حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی فضیلت حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس فضیلت کو دیکھئے کہ حضرت نوح کے بعد سے لے کر حضرت ابراہیم تک جتنے پیغمبر آئے سب آپ ہی کی نسل سے آئے اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے نبی اور رسول آئے سب کے سب آپ ہی کی نسل سے ہوئے جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 26 ) 57- الحديد:26 ) یہاں تک کہ بنو اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کی خوش خبری سنائی ۔ پس نوح اور ابراہیم صلوات اللہ علیہما کے بعد برابر رسولوں کا سلسلہ رہا حضرت عیسیٰ تک جنہیں انجیل ملی اور جن کی تابع فرمان امت رحمدل اور نرم مزاج واقع ہوئی ، خشیت الٰہی اور رحمت خلق کے پاک اوصاف سے متصف ۔ پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد لی تھی ، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے یہ طریقہ نکالا تھا ۔ حضرت سعید بن جبیر حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی ۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے ، پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی ، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو پکارا آپ نے لبیک کہا آپ نے فرمایا سنو بنی اسرائیل کے بہتر گروہ ہو گئے جن میں سے تین نے نجات پائی ، پہلے فرقہ نے تو بنی اسرائیل کی گمراہی دیکھ کر ان کی ہدایت کے لئے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ان کے بڑوں کو تبلیغ شروع کی لیکن آخر وہ لوگ جدال و قتال پر اترے آئے اور بادشاہ اور امراء نے جو اس تبلیغ سے بہت گھبراتے تھے ان پر لشکر کشی کی اور انہیں قتل بھی کیا قید بھی کیا ان لوگوں نے تو نجات حاصل کر لی ، پھر دوسری جماعت کھڑی ہوئی ان میں مقابلہ کی طاقت تو نہ تھی تاہم اپنے دین کی قوت سے سرکشوں اور بادشاہوں کے دربار میں حق گوئی شروع کی اور اللہ کے سچے دین اور حضرت عیسیٰ کے اصلی مسلک کی طرف انہیں دعوت دینے لگے ، ان بدنصیبوں نے انہیں قتل بھی کرایا آروں سے بھی چیرا اور آگ میں بھی جلایا جسے اس جماعت نے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا اور نجات حاصل کی ، پھر تیسری جماعت اٹھی یہ ان سے بھی زیادہ کمزور تھے ان میں طاقت نہ تھی کہ اصل دین کے احکام کی تبلیغ ان ظالموں میں کریں اس لئے انہوں نے اپنے دین کا بچاؤ اسی میں سمجھا کہ جنگلوں میں نکل جائیں اور پہاڑوں پر چڑھ جائیں عبادت میں مشغول ہو جائیں اور دنیا کو ترک کر دیں انہی کا ذکر رہبانیت والی آیت میں ہے ، یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں تہتر فرقوں کا بیان ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اجراء نہیں ملے گا جو مجھ پر ایمان لائیں اور میری تصدیق کریں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ایسے ہیں جو مجھے جھٹلائیں اور میرا خلاف کریں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں نے حضرت عیسیٰ کے بعد توریت وانجیل میں تبدیلیاں کر لیں ، لیکن ایک جماعت ایمان پر قائم رہی اور اصلی تورات و انجیل ان کے ہاتھوں میں رہی جسے وہ تلاوت کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ان لوگوں نے ( جنہوں نے کتاب اللہ میں رد و بدل کر لیا تھا ) اپنے بادشاہوں سے ان سچے مومنوں کی شکایت کی کہ یہ لوگ کتاب اللہ کہہ کر جس کتاب کو پڑھتے ہیں اس میں تو ہمیں گالیاں لکھی ہیں اس میں لکھا ہوا ہے جو کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں ، پھر یہ لوگ ہمارے اعمال پر بھی عیب گیری کرتے رہتے ہیں ، پس آپ انہیں دربار میں بلوایئے اور انہیں مجبور کیجئے کہ یا تو وہ اسی طرح پڑھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور ویسا ہی عقیدہ ایمان رکھیں جیسا ہمارا ہے ورنہ انہیں بدترین عبرت ناک سزا دیجیے ، چنانچہ ان سچے مسلمانوں کو دربار میں بلوایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یا تو ہماری اصلاح کردہ کتاب پڑھا کرو اور تمہارے اپنے ہاتھوں میں جو الہامی کتابیں انہیں چھوڑ دو ورنہ جان سے ہاتھ دھو لو اور قتل گاہ کی طرف قدم بڑھاؤ ، اس پر ان پاک بازوں کی ایک جماعت نے کہا کہ تم ہمیں ستاؤ نہیں تم اونچی عمارت بنا دو ہمیں وہاں پہنچا دو اور ڈوری چھڑی دیدو ہمارا کھانا پینا اس میں ڈال دیا کرو ہم اوپر سے گھسیٹ لیا کریں گے نیچے اتریں گے ہی نہیں اور تم میں آئیں گے ہی نہیں ، ایک جماعت نے کہا سنو ہم یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں تمہاری بادشاہت کی سرزمین سے باہر ہو جاتے ہیں چشموں ، نہروں ، ندیوں ، نالوں اور تالابوں سے جانوروں کی طرح منہ لگا کر پانی پیا کریں گے اور جو پھول پات مل جائیں گے ان پر گزارہ کرلیں گے ۔ اس کے بعد اگر تم ہمیں اپنے ملک میں دیکھ لو تو بیشک گردن اڑا دینا ، تیسری جماعت نے کہا ہمیں اپنی آبادی کے ایک طرف کچھ زمین دیدو اور وہاں حصار کھینچ دو وہیں ہم کنویں کھود لیں گے اور کھیتی کر لیا کریں گے تم میں ہرگز نہ آئیں گے ۔ چونکہ اس اللہ پرست جماعت سے ان لوگوں کی قریبی رشتہ داریاں تھیں اس لئے یہ درخواستیں منظور کر لی گئیں اور یہ لوگ اپنے اپنے ٹھکانے چلے گئے ، لیکن ان کے ساتھ بعض اور لوگ بھی لگ گئے جنہیں دراصل علم و ایمان نہ تھا تقلیداً ساتھ ہو لیے ، ان کے بارے میں یہ آیت ( وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا 27 ) 57- الحديد:27 ) نازل ہوئی ، پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس وقت ان میں سے بہت کم لوگ رہ گئے تھے آپ کی بعثت کی خبر سنتے ہی خانقاہوں والے اپنی خانقاہوں سے اور جنگلوں والے اپنے جنگلوں سے اور حصار والے اپنے حصاروں سے نکل کھڑے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تصدیق کی جس کا ذکر اس آیت میں ہے ( یا ایھا الذین امنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورا تمشون بہ ) الخ ، یعنی ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تمہیں اللہ اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا ( یعنی حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ) اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو ( یعنی قرآن و سنت ) تاکہ اہل کتاب جان لیں ( جو تم جیسے ہیں ) کہ اللہ کے کسی فضل کا انہیں اختیار نہیں اور سارا فضل اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے ۔ یہ سیاق غریب ہے اور ان دونوں پچھلی آیتوں کی تفسیر اس آیت کے بعد ہی آ رہی ہے ، انشاء اللہ تعالیٰ ابو یعلی میں ہے کہ لوگ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت کے زمانہ میں آئے ، آپ اس وقت امیر مدینہ تھے جب یہ آئے اس وقت حضرت انس نماز ادا کر رہے تھے اور بہت ہلکی نماز پڑھ رہے تھے جیسے مسافرت کی نماز ہو یا اس کے قریب قریب جب سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے فرض نماز پڑھی یا نفل؟ فرمایا فرض اور یہی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ، میں نے اپنے خیال سے اپنی یاد برابر تو اس میں کوئی خطا نہیں کی ، ہاں اگر کچھ بھول گیا ہوں تو اس کی بابت نہیں کہہ سکتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ تم پر سختی کی جائے گی ، ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی اور ان پر بھی سختی کی گئی پس ان کی بقیہ خانقاہوں میں اور گھروں میں اب بھی دیکھ لو ترک دنیا کی ہی وہی سختی تھی جسے اللہ نے ان پر واجب نہیں کیا تھا ۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے کہا آیئے سواریوں پر چلیں اور دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔ حضرت انس نے فرمایا بہت اچھا ہم سوار ہو کر چلے اور کئی ایک بستیاں دیکھیں جو بالکل اجڑ گئی تھیں اور مکانات اوندھے پڑے ہوئے تھے تو ہم نے کہا ان شہروں سے آپ واقف ہیں؟ فرمایا خوب اچھی طرح بلکہ ان کے باشندوں سے بھی انہیں سرکشی اور حسد نے ہلاک کیا ۔ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور سرکشی اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ آنکھ کا بھی زنا ہے ہاتھ اور قدم اور زبان کا بھی زنا ہے اور شرمگاہ اسے سچ ثابت کرتی ہے یا جھٹلاتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کیلئے رہبانیت تھی اور میری امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک شخص حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھ سے وہ سوال کیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے کی ، یہی تمام نیکیوں کا سر ہے اور تو جہاد کو لازم پکڑے رہ یہی اسلام کی رہبانیت ہے اور ذکر اللہ اور تلاوت قرآن پر مداومت کر ۔ وہی آسمان میں ، زمین میں تیری راحت و روح ہے اور تیری یاد ہے ۔ یہ روایت مسند احمد میں ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔
[٤٤] نبوت کا ضابطہ :۔ نبوت کا ضابطہ یہ ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر یہ جنوں میں جاری تھی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہذا آدم کی پیدائش پر یہ انسانوں میں منتقل ہوگئی اور پہلے نبی خود سیدنا آدم ( علیہ السلام) تھے۔ بعد میں یہ سلسلہ صرف نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں محدود کردیا گیا۔ اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد انہی کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ بعد میں جتنے بھی انبیاء (علیہم السلام) مبعوث ہوئے سب سیدنا ابراہیم ہی کی اولاد سے تھے۔ تمام انبیاء اپنی اولاد اور اپنی امت کو کفر و شرک اور افتراق و انتشار سے بچنے کی تاکید کرتے رہے مگر تھوڑے ہی لوگ ایسے تھے جنہوں نے انبیاء کی وصیت اور نصیحت کو قبول کیا۔ ورنہ لوگوں کی اکثریت کفر و شرک میں ہی مبتلا ہوگئی اور امت واحدہ کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِیْمَ ۔۔۔۔: اس آیت میں پہلے نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ دوسرے تمام انبیاء (علیہم السلام) انہی کی اولاد سے تھے ، اس کے بعد اس میں بینات اور کتاب و میزان لے کر آنے والے تمام انبیاء کا ذکر ہے اور یہ کہ ان کی امتوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان میں بگاڑ کا باعث کیا تھا۔- ٢۔ فَمِنْہُمْ مُّہْتَدٍج وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰـسِقُوْنَ :” من “ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی ان میں سے بعض راہ راست پر چلنے والے ہیں اور ان کے زیادہ لوگ نافرمان ہیں ۔ یعنی ان کے بگاڑ کا اصل باعث یہ تھا کہ وہ اپنی خواہش کے خلاف کسی کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ایمان اور عمل صالح والے لوگ کم اور نافرمان لوگ ہمیشہ زیادہ رہے ہیں ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ ص (٢٤) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (مخلوق کی اسی اصلاح آخرت کے لئے) نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ہم نے ان کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی (یعنی ان کی اولاد میں بھی بعضے پیغمبر اور ان میں سے بعضے صاحب کتاب بنائے) سو (جن جن لوگوں کے پاس یہ پیغمبر آئے) ان لوگوں میں بعضے تو ہدایت یافتہ ہوئے اور بہت سے ان میں نافرمان تھے ( اور یہ مذکور پیغمبر تو صاحب شریعت مستقلہ تھے، ان میں بعضے صاحب کتاب بھی تھے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) ، جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم دونوں کی اولاد میں تھے اور بعض اگرچہ صاحب کتاب نہیں تھے جیسے ہود اور صالح (علیہ السلام) کہ ان کا صاحب کتاب ہونا منقول نہیں مگر شریعت ان کی مستقل تھی، بہرحال بہت سے نبی تو صاحب شریعت مستقلہ بھیجے) پھر ان کے بعد اور رسولوں کو ( جو کہ صاحب شریعت مستقلہ نہ تھے) یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے ( جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تورات کے احکام کی تعمیل کرانے کے لئے بہت سے پیغمبر آئے) اور ان کے بعد (پھر ایک صاحب شریعت مستقلہ کو یعنی) عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور ہم نے ان کو انجیل دی اور ( ان کی امت میں دو قسم کے لوگ ہوئے ایک ان کا اتباع کرنے والے یعنی ان پر ایمان لانے والے اور دوسرے انکار کرنے والے) اور جن لوگوں نے ان کا اتباع کیا تھا (یعنی قسم اول) ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ( ایک دوسرے کے ساتھ جو کہ اخلاق حمیدہ میں سے ہے) پیدا کردیا (کقولہ تعالیٰ فی الصحابتہ (آیت) رحمآء بینہم اور شاید بوجہ اس کے کہ ان کی شریعت میں جہاد نہ تھا، اس کے مقابل کی صفت (آیت) اشدآء علی الکفار ذکر نہیں فرمائی، غرض غالب ان پر شفقت و رحمت تھی) اور (ہماری طرف سے تو ان لوگوں کو صرف احکام میں اتباع کرنے کا حکم ہوا تھا، لیکن ان متبعین میں بعضے وہ ہوئے کہ) انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کرلیا (رہبانیت کا حاصل نکاح اور جائز لذتوں اور اختلاط کا چھوڑنا ہے اور اس کے ایجاد کا سبب یہ ہوا تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب لوگوں نے احکام الٰہیہ کو چھوڑنا شروع کیا تو بعضے اہل حق بھی تھے جو اظہار حق کرتے رہتے تھے، یہ بات خواہش نفسانی والوں کو مشکل معلوم ہوئی اور انہوں نے اپنے بادشاہوں سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مجبور کیا جاوے کہ ہمارے ہم مشرب بن کر رہیں جب ان کو مجبور کیا گیا تو انہوں نے درخوست کی کہ ہم کو اجازت دی جاوے کہ ہم ان لوگوں سے کوئی تعلق و غرض نہ رکھیں اور آزاد انہ زندگی بسر کریں خواہ گوشہ میں بیٹھ کر یا سفر و سیاحت میں عمر گزار کر، چناچہ اسی پردہ چھوڑ دیئے گئے (کذافی الدرالمنثور) اس مقام پر یہی ذکر ہے کہ انہوں نے رہبانیت کو ایجاد کرلیا) ہم نے ان پر اس کو واجب نہ کیا تھا لیکن انہوں نے حق تعالیٰ کی رضا کے واسطے (اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے) اس کو اختیار کرلیا تھا سو ( پھر ان راہبوں میں زیادہ وہ ہوئے کہ) انہوں نے اس (رہبانیت) کی پوری رعایت نہ کی (یعنی جس غرض سے اس کو اختیار کیا تھا اور وہ غرض اللہ کی رضا جوئی تھی اس کا اہتمام نہیں کیا یعنی اصل احکام کی بجا آوری نہ کی، گو صورةً رہبان اور احکام کی بجا آوری کا اظہار کرتے رہے، اس طرح رہبانوں میں دو قسم کے لوگ ہوگئے، احکام کی رعایت کرنے والے اور رعایت نہ کرنے والے اور ان میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصر تھے ان کے حق میں رعایت احکام کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاویں اس لئے عہد مبارک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں احکام کی رعایت و اہتمام کرنے والے وہ لوگ ہوئے جو آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ پر ایمان سے گریز کیا وہ احکام کی رعایت نہ کرنے والوں میں شامل ہوئے) سو ان میں سے جو (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) ایمان لائے ہم نے ان کو ان کا اجر (وعدہ کیا ہوا) دیا (مگر ایسے کم تھے) اور زیادہ ان میں نافرمان ہیں ( کہ آپ پر ایمان نہیں لائے اور چونکہ اکثریت نافرمانوں کی تھی اس لئے سب ہی کی طرف رعایت نہ کرنا منسوب کردیا گیا کہ فما رعوہا فرمایا، معلوم ہوا کہ یہ نفی رعایت اکثر کے اعتبار سے ہے اور قلیل جو ایمان لائے تھے ان کا بیان آخر آیت میں فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ میں بیان فرمایا۔- یہاں تک عیسائیوں میں سے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں کی دو قسموں کا ذکر تھا آگے ایمان والوں کا حکم ہے کہ) اے (عیسیٰ (علیہ السلام) پر) ایمان رکھنے والو تم اللہ سے ڈرو اور ( اس ڈر کے مقتضیٰ پر عمل کرو یعنی) اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی رحمت سے (ثواب کے) دو حصے دے گا ( جیسے سورة قصص میں (آیت) اولئک یوتون اجرہم مرتین الآیتہ ہے) اور تم کو ایسا نور عنایت کرے گا کہ تم اس کو لئے ہوئے چلتے پھرتے ہو گے (یعنی ایسا ایمان دے گا جو ہر وقت ساتھی رہے گا یہاں سے پل صراط تک) اور تم کو بخش دے گا (کیونکہ اسلام سے زمانہ کفر کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں) اور اللہ غفور رحیم ہے (اور یہ دولتیں تم کو اس لئے عنایت کرے گا) تاکہ ( جس وقت ان عطایا کا ظہور ہو یعنی قیامت کے روز اس وقت) اہل کتاب کو (یعنی جو ایمان نہیں لائے ان کو) یہ بات معلوم ہوجاوے کہ ان لوگوں کو اللہ کے فضل کے کسی جزو پر بھی (بغیر ایمان لائے) دسترس نہیں اور یہ (بھی معلوم جاوے) کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہئے دیدے (چنانچہ اس کی مشیت اس کے فضل کے ساتھ مسلمانوں سے متعلق ہوئی تو انہی کو عنایت فرما دیا) اور اللہ بڑے فضل والا ہے (مطلب یہ کہ ان کا غرور اور زعم ٹوٹ جاوے کہ وہ حالت موجودہ میں بھی اپنے کو فضل کا مورد اور مغفرت کا محل سمجھتے ہیں )- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اس عالم کی ہدایت اور اس میں قسط یعنی عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے انبیاء و رسول اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کرنے کا عمومی ذکر تھا، مذکور الصدر آیات میں ان میں سے خاص خاص انبیاء و رسل کا ذکر ہے، پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا کہ وہ آدم ثانی ہیں اور بعد طوفان نوح کے دنیا میں باقی رہنے والی سب مخلوق ان کی نسل سے ہے، دوسرے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کا جو ابوالانبیاء اور قدوة الخلائق ہیں ان دونوں کے ذکر کے ساتھ یہ اعلان فرمایا دیا کہ آئندہ جتنے انبیاء اور آسمانی کتابیں دنیا میں آئیں گی وہ سب انہی دونوں کی ذریت میں ہوں گی، یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ شاخ اس فضیلت کے لئے مخصوص کردی گئی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعد میں جتنے انبیاء مبعوث ہوئے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں وہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْہُمْ مُّہْتَدٍ ٠ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ٢٦- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله :- الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] .- الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
اور ہم نے آدم کے آٹھ سو سال بعد نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کو ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی قوم پھر بھی ایمان نہیں لائی، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کو طوفان کے ذریعے ہلاک کردیا۔
اس سورة مبارکہ کا اصل مضمون تدریجاً آگے بڑھتا ہوا آیت ٢٥ پر اپنے نقطہ عروج ( ) پر پہنچ گیا ہے۔ اب آئندہ آیات میں گویا اس مضمون کا ضمیمہ اور تکملہ آ رہا ہے (قبل ازیں کبھی میں بغرض تفہیم اس کے لیے کی اصطلاح استعمال کرتا رہا ہوں ‘ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصطلاح مناسب نہیں ہے) ۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ متعلقہ آیات کے مطالعے سے پہلے اس مضمون کی روح کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے۔ ظاہر ہے زمین پر اللہ کے قانون کی حکمرانی اور معاشرے میں عدل و انصاف کی ترویج شیطان پر بہت بھاری ہے۔ اس لیے اس نے اس ” انقلاب “ کا راستہ روکنے کے لیے یہ چال چلی کہ مخلص اہل ایمان کی توجہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مبذول کرا دی ‘ تاکہ اسے انسانوں کے معاشرے میں ننگا ناچ ناچنے کی کھلی چھٹی مل جائے۔ - اہل ایمان کے دلوں میں اللہ کی محبت ‘ دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طلب کے جذبے کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ وہ اللہ کی فوج کے سپاہی بن کر اقامت دین کی جدوجہد کے علمبردار بن جائیں اور نتائج سے بےپرواہوکر ہر زماں ‘ ہر مکاں شیطانی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہیں ‘ لیکن شیطان نے ایسے لوگوں کو رہبانیت کا سبق پڑھادیا کہ اللہ والوں کا دنیا کے جھمیلوں سے کیا واسطہ ؟ انہیں تو چاہیے کہ وہ دنیا اور علائق دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کریں اور اللہ کے ہاں اپنے درجات بلند کریں۔ ظاہر ہے ایسی رہبانیت دین کی اصل روح کے خلاف ہے ۔ غلبہ دین کی جدوجہد کی راہ میں مصیبتیں جھیلنے ‘ اس میدان میں شیطانی قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے مال و جان کی قربانیاں دینے اور خانقاہوں میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت کی سختیاں برداشت کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کی سختیاں برداشت کرنے سے معاشرے سے ظلم وناانصافی کا خاتمہ ہوتا ہے ‘ انسانیت عدل و انصاف کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتی ہے اور ماحول میں فلاح و خوشحالی کے پھول کھلتے ہیں ‘ جبکہ رہبانیت کی راہ میں اٹھائی گئی تکالیف سے دنیا اور اہل دنیا کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ بہرحال شیطان کا یہ وار عیسائیت کے حوالے سے بہت کارگر ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں عیسائیوں کے ہاں نہ صرف خانقاہی نظام کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ” رہبانیت “ اعلیٰ ترین ذریعہ اور وسیلہ قرار پائی۔ ) پر لکھی گئی یورپین مصنفین کی بڑی بڑی ضخیم کتابیں عیسائی راہبوں اور رہبانیت کے بارے میں عجیب و غریب تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔ )- اس کے بعد اسلام میں جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی اور احیائِ خلافت کی چند کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو مسلمانوں کے ہاں بھی رہبانیت کے طور طریقے رائج ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی عملی صورت یہ سامنے آئی کہ مخلص اہل ایمان اور اہل علم لوگ بادشاہوں اور سلاطین کے رویے کی وجہ سے امت کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق ہو کر گوشہ تنہائی میں جا بیٹھے۔ البتہ ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں نے ان سے اکتسابِ فیض کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اس طرح رفتہ رفتہ اہل اللہ اور اہل علم کی مسندوں نے خانقاہوں کی شکل اختیار کرلی۔ سلاطین وامراء نے اپنے مفاد کے لیے ان خانقاہوں کی سرپرستی کرنی شروع کردی۔ ایسی خانقاہوں کے لیے بڑی بڑی جاگیریں مختص کردی گئیں تاکہ خانقاہ اور اس سے متعلقہ تمام لوگوں کے اخراجات احسن طریقے سے پورے ہوتے رہیں اور یہ لوگ حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کے بجائے اطمینان کے ساتھ چلہ کشیوں اور اپنی روحانی منازل طے کرنے میں مصروف و مشغول رہیں۔ دوسری طرف ان خانقاہوں سے متعلقہ لوگوں کے ہاں بھی رفتہ رفتہ دین و دنیا کا یہ تصور جڑ پکڑتا گیا کہ حکومت کرنا اور اجتماعی معاملات نپٹانا سلاطین و امراء کا کام ہے ‘ ہمیں ان معاملات سے کیا سروکار ؟ ہمارا کام تو دینی تعلیمات کی اشاعت اور لوگوں کی روحانی اصلاح کرنا ہے ‘ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اللہ کے مقرب بندے بن سکیں۔ یوں دین اسلام کا اصل تصور دھندلاتا گیا اور اس کی جگہ خانقاہی نظام کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ دین کا درست تصور اور انبیاء و رسل کی بعثت کا اصل مقصد تو وہی ہے جو ہم گزشتہ آیت میں پڑھ چکے ہیں : لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ” تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوجائیں۔ “ - چناچہ آئندہ آیات میں ایک تو یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ انسانیت نے ” رہبانیت “ کا غلط موڑ کب اور کیسے مڑا ‘ اور ساتھ ہی مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو بیشک دنیا سے بےرغبتی اختیار کرنا اور دنیا کے مقابلے میں آخرت بنانے کی فکر اختیار کرنا ہی دین کا اصل جوہر ہے ‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم راہب بن کر تمدن کی زندگی کو خیرباد کہہ دو ‘ بن باس لے لو ‘ اور جنگلوں میں جا کر چلے کاٹنا شروع کر دو ‘ پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں جا کر تپسیائیں کرو ‘ یا خانقاہوں میں گوشہ نشین ہو جائو۔ تمہیں تو دنیا کی منجدھار میں رہتے ہوئے دوسروں کو زندگی کی ضمانت فراہم کرنی ہے۔ تمہیں تو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے دنیا میں حق کا بول بالا کرنا ہے ۔ ظلم و ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ کر معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا ہے ‘ اور اپنے ارد گرد ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں مظلوم کو اس کا حق ملے اور ظالم کو سر چھپانے کی جگہ نہ مل سکے۔ اس کے لیے تمہارے سامنے اُسوئہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کا قائم کردہ معیار بطور نمونہ موجود ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے معاشرے کو حق و انصاف کا جو معیارعطا کیا تھا اس کی جھلک حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی اس تقریر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جو آپ (رض) نے لوگوں سے بیعت خلافت لینے کے فوراً بعد کی تھی۔ آپ (رض) نے بحیثیت امیر المومنین اپنے پہلے خطاب میں عدل و انصاف کے بارے میں اپنی ترجیح واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا : ” لوگو تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک بہت قوی ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور تمہارا قوی شخص میرے نزدیک بہت کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے کسی کا حق وصول نہ کرلوں “۔ اسی طرح اس ضمن میں حضرت ربعی بن عامر (رض) کے وہ الفاظ بھی بہت اہم ہیں جو آپ (رض) نے ایرانی افواج کے سپہ سالار رستم کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے ۔ قادسیہ کے محاذ پر اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے جنگ سے پہلے ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے حضرت ربعی بن عامر (رض) کو بھیجا تھا۔ رستم نے ان سے سوال کیا تھا کہ تم لوگ یہاں کیا لینے آئے ہو ؟ اس پر انہوں نے اپنے مشن کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی :- اِنَّ اللّٰہ ابتعثنا لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ ربِّ العباد ‘ ومن ضیق الدُّنیا الی سِعَۃ الآخرۃ ومن جور الادیان الی عدل الاسلام - ” ہمیں اللہ نے بھیجا ہے تاکہ ہم بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں لے آئیں ‘ اور انہیں دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی کشادگی سے ہم کنار کریں ‘ اور باطل نظاموں سے نجات دلا کر اسلام کے عادلانہ نظام سے روشناس کرائیں۔ “- یہ ہے اس مضمون کا لب لباب جو اس سورت کے آخر میں مرکزی مضمون کے ضمیمے کے طور پر بیان ہوا ہے۔ اب اگلی آیت سے اس مضمون کی تمہید شروع ہو رہی ہے۔- آیت ٢٦ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ ” ہم نے ہی بھیجا تھا نوح (علیہ السلام) کو بھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی “- وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ ” اور ہم نے انہی دونوں کی نسل میں رکھ دی نبوت اور کتاب “- حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کے بعد انسانیت کی نسل حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں حضرت سام ‘ حضرت حام اور حضرت یافث سے چلی تھی۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جو انبیاء بھی آئے وہ آپ (علیہ السلام) ہی کی نسل سے تھے۔ البتہ قرآن میں صرف سامی رسولوں کا تذکرہ ہے ‘ آپ (علیہ السلام) کے دوسرے دو بیٹوں کی نسلوں میں مبعوث ہونے والے پیغمبروں کا ذکر قرآن میں نہیں آیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خود بھی حضرت نوح (علیہ السلام) ہی کی نسل سے تھے ‘ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں جو انبیاء و رسل - آئے ان کا ذکر قرآن میں تخصیص کے ساتھ آپ (علیہ السلام) کی نسل یا ذریت کے حوالے سے ہوا ہے۔ آج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو گزرے تقریباً پانچ ہزار برس ہوچکے ہیں۔ اس دوران آپ (علیہ السلام) کی اولاد کہاں کہاں پہنچی اور کس کس علاقے میں آباد ہوئی ‘ یہ اپنی جگہ تحقیق کا ایک مستقل موضوع ہے ‘ لیکن اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ (علیہ السلام) کی نسل جس جس علاقے میں بھی آباد ہوئی ان تمام علاقوں میں انبیاء آتے رہے۔- فَمِنْھُمْ مُّھْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ” تو ان ( کی نسل) میں کچھ تو ہدایت یافتہ بھی ہیں ‘ لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے۔ “
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :48 اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو رسول بینات اور کتاب اور میزان لے کر آئے تھے ان کے ماننے والوں میں کیا بگاڑ پیدا ہوا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :49 یعنی جو رسول بھی اللہ کی کتاب لے کر آئے وہ حضرت نوح کی ، اور ان کے بعد حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :50 یعنی نافرمان ہو گئے ، اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے ۔