Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بے سود کوشش ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کفار تو کیا چیز ہیں ؟ ان سے بہت زیادہ قوت وطاقت اور اسباب تعداد کے لوگوں کو اسی جرم پر ہم تہ وبالا کر چکے ہیں جنہوں نے شہروں میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں زمین میں خوب فساد کیا ۔ لمبے لمبے سفر کرتے تھے ہمارے عذاب دیکھ کر بچنے کی جگہ تلاش کرنے لگے مگر یہ کوشش بالکل بےسود تھی اللہ کی قضا و قدر اور اس کی پکڑ دھکڑ سے کون بچ سکتا تھا ؟ پس تم بھی یاد رکھو کہ جس وقت میرا عذاب آگیا بغلیں جھانکتے رہ جاؤ گے اور بھوسی کی طرح اڑا دئیے جاؤ گے ۔ ہر عقلمند کے لئے اس میں کافی عبرت ہے اگر کوئی ایسا بھی ہو جو سمجھ داری کے ساتھ دھیان لگائے وہ بھی اس میں بہت کچھ پا سکتا ہے یعنی دل کو حاضر کر کے کانوں سے سنے ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں کو زمین کو اور اسکے درمیان کی چیزوں کو چھ روز میں پیدا کر دیا اور وہ تھکا نہیں اس میں بھی موت کے بعد کی زندگی پر اللہ کے قادر ہونے کا ثبوت ہے کہ جو ایسی بڑی مخلوق کو اولاً پیدا کر چکا ہے اس پر مردوں کا جلانا کیا بھاری ہے ؟ حضرت قتادہ کا فرمان ہے کہ ملعون یہود کہتے تھے کہ چھ دن میں مخلوق کو رچا کر خالق نے ساتویں روز آرام کیا اور یہ دن ہفتہ کا تھا اس کا نام ہی انہوں نے یوم الراحت رکھ چھوڑا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اس واہی خیال کی تردید کی کہ ہمیں تھکن ہی نہ تھی آرام کیسا ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33؀ ) 46- الأحقاف:33 ) ، یعنی کیا انہوں نے نہیں دیکھا ؟ کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا وہ مردوں کے جلانے پر قادر نہیں ؟ ہاں کیوں نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور آیت میں ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) البتہ آسمان و زمین کی پیدائش لوگوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے اور آیت میں ہے آیت ( ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27؀۪ ) 79- النازعات:27 ) کیا تمہاری پیدائش سے زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی اسے اللہ نے بنایا ہے ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ یہ جھٹلانے اور انکار کرنے والے جو کہتے ہیں اسے صبر سے سنتے رہو اور انہیں مہلت دو ان کو چھوڑ دو اور سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے اور رات کو اللہ کی پاکی اور تعریف کیا کرو ۔ معراج سے پہلے صبح اور عصر کی نماز فرض تھی اور رات کی تہجد آپ پر اور آپ کی امت پر ایک سال تک واجب رہی اس کے بعد رہی اس کے بعد آپ کی امت سے اس کا وجوب منسوخ ہو گیا اس کے بعد معراج والی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں جن میں فجر اور عصر کی نمازیں جوں کی توں رہیں ۔ پس سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے مراد فجر کی اور عصر کی نماز ہے مسند احمد میں ہے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودہویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا تم اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے وہ جس کے دیکھنے میں کوئی دھکا پیلی نہیں پس اگر تم سے ہو سکے تو خبردار سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازوں سے غافل نہ ہو جایا کرو ، پھر آپ نے آیت ( وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى ١٣٠؁ ) 20-طه:130 ) پڑھی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ رات کو بھی اس کی تسبیح بیان کر یعنی نماز پڑھ جیسے فرمایا آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، یعنی رات کو تہجد کی نماز پڑھا کر یہ زیادتی خاص تیرے لئے ہی ہے تجھے تیرا رب مقام محمود میں کھڑا کرنے والا ہے سندوں کے پیچھے سے مراد بقول حضرت ابن عباس نماز کے بعد اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مفلس مہاجر آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ بلند درجے اور ہمیشہ والی نعمتیں حاصل کر چکے آپ نے فرمایا یہ کیسے ؟ جواب دیا کہ ہماری طرح نماز روزہ بھی تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ صدقہ دیتے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے وہ غلام آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے آپ نے فرمایا آؤ تمہیں ایک ایسا عمل بتلاؤں کہ جب تم اسے کرو تو سب سے آگے نکل جاؤ اور تم سے افضل کوئی نہ نکلے لیکن جو اس عمل کو کرے ۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، الحمد اللہ ، اللہ اکبر پڑھ لیا کرو پھر وہ آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی آپ کی اس حدیث کو سنا اور وہ بھی اس عمل کو کرنے لگے ۔ آپ نے فرمایا پھر یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعت ہیں ۔ حضرت عمر حضرت علی حضرت حسن بن علی حضرت ابن عباس حضرت ابو ہریرہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم کا یہی فرمان ہے اور یہی قول ہے حضرت مجاہد حضرت عکرمہ حضرت شعبی حضرت نخعی حضرت قتادہ رحھم اللہ وغیرہ کا ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے بجز فجر اور عصر کی نماز کے عبدالرحمن فرماتے ہیں ہر نماز کے پیچھے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گذاری آپ نے فجر کے فرضوں سے پہلے دو ہلکی رکعت ادا کیں پھر گھر سے نماز کیلئے نکلے اور فرمایا اے ابن عباس فجر کے پہلے کی دو رکعت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49؀ۧ ) 52- الطور:49 ) ہیں اور مغرب کے بعد کی دو رکعت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ 40؀ ) 50-ق:40 ) ہیں ۔ یہ اسی رات کا ذکر ہے جس رات حضرت عبداللہ نے تہجد کی نماز کی تیرہ رکعت آپ کی اقتداء میں ادا کی تھیں اور اس رات آپ کی خالہ حضرت میمونہ کی باری تھی ۔ لیکن اوپر جو بیان ہوا یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں ہاں اصل حدیث تہجد کی تو بخاری و مسلم میں ہے ۔ ممکن ہے کہ پچھلا کلام حضرت ابن عباس کا اپنا ہو ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 (فَنقبُوْفِی الْبِلَادِ ) (شہروں میں چلے پھرے) کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اہل مکہ سے زیادہ تجارت و کاروبار کے لئے مختلف شہروں میں پھرتے تھے۔ لیکن ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں پناہ اور راہ فرار نہ ملی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ قومیں اتنی طاقتور اور جنگجو تھیں کہ انہوں نے اپنے ملک پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا۔ بلکہ اردگرد کے بھی کئی ملکوں کو تاخت و تاراج کیا تھا۔ پھر جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں بھی پناہ کی جگہ نہ مل سکی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وکم اھلکنا قبلھم من قرب …:” فتقبوا “ نقب کا معنی سوراخ ہے۔” نقب (ن) فی الارض “ زمین میں گھوما پھرا۔ ” نقب تنقیباً “ (تفعیل) میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہے، خوب گھوما پھرا۔ نقب (سوراخ) کی مناسب سے ” فنقبوا فی البلاد “ کا ترجمہ کیا گیا ہے :” پس انہوں نے شہروں کو چھان مارا۔ “ اس سے پہلے کفار کو آخرت میں دیئے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا : درمیان میں ایمان والوں کے حسن انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب کفار کو دنیا میں دیئے جانے والے ہولناک عذابوں کا ذکر فرمایا۔ مقصود کفار کو ڈرانا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو تسلی دلانا ہے کہ وہ کفار کی شان و شوکت سے مرعوب نہ ہوں۔- (٢) یعنی ہم نے ان کفار سے پہلے بہت سی نسلیں ہلاک کردیں جو گرفت میں ان سے بہت سخت اور ان سے زیادہ قوت والی تھیں، جیسا کہق وم نوح ، عاد، ثمود اور قوم فرعون وغیرہ۔ تو ان کے مقابلے میں ان بےچ اورں کی کیا بساط ہے ؟ مزید دیکھیے سورة روم (٩) ۔- (٣) فنقبوا فی البلاد : یعنی وہ اہل مکہ سے تجارت اور ک اور بار میں بھی بہت آگے تھے، چناچہ انہوں نے اس مقصد کے لئے دنیا کے شہروں کو چھان مارا تھا۔ بعض اہل علم نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک ہی پر قوت و گرفت نہیں رکھتے تھے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی جا گھسے تھے۔- (٤) ھل من محیص :” محیص “” خاص یحیص حیصا “ سے ظرف ہے، بھاگنے کی جگہ۔ یعنی جب ان پر عذاب آیا تو وہ اس سے بھاگنے کی جگہ ڈھونڈتے پھرے کہ کیا بھاگنے کی کوئی جگہ ہے، مگر انہیں کہیں جائے پناہ نہ ملی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم ان (اہل مکہ) سے پہلے بہت سی امتوں کو ( ان کے کفر کی شامت سے) ہلا کرچکے ہیں جو قوت میں ان سے (کہیں) زیادہ تھے اور (دنیا کا سامان بڑھانے کے لئے) تمام شہروں کو چھانتے پھرتے تھے (یعنی قوت کے ساتھ اسباب معیشت میں بھی بڑی ترقی کی تھی، لیکن جب ہمارا عذاب نازل ہوا تو ان کو) کہیں بھاگنے کی جگہ بھی نہ ملی (یعنی کس طرح بچ نہ سکے) اس (واقعہ اہلاک) میں اس شخص کیلئے بڑی عبرت ہے، جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا (اگر فہیم نہ ہو تو کم از کم یہی ہو کہ) وہ (دل سے) متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو ( اور سننے کے بعد اجمالاً حقانیت کا معتقد ہو کر اس بات کو قبول کرلیتا ہو) اور (اگر قیامت کا انکار اس بنا پر ہے کہ تم اللہ کی قدرت کو اس سے قاصر سمجھتے ہو تو وہ اس لئے باطل ہے کہ ہماری قدرت ایسی ہے کہ) ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس سب کو چھ دن (کی مقدار کے موافق زمانہ) میں پیدا کیا اور ہم کو تکان نے چھوا تک نہیں (پھر آدمی کا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے، وھذا کقولہ تعالیٰ فی الاحقاف (آیت) اولم یرو ان اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض و لم یعی بخلقہن بقدر علی ان یحی الموتی۔ اور باوجود ان قاطع شبہات جوابوں کے یہ لوگ پھر انکار ہی پر اڑے ہیں) سو ان کی باتوں پر صبر کیجئے (یعنی رنج نہ کیجئے) اور چونکہ بدون اس کے کہ کسی طرف دل کو مشغول کیا جاوے وہ غم کی بات دل سے نہیں نکلتی اور بار بار یاد آ کر دل کو مخزون کرتی ہے، اس لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیے ( اس میں نماز بھی داخل ہے) آفتاب نکلنے سے پہلے (مثلاً صبح کی نماز) اور (اس کے) چھپنے سے پہلے (مثلاً ظہر و عصر) اور رات میں بھی اس کی تسبیح (وتحمید) کیا کیجئے (اس میں مغرب اور عشاء آگئیں) اور (فرض) نمازوں کے بعد بھی (اس میں نوافل و اوراد آگئے، حاصل یہ ہوا کہ ذکر اللہ میں اور اس کی فکر میں لے رہئے تاکہ ان کے اقوال کفریہ کی طرف دھیان ہی نہ ہوا)- معارف و مسائل - (آیت) فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ ۭ هَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ ، نقبو، تنقیب سے مشتق ہے، اس کے اصلی معنی سوراخ کرنے اور پھاڑنے کے ہیں، محاورات میں زمین میں دور دراز ملکوں تک پھرنے چلنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (ذکرہ فی القاموس)- اور محیص کے معنی جائے پناہ کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے کتنی قوموں اور جماعتوں کو ہلاک کردیا ہے جو قوت و طاقت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں اور جو مختلف ملکوں اور خطوں میں تجارت وغیرہ کے لئے پھرتی رہیں، مگر دیکھو کہ انجام کار ان کو موت آئی اور ہلاک ہوئیں کوئی خطہ زمین یا مکان ان کو موت سے پناہ نہیں دے سکا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ۝ ٠ ۭ ہَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ۝ ٣٦- كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو :- كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال :- وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - بطش - البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] . يقال : يد بَاطِشَة .- ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔- نقب - النَّقْبُ في الحائِطِ والجِلْدِ کا لثَّقْبِ في الخَشَبِ ، يقال : نَقَبَ البَيْطَارُ سُرَّةَ الدَّابَّةِ بالمِنْقَبِ ، وهو الذي يُنْقَبُ به، والمَنْقَبُ : المکانُ الذي يُنْقَبُ ، ونَقْبُ الحائط، ونَقَّبَ القومُ :- سَارُوا . قال تعالی: فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وکلب نَقِيبٌ: نُقِبَتْ غَلْصَمَتُهُ لِيَضْعُفَ صَوْتُه . والنَّقْبَة : أوَّلُ الجَرَبِ يَبْدُو، وجمْعُها : نُقَبٌ ، والنَّاقِبَةُ : قُرْحَةٌ ، والنُّقْبَةُ :- ثَوْبٌ كالإِزَارِ سُمِّيَ بذلک لِنُقْبَةٍ تُجْعَلُ فيها تِكَّةٌ ، والمَنْقَبَةُ : طریقٌ مُنْفِذٌ في الجِبَالِ ، واستُعِيرَ لفعل الکريمِ ، إما لکونه تأثيراً له، أو لکونه مَنْهَجاً في رَفْعِهِ ، والنَّقِيبُ : الباحثُ عن القوم وعن أحوالهم، وجمْعه : نُقَبَاءُ ، قال : وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] .- ( ن ق ب ) النقب - کے معنی دیوار یا چمڑے میں سوراخ کرنے کے ہیں اور ثقب کے معنی لکڑی میں سوراخ کرنے کے محاورہ ہے ۔ نقب البیطار سر ۃ الدابۃ بیطار نے جانور کی ناف میں منقب نشتر کے ساتھ سوراخ کردیا منقب سوراخ کرنے کی جگہ ۔ نقب الحائط دیوار میں تقب لگائی گئی نقب القوم قوم کا چلنا پھرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وہ شہروں میں گشت کرنے لگے کیا کہیں بھا گنے کی جگہ ہے کلب نقیب کتا جس کے گلے میں آواز کمزور کرنے کے لئے سوراخ کردیا گیا ہو ۔ النقبۃ ابتائی خارش ج نقب الناقبۃ ناسور زخم جو کئی روز تک ایک پہلو پر لیٹے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے النقبۃ ازار کی مثل ایک قسم کا کپڑا جس میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تکہ لگایا جاتا ہے المنقبۃ اصل میں پہاڑ کے درہ کو کہتے ہیں ۔ اور بطور استعارہ شر یفانہ کارنامہ کو منقبۃ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ اس کا اچھا اثر باقی رہ جاتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ بھی اس کی رفعت کے لئے بمنزلہ منہاج کے ہے ۔ النقیب کسی قوم کے حالات جاننے والا ج نقباء قرآن پاک میں ہے ۔ وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] اور ان میں ہم نے بارہ سر دار مقرر کئے ۔- بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔- حاص - قال تعالی: هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] ، وقوله تعالی: ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] ، أصله من حَيْص بيص أي : شدّة، وحَاصَ عن الحقّ يَحِيصُ ، أي : حاد عنه إلى شدّة ومکروه . وأمّا الحوص فخیاطة الجلد ومنه حصت عين الصّقر .- ( ح ی ص ) حاص - ( ض ) عن الحق کے معنی حق سے بھاگ کر شدت ومکروہ کی طرف جانے کے میں قرآن میں ہے : ۔ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] کہ کہیں بھاگنے کی جگہ ہی : ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] کوئی جگہ گریز اور رہائی ہمارے لئے نہیں ہے ۔ یہ اصل میں حیص وبیص سے ہے جس کے شدت اور سختی کے ہیں مگر الحوص ( وادی ) ہو تو اس کے معنی چمڑا سلنا ہوتے ہیں اور اسی سے حصت عین الصقر کا محاورہ ہے جس کے معنی صقرۃ کی آنکھیں سی دینے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم آپ کی قوم سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جو قوت میں آپ کی قوم سے کہیں زیادہ تھے اور اپنی تجارتوں کے سلسلہ میں تمام شہروں کا سفر کرتے اور ان کو چھانتے پھرتے تھے۔- لیکن جب ہمارا عذاب ان پر نازل ہوا تو انہیں کوئی جائے پناہ اور بھاگنے کی جگہ تک نہ ملی یا یہ کہ ان میں سے کیا کوئی باقی رہا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَـبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشًا فَنَقَّــبُوْا فِی الْبِلَادِ ط ہَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ ۔ ” اور کتنی ہی قوموں کو ہم نے ان سے پہلے ہلاک کیا ہے جو قوت میں ان سے بڑھ کر تھیں ‘ سو انہوں نے ملکوں کے ملک فتح کیے پھر کیا وہ کوئی جائے فرار پا سکے ؟ “- نَقَبَ کا معنی ہے نقب لگانا ‘ یعنی دیوار میں سوراخ کرنا ‘ جبکہ نَقَّبَ فِی الْاَرْضِ (باب تفعیل) کا مفہوم ہے : بھاگ دوڑ کرتے ہوئے کسی ملک میں جا گھسنا ‘ یعنی کسی علاقے کو فتح کرلینا۔ وہ لوگ اتنے زور آور تھے کہ اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں گھستے چلے گئے اور ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے ‘ لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی تو انہیں بھاگنے کو جگہ نہ ملی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :46 یعنی صرف اپنے ملک ہی میں وہ زور آور نہ تھیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی وہ جا گھسی تھیں اور ان کی تاخت ( طاقت ) کا سلسلہ روئے زمین پر دور دور تک پہنچا ہوا تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :47 یعنی جب خدا کی طرف سے ان کی پکڑ کا وقت آیا تو کیا ان کی وہ طاقت ان کو بچا سکی؟ اور کیا دنیا میں پھر کہیں ان کو پناہ مل سکی؟ اب آخر تم کس بھروسے پر یہ امید رکھتے ہو کہ خدا کے مقابلے میں بغاوت کر کے تمہیں کہیں پناہ مل جائے گی؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: یعنی ان کی خوش حالی کا عالم یہ تھا کہ وہ تجارت اور سیاحت کے لیے شہر شہر گھومتے تھے۔ اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے عذاب سے بچنے کے لیے مختلف بستیوں میں بہت ہاتھ پاؤں مارے، لیکن عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکے۔