارہ فرمایا کہ یہ رخصت تمہارے فائدے کے لیے ہے، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حج کے طفیل حلال ہوئی ہے، یعنی سمندر کا جانور محرم و غیر محرم سب کے لیے حلال ہے۔
اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّـيَّارَۃِ ٠ۚ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ٠ۭ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ ٩٦- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - صيد - الصَّيْدُ : مصدرُ صَادَ ، وهو تناول ما يظفر بهممّا کان ممتنعا، وفي الشّرع : تناول الحیوانات الممتنعة ما لم يكن مملوکا، والمتناول منه ما کان حلالا، وقد يسمّى المَصِيدُ صَيْداً بقوله : أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] ، أي : اصْطِيَادُ ما في البحر، وأما قوله : لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] ، وقوله : وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] ، وقوله : غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] ، فإنّ الصَّيْدَ في هذه المواضع مختصّ بما يؤكل لحمه فيما قال بدلالة ما روي : «خمسة يقتلهنّ المحرم في الحلّ والحرم : الحيّة والعقرب والفأرة والذّئب والکلب العقور» - ( ص ی د ) الصید ( ض ) یہ صاد کا مصدر اور اس کے اصل معنی تو کسیمحفوظ چیز پر قدرت حاصل کر کے اسے پکڑا لینے کے ہیں مگر شرعا ان حیوانات کے پکڑنے پر بولا جاتا ہے جو اپنی حفاطت آپ کریں بشرطیکہ وہ جانور حلال ہوں اور کسی کی ملکیت نہ ہوں اور کبھی مصید یعنی شکار کئے ہوئے جانور کو بھی صید کہہ دیتے ہیں چناچہ آیت : ۔ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] کے معنی ہیں کہ ( احرام کی حالت میں ) تمہارے لئے سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا ۔ وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] اور جب احرام اتاردو ۔ تو ( پھر اختیار ہے کہ ) شکار کرو ۔ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] مگر احرام ( حج ) میں شکار کو حلال نہ جاننا ہیں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ یہاں الصید سے وہ جانور مراد ہیں جنکا گوشت کھایا جاتا ہے کیونکہ حدیث میں خمسۃ یقتلھن المحرام فی الحل والحرام الحیۃ والعقرب والفارۃ والذئب والکلب والعقور) پانچ جانور یعنی سانپ ، بچھو، چوہیا، بھٹیریا اور کاٹ کھانیوالے کتے یعنی درند ہ جانور کو محرم حرم کی حدود کے اندر اور باہر ہر جگہ قتل کرسکتا ہے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - سار - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ.- والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، - والتَّسْيِيرُ ضربان :- أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] .- والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، - والسِّيرَةُ :- الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا .- ( س ی ر ) السیر - ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور - دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ - اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے - ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ - دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
سمندر کا شکار - قول باری ہے (احل لکم صید البحر و طعامہ ، تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا) حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ ، سدی اور مجاہد کا قول ہے کہ سمندر کے شکار سے مراد وہ شکار ہے جو جال کے ذریعے تازہ پکڑا جائے۔- قول باری (وطعامہ) کے متعلق حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ مردہ جانور ہے جسے سمندر باہر پھینک دے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ اور مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نمکین شکار ہے۔ لیکن پہلا قول زیادہ واضح ہے اس لئے کہ یہ دونوں صنف یعنی شکار شدہ اور غیر شکار شدہ جانوروں پر مشتمل ہے ۔ نمکین شکار قول باری (صید البحر) میں داخل ہے۔ اس صورت میں قول باری (وطعامہ) سے اس چیز کا دوبارہ ذکر لازم آئے گا جسے پہلا لفظ (صید البحر) شامل ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات مر کر پانی کی سطح پر تیرنے والے جانور کی اباحت پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ آیت کے الفاظ شکار شدہ اور غیر شکار شدہ دونوں قسموں کے جانوروں کو شامل ہیں جب کہ مر کر پانی کی سطح پر تیرنے والا جانور غیر شکار شدہ جانوروں میں شامل ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلف نے قول باری (وطعامہ) کی تفسیر میں کہا ہے اس سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر باہر پھینک دے۔ ہمارے نزدیک جس جانور کو سمندر باہر اچھال دے وہ طافی یعنی مر کر پانی کی سطح پر آ جانے والا جانور نہیں ہوتا۔ طافی تو وہ ہوتا ہے جو پانی کے اندر قدرتی موت مرجاتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ سلف کا قول ہے کہ (وطعامہ) سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر مردہ حالت میں باہر اچھال دے یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ اس کی موت سمندر میں واقع ہوئی اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے اس سے طافی مراد لیا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ضروری نہیں کہ جس جانور کو سمندر مردہ حالت میں باہر پھینک دے وہ طافی ہو یعنی سمندر کے اندر اس کی موت واقع ہوئی ہو کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ سمندر کے اندر سردی، گرمی یا کسی اور وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ہو۔ اس صورت میں وہ طافی نہیں کہلائے گا ہم نے طافی پر اس کتاب کے پچھلے ابواب میں سیر حاصل بحث کی ہے۔- حسن سے قول باری (وطعامہ) کی تفسیر میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” تمہارے اس سمندر کے ماوراء جو کچھ ہے وہ سب سمندر ہے اور اس کا کھانا گندم، حو اور دیگر جبوب یعنی دانے ہیں جو بطور غذا استعمال ہوتے ہیں۔ “ اشعت بن عبدالملک نے حسن سے یہ روایت کی ہے۔- حسن نے اس مقام پر صرف پانی والے سمندروں کو بحر قرار نہیں دیا بلکہ زمین کی پہنائی اور وسعت کو سمندر کہا اس لئے کہ عبر کے لوگ پھیلی ہوئی چیز کو بحر کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اسی مفہوم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (وجدنا ہ بحراً ) ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا) یعنی یہ بہشت کشادہ قدم ہے۔ یہ بات آپ نے اس وقت ارشاد فرمائی تھی۔ جب آپ نے ابو طلحہ کے گھوڑے پر سواری کی تھی۔- حبیب بن الزبیر نے عکرمہ سے قول باری (ظھر الفساد فی البرو البحر، خشکی اور سمندر دونوں میں فساد پھیل گیا) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بحر سے مراد امصار یعنی شہری آبادیاں ہیں۔ اس لئے کہ عرب کے لوگ شہروں کو بحر کہتے ہیں۔- سفیان نے ایک واسطے سے عکرمہ سے درج بالا آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بر سے مراد وہ بیابان ہے جہاں کوئی چیز نہ ہو اور بحر سے مراد دیہات یعنی آبادیاں ہیں حسن سے آیت کی جو تاویل مروی ہے وہ درست نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (احل لکم صید البحر) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد پانی والا سمندر ہے۔- اس سے خشکی اور شہری آبادیا مراد نہیں ہیں۔ اس لئے کہ اس پر یہ قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ، البتہ خشکی کا شکار، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے) عطف کیا گیا ہے۔- قول باری ہے (متاعال لکم وللسیارۃ جہاں تم ٹھہرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لئے زاد راہ بھی بنا سکتے ہو) حضرت ابن عباس، حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” مقیم اور مسافر دونوں کے لئے منفعت ہے۔ “- اگر کوئی یہ کہے کہ آیا قول باری (احل لکم صید البحر) دریائوں کے شکار کی اباحت کا مقتضی ہے ؟ تو اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا اس لئے کہ عرب کے لوگ دریا کو بھی بحر کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ - اس مفہوم میں یہ قول باری ہے (ظھر الفساد فی البرو البحر) ایک قول یہ ہے کہ بحر کے لفظ کا زیادہ تر اطلاق اس سمندر پر ہوتا ہے جس کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ مگر جب بحر کے لفظ کا ذکر فی الجملہ آئے تو وہ دریائوں کو بھی شامل ہوتا ہے۔ اس سے مقصود آبی شکار ہے۔ تمام آبی جانوروں کا شکار محرم کے لئے جائز ہے۔- اس بارے میں فقہاء کے مابین ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ قول باری (احل لکم صید البحر) سے وہ حضرات استدلال کرتے ہیں جو تمام آبی جانوروں کی اباحت کے قائل ہیں۔ اس بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔- آبی جانوروں کی اباحت کے بارے میں اختلاف رائے کا ذکر - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ آبی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابو اسحاق فزاری نے ان سے یہ قول نقل کیا ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے مثلاً مینڈک، آبی سانپ وغیرہ - امام مالک کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری سے بھی اس طرح کا قول منقول ہے۔ البتہ ثوری نے یہ کہا ہے کہ اسے ذبح کرلیا جائے گا اوزاعی کا قول ہے کہ ہر قسم کا سمندری شکار حلال ہے، انہوں نے یہ بات مجاہد سے نقل کی ہے ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ سمندر کا مردار کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ابٓی کتے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہی حکم اس جانور کا ہے جو آبی گھوڑا کہلاتا ہے۔ البتہ آبی سور اور آبی انسان نہیں کھائے جائیں گے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ ہر وہ جانور جو پانی میں زند گی بسر کرتا ہے اس کا کھانا حلال ہے۔ اسے پکڑ لینا ہی اس کا ذبح ہے۔ آبی سور کھا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ جن حضرات نے تمام آبی جانوروں کو مباح قرار دیا ہے انہوں نے قول باری (احل لکم صید البحر) سے استدلال کیا ہے۔ اس میں سارے آبی جانور آ گئے ہیں کیونکہ اس میں کوئی کسی قسم کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (احل لکم صید البحر) محرم کے لئے ان جانوروں کے شکار کی اباحت پر محمول ہے جو سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کو کھا لینے پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ - اس کی دلیل یہ ہے کہ اس پر قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ) کو عطف کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کلام کا انداز بیان محرم کے لئے خشکی اور سمندری شکار کے حکم کے فرق کو ظاہر کرتا ہے نیز صید کا لفظ اسم مصدر ہے۔ یہ مصدر اصطیاد (شکار کرنا) کے لئے اسم ہے۔ اگرچہ یہ بعض شکار پر بھی واقع ہوتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ آپ کا یہ فقرہ درست ہے ” صدت صیدا “ (میں نے شکار کیا) اگر لفظ صید مصدر ہوگا تو یہ اصطیاد مصدر کے لئے اسم ہوگا جو حقیقت میں شکاری کا فعل ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ سے یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر اس میں اکل کی اباحت پر کوئی دلالت نہیں ہو گ اگرچہ بعض مواقع پر پکڑے ہوئے شکار کی اس لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مجاز کے طور پر ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں مفعول کو فعل کا نام دے دیا جاتا ہے اور کسی چیز کو اس کے غیر کے نام سے پکارنا استعارہ ہوتا ہے جو مجاز کی ایک صورت ہوتی ہے۔- جن لوگوں نے تمام آبی جانوروں کو مباح کردیا ہے ان کے قول کے بطلان پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ (احلت لنا المیتان ودمان السمک والجراد، ہمارے لئے دو مردار اور دو خون حلال کردیئے گئے ہیں ایک مچھلی اور دوسری ٹڈی)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مرداروں میں سے صر ف یہی دو چیزیں مخصوص کردی ہیں اور اس میں یہ دلیل ہے کہ قول باری (حرمت علیکم المیتۃ تم پر مردار حرام کردیا گیا) کی تحریم کے تحت آنے والے تمام مرداروں میں سے صرف یہی دو چیزیں مخصوص کردی گئی ہیں، کوئی تیسری چیز نہیں۔ اس لئے کہ ان دونوں چیزوں کے سوا بقیہ تمام مردار اس قول باری کی تحریم کے عموم میں داخل ہیں۔- نیز قول باری ہے (الا ان تکون میتۃ الایہ کہ وہ مردار ہو) اس میں خشکی اور آبی تمام مرداروں کی تحریم کے لئے عموم ہے۔ - ہمارے اصحاب میں سے بعض نے یہ کہ ا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرداروں میں سے حلال کو دو کی تعداد میں منحصر فرما دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دو کے ماسوا باقی تمام مردار حرام ہیں۔ نیز جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کا ذکر فرما دیا اور اس کے ذریعے ان دونوں مرداروں اور باقی ماندہ مرداروں میں فرق کردیا تو آپ کا یہ فرق کردیتا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی حالت دوسرے مرداروں کی حالت سے مختلف ہے اس پر قول باری (ولحکم الخنزیر اور سور کا گوشت ) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس تحریم میں جس طرح خشکی کے سور کی تحریم کے لئے عموم ہے اسی طرح آبی خنزیر کے لئے بھی تحریم میں عموم ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آبی سور کو آبی گدھے کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کسی انسان نے اس کا نام گندھا رکھ دیا تو اس کی وجہ سے خنزیر کا نام اس سے سلب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ لغت میں اس کے لئے یہی نام مہود و متعین ہے اس لئے تحریم کا عموم اسے شامل ہوگا۔- مینڈک سے دوا تیار کرنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا - ابن ابی ذئب کی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے جو انہوں نے سعید بن خالد سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عثمان سے نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک طبیب نے کسی دوائی کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ دوائی مینڈک سے تیار ہوتی ہے۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مینڈک ہلاک کرنے سے منع فرما دیا۔- اب مینڈک آبی جانور ہے اگر اس کا کھانا حلال ہوتا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ہلاک کرنے سے کبھی منع نہ فرماتے ۔ جب اس حدیث سے مینڈک کی تحریم ثابت ہوگئی تو مچھلی کے سوا تمام آبی حیوانات کا حکم بھی یہی ہوگا ۔ اس لئے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کسی نے مینڈک اور باقی ماندہ آبی جانوروں کے درمیان کوئی فرق کیا ہے۔- جن حضرات نے اس کی اباحت کا قول نقل کیا ہے انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو مالک بن انس نے صفوان بن سلیم سے، انہوں نے سعید بن سلمہ الزرقی سے، انہوں نے مغیرہ بن ابی بردہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمندر کے متعلق ارشاد فرمایا (ھو الطھورماء ہ والحل میتتہ اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے) - اس روایت کا ایک راوی سعید بن سلمہ مجہول ہے اس لئے اس کی روایت کی بنا پر کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ سلسلہ سند میں بھی اس کی مخالفت ہوئی ہے۔- یحیی بن سعید انصاری نے مغیرہ بن عبداللہ سے روایت کی ہے یہ حضرت ابوبردہ کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنے والد سے اور انہوںں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی روایت کی ہے۔ اسے یحییٰ بن ایوب نے جعفر بن ربیعہ اور عمرو بن الحارث دونوں سے روایت کی ہے، انہوں نے بکر بن سوادہ سے انہوں نے ابومعاویہ العلوی سے، انہوں نے مسلم بن محنشی المدلجی سے، انہوں نے الفراسی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سمندر کے متعلق فرمایا تھا کہ (ھوالطھور ماء ہ والحل میتتہ) - ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل اور محمد بن عبدوس نے ، ان دونوں کو امام احمد بن حنبل نے، انہیں ابوالقاسم بن زناد نے ، انہیں اسحاق بن حازم نے ابن مقسم یعنی عبیداللہ نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا (ھوالطھور ماء کا الحل میتتہ)- ان روایات سے کوئی ایسا شخص استدلال نہیں کرسکتا جسے علم حدیث کی معرفت حاصل ہو اگر یہ روایات ثابت بھی ہوجائیں تو انہیں (احلت لنا میتتان) والی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد کے ذریعے صرف آبی حیوانات کی تخصیص نہیں کی بلکہ ان کا ذکر کیا جو پانی میں مرجاتے ہیں۔- اس ارشاد کا ظاہر آبی اور خشکی تمام جانوروں کے لئے عام ہے جب پانی میں ان کی موت واقع ہوجائے اور یہ بات تو واضح ہے کہ یہ عموم آپ کی مراد نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے صرف مچھلی مراد لی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی جانور مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو معلوم ہوچکی ہے۔ آپ نے اپنے ارشاد کے عموم کا ارادہ نہیں کیا ۔ اس لئے اس کے بارے میں عموم کا اعتقاد درست نہیں ہے۔- اباحت کے قائلین نے حضرت جابر کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ حبش خبط “ میں شامل مجاہدین کے لئے سمندر نے ایک جانور اچھال کر باہر پھینک دیا اس جانور کو عنبر کہتے ہیں۔ - مجاہدین نے اس کا گوشت کھالیا پھر انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا (ھل معکم منہ شیء تطعمونیہ، کیا تمہارے پاس کچھ بچ گیا ہے۔ جو تم مجھے کھانے کے لئے دے سکو۔ )- لیکن اس روایت میں ان حضرات کے قول کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایک اور جماعت نے یہی حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں بیان کیا ہے کہ سمندر نے ان کے لئے ایک مچھلی اچھال دی تھی جس کا نام عنبر تھا، ان حضرات نے یہ بتایا کہ سمندر کا وہ پھینکا ہو اور اصل حوت تھا جسے مچھلی کہتے ہیں مچھلی کی حلت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کے ماسوا کی حلت پر کوئی دلالت موجود نہیں۔- محرم کا غیر محرم کے کئے ہوئے شکار کا گوشت کھا لینا - قول باری ہے (وحرم علیکم صید البر ما دمتم حرما تم پر (جب تک تم احرام کی حالت میں ہو ) خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے) حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے لحال یعنی غیر محرم کے پکڑے ہوئے شکار کا گوشت محرم کے لئے مکروہ سمجھا ہے۔- البتہ حضرت علی کی روایت کی اسناد قوی نہیں ہے۔ علی بن زید نے اسکی روایت کی ہے۔ بعض طراق میں اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً اور بعض دوسرے طرق میں اسے موقوفاً روایت کیا گیا ہے ۔ حضرت عثمان، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت ابوقتادہ اور حضرت جابر وغیرھم سے اس کی اباحت منقول ہے۔- عبداللہ بن ابی قتاہ اور عطاء بن یسار نے حضرت ابوقتادہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں ” میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کرلیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے اس طرح شکار کیا تھا اور اس کا کچھ حصہ میرے پاس اب بھی بچا ہوا ہے، یہ سن کر آپ نے اسے لوگوں سے کھا لینے کے لئے کہا یہ لوگ احرام کی حالت میں تھے۔- ابو الزبیر نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ابو قتادہ نے ایک جنگلی گدھا ذبح کیا اور ہم نے اس کا گوشت کھالیا ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے لیکن ہم محرم تھے۔ ہمارے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے۔ المطلب بن عبداللہ بن حنطب نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے۔ المطلب بن عبداللہ بن حنطب نے حضرت جابرب بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لحم صید البر حلال لکم و انتم حرم مالم تصیدوہ اویصطاد لکم، خشکی کے شکار کا گوشت تمہارے لئے احرام کی حالت میں بھی حلال ہے۔ بشرطیکہ وہ شکار تم نے نہ مارا ہو اور نہ ہی تمہارے لئے اسے پکڑا گیا ہو) اس کی اباحت کے سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں ، میں نے طوالت کے خوف سے انہیں بیان کرنا پسند نہیں کیا نیز اس وجہ سے بھی کہ اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔- جن حضرات نے ایسے شکار کی ممانعت کی ہے۔ انہوں نے قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ) سے استدلال کیا ہے۔ اس کا عموم شکار کرنے کے فعل اور نفس شکار دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ صید کا اسم ان دونوں چیزوں پر واقع ہوتا ہے، جن حضرات نے اس کی اباحت کی ہے۔ انہوں نے قو ل باری (وحرم علیکم صید البر) سے استدلال کیا ہے۔- یہ آیت شکار کرنے کے فعل کو نیز نفس شکار دونوں کی تحریم کو شامل ہے۔ جانور اس وقت تک شکار کہلاتا ہے جب تک وہ زندہ رہے لیکن ذبح ہوجانے کے بعد اس کے گوشت کو اس نام سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ اگر موسوم کر بھی لیا جائے تو صرف اس وجہ سے کہ یہ کبھی پہلے شکار تھا۔ گوشت پر بہرحال شکار کا لفظ حقیقتہ واقع نہیں ہوتا۔- آیت کا لفظ صید گوشت کو شامل نہیں ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ محرم کو ایسے گوشت میں تصرف کرنے سے منع نہیں کی اگیا وہ اس کی خرید و فروخت کرسکتا ہے نیز اسے تلف بھی کرسکتا ہے اور دوسرے قسم کے تمام تصرفات اس کے لئے جائز ہیں۔ تحریم کے قائلین کے نزدیک وہ کھانے کے سوا اس میں ہر تصرف کرسکتا ہے۔- اگر آیت کا عموم گوشت کو بھی شامل ہوتا تو محرم کے لئے اکل کے سوا اس میں مذکورہ بالا تصرفات درست نہ ہوتے جس طرح زندگی کے اندر گوشت میں تصرف جائز نہیں ہوتا اور اگر محرم اس گوشت کو تلف کردیتا تو اس پر اس کا تاوان عائد ہوجاتا جس طر زندہ شکار کے اتلاف کی صورت میں اس پر تاوان واجب ہوجاتا ہے اس لئے کہ قول باری (وحرم علیکم صید البرما دمتم حرماً ) احرام کی حالت میں شکار سے تعلق رکھنے والے مہارے تمام افعال کی تحریم کو شامل ہے۔ - اگر کوئی یہ کہے کہ شکار کے انڈے محرم پر حرام ہوتے ہیں اگرچہ یہ انڈے نہ خود اپنی حفاظت آپ کرسکتے ہیں جس طرح جنگلی جانور کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر صید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے ، جس طرح انڈے حرام ہوتے ہیں اسی طرح محرم کے لئے شکار کا گوشت بھی حرام ہوگا۔ - اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس لئے کہ محرم کو شکار کا گوشت تلف کردینے کی ممانعت نہیں ہے اور اگر وہ گوشت تلف کر دے تو اس کا تاوان نہیں بھرے گا لیکن اسے شکار کے انڈے اور چوزے سے تلف کرنے کی ممانعت ہے اور تلف کرنے پر اسے تاوان بھی بھرنا پڑتا ہے۔ نیز انڈے اور چوزے کسی مرحلے پر ایسے شکار بن جاتے جو اپنی حفاظت آپ کرسکتے ہیں۔ - اس لئے ان دونوں چیزوں پر شکار کا ہی حکم عائد کردیا گیا ہے لیکن شکار کا گوشت کسی حالت میں بھی شکار نہیں بن سکتا اس لئے اس کی حیثیت دوسرے حیوانات کے گوشت کی طرح ہوگئی۔ اس لئے کہ وہ اس حالت میں نہ تو شکار بن سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی شکار پیدا ہوسکتا ہے یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے آیت کے عموم کی بنا پر انڈوں اور چوزوں کی تحریم کا حکم نہیں لگایا ہے بلکہ تمام کے اتفاق کی بنا پر یہ حکم لگایا ہے۔ - صعب بن جثامہ کی روایت میں اختلاف ہے۔ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابواء کے مقام پر یا کسی اور جگہ جنگلی گدھے کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا آپ اس وقت احرام کی حالت میں تھے۔ آپ نے یہ ہدیہ واپس کردیا اور جب دیکھا کہ ان کے چہرے پر اس کا ردعمل ظاہر ہو رہا ہے تو آپ نے ان سے فرمایا (لیس بنا ردعلیک ولکنا حرم، تمہارا ہدیہ واپس کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم احرام کی حالت میں ہیں۔ )- امام مالک نے اس کے خلاف روایت کی ہے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عبداللہ بن سے، انہوں نے ابن عباس سے اور انہوں نے صعب بن جثامہ سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگلی گدھے کا تحفہ پیش کیا تھا جب آپ مقام ابواء یا ودان میں تھے۔ آپ نے یہ تحفہ واپس کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم یہ تحفہ صرف اس لئے واپس کر رہے ہیں کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔- ابن ادریس کہتے ہیں کہ امام مالک سے کہا گیا کہ سفیان تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کو جنگلی گدھے کی ٹانگ تحفے کے طور پر پیش کی گئی تھی، امام مالک نے یہ سن کر فرمایا کہ ” سفیان کو کیا پتہ ہے وہ تو ابھی بچہ ہے، وہ تو ابھی بچہ ہے۔ “ یہی روایت ابن جریج نے زہری سے ایک اور سند کے ساتھ نقل کی ہے اس کے الفاظ امام مالک کی روایت کی طرح ہیں۔ اس میں یہ مذکور ہے کہ انہوں نے جنگلی گدھے کا ہدیہ پیش کیا تھا۔- اعمش نے حبیب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے ابن عباس سے روای کی ہے کہ صعب بن جثامہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگلی گدھے کا ہدیہ پیش کیا تھا جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا تھا اور فرمایا تھا ” اگر ہم احرام کی حالت میں نہ ہوتے تو تمہارا یہ ہدیہ ضرور قبول کرلیتے۔ “ ان روایات سے سیان کی روایت کا ضعف اور بود اپن واضح ہوجاتا ہے ۔- ان میں درست روایت وہ ہے جو امام مالک نے نقل کی ہے۔ اس لئے کہ ان تمام راویوں کا اس پر اتفاق ہے۔ اس بارے میں ایک اور پہلو سے بھی روایت ہوئی ہے۔ یہ روایت ابومعاویہ نے ابن جریج سے، انہوں نے جابر بن زید ابو الشعتاء سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے وہ کہتے ہیں۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس محرم کے متعلق پوچھا گیا تھا جس کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا جائے آیا وہ یہ گوشت کھا سکتا ہے تو آپ نے فرمایا تھا (احسبوا لہ ، اس کے لئے حساب کرلو۔ )- ابو معاویہ نے آپ کے ارشاد کی تو ضیح کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی مراد یہ تھی کہ اگر احرام باندھنے سے پہلے یہ شکار مارا گیا تھا تو وہ کھا سکتا ہے ورنہ نہیں اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ کی اس سے مراد یہ تھی اگر یہ شکار اس محرم کی خاطر کیا گیا ہو یا اس نے شکار کرنے کے لئے کہا ہو یا اس سلسلے میں اعانت کی ہو یا نشاندہی کی ہو یا اس قسم کی کوئی ممنوع حرکت کی ہو تو پھر وہ اس کا گوشت نہیں کھا سکتا۔
(٩٦) قوم بنی مدلج دریائی شکار کرتی تھی، انہوں نے دریائی شکار کے بارے میں اور اس کے بارے میں جو دریا پھینک دے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ تمہارے لیے دریائی شکار اور وہ شکار جس کو پانی اوپر پھینک دے، سب حلال کردیا گیا ہے (احرام کی حالت میں) تمہارے اور راہ گزروں کے فائدہ کے لیے البتہ خشکی کا شکار حالت حدود احرام میں اور حرم میں تمہارے اوپر حرام کیا گیا ہے ان باتوں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
آیت ٩٦ (اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ ) - سمندر اور دریا کا شکار حالت احرام میں بھی حلال ہے۔ حاجی لوگ اگر کشتیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے سے سفر کر رہے ہوں تو وہ احرام کی حالت میں بھی مچھلی وغیرہ کا شکار کرسکتے ہیں۔ - (مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ ج) سمندر کی خوراک ( ) تو یوں سمجھ لیجیے کہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے غذا کا ایک نیا خزانہ ہے جو سامنے آیا ہے۔ یہ بہت سی خرابیوں اور بیماریوں سے بچانے والی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یہ آج کل بہت مقبول ہو رہی ہے۔- (وَحُرِّم عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ط) (وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) - تم سب اس کی طرف گھیراؤ کر کے لے جائے جاؤ گے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :112 چونکہ سمندر کے سفر میں بسا اوقات زاد راہ ختم ہو جاتا ہے اور غذا کی فراہمی کے لیے بجز اس کے کہ آبی جانوروں کا شکار کیا جائے اور کوئی تدبیر ممکن نہیں ہوتی اس لیے بحری شکار حلال کر دیا گیا ۔