Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] یہود و نصاریٰ کا اللہ تعالیٰ پر الزام ساتویں دن آرام کیا :۔ یہ یہود و نصاریٰ کا اللہ تعالیٰ پر من گھڑت الزام ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اور بائیبل میں اب بھی کتاب پیدائش (٢: ٢) میں ایسی عبارت موجود ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ہی جیسا سمجھ لیا کہ جیسے ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی تھک گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی یا کسی اور چیز کی مثل قرار دینا ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ اس آیت میں ان کے اسی الزام کی تردید کی گئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد خلقنا السموت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام…: قیامت کی دلیل کے طور پر آسمان و زمین کی پیدا کرنے کا دوبارہ ذکر فرمایا کہ بلاشبہ یقینا ہم نے یہ سارے آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کئے اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے چھوا تک نہیں، تو ہم انسان کو دوبارہ کیوں زندہ نہیں کرسکتے ؟ یہی بات پہلے فرمائی تھی :(افعیینا بالخلق الاول) (ق : ١٥)” تو کیا ہم پہلی دفعہ پیدا کرنے کیساتھ تھک کر رہ گئے ہیں ؟ “ دوبارہ اس لئے ذکر فرمائی کہ بار بار دہرانے سے بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔- (٢) وما مسنا من لغوب : اس میں یہود و نصاری کا رد بھی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ کتاب مقدس میں تورات کے سفر التکوین (٢: ٢) کے الفاظ ہیں : ” فاستراح فی الیوم السابع “ یعنی ” ساتویں دن میں آرام کیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ۝ ٠ ۤ ۖ وَّمَا مَسَّـنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۝ ٣٨- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - لغب - اللُّغُوبُ : التّعب والنصب . يقال : أتانا ساغبا لَاغِباً أي : جائعا تعبا . قال : وَما مَسَّنا مِنْ لُغُوبٍ [ ق 38] . وسهم لَغِبٌ: إذا کان قذذه ضعیفة، ورجل لَغِبٌ: ضعیف بيّن اللَّغَابَةِ. وقال أعرابيّ : فلان لَغُوبٌ أحمق، جاء ته کتابي فاحتقرها . أي : ضعیف الرّأي، فقیل له في ذلك : لم أنّثت الکتاب وهو مذكّر ؟ فقال : أولیس صحیفة - ( ل غ ب ) اللغوب کے معنی بہت زیادہ درماندہ ہونے اور تھک جانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : وہ ہمارے پاس بھوکا اور تھکاہا را ہوکر پہنچا ۔ قرآن میں ہے : وَما مَسَّنا مِنْ لُغُوبٍ [ ق 38] اور ہم کو ذر ا بھی تکان محسوس نہیں ہوئی ۔ سھم لغیب ۔ وہ تیر جس کے پر کمزور ہوں ۔ رجل لغب کاہل اور کمزور رائے آدمی ۔ ایک اعرابی کا قول ہے ۔ فلان لغوب احمق جاء تہ کتابی فاحتقرہ کہ فلان شخص بڑا بیوقوف اور احمق ہے کہ اس نے میرے خط کو حقیر سمجھا یہاں لغوب کے معنی کمزور رائے آدمی کے ہیں ۔ اسپر اعرابی سے کسی نے سوال کیا کہ کتاب تو مذکر ہے پھر جاء تہ کیوں کہا تو اس نے جواب دیا الیس الکتاب بصحیفۃ کہ کیا کتاب بھی ایک صحیفہ نہیں ہے ( اور صحیفہ مونث ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوق کو چھ دن کی مقدار کے موافق زمانہ میں پیدا کیا ہر ایک دن ان ایام کے مطابق ہزار سال کے برابر تھا اول ان دنوں میں اتوار اور آخری جمعہ کا دن تھا اور ہمیں تھکاوٹ نے چھوا تک نہیں۔- جیسا کہ اللہ کے دشمن یہودی اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے کہ معاذ اللہ جب اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے فارغ ہوا تو اس نے ایک پیرو دوسرے پیر پر رکھا اور ہفتہ کے دن آرام کیا۔- شان نزول : وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (الخ)- امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے انہوں نے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے بارے میں دریافت کیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اتوار اور پیر کے دن زمین پیدا فرمائی اور منگل کے دن پہاڑوں کو اور جو کچھ ان میں منافع ہیں ان سب کو پیدا کیا اور بدھ کے دن درختوں اور پانی اور شہروں اور آبادیوں اور ویران مقامات کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن آسمانوں کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن کی جو تین ساعتیں باقی رہ گئی تھیں اس میں ستاروں، چاند، سورج اور فرشتوں کو پیدا کیا۔ چناچہ جمعہ کی پہلی ساعت میں مدتوں کو پیدا کیا تاکہ جسے مرنا تھا وہ مرگیا اور دوسری ساعت میں تمام ان چیزوں پر جن سے انسان فائدہ حاصل کرتے ہیں، آفتوں کو ڈالا اور تیسری ساعت میں آدم کو پیدا فرمایا اور ان کو جنت میں سکونت عطا کی اور ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس آخری ساعت میں ان کو جنت سے نکالا یہ سن کر یہود بولے محمد پھر کیا ہوا، آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہوا، یہودی بولے آپ نے صحیح فرمایا اگر آپ پوری بات بیان کرتے اور بولے کہ معاذ اللہ پھر اللہ تعالیٰ نے آرام فرمایا یہ سن کر رسول اللہ بہت سخت غصہ ہوئے اس پر یہ آیت مبا کہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ق ” اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے پیدا کیا چھ دنوں میں۔ “- وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّــغُوْبٍ ۔ ” اور ہم پر کوئی تکان طاری نہیں ہوئی۔ “- یہ مضمون موجودہ تورات میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کر کے تھکن دور کی۔ اسی وجہ سے یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں ” ویک اینڈ “ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن کام کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کیا تھا ‘ لہٰذا تم لوگ بھی چھ دن کام کر کے ساتویں دن آرام کرو۔ اس آیت میں دراصل تورات کے اس تصور کی نفی کی گئی ہے۔ چناچہ اسلام میں ” ویک اینڈ “ کا کوئی تصور نہیں۔ اس حوالے سے یہ تاریخی حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ اصل تورات بخت نصر کے حملے میں گم ہوگئی تھی اور دوبارہ اس کو یادداشت کی مدد سے مرتب کیا گیا تھا۔ مرتبین چونکہ عام انسان تھے ‘ نبی نہیں تھے ‘ اس لیے ان کی یادداشتوں نے ٹھوکریں کھائیں اور بہت سی غلط باتیں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :49 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ حٰم السجدہ ، حواشی نمبر 11 تا 15 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani