Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191آخرت کی شراب میں سرور اور لذت تو یقینا ہوگی لیکن یہ خرابیاں مثلاً مدہوشی عقل میں فتور نہیں ہوگا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] شراب کے نقصانات اور فائدے :۔ دنیا کی شراب میں خرابیاں یہ ہوتی ہے کہ اس کا مزہ تلخ محسوس ہوتا ہے۔ بو ناگوار ہوتی ہے، پینے سے سر چکرانے لگتا ہے اور بعض دفعہ سر درد بھی شروع ہوجاتا ہے۔ عقل میں فتور آجاتا ہے اور شراب پینے والا اول فول بکنے لگتا ہے اور بعض دفعہ ناشائستہ حرکات اور گناہ کے کام بھی کر بیٹھتا ہے اور ان سب قباحتوں کے عوض اسے فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ کچھ وقت کے لیے اسے سرور حاصل ہوتا ہے اور غم غلط ہوجاتا ہے۔ جنت کی شراب میں یہ فائدہ تو بدرجہ اتم موجود ہوگا لیکن قباحت کی سب باتوں سے یکسر پاک ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ :” الصداع “ دردسر کو کہتے ہیں،” صد ع و صدع فلان “ ( مجہول) اسے درد سر ہوگیا ۔” ینزفون “ سورة ٔ صافات (٤٧) ک میں ” زائ “ کے فتحہ کے ساتھ مضارع مجہول ہے ، یہاں ” زائ “ کے کسرہ کے ساتھ مضارع معلوم ہے۔” نزف ماء البئر “ کنویں کا سارا پانی نکال لیا گیا ۔ ” نزف الرجل “ آدمی کی عقل جاتی رہی وہ نشے میں مدہوش ہوگیا ۔” انزف الرجل “ آدمی کے پاس کوئی چیز باقی نہ رہی ۔ اس کی عقل جاتی رہی ، نشے میں مدہوش ہوگیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” ینزفون “ معروف و مجہول دونوں کا معنی نشے میں بےہوش ہونا اور عقل کا مارا جانا ہے۔ تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٤٧)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَّا يُصَدَّعُوْنَ ، صداع سے مشتق ہے جس کے معنی درد سر کے ہیں، دنیا میں شراب زیادہ پینے سے سر میں درد اور چکر جیسے ہوتے ہیں، جنت کی یہ شراب اس سے پاک ہوگی۔ لَا يُنْزِفُوْنَ ، نزف کے اصلی معنی کنویں کا تمام پانی سینچ لینے کے ہیں، یہاں مراد عقل سے خالی ہوجانا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝ ١٩ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- صدع - الصَّدْعُ : الشّقّ في الأجسام الصّلبة کالزّجاج والحدید ونحوهما . يقال : صَدَعْتُهُ فَانْصَدَعَ ، وصَدَّعْتُهُ فَتَصَدَّعَ ، قال تعالی: يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] ، وعنه استعیر :- صَدَعَ الأمرَ ، أي : فَصَلَهُ ، قال : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] ، وکذا استعیر منه الصُّدَاعُ ، وهو شبه الاشتقاق في الرّأس من الوجع . قال : لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ- [ الواقعة 19] ، ومنه الصَّدِيعُ للفجر «1» ، وصَدَعْتُ الفلاة : قطعتها «2» ، وتَصَدَّعَ القومُ أي : تفرّقوا .- ( ص د ع ) الصدع - کے معنی ٹھوس اجسام جیسے شیشہ لوہا وغیرہ میں شگاف ڈالنا کے ہیں ۔ صدع ( ف) وصدع متعدی ہے اور انصدع وتصدع لازم اسی سے استعارہ کے طور پر صدع الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے ظاہر اور واضح کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ) ملا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اور اسی سے صداع کا لفظ مستعار ہے جس کے معنی دوسرے کے ہیں جس سے گویا سر پھٹا جارہا ہو۔ قرآن میں ہے ؛لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] اس سے نہ تو دروسر ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی ۔ اور اسی سے صدیع بمعنی فجر ہے ۔ اور صدعت الفلاۃ کے معنی بیاباں طے کرنے کے ہیں ۔ تصدع القوم لوگ منتشر ہوگئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] اس روز ( سب لوگ ) الگ الگ ہوجائیں گے ۔- - نزف - نَزَفَ الماء : نَزَحَهُ كلَّه من البئر شيئا بعدَ شيء، وبئر نَزُوفٌ: نُزِفَ ماؤه، والنُّزْفَة : الغَرْفة، والجمع النُّزَف، ونُزِفَ دَمُهُ ، أو دَمْعُهُ. أي : نُزِعَ كلّه، ومنه قيل : سَكْران نَزِيفٌ: نُزِفَ فَهْمُهُ بسُكْره . قال تعالی: لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] وقرئ : ينزفون من قولهم : أَنْزَفُوا : إذا نَزَفَ شرابُهم، أو نُزِعَتْ عقولُهم . وأصله من قولهم : أَنْزَفُوا . أي : نَزَفَ ماءُ بئرهم، وأَنْزَفْتُ الشیءَ : أبلغُ من نَزَفْتُهُ ، ونَزَفَ الرجلُ في الخصومةِ : انقطعت حُجَّتُه، وفي مَثَلٍ : هو أَجْبَنُ مِنَ المَنْزُوفِ ضَرِطاً - ( ن ز ف ) نزف المآء کے معنی کنویں سے تدریجا سارا پانی کھینچ لینے کے ہیں اور بئر نزوف اس کنویں کو کہتے ہیں جس کا پانی خشک ہوگیا ہو ۔ نزفۃ چلو بھر پانی ۔ اس کی جمع نزف آتی ہے ۔ نزف دمہ او دمعۃ خون یا آنسوؤں کا کلیہ نکل جانا اسی سے سکران نزیف ہے جس کے معنی بد مست کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں ضائع ہوں گی ۔ ایک قراءت میں ینزفون ہے جو کہ انزفوا افعال ) سے ہے جس کے معنی شراب کے ختم ہونے یا عقل کے ضائع ہوجانے کے ہیں اصل میں یہ انزفوا سے ہے جس کے معنی کنویں کا پانی ختم ہوجانے کے ہیں اور انزلت الشئی میں نز فتہ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ نزف الرجل فی الخصو مہ جھگڑے میں دلیل سے خاموش ہوجانا مثل مشہور ہے ۔ ھو اجبن من المنزوف ضر طا وہ منزوف سے بھیزیادہ بزدلی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ ۔ ” (اس سے) نہ تو ان کے سروں میں کوئی گرانی ہوگی اور نہ ہی وہ بہکیں گے۔ “- دنیا کی شراب پینے سے تو سر چکرانے لگتا ہے اور آدمی مدہوش ہوجاتا ہے ‘ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے ‘ لیکن جنت کی ” شرابِ طہور “ کو اس شراب پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں ایسی کسی خرابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :10 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 27 ۔ جلد پنجم ، ، سورہ محمد ، حاشیہ 22 ۔ الطور ، حاشیہ 18 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani