Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہل کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا جیسے کہ سورۃ قصص کی آیت میں ہے اور جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین شخصوں کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر دے گا ایک وہ اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لایا پھر مجھ پر بھی ایمان لایا اسے دوہرا اجر ہے اور وہ غلام جو اپنے آقا کی تابعداری کرے اور اللہ کا حق بھی ادا کرے اسے بھی دو دو اجر ہیں اور وہ شخض جو اپنی لونڈی کو ادب سکھائے اور بہت اچھا ادب سکھائے یعنی شرعی ادب پھر اسے آزاد کر دے اور نکاح کر دے وہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے ( بخاری و مسلم ) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب اس دوہرے اجر پر فخر کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس امت کے حق میں نازل فرمائی ۔ پس انہیں دوہرے اجر کے بعد نور ہدایت دینے کا بھی وعدہ کیا اور مغفرت کا بھی پس نور اور مغفرت انہیں زیادہ ملی ( ابن جریر ) اسی مضمون کی ایک آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ 29؀ ) 8- الانفال:29 ) ، ہے یعنی اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لئے فرقان کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم سے دریافت فرمایا کہ تمہیں ایک نیکی پر زیادہ سے زیادہ کس قدر فضیلت ملتی ہے اس نے کہا ساڑھے تین سو تک ، آپ نے اللہ کا شکر کیا اور فرمایا ہمیں تم سے دوہرا اجر ملا ہے ۔ حضرت سعید نے اسے بیان فرما کر یہی آیت پڑھی اور فرمایا اسی طرح جمعہ کا دوہرا اجر ہے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخض جیسی ہے جس نے چند مزدور کسی کام پر لگانے چاہے اور اعلان کیا کہ کوئی ہے جو مجھ سے ایک قیراط لے اور صبح کی نماز سے لے کر آدھے دن تک کام کرے؟ پس یہود تیار ہو گئے ، اس نے پھر کہا ظہر سے عصر تک اب جو کام کرے اسے میں ایک قیراط دوں گا ، اس پر نصرانی تیار ہوئے کام کیا اور اجرت لی اس نے پھر کہا اب عصر سے مغرب تک جو کام کرے میں اسے دو قیراط دوں گا پس وہ تم مسلمان ہو ، اس پر یہود و نصاریٰ بہت بگڑے اور کہنے لگے کام ہم نے زیادہ کیا اور دام انہیں زیادہ ملے ۔ ہمیں کم دیا گیا ۔ تو انہیں جواب ملا کہ میں نے تمہارا کوئی حق تو نہیں مارا ؟ انہوں نے کہا ایسا تو نہیں ہوا ۔ جواب ملا کہ پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دو ، صحیح بخاری شریف میں ہے مسلمانوں اور یہود نصرانیوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا اجرت ٹھہرالی اور کہا دن بھر کام کرکے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے ، اس نے انہیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لئے بغیر چلتے بنے ، اس نے اور مزدور لگائے اور کہا کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا ، یہ کام پر لگے ، لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہئے اس نے انہیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب دن باقی ہی کیا رہ گیا ہے تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے ، اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا لو تم مغرب تک کام کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ چنانچہ انہوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے ، پس یہ ہے ان کی مثال اور اس نور کی مثال جسے انہوں نے قبول کیا ۔ پھر فرماتا ہے یہ اس لئے کہ اہل کتاب یقین کرلیں کہ اللہ جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل و کرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے ، اس کے فضل کا کوئی اندازہ و حساب نہیں لگا سکتا ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( لئلا یعلم ) کا معنی ( لیعلم ) ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں ( لکی یعلم ) ہے ، اسی طرح حضرت عطا بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ کلام عرب میں لا صلہ کیلئے آتا ہے جو کلام کے اول آخر میں آ جاتا ہے اور وہاں سے انکار مراد نہیں ہوتا جیسے آیت ( مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ 12 ؀ ) 7- الاعراف:12 ) میں ہے اور آیت ( وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠٩؁ ) 6- الانعام:109 ) میں اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ 95؀ ) 21- الأنبياء:95 ) میں ۔ الحمد للہ سورۃ حدید کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس ستائیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے پاک کلام کی صحیح سمھجھ دے اور اس پر عمل کی توفیق دے ۔ میرے مہربان اللہ میرے عاجز ہاتھوں سے اس پاک تفسیر کو پوری کرا ، اسے مکمل مطبوع مجھے دکھا دے ، مقبولیت عطا فرما اور اس پر ہمیں عمل نصیب فرما ۔ اے دلوں کے بھید سے آگاہ اللہ میری عاجزانہ التماس ہے کہ میرے نامہ اعمال میں اسے ثبت فرما اور میرے تمام گناہوں کا کفارہ اسے کر دے اور اس کے پڑھنے والوں پر رحم فرما اور ان کے دل میں ڈال کہ وہ میرے لئے بھی رحم کی دعا کریں ۔ یا رب اپنے سچے دین کی اور اپنے غلاموں کی تائید کر اور اپنے نبی کے کلام کو سب کے کلاموں پر غالب رکھ ۔ آمین

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

281یہ دگنا اجر اہل ایمان کو ملے گا جو نبی سے قبل پہلے کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے (صحیح بخاری) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] دوہرا اجر صرف ایمان والے اہل کتاب کے لئے ہی مختص نہیں :۔ کتاب و سنت میں صراحت سے مذکور ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ رسول اللہ پر ایمان لائیں گے۔ انہیں دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے نبی پر ایمان لانے کا اور دوسرا نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کا۔ اب اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے۔ وہ دوسرے مسلمانوں پر فخر کرنے لگے کہ ہمارے لئے دو اجر ہیں اور تمہارے لئے صرف ایک جس سے عام مسلمانوں میں کچھ احساس کمتری پیدا ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ گے تو تمہیں بھی دوہرا اجر ملے گا۔ اللہ کے ہاں اجر کی کوئی کمی نہیں۔- [٥٢] نور سے مراد ایک تو وحی الہٰی اور علم شریعت کی روشنی ہے۔ ایماندار اسی رو شنی میں اپنا طرز زندگی متعین کرتے اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور دوسرے وہ نور مراد ہے جو اعمال صالحہ کی بدولت مومنوں کو قیامت کے دن حاصل ہوگا جس کا ذکر اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ میں گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ ۔۔۔: مفسرین نے اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی ہے ، ایک یہ کہ ” یا ایھا الدین امنوا “ کے الفاظ کے مخاطب اہل کتاب ہیں جو اس سے پہلے اپنے نبی پر ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے ، انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ عطا فرمائے گا ۔ اس کی تائید سورة ٔ قصص کی آیات (٥٢ تا ٥٤) سے ہوتی ہے اور اس حدیث سے بھی جو ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ثلاثۃ لھم اجران رجل من اھل الکتاب امن بینہ ، وامن بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والعبد المملوک اذا ادی حق اللہ وحق موالیہ ، ورجل کانت عندہٗ امۃ یصلوھا فادیھا ، فاحسن تادیبھا وعلمھا فاحسن تعلیمھا ثم اعتقھا فتزوجھا فلہ اجران) (بخاری ، العلم ، باب تعلیم الرجل امنہ واھلہ ، ٩٧)” تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کے لیے دو اجر ہیں ، ایک اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو ، جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس ایک لونڈی تھی ، وہ اس سے صحبت کرتا تھا ، تو اس نے اسے ادب سکھایا اور اچھی طرح ادب سکھایا اور اسے تعلیم دی اور اچھی طرح تعلیم دی ، پھر اسے آزاد کردیا اور اس سے نکاح کرلیا ، تو اس کے لیے بھی دو اجر ہیں “۔- اس تفسیر میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ اپنی جگہ درست ہے ، مگر یہاں ” یایھا الذین امنوا “ سے اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والے مرد لینا سیاق کے خلاف ہے ، کیونکہ شروع سے آخر تک خطاب ان لوگوں سے ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ، انہی کو اپنی ایمان میں اخلاص پیدا کرنے اور اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کا حکم آرہا ہے ۔ اس آیت میں بھی انہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول پر کما حقہ ایمان لانے کا حکم اور اس کی جزاء کے طور پر اپنی نعمت کا دوہرا حصہ اور نو ر عظیم عطاء کرنے کی بشارت کا ذکر ہے۔ اس لیے صحیح تفسیران حضرت کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ” یایھا الذین امنوا “ کے ساتھ خطاب ان لوگوں سے ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ، خواہ وہ اہل کتاب میں سے اسلام لائے ہوں یا مشرکین میں سے ، یا پیدا ہی اسلام پر ہوئے ہوں ، ان سب سے کہا جارہا ہے کہ صرف زبان سے ایمان کے اقرار اور دعویٰ پر اکتفا نہ کرو ، بلکہ سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ ، اس کا حق ادا کرو اور اس کے تقاضے پورے کرو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کا دوسرا حصہ عطاء کرے گا ۔- اس دوہرے حصے سے مراد ہماری اس امت کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے محض اپنے فضل سے پہلی امتوں کی بہ نسبت دوسرے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ایک مثال کے ساتھ واضح فرمائی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( مثلکم ومثل اھل الکتابین کمثل رجل استاجر اجراء ، فقال من یعمل لی من غدوۃ الی نصف النھار علی قیراط ؟ فعملت الیھود ، ثم قال من یعمل لی من نصف النھار الی صلاۃ العصر علی قیراط ؟ فعملتالناریٰ ثم قال من یعمل لی من العصر الی ان تغیب الشمس علی قیراطین ؟ قانتم ھم ، فغضب النھود، والنصاری ، فقالو ما لنا اکثر عملاً ، واقل عطاء ؟ قال ھل نقصتکم من حقکم ؟ قالو الا قال فدلک فصی اوتیہ من اشائ) (بخاری ، الاحارۃ ، باب الاحارۃ الی نصف النھار : ٢٢٦٨، ٣٤٥٩، عن ابن عمر (رض))” تمہاری مثال اور دونوں کتابوں ( تورات ون انجیل) والوں کی مثال اس آدمی کی مثال کی طرح ہے جس نے کئی مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور کہا : ” کون ہے جو میرے لیے صبح سے نصف النہار تک ایک قیراط پر کام کرے گا ؟ “ تو نصاریٰ نے کام کیا ۔ پھر اس نے کہا :” کون ہے جو میرے لیے عصر سے سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا “۔ تو تم وہ لوگ ہو ۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے :” ہمیں کیا ہے کہ ہم نے کام زیادہ کیا اور اجرت کم ملی ؟ “ اس نے کہا : ” کیا میں نے تمہارے حق میں کوئی کمی کی ہے ؟” انہوں نے کہا :” نہیں “ اس نے کہا :” پھر یہ میرا افضل ہے ، جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں “۔- ٢۔ ویجعل لکم نورا تمثون بہ۔۔۔: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بدولت اللہ تعالیٰ تمہیں کتاب و سنت کی صورت میں وحی الٰہی کا ایسا عظیم نور عطاء کرے گا جس کے ذریعے سے تم دنیا و آخرت میں ہر جگہ آسانی کے ساتھ چلتے رہو گے ، کسی مسئلے میں تمہیں کوئی الجھن یا اندھیرا پیش نہیں آئے گا ، جیسا کہ فرمایا :(اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط ) ( البقرہ : ٢٥٧)” اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے “۔ اور قیامت کے دن کے اندھیروں میں وہ نور عطا کرے گا جس میں چلتے ہوتے تم جنت تک پہنچ جاؤ گے ، جس کا ذکر اس سے پہلے ” یوم تری المومنین والمومنت یسعی نور ھم بین ایدیھم وبا یمانھم “ میں گزر چکا ہے اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ غفو ر و رحیم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ- اس آیت میں یایھا الذین امنوا سے مراد اہل کتاب ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے، قرآن کریم کی عام عادت یہ ہے کہ الذین امنوا کا لفظ صرف مسلمانوں کے لئے بولا جاتا ہے، یہود و نصاری کے لئے اہل کتاب کا لفظ آتا ہے، کیونکہ صرف حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر ان کا ایمان کافی اور معتبر نہیں جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائیں، اس لئے وہ الذین امنوا کہلانے کے مستحق نہیں، مگر یہاں اس عام عادت کے خلاف یہ لفظ نصاریٰ کے لئے بولا گیا، شاید اس میں حکمت یہ ہو کہ آگے ان کو حکم کیا گیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر صحیح ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لاؤ اور جب وہ ایسا کرلیں تو الذین امنوا کے خطاب کے مستحق ہوگئے۔- آگے اس تکمیل ایمان پر ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو دوہرا اجر وثواب ملے گا، ایک پہلے نبی حضرت موسیٰ یا عیسیٰ (علیہما السلام) پر ایمان لانے اور ان کی شریعت پر عمل کرنے کا اور دوسرا خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اور آپ کی شریعت پر عمل کرنے کا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اگر یہود و نصاریٰ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کے وقت تک کافر تھے اور کافر کی کوئی عبادت مقبول نہیں ہوتی، اس کا مقتضا یہ تھا کہ پچھلی شریعت پر جو عمل کیا وہ سب اکارت ہوگیا، مگر اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ اہل کتاب کافر جب مسلمان ہوجائے تو زمانہ کفر کے کئے ہوئے نیک اعمال بھی پھر اس کے بحال کردیئے جاتے ہیں، اس لئے دوہرا اجر ہوجاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٨ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ایمان باللہ والرسول میں ثابت قدم رہو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ثواب اور رحمت سے دو حصے دے گا اور تمہیں ایسا نور عنایت کرے گا کہ تم اس کو لیے ہوئے لوگوں کے درمیان اور پل صراط پر چلتے پھرتے ہو گے اور تمہارے زمانہ جاہلیت کے گناہوں کو معاف کردے گا۔- اور اللہ تعالیٰ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور توبہ کی حالت میں مرنے والے پر رحم کرنے والا ہے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ (الخ)- امام طبرانی نے اوسط میں سند غیر معروف کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ اصحاب نجاشی میں سے چالیس آدمی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ ایک آدمی شہید ہوگیا اور ان میں سے کچھ کو زخم بھی آئے مگر ان لوگوں میں سے کوئی شہید نہیں ہوا غرض کہ جب انہوں نے آکر مسلمانوں کی تنگی کو دیکھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم مالدار آدمی ہیں ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم اپنے اموال لے آئیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کریں اس پر ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں کہ الذین اتیناھم الکتاب من قبلہ ھم بہ یومنون (الخ) ۔- جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس پر ان لوگوں نے کہا کہ اے گروہ مومنین جو تمہاری کتاب پر ایمان لے آیا اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو تمہاری کتاب پر ایمان نہیں لایا اس کے لیے تمہارے اجر کی طرح ایک ہی اجر ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ (الخ)- اور ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت اولئک یوتون اجرھم مرتین نازل ہوئی تو مومنین اہل کتاب نے صحابہ کرام پر ہجوم کیا اور کہنے لگے ہمارے لیے دو اجر ہیں اور تمہارے لیے ایک اجر ہے یہ چیز صحابہ کرام کو گراں گزری اور اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے لیے بھی مومنین اہل کتاب کی طرح دو اجر کردیے۔- اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جس وقت یوتکم کفلین من رحمتہ (الخ) یہ آیت نازل ہوئی تو مومنین اہل کتاب کو اس آیت پر رشک ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لئلا یعلم اھل الکتاب۔ (الخ)- اور ابن منذر نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے کہا تھا قریب ہے ہم میں سے نبی نکلے اور پھر ہاتھ اور پیروں کو کاٹ دے جب عرب سے نبی مبعوث ہوا تو انہوں نے کفر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی تاکہ اہل کتاب کو فضل نبوت کا علم ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائو “- اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔۔۔ ایک تو یہ کہ یہاں ” یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا “ کا خطاب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں سے ہے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جائو بلکہ صدق دل سے ایمان لائو اور اپنے ایمان کو پختہ کرو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سچے ایمان کا معیار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اُسوئہ حسنہ کی پیروی ہے۔ سورة الاحزاب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا : لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (آیت ٢١) ” تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک بہترین نمونہ ہے “ ۔ تم لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کو دیکھو ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے معمولات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائو اور اپنی زندگیوں میں ویسا توازن پیدا کرو جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں توازن تھا۔ دیکھو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ترک دنیا کا طریقہ نہیں اپنایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد بھی ہوئی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھرپور زندگی گزاری ‘ اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی کی تمام توانائیاں اور تمام صلاحیتیں غلبہ دین کی جدوجہد کی نذر کردیں۔ تم پر بھی لازم ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس اسوہ کی پیروی کرو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کے حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع ضروری ہے ‘ ویسے ہی اس اتباع میں توازن قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام سنتوں کو اپنا لیا لیکن اتباع کرتے ہوئے ہر سنت کی مطلوبہ ترجیح اور اہمیت کا خیال نہ رکھا تو گویا وہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ اس نکتہ کو اس مثال سے سمجھیں کہ ایک طبیب نے آپ کو چند دوائیوں پر مشتمل ایک نسخہ لکھ کردیا۔ ان میں سے ایک دوائی کا مطلوبہ وزن ایک چھٹانک ہے ‘ دوسری کا ایک تولہ اور تیسری کا ایک ماشہ۔ اب اگر آپ اپنی پسند سے تولہ والی دوائی کا وزن ایک چھٹانک کرلیں اور چھٹانک والی دوائی کا وزن ایک تولہ کرلیں تو وہ نسخہ ‘ نسخہ شفا نہیں رہے گا ‘ نسخہ ہلاکت بن جائے گا۔ اس لیے صرف یہ اطمینان کافی نہیں کہ فلاں عمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے ثابت ہے ‘ بلکہ سنت و سیرت ِنبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس اعتبار سے دیکھنا چاہیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی مجموعی طور پر کس طرح گزاری۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں کس چیز کی کتنی اہمیت تھی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس عمل کو کتنا وقت دیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ترجیحات کیا تھیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ترجیحات میں بنیادی نوعیت کی چیزیں کون سی تھیں اور کون سی چیزوں کو ثانوی حیثیت حاصل تھی ؟ واضح رہے کہ اگر کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کا اتباع کرتے ہوئے اس اعتبار سے توازن برقرار نہ رکھا تو اس کا طرزعمل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کے اتباع کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ بن جائے گا۔- سیاق وسباق کے اعتبار سے آیت زیر مطالعہ کے اس حصے کا ایک مفہوم اور بھی ہے۔ پچھلی آیت میں چونکہ اہل کتاب کا ذکر ہے ‘ اس لیے اس حوالے سے اس خطاب کا رخ اہل کتاب کی طرف بھی ہے ۔ اس پہلو سے اس فقرے کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں میں سے جن لوگوں کے اندر اپنے سابقہ ایمان کی کچھ رمق موجود ہے ‘ ان سے کہا جا رہا ہے کہ اے وہ لوگو جو پہلے سے اللہ پر ایمان رکھتے ہو اب اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئو اگر تم ایسا کرو گے تو :- یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ ” وہ تمہیں دہرا حصہ عطا کرے گا اپنی رحمت سے “- اہل کتاب کے ایسے لوگوں کے لیے ہم سورة القصص میں بھی یہ خوشخبری پڑھ چکے ہیں : اُولٰٓـئِکَ یُـؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ (آیت ٥٤) کہ اگر یہ لوگ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے تو انہیں دہرا اجر ملے گا۔- وَیَجْعَلْ لَّــــکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ ” اور وہ تمہیں ایسا نور عطا فرمائے گا جس کو لے کر تم چل سکوگے “- اس سے ایک تو وہ نور مراد ہے جس کا ذکر قبل ازیں آیت ١٢ میں ہوچکا ہے کہ ُ پل صراط سے گزرتے وقت تمہیں نور عطا کیا جائے گا جس کی مدد سے تم آسانی سے جنت میں پہنچ جائو گے ۔ لیکن اس کے علاوہ اس سے مراد یہاں ایمان بالرسول اور اُسوئہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا وہ نور بھی ہے جو اہل ایمان کو دنیوی زندگی میں بھی نصیب ہوتا ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیں اور سمجھ لیں کہ یہاں اصل زور ( ) ایمان بالرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہے۔ اس حوالے سے آیت کے اس حصے کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم لوگ اُسوئہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو تمہیں عملی زندگی میں ایک ایسی روشنی عطا ہوگی جو تمہیں کبھی بھٹکنے نہیں دے گی۔ خاص طور پر تم رہبانیت جیسی بدعت میں ملوث ہونے سے محفوظ رہو گے۔ چونکہ زیر مطالعہ آیات کا تعلق اقامت ِدین اور اقامت ِعدل و قسط کے مضمون سے ہے اس لیے سیاق مضمون کے اعتبار سے آیت کے اس حصے میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اگر تمہیں نظام عدل و قسط کے قیام کی منزل پر پہنچنے کے لیے رہنمائی اور روشنی درکار ہے تو وہ تمہیں ایمان بالرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور منہجِ انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے گی۔ اور اگر تم نے اپنا یہ ایمان پختہ کرلیا اور منہج نبوی کو اپنا راستہ بنا لیا تو اس راستے پر ہم تمہیں ایسا نور عطا کریں گے جس کی راہنمائی میں تمہارے لیے کسی غلطی ‘ کوتاہی یا منزل سے بھٹکنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔۔۔۔ چناچہ اگر ہمیں عدل و قسط کے قیام کے لیے انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرنی ہے (دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپا دینے کی توفیق عطا فرمائے ) تو ہمیں اس کے لیے روشنی اور راہنمائی انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہج سے حاصل ہوگی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کریں گے تو کبھی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے : ؎- خلافِ پیمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسے راہ گزید - کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید - سورة المائدۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًاط (آیت ٤٨) کہ ہم نے تم میں سے سب کے لیے علیحدہ علیحدہ شریعتیں اور علیحدہ علیحدہ منہاج بنائے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منہاج تلاش کریں اور جب تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ ” جا ایں جاست “ (جس جگہ کی ہمیں تلاش ہے وہ جگہ یہی ہے۔ ) یعنی ہمیں راہنمائی چاہیے ‘ ہدایت چاہیے یا غلبہ دین کی جدوجہد میں کامیابی چاہیے تو یہ سب کچھ ہمیں سیرت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی ملے گا۔ اس یقین کے بعد ہمیں اپنا تن من دھن سیرت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع میں کھپا دینے پر کمربستہ ہوجانا چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں زیرزمین تیل تلاش کرنے والی کمپنی کی مثال پیش نظر رکھنی چاہیے ۔ ایسی کسی کمپنی کے ماہرین کو اگر کسی جگہ کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں سے تیل ملنے کا امکان ہے تو وہ صرف اس گمان اور امکان کی بنیاد پر کروڑوں روپے اس جگہ کی ڈرلنگ پر صرف کردیتے ہیں۔ لیکن ہمارا تو ایمان ہے ‘ ہمیں تو یقین ہے کہ ” جا ایں جاست “۔ تو پھر ہم کیوں نہ اپنا سب کچھ اس راہ میں نچھاور کردیں - وَیَغْفِرْلَـکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” او وہ تمہیں بخش دے گا ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ “- اگر تم لوگوں نے منہاجِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لیا تو تمہارا رخ سیدھا ہوگیا ‘ مجموعی طور پر تم سیدھے راستے پر آگئے۔ اب اگر اس راستے پر چلتے ہوئے کوئی خطا یا کوئی لغزش ہوگی تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے :- اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْط (النساء : ١٧)- ” اللہ کے ذمے ہے توبہ قبول کرنا ایسے لوگوں کی جو کوئی بری حرکت کر بیٹھتے ہیں جہالت اور نادانی میں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں ‘ تو یہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرمائے گا۔ “ - چنانچہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری خطائیں اور لغزشیں معاف کرتا رہے گا۔ وہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :55 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا ، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا ، ایک اجر ایمان بر عیسیٰ کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمد کا ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو ۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا ۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا ، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا ۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات 52 تا 54 کرتی ہیں اور مزید برآں اس کی تائید حضرت ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ ان میں سے ایک ہے رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمد ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر بھی ایمان لے آیا ( بخاری و مسلم ) ۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت 37 کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوئے تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :56 یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت 12 میں گزر چکا ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :57 یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرمائے گا ، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: یہ ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، ان کے بارے میں سورۂ قصص (٢٨: ٥٤) میں بھی گزرا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ دوہرا ثواب عطا فرمائیں گے ؛ کیونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر بھی ایمان رکھا، اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائے۔ 27: اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ نور جہاں تم جاؤگے تمہارے ساتھ رہے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پل صراط پر وہ تمہارے لئے روشنی پیدا کرے گا جس میں تم چل سکوگے۔