Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی دل بیدار، جو غور و فکر کر کے حقائق کا ادراک کرلے۔ 37۔ 2 یعنی توجہ سے وہ وحی الٰہی سنے جس میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ 37۔ 3 یعنی قلب اور دماغ کے لحاظ سے حاضر ہو۔ اس لئے کہ جو بات ہی کو نہ سمجھے، وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے ہے جیسے نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] یعنی ہدایت اور نصیحت کے حصول کے لئے دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے یا تو وہ خود اتنی عقل اور سمجھ رکھتا ہو کہ اقوام سابقہ کے حالات سن کر ان سے کوئی صحیح نتیجہ اخذ کرسکے یا اگر کوئی دوسرا اسے سمجھائے تو پوری توجہ سے سننے کے لئے تیار ہو۔ اور جس شخص میں یہ دونوں باتیں نہ ہوں اس کا کسی واقعہ سے سبق حاصل کرنا محال ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب …:” قلب “ نکرہ ہے، اس لئے ترجمہ ” کوئی دل “ کیا گیا ہے۔ نصیحت حاصل کرنے کے دو ہی ذریعے ہیں، یا تو آدمی خود غور و فکر کرے اور عقل سے کام لے یا کسی خیر خواہ کی بات توجہ سے سن کر اس پر عمل کرلے۔ یعنی اس سورت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے نصیحت ویہ حاصل کرسکتا ہے جو کوئی دل رکھتا ہو جس کے ساتھ اس پر غور و فکر کرے۔” کوئی دل “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دل کے ساتھ معلولی سا غور و فکر بھی کرے، یا دل کی حاضری کے ساتھ ان آیات کو سن لے۔ مگر کفار کی حال یہ ہے :(لھم قلوب لایفقھون بھا ، ولھم اعین لایبصرون بھا ولھم اذان لایسمعون بھا) (الاعراف : ١٨٩)” ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں۔ “ اور قیامت کے دن وہ خود تسلیم آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں۔ “ اور قیامت کے دن وہ خود تسلیم کریں گے :(لوکنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحب السعیر) (الملک : ١٠)” اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوئے تو ہم بھڑکتلی ہوئی آگ والوں میں سے نہ ہوتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حصول علم کے دو طریقے :- (آیت) لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہاں قلب سے مراد عقل ہے چونکہ عقل کا مرکز قلب ہی ہے اس لئے اس کو قلب سے تعبیر کردیا گیا، بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں قلب سے مراد حیات ہے، وہ بھی اسی لئے کہ حیات کا مدار قلب ہے، معنی آیت کے یہ ہوئے کہ اس سورت قرآن میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے نصیحت و عبرت کا فائدہ اسی شخص کو پہنچ سکتا ہے جس میں عقل ہو یا زندگی ہو بےعقل یا مردے کو کیا فائدہ پہنچے گا۔- (آیت) اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ، القاء سمع کے معنی کسی بات کی طرف کان لگانے کے آتے ہیں شہید بمعنی حاضر، معنی یہ ہیں کہ آیات مذکورہ کا فائدہ دو شخصوں کو پہنچتا ہے، ایک وہ جو خود عقل رکھتا ہے، اپنی عقل سے ان سب مضامین کی تصدیق کرتا ہے، یا پھر وہ آدمی جو آیات الٰہیہ کو کان لگا کر سنے اور اس طرح سنے کہ وہ خود حاضر بھی ہو یعنی ایسا نہ ہو کہ کان تو سن رہے ہیں دل حاضر نہیں ہے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ پہلی قسم کا ملین امت کی ہے اور دوسری ان کے متبعین اور مریدین مخلصین کی جو ان کے اعتقاد سے دین کی باتیں مان لیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَہُوَشَہِيْدٌ۝ ٣٧- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہلاک ہونے والوں کے اس واقعہ میں آپ کی قوم کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس فہیم دل ہو یا وہ کم از کم دل سے متوجہ ہو کر قرآن کریم سننے کی طرف کان ہی لگا دیتا ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَـہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْــقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ ۔ ” یقینا اس میں یاد دہانی ہے اس کے لیے جس کا دل ہو یا جو توجہ سے سنے حاضر ہو کر۔ “- اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کا بہت اہم مقام ہے۔ یاد دہانی کے حوالے سے اس آیت میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہوا ہے۔ یہ یاد دہانی یا تو ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو ” دل “ رکھتے ہیں ‘ یا پھر وہ جو پوری توجہ سے اس کو سنیں۔ گویا یہاں قرآن کی ہدایت تک پہنچنے کے دو الگ الگ طریقوں اور راستوں ( ) کا ذکر ہے۔ ایک ان لوگوں کا راستہ ہے جو دل رکھتے ہیں۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جن کی روح زندہ ہے۔ روح کا مسکن چونکہ قلب انسانی ہے اس لیے جس انسان کی روح زندہ ہوگی اس کا دل بھی زندہ ہوگا۔ ایسے دل کو دلِ بیدار ‘ دلِ زندہ یا قلب ِسلیم کہا جاتا ہے۔ میر درد ؔنے اپنے اس شعر میں دل کی اسی ” زندگی “ کا ذکر کیا ہے : ؎- مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے - کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے - (١)- چنانچہ ایک زندہ دل شخص جب قرآن سنے گا تو اس شخص کی روح یوں لپک کر قرآنی پیغام تک پہنچ جائے گی جیسے پٹرول دور سے آگ پکڑ لیتا ہے۔ اس کیفیت کو سورة النور کی آیت ٣٥ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِٹٓیْئُ وَلَـوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَـارٌط (النور : ٣٥) ” قریب ہے کہ اس کا روغن خود بخود روشن ہوجائے ‘ چاہے اسے آگ نے ابھی چھوا بھی نہ ہو “۔ گویا ایک پاکیزہ روح نور وحی تک پہنچنے کے لیے بےقرار ہوتی ہے۔ بقولِ اقبال : ؎- مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز - تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز - نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے - طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے - حافظ ابن قیم (رح) نے اس بارے میں بڑی خوبصورت بات لکھی کہ بہت سے لوگ قرآن کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں جیسے قرآن ان کے دل پر نقش ہے اور وہ اس کی عبارت کو مصحف سے نہیں بلکہ اپنی لوح قلب سے پڑھ رہے ہیں۔ یعنی سلیم الفطرت لوگوں کی ارواح کو قرآن حکیم کے ساتھ خصوصی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کی روحوں میں ایک مانوس قسم کا ارتعاش ( ) پیدا ہوتا ہے۔ گویا ان کی ارواح قرآنی الفاظ و آیات کے ساتھ پہلے سے ہی مانوس ہیں۔ بقول غالبؔ ؎- دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا - میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے - ایسے لوگوں کو قرآن کی ہدایت تک پہنچنے کے لیے کسی مہلت یا تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قبول حق میں ایک لمحے کا توقف بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جن کی ارواح پر غفلت اور مادیت کے پردے پڑچکے ہوں ‘ ان کے لیے اس آیت میں دوسرا طریقہ بتایا گیا ہے : اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ ۔ یعنی ان لوگوں کو خصوصی توجہ کے ساتھ محنت کرنا ہوگی ‘ تب کہیں جا کر ” گوہر مقصود “ تک ان کی رسائی ہوگی۔ مطالعہ قرآن کے ہمارے منتخب نصاب میں ایمان کی بحث کے تحت دو دروس (درس ٦ اور ٧) ایسے ہیں جو انہی دو طریقوں کی الگ الگ نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں پہلا درس سورة آل عمران کی آیات ١٩٠ تا ١٩٥ پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں آیات آفاقی کے مشاہدے کی بنیاد پر تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے :- اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ ِلّاُولِی الْاَلْبَابِ (رض) الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ - ” یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں ہوش مند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ‘ کھڑے بھی ‘ بیٹھے بھی اور اپنے پہلوئوں پر بھی اور مزید غور و فکر کرتے رہتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں۔ اے ہمارے ربّ تو نے یہ سب کچھ بےمقصد تو پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک ہے (اس سے کہ کوئی عبث کام کرے) ‘ پس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا “ - لیکن یہ تفکر و تدبر تب نتیجہ خیز ہوگا جب اس کے ساتھ اللہ کے ذکر کا بھی اہتمام کیا جائے گا ۔ گویا ایمان و ہدایت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ذکر اور فکر دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا ‘ جیسا کہ اقبال ؔنے کہا ہے ؎- فقر ِقرآں اختلاطِ ذکر و فکر - فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر - جز بہ قرآں ضیغمی روباہی است - فقر ِقرآں اصل شاہنشاہی است - یعنی فقر قرآن تو ذکر اور فکر کے امتزاج کا نام ہے جبکہ میں ذکر کے بغیر فکر کو ناقص اور نامکمل دیکھتا ہوں۔ اگر کوئی شیر بھی ہو تو قرآن کے بغیر وہ لومڑی کی طرح ہوگا ‘ اصل شہنشاہ تو وہ ہے جسے فقر قرآنی مل گیا۔ - اس ضمن میں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذکر اور فکر کے الگ الگ حلقے بن چکے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے کے لوگ اپنے طور طریقوں میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں دوسروں سے کچھ سروکار نہیں۔ ایک طرف مفکرین ہیں جو فلسفہ وفکر پر بڑی بڑی کتابیں رقم کر رہے ہیں ‘ کیسی کیسی تفسیریں لکھتے جاتے ہیں ‘ مگر وہ ذکر کی لذت سے بالکل ناآشنا ہیں۔ دوسری طرف ذاکرین ہیں جو ذکر کی روح پرور محفلیں سجاتے ہیں لیکن انہیں فکر و تدبر سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ظاہر ہے گاڑی کے ان دونوں پہیوں میں ہم آہنگی ہوگی تو امت کا قافلہ منزل کی طرف گامزن ہوگا ۔ بہرحال سورة آل عمران کی مذکورہ آیات میں ذکر و فکر کے ذریعے ہدایت کی ” منزل مقصود “ تک پہنچنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ‘ جبکہ دوسرے طریقے کی نشاندہی سورة النور کے پانچویں رکوع (منتخب نصاب کے درس ٧) میں کی گئی ہے کہ اپنے قلب کو صاف کر لیجیے ‘ اس کی تمام کدورتیں دور کردیجیے تو اس کے آئینے میں قرآن خود بخود منعکس ہو کر اسے منور (نُورٌ عَلٰی نُور) کر دے گا اور یوں نور فطرت اور نور وحی کے امتزاج سے نور ایمان کی تکمیل ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :48 بالفاظ دیگر جو یا تو خود اپنی گرہ کی اتنی عقل رکھتا ہو کہ صحیح بات سوچے ، یا نہیں تو غفلت اور تعصب سے اتنا پاک ہو کہ جب دوسرا کوئی شخص اسے حقیقت سمجھائے وہ کھلے کانوں سے اس کی بات سنے ۔ یہ نہ ہو کہ سمجھانے والے کی آواز کان کے پردے پر سے گزر رہی ہے اور سننے والے کا دماغ کسی اور طرف مشغول ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani