97۔ 1 کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہوجاتا تو اس سے بھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے قیاما للناس (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم و انصرام بھی صحیح ہے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ مزکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔
[١٤٥] اس آیت میں قِیَاماً للنَّاسِ کے تین الگ الگ مطلب لیے جاسکتے ہیں اور وہ تینوں ہی درست ہیں۔- (١) الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا جیسا کہ سب سے پہلے اس زمین پر یہ مکان بنایا گیا تھا امام بخاری نے اس معنیٰ کو ترجیح دی ہے اور اسی آیت کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ (قیامت کے قریب) ایک چھوٹی پنڈلیوں والا (حقیر) حبشی کعبہ کو ویران کرے گا (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب قول اللہ تعالیٰ جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس۔۔ )- اس حدیث سے ضمناً دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کوئی مضبوط سے مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم کرنے کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح اصحاب الفیل (ابرہہ) کو ذلیل اور ناکام بنادیا تھا ایسے ہی ہر اس شخص کو یا قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو کعبہ کی تخریب کی مذموم حرکت کرے گی۔- (٢) الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ لیے جائیں۔ جو حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے تھے بالخصوص جب وہ قربانی کے پٹہ والے جانور بھی بغرض قربانی ساتھ جا رہے ہوں۔ کیونکہ سب قبائل عرب ایسے جانوروں کا احترام کرتے تھے اور یہ سب کچھ کعبہ کے تقدس کی بنا پر ہوتا تھا۔ حج وعمرہ کرنے والے اور تجارتی قافلے تہائی سال نہایت اطمینان سے سفر کرتے۔ اس طرح کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔- (٣) الناس سے مراد مکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ بےآب وگیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے حج وعمرہ کے لیے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض ان لوگون کو اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی ہے جس سے وہ سال بھر گزارہ کرسکیں بلکہ اس سے بہت زیادہ بھی۔ نیز انہیں دوسرے بھی بہت سے معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔- [١٤٦] قربانی اور پٹے والے جانوروں کے لیے دیکھئے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٧۔- [١٤٧] شرعی احکام لوگوں کے مصالح پر مبنی ہیں :۔ یعنی اس بےآب وگیاہ وادی میں بسنے والی مخلوق کی ضروریات سے اور مصالح سے وہ خوب واقف ہے اس نے اپنے گھر کو قابل احترام خطہ قرار دے کر اور اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز قرار دے کر ان کی جملہ ضروریات کا سامان بہم پہنچا دیا ہے کہ انہیں کھانے کے لیے رزق کی جملہ انواع کھچ کھچ کر وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ صرف ایک اسی بات میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کا ایک ایک حکم انسان ہی کے مصالح پر مبنی ہے خواہ وہ مصالح دینی ہوں یا دنیوی ہوں۔ پھر یہ بات صرف اسی خطہ تک محدود نہیں بلکہ وہ سب لوگوں کے حالات، ضروریات اور مصالح سے پوری طرح واقف ہے اور اسی کے مطابق حکم دیتا ہے۔
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ۔۔ : اوپر کی آیت میں محرم کے لیے شکار کو حرام قرار دیا، اب اس آیت میں بتایا کہ جس طرح حرم کو اللہ تعالیٰ نے وحشی جانوروں اور پرندوں کے لیے سبب امن قرار دیا ہے اسی طرح اسے لوگوں کے لیے بھی جائے امن بنادیا ہے اور دنیوی اور اخروی سعادتیں حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ (کبیر) دیکھیے سورة آل عمران (٩٧) ، سورة قصص (٥٧) اور سورة بقرہ (١٢٥) یعنی اہل مکہ کی معاش ( روزی) کا مدار اسی پر ہے کہ لوگ دور دراز سے حج اور تجارت کے ارادے سے یہاں پہنچتے ہیں اور ہر قسم کی ضروریات ساتھ لاتے ہیں، جس سے اہل مکہ رزق حاصل کرتے ہیں اور لوگ یہاں پہنچ کر امن و امان پاتے ہیں، حتیٰ کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی حرم کے اندر کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے قاتل تک کو کچھ نہیں کہتا تھا اور عبادت و ثواب کے اعتبار سے یہ بہترین جگہ ہے۔ الغرض یہ تمام چیزیں لوگوں کے قیام کا باعث ہیں۔ (کبیر، فتح القدیر) کعبۃ اللہ لوگوں کے قائم رہنے کا ایک ذریعہ ہے، کیونکہ قیامت کے قریب جب ایک حبشی کعبۃ اللہ کو گرا دے گا تو اس کے بعد بہت جلد قیامت آجائے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی گرائے گا۔ “ [ بخاری، الحج، باب ہدم الکعبۃ : ١٥٩٦۔ مسلم : ٢٩٠٩ ]- وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ : حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان چار مہینوں میں لوگ امن سے سفر اور تجارت کرتے اور سال بھر کی ضروریات جمع کرلیتے تھے، اس اعتبار سے یہ مہینے بھی گویا لوگوں کی زندگی قائم رہنے کا ذریعہ ہیں۔ - وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ : ان کا لوگوں کے لیے قیام کا سبب ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ہدی (قربانی) کا گوشت مکہ کے فقراء میں تقسیم ہوتا اور ہدی اور قلادہ والے جانور کوئی شخص لے کر چلتا تو اس کا تمام عرب احترام کرتے۔ مقصد کعبہ کی عظمت کو بیان کرنا تھا، اس کے ساتھ ان چیزوں کا بھی ذکر کردیا، کیونکہ ان کا تعلق بھی بیت اللہ سے ہے۔ (کبیر) - ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ۔۔ : ”ۭذٰلِكَ “ (یہ) یعنی اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں کو لوگوں کے قیام کا باعث بنانا اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کی تفصیل جانتا ہے اور اس نے اپنے علم کے مطابق لوگوں کے قیام اور فائدے کے لیے یہ احکام جاری فرمائے ہیں۔ ( وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تمام تفصیلات جانتا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ تمہاری دینی اور معاشی بہتری کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں۔
خلاصہ تفسیر - خدا تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے، لوگوں (کی مصلحتوں) کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا ہے اور (اسی طرح) عزت والے مہینہ کو بھی اور (اسی طرح) حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور (اسی طرح) ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) یہ (قرارداد علاوہ اور دنیوی مصلحتوں کے) اس (دینی مصلحت کے) لئے (بھی) ہے تاکہ (تمہارا اعتقاد درست اور پختہ ہو اس طرح سے کہ تم ان مصالح سے استدلال کرکے) اس بات کا یقین (ابتدائً یا کمالاً ) کرلو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم (کامل) رکھتے ہیں (کیونکہ ایسا حکم مقرر کرنا جس میں آئندہ کے ایسے مصالح مرعی ہوں کہ عقول بشریہ ان کو نہ سوچ سکیں دلیل ہے کمال صفت علمیہ کی) اور (ان معلومات مذکورہ کے ساتھ تعلق علم کامل سے استدلال کرکے یقین کر لو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو خوب جانتے ہیں، (کیونکہ ان معلومات کے علم پر کسی چیز نے مطلع نہیں کیا، معلوم ہوا کہ علم ذاتی کی نسبت جمیع معلوم کے ساتھ یکساں ہوتی ہے) تم یقین سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والے بھی ہیں (تو ان کے احکام کی خلاف مت کیا کرو اور جو احیاناً ہوگیا ہو، موافق قواعد شرعیہ کے توبہ کرلو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے، (سو وہ خوب پہنچا چکے اب تمہارے پاس کوئی عذر و حیلہ نہیں رہا) اور اللہ تعالیٰ سب جانتے ہیں جو کچھ تم (زبان یا جوارح سے) ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو (سو تم کو چاہیے کہ اطاعت ظاہر و باطن دونوں سے کرو) آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک (یعنی گناہ اور اطاعت یا گناہ کرنے والا اور اطاعت کرنے والا) برابر نہیں، (بلکہ خبیث مبغوض ہے اور طیب مقبول ہے، پس اطاعت کرکے مقبول بننا چاہئے، معصیت کرکے مبغوض نہ ہونا چاہئے، اگرچہ اے دیکھنے والے) تجھ کو ناپاک کی کثرت (جیسا اکثر دنیا میں یہی واقع ہوتا ہے) تعجب میں ڈالتی ہو (کہ باوجود ناپسندیدہ ہونے کے یہ کثیر کیوں ہے، مگر یہ سمجھ لو کہ کثرت جو کسی حکمت سے ہے دلیل محمود ہونے کی نہیں، جب کثرت پر مدار نہیں یا یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کے علم و عقاب پر بھی مطلع ہوگئے) تو (اس کو مت دیکھو بلکہ) خدا تعالیٰ (کے خلاف حکم کرنے) سے ڈرتے رہو تاکہ تم (پورے طور سے) کامیاب ہو (کہ وہ جنت اور رضائے حق ہے)- معارف و مسائل - امن و اطمینان کے چار ذرائع - پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کو لوگوں کے قیام وبقاء اور امن و اطمینان کا سبب بتلایا ہے۔- اول کعبہ، لفظ کعبہ عربی زبان میں ایسے مکان کو کہتے ہیں جو مربع یعنی چوکور ہو، عرب میں قبیلہ خثعم کا بنایا ہوا ایک اور مکان بھی اسی نام سے موسوم تھا، جس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، اسی لئے بیت اللہ کو اس کعبہ سے ممتاز کرنے کے لئے لفظ کعبہ کے ساتھ البیت الحرام کا لفظ بڑھایا گیا۔- لفظ قیام اور قوام اسم مصدر ہے، اس چیز کو کہا جاتا ہے جس پر کسی چیز کا قیام وبقاء موقوف ہو، اس لئے قیمٰاً للناس کے معنے یہ ہوئے کہ کعبہ اور اس کے متعلقات لوگوں کے قیام وبقاء کا سبب اور ذریعہ ہیں۔- اور لفظ ناس لغت میں عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس جگہ قرینہ مقام کی وجہ سے خاص مکہ والے یا اہل عرب بھی مراد ہوسکتے ہیں اور عام دنیا کے انسان بھی، اور ظاہر یہی ہے کہ پورے عالم کے انسان اس میں داخل ہیں، البتہ مکہ اور عرب والے ایک خاص خصوصیت رکھتے ہیں، اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ بیت اللہ اور جن چیزوں کا ذکر آگے آتا ہے، ان کو پورے عالم انسانیت کے لئے قیام وبقاء اور امن و سکون کا ذریعہ بنادیا ہے، جب تک دنیا کا ہر ملک، ہر خطہ اور ہر سمت کے لوگ اس بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرتے رہیں اور بیت اللہ کا حج ہوتا رہے یعنی جن پر حج فرض ہو وہ حج ادا کرتے رہیں اس وقت تک یہ پوری دنیا قائم اور محفوظ رہے گی۔ اور اگر ایک سال بھی ایسا ہوجائے کہ کوئی حج نہ کرے یا کوئی شخص بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا نہ کرے تو پوری دنیا پر عذاب عام آجائے گا۔- بیت اللہ پورے عالم کا عمود ہے - اسی مضمون کو امام تفسیر حضرت عطار رحمة اللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لو ترکزہ عاماً واحدا لم ینظروا ولم یؤ خروا (بحر محیط) اس سے معلوم ہوا کہ معنوی طور پر بیت اللہ اس پورے عالم کا عمود ہے، جب تک اس کا استقبال اور حج ہوتا رہے گا دنیا قائم رہے گی، اور اگر کسی وقت بیت اللہ کا یہ احترام ختم ہوا تو دنیا بھی ختم کردی جائے گی، رہا یہ معاملہ کہ نظام عالم اور بیت اللہ میں جوڑ اور ربط کیا ہے ؟ سو اس کی حقیقت معلوم ہونا ضروری نہیں، جس طرح مقناطیس اور لوہے اور کہربا اور تنکے کے ربط باہمی کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں، مگر وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشاہدہ میں آتی ہے اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، بیت اللہ اور نظام عالم کے باہمی ربط کی حقیقت کا ادراک بھی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ خالق کائنات کے بتلانے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے، بیت اللہ کا پورے عالم کی بقاء کے لئے سبب ہونا تو ایک معنوی چیز ہے ظاہری نظریں اس کو نہیں پاسکتیں، لیکن عرب اور اہل مکہ کے لئے اس کا موجب امن و سلامتی ہونا طویل تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہے۔- بیت اللہ کا وجود امن عالم کا سبب ہے - عام دنیا میں قیام امن کی صورت حکومتوں کے قوانین اور ان کی گرفت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ڈاکو، چور، قتل و غارت گری کرنے والے کی جرأت نہیں ہوتی، لیکن جاہلیت عرب میں نہ کوئی باقاعدہ حکومت قائم تھی، اور نہ امن عامہّ کے لئے کوئی قانون عام تھا، سیاسی نظام محض قبائلی بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کی جان و مال عزت و آبرو سب ہی چیزوں پر جب چاہے حملہ کرسکتا تھا، اس لئے کسی قبیلہ کے لئے کسی وقت امن و اطمینان کا موقع نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کو حکومت کے قائم مقام ذریعہ امن بنادیا جس طرح حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کوئی سمجھدار انسان نہیں کرسکتا، اسی طرح بیت اللہ شریف کی حرمت و تعظیم حق تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں بھی عام لوگوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردی تھی کہ اس کے احترام کے لئے اپنے سارے جذبات و خواہشات کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔- عرب جاہلیت جو اپنی جنگ جوئی اور قبائلی تعصب میں پوری دنیا میں ضرب المثل تھی اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ اور اس کے متعلقات کی اتنی حرمت و تعظیم ان کے دلوں میں پیوست کردی تھی کہ ان کا کیسا بھی جانی دشمن یا سخت سے سخت مجرم ہو اگر وہ حرم شریف میں داخل ہوجائے تو انتہائی غم و غصہ کے باوجود اس کو کچھ نہ کہتے، باپ کا قاتل حرم میں بیٹے کو ملتا تو بیٹا نیچے نظریں کرکے گزر جاتا تھا۔ - اسی طرح جو شخص حج وعمرہ کے لئے نکلا ہو یا جو جانور حرم شریف میں قربانی کے لئے لایا گیا ہو اس کا بھی اتنا احترام عرب میں عام تھا کہ کوئی برے سے برا شخص بھی اس کو کوئی گزند نہ پہنچاتا تھا، اور اگر وہ جانی دشمن بھی ہے تو ایسی حالت میں جبکہ اس نے حج وعمرہ کی کوئی علامت احرام یا قلادہ باندھا ہوا ہو اس کو قطعاً کچھ نہ کہتے تھے۔ - سنہ ٦ ہجری یعنی جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کی ایک خاص جماعت کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر بقصد بیت اللہ روانہ ہوئے اور حدود حرم کے قریب مقام حدیبیہ پر قیام فرما کر حضرت عثمان غنی (رض) کو چند رفیقوں کے ساتھ مکہ بھیجا کہ مکہ کے سرداروں سے کہہ دیں کہ مسلمان اس وقت کسی جنگ کی نیت سے نہیں بلکہ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے ان کی راہ میں کوئی مزاحمت نہ ہونی چاہئے۔- قریشی سرداروں نے بہت سے بحث و مباحثہ کے بعد اپنا ایک نمائندہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ شخص حرمات بیت اللہ کا خاص لحاظ رکھنے والا ہے، اس لئے اپنے قربانی کے جانور جن پر قربانی کا نشان کیا ہوا ہے اس کے سامنے کردو، اس نے جب یہ ہدایا (قربانی کے جانور) دیکھے تو اقرار کیا کہ بیشک ان لوگوں کو بیت اللہ سے ہرگز نہیں روکنا چاہئے۔- خلاصہ یہ ہے کہ حرم محترم کا احترام زمانہ جاہلیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب میں ایسا رکھ دیا تھا کہ اس کی وجہ سے امن وامان قائم رہتا تھا، اس احترام کے نتیجہ میں صرف حرم شریف کے اندر آنے جانے والے اور وہ لوگ مامون ہوجاتے تھے جو حج وعمرہ کے لئے نکلے ہیں، اور حج کی کوئی علامت ان پر موجود ہے، اطراف عالم کے لوگوں کو اس سے کوئی نفع امن و اطمینان کا حاصل نہ ہوتا تھا، لیکن عرب میں جس طرح بیت اللہ کے مکان اور اس کے گردوپیش کے حرم محترم کا احترام عام تھا اسی طرح حج کے مہینوں کا بھی خاص احترام تھا کہ ان مہینوں کو اشہر حرم کہتے تھے، ان کے ساتھ رجب کو بھی بعض نے شامل کرلیا تھا، ان مہینوں میں حرم سے باہر بھی قتل و قتال کو تمام عرب حرام سمجھتا اور پرہیز کرتا تھا۔ - اسی لئے قرآن کریم نے قیما للناس ہونے میں کعبہ کے ساتھ تین اور چیزوں کو شامل فرمایا ہے، اول اشھر الحرام یعنی عزت و عظمت کا مہینہ، یہاں چونکہ لفظ شھر مفرد لایا گیا ہے، اس لئے عام مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس جگہ ” شہر حرام “ سے مراد ماہ ذی الحجہ ہے، جس میں حج کے ارکان و اعمال ادا کئے جاتے ہیں، اور بعض نے فرمایا کہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر مراد اس سے جنس ہے، اس لئے سب ہی اشہر حرم (عزت کے مہینے) اس میں داخل ہیں۔- دوسری چیز ھدی، ہے، ھدی اس جانور کا کہا جاتا ہے جس کی قربانی حرم شریف میں کی جائے، ایسے جانور جس شخص کے ساتھ ہوں عام عرب کا معمول تھا کہ اس کو کچھ نہ کہتے تھے، وہ امن و اطمینان کے ساتھ سفر کرتا اور اپنا مقصد پورا کرسکتا تھا، اس لئے ھدی بھی قیام امن کا ایک سبب ہوئی۔- تیسری چیز قلائد ہیں، قلائد قلادہ کی جمع ہے، گلے کے ہار کو کہا جاتا ہے۔ جاہلیت عرب کی رسم یہ تھی کہ جو شخص حج کے لئے نکلتا تو اپنے گلے میں ایک ہار بطور علامت کے ڈال لیتا تھا، تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ سمجھ لیں کہ یہ حج کے لئے جارہا ہے کوئی تکلیف نہ پہنچائیں، اسی طرح قربانی کے جانوروں کے گلے میں بھی اس طرح کے ہار ڈالے جاتے تھے۔ ان کو بھی قلائد کہتے ہیں، اس لئے قلائد بھی قیام امن و سکون کا ایک ذریعہ بن گئے۔- اور اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں شہر حرام، ھدی اور قلائد سب کے سب بیت اللہ کے متعلقات میں سے ہیں، ان کا احترام بھی بیت اللہ ہی کے احترام کا ایک شعبہ ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بیت اللہ اور اس کے متعلقات کو اللہ تعالیٰ نے پورے عالم انسانیت کے لئے عموماً اور عرب اور اہل مکہ کے لئے خصوصاً ان کے تمام امور دین و دنیا دونوں کے لئے قیام و قوام بنادیا ہے۔- قیماً للناس کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ اور حرم محترم سب کے لئے جائے امن بنایا گیا ہے، بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد اہل مکہ کے لئے وسعت رزق ہے، کہ باوجود اس کے کہ اس زمین میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، مگر اللہ تعالیٰ دنیا بھر کی چیزیں وہاں پہنچاتے رہتے ہیں۔- بعض نے کہا کہ اہل مکہ جو کہ بیت اللہ کے خادم اور محافظ کہلاتے تھے ان کو لوگ اللہ والے سمجھ کر ہمیشہ ان کیساتھ تعظیم کا معاملہ کرتے تھے، قیما للناس سے ان کا یہ خاص اعزاز مراد ہے۔- امام عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی اختلاف نہیں لفظ قیماً للناس کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کو سب لوگوں کے بقاء و قیام اور معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بنایا ہے، اور اہل عرب اور اہل مکہ کو خصوصیت کے ساتھ اس کی برکات ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ہے۔ - آخر آیت میں ارشاد فرمایا ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ، یعنی ہم نے بیت اللہ کو اور اس کے متعلقات کو لوگوں کے لئے ذریعہ امن وامان اور قیام وبقاء بنادیا ہے، جس کا مشاہدہ اہل عرب خصوصیت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، یہ اس لئے کہا گیا کہ سب لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو پورا پورا جانتے ہیں، اور وہی اس کا انتظام کرسکتے ہیں۔
جَعَلَ اللہُ الْكَعْبَۃَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ ٠ۭ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٩٧- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- كعب - كَعْبُ الرّجل : العظم الذي عند ملتقی القدم والساق . قال : وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ- [ المائدة 6] . والکَعْبَةُ : كلّ بيت علی هيئته في التّربیع، وبها سمّيت الكَعْبَةُ. قال تعالی:- جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة 97] . وذو الكَعْبَاتِ : بيت کان في الجاهلية لبني ربیعة، وفلان جالس في كَعْبَتِهِ ، أي : غرفته وبیته علی تلک الهيئة، وامرأة كاعِبٌ: تَكَعَّبَ ثدیاها، وقد كَعبَتْ كِعَابَةً ، والجمع كَوَاعِبُ ، قال : وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] وقد يقال : كَعَبَ الثّدي كَعْباً ، وكَعَّبَ تَكْعِيباً وثوب مُكَعَّبٌ: مطويّ شدید الإدراج، وكلّ ما بين العقدتین من القصب والرّمح يقال له : كَعْبٌ ، تشبيها بالکعب في الفصل بين العقدتین، کفصل الکعب بين السّاق والقدم .- ( ک ع ب ) کعب الرجل ( ٹخنہ ) اس ہڈی کو کہتے ہیں ۔ جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ پر ہوتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [ المائدة 6] اور تختوں تک پاؤں دھو لیا کرو ۔ الکعبۃ اصل میں ہر اس مکان کو کہتے ہیں جو ٹخنے کی شکل پر چو کو بنا ہوا ہو اسی سے بیت الحرام کو الکعبۃ کے نام سے پکارا گیا ہے قرآن میں ہے : ۔ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة 97] خدا نے عزت کے گھر ( یعنی ) کعبے کہ لوگوں کے لئے ہو جب امن قرار فرمایا : ۔ ذو الکعبات بنوریہ کی عبادت گاہ کا نام جو انہوں نے جاہلیت میں بنائی تھی ۔ محاورہ ہے فلان حابسفی کعبتہ یعنی فلاں اپنے کمرہ میں بیٹھا ہوا ہے کو مکعب شکل پر بنا ہوا ہے ۔ امراۃ کا عب ابھرے ہوئے پستانوں دالی لڑکی اور یہ کعا بۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عورت کی چھاتی ابھر نے کے ہیں ۔ اور کا عب کی جمع کوا عب آتی ہے چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] اور ہم نے نو جوان عورتیں ( لڑکی کی ) چھاتی کا ابھر نا آنا ۔ ژوب مکعب لپیٹا ہوا کپڑا جس کی تہ سخت اور اور اٹھی ہوئی ہو ۔ اور سر کنڈے یا نیز کی دو گرہوں کے درمیان کے حصہ کو بھی تشبیہ کے طور پر کعب ( پو ر) کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ جس طرح ٹخنہ پنڈلی اور پاؤں کے درمیان فاصل ہوتا ہے اس طرح یہ بھی دو گر ہوں کے در میان فاصل ہوتی ہے ۔ - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- قيام - والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله :- كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم .- قيام - اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیتبنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا - قلد - الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها .- ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور قلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،
قول باری ہے (جعل اللہ الکعبۃ المبیت الحرام قیاماً للناس۔ ہم نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا) تا آخرت آیت ایک قول ہے کہ اللہ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اس نے کعبہ کو لوگوں کی معیشت کا سہارا اور ستون بنادیا۔- جس طرح یہ محاورہ ہے ۔” ھو قوام الامرو ملا کہ “ (وہ اس معاملہ کا سہارا اور بنیاد ہے) یعنی اس کی ذات کے سہارے یہ معامل ہٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔ کبعہ بھی لوگوں کے دین اور دنیا دونوں کی درست رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ سعید بن جبیر کا یہ قول منقول ہے کہ یہ لوگوں کے لئے سہارا اور ان کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔- ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ ہے یعنی اس کے ذریعے لوگوں کے جسم قائم رہتے ہیں۔ اس لئے کہ کعبہ کی وجہ سے وہ امن و امان میں رہتے اور ہلاکت سے محفوظ ہوتے ہیں اور پوری دل جمعی کے ساتھ زندگی کے گذر ان کے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ کعبہ ان کے دین کے لئے بھی قوام اور درست رکھنے کا ذریعہ ہے اس لئے کہ مناسک حج میں اعمال قبیحہ سے دور رکھنے اور نیکی کی طرف ہلانے کا سامان موجود ہوتا ہے۔- نیز حرم اور حرمت کے مہینوں میں امن و امان ہوتا ہے نیز حج اور مناسک کی ادائیگی کے مواقع پر لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی معیشت بھی درست ہوجاتی ہے اور معاشی حالات پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح ہدی اور قلائد بھی امن و امان کا ذریعہ ہیں۔ جب انسان قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر سفر کرتا ہے تو کوئی شخص اس سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرتا۔- ایک قول یہ ہے کہ جب کوئی شخص احرام باندھنے کا ارادہ کرتا تو وہ حرم کے درختوں کی چھال اپنے گلے میں ڈال لیتا اور اس طرح محفوظ ہوجاتا۔ حسن نے قلائد کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد اونٹوں اور گایوں کے گلے میں جوتے اور موزے وغیرہ لٹکانا ہے۔- یہ کام دین میں عبادت گذاری کو درست رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قربانی کے اونٹوں کو پٹے پہنانا عبادت ہے اسی طرح قربانی کے جانور بانک کرلے جانا بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔- کعبہ حرمت والے گھر کا نام ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ کعبہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ مربع شکل کا ہے۔ اہل لغت کا قول ہے کہ اضافت کی صورت میں ” کعبۃ البیت “ اس لئے کہا گیا کہ بیت اللہ کی چوکور کرسی اسے اوپر کی طرف مربع شکل میں بلند کرتی ہے۔ یہ لفظ کعوبۃ سے نکلا ہے جس کے معنی ابھار کے ہیں۔- تربیع یعنی چوکور بنانے کو کعبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مربع کے زاویے اور گوشے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ محاورہ ہے۔ ” کعب ثدی الحباریہ “ (لڑکی کے پستان میں ابھار پیدا گیا) اسی سے ” کعب الانسان “ بھی ہے یعنی انسان کا ٹخنہ ، اس لئے کہ اس میں ابھار ہوتا ہے ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ وضو میں پائوں دھونے کی انتہا جس حصے پر ہوتی ہے وہ یہی ٹخنے ہیں جو پنڈلی کی جڑ میں دونوں طرف ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ نے بیت کو حرم یعنی محترم کے نام سے موسوم کیا اس لئے کہ اس سے سارا حرم مراد ہے یہاں شکار پکڑنا، گھاس وغیرہ اکھاڑنا، یہاں آ کر پناہ لینے والے کو قتل کرنا سب حرام ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ھدیا بانع الکعبۃ) اس سے مراد حرم ہے۔- قول باری ہے (والشھر الحرام اور ماہ حرام کو بھی (اس کام میں معاون بنایا ) حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد حرمت والے مہینے ہیں۔ یہاں ان مہینوں کو واحد کی شک ل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے جنس ماہ حرام مراد ہے۔ یہ چار مہینے ہیں۔ ان میں تین لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ایک مہینہ تنہا ہے اور وہ رجب ہے۔- اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ماہ حرام کو لوگں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ہے اس لئے کہ لوگوں کو ان مہینوں کے دوران امن و امان حاصل ہوجاتا تھا اور لوگ اطمینان کے ساتھ اپنے گذران کے ذرائع اور معاش کے وسائل کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جاسکتے تھے۔ اس طرح ان مہینوں میں انہیں سہارا حاصل ہوجاتا۔- اللہ تعالیٰ نے مناسک حج ، حرم، حرمت کے مہینوں ، ہدی اور قلائد کو لوگوں کے قوام اور سہارے کے طور پر ذکر کیا ہے، اس کا سب کو علم تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج کی ابتداء کے وقت سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک بلکہ رہتی دنیا تک لوگ اس کا مشاہدہ کرتے چلے آ رہے اور کرتے رہیں گے۔ ایمان کے بعد لوگوں کے معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا جس قدر حج کے ساتھ تعلق ہے آپ کو دین و دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ یہ تعلق نہیں آئے گا۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حج کے اجتماعات میں آنے والے حاجیوں کے منافع اور فوائد کس قدر زیادہ ہیں جو دنیا کے تمام ملکوں اور شہروں سے آ کر ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور حج کے بعد اپنے گھروں کو واپسی تک مکہ مکرمہ اور منیٰ کی سر زمین سے گذرتے اور آتے جاتے رہتے ہیں۔- اسی دوران لوگوں کو ان سے منتفع ہونے اور اپنے معاش اور تجارت کو فروغ دینے کے کثیر مواقع ہاتھ آ جاتے ہیں پھر حج کے اندر دینی منافع ان کے علاوہ ہیں۔ حج کے سفر کی تیاری گناہوں سے توبہ، زاد راہ کے طور پر پاکیز ترین نیز حلال ترین مال کا استعمال، سفر کی مشقتوں کی برداشت بیت اللہ تک کے لئے خطرات کا مقابلہ چوروں اور ٹھگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کی فراموشی پھر احرام باندھ کر ہر طرف سے فراغت حاصل کر کے اللہ کے لئے یکسو ہوجانا۔- نیز قیامت کے دن اپنی قبروں سے نکل کر عرصہ محشر میں پہنچنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلینا، تلبیہ کے ذریعے کثرت سے اللہ کو یاد کرنا، اس کے سامنے گڑ گڑانا، بیت اللہ کے پاس اخلاص نیت کا اظہار کرنا، نیز اس یقین کے ساتھ بیت اللہ کے پردوں سے لپٹ جانا جس طرح ڈوبتا ہوا انسان بچائو کے ذریعے سے لپٹ جاتا ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں۔- نیز یہ کہ اس کی ذات کا سہارا لئے بغیر نجات کا کوئی اور راستہ نہیں۔ پھر اللہ کی رسی یعنی شریعت پر ثابت قدمی کا اظہار … یقینا جو شخص اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا پھر میدان عرفات میں پہنچنا اور دنیا کی ہر چیز سے کنارہ کش ہو کر، مال و دولت اور اہل و عیال کو فراموش کر کے اہل محشر کی طرح قدموں کے بل کھڑے ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا، اس کی رحمت اور اس کے فضل سے آس لگانا۔- یہ سب ایسے امور ہیں جن سے حاصل ہونے والے بیشمار دینی منافع و فوائد سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران اللہ کے ذکر کی کثرت، اس کے سامنے عجز و نیاز مندی نیز اطاعت و فرمانبرداری کے بار بار اظہار پر غور کیجیے، پھر یہ بھی دیکھیے کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں نیکیوں کی جتنی شکلیں ہیں وہ سب کی سب مناسک حج کے اندر موجود ہیں۔- علاوہ ازیں بیت اللہ کے طواف نیز ذکر جہری اور ذکر سری یا ذکر لسانی اور ذکر قلب سے تقویت الٰہی کے جو مواقع ہاتھ آتے ہیں انہیں بھی دھیان میں رکھیے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں کے ان تمام سے ایک انسان کو بیشمار دینی اور دنیوی منافع و فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان امور پر تفصیل سے روشنی ڈالتے تو یقینا گفتگو بڑی طویل ہوجاتی، اس لئے اس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔- قول باری ہے (ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموات وما فی الارض تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی مشروعیت سے حاصل ہونے والے دنیوی و اخروی فوائد و منافع سے اللہ باخبر تھا۔- چنانچہ اس نے اس کا ایسا لاجواب نظام قائم کردیا جس میں پہلی امت سے لے کر آخری امت تک کے لئے قیامت تک انسانوں کی صلاح و فلاح کی تمام صورتیں سمٹ کر آ گئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ عالم الغیب نہ ہوتا اور اسے تمام اشیاء کے وجود میں آنے سے پہلے ان کی خبر نہ ہوتی تو ان امور کے بارے میں اس کی تدبیر و تصرف کے وہ نتائج برآمد نہ ہوتے جو بندوں کے دین و دنیا کی صلاح و فلاح کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں۔- اس لئے کہ جس ذات کو ایک چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا علم نہ ہو اس سے اس قدر محکم اور پختہ انداز میں ایک اچھوتے نظام و تربیت کے ساتھ فعل کا صدور نہیں ہوسکتا جس کا فائدہ پوری امت کے دین و دنیا دونوں پر محیط نظر آتا۔
(٩٧) کعبہ کو عبادت خداوندی میں امن اور لوگوں کی مصلحتوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا ہے اور اسی طرح عزت والے مہینے کو اور اسی طرح حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اسی طرح ان جانوروں کو جن کے گلوں میں حرم کے درختوں کے پٹے پڑے ہوئے ہوں، ان ساتھیوں کے لیے جو کہ اس میں ہوتے ہیں، باعث امت قرار دیا ہے، یہ تمام احکام اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور ان کے رہنے والوں کی اصلاح سے بخوبی واقف ہے۔
آیت ٩٧ (جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ ) (وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط) - یہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اسی کے معیّن کردہ ہیں۔ سورة کے شروع میں بھی ان کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں در اصل تو ثیق ہو رہی ہے کہ یہ سب چیزیں زمانہ جاہلیت کی روایات نہیں ہیں بلکہ خانہ کعبہ کی حرمت اور عظمت کی علامت ہیں۔ ئ - (ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ) (وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) - آگے چل کر ان چیزوں کے مقابلے میں ان چار چیزوں کا ذکر آئے گا جو اہل عرب کے ہاں بغیر کسی سند کے حرام کرلی گئی تھیں۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :113 عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدس عبادت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پورے ملک کی معاشی و تمدنی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا ۔ حج اور عمرے کے لیے سارا ملک اس کی طرف کھنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا ، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدنی روابط قائم کرتے ، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی ، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں ۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا ۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہولت آتے جاتے تھے ۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :114 یعنی اگر تم اس انتظام پر غور کرو تو تمہیں خود اپنے ملک کی تمدنی و معاشی زندگی ہی میں اس امر کی ایک بین شہادت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور ان کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے ۔ بد امنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے ظہور سے پہلے گزرے ہیں ، ان میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ، مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کر دیا تھا جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی ۔ دوسری بے شمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیے ہیں ان کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو نہ تم خود سمجھ سکتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پورا کر سکتے ہو ۔
67: کعبے شریف اور حرمت والے مہینے کا باعث امن ہونا تو ظاہر ہے کہ اس میں جنگ کرنا حرام ہے، اس کے علاوہ جو جانور نذرانے کے طور پر حرم لے جائے جاتے تھے ان کے گلے میں پٹے ڈال دئے جاتے تھے تاکہ ہر دیکھنے والے کو پتہ چل جائے کہ یہ جانور حرم جارہے ہیں ؛ چنانچہ کافر، مشرک، ڈاکو بھی ان کو چھیڑتے نہیں تھے، کعبے کے قیام امن کا باعث ہونے کے ایک معنی کچھ مفسرین نے یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ جب تک کعبہ شریف قائم رہے گا قیامت نہیں آئے گی، قیامت اس وقت آئے گی جب اسے اٹھالیا جائے گا۔