Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ایمان لانے پر مجبور کریں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔ 45۔ 2 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ذکر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی سزا کی دھمکیوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوگا اسی لئے حضرت قتادہ یہ دعا فرماتے اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے کر جو تیری وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرمانے والے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اس جملہ میں آپ کے لئے تسلی بھی ہے اور کفار مکہ کے لئے وعید اور دھمکی بھی۔- [٥٣] یعنی آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ زور اور زبردستی سے کسی کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ آپ کا کام اتنا ہی ہے کہ لوگوں کو یہ قرآن سنا سنا کر نصیحت کیا کیجئے پھر جس کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہوگا وہ تو یقیناً اس نصیحت کو قبول کرلے گا اور جو لوگ قرآن سننا بھی گوارا نہ کریں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد اور آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) نحن اعلم بما یقولون : یہ جملہ کافر کے لئے وعید اور دھمکی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہے۔- (٢) وما انت علیھم بجبار : یعنی آپ کا کام یہ نہیں کہ انہیں زبردستی مسلمان بنالیں، آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :(انما انت مذکر، لست علیھم بمصیطر) (الغاشیۃ : ٢١، ٢٢)” تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۔ تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔ “- (٣) فذکر بالقرآن من یخاف وعید :” وعید “ اصلمیں ” وعیدی “ ہے، میری وعید۔ اس کا مططل یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو صنیحت نہ کریں، بلکہ مطلب یہ ہے ہ آپ کی نصیحت سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو میری وعید سے ڈرتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب و اقاموا الصلوۃ) (فاطر : ١٨)” تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے۔ جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَذَكِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ (یعنی آپ تذکیر و نصیحت فرمایئے قرآن سے اس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہے) مطلب یہ ہے کہ آپ کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت اگرچہ عام ہی ہوگی سبہی مخلوق اس کی مخاطب اور مکلف ہوگی، مگر اس کا اثر قبول وہی کرے گا جو اللہ کے عذاب اور وعید سے ڈرتا ہے۔- حضرت قتادہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا مانگتے تھے - اللھم اجعلنا ممن یخاف و عیدک ویرجوا موعودک یا بار یا رحیم - ” یعنی یا اللہ ہمیں ان لوگوں میں داخل فرما دیئے جو آپ کی وعید عذاب سے ڈرتے ہیں اور آپ کے وعدے کے امیدوار ہیں، اے وعدہ پورے کرنے والے اے رحمت والے “- تمت - سورة ق بعون اللہ سبحانہ فی ستة ایام من ثانی عشر - ربیع الاول الیٰ سابع عشر ربیع الاول یوم الخمسیس - وللہ الحمد و ھو المستعان فی تکمیل الباقی و ما ذلک - علی اللہ بحزیز

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِجَبَّارٍ۝ ٠ ۣ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۝ ٤٥ ۧ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- جبر - أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، - والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] - ( ج ب ر ) الجبر - اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ - ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - وعید - . ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق 45] - ( وع د ) الوعید - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روڈ میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید ست ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو ۔ - ركوع نمبر 18- سورة الذریات پاره 26

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو کچھ یہ لوگ حیات بعد الموت کے بارے میں یا یہ کہ دنیا میں کرتے ہیں ہم اس کو خوب جانتے ہیں اور آپ ان پر ایمان لانے پر جبر کرنے والے نہیں بھیجے گئے اب اس کے بعد کفار سے قتال کا حکم دیا ہے کہ آپ قرآن کریم کے ذریعے سے ایسے شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہو اور جو نہ ڈرتا ہو نصیحت کرتے رہیے کیونکہ آپ کی نصیحت ایسا ہی شخص قبول کرے گا جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔- شان نزول : فَذَكِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ (الخ)- اور ابن جریر نے عمرو بن قیس کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ کچھ ہمیں آخرت سے ڈراتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی نیز عمرو سے مرسلا اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَـقُوْلُوْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ کہہ - رہے ہیں “- وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍقف ” اور آپ ان پر کوئی زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔ “- آپ کا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اختیار کے ساتھ نہیں بھیجا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں زبردستی حق کی طرف لے آئیں۔- فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ۔ ” پس آپ تذکیر کرتے رہیے اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہے۔ “- جس شخص کی روح مردہ نہ ہوچکی ہوگی اور اس میں تھوڑی سی بھی جان ہوگی اور جس کے اندر اخلاقی حس دم نہ توڑ چکی ہوگی اور بھلائی کی معمولی سی رمق بھی باقی ہوگی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر قرآن کی تذکیر اور یاد دہانی سے ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ یہاں پر فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ کے الفاظ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ و تذکیر ‘ انذار وتبشیر اور لوگوں کے تزکیہ نفس کا ذریعہ قرآن ہی کو بنائیں۔ اس حکم کے مقابلے میں آج امت ِمسلمہ کی مجموعی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود کو قرآن سے بالکل ہی بےنیاز کرلیا ہے اور دعوت و تبلیغ ‘ وعظ و نصیحت اور تربیت و تزکیہ کے دیگر ذرائع اختیار کرلیے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :55 اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو ، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان سے نمٹنا ہمارا کام ہے ۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے ۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :56 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا ۔ بلکہ در اصل یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے ۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے ۔ اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوائے ۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جائے اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کریں۔ آپ کا فریضہ صرف یہ ہے کہ نصیحت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ جس کے دل میں کچھ خدا کا خوف ہوگا، وہ آپ کی بات مان لے گا، اور جو نہ مانے، اس کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔