لوہے کے فوائد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو ظاہر حجتیں اور بھرپور دلائل دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا ، پھر ساتھ ہی انہیں کتاب بھی دی جو کھری اور صاف سچی ہے اور عدل و حق دیا جس سے ہر عقل مند انسان ان کی باتوں کے قبول کر لینے پر فطرتاً مجبور ہو جاتا ہے ، ہاں بیمار رائے والے اور خلاف عقل والے اس سے محروم رہ جاتے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً 17 ) 11-ھود:17 ) جو شخص اپنے رب کی طرف دلیل پر ہو اور ساتھ ہی اس کے شاہد بھی ہو ۔ ایک اور جگہ ہے اللہ کی یہ فطرت ہے جس پر مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اور فرماتا ہے آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان رکھ دی ، پس یہاں فرمان ہے یہ اس لئے کہ لوگ حق و عدل پر قائم ہو جائیں ، یعنی اتباع رسول کرنے لگیں امر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بجا لائیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تمام باتوں کو حق سمجھیں کیونکہ اس کے سوا حق کسی اور کا کلام نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥ ) 6- الانعام:115 ) تیرے رب کا کلمہ جو اپنی خبروں میں سچا اور اپنے احکام میں عدل والا ہے پورا ہو چکا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایمان دار جنتوں میں پہنچ جائیں گے اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہو جائیں گے تو کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی اگر اس کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم اس راہ نہیں لگ سکتے تھے ہمارے رب کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے منکرین حق کی سرکوبی کے لئے لوہا بنایا ہے ، یعنی اولاً تو کتاب و رسول اور حق سے حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لئے لوہے کو پیدا کر دیا تاکہ اس کے ہتھیار بنیں اور اللہ دوست حضرات اللہ کے دشمنوں کے دل کا کانٹا نکال دیں ، یہی نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل عیاں نظر آتا ہے کہ مکہ شریف کے تیرہ سال مشرکین کو سمجھانے ، توحید و سنت کی دعوت دینے ، ان کے عقائد کی اصلاح کرنے میں گذارے ۔ خود اپنے اوپر مصیبتیں جھیلیں لیکن جب یہ حجت ختم ہو گئی تو شرع نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی ، پھر حکم دیا کہ اب ان مخالفین سے جنہوں نے اسلام کی اشاعت کو روک رکھا ہے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا ہے ان کی زندگی دو بھر کر دی ہے ان سے باقاعدہ جنگ کرو ، ان کی گردنیں مارو اور ان مخالفین وحی الٰہی سے زمین کو پاک کرو ۔ مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں قیامت کے آگے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں یہاں تک کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ہی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور کمینہ پن اور ذلت ان لوگوں پر ہے جو میرے حکم کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ پس لوہے سے لڑائی کے ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار نیزے چھریاں تیز زرہیں وغیرہ اور لوگوں کے لئے اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں ۔ جیسے سکے ، کدال ، پھاوڑے ، آرے ، کھیتی کے آلات ، بننے کے آلات ، پکانے کے برتن ، توے وغیرہ وغیرہ اور بھی بہت سی ایسی ہی چیزیں جو انسانی زندگی کی ضروریات سے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں تین چیزیں حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے آئیں نہائی ، سنی اور ہتھوڑا ( ابن جریر ) پھر فرمایا تا کہ اللہ جان لے کہ ان ہتھیاروں کے اٹھانے سے اللہ رسول کی مدد کرنے کا نیک ارادہ کس کا ہے؟ اللہ قوت و غلبہ والا ہے ، اس کے دین کی جو مدد کرے وہ اس کی مدد کرتا ہے ، دراصل اپنے دین کو وہی قوی کرتا ہے اس نے جہاد تو صرف اپنے بندوں کی آزمائش کے لئے مقرر فرمایا ہے ورنہ غلبہ و نصرت تو اسی کی طرف سے ہے ۔
2 5 1میزان سے مراد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ترازو کیا ہے ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو ۔ 2 5 2یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی ہیں یہ سب اللہ کے الہام وارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کو کیا ہے۔ 2 5 3یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزہ، بندوق وغیرہ جن سے دشمن پر وار کیا جاسکتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔ 2 5 4یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ بھی لوہے سے اور بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام آتی ہیں جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، سوئی اور عمارت وغیرہ کا سامان اور چھوٹی بڑی مشینیں اور سازو سامان۔ 2 5 5یعنی رسولوں کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔ 2 5 6 اس کو اس بات کی حاجت نہیں کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسول کی مدد کریں بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرما دے لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔
[٤٢] فتنہ و فساد کی روک تھام دین کے غلبہ اور نظام عدل کے قیام کے لئے تین چیزوں کی ضرورت قوانین الٰہیہ میزان اور قوت نافذہ :۔ دنیا میں فتنہ و فساد کو روکنے کے لیے تین باتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس آیت میں بیان کردی گئی ہیں۔ واضح نشاننوں سے مراد ایسے دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوجائے کہ واقعی یہ رسول برحق اور اس پر نازل شدہ کتاب واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور واضح نشانات بھی اسی کتاب میں مذکور و موجود ہیں۔ یعنی اس کتاب میں پرامن زندگی، فتنہ و فساد کی روک تھام اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے قوانین بیان کیے ہیں۔ میزان سے مراد ناپ تول کے پیمانے بھی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق پورے پورے ادا کیے جاسکیں اور نظام عدل کو قائم کرنے کے تقاضے اور ہدایات بھی جو کتاب و سنت میں تفصیل سے مذکور ہیں۔ اور لوہا سے مراد ڈنڈا یا طاقت اور قوت نافذہ بھی ہے جو عدالتوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ لاتوں کے بھوت ہوں وہ باتوں سے کبھی نہیں مانتے اور جنگی یا سیاسی قوت اور سامان جنگ بھی جو بالعموم لوہے سے ہی تیار کیا جاتا ہے جیسے توپ و تفنگ، تیر، تلوار، میزائل، بندوقیں، رائفلیں، اور کلاشنکوفیں وغیرہ۔ تاکہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے جو اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل ہوں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے لوہا سے مراد اسلحہ اور جنگی قوت لینا ہی زیادہ مناسب ہے۔ یہ تینوں چیزیں ہر رسول کو عطا کی گئیں جو کہ نظام عدل کے قیام اور اللہ کے دین کے نفاذ اور فتنہ و فساد کے قلع قمع کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔- [٤٣] لوہا اگرچہ زمین کے اندر کانوں سے نکلتا ہے۔ تاہم اسے نازل کرنے سے تعبیر کیا جیسا کہ میزان کو نازل کرنے سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد ان چیزوں کو پیدا کرنا اور وجود میں لانا اور اجمالاً تمام اشیاء ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ اور لوہے یا جنگی قوت کے استعمال کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس سے فتنہ و فساد کو روکا جاسکتا ہے۔ اور ضمنی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں چیزوں کے حصول اور استعمال سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کے دین کے نفاذ کی خاطر پیش قدمی کرتا ہے اور کون اس سے پہلو تہی کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تو اتنا طاقتور اور غالب ہے کہ وہ اور بھی کئی طریقوں سے اپنا دین نافذ کرسکتا ہے۔ مگر جہاد سے اصل مقصود تو لوگوں کا امتحان ہے۔
١۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ ۔۔۔۔: اوپر کی آیات میں جس خرچ کی تاکید کی گئی ہے اس کا تعلق جہاد سے ہے ۔ کفار اور اہل کتاب کو جب بدر اور دوسرے مقامات پر شکستوں پر شکستیں ہوئیں تو انہوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا جو آج تک جاری ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور اسلام اللہ کا دین کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ان کے نزدیک تو سب سے بڑی نیکی جنگ اور خون ریزی ہے ، بھلا اللہ کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں کا خون ریزی سے کیا تعلق ہے ؟ وہ تو امن و سلامتی والے ہوتے ہیں اور دنیا کے دھندوں سے الگ تھلگ رہبانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں تین باتیں واضح فرمائیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے انہیں واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمائی ، تا کہ لوگ راہ راست پر چل سکیں اور باہمی معاملات میں عدل و انصاف پر قائم رہیں ۔ دوسری یہ کہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ظلم و جور کا خاتمہ کیا جائے ، جو قوت و سلطنت کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب و میزان کے ساتھ لوہا اتارا ، جس میں دو سے بیشمار فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے جہاد ہوتا ہے ، جس کے ساتھ عدل و انصاف قائم ہوتا ہے اور ایمان والوں کا امتحان ہوتا ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کرنے والے مومن کون ہیں اور اس سے جان چھڑانے والے منافق کون ہیں ۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں جتنے رسول آئے سب کا مقصد حق اور عدل کا قیام ہی تھا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی انہی کے طریقے پر تھے۔ یہود کی سنگ دلی کے مقابلے میں ان کے پیرو کاروں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر رافت و رحمت رکھی تھی ۔ اس نرمی کا بہانہ بنا کر ان کے بعض نام لیواؤں نے رہبانت اختیار کی اور جہاد چھوڑ دیا ، حالانکہ یہ ان کی اپنی ایجاد کردہ بدعت تھی ، اللہ کا حکم ہرگز نہ تھا ۔ مسلمانوں میں ترک جہاد کا باعث بھی نصرانیوں کی تقلید میں یہی رہبانیت بنی۔- ٢۔ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ ۔۔۔۔۔: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیء سورة ٔ شوریٰ کی آیت (١٧) کی تفسیر۔- ٢۔ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ : لوہا اگرچہ زمین سے نکلتا ہے مگر اس نعمت کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے ” انزلنا “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ، جیسا کہ چوپاؤں کے متعلق فرمایا (وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ ط ) (الزمر : ٦)” اور اس نے تمہارے لیے چو پاؤں میں سے آٹھ قسمیں ( نر و مادہ) اتاریں ۔ “ اس میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر نعمت کا اصل سر چشمہ آسمان ہی ہے ، جہاں سے اللہ کا حکم صادر ہوتا ہے تو ہر چیز وجود میں آتی ہے اور اس تعلق کی طرف بھی اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کے دلوں میں لوہے کو حاصل کرنے اور اس کے استعمال کے طریقوں کا القاء فرماتا ہے۔- ٤۔ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ : اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ لوہے کے دوسرے ” منافع ‘ ‘ کو بعد میں ذکر فرمایا ہے اور سخت لڑائی کا ذکر پہلے فرمایا ہے۔ اس سے جہاد اور اسلحہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ منافع سے مراد وہ بیشمار مشینیں ، آلات اور سواریاں ہیں جو ایجادہو چکی ہیں اور آئندہ ہوں گی۔- ٥۔ وَلِیَعْلَمَ اللہ ُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط : جہاد کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک لمحے میں کفار کو نیست و نابود کرسکتا ہے ، مگر وہ جہاد کے ذریعے سے اپنے بندوں کا امتحان کرتا ہے کہ اسے دیکھئے بغیر کون اس کی خاطر لڑتا اور اس کے دین کی مدد کرتا ہے اور کون پیچھے رہتا ہے۔” ولیعلم اللہ “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (١٤٠ تا ١٤٢) اور سورة ٔ عنکبوت (٣) کی تفسیر۔- ٦۔ اِنَّ اللہ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ : یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جہاد کا حکم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں دیا ، بلکہ انہی کے فائدے کے لیے اور امتحان کے لیے دیا ہے ، کیونکہ وہ تو بڑی قوت والا اور سب پر غالب ہے۔
خلاصہ تفسیر - ہم نے (اسی اصلاح آخرت کے لئے) اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور (اس کتاب میں بالخصوص) انصاف کرنے (کے حکم) کو (جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے) نازل کیا تاکہ لوگ (حقوق اللہ اور حقوق العباد میں) اعتدال پر قائم رہیں ( اس میں ساری شریعت آگئی جو معتدل یعنی بین الافراط والتفریط ہے) اور ہم نے لوہے کو پیدا کیا جس میں شدید ہیبت ہے (تاکہ اس کے ذریعہ سے عالم کا انتظام رہے کہ ڈر سے بہت سی بےانتظامیاں بند ہوجاتی ہیں) اور ( اس کے علاوہ) لوگوں کے اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں (چنانچہ اکثر آلات لوہے سے بنتے ہیں) اور ( اس لئے لوہا پیدا کیا) تاکہ اللہ تعالیٰ (ظاہری طور پر) جان لے کہ بے (اس کے خدا کو) دیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی (یعنی دین کی) کون مدد کرتا ہے (کیونکہ جہاد میں بھی کام آتا ہے تو یہ بھی اخروی نفع ہوا اور جہاد کا حکم اس لئے نہیں کہ اللہ اس کا محتاج ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ (خود) قوی زبردست ہے (بلکہ تمہارے ثواب کے لئے ہے ) ۔- معارف و مسائل - آسمانی کتابوں اور انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے کا اصل مقصد لوگوں کو عدل و انصاف پر قائم کرنا ہے :- لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ الایة، لفظ بینٰت کے لغوی معنی واضح اور کھلی ہوئی چیزوں کے ہیں اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واضح احکام ہوں، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں یہی ترجمہ لیا گیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے معجزات اور نبوت و رسالت پر واضح دلائل مراد ہوں (کمافسرہ بہ ابن کثیر وابن حیان) اور بینت کے بعد وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ میں کتاب نازل کرنے کا علیحدہ ذکر بظاہر اسی تفسیر کا موید ہے کہ بینٰت سے مراد معجزات و دلائل ہوں اور احکام کی تفصیل کے لئے کتاب نازل کرنے کا ذکر فرمایا گیا۔- کتاب کے ساتھ ایک دوسری چیز میزان نازل کرنے کا بھی ذکر ہے میزان اصل میں اس آلہ کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے جس کی عام صورت ترازو ہے اور مروجہ ترازو کے علاوہ مختلف چیزوں کے وزن تولنے کے لئے جو دوسرے مختلف قسم کے آلات ایجاد ہوتے رہتے ہیں، وہ بھی میزان کے مفہوم میں داخل ہیں، جیسے آج کل روشنی، ہوا وغیرہ کے ناپنے والے آلات ہیں۔- اس آیت میں کتاب کی طرح میزان کے لئے بھی نازل کرنے کا ذکر فرمایا ہے، کتاب کا آسمان سے نازل ہونا اور فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچنا تو معلوم و معروف ہے، میزان کے نازل کرنے کا کیا مطلب ہے اس کے متعلق تفسیر روح المعانی مظہری وغیرہ میں ہے کہ انزال میزان سے مراد ان احکام کا نزول ہے، جو ترازو استعمال کرنے اور انصاف کرنے کے متعلق نازل ہوئے اور قرطبی نے فرمایا کہ دراصل انزال تو کتاب ہی کا ہوا ہے، ترازو کے وضع کرنے اور ایجاد کرنے کو اس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے، جیسا کہ عرب کے کلام میں اس کی نظائر موجود ہیں تو گویا مفہوم کلام کا یہ ہے کہ انزلنا الکتب و وضعنا المیزان ” یعنی ہم نے اتاری کتاب اور ایجاد کی ترازو “ اس کی تائید سورة رحمان کی ( آیت) (والسمآء رفعھا و وضع المیزان) سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں میزان کے ساتھ لفظ وضع استعمال فرمایا ہے۔- اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر حقیقی معنی میں آسمان سے ترازو نازل کی گئی تھی اور حکم دیا گیا تھا کہ اس کا وزن کر کے حقوق پورے کرنا چاہئیں واللہ اعلم۔- کتاب اور میزان کے بعد ایک تیسری چیز کے نازل کرنے کا ذکر ہے، یعنی حدید (لوہا) اس کے نازل کرنے کا مطلب بھی اس کو پیدا کرنا، جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں چوپایہ جانوروں کے متعلق بھی لفظ انزال استعمال فرمایا ہے، حالانکہ وہ کہیں آسمان سے نازل نہیں ہوتے، زمین پر پیدا ہوتے ہیں، آیت یہ ہے (آیت) وانزل لکم من الانعام ثمنیة ازواج، یہاں باتفاق انزلنا سے مراد خلقنا ہے یعنی تخلیق کو انزال کے لفظ سے تعبیر کردیا کہ جس میں اشارہ اس طرف پایا جاتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب اس اعتبار سے منزل من السماء ہے کہ اس کے پیدا ہونے سے بھی بہت پہلے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا (روح)- حدید یعنی لوہے کو نازل کرنے کی دو حکمتیں آیت میں بیان فرمائی ہیں، اول یہ کہ مخالفین پر اس کا رعب پڑتا ہے اور سرکشوں کو اس کے ذریعہ احکام الٰہیہ اور عدل و انصاف کے احکام کا پابند بنایا جاسکتا ہے، دوسرے یہ کہ اس میں لوگوں کے لئے بہت منافع حق تعالیٰ نے رکھے ہیں کہ جس قدر صنعتیں اور ایجادات و مصنوعات دنیا میں ہوئی یا آئندہ ہو رہی ہیں ان سب میں لوہے کی ضرورت ہے، لوہے کے بغیر کوئی صنعت نہیں چل سکتی۔- فائدہ :۔- یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس آیت میں اصل مقصد پیغمبروں اور کتابوں کے بھیجنے اور میزان عدل ایجاد کرنے اور اس کے استعمال کرنے کا یہ بیان کیا ہے کہ لیقوم الناس بالقسط، یعنی لوگ انصاف پر قائم ہوجائیں، اس کے بعد ایک تیسری چیز یعنی لوہے کے نازل کرنے یعنی ایجاد کرنے کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے، یہ بھی درحقیقت اسی عدل و انصاف کی تکمیل کیلئے جو پیغمبر اور کتاب کے نازل کرنے سے مقصود ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں عدل و انصاف قائم کرنے کے واضح دلائل دیتے ہیں اور نہ کرنے کی صورت میں عذاب آخرت سے ڈراتے ہیں، میزان ان حدود کو بتلاتی ہے جن سے انصاف کیا جاتا ہے مگر سرکش معاند جو نہ کسی دلیل سے مانتا ہے نہ ترازو کی تقسیم کے مطابق عمل کرنے کو تیار ہے، اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ دنیا میں عدل و انصاف قائم نہ ہونے دے گا، اس کو پابند کرنا لوہے اور تلوار کا کام ہے جو حکومت و سیاست کرنے والے آخر میں بدرجہ مجبوری استعمال کرتے ہیں۔- فائدہ ثانیہ :- یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے دنیا میں عدل و انصاف کرنے کے لئے دو چیزوں کو تو اصل قرار دیا، ایک کتاب، دوسرے میزان، کتاب سے حقوق کی ادائیگی اور اس میں کمی بیشی کی ممانعت کے احکام معلوم ہوتے ہیں اور میزان سے وہ حصے متعین ہوتے ہیں جو دوسروں کے حقوق ہیں، انہی دونوں چیزوں کے نازل کرنے کا مقصد لیقوم الناس بالقسط قرار دیا ہے، حدید کا ذکر اس کے بعد آخر میں فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ اقامت عدل و انصاف کیلئے لوہے کا استعمال بدرجہ مجبوری ہے، وہ اصل ذریعہ اقامت عدل و انصاف کا نہیں ہے۔- اس سے ثابت ہوا کہ خلق خدا کی اصل اصلاح اور ان کا عدل و انصاف پر قائم کرنا درحقیت ذہنوں کی تربیت اور تعلیم سے ہوتا ہے، حکومت کا زور زبردستی دراصل اس کام کے لئے نہیں، بلکہ راستہ سے رکاوٹ دور کرنے کے لئے بدرجہ مجبوری ہے، اصل چیز ذہنوں کی تربیت اور تعلیم و تلقین ہے۔- وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بالْغَيْبِ ، یہاں ولیعلم حرف عطف کے ساتھ آیا ہے، روح المعانی میں ہے کہ یہ عطف ایک محذوف جملہ پر ہے، یعنی لینفعہم اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے لوہا اس لئے پیدا کیا کہ مخالفوں پر اس کا رعب پڑے اور اس لئے کہ لوگ اس سے صنعت و حرفت میں فائدہ اٹھائیں اور اس لئے کہ قانونی اور ظاہری طور پر اللہ تعالیٰ یہ جان لیں کہ کون لوگ لوہے کے آلات حرب کے ذریہ اللہ اور اس کے رسولوں کے مددگار بنتے ہیں اور دین کے لئے جہاد کرتے ہیں، قانونی اور ظاہری طور پر اس لئے کہا گیا ہے کہ ذاتی طور پر تو حق تعالیٰ کو سب کچھ پہلے ہی سے معلوم ہے، مگر انسان جب عمل کرلیتا ہے تو وہ نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے، قانونی ظہور اس کا اسی سے ہوتا ہے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ٠ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ٢٥ ۧ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - والحدید - معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ.- ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - حدید - لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
ہم نے اپنے پیغمبروں کو اوامرو نواہی اور معجزات دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان پر بذریعہ جبریل امین کتاب نازل کی ہے اور اس کتاب میں عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔- اور ہم نے لوہا پیدا کیا جس میں سخت قوت ہے کہ آگ کے علاوہ اور کوئی چیز اس کو نرم نہیں کرسکتی یا یہ کہ جس میں لڑائی و قتال کے لیے شدید ہیبت ہے۔- اور لوگوں کے سازو سامان کے اور بھی فائدے ہیں جیسا کہ چاقو کلہاڑی وغیرہ تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ان ہتھیاروں سے بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی کون مدد کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی مدد کرنے میں قوت والا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں زبردست ہے۔
اب آرہی ہے وہ آیت جو اس پوری سورة مبارکہ کا نقطہ عروج یاذروئہ سنام ( ) ہے۔ اس آیت کا مضمون خصوصی طور پر آج کے مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے ۔ اس لیے کہ آج ہمارے ہاں دین کا اصل تصور مسخ ہوچکا ہے اور یہ آیت دین کے درست تصور کو اجاگر کرتی ہے۔ دراصل انگریزوں کی غلامی کے دور میں ہم مسلمانوں کے ذہنوں میں دین کا عام تصور یہی تھا کہ حکومت انگریز کی ہے تو ہوتی رہے ‘ ہمیں کیا ہم نے تو نمازیں پڑھنی ہیں اور روزے رکھنے ہیں۔ اس دور میں برصغیر کے ایک بہت بڑے عالم نے کہا تھا کہ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے انگریزوں کو ہماری طرف سے کوئی تشویش لاحق ہو ‘ اس لیے کہ انہوں نے ہمیں مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔ یعنی انگریز ہمیں نمازیں پڑھنے ‘ روزے رکھنے ‘ حج ادا کرنے اور داڑھیاں رکھنے سے نہیں روکتا۔ مذہبی آزادی کی اسی وکالت پر علامہ اقبال نے یہ پھبتی چست کی تھی : ؎- ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت - ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد - ظاہر ہے انگریز مسلمانوں کو مراسم عبودیت ادا کرنے اور داڑھیاں بڑھانے سے کیوں منع کرتے ؟ اس سے انہیں بھلا کیا خطرہ ہوسکتا تھا۔ ملک میں قانون تو تاجِ برطانیہ کا نافذ تھا ‘ دیوانی اور فوجداری عدالتیں اسی قانون کے مطابق فیصلے کر رہی تھیں۔ اس ماحول میں اسلام کہاں تھا اور قرآنی قوانین کی کیا حیثیت تھی ؟ عام مسلمانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ تو بس اسی پر مسرور و مطمئن تھے کہ انہیں ” مکمل “ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ بہرحال انگریز کی غلامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا تصوردین سکڑتے سکڑتے صرف چند عبادات اور رسومات ( ) تک محدود ہوگیا۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی تصور دین یہی ہے کہ نماز پڑھو ‘ روزے رکھو ‘ ہو سکے تو حج کرو ‘ قرآن خوانی کی محفلیں سجائو اور بس اور جہاں تک سودی کاروبار اور حرام خوریوں کا تعلق ہے یہ دنیوی معاملات ہیں ‘ اسلام کا ان سے کیا لینا دینا ؟ ہاں سال بہ سال عمرہ کر کے پچھلے گناہوں سے پاک ہوجایا کرو ‘ جیسے ہندو گنگا میں نہا کر اپنے زعم میں اپنے سارے پاپ دھو ڈالتے ہیں۔ - اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر جب آپ اس آیت کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو دین کا روایتی تصور لڑکھڑاتا ہوا محسوس ہوگا ۔ اس آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ڈنکے کی چوٹ انقلاب کی بات کی گئی ہے ‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسی بےباک اور عریاں انقلابی عبارت پوری انسانی تاریخ کے کسی انقلابی لٹریچر میں موجود نہیں ہے۔ اس تمہید کے بعد آیئے اب اس آیت کا مطالعہ کریں اور اس کے ایک ایک لفظ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔- آیت ٢٥ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ ” ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ “- وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ ” اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری “- یہاں تین چیزوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے جو رسولوں کے ساتھ بھیجی گئیں : (١) بینات (٢) کتاب ‘ اور (٣) میزان۔۔۔۔ ان میں سب سے پہلی چیز ” بینات “ ہے۔ ” بیِّن “ اس شے کو کہتے ہیں جو اَز خود ظاہر اور نمایاں ہو اور اسے کسی دلیل اور وضاحت کی حاجت نہ ہو۔ ع ” آفتاب آمد دلیل ِآفتاب “ یہ لفظ عام طور پر رسولوں کے تذکرے میں معجزات کے لیے آتا ہے۔ - ” کتاب “ کا لفظ عام فہم اور بالکل واضح ہے ‘ جبکہ ” میزان “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظام ہے جس میں حقوق و فرائض کا توازن موجود ہے۔ کسی معاشرے میں اگر حقوق و فرائض کے مابین توازن ہوگا تو وہ معاشرہ صحیح رہے گا ‘ اور اگر اس کے اندر عدم توازن راہ پا گیا تو اسی کا نام ظلم ‘ عدوان ‘ زیادتی اور ناانصافی ہے۔- لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ” تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ “- یہ ہے اس کتاب یعنی قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد ۔ اب اس کے مقابلے میں اپنی موجودہ صورت کا بھی جائزہ لیں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں سے قرآن کو کسی حد تک ” بےدخل “ کرچکے ہیں۔ کیا قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ قرآن خوانی کی مجالس سجا لی جائیں ؟ یا حسن ِقراءت کی محافل کا اہتمام کرلیا جائے ‘ یا اس کی آیات کی خطاطی کی نمائشیں لگائی جائیں ‘ یا چالیس من وزنی قرآن سونے کی تاروں سے لکھ کر لوگوں کی زیارت کے لیے رکھ دیا جائے۔۔۔۔ اور زندگی باطل نظام کے تحت ہی بسر کی جائے ؟ اس حوالے سے مولانا ماہر القادری کی زبان سے قرآن کا یہ شکوہ کس قدر حقیقت پر مبنی ہے : ؎- یہ میری عقیدت کے دعوے ‘ قانون پہ راضی غیروں کے - یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ‘ ایسے بھی ستایا جاتا ہوں - ظاہر ہے قرآن تو ایک ضابطہ زندگی اور ایک نظام حکومت لے کر آیا ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے نظام کو عملی طور پر اپنے ملک اور معاشرے میں قائم کریں ‘ اس کی لائی ہوئی میزان کو نصب کریں اور اس کی دی ہوئی شریعت کے مطابق اپنے فیصلے کریں ع ” گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں “- اس آیت کا مطالعہ کرتے ہوئے یہاں درج ذیل آیات کو بھی دہرانے کی ضرورت ہے ۔ سورة آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فرمایا : قَائِمًام بِالْقِسْطِط (آیت ١٨) کہ میں عدل و قسط کو قائم کرنے والا ہوں۔ سورة النساء میں اہل ایمان کو باقاعدہ حکم دیا گیا : یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنِ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (آیت ١٣٥) ” اے اہل ایمان کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر “۔ سورة المائدۃ میں الفاظ کی ترتیب بدل کر یہی حکم پھر سے دہرایا گیا : یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنِ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز (آیت ٨) ” اے اہل ایمان اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جائو “۔ پھر سورة الشوریٰ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کروایا گیا : وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَـکُمْط (آیت ١٥) ” مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل قائم کروں “۔ پھر سورة الشوریٰ ہی میں فرمایا گیا : اَللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَط (آیت ١٧) ” اللہ وہ ہستی ہے جس نے نازل فرمائی کتاب حق کے ساتھ اور میزان بھی “۔ یعنی سورة الشوریٰ کی اس آیت میں بھی کتاب اور میزان نازل کرنے کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔ - اس حوالے سے سورة المائدۃ کی یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے : قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْط (آیت ٦٨) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قائم نہیں کرتے تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے تمہارے رب کی طرف سے “۔ سورة المائدۃ کی اس آیت کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ مسلمان ” تورات و انجیل “ کی جگہ لفظ ” قرآن “ رکھ کر اس آیت کو اس طرح پڑھ کر دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے خود ہی اپنی حیثیت کا تعین کریں : ” قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْقُرآنِِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ “ کہ اے قرآن والو تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قائم نہیں کرتے قرآن کو اور اس کو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔۔۔ تم قرآن کی تلاوت کر کے سمجھ لیتے ہو کہ تم نے قرآن کا حق ادا کردیا ‘ یا تراویح میں قرآن ختم کر کے فخر محسوس کرتے ہو کہ تم نے بڑا تیر مار لیا ‘ چاہے تم نے اس کا ایک حرف بھی نہ سمجھا ہو۔ یاد رکھو جب تک تم قرآن کے احکام کو عملی طور پر خود پر نافذ نہیں کرتے ہو اور قرآن کے نظام عدل کو اپنے ملک و معاشرہ میں قائم نہیں کرتے ہو ‘ قرآن پر ایمان کے تمہارے زبانی دعوے کی کوئی حیثیت نہیں۔ - قرآن کے نظام عدل و قسط کے حوالے سے یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ معاشرے کے مراعات یافتہ طبقات کے لیے یہ نظام کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس لیے جونہی اس کے قیام کے لیے ٹھوس کوششوں کا آغاز ہوگا یہ طبقات ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے آموجود ہوں گے۔ ظاہر ہے جن سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات ( ) پرانے نظام کے ساتھ وابستہ ہیں ‘ وہ کب چاہیں گے کہ معاشرے میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ اگرچہ اس حوالے سے بھی تاریخ میں استثنائی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عثمان غنی اپنے معاشرے کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے ‘ اس کے باوجود ان دونوں حضرات (رض) نے اپنے مفادات ‘ کاروبار اور سٹیٹس کی پروا کیے بغیر حق کی آواز پر بلاتاخیر لبیک کہا۔ لیکن مجموعی طور پر اشرافیہ اور دولت مند طبقہ ہمیشہ نظام عدل کے قیام کی کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ نظام کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئے۔ چناچہ باطل نظام کی بیخ کنی اور نظام عدل و قسط کے قیام کی جدوجہد کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو راستے سے ہٹانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ آیت کے اگلے حصے میں ایسے عناصر کی سرکوبی کا نسخہ بتایا جا رہا ہے :- وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ” اور ہم نے لوہا بھی اتارا ہے ‘ اس میں شدید جنگی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں۔ “- نوٹ کیجیے نہ کوئی لگی لپٹی بات کی گئی ہے اور نہ ہی معذرت خواہانہ اسلوب اپنایا گیا ہے۔ جو بات کہنا مقصود تھی وہ دو ٹوک انداز میں ڈنکے کی چوٹ کہی گئی ہے۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ یہ ” عریاں ترین “ انقلابی عبارت ہے۔ ظاہر ہے جب انقلاب اپنا راستہ بنائے گا اور جب ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مرحلہ آئے گا تو خون بھی ضرور بہے گا اور کچھ سر بھی کچلنے پڑیں گے۔ یہ انقلاب کا ناگزیر مرحلہ ہے ‘ اس کے بغیر انقلاب کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے نظام عدل کے لیے انقلاب کی بات ہو رہی ہے جو ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ یہاں تو ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ دنیا میں خود انسان عدل انسانی کے اپنے تصور کی ترویج و تنفیذ کے لیے طاقت کا بےدریغ استعمال کرتے ہیں ‘ مخالف ممالک کا گھیرائو کرتے ہیں ‘ ان پر بےرحمانہ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ” امن کے لیے جنگ “ ( ) کا نعرہ لگا کر کمزوروں پر چڑھائی کرتے ہیں اور پھر ملکوں کے ملک برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ‘ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس قتل و غارت اور بربریت کو وہ وقت کی اہم ضرورت اور عین انصاف سمجھتے ہیں۔ - اس کائنات کا خالق اور مالک بھی اللہ ہے اور زمین پر حکمرانی کا حق بھی اسی کا ہے۔ اسی نے اپنی تمام مخلوق کو اپنا تابع فرمان بنایا ہے اور اسی نے انسان کو ایک حد تک اختیار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسی اختیار کی وجہ سے انسان اکثر من مانی کرتے ہوئے اس کی حکمرانی کے مقابلے میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی وجہ سے زمین میں فساد برپا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ وہ زمین میں عدل و انصاف کی ترویج اور اپنے قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس کی مشیت یہی ہے کہ اس کے حق حکمرانی کو چیلنج کرنے والے باغیوں کو حق کی طاقت کے ذریعے سے کچل دیا جائے : بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَـیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ (الانبیائ : ١٨) ” بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ تو جبھی وہ نابود ہوجاتا ہے “۔ بہرحال اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا یہ کام اس کے نام لیوا کریں۔ اس کے نام لیوا حق کے علمبردار بن کر اللہ کے باغیوں کا مقابلہ کریں ‘ باطل نظام کو بزور بازو اکھاڑ پھینکیں اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ - آیت زیر مطالعہ میں لوہے کا ذکر اسی حوالے سے آیا ہے کہ اہل حق حالات و زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سامانِ حرب تیار کریں ‘ رائج الوقت ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں اور باطل کے مقابلے کے لیے مطلوبہ طاقت فراہم کریں۔ لیکن اس انقلابی عمل میں سب سے اہم سوال افرادی قوت کی فراہمی کا ہے ‘ اور اس عمل کی ابتدا دعوت و تبلیغ سے ہوگی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں بارہ سال تک مسلسل دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔ حق کو قبول کرنے والے افراد کی تربیت کی ‘ انہیں منظم کیا اور جب مطلوبہ افرادی قوت فراہم ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی مشیت کے عین مطابق طاقت کے اس ” کوڑے “ کو باطل کے سر پر یوں دے مارا کہ اس کا بھیجا نکال کے رکھ دیا۔ آج بھی یہ کام اگر ہوگا تو اسی طریقے سے ہوگا جس طریقے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے کیا۔ آج بھی اہل حق کو اسی طرح جانیں قربان کرنا ہوں گی ‘ تکلیفیں جھیلنا پڑیں گی ‘ گھر بار چھوڑنے پڑیں گے اور جان و مال کے نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے۔ گویا یہ انتہائی مشکل کام ہے اور اہل حق کی بےدریغ قربانیوں کے بغیر اس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ممکن نہیں۔- وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔ ” اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی غیب میں ہونے کے باوجود۔ یقینا اللہ بہت قوت والا ‘ بہت زبردست ہے۔ “- ” تاکہ اللہ جان لے “ کا مفہوم یہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ دکھادے ‘ ظاہر کر دے ‘ ممیز کر دے کہ کون ہے وہ جو غیب کے باوجود اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ گویا حق و باطل کی جنگ کے دوران جو مردانِ حق لوہے کی طاقت کو ہاتھ میں لے کر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے میدان میں آئیں گے وہی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار ہوں گے۔ دراصل اللہ کے دین کو غالب کرنا بنیادی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرضِ منصبی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی مقصد کے لیے مبعوث فرمایا : ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (الصف : ٩) ” وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ ‘ تاکہ وہ غالب کر دے اس کو کل ُ کے کل دین پر “۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشن میں تمام اہل ِ ایمان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست وبازو بنیں ‘ بلکہ سورة الصف میں تو اس کے لیے براہ راست حکم آیا ہے : یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ (آیت ١٤) ” اے اہل ایمان اللہ کے مددگار بن جائو۔ “- یہ مضمون سورة الصف میں مزید وضاحت کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس حوالے سے یہاں یہ اہم نکتہ سمجھ لیجیے کہ آیت زیر مطالعہ میں غلبہ دین کی تکمیل اور نظام عدل و قسط کی تنفیذ کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے : بینات ‘ کتاب اور میزان : لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے رسولوں کو اس مشن کے لیے بینات (معجزات) ‘ کتاب اور میزان کے ساتھ بھیجا جاتا رہا ‘ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس مشن کے لیے صرف دو چیزیں (الہدیٰ اور دین الحق) عطا کی گئیں : ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ (التوبۃ : ٣٣ ‘ الفتح : ٢٨ اور الصف : ٩) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بینات (معجزات) اور الکتاب ایک ہوگئے۔ یعنی الہدیٰ (قرآن) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب بھی ہے ‘ اسی میں قانون ہے اور یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت میں میزان (شریعت) مکمل ہو کر ” دین الحق “ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :45 اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے وہ سب تین چیزیں لے کر آئے تھے : ( 1 ) بینات ، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوئے لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد ، اخلاق ، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔ ( 2 ) کتاب ، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔ ( 3 ) میزان ، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار ، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔ ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام ، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی ، عدل پر قائم ہو ۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق ، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق ، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو ، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو ، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی ۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن ، اس کی سیرت ، اس کے کردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو ۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی ، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مدد گار ہوں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :46 لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ ( الزمر ، 6 ) ۔ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :47 یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا ۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پر وہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجائے طریق کار یہ اختیار فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا ۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کی ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے ۔
20: ترازو اصل میں اس آلے کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز تولی جائے، اس کو اتارنے کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترازو پیدا کی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ اور درحقیقت انبیائے کرام اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ ترازو کا ذکر کرنے سے اشارہ یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر توازن اور اعتدال سے کام لے، اور یہی توازن اور اعتدال انبیائے کرام اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے۔ 21: لوہا ان دھاتوں میں سے ہے جس کی ہر صنعت میں ضرورت پڑتی ہے، اس لیے اس کی تخلیق بذات خود اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، لیکن انبیائے کرام، آسمانی کتابوں اور ترازو کے بعد اس کو ذکر فرما کر اشارہ یہ دیا گیا ہے کہ انسانوں کی اصلاح کا اصل ذریعہ انبیائے کرام اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کی تعلیمات ہیں، ان پر ٹھیک ٹھیک عمل ہوجائے تو دنیا میں انصاف قائم ہوسکتا ہے، لیکن شر کی بہت سی طاقتیں ایسی ہیں جو ان تعلیمات سے سدھرنے کے بجائے بگڑی ہی رہتی ہیں، اور انصاف قائم کرنے کے بجائے فساد پھیلاتی ہیں، ان کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہا اتارا ہے جس سے جنگی طاقت کا سامان تیار ہوتا ہے، اور آخر میں جہاد کے لیے اسے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ 22: یعنی اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کا اقتدار اتنا بڑا ہے کہ اسے شر کی طاقتوں کو کچلنے کے لیے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس نے انسانوں کو جہاد کا مکلف اس لیے فرمایا ہے تاکہ ان کی آزمائش ہو، اور یہ بات نکھر کر سامنے آجائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں جان کی بازی لگاتا ہے، اور کون ہے جو سرکشی اختیار کرتا ہے۔