Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے، جس نے آواز دی ہوگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا۔ انا اول من تشق عنہ الارض۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] جس طرح زمین پھٹ جاتی ہے اور پودے کی کونپل زمین کو چیر کر اور پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ اسی طرح اس دن زمین پھٹ جائے گی اور پودوں کی طرح انسان زمین سے اگتے اور باہر نکلتے چلے آئیں گے۔ ان کی فوراً نشوونما ہوتی چلی جائے گی پھر وہ اضطراراً اللہ کے دربار کی طرف دوڑ پڑیں گے جس میں ان کی اپنی مرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔- [٥١] نباتات اور انسان کی پیدائش میں مماثلت کے پہلو :۔ اللہ تعالیٰ نے بیشمار مقامات پر نباتات کے زمین سے نکلنے اور مردہ انسانوں کے زمین سے نکلنے کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نباتات کے اگنے کی نسبت انسان کا زمین سے اگ آنا یا نکل آنا زیادہ آسان ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نباتات کا اگنا ہر وقت ہمارے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ لہذا ہم اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور مردوں کا اگنا چونکہ ہمارے مشاہدہ میں نہیں آیا لہذا کافر اس کا انکار کردیتے ہیں اور غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ گویا دونوں مقامات پر اصل کمی غور و فکر کی ہے۔ اب میں اس بات کو ایک مثال سے سمجھاؤں گا۔ فرض کیجئے ایک باغ میں یا ایک ہی قطعہ زمین میں چند میٹھے پھلوں مثلاً انار، آم، سیب کے درخت یا انگور کی بیلیں ہیں اور اسی قطعہ زمین میں چند کڑوے درخت یا بیلیں مثلاً نیم کا درخت یا کریلے کی بیل یا تھوہر کا پودا ہے۔ اب بارش اور مناسب آب و ہوا ملنے پر ہر درخت اور پودا اپنے بیج سے تعلق رکھنے والے اجزاء ہی زمین سے کھینچے گا اور زمین ویسے ہی اجزاء اسے مہیا کرے گی دوسرے نہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ انار کے درخت میں انگور کے اجزاء اور شیرینی مل جائے، یا انار کے درخت میں کریلے کی کڑواہٹ کا بھی کوئی جز شامل ہوجائے۔ نہ ہی یہ ہوسکتا ہے کہ انگور کی بیل میں کچھ تھوڑے سے کریلے کے اجزاء اور کرواہٹ بھی شامل ہوجائے۔ یہی صورت انسان کی دوبارہ پیدائش یا زمین سے اگ آنے یا نکل آنے کی ہے۔ اس کا اصل بیج یعنی روح تو اللہ کے پاس پہلے ہی موجود ہے۔ اور مادی بیج بھی زمین میں محفوظ رہتا ہے اسے زمین کھا نہیں سکتی اور وہ عجب الذنب کا حصہ وہ ہے جو انسان کا مادی بیج ہے اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اب ہر انسان کا بیج زمین سے وہی اجزاء اپنی طرف کھینچے گا اور زمین اسے وہی اجزاء مہیا کرے گی جو اس کے بیج سے تعلق رکھتے ہیں زید کے جسم کے اجزاء بکر کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتے اور نہ بکر کے اجزاء عمر کے جسم میں جاسکتے ہیں۔ اور انسانوں کا زمین سے اگنا نباتات سے بھی آسان اس لحاظ سے ہے کہ نباتات کی تقریباً پندرہ لاکھ انواع آج تک دریافت ہوچکی ہیں لیکن قیامت کو صرف دو انواع جن اور انسان زمین سے اگیں گی۔ اِلا یہ کہ کوئی اور چیز بھی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یوم تشقق الارض عنھم سراعاً ” سراعا “ ” سریع “ کی جمع ہے۔ ” یوم “ ” الینا المصیر “ کا ظرف ہے، یعنی ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اس دن جب زمین ان سے پھٹے گی اور وہ اس سے نکل کر تیزی سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے۔- (٢) ذلک حشر علینا یسیر : یہ کفار کی اس بات کا جواب ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوچکے تو کیا اس وقت ہمیں زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ؟ یہ تو عقل سے بعید اور ناممکن ہے۔ فرمایا یہ حشر یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو ایک آواز کے ساتھ اکٹھا کرلینا ہمارے لئے بالکل آسان ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا (یعنی جب زمین پھٹ کر یہ سب مردے نکل آویں گے اور دوڑتے ہوں گے) حدیث سے معلوم ہے کہ یہ دوڑنا ملک شام کی طرف ہوگا، جہاں صخرہ بیت المقدس پر اسرافیل (علیہ السلام) ندا کرتے ہوں گے۔- جامع ترمذی میں حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست مبارک سے ملک شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ - من ھھنا الی ھھنا تحشرون رکبانا و مشاة وتجرون علیٰ وجوھکم یوم القیمة الحدیث (ازقرطبی )- ” یہاں سے اس طرف (یعنی شام کی طرف) تم سب اٹھائے جاؤ گے کچھ لوگ سوار کچھ پیدا اور بعض کو چہروں کے بل گھسیٹ کر قیامت کے روز اس میدان میں لایا جائے گا “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ۝ ٤٤- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] - ( ش ق ق ) الشق - ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شففتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جس روز زمین ان پر سے کھل جائے گی اور وہ سب قبروں سے دوڑتے ہوں گے یہ جمع کرلینا ہمارے لیے آسان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًاط ” جس دن زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور وہ تیزی سے نکل پڑیں گے۔ “- ذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ ۔ ” یہ (سب کا) جمع کردینا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :54 یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر 3 میں نقل کی گئی ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا کہ جب ہم مر کر خاک ہو چکے ہوں اس وقت ہمیں پھر سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے ، یہ واپسی تو بعید از عقل و امکان ہے ۔ ان کی اسی بات کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حشر ، یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کر لینا ہمارے لیے بالکل آسان ہے ۔ ہمارے لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ کس شخص کی خاک کہاں پڑی ہے ہمیں یہ جاننے میں بھی کوئی دقت نہیں پیش آئے گی کہ ان بکھرے ہوئے ذرات میں سے زید کے ذرات کون سے ہیں اور بکر کے ذرات کون سے ۔ ان سب کو الگ الگ سمیٹ کر ایک ایک آدمی کا جسم پھر سے بنا دینا ، اور اس جسم میں اسی شخصیت کو از سر نو پیدا کر دینا جو پہلے اس میں رہ چکی تھی ، ہمارے لیے کوئی بڑا محنت طلب کام نہیں ہے ، بلکہ ہمارے ایک اشارے سے یہ سب کچھ آناً فاناً ہو سکتا ہے ۔ وہ تمام انسان جو آدم کے وقت سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ہمارے ایک حکم پر بڑی آسانی سے جمع ہو سکتے ہیں ۔ تمہارا چھوٹا سا دماغ اسے بعید سمجھتا ہو تو سمجھا کرے ۔ خالق کائنات کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani