Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] ( لِئَلاَّ ) کا لفظ یہاں لکی لا کا معنی دے رہا ہے۔ یعنی ایمان لانے والے اہل کتاب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ دوہرا اجر فقط انہیں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ بڑا صاحب فضل ہے وہ چاہے تو دوسرے مسلمانوں کو بھی دوہرا اجر دے سکتا ہے اور وہ صاحب اختیار بھی ہے وہ اپنا فضل تقسیم کرنے میں کسی دوسرے کی خواہش کا پابند نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لِّئَـلَّا یَعْلَمَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّنْ فَضْلِ اللہ ِ : یعنی اے ایمان والو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی رحمت میں سے دو حصے اور عظیم نور دینے کی بشارت اس لیے دی ہے تا کہ اہل کتاب تمہارے متعلق یہ نہ جانیں کہ یہ مسلمان اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔- ٢۔ وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللہ ِ ۔۔۔۔: سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے ” ولیعلموا “ ( اور تا کہ وہ جان لیں) محذوف ہے ، یعنی اور تا کہ وہ جان لیں کہ فضل اہل کتاب یا کسی اور کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔ چناچہ اس نے اپنی مشیت سے اس آخری نبی پر اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنے خاص فضل کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔- ٢۔ ابن جریر اور دوسرے کئی مفسرین نے فرمایا کہ ” لِّئَـلَّا یَعْلَمَ اَہْلُ الْکِتٰبِ “ کا معنی ” لیعلم اھل الکتاب ‘ ‘ ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی رحمت سے دو حصے اور نور عظیم کی بشارت اس لیے دی ہے تا کہ اہل کتاب ( جو اپنے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ کا افضل عطاء ہونے کے قائل ہی نہیں) جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔- اس تفسیر پر یہ اعتراض ہے کہ اس میں ” لا “ کو زائد مانا گیا ہے ، حالانکہ اللہ کے کلام میں کوئی لفظ زائد کیسے ہوسکتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ” لا “ زائد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بےکار ہے ، بلکہ اسے بعد میں آنے والے ” الا یقدرون “ میں موجودنفی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے ، جیسا کہ ایک جگہ فرمایا :(ما منعک ان تسجد) ( ص : ٧٥)” تجھے کس چیز نے روکا تو سجدہ کرے ؟ “ اور دوسری جگہ فرمایا :( ما منعک الا تسجد “ (الاعراف : ٢١)” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا ؟ “ یہاں ” الا تسجد “ میں ” لا “ اس نفی کی تاکید کے لیے ہے جو ” منعک “ کے ضمن میں موجود ہے۔” لِّئَـلَّا یَعْلَمَ اَہْلُ الْکِتٰبِ “ کی یہ تفسیر بھی درست ہے اور بہت عمدہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لِّئَلَّا يَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ ، اس میں لا زائدہ ہے، معنی لیعلم اہل الکتب کے ہیں اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ مذکور الصدر احکام اس لئے بیان کئے گئے تاکہ اہل کتاب سمجھ لیں کہ وہ اپنی موجودہ حالت میں ........ کہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر تو ایمان ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں، اس حالت میں وہ اللہ کے کسی فضل کے مستحق نہیں جب تک حضرت خاتم الانبیاء پر ایمان نہ لے آئیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم - تمت سورة الحدید - بحمد اللہ تعالیٰ وعونہ للسادس و العشرین من الربیع الثانی - یوم الاثنین بعد العشاء و یتلوہ انشاء اللہ سورة المجادلتہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّئَلَّا يَعْلَمَ اَہْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا يَــقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللہِ وَاَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝ ٢٩ ۧ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تاکہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کو ثواب خداوندی کے کسی خبر پر بھی دستر نہیں، فضل وثواب اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے وہ اسے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔- يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا سے یہاں تک یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور ان کے ساتھیوں پر فخر کیا کہ ہمارے لیے دہرا ثواب ہے اور تمہارے لیے اکہرا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ لِئَــلاَّ یَعْلَمَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَ لاَّ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰہِ ” (یہ اس لیے ہے) تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ لیں کہ اللہ کے فضل پر اب ان کا کوئی حق نہیں ہے “- گزشتہ آیت کی تشریح کے دوران میں نے ذکر کیا تھا کہ یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ کے خطاب کا رخ اہل کتاب کی طرف بھی ہے۔ یہ بات اس آیت میں اب بالکل واضح ہوگئی ہے۔ جن مفسرین کا ذہن اس طرف نہیں گیا (کہ گزشتہ آیت میں خطاب کا رخ اہل کتاب کی طرف بھی ہے) انہیں زیر مطالعہ آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ یہاں لِئَــلاَّ میں لاَ زائد ہے اور اصل میں یہاں مراد لِکَیْ یَعْلَمَ ہے۔ چونکہ ان لوگوں کے نزدیک گزشتہ آیت صرف مسلمانوں سے خطاب کر رہی ہے ‘ اس لیے انہوں نے زیر مطالعہ آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے : ” تاکہ اہل کتاب کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ اب انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے اللہ کے فضل پر۔ “- بہرحال میں نے گزشتہ آیت میں اہل کتاب سے خطاب کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے زیر مطالعہ آیت کا جو ترجمہ کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کے لیے اب اللہ کے فضل کے حصول کا کوئی راستہ رہا ہی نہیں ‘ بلکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لیے راستہ تو اب بھی کھلا ہے۔ وہ آئیں ‘ خود کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈال دیں ‘ قرآن پر ایمان لائیں اور اللہ کے فضل میں حصہ دار بن جائیں۔ یہی بات انہیں سورة بنی اسرائیل میں بھی بایں الفاظ کہی گئی ہے : عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْج (آیت ٨) ” ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے “۔ یعنی بیشک تم اللہ کے بہت لاڈلے تھے اور اب تم اپنے طرزعمل کی وجہ سے راندئہ درگاہ ہوگئے ہو ‘ لیکن تمہارا ربّ اب بھی تم پر رحمت فرمانے پر آمادہ ہے۔ بس تم آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخری آسمانی کتاب قرآن پر ایمان لے آئو اور اس کی رحمت کے مستحق بن جائو ۔ بلکہ اس سے اگلی آیت میں مزید واضح فرما دیا گیا : اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ (آیت ٩) ” یقینا یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے “۔ اب ہدایت کا ” شاہ درہ “ تو بس قرآن ہی ہے ‘ چناچہ آئو اور اس راستے سے ہوتے ہوئے اللہ کے قصر رحمت میں داخل ہوجائو۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں اہل کتاب پر واضح کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے ان پر بند نہیں ہوگئے ‘ یہ دروازے ان کے لیے اب بھی کھلے ہیں۔- وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ ” اور فضل یقینا اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: اس فقرے میں اہل کتاب کا تذکرہ فرماتے ہوئے دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ایک یہ کہ جو یہودی یا عیسائی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے، ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو صرف اس حسد کے مارے ایمان سے محروم رہے کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو اسرائیل کے بجائے بنو اسماعیل میں کیوں بھیج دئیے گئے، ان سے کہا جارہا ہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، یہ تمہارے اختیار کا معاملہ نہیں ہے کہ جس کو تم چاہو اسی کو دیا جائے، دوسری حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں میں ایک زمانے میں یہ طریقہ عام ہوگیا تھا کہ عیسائی پادری پیسے لے کر لوگوں کے لئے مغفرت نامے جاری کردیتے تھے، وہ مغفرت نامہ مرنے والے کے ساتھ ہی دفن کیا جاتا، اور یہ سمجھا جاتا کہ مغفرت کے اس پروانے سے مردے کی بخشش ہوجائے گی، آیت کریمہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا، یہ تمام تر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کس کو اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازے، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم (تم سورۃ الحدید فللہ الحمد والمنہ)۔