2 7 1رَأْفَةً ، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام (رض) اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ رحماء بینہم۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار تھے۔ 2 7 2رَهْبَانِيَّةً رھب (خوف) سے ہے یا رھبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبودوں میں محبوس کرلیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ 3 یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ 2 7 4یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔ 5 یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ 6 یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
[٤٥] رأفۃ کا لغوی مفہوم :۔ رأفۃ کا معنی ہے کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دل پسیج جانا، دل بھر آنا۔ رقیق القلب ہونا، رقت طاری ہوجانا اور رحمت کے معنی اس تکلیف کو دور کرنے میں مدد کرنا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ خود رقیق القلب اور نرم دل تھے۔ ساری عمر نرم برتاؤ اور ایک دوسرے سے پیار و محبت سے رہنے کا سبق دیتے رہے لہذا آپ کی امت یعنی نصاریٰ میں بھی دو صفات سرایت کرگئی تھیں۔- [٤٦] رھبانیت کا مفہوم :۔ رَھْبَانِیّۃَ ۔ راھب ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور احتیاط بھی شامل ہو۔ (ضد رغب) اور یہ خوف وقتی اور عارضی قسم کا نہ ہو بلکہ طویل اور مسلسل ہو۔ اور رہبانیت یا رہبانیت بمعنی مسلک خوف زدگی۔ یعنی کسی طویل اور مسلسل بےچینی رکھنے والے خوف کی وجہ سے لذات دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلینا۔ آبادی سے باہر کسی جنگل وغیرہ میں کٹیا یا جھونپڑی ڈال کر عبادت الہٰی یا گیان دھیان میں مصروف ہوجانا۔ اور راہب بمعنی گوشہ نشین، درویش، بھکشو، جمع رہبان۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نصاریٰ نے کس بات کے خوف سے ڈر کر یہ مسلک اختیار کیا تھا ؟ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ بےدین بادشاہوں سے ڈر کر ان لوگوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ راہ نکالی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب عقیدہ تثلیث سرکاری مذہب بن گیا اور اس عقیدہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر سختیاں ہونے لگیں تو یہ لوگ چونکہ موحد تھے اس لیے انہوں نے یہ راستہ اختیار کرلیا تاکہ لوگوں کے مظالم سے بچ سکیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بھی کسی حد تک درست ہوں تاہم اس رہبانیت کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں۔ اس لیے اگر مفسرین کے ان اقوال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو رہبانیت کا وجود صرف نصاریٰ تک ہی محدود رہنا چاہئے تھا۔ حالانکہ یہ مسلک نصاریٰ کے علاوہ یہود، مسلمان، ہندؤوں اور سکھوں وغیرہ سب میں پایا جاتا ہے اور اسے ایک آفاقی مذہب سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں میں یہ مذہب دین طریقت کے نام سے موسوم ہے۔- [٤٧] رھبانیت ایک بدعت ہے :۔ اس جملہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ نصاریٰ نے یہ ایک بدعت ایجاد کرلی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا مسلک اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور دوسری یہ کہ چونکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہذا رہبانیت کی کسی دین میں بھی گنجائش نہیں۔ اور یہ بدعت ہی شمار ہوگی۔ ضمناً اس سے بدعت کی تعریف بھی معلوم ہوگئی۔ یعنی بدعت ہر وہ کام ہے جسے دینی اور ثواب کا کام سمجھ کر دین میں شامل کرلیا جائے جبکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو۔ - [٤٨] بدعت ہمیشہ نیکی کا کام سمجھ کی شروع کی جاتی ہے :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہم نے ان پر ایسے کام فرض کیے تھے جن سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو اور یہ کام ایسا نہ تھا جو انہوں نے شروع کردیا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے یہ مسلک بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ہی ایجاد کرلیا تھا۔ واضح رہے کہ جتنے بھی بدعی کام شروع کیے جاتے رہے ہیں وہ ہمیشہ نیک آرزوؤں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر ہی شروع کئے جاتے رہے ہیں اور یہی شیطان کا فریب ہوتا ہے جسے اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔- [٤٩] دین طریقت اور چہار ترک :۔ جس مسلک کے اختیار کرنے والوں نے اپنے لیے جو ضابطے مقرر کیے تھے اور جو پابندیاں اپنے آپ پر لگائی تھیں انہیں وہ خود بھی نبھا نہ سکے۔ کیونکہ وہ پابندیاں انسان کی فطرت کے خلاف تھیں۔ ان پابندیوں کو وہ مختصر الفاظ میں چہار ترک (چارقسم کی چیزوں کو چھوڑ دینا) کا نام دیتے ہیں۔ (١) ترک دنیا یعنی دنیا کی تمام تر لذات کو چھوڑ دینا، (٢) ترک عقبیٰ یعنی آخرت کی جزاء و سزا سے بےنیاز ہوجانا، (٣) ترک اکل و نوم۔ یعنی کھانا، پینا چھوڑ دینا یا کم سے کم سے کھانا اسی طرح نیند یا آرام کرنا بھی چھوڑ دینا، اور (٤) ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ انسان کا جی چاہے اس کے برعکس کام کرنا۔- مختلف طریقوں سے جسم کی تعذیب :۔ ان لوگوں کا نظریہ تھا کہ روحانیت کے راستے میں حائل سنگ گراں ہمارا مادی جسم ہے۔ لہذا اس جسم کو مضمحل اور کمزور بنانے کے لیے طرح طرح کے عذاب دیئے جانے لگے۔ کم سے کم کھانا پینا جس سے صرف روح اور جسم کا تعلق باقی رہ سکے۔ کم سے کم سونا۔ دنیوی لذات جن سے فائدہ اٹھانے کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حق دیا تھا، اس سے کنارہ کشی کرنا، شدید سردی میں ننگے بدن باہر رات گزارنا، کہیں شدید گرمی میں کسی ایک ہی جگہ کھڑے رہنا، چپ کا روزہ رکھنا، کیچڑ میں پڑے رہنا اور اس طرح کی کئی دوسری صورتیں انہوں نے ایجاد کرلی تھی۔ گویا اپنی جان سے دشمنی ان کا پہلا اصول تھا۔ لہذا جسم کی تعذیب اور ان کے تقاضوں کی تکذیب کے ذریعہ وہ اپنے جسم کو تحلیل کرنے میں مصروف ہوگئے۔- اقرباء سے پرہیز :۔ ان کا دوسرا اقدام دنیا والوں سے قطع تعلق تھا۔ ان کے خیال کے مطابق ان کے رشتہ دار اور دوسرے معاشرتی تعلقات رکھنے والے دوست احباب بھی اس راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ دنیوی علائق میں سے ان کو سب سے زیادہ دشمنی عورت سے تھی۔ تاریخ میں ہمیں ایسے دلدوز واقعات بھی ملتے ہیں کہ کوئی مامتا ماری ماں اپنے ایسے ہی بیٹوں کو جنگل میں دیکھنے گئی لیکن ان راہبوں نے اپنی ماں سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ وہ انہیں صرف ایک نظر دیکھنے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ترستی اور التجائیں کرتی رہی لیکن ان سنگ دل راہبوں نے اس کی التجا کو ذرہ بھر وقعت نہ دی اور اسے ناکام واپس آنا پڑا۔- واقعہ جریج :۔ ایسے ہی ایک راہب ابن جریج کا واقعہ بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔ ابن جریج نے جنگل میں کٹیا بنا رکھی تھی۔ مامتا ماری ماں اسے ملنے آئی اور اسے پکارا۔ وہ عبادت میں مصروف تھا۔ ماں کی آواز سن کر اور اسے پہچان کر بھی وہ اپنی عبادت میں مصروف رہا اور ماں کی پکار کو کوئی اہمیت نہ دی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی۔ پھر اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا تو ماں کو اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے منہ سے اپنے اس درویش بیٹے کے حق میں بےاختیار یہ بددعا نکل گئی کہ الٰہی جب تک میرا یہ بیٹا کسی فاحشہ عورت کا منہ نہ دیکھ لے اسے موت نہ آئے۔ دکھیاری ماں کے منہ سے نکلی ہوئی بددعا بھلا رائیگاں کب جاسکتی تھی ؟ ابن جریج اپنی عبادت اور خدا ترسی میں اتنا مشہور تھا کہ بنی اسرائیل کے اکثر لوگ اس سے حسد کرنے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ ابن جریج پر کوئی ایسا الزام لگے جس سے اس کا یہ بلند مقام چھن جائے۔ اور اسی مقصد سے خفیہ مشورے بھی ہونے لگے۔ ایک بدنام زمانہ فاحشہ عورت نے، جو حسن و جمال میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، اس خدمت کو سرانجام دینے کا ذمہ لیا اور اسی غرض سے اپنے آپ کو ابن جریج پر پیش کردیا۔ جسے ابن جریج نے رد کردیا۔ اس پر یہ اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے والی عورت سیخ پا ہوگئی اور اس بےاعتنائی اور ہتک کا انتقام لینے پر اتر آئی۔ اس نے اپنے آپ کو ایک چرواہے پر پیش کیا جس سے اسے حمل ہوگیا۔ جب بچہ پیدا ہوا تو اس نے یہ مشہور کردیا کہ یہ حمل ابن جریج راہب سے ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگ دوڑے آئے اور بلا تامل ابن جریج کو مارنا پیٹنا شروع کردیا اور اس کی کٹیا کو منہدم کردیا ابن جریج نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے سارا ماجرا بتادیا ابن جریج کہنے لگے۔ تھوڑی دیر ٹھہرو۔ لوگ رک گئے تو اس نے وضو کیا اور عبادت میں مشغول ہوا اور اللہ سے بصد گریہ وزاری اپنی بریت کی دعا کی۔ ماں کی بددعا تو قبول ہو ہی چکی تھی۔ اب اللہ نے اس پر رحم فرما کر اس کی بھی دعا قبول فرما لی۔ پھر جب وہ لوگوں کے پاس آیا تو وہ فاحشہ عورت بمعہ بچہ وہاں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ ابن جریج نے اس بچہ کے پیٹ میں کچو کا دے کر پوچھا کہ بتا تیرا باپ کون ہے ؟ بچہ قدرت الٰہی سے بول اٹھا : فلاں چرواہا تب جاکر لوگوں نے ابن جریج کا پیچھا چھوڑا۔ ان میں سے بعض اس سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے : اگر کہو تو تمہیں سونے کی کٹیابنا دیں۔ لیکن ابن جریج نے کہا : بس مجھے ویسی ہی مٹی کی کٹیا بنادو (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ، باب تقدیم برالوالدین)- ماں کی گود میں کلام کرنے والے بچے :۔ اس طویل حدیث میں ان تین بچوں کا ذکر ہے جنہوں نے ماں کی گود میں کلام کیا۔ ایک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، دوسرے یہی ابن جریج سے منسوب بچہ اور اسی طرح ایک تیسرے بچے کا ذکر ہے۔ امام مسلم نے اس حدیث کو والدین سے حسن سلوک کے باب میں ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شرعی احکام کے مقابلہ میں ایسی رہبانیت گناہ کبیرہ ہے حدیث میں اس مذکورہ واقعہ سے اس دور کے طریق رہبانیت پر پوری روشنی پڑتی ہے۔- نکاح سے پرہیز :۔ بیوی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ نازک تھا کیونکہ نکاح اور اولاد سے انسان پر بہت سی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں۔ لہذا یہ لوگ متاہل زندگی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ گو اللہ نے انہیں ایسی رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، تاہم انہیں اس کے جواز کے کچھ اشارے ضرور مل گئے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ٣٣ سالہ زندگی تبلیغ کے سلسلہ میں گھوم پھر کر ہی گزار دی اور نکاح نہیں کیا۔ - خ عورتوں کا کنوارا رہنا اور بدکاری کو فروغ :۔ پھر عیسائیوں میں نکاح ثانی کی بھی گنجائش نہ تھی۔ پھر جس طرح ان راہبوں نے یہ مسلک اختیار کیا تھا کئی عورتوں نے بھی یہ سلسلہ اختیار کرلیا تھا اور ان کی الگ خانقاہیں قائم ہوگئیں اور انہوں نے ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کر رکھا تھا مگر چونکہ یہ سب کام شریعت الٰہی کے خلاف اور فطرت کے خلاف تھے لہذا جلد ہی ایسی خانقاہیں بدکاری کے اڈوں میں تبدیل ہوگئیں۔ کئی حرامی بچے پیدا ہوتے ہی مار دیئے جاتے اور جو بچ جاتے انہیں کسی گرجا کی نذر کردیا جاتا تھا رہبانیت کی خرابی کا یہ صرف ایک پہلو ہے اور جو خرابیاں اس مسلک سے عام معاشرہ میں پیدا ہوئیں وہ یہ ہیں۔- ١۔ معاشرہ میں جو خدا ترس لوگ تھے وہ اپنی اس غلط روش کی بنا پر معاشرتی ذمہ داریوں اور دوسرے انسانی تعلقات سے ایک طرف ہوگئے جس سے اخلاق و تمدن، سیاست اور اجتماعیت کی جڑیں تک ہل گئیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت عیار اور ناخدا ترس لوگوں نے سنبھال لی۔ دنیا میں فساد فی الارض کا دور دورہ ہوگیا اور اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام ہدایت اور ضابطہ حیات کی انہی بزرگان دین کے ہاتھوں بیخ کنی ہوئی۔- رہبانیت کے معاشرہ پر ناخوشگوار اثرات :۔ ٢۔ راہبوں کی اس روش کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ دین اور دنیا دو الگ چیزیں ہیں۔ دین یا مذہب تو محض پوجا پاٹ اور گیان دھیان کا نام ہے اور مذہب کا تعلق بس اسی حد تک ہے۔ رہا دنیا کا کاروبار تو اس میں ہر شخص آزاد ہے۔ معاشرتی تعلقات یا ضابطہ اخلاق کی اگر کچھ اہمیت ہوتی تو یہ خدا رسیدہ لوگ اس سے کیوں منہ موڑ لیتے۔ پھر چونکہ ان راہبوں کی روش شریعت الٰہیہ کے برعکس تھی لہذا نتیجتاً مذہب کا شیرازہ پارہ پارہ ہوگیا۔- ٣۔ اللہ کے حضور عبادت، عاجزی، تذلل اور زہد وتقویٰ صفات محمودہ ہیں لیکن ان راہبوں نے ان صفات میں اس قدر غلو کیا اور انکار ذات اور خود شکنی اتنے جوش سے کی کہ خود نگری اور خود شناسی جو قومی زندگی کے لیے روح رواں ہے ایک جرم سمجھا جانے لگا۔ انسان کو اپنی انسانیت سے شرم آنے لگی اور وہ اپنی ترقی انسانیت میں نہیں بلکہ ترک انسانیت میں سمجھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اسے اشرف المخلوقات بنا کر باقی کائنات اس کے لیے مسخر کردی تھی مگر وہ خود اس قدر بےاعتماد، افسردہ اور شکستہ دل ہوگیا کہ حیوانات بلکہ جمادات کو اپنے آپ پر ترجیح دینے لگا۔- ٤۔ چوتھا اثر یہ ہوا کہ معاشرہ میں باقی لوگ جن میں دینداری اور تقویٰ کے کچھ بھی اثرات پائے جاتے تھے، انہوں نے بھی ان راہبوں اور پیروں فقیروں کے آستانوں کا رخ کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے لیے مخصوص عبادت گاہیں اور مسجدیں تو آہستہ آہستہ ویران ہونے لگیں اور خانقاہوں، مزاروں اور آستانوں کی رونق بڑھنے لگی۔- انہی گونا گوں مفاسد کے پیش نظر شریعت نے رہبانیت کو مذموم قرار دیا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث نبوی ملاحظہ فرمائیے :۔- ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا اپنی جانوں پر سختی مت کرو کیونکہ ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی کی (یعنی ان کا ایجاد کردہ معیار ہی ان کی جانچ کے لیے مقرر کردیا) اس قوم کا بقایا گر جوں اور خانقاہوں میں ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب الحسد)- شرعی لحاظ سے رہبانیت مذموم ہے :۔ ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بلاشبہ دین آسان ہے کوئی شخص دین میں (اپنے آپ پر) سختی نہ کرے کہ وہ عمل اسے عاجز کردے۔ اس پر عمل ٹھیک طرح بجا لاؤ اور میانہ روی اختیار کرو اور خوش ہوجاؤ اور صبح و شام اور آخری رات کے کچھ حصہ میں اللہ سے مدد طلب کرتے رہو (مشکوۃ، کتاب الصلوٰۃ۔ باب القصد فی العمل)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو کے باپ نے ان کی بڑے شوق اور چاؤ سے شادی کی۔ لیکن انہوں نے اپنی بیوی سے کوئی دلچسپی نہ رکھی۔ رات عبادت میں گزار دیتے اور دن روزہ رکھ کر۔ ان کے اس رویہ سے ان کی بیوی بھی ملول تھی اور باپ بھی۔ آخر باپ نے رسول اللہ کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ عبداللہ بن عمرو خود بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مجھے بلا کر فرمایا : مجھے خبر پہنچی ہے کہ تو روزے رکھے جاتا ہے اور افطار نہیں کرتا اور نماز پڑھے جاتا ہے ایسا کر کہ روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر، قیام بھی کر اور سو بھی۔ کیونکہ تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی اور بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے میں نے عرض کیا : مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا پھر داؤد جیسا روزہ رکھ میں نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : وہ ایک دن روز رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے اور دشمن کے مقابلہ میں بھاگتے نہیں تھے پھر آپ نے دوبارہ فرمایا : جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے روزہ نہیں رکھا (بخاری، کتاب الصوم، باب حق الاہل فی الصوم) یہ حدیث بخاری میں مختلف مقامات پر کئی طرح سے مذکور ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ تیرے بدن اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے (باب حق الضیف) کے الفاظ زیادہ ہیں، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عمرو کو دائمی روزہ رکھنے سے منع فرمایا تو انہوں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے، تو پہلے آپ نے فرمایا کہ اچھا تم مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ دس گنا اجر دے گا تو یہ تمہارے پورے مہینہ کے روزے ہوجائیں گے سیدنا عبداللہ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے تب آپ نے فرمایا : اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے دن چھوڑ دو ۔ بعد میں آپ نے فرمایا : جو دائمی روزہ رکھے اس کا کوئی روزہ نہیں - رہبانیت سے متعلق چند احادیث اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج :۔ اس حدیث سے معلوم ہوا (١) کہ مسلسل روزے رکھنا انسان کو اتنا نحیف بنا دیتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے قابل نہیں رہتا، (٢) اس حدیث سے رہبانیت یا تصوف کے کئی نظریات پر زد پڑتی ہے، ایک نفس کشی یا بدن کو نحیف و نزار بنانے پر اور دوسرے صوفیا کے اس نظریہ پر کہ نفس سے جہاد، جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے، (٣) ہر وہ عمل جو سنت کے خلاف ہو خواہ کتنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہو، مردود ہے۔- ٤۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ تین آدمی آپ کی بیویوں کے گھر آئے (سیدنا علی (رض) عبداللہ بن عمرو (رض) اور عثمان بن مظعون (رض) اور آپ کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا (آپ کی اتنی عبادت کو) کم سمجھا اور کہنے لگے، کہاں ہم اور کہاں اللہ کے رسول جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں (یعنی ہمیں ان سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) پھر ایک نے کہا : میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی روزہ نہ چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اتنے میں آپ تشریف لے آئے، اور آپ نے انہیں واپس بلا کر پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے یہ اور یہ باتیں کی ہیں ؟ اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں (بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح)- اس حدیث میں مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔ (١) مجرد زندگی گزارنا، معاشرتی زندگی سے گریز تاکہ یکسوئی سے عبادت کی جاسکے، بدن کو فاقوں مار کر تزکیہ نفس کرنا اور عبادت میں خواہ کیسی ہی افضل نہ ہو، سنت نبوی سے آگے بڑھنا۔ یہ سب باتیں سنت مطہرہ کے خلاف ہیں۔ اگر صرف یہی چیزیں رہبانیت سے نکال دی جائیں تو رہبانیت کی عمارت از خود زمین بوس ہوجاتی ہے۔ (٢) آپ نے سنت کی آخری حد سے مطلع فرما دیا۔ اب جو شخص زہد، تقویٰ اور عبادت کے میدان میں آپ کی مقررہ حدود سے آگے نکلے گا تو وہ بدعت، ضلالت اور کفر ہی ہوگا اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بدعت ہمیشہ نیک ارادوں اور ثواب کی نیت سے ہی شروع کی جاتی ہے۔ (٣) سنت کا تارک گنہگار ہوتا ہے لیکن سنت سے زیادہ عمل کرنے والا جو شریعت کی حدود کو کم سمجھ کر اس میں اضافہ کر رہا ہے۔ وہ بدعتی، گمراہ اور گمراہ کنندہ ہے۔ بعد میں جو لوگ اس بدعت پر عمل پیرا ہوں گے حصہ رسدی اس کا گناہ بدعت جاری کرنے والے کو بھی پہنچتا رہے گا۔- [٥٠] ان رہبانیت اختیار کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ گناہ کی آلودگیوں میں ملوث ہوگئے۔ تھوڑے ہی تھے جو خالصتاً اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ان کو ان کے نیک عمل کا اجر مل جائے گا۔
١۔ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا :” قفینا “ ” قفا “ سے مشق ہے ، جس کا معنی گدی ( گردن کا پچھلا حصہ) ہے ۔ ” اثار “ ” اثر “ کی جمع ہے۔ نشان قدم ۔ مراد یہ ہے کہ پہلے رسولوں کے بعد دوسرے رسول اس طرح بھیجے جس طرح ایک گردن کے پیچھے دوسرا اس کے نشان قدم پر چلتا ہوا آرہا ہو ۔ سب کی تعلیم ایک تھی اور سب ایک ہی راستے کے مسافر تھے۔- ٢۔ وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَیْنٰـہُ الْاِنْجِیْلَ : عیسیٰ (علیہ السلام) کا الگ خاص طور پر ذکر فرمایا ، کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سب سے آخر میں وہی تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل عطاء فرمائی ، جس میں تورات پر عمل کی تاکید کی تھی اور اسکے بعض سخت احکام میں نرمی کا اعلان تھا ، جیسا کہ فرمایا :(وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ) ( آل عمران : ٥٠) ” اور تاکید میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں ۔ “ البتہ وہ بھی اسی راستے پر چلنے والے تھے جس پر پہلے رسول چلتے تھے ، جس میں جہاد کی تعلیم بھی تھی۔- ٣۔ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ط :” رافعہ “ وہ رحمت جو کسی سے تکلیف یا نقصان دور کرنے سے تعلق رکھتی ہو ، جیسا کہ فرمایا :( وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہ ِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج) (النور : ٢) ” اور تمہیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ “ جبکہ ” رحمۃ “ کا لفظ عام ہے ، جس میں ہر طرح کا رحم شامل ہے ، خصوصاً جس میں نفع پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ حج کی آیت (٦٥):(ان اللہ بالناس لرء و ف رحیم) کی تفسیر ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب انجیل عطاء فرمائی تھی وہ بنیادی طور پر احکام کی نہیں بلکہ وعظ و تذکیر کی کتاب تھی ، جس میں انہیں خاص طور پر نرمی اور رحم کے اخلاق اختیار کرنے پر زوردیا گیا تھا ، چناچہ انہوں نے اس پر عمل کیا ، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت پر عمل نے ان میں یہ صفت مزید پختہ کردی ، چونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کے فضل سے ہوا ، اس لیے فرمایا کہ ہم نے اس کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھ دی۔- انجیل میں رافت و رحمت پر زور دینے کی وجہ یہ تھی عیسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے نفوس کی اصلاح کے لیے اور ان کی دلوں سے اس سختی کو دور کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا جو طویل مدتیں گزرنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں پیدا ہوچکی تھی ، جیسا کہ فرمایا :(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط) (البقرۃ : ٧٤) ’ ’ پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں ، یا سختی میں ( ان سے بھی) بڑھ کر ہیں “۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب یہود کے برعکس آپس میں نہایت نرم اور مہربان تھے ، ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں بھی یہ وصف بہت نمایاں تھا ، جیسا کہ فرمایا :(وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ) (الفتح : ٢٩)” اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہات رحم دل ہیں “۔- ٤۔ وَرَہْبَانِیَّۃَ نِابْتَدَعُوْہَا :” رھب یرھب رھبا “ ( ف) ڈرنا ۔ ” راھب “ ڈرنے والا ۔ ” رھبان “ ( بروزن فعلان) ک بہت ڈرانے والا۔” رھبانیۃ “ کی نسبت اسی ” رھبان “ کی طرف ہے ، یعنی رہبان کا طریقہ اختیار کرنا ، جو شدت خوف سے شادی نہیں کرتا کہ بیوی بچے اس کی عبادت میں رکاوٹ نہ بنیں ، لوگوں سے علیحدگی اختیار کرتا ہے کہ اسے عبادت سے غافل نہ کریں ۔ کھانے پینے کی لذیذ اشیاء سے اجتناب کرتا ہے کہ دنیا کی حرص اور نفس کی خواہشوں سے بچ سکے ، اس لیے وہ آبادی سے الگ جنگل بیابان میں کٹیا بنا کر عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ یہ طریقہ انبیاء کا طریقہ نہیں ، نہ انہوں نے اس کی تعلیم دی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ان کا طریقہ تو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دینا اور لوہے کے استعمال کے ساتھ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ سو جن لوگوں نے ترک دنیا کا راستہ اختیار کرکے دعوت و جہاد کا کام چھوڑ دیا ، یہ طریقہ ان کی اپنی ایجاد تھی ، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں :(لما کان من امر عثمان بن مظعنون الذی کان من ترک النساء بعث الیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال یا عثمان انی لم او مر بالرھبانیۃ ارغبت عن سنتیی ؟ قال لا یا رسول اللہ قال ان من سنتی ان اصلی وانام ، واصوم واطعم، وانکح و اطلق ، فمن رغب عن سنتی فلس منی) (سنن دارمی ، ٢، ١٧٩، ح : ٢١٦٩، قال المحقق حسین سلیم اسد الدارنی ، اسنادہ صحیح والحدیث متفق علیہ)” جب عثمان بن مظعون (رض) کے عورتوں کو ترک کرنے والا معاملہ ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا :” اے عثمان مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا ، کیا تم نے میرے طریقے سے بےرغبنتی اختیار کرلی ہے ؟ “ انہوں نے کہا : ” نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میرے طریقے میں سے یہ ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا ( بھی) ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا ( بھی) ہوں اور میں نکاح بھی کرتا ہوں اور طلاق بھی دیتا ہوں ، تو جو شخص میرے طریقے سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں “۔- انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے ، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انہیں ( اس کے بارے ) بتایا گیا تو گویا انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے :” کہاں ہم اور کہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو پہلے پچھلے سب پناہ معاف فرما دیئے ہیں “۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : ” میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا “۔ دوسرے نے کہا : ” میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا ، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا “۔ تیسرے نے کہا :” میں عورتوں سے الگ رہوں گا ، کبھی نکاح نہیں کروں گا “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے فرمایا :(انتم الذین قلتم کذا وکذا ؟ اما واللہ انی لا خشا کم للہ واتقاکم لہ ، لکنی اصوم و افطر ، اصلی وارقد واتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی) (بخاری ، النکاح ، باب الترغیب فی النکاح۔۔۔۔۔۔ ٥٠٦٣)” تمہی لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور اس کے تقویٰ والا ہوں ، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، تو جو میرے طریقے سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں “۔- ٤۔ مَا کَتَبْنٰـہَا عَلَیْہِمْ : یعنی ہم نے انہیں رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ انہوں نے اسے خود ہی ایجاد کرلیا تھا۔- ٦۔ اِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللہ ِ : یہ سننا منقطع ہے اور ” الا “ ” لکن “ کے معنی میں ہے :” ای ما کتبنا ھا علیم لکن فعلوھا ابتغاء رضوان اللہ “ ” یعنی ہم نے انہیں اس کا حکم دیا ، مگر انہوں نے ( ترک دنیا کا) یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا “۔ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے :” لکن کتبنا علیھم ابتغاء رضوان اللہ “ یعنی ہم نے انہیں رہبانیت کا حکم تو نہیں دیا ، لیکن ہم نے انہیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کا حکم دیا ۔- ٧۔ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ج : رہبانیت اختیار کرنے والوں کی دو طرح سے مذمت فرمائی ، ایک یہ کہ انہوں نے دین میں وہ بات ایجاد کی جس کا انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے رہبانیت ایجاد کر کے اپنے آپ پر ترک دنیا کی جو پابندیاں عائد کی تھیں انہیں اس طرح نہ نبھا سکے جس طرح نبھانے کا حق تھا۔ ہمارے شیخ محمد عبدہٗ لکھتے ہیں :” یعنی انہوں نے دو جرم کیے ، ایک رہبانیت (درویشی) کو دین کا جزو لا یفنک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چناچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویش کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی ، لیکن مسیح (علیہ السلام) کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے اور تثلیت کے چکر میں پھنس کر توحید کو چھوڑ دیا ، پھر درویشی تو در کنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ و ریاست طلبی کا ذریعہ بنا لیا اور باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے لگے ۔ الغرض جہاد کے فریضہ کو چھوڑ کر تصوف کی رسوم اختیار کرنا ہی رہبانیت ہے ، جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو ( اللہ کی رضا کے بجائے) جاہ و ریاست اور دنیا طلبی کا ذریعہ بنانا تو ناقابل عفو گناہ ہے ، جو یہود و نصاریٰ میں عام وباء کی شکل اختیار کر گیا تھا “۔ ( اشرف الحواشی) شاہ عبد القادر فرماتے ہیں :” یہ فقیری اور تارک ِ دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی ، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے ، نہ بیوی رکھتے نہ اولاد ، نہ کماتے نہ جوڑتے ، محض عبادت میں رہنے ، خلق سے نہ ملتے ۔ اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا ، مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا ، پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے “۔ ( موضح ) آج کل روزانہ اخبارات میں نصرانی چرچوں میں پادریوں اور راہبوں کے زنا اور قوم لوط کے عمل کی خبریں اسی ” فما رعوھا حق رعایتھا “ کی عملی تفسیر ہیں۔- ٨۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان ” لتتبعن سنن من قبلکم “ کے مطابق امت مسلمہ میں بھی رہبانیت تصوف کی صورت میں رائج ہوگئی۔ (دیکھئے بخاری : ٣٤٥٦) دنیا میں اسلام کو غالب کرنے اور جہاد کے بجائے تک ِ دنیا کمال ٹھہرا ، تو توحید کے بجائے پیر پرستی اور قبر پرستی پھیل گئی ۔ احسان کی منزل یہ تھی کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا اسے دیکھ رہا ہے ، سوا گر یہ اسے نہیں دیکھتا تو وہ اسے یقینا دیکھ رہا ہے ۔ تصوف میں اس کے بجائے کمال یہ ٹھہرا کہ شیخ کا تصور اس طرح رکھو کہ ایک لمحہ بھی دل و دماغ اور آنکھوں سے جدا نہ ہو۔ رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا جو نہ بتایا ہو، یہاں ان طریقوں کو چھوڑ کر نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ٹھہرے ، مثلاً روزے رکھنے کے بجائے ترک حیوانات جمالی و جلالی کیا گیا، یعنی کوئی حیوان یا اس سے نکلنے والی چیز مثلاً گوشت یا دودھ یا گھی نہ رکھا جائے ۔ قرآن مجید کی تلاوت اور مسنون اذکا ار کے بجائے سانس بند کر کے خود ساختہ وظیفوں کو ، جن کے ساتھ تصور شیخ کا شرک ہو ، ولایت کے حصول کا مستند طریقہ قرار دیا گیا ۔ محنت اور کمائی کے بجائے لوگوں کے نذر انوں یا گدائی کے ٹکڑوں پر گزر کرنا فقر کی منزل قرار پایا ۔ قرآن کی دعوت کے ساتھ جہاد کی تلوار لے کر دنیا پر اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کے بجائے جنگلوں بیابانوں یا مقبروں اور خانقاہوں میں ” ہو حق “ کی ضربیں مقصد حیات قرار پائیں۔- مسجدیں ویران ہوئیں اور مقبرے آباد ہوئے اور یہ کام کرنے والوں کی پارسائی اور روحانی اقتدار کے اتنے جھوٹے قصے مشہور کیے گئے کہ نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کی ولایت کے افسانے ان کے مقابلے میں ہیچ ہوگئے۔ احبارو رہبان کے باطل طریقوں کے ساتھ لوگوں کے مال کھانے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا جو یہاں اختیار نہ کیا گیا ہو ۔ جو لوگ دنیاوی مصروفیت کی وجہ سے یہ کام نہ کرسکے انہوں نے بھی کتاب و سنت پر عمل کے بجائے ان خدا رسیدہ ہستیوں کی خدمت کو نجات کے لیے کافی سمجھا اور انہیں قیامت کے دن اپنا کار ساز سمجھا اور انہیں قیامت کے دن اپنا کار ساز سمجھ کر عمل سے فارغ ہوگئے۔ نتیجہ کفار کے غلبے اور مسلمانوں کی ذلت اور غلامی کی صور ت میں سب کے سامنے ہے۔ اس کا علاج اب بھی وہی ہے جو اس مبارک سورت میں بتایا گیا ہے کہ رہبانیت کے بجائے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق بسر کی جائے ، لوگوں کے بنائے ہوئے طریقوں کے بجائے کتاب و سنت سے ثابت اعمال کی پابندی کی جائے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور جان و مال کی قربانی سے کسی قسم کا دریغ نہ کیا جائے ۔ کیونکہ جس طرح تورات و انجیل کی تعلیم رہبانیت کے بجائے قتال فی سبیل اللہ تھی اسی طرح قرآن مجید کی تعلیم بھی یہی ہے ، دلیل اس کی یہ آیت ہے :(اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَقف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط ) (التوبۃ : ١١١)” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں ، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں ، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں ، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے “۔- ٩۔ فَاٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ : ان میں دو قسم کے لوگ شامل ہیں ، ایک وہ جو رہبانیت اور اس کے خود ساختہ عقائد و اعمال مثلاً تثلیث ، قبر پرستی اور ترک دنیا کے بجائے صحیح ایمان و عمل پر قائم ہے ، جو تورات و انجیل سے ثابت تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کا اجر عطاء فرما دیا اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور آپ پر ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ان کا اجر عطاء فرما دیا۔- ١٠۔ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰـسِقُوْنَ : یعنی ان میں سے بہت سے لوگ وہ تھے جو اپنی خواہش کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ان کے خصوصی ذکر کے بعد پورے سلسلہ انبیاء کو ایک مختصر جملے میں بیان فرمایا (آیت) ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا، آخر میں خصوصیت کے ساتھ آخر انبیاء بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کر کے حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی شریعت کا ذکر فرمایا گیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ان کے حواریین کی خاص صفت یہ بتلائی گئی ( وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا) یعنی جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا انجیل کا اتباع کیا ہم نے ان کے دلوں میں رافت اور رحمت پیدا کردی، یعنی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر مہربان و رحیم ہیں، یا پوری خلق خدا کے ساتھ ان کو شفقت و رحمت کا تعلق ہے، رافت و رحمت کے دونوں لفظ ایک دوسرے کے ہم معنی اور مرادف سمجھے جاتے ہیں، یہاں مقابلہ کی وجہ سے بعض حضرات نے فرمایا کہ رافت شدت رحمت کو کہا جاتا ہے گویا عام رحمت سے اس میں زیادہ مبالغہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ کسی شخص پر رحمت و شفقت کے دو تقاضے عادةً ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ اگر کسی تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس کی تکلیف کو دور کردیا جائے اس کو رافت کہا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ اس کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ دے دیجائے، یہ رحمت ہے، غرض رافت کا تعلق دفع مضرت کے ساتھ ہے اور رحمت کا جلب منفعت کے ساتھ اور چونکہ دفع مضرت ہر اعتبار سے مقدم سمجھی جاتی ہے، اس لئے عموماً جب یہ دونوں لفظ یک جا بولے جاتے ہیں تو رافت کو رحمت پر مقدم بولا جاتا ہے۔- یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب جن کو حواریین کہا جاتا ہے ان کی خصوصی صفت رافت و رحمت بیان فرمائی گئی ہے، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کی چند صفات سورة فتح میں بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک صفت رحمآء بینھم بھی ہے، مگر وہاں اس صفت سے پہلے صحابہ کرام کی خاص صفت اشدآء علی الکفار بھی بیان فرمائی ہے، وجہ فرق کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں کفار سے جہاد و قتال کے احکام نہ تھے، اس لئے کفار کے مقابلہ میں شدت ظاہر کرنے کا وہاں کوئی محل نہ تھا واللہ اعلم۔- رہبانیت کا مفہوم اور ضروری تشریح :- وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا، رہبانیت، رہبان کی طرف منسوب ہے، راہب اور رہبان کے معنی ہیں ڈرنے والا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب بنی اسرائیل میں فسق و فجور عام ہوگیا، خصوصاً ملوک اور رؤسا نے احکام انجیل سے کھلی بغاوت شروع کردی، ان میں جو کچھ علماء و صلحاء تھے انہوں نے اس بدعملی سے روکا تو ان کو قتل کردیا گیا، جو کچھ بچ رہے انہوں نے دیکھا کہ اب منع کرنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں، اگر ہم ان لوگوں میں مل جل کر رہے تو ہمارا دین بھی برباد ہوگا، اس لئے ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی سب جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑ دیں، نکاح نہ کریں، کھانے پینے کے سامان جمع کرنے کی فکر نہ کریں، رہنے سہنے کے لئے مکان اور گھر کا اہتمام نہ کریں، لوگوں سے دور کسی جنگل پہاڑ میں بسر کریں، یا پھر خانہ بدوشوں کی طرح زندگی سیاحت میں گزار دیں، تاکہ دین کے احکام پر آزادی سے پورا پورا عمل کرسکیں، ان کا یہ عمل چونکہ خدا کے خوف سے تھا، اس لئے ایسے لوگوں کو راہب یا رہبان کہا جانے لگا، ان کی طرف نسبت کر کے ان کے طریقہ کو رہبانیت سے تعبیر کرنے لگے۔- ان کا یہ طریقہ چونکہ حالات سے مجبور ہو کر اپنے دین کی حفاظت کے لئے تھا اس لئے اصالةً کوئی مذموم چیز نہ تھی، البتہ ایک چیز کو اللہ کے لئے اوپر لازم کرلینے کے بعد اس میں کوتاہی اور خلاف ورزی بڑا گناہ ہے، جیسے نذر اور منت کا حکم ہے کہ وہ اصل سے تو کسی پر لازم و واجب نہیں ہوتی، خود کوئی شخص اپنے اوپر کسی چیز کو نذر کر کے حرام یا واجب کرلیتا ہے تو پھر شرعاً اس کی پابندی واجب اور خلاف ورزی گناہ ہوجاتی ہے، مگر ان میں سے بعض لوگوں نے رہبانیت کا نام رکھ کر دنیا طلبی اور عیش و عشرت کا ذریعہ بنا لیا کیونکہ عام آدمی ایسے لوگوں کے معتقد ہوئے، تحفے تحائف اور نذرانے آنے لگے، لوگوں کا ان کی طرف رجوع ہوا تو فواحش کی نوبت آنے لگی۔- قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں ان کی اسی بات نکیر فرمائی، کہ خود ہی تو اپنے اوپر ترک لذات کو لازم کیا تھا، جو منجانب اللہ ان پر لازم نہ کیا گیا تھا اور جب لازم کرلیا تو پھر اس کی پابندی ان کو کرنا چاہئے تھی، لیکن اس کی خلاف ورزی کی۔- ان لوگوں کا یہ طریقہ اصل سے مذموم نہ تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث اس پر شاہد ہے ابن کثیر نے بروایت ابن ابی حاتم و ابن جریر ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، جن میں سے صرف تین فرقوں کو عذاب سے نجات ملی، جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ظالم و جابر بادشاہوں اور دولت و قوت والے فاسق و فاجر لوگوں کو ان کے فسق و فجور سے روکا، ان کے مقابلہ میں حق کا کلمہ بلند کیا اور دین عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف دعوت دی، ان میں سے پہلے فرقہ نے قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، مگر ان کے مقابلہ میں مغلوب ہو کر قتل کردیئے گئے، تو پھر ان کی جگہ ایک دوسری جماعت کھڑی ہوئی، جن کو مقابلہ کی اتنی بھی قوت و طاقت نہیں تھی، مگر کلمہ حق پہنچانے کے لئے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ان کو حق کی طرف بلایا، ان سب کو بھی قتل کردیا گیا، بعض کو آروں سے چیرا گیا، بعض کو زندہ آگ میں جلایا گیا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے ان سب مصائب پر صبر کیا، یہ بھی نجات پا گئے، پھر ایک تیسری جماعت ان کی جگہ کھڑی ہوئی، جن میں نہ مقابلہ کی قوت تھی نہ ان کے ساتھ رہ کر خود اپنے دین پر عمل کرنے کی صورت بنتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے جنگلوں اور پہاڑوں کا راستہ لیا اور راہب بن گئے، یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے، وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں سے اصل رہبانیت اختیار کرنے والے جنہوں نے رہبانیت کے لوازم کی رعایت کی اور مصائب پر صبر کیا وہ بھی نجات یافتہ لوگوں میں سے ہیں - آیت مذکورہ کی اس تفسیر کا حاصل یہ ہوا کہ جس طرح کی رہبانیت ابتداً اختیار کرنے والوں نے اختیار کی تھی وہ اپنی ذات سے مذموم اور بری چیز نہ تھی، البتہ وہ کوئی حکم شرعی بھی نہیں تھا، ان لوگوں نے اپنی مرضی و خوشی سے اس کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا، برائی اور مذمت کا پہلو یہاں سے شروع ہوا کہ اس التزام کے بعد بعض لوگوں نے اس کو نبھایا نہیں اور چونکہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی زیادہ ہوگئی تھی، اس لئے للاکثر حکم الکل، یعنی اکثریت کے عمل کو کل کی طرف منسوب کردینا عرف عام ہے، اس قاعدہ کے موافق قرآن نے عام بنی اسرائیل کی طرف یہ منسوب کیا کہ انہوں نے جس رہبانیت کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا اس کو نبھایا نہیں اور اس کی شرائط کی رعایت نہیں کی، اسی کو فرمایا (فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا)- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس رہبانیت کے متعلق جو قرآن نے فرمایا ابتدعوہا یعنی اس کو انہوں نے ایجاد کرلیا، اس لفظ ابتداع جو بدعت سے مشتق ہے وہ اس جگہ اپنے لغوی معنی یعنی اختراع و ایجاد کے لئے بولا گیا ہے، شریعت کی اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے جس کے بارے میں حدیث میں ارشاد ہے کل بدعة ضلالة ” یعنی ہر بدعت گمراہی ہے “۔- قرآن کریم کے نسق و نظم میں غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے سب سے پہلے تو اس جملے پر نظر ڈالے (آیت) وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ، جس میں حق تعالیٰ نے اپنی نعمت کے اظہار کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے ان کے دلوں میں را فت، رحمت، رہبانیت پیدا کردی، نسق کلام بتلاتا ہے کہ جس طرح را فت و رحمت مذموم نہیں اسی طرح ان کی اختیار کردہ رہبانیت بھی اپنی ذات سے کوئی مذموم چیز نہ تھی ورنہ مقام امتنان میں را فت و رحمت کے ساتھ رہبانیت کا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اسی لئے جن حضرات نے مطلقاً رہبانیت کو مذموم و ممنوع قرار دیا ان کو اسی جگہ رہبانیت کے عطف میں غیر ضروری تاویل کرنا پڑی کہ اس کو را فت و رحمت مذموم نہیں اسی طرح ان کی اختیار کردہ رہبانیت بھی اپنی ذات سے کوئی مذموم چیز نہ تھی ورنہ مقام امتنان میں را فت و رحمت کے ساتھ رہبانیت کا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اسی لئے جن حضرات نے مطلقاً رہبانیت کو مذموم و ممنوع قرار دیا ان کو اس جگہ رہبانیت کے عطف میں غیر ضروری تاویل کرنا پڑی کہ اس کو را فت و رحمت پر عطف نہیں مانا بلکہ ایک مستقل جملہ یہاں محذوف قرار دیا یعنی ابتداعوا ( کما فعلہ القرطبی) لیکن مذکورہ تفسیر پر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، آگے بھی قرآن کریم نے ان کے اس ابتداع پر کوئی نکیر اور رد نہیں فرمایا بلکہ نکیر اس پر کی گئی کہ انہوں نے اس اختیار کردہ رہبانیت کو نبھاہا نہیں، اس کے حقوق و شرائط کی رعایت نہیں کی، یہ بھی جب ہی ہوسکتا ہے کہ ابتداع کو لغوی معنی میں لیا جائے، شرعی اور اصطلاحی معنی ہوتے تو قرآن خود اس پر بھی نکیر کرتا، کیونکہ بدعت اصطلاحی خود ایک گمراہی ہے۔- اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی مذکورہ حدیث سے اور بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ ترہب اختیار کرنے والی جماعت کو نجات یافتہ جماعتوں میں شمار فرمایا، اگر یہ بدعت اصطلاحی کے مجرم ہوتے تو نجات یافتہ میں شمار نہ ہوتے بلکہ گمراہوں میں شمار کئے جاتے۔- کیا رہبانیت مطلقاً مذموم و ناجائز ہے، یا اس میں کچھ تفصیل ہے ؟ - صحیح بات یہ ہے کہ لفظ رہبانیت کا عام اطلاق ترک لذات و ترک مباحات کے لئے ہوتا ہے، اس کے چند درجے ہیں، ایک یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے، یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے، اس معنی کے اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے اور آیت قرآن (یایھا الذین امنوا لاتحرموا طیبت ما احل اللہ لکم) اور اس کی امثال میں اسی کی ممانعت و حرمت کا بیان ہے، اس آیت کا عنوان لاتحرموا خود یہ بتلا رہا ہے کہ اس کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے رہا ہے جو احکام الٰہیہ میں تبدیل و تحریف کے مترادف ہے۔- دوسرا درجہ یہ ہے کہ مباح کے کرنے کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار نہیں دیتا، مگر کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پابندی کرتا ہے، دنیوی ضرورت جیسے کسی بیماری کے خطرہ سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے اور دینی ضرورت یہ کہ یہ محسوس کرے کہ میں نے اس مباح کو اختیار کیا تو انجام کار میں کسی گناہ میں مبتلا ہوجاؤں گا، جیسے جھوٹ، غیبت وغیرہ سے بچنے کے لئے کوئی آدمی لوگوں سے اختلاط ہی چھوڑ دے، یا کسی نفسانی رذیلہ کے علاج کے لئے چند روز بعض مباحات کو ترک کر دے اور اس ترک کی پابندی بطور علاج و دوا کے اس وقت تک کرے جب تک یہ رذیلہ دور نہ ہوجائے، جیسے صوفیائے کرام مبتدی کو کم کھانے، کم سونے، کم اختلاط کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایک مجاہدہ ہوتا ہے نفس کو اعتدال پر لانے کا جب نفس پر قابو ہوجاتا ہے کہ ناجائز تک پہنچنے کا خطرہ نہ رہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ درحقیقت رہبانیت نہیں، تقویٰ ہے جو مطلوب فی الدین اور اسلاف کرام صحابہ وتابعین اور ائمہ دین سے ثابت ہے۔- تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا مگر اس کا استعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے اس طرح کے استعمال کو بھی چھوڑنا ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے، یہ ایک قسم کا غلو ہے، جس سے احادیث کثیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور جس حدیث میں لا رھبانیة فی الا سلام آیا ہے ” یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں “ اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل وثواب سمجھے، بنی اسرائیل میں جو رہبانیت اول شروع ہوئی وہ اگر حفاظت دین کی ضرورت سے تھی تو دوسری قسم یعنی تقویٰ میں داخل ہے لیکن اہل کتاب میں غلو فی الدین کی آفت بہت تھی، وہ اس غلو میں پہلے درجہ سے تحریم حلال تک پہنچے تو حرام کے مرتکب ہوئے اور تیسرے درجہ تک رہے تو بھی ایک مذموم فعل کے مجرم بنے، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ ٠ۥۙ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ٠ ۭ وَرَہْبَانِيَّۃَۨ ابْتَدَعُوْہَا مَا كَتَبْنٰہَا عَلَيْہِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَايَــتِہَا ٠ ۚ فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ٠ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ٢٧- قفا - القَفَا معروف، يقال : قَفَوْتُهُ : أصبت قَفَاهُ ، وقَفَوْتُ أثره، واقْتَفَيْتُهُ : تبعت قَفَاهُ ، والِاقْتِفَاءُ :- اتّباع القفا، كما أنّ الارتداف اتّباع الرّدف، ويكنّى بذلک عن الاغتیاب وتتبّع المعایب، وقوله تعالی: وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] أي : لا تحکم بالقِيَافَةِ والظنّ ، والقِيَافَةُ مقلوبة عن الاقتفاء فيما قيل، نحو : جذب وجبذ وهي صناعة وقَفَّيْتُهُ : جعلته خلفه . قال : وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] . والقَافِيَةُ : اسم للجزء الأخير من البیت الذي حقّه أن يراعی لفظه فيكرّر في كلّ بيت، والقَفَاوَةُ : الطّعام الذي يتفقّد به من يعنی به فيتّبع .- ( ق ف و ) القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفرتہ کے معنی کسی کی گدی پر مارنا اور کسی کے پیچھے پیچھے چلنا یہ دونوں محاورہ ہے استعمال ہوتی ہے قفوت الژرہ واقتفیتہ کے معنی کیس کے پیچھے چلنے کے ہیں دوسرے کا مصدر اقتفاء ہے ۔ جس کے اصل معنی کسی کی قفا کا اتباع کرنے کے ہیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر کیس کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] اور ( اے بندے ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ یعنی محض قیافہ اور ظن سے کام نہ لو بعض کے نزدیک قیافہ کا لفظ بھی اقتفاء سے مقلوب ہے ۔ جیسے جذب وحیذا ور یہ ( قیافہ ) ایک فن ہے ۔ اور قفیتہ کے معنی کیس کو دوسرے کے پیچھے لگانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے ، القافیۃ مصر عہ کے جز وا خیر کو کہا جاتا ہے جس کے حرف روی کی ہر شعر میں رعایت رکھی جاتی ہے ۔ القفاوۃ وہ کھانا جس سے مہمان کی آؤ بھگت کی جائے ۔ - أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال :- عَاسَهَا يَعِيسُهَا «2» .- ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
قول باری ہے (وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا، اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور نرمی رکھ دی تھی اور رہبانیت کہ انہوں نے خود ایجاد کرلیا تھا) تا آخر آیت۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بتادیا کہ انہوں نے رہبانیت کو عبادت کے طور پر خود ایجاد کیا پھر اس رہبانیت کی رعایت نہ کرنے پر ان کی مذمت کی چناچہ ارشادہوا (فما رعوھا حق رعایتھا، انہوں نے اس کی پوری پوری رعایت نہیں کی)- ابتداع یعنی ایجاد کبھی تو قول کے ذریعے ہوتی ہے یعنی بندہ ایک چیز کی اپنی جانب سے نذر مان لیتا ہے اور اسے اپنے اوپر واجب کردیتا ہے اور کبھی فعل کے ذریعے ہوتی ہے یعنی بندہ ایک چیز کی نذر مان کر اسے شروع کردیتا ہے۔ آیت کا عموم ان دونوں صورتوں کو متضمن ہے۔ یہ چیز اس امر کی مقتضی ہے کہ جو شخص کسی عبادت کو قولاً یا فعلاً شروع کرے اس پر اس کی رعایت اور اس کا اتمام واجب ہوجاتا ہے۔- اس بنا پر جو شخص نماز یا روزہ یا حج یا اسی طرح کی کوئی اور عبادت شروع کرلے اس پر اس کا اتمام واجب ہوگا۔ اب اس کا اتمام اس پر اسی صورت میں لازم ہوگا جب وہ چیز اس پر واجب ہوجائے گی۔ اس لئے اگر وہ اسے فاسد کردے گا تو اس پر اس کی قضا واجب ہوجائے گی۔- حضرت ابوامامہ باہلی (رض) سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے کچھ نئی عبادتیں ایجاد کرلیں جنہیں اللہ نے ان پر واجب نہیں کیا تھا وہ ان عبادتوں کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن پھر انہوں نے ان کی پوری پوری رعایت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ترک پر ان لوگوں کی مذمت کی اور فرمایا (ورھبانیۃ ن ابتدعوھا) تا آخر آیت۔
اور نوح کے ایک ہزار دو سوبیالیس سال بعد ابراہیم کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی کہ ان میں انبیاء ہوتے رہے اور کتاب نازل ہوتی رہی، نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں میں کچھ تو کتاب اور رسول پر ایمان لے آئے اور بہت سے کافر تھے۔- اور پھر حضرت نوح اور ابراہیم کے بعد ان کی اولاد میں اور رسولوں کو یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور پھر ان تمام رسولوں کے بعد رسول اکرم سے پہلے عیسیٰ کو بھیجا اور ہم نے ان کو انجیل دی اور جن لوگوں نے عیسیٰ کی پیروی کی تھی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت و رحم پیدا کردیا کہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے رہتے ہیں۔- اور انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کرلیا تھا انہوں نے اس کے لیے دبور کے صوصے تیار کرلیے تھے تاکہ اس میں راہب بن کر بیٹھ جائیں اور بولس یہودی کے فتنے سے بچے رہیں اور ہم نے اس رہبانیت کو ان پر واجب نہ کیا تھا مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے اس کو اختیار کرلیا تھا یا یہ کہ انہوں نے ان گرجاؤں کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے بنا لیا تھا باقی ان کا بنانا ہم نے ان پر ضروری قرار نہیں دیا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حق رہبانیت کی پوری حفاظت نہ کی سو ان میں جو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو ایمان و عبادت کے صلہ میں دگنا ثواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین عیسوی کی مخالفت نہیں کی اور ان میں سے اہل یمن میں چوبیس آدمی باقی رہ گئے تھے جو کہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ پر ایمان لائے اور آپ کے دین میں داخل ہوئے اور ان راہبوں میں زیادہ تر کافر تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دین عیسوی کی مخالفت کی۔
آیت ٢٧ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَـیْنٰـہُ الْاِنْجِیْلَ ” پھر ہم نے بھیجے ان کے نقش قدم پر اپنے بہت سے رسول (علیہ السلام) اور پھر ان کے پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو اور اسے ہم نے انجیل عطا فرمائی “- آیت ٢٦ اور ٢٧ میں حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء و رسل - کا ذکر تمہید کے طور پر آیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اصل میں یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جن کے پیروکاروں نے رہبانیت کی ابتدا کی تھی۔ - وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَــۃً وَّرَحْمَۃً ” اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں بڑی نرمی اور رحمت پیدا کردی۔ “- رافت اور رحمت ملتے جلتے مفہوم کے دو الفاظ ہیں۔ رافت دراصل وہ انسانی جذبہ ہے جس کے تحت انسان کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ بقول امیر مینائی ؎- خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ- سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے - یعنی یہ جذبہ ٔ رافت ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے ‘ جبکہ رحمت کا جذبہ انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دوسرے انسان کی تکلیف دور کرنے کے لیے کوشش کرے۔ گویا رافت کا جذبہ بنیادی طور پر انسان کے دل میں تحریک پیدا کرتا ہے اور اس کے ردّعمل ( ) کا اظہار جذبہ رحمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے رافت اور رحمت باہم تکمیلی ( ) نوعیت کے جذبات ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا تصدیق فرمائی گئی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کے دلوں کو خصوصی طور پر رافت و رحمت کے جذبات سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود بھی مزاج کے اعتبار سے انتہائی نرم اور رقیق القلب تھے ‘ آپ (علیہ السلام) کی شخصیت میں سختی کا عنصر بالکل نہیں تھا۔ آپ (علیہ السلام) کی شخصیت کے اس پہلو کا اندازہ اس مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ (علیہ السلام) نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا تم چوری کر رہے ہو ؟ اس نے کہا نہیں میں چوری تو نہیں کر رہا ۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : اچھا تو پھر میری آنکھ نے غلط دیکھا ہے۔ چناچہ آپ (علیہ السلام) کی شخصیت کے زیر اثر آپ (علیہ السلام) کے حواریین کی طبیعتوں میں بھی رافت ‘ رحمت ‘ رقت ِ قلب اور شفقت کے غیر معمولی جذبات پیدا ہوگئے تھے۔ یہ جذبات بلاشبہ اپنی جگہ مستحسن ہیں۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے سورة التوبہ میں فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کے حق میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں : بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ (رافت اور رء وف ایک ہی مادے سے ہیں) ۔ بہرحال شیطان نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کے مزاج کی نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ان جذبات کا رخ رہبانیت کی طرف موڑ دیا۔- وَرَھْبَانِیَّۃَ نِابْتَدَعُوْھَا ” اور رہبانیت کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کی تھی “- مَا کَتَـبْنٰـھَا عَلَیْھِمْ اِلاَّ ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ ” ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا تھا مگر اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں “- اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ رہبانیت انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اختیار کی تھی ‘ اس میں ان کی کسی بدنیتی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے تو ان پر کچھ لازم نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی رضا تلاش کریں ۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس کشی ( ) ‘ ترکِ دنیا ‘ رہبانیت اور تجرد (بغیر نکاح کے) کی زندگی بسر کرنے کا راستہ اختیار کرلیا۔ بہرحال حقیقت میں یہ اللہ کی رضا کا راستہ نہیں تھا۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا درست راستہ تو جہاد کا راستہ ہے : وَابْتَغُوْا اِلَـیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ (المائدۃ : ٣٥) ” اللہ کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو “ یعنی باطل کو ملیامیٹ کرنے ‘ حق کو غالب کرنے ‘ ظلم و ناانصافی کو اکھاڑ پھینکنے اور عدل و قسط کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے مجاہد بن جائو اس راستے پر چلتے ہوئے جان و مال کی قربانیاں دو ‘ فاقے برداشت کرو اور ہر طرح کی تکالیف و مشکلات کا سامنا کرو۔ بہرحال شیطان نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو اللہ کے مقرب بننے اور اس کی رضا تلاش کرنے کا یہ راستہ ان کی نظروں سے اوجھل کر کے رہبانیت کے راستے پر ڈال دیا تاکہ اللہ کے نیک اور مخلص بندے تمدن کے معاملات سے لاتعلق رہیں اور معاشرے کے اندر ابلیسیت کے ننگے ناچ کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ ہو۔ دنیا میں ظالموں اور شریروں کو کھلی چھوٹ حاصل ہو اور ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ علامہ اقبال نے ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں اس کی بہترین تعبیر کی ہے کہ ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں کو ہدایات دیتے ہوئے ” مومن “ کے بارے میں کہا کہ ؎- مست رکھو ذکر و فکر صبح گا ہی میں اسے - پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے - فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا ” پھر وہ اس کی رعایت بھی نہ کرسکے جیسا کہ اس کی رعایت کرنے کا حق تھا۔ “- دراصل انسان کے لیے اپنے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلینا تو آسان ہے مگر پھر ساری عمر اس فیصلے کو نبھانا بہت مشکل ہے۔ یہی مشکل رہبانیت کا راستہ اختیار کرنے والے لوگوں کو پیش آئی۔ راہب اور راہبائیں بظاہر تو مجرد زندگی بسر کرنے کا عہد کرتے لیکن پھر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زناکاریوں میں ملوث ہوجاتے۔ ان کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ راہب خانوں کے تہہ خانے حرامی بچوں کے قبرستان بن گئے۔ پر لکھی گئی کتابوں میں اس بارے میں لرزہ خیز تفصیلات ملتی ہیں۔ دراصل انسان کے جنسی جذبے کو غیر فطری طور پر دبانا ایسا ہی ہے جیسے بہتے دریا پر بند باندھنا۔ دریا کے پانی کو مناسب راستہ دے کر تو اس پر بند باندھا جاسکتا ہے لیکن دریا کے پورے پانی کو روکنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔ ظاہر ہے اگر کہیں کوئی ایسی کوشش ہوگی تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ یہ لوگ خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ بہت منہ زور ہے۔ سگمنڈ فرائڈ عیسائیوں کے گھر کا آدمی ہے اور اس کی گواہی گویا ” شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا “ کا درجہ رکھتی ہے۔ انسان کے جنسی جذبے کو وہ تمام جذبات پر غالب اور باقی تمام جذبات کا محرک قرار دیتا ہے۔ اگرچہ میں ذاتی طور پر فرائڈ کے اس تجزیے سے متفق نہیں ہوں اور میری یہ رائے اکیلے فرائڈ یا اس کے اس تجزیے کے بارے میں ہی نہیں ‘ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بیشتر مغربی فلاسفر انسانی زندگی پر فلسفیانہ بحث کے دوران اکثر غلط بینی اور کج روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ جیسے فرائڈ کو ہر طرف سیکس ہی سیکس نظر آیا ‘ کارل مارکس کی نظریں انسان کے پیٹ پر مرکوز ہو کر رہ گئیں ‘ جبکہ ایڈلر صاحب کو انسان کے بڑا بننے کا جذبہ ( ) ہی ہر طرف چھایا ہوا دکھائی دیا۔ بہرحال مذکورہ فلاسفرز نے اپنے اپنے مطالعے اور تجزیے میں انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے اور بہت سے دوسرے اہم پہلوئوں کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے۔ لہٰذا ان کی ایسی آراء جزوی طور پر ہی درست تسلیم کی جاسکتی ہیں۔ بہرحال اگر یہ درست نہ بھی ہو کہ انسان کا جنسی جذبہ اس کے تمام جذبوں پر غالب اور اس کے باقی تمام جذبوں کا محرک ہے تو بھی اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ انسان کا یہ جذبہ بہت منہ زور ہے اور اس کو غیر فطری طریقے سے قابو میں لانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس جذبے کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے نکاح کا فطری راستہ تجویز کیا ہے۔ رہبانیت کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقے زیادہ تر چونکہ غیر فطری تھے اس لیے اسے اختیار کرنے والے لوگ اس کا حق ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ - فَاٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ ” تو ہم نے ان میں سے ان لوگوں کو ان کا اجر دیا جو ایمان لے آئے۔ “- ایک رائے کے مطابق یہ عیسائیوں کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کے زمانے میں صاحب ایمان تھے ‘ لیکن اس سے ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر مسلمان ہوگئے انہیں ان کا اجر دیا جائے گا۔- وَکَثِیْـرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ ” لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے۔ “
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :51 اصل الفاظ ہیں رافت اور رحمت ۔ یہ دونوں لفظ قریب قریب ہم معنی ہیں مگر جب یہ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں تو رافت سے مراد وہ رقیق القلبی ہوتی ہے جو کسی کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو ۔ اور زحمت سے مراد وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اس کی مدد کی کوشش کرے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نہایت رقیق القلب اور خلق خدا کے لیے رحیم و شفیق تھے ۔ اس لیے ان کی سیرت کا یہ اثر ان کے پیروؤں میں سرایت کر گیا کہ وہ اللہ کے بندوں پر ترس کھاتے تھے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی خدمت کرتے تھے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :52 اس کا تلفظ رَہْبانیت بھی کیا جاتا ہے اور رُہبانیت بھی ۔ اس کا مادہ رَہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں ۔ رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوف زدگی ، اور رُہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوف زدگان ۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر ( قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف ، یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف ) تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہائے عزلت میں جا بیٹھنا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :53 اصل الفاظ ہیں اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہ ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے ان پر اس رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا ۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے ۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ : لَا رَھبَانیّۃ فی الاسْلام ، اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ( مسند احمد ) ۔ ایک اور حدیث میں حضور نے فرمایا رھبانیۃ ھٰذہ الامّۃ الجھاد فی سبیل اللہ ، اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے مسند احمد ۔ مسند ابی یَعلیٰ ) ۔ یعنی اس امت کے لیے روحانی ترقی کا راستہ ترک دنیا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، اور یہ امت فتنوں سے ڈر کر جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نہیں بھاگتی بلکہ راہ خدا میں جہاد کر کے ان کا مقابلہ کرتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا ، تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا اماد اللہ انی لأخشاکم للہ واتقاکم لَہ لکنی اصوم و اُفطر واُصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی خدا کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں ۔ مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ۔ جس کو میرا طریقہ پسند نہ ہو اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے لا تشددوا علیٰ انفسکم فیشدد اللہ علیکم فان قوما شددوا فشدد اللہ علیہ فتلک بقایاھم فی الصوامع والدیار ۔ اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے ۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا ۔ دیکھ لو ، وہ ان کے بقایا راہب خانوں اور کنیسوں میں موجود ہیں ۔ ( ابوداؤد ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :54 یعنی وہ دہری غلطی میں مبتلا ہو گئے ۔ ایک غلطی یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ نے کوئی حکم نہ دیا تھا ۔ اور دوسری غلطی یہ کہ جن پابندیوں کو اپنے نزدیک اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھ کر خود اپنے اوپر عائد کر بیٹھے تھے ان کا حق ادا نہ کیا اور وہ حرکتیں کیں جن سے اللہ کی خوشنودی کے بجائے الٹا اس کا غضب مول لے بیٹھے ۔ اس مقام کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک نظر مسیحی رہبانیت کی تاریخ پر ڈال لینی چاہیے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا ۔ مگر ابتدا ہی سے مسیحیت میں اس کے جراثیم پائے جاتے تھے اور وہ تخیلات اس کے اندر موجود تھے جو اس چیز کو جنم دیتے ہیں ۔ ترک و تجرید کو اخلاقی آئیڈیل قرار دینا اور درویشانہ کو شادی بیاہ اور دنیوی کاروبار کی زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ و افضل سمجھنا ہی رہبانیت کی بنیاد ہے ، اور یہ دونوں چیزیں مسیحیت میں ابتدا سے موجود تھیں ۔ خصوصیت کے ساتھ تجرد کو تقدس کا ہم معنی سمجھنے کی وجہ سے کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے لیے یہ بات ناپسندیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں ، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں ۔ اسی چیز نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنے کی شکل اختیار کر لی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیلنی شروع ہوئی ۔ تاریخی طور پر اس کے تین بڑے اسباب تھے : ایک یہ کہ قدیم مشرک سوسائٹی میں شہوانیت ، بد کرداری اور دنیا پرستی جس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی اس کا توڑ کرنے کے لیے عیسائی علماء نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجائے انتہا پسندی کی راہ اختیار کی ۔ انہوں نے عفت پر اتنا زور دیا کہ عورت اور مرد کا تعلق بجائے خود نجس قرار پا گیا ، خواہ وہ نکاح ہی کی صورت میں ہو ۔ انہوں نے دنیا پرستی کے خلاف اتنی شدت برتی کہ آخر کار ایک دین دار آدمی کے لیے سرے سے کسی قسم کی املاک رکھنا ہی گناہ بن گیا اور اخلاق کا معیار یہ ہو گیا کہ آدمی بالکل مفلس اور ہر لحاظ سے تارک الدنیا ہو ۔ اسی طرح مشرک سوسائٹی کی لذت پرستی کے جواب میں وہ اس انتہا پر جا پہنچے کہ ترک الذات ، نفس کو مارنا اور خواہشات کا قلع قمع کر دینا اخلاق کا مقصود بن گیا ، اور طرح طرح کی ریاضتوں سے جسم کو اذیتیں دینا آدمی کی روحانیت کا کمال اور اس کا ثبوت سمجھا جانے لگا ۔ دوسرے یہ کہ مسیحیت جب کامیابی کے دور میں داخلہ ہو کر عوام میں پھیلنی شروع ہوئی تو اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کے شوق میں کلیسا ہر اس برائی کو اپنے دائرے میں داخل کرتا چلا گیا جو عام لوگوں میں مقبول تھی ۔ اولیاء پرستی نے قدیم معبودوں کی جگہ لے لی ۔ ہورس ( ) اور آئسس ( ) کے مجسموں کی جگہ مسیح اور مریم کے بت پوجے جانے لگے ۔ سیٹرنیلیار ( ) کی جگہ کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا ۔ قدیم زمانے کے تعویذ گنڈے ، عملیات ، فال گیری و غیب گوئی جن بھوت بھگانے کے عمل ، سب عیسائی درویشوں نے شروع کر دیے ۔ اسی طرح چونکہ عوام اس شخص کو خدا رسیدہ سمجھتے تھے جو گندا اور ننگا ہو اور کسی بھٹ یا کھوہ میں رہے ، اس لیے عیسائی کلیسا میں ولایت کا یہی تصور مقبول ہو گیا اور ایسے ہی لوگوں کی کرامتوں کے قصوں سے عیسائیوں کے ہاں تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں لبریز ہو گئیں ۔ تیسرے یہ کہ عیسائیوں کے پاس دین کی سرحدیں متعین کرنے کے لیے کوئی مفصل شریعت اور کوئی واضح سنت موجود نہ تھی ۔ شریعت موسوی کو وہ چھوڑ چکے تھے ، اور تنہا انجیل کے اندر کوئی مکمل ہدایت نامہ نہ پایا جاتا تھا ۔ اس لیے مسیحی علماء کچھ باہر کے فلسفوں اور طور طریقوں سے متاثر ہو کر اور کچھ خود اپنے رجحانات کی بنا پر طرح طرح کی بدعتیں دین میں داخل کرتے چلے گئے ۔ رہبانیت بھی انہی بدعتوں میں سے ایک تھی ۔ مسیحی مذہب کے علماء اور ائمۃ نے اس کا فلسفہ اور اس کا طریق کار بدھ مذہب کے بھکشوؤں سے ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں سے ، قدیم مصری فقراء ( ) سے ، ایران کے مانویوں سے ، اور افلاطینوس کے پیرو اشراقیوں سے اخذ کیا اور اسی کو تزکیہ نفس کا طریقہ ، روحانی ترقی کا ذریعہ ، اور تقرب الی اللہ کا وسیلہ قرار دے لیا ۔ اس غلطی کے مرتکب کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے ۔ تیسری صدی سے ساتویں صدی عیسوی ( یعنی نزول قرآن کے زمانے ) تک جو لوگ مشرق اور مغرب میں مسیحیت کے اکابر علماء ، بزرگ ترین پیشوا اور امام مانے جاتے ہیں ، سینٹ اَتھانا سیوس ، سینٹ باسل ، سینٹ گریگوری نازیا نزین ، سینٹ کرائی سُوسٹم ، سینٹ اَیمبروز ، سینٹ جیروم ، سینٹ آگسٹائن ، سینٹ بینیڈکٹ ، گریگوری اعظم ، سب کے سب خود راہب اور رہبانیت کے زبردست علمبردار تھے ۔ انہی کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا ۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا ۔ اس کا بانی سینٹ اینتُھنی ( . ) تھا جو 250 میں پیدا ہوا اور 350 میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ اسے پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے ۔ اس نے فَیُّوم کے علاقے میں پَسپیر کے مقام پر ( جو اب دیرالمیمون کے نام سے معروف ہے ) پہلی خانقاہ قائم کی ۔ اس کے بعد دوسری خانقاہ اس نے بحر احمر کے ساحل پر قائم کی جسے اب دیر مارُ انْطُونیوس کہا جاتا ہے ۔ عیسائیوں میں رہبانیت کے بنیادی قواعد اس کی تحریروں اور ہدایات سے ماخوذ ہیں ۔ اس آغاز کے بعد یہ سلسلہ مصر میں سیلاب کی طرح پھیل گیا اور جگہ جگہ راہبوں اور راہبات کے لیے خانقاہیں قائم ہو گئیں جن میں سے بعض میں تین تین ہزار راہب بیک وقت رہتے تھے ۔ 325 میں مصر ہی کے اندر ایک اور مسیحی ولی پاخومیوس نمودار ہوا جس نے دس بڑی خانقاہیں راہبین و راہبات کے لیے بنائیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افریقہ و یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا ۔ کلیسائی نظام کو اول اول اس رہبانیت کے معاملہ میں سخت الجھن سے سابقہ پیش آیا ، کیونکہ وہ ترک دنیا اور تجرد اور غریبی و مفلسی کو روحانی زندگی کا آئیڈیل تو سمجھتا تھا ، مگر راہبوں کی طرح شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے اور ملکیت رکھنے کو گناہ بھی نہ ٹھہرا سکتا تھا ۔ بالآخر سینٹ اَتھانا سیوس ( متوفی 373 ء ) سینٹ باسِل ( متوفی 379 ء ) ، سینٹ آگسٹائن ( متوفی 430 ء ) اور گریگوری اعظم ( متوفی 609 ء ) جیسے لوگوں کے اثر سے رہبانیت کے بہت سے قواعد چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل ہو گئے ۔ اس راہبانہ بدعت کی چند خصوصیات تھیں جنہیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں : ( 1 ) سخت ریاضتوں اور نت نئے طریقوں سے اپنے جسم کو اذیتیں دینا ۔ اس معاملہ میں ہر راہب دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا ۔ عیسائی اولیاء کے تذکروں میں ان لوگوں کے جو کمالات بیان کیے گئے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں : اسکندریہ کا سینٹ مکاریوس ہر وقت اپنے جسم پر 80 پونڈ کا بوجھ اٹھائے رکھتا تھا ۔ 6 مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتا رہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں ۔ اس کے مرید سینٹ یوسیبیوس نے پِیْر سے بھی بڑھ کر ریاضت کی ۔ وہ 150 پونڈ کا بوجھ اٹھائے پھرتا تھا اور 3 سال تک ایک خشک کنویں میں پڑا رہا ۔ سینٹ سابیوس صرف وہ مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبو دار ہو جاتی تھی ۔ سینٹ بیساریون 40 دن تک خاردار جھاڑیوں میں پڑا رہا اور 40 سال تک اس نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی ۔ سینٹ پا خومیوس نے 15 سال ، اور ایک روایت کے مطابق پچاس سال زمین کو پیٹھ لگائے بغیر گزار دیے ۔ ایک ولی سینٹ جان تین سال تک عبادت میں کھڑا رہا ۔ اس پوری مدت میں وہ نہ کبھی بیٹھا نہ لیٹا ۔ آرام کے لیے جس ایک چٹان کا سہارا لے لیتا تھا اور اس کی غذا صرف وہ تبرک تھا جو ہر اتوار کو اس کے لیے لایا جاتا تھا ۔ سینٹ سِیمیون اِسٹائلائٹ ( 390 449 ء ) جو عیسائیوں کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے ، ہر ایسٹر سے پہلے پورے چالیس دن فاقہ کرتا تھا ۔ ایک دفعہ وہ پورے ایک سال تک ایک ٹانگ پر کھڑا رہا ۔ بسا اوقات وہ اپنی خانقاہ سے نکل کر ایک کنویں میں جا رہتا تھا ۔ آخر کار اس نے شمالی شام کے قلعہ سیمان کے قریب 60 فیٹ بلند ایک ستون بنوایا جس کا بالائی حصہ صرف تین فیٹ کے گھیر میں تھا اور اوپر کٹہرا بنا دیا گیا تھا ۔ اس ستون پر اس نے پورے تیس سال گزار دیے ۔ دھوپ ، بارش ، سردی ، گرمی سب اس پر سے گزرتی رہتی تھیں اور وہ کبھی ستون سے نہ اترتا تھا ۔ اس کے مرید سیڑھی لگا کر اس کو کھانا پہنچاتے اور اس کی گندگی صاف کرتے تھے ۔ پھر اس نے ایک رسی لے کر اپنے آپ کو اس ستوں سے باندھ لیا یہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہو گئی ، گوشت سڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے ۔ جب کوئی کیڑا اس کے پھوڑوں گر جاتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر پھوڑے ہی میں رکھ لیتا اور کہتا کھا جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے مسیحی عوام دور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے تھے ۔ جب وہ مرا تو مسیحی عوام کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ عیسائی ولی کی بہترین مثال تھا ۔ اس دور کے عیسائی اولیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی ہی مثالوں سے بھری پری ہیں ۔ کسی ولی کی تعریف یہ تھی کہ 30 سال تک وہ بالکل خاموش رہا ور کبھی اسے بولتے نہ دیکھا گیا ۔ کسی نے اپنے آپ کو ایک چٹان سے باندھ رکھا تھا ۔ کوئی جنگلوں میں مارا مارا پھرتا اور گھاس پھونس کھا کر گزارا کرتا ۔ کوئی بھاری بوجھ ہر وقت اٹھائے پھرتا ۔ کوئی طوق و سلاسل سے اپنے اعضا جکڑے رکھتا ۔ کچھ حضرات جانوروں کے بھٹوں ، یا خشک کنوؤں ، یا پرانی قبروں میں رہتے تھے ۔ اور کچھ دوسرے بزرگ ہر وقت ننگے رہتے اور اپنا ستر اپنے لمبے لمبے بالوں سے چھپاتے اور زمین پر رینگ کر چلتے تھے ۔ ایسے ہی ولیوں کی کرامات کے چرچے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی ہڈیاں خانقاہوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں ۔ میں نے خود کوہ سینا کے نیچے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ میں ایسی ہی ہڈیوں کی ایک پوری لائبریری سجی ہوئی دیکھی ہے جس میں کہیں اولیاء کی کھوپڑیاں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں ، کہیں پاؤں کی ہڈیاں ، اور کہیں ہاتھوں کی ہڈیاں ۔ اور ایک ولی کاتو پورا ڈھانچہ ہی شیشے کی ایک الماری میں رکھا ہوا تھا ۔ ( 2 ) ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر وقت گندے رہتے اور صفائی سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ نہانا یا جسم کو پانی لگانا ان کے نزدیک خدا پرستی کے خلاف تھا ۔ جسم کی صفائی کو وہ روح کی نجات سمجھتے تھے ۔ سینٹ اتھاناسیوس بڑی عقیدت کے ساتھ سینٹ اینتُھنی کی یہ خوبی بیان کرتا ہے کہ اس نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے ۔ سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہوا ، پورے 5 سال اس نے نہ منہ دھویا نہ پاؤں ۔ ایک مشہور راہبہ کنواری سلوِیا نے عمر بھر اپنی انگلیوں کے سوا جسم کے کسی حصے پانی نہیں لگنے دیا ۔ ایک کانونٹ کی 130 راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے ، اور غسل کا تو نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ چڑھ جاتا تھا ۔ ( 3 ) اس رہبانیت نے ازدواجی زندگی کو عملاً بالکل حرام کر دیا اور نکاح کے رشتے کو کاٹ پھینکنے میں سخت بیدردی سے کام لیا ۔ چوتھی اور پانچویں صدی کی تمام مذہبی تحریریں اس خیال سے بھری ہوئی ہیں کہ تجرد سب سے بڑی اخلاقی قدر ہے ، اور عفت کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جنسی تعلق سے قطعی احتراز کرے خواہ وہ میاں اور بیوی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو ۔ پاکیزہ روحانی زندگی کا کمال یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی اپنے نفس کو بالکل مار دے اور اس میں جسمانی لذت کی کوئی خواہش تک باقی نہ چھوڑے ۔ ان لوگوں کے نزدیک خواہش کو مار دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس سے حیوانیت کو تقویت پہنچتی ہے ، ان کے نزدیک لذت اور گناہ ہم معنی تھے ، حتیٰ کہ مسرت بھی ان کی نگاہ میں خدا فراموشی کی مترادف تھی ۔ سینٹ باسل ہنسنے اور مسکرانے تک کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔ ان ہی تصورات کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان شادی کا تعلق ان کے ہاں قطعی نجس قرار پا گیا تھا ۔ راہب کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی کرنا تو در کنار ، عورت کی شکل تک نہ دیکھے ، اور اگر شادی شدہ ہو تو بیوی کو چھوڑ کر نکل جائے ۔ مردوں کی طرح عورتوں کے دل میں بھی یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ وہ اگر آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتی ہیں تو ہمیشہ کنواری رہیں ، اور شادی شدہ ہوں تو اپنے شوہروں سے الگ ہو جائیں ۔ سینٹ جِیروم جیسا ممتاز مسیحی عالم کہتا ہے کہ جو عورت مسیح کی خاطر راہبہ بن کر ساری عمر کنواری رہے وہ مسیح کی دلہن ہے اور اس عورت کی ماں کو خدا ، یعنی مسیح ، کی ساس ( ) ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ایک اور مقام پر سینٹ جیروم کہتا ہے کہ عفت کی کلہاڑی سے ازدواجی تعلق کی لکڑی کو کاٹ پھینکنا سالک کا اولین کام ہے ۔ ان تعلیمات کی وجہ سے مذہبی جذبہ طاری ہونے کے بعد ایک مسیحی مرد یا ایک مسیحی عورت پر اس کا پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ اس کی خوش گوار ازدواجی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کے لیے ختم ہو جاتی تھی ۔ اور چونکہ مسیحیت میں طلاق و تفریق کا راستہ بند تھا ، اس لیے نکاح کے رشتے میں رہتے ہوئے میاں اور بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تھے ۔ سینٹ نائلس . دو بچوں کا باپ تھا ۔ جب اس پر رہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی اور سہ اس سے الگ ہو گیا ۔ سینٹ اَمون ( . ) نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن کو ازدواجی تعلق کی نجاست پر وعظ سنایا اور دونوں نے بالاتفاق طے کر لیا کہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے ۔ سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو چھوڑ کر فرار ہو گیا ۔ یہی حرکت سینٹ ایلیکسس ( . ) نے کی ۔ اس طرح کے واقعات سے عیسائی اولیاء کے تذکرے بھرے پڑے ہیں ۔ کلیسا کا نظام تین صدیوں تک اپنے حدود میں ان انتہا پسندانہ تصورات کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتا رہا ۔ اس زمانے میں ایک پادری کے لیے مجرد ہونا لازم نہ تھا ۔ اگر اس نے پادری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شادی کر رکھی ہو تو وہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا تھا ، البتہ تقرر کے بعد شادی کرنا اس کے لیے ممنوع تھا ۔ نیز کسی ایسے شخص کو پادری مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا جس نے کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کی ہو ، یا جس کی دو بیویاں ہوں ، یا جس کے گھر میں لونڈی ہو ۔ رفتہ رفتہ چوتھی صدی میں یہ خیال پوری طرح زور پکڑ گیا کہ جو شخص کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دیتا ہو اس کے لیے شادی شدہ ہونا بڑی گھناؤنی بات ہے ۔ 362 کی گنگرا کونسل ( ) آخری مجلس تھی جس میں اس طرح کے خیالات کو خلاف مذہب ٹھیرایا گیا ۔ مگر اس کے تھوڑی ہی مدت بعد 386 کی رومن سیناڈ ( ) نے تمام پادریوں کو مشورہ دیا کہ وہ ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں ، اور دوسرے سال پوپ سائر یکیس ( ) نے حکم دے دیا کہ جو پادری شادی کرے ، شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی سے تعلق رکھے ، اس کو اس منصب سے معزول کر دیا جائے ۔ سینٹ جیروم ، سینٹ ایمبروز ، اور سینٹ آگسٹائن جیسے اکابر علماء نے بڑے زور شور سے اس فیصلے کی حمایت کی اور ٹھوڑی سے مزاحمت کے بعد مغربی کلیسا میں یہ پوری شدت کے ساتھ نافذ ہو گیا ۔ اس دور میں متعدد کو نسلیں ان شکایات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئیں کہ جو لوگ پہلے سے شادی شدہ تھے وہ مذہبی خدمات پر مقرر ہونے کے بعد بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتے ہیں ۔ آخر کار ان کی اصلاح کے لیے یہ قواعد بنائے گئے کہ وہ کھلے مقامات پر سوئیں ، اپنی بیویوں سے کبھی علیحدگی میں نہ ملیں ، اور ان کی ملاقات کے وقت کم از کم دو آدمی موجود ہوں ۔ سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتا ہے کہ 40 سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہا حتیٰ کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تو اس نے کہا ، عورت ، دور ہٹ جا ( 4 ) سب سے زیادہ درد ناک باب اس رہبانیت کا یہ ہے کہ اس نے ماں باپ ، بھائی بہنوں کی محبت ، اور باپ کے لیے اولاد تک سے آدمی کا رشتہ کاٹ دیا ۔ مسیحی ولیوں کی نگاہ میں بیٹے کے لیے ماں باپ کی محبت ، بھائی کے لیے بھائی بہنوں کی محبت ، اور باپ کے لیے اولاد کی محبت بھی ایک گناہ تھی ۔ ان نزدیک روحانی ترقی کے لیے یہ ناگزیر تھا کہ آدمی ان سارے تعلقات کو توڑ دے ۔ مسیحی اولیاء کے تذکروں میں اس کے ایسے ایسے دل دوز واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے لیے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک راہب ایوا گریَس ( ) سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کر رہا تھا ۔ ایک روز یکایک اس کے پاس اس کی ماں اور اس کے باپ کے خطوط پہنچے جو رسوں سے اس کی جدائی میں تڑپ رہے تھے ۔ اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں ان خطوں کو پڑھ کر اس کے دل میں انسانی محبت کے جذبات نہ جاگ اٹھیں ۔ اس نے ان کو کھولے بغیر فوراً آگ میں جھونک دیا ۔ سینٹ تھیوڈورس کی ماں اور بہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کر اس خانقاہ میں پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا اور خواہش کی کہ وہ صرف ایک نظر بیٹے اور بھائی کو دیکھ لیں ۔ مگر اس نے ان کے سامنے آنے تک سے انکار کر دیا ۔ سینٹ مارکس ( . ) کی ماں اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ میں گئی اور خانقاہ کے شیخ ( ) کی خوشامدیں کر کے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے کو ماں کے سامنے آنے حکم دے ۔ مگر بیٹا کسی طرح ماں سے نہ ملنا چاہتا تھا ۔ آخر کار اس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کر ماں کے سامنے گیا اور آنکھیں بند کرلیں اس طرح نہ ماں نے بیٹے کو پہچانا ، نہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی ۔ ایک اور ولی سینٹ پوئمن ( . ) اور اس کے 6 بھائی مصر کی ایک صحرائی خانقاہ میں رہتے تھے ۔ برسوں بعد ان کی بوڑھی ماں کو ان کا پتہ معلوم ہوا اور وہ ان سے ملنے کے لیے وہاں پہنچی ۔ بیٹے ماں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر اپنے حجرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا ۔ ماں باہر بیٹھ کر رونے لگی اور اس نے چیخ چیخ کر کہا میں اس بڑھاپے میں اتنی دور چل کر صرف تمہیں دیکھنے آئی ہوں ، تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر میں تمہاری شکلیں دیکھ لوں ۔ کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں ؟ مگر ان ولیوں نے دروازہ نہ کھولا اور ماں سے کہہ دیا کہ ہم تجھ سے خدا کے ہاں ملیں گے ۔ اس سے بھی زیادہ درد ناک قصہ سینٹ سیمیون اِسٹائلاٹٹس ( . ) کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر 27 سال غائب رہا ۔ باپ اس کے غم میں مر گیا ۔ ماں زندہ بھی بیٹے کی ولایت کے چرچے جب دور و نزدیک پھیل گے تو اس کو پتہ چلا کہ وہ کہاں ہے ۔ بے چاری اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ پر پہنچے ۔ مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی ۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی کہ بیٹا یا تو اسے اندر بلالے یا باہر نکل کر اسے اپنی صورت دکھا دے ۔ مگر اس ولی اللہ نے صاف انکار کر دیا ۔ تین رات اور تین دن وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہیں لیٹ کر اس نے جان دے دی ۔ تب ولی صاحب نکل کر آئے ۔ ماں کی لاش پر آنسو بہائے اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کی ۔ ایسی ہی بے دردی ان ولیوں نے بہنوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ برتی ۔ ایک شخص کیوٹیس ( ) کا قصہ لکھا ہے کہ وہ خوشحال آدمی تھا ۔ یکایک اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوا اور وہ اپنے 8 سال کے اکلوتے بیٹے کو لے کر ایک خانقاہ میں جا پہنچا ۔ وہاں اس کی روحانی ترقی کے لیے ضروری تھا کہ وہ بیٹے کی محبت دل سے نکال دے ۔ اس لیے پہلے تو بیٹے کو اس سے جدا کر دیا گیا ۔ پھر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک مدت تک طرح طرح کی سختیاں اس معصوم بچے پر کی جاتی رہی اور وہ سب کچھ دیکھتا رہا ۔ پھر خانقاہ کے شیخ نے اسے حکم دیا کہ اسے لے جا کر اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک دے ۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے بھی تیار ہو گا تو عین اس وقت راہبوں نے بچے کی جان بچائی جب وہ اسے دریا میں پھینکنے لگا تھا ۔ اس کے تسلیم کر لیا گیا کہ وہ واقعی مرتبہ ولایت کو پہنچ گیا ہے ۔ مسیحی رہبانیت کا نقطہ نظر ان معاملات میں یہ تھا کہ جو شخص خدا کی محبت چاہتا ہو اسے انسانی محبت کی وہ ساری زنجیریں کاٹ دینی چاہییں جو دنیا میں اس کو اپنے والدین ، بھائی بہنوں اور بال بچوں کے ساتھ باندھتی ہیں ۔ سینٹ جیروم کہتا ہے کہ اگرچہ تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹے ، اگر چہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے ، اگر چہتیرا باپ تجھے روکنے کے لیے تیرے آگے لیٹ جائے ، پھر بھی تو سب کو چھوڑ کر اور باپ کے جسم کو روند کر ایک آنسو بہائے بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دوڑ جا ۔ اس معاملہ میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے ۔ سینٹ گریگوری لکھتا ہے کہ ایک نوجوان راہب ماں باپ کی محبت دل سے نہ نکال سکا اور ایک رات چپکے سے بھاگ کر ان سے مل آیا ۔ خدا نے اس قصور کی سزا اسے یہ دی کہ خانقاہ واپس پہنچتے ہی وہ مر گیا ۔ اس کی لاش زمین میں دفن کی گئی تو زمین نے اسے قبول نہ کیا ۔ برا بار قبر میں ڈالا جاتا اور زمین اسے نکال کر پھینک دیتی ۔ آخر کار اینٹ بینیڈکٹ نے اس کے سینے پر تبرک رکھا تب قبر نے اسے قبول کیا ۔ ایک راہبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مرنے کے بعد تین دن عذاب میں اس لیے مبتلا رہی کہ وہ اپنی ماں کی محبت دل سے نہ نکال سکی تھی ۔ ایک دلی کی تعریف میں لکھا ہے کہ اس نے کبھی اپنے رشتہ داروں کے سوا کسی کے ساتھ بے دردی نہیں برتی ۔ ( 5 ) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ بے رحمی ، سنگدلی اور قساوت برتنے کی جو مشق یہ لوگ کرتے تھے اس کی وجہ سے ان کی انسانی جذبات مر جاتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جن لوگوں سے انہیں مذہبی اختلاف ہوتا تھا ان کے مقابلے میں یہ ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے تھے ۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں 80 ۔ 90 فرقے پیدا ہو چکے تھے ۔ سینٹ آگسٹائن نے اپنے زمانے میں 88 فرقے گنائے ہیں ۔ یہ فرقے ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت رکھتے تھے ۔ اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے والے بھی راہب ہی تھے اور اس آگ میں مخالف گروہوں کو جلا کر خاک کر دینے کی کوششوں میں بھی راہب ہی پیش پیش ہوتے تھے ۔ اسکندریہ اس فرقہ وارانہ کشمکش کا ایک بڑا اکھاڑا تھا ۔ وہاں پہلے ایرین ( ) فرقے کے بشپ نے اتھا ناسیوس کی پارٹی پر حملہ کیا ، اس کی خانقاہوں سے کنواری راہبات پکڑ پکڑ نکالی گئیں ، ان کو ننگا کر کے خاردار شاخوں سے پٹیا گیا اور ان کے جسم پر داغ لگائے گئے تاکہ وہ اپنے عقیدے سے توبہ کریں ۔ پھر جب مصر میں کیتھولک گروہ کو غلبہ حاصل ہوا تو اس نے ایرین فرقے کے خلاف یہی سب کچھ کیا ، حتیٰ کہ غالب خیال یہ ہے کہ خود ایریس ( ) کو بھی زہر دے کر مار دیا گیا ۔ اسی اسکندریہ میں ایک مرتبہ سینٹ سائر ( . ) کے مرید راہبوں نے ہنگامہ عظیم برپا کیا ، یہاں تک کہ مخالف فرقے کی ایک راہبہ کو پکڑ کر اپنے کلیسا میں لے گئے ، اسے قتل کیا ، اس کی لاش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی اور پھر اسے آگ میں جھونک دیا ۔ روم کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا ۔ 366 میں پوپ لبیریس ( ) کی وفات پر دو گروہوں نے پا پانی کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ۔ دونوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی ۔ حتیٰ کہ ایک دن میں صرف ایک چرچ سے 137 لاسیں نکالی گئیں ۔ ( 6 ) اس ترک و تجرید اور فقر و درویشی کے ساتھ دولت دنیا سمیٹنے میں بھی کمی نہ کی گئی ۔ پانچویں صدی کے آغاز ہی میں حالت یہ ہو چکی تھی کہ روم کا بشپ بادشاہوں کی طرح اپنے محل میں رہتا تھا اور اس کی سواری جب شہر میں نکلتی تھی تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ قیصر کی سواری سے کم نہ ہوتے تھے ۔ سینٹ جیروم اپنے زمانے ( چوتھی صدی کے آخری دور ) میں شکایت کرتا ہے کہ بہت سے بشپوں کی دعوتیں اپنی شان میں گورنروں کی دعوتوں کو شرماتی ہیں ۔ خانقاہوں اور کنیسوں کی طرف دولت کا یہ بہاؤ ساتویں صدی ( نزول قرآن کے زمانے ) تک پہنچتے پہنچتے سیلاب کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرادی گئی تھی کہ جس کسی سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو جائے اس کی بخشش کسی نہ کسی ولی کی درگاہ پر نذرانہ چڑھانے ، یا کسی خانقاہ یا چرچ کو بھینٹ دینے ہی سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد وہی دنیا راہبوں کے قدموں میں آ رہی جس سے فرار ان کا طرہ امتیاز تھا ۔ خاص طور پر جو چیز اس تنزل کی موجب ہوئی وہ یہ تھی کہ راہبوں کی غیر معمولی ریاضتیں اور ان کی نفس کشی کے کمالات دیکھ کر جب عوام میں ان کے لیے بے عقیدت پیدا ہو گئی تو بہت سے دنیا پرست لوگ لباس درویشی پہن کر راہبوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اور انہوں نے ترک دنیا کے بھیس میں جلب دنیا کا کاروبار ایسا چمکایا کہ بڑے بڑے طالبین دنیا ان سے مات کھا گئے ۔ ( 7 ) عفت کے معاملہ میں بھی فطرت سے لڑ کر رہبانیت نے بارہا شکست کھائی اور جب شکست کھائی تو بری طرح کھائی ۔ خانقاہوں میں نفس کُشی کی کچھ مشقیں ایسی بھی تھیں جن میں راہب اور راہبات مل کر ایک ہی جگہ رہتے تھے اور بسا اوقات ذرا زیادہ مشق کرنے کے لیے ایک ہی بستر پر رات گزارتے تھے ۔ مشہور راہب سینٹ ایوا گریس ( . ) بڑی تعریف کے ساتھ فلسطین کے ان راہبوں کے ضبط نفس کا ذکر کرتا ہے جو اپنے جذبات پر اتنا قابو پا گئے تھے کہ عورتوں کے ساتھ یک جا غسل کرتے تھے اور ان کی دید سے ، ان کے لمس سے ، حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہم آغوشی سے بھی ان کے اوپر طرف غلبہ نہ پاتی تھی غُسل اگرچہ رہبانیت میں سخت ناپسندیدہ تھا مگر نفس کشی کی مشق کے لیے اس طرح کے غسل بھی کر لیے جاتے تھے ۔ آخر کار اسی فلسطین کے متعلق نیسا ( ) کا سینٹ گریگوری متوفی 396 لکھتا ہے کہ وہ بد کرداری کا اڈا بن گیا ہے ۔ انسانی فطرت کبھی ان لوگوں سے انتقام لیے بغیر نہیں رہتی جو اس سے جنگ کریں ۔ رہبانیت اس سے لڑ کر بالآخر بد اخلاقی کے جس گڑھے میں جا گری اس کی داستان آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی عیسوی تک کی مذہبی تاریخ کا بد نما ترین داغ ہے ۔ دسویں صدی کا ایک اطالوی بشپ لکھتا ہے کہ اگر چرچ میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے خلاف بد چلنی کی سزائیں نافذ کرنے کا قانون عملاً جاری کر دیا جائے تو لڑکوں کے سوا کوئی سزا سے نہ بچ سکے گا ، اور اگر حرامی بچوں کو بھی مذہبی خدمات سے الگ کر دینے کا قاعدہ نافذ کیا جائے تو شاید چرچ کے خادموں میں کوئی لڑکا تک باقی نہ رہے ۔ قرون متوسطہ کے مصنفین کی کتابیں ان شکایتوں سے بھری ہوئی ہیں کہ راہبات کی خانقاہیں بد اخلاقی کے چکلے بن گئی ہیں ، ان کی چار دیواریوں میں نو زائیدہ بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، پادریوں اور چرچ کے مذہبی کارکنوں میں محرمات تک سے ناجائز تعلقات اور خانقاہوں میں خلاف وضع فطری جرائم تک پھیل گئے ہیں ، اور کلیساؤں میں اعتراف گناہ ( ) کی رسم بد کرداری کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ۔ ان تفصیلات سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں رہبانیت کی بدعت ایجاد کرنے اور پھر اس کا حق ادا نہ کرنے کا ذکر کر کے مسیحیت کے کس بگاڑ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔
23: یوں تو شفقت اور رحم دلی سارے ہی انبیائے کرام کی تعلیمات میں شامل رہی ہے لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات میں اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا، اور بظاہر ان کی شریعت میں جہاد اور قتال کے احکام بھی نہیں تھے، اس لیے ان کے متبعین میں شفقت و رحمت ہی کا پہلو بہت نمایا تھا۔ 24: رہبانیت کا مطلب ہے دنیا کی لذتوں سے الگ رہنا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے کافی عرصے بعد عیسائیوں نے ایک خانقاہی نظام ایسا بنایا تھا کہ جو لوگ اس میں داخل ہوجاتے، وہ دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے، نہ شادی کرتے تھے، نہ دنیا کی کسی لذت میں حصہ لیتے تھے، ان کے اس خانقاہی نظام کو رہبانیت کہا جاتا ہے، اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سچے پیروکاروں پر مختلف بادشاہوں نے بڑے ظلم ڈھائے تو انہوں نے اپنے دین کو بچانے کے لئے شہروں سے دور رہنا شروع کردیا، جہاں دنیا کی عام سہولیات میسر نہیں تھیں، اور رفتہ رفتہ اسی مشکل طرز زندگی کو بذات خود عبادت سمجھ لیا، اور بعد کے لوگوں نے وسائل دستیاب ہونے کے باوجود ان کو چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس مشکل طرز زندگی کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا۔ 25: مطلب یہ ہے کہ شروع میں انہوں نے رہبانت کا طریقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہی اپنایا تھا ؛ لیکن بعد میں وہ اس کی پوری رعایت نہیں رکھ سکے، رعایت نہ رکھنے کے دوپہلو ہیں ایک یہ کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ان پر لازم نہیں کیا تھا انہوں نے اسے لازم سمجھ لیا ؛ حالانکہ دین میں اپنی طرف سے کسی ایسی بات کو لازم سمجھنا جائز نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے لازم نہ فرمائی ہو، اور دوسرے یہ کہ جو باتیں انہوں نے اپنے ذمے لازم کی تھیں، ان کی عملی طور پر پابندی نہ کرسکے، چونکہ یہ پابندیاں انسانی فطرت کے خلاف تھیں اس لئے رفتہ رفتہ بشری تقاضوں نے زور دکھایا، اور مختلف حیلوں بہانوں سے یا خفیہ طور پر ان لذتوں کا حصول شروع ہوگیا، پابندی تو نکاح پر بھی تھی ؛ لیکن اس پابندی کے نتیجے میں بدکاری کی وبائیں پھوٹ پڑیں اور جس مقصدع سے رہبانیت شروع کی گئی تھی وہ سراسر ناکام ہو کر رہ گیا۔