Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات حمد و ثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے ، یہ شکایت کرنے والی خاتون آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری ( بخاری و مسند وغیرہ ) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ الہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے ، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں ۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی بچے ان سے ہوئے اب جبکہ میں بڑھیا ہوگئی بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا ، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں ، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر اترے ، ان کے خاوند کا نام حضرت اوس بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا ( ابن ابی حاتم ) انہیں بھی کچھ جنون سا ہو جاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کرلیتے پھر جب اچھے ہو جاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا ، یہ بی بی صاحبہ حضور سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں جس پر یہ آیت اتری ۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرالیا ، حضرت عمر فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جاکر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے ، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کراچکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی واپس ہمارے پاس آئے ، ایک شخص نے کہا امیرالمومنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا ، آپ نے فرمایا افسوس جانتے بھی ہو یہ کون تھیں؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کردیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ہاں نماز کے وقت نماز ادا کرلیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہو جاتا ( ابن ابی حاتم ) اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ، ایک روایت میں ہے کہ یہ خولہ بن صامت تھیں اور ان کی والدہ کا نام معاذہ تھا جن کے بارے میں آیت ( وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا 33؀ ) 24- النور:33 ) ہوئی تھی ، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ حضرت خولہ اوس بن صامت کی بیوی تھیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت (رض) نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ (رض) سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث و تکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] ظہار کے احکام کا پس منظر :۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب میاں بیوی میں لڑائی ہوجاتی تو خاوند غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو یوں کہہ دیتا کہ (أنْتِ عََلَیَّ کَظَھْرِ أمِّی) یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ تو اسے دائمی طلاق سمجھا جاتا تھا۔ یہ صرف معمولی طلاق ہی نہ تھی بلکہ شدید قسم کی طلاق سمجھی جاتی تھی۔ جس کے بعد ان دونوں میاں بیوی کے مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہتی تھی۔ اس بےہودہ رسم کے متعلق پہلے سورة احزاب کی آیت نمبر ٤ میں مسلمانوں کو یہ تو بتایا جاچکا تھا کہ کسی کے ظہار کرنے یعنی اپنی بیوی کو ماں کی پیٹھ کی طرح کہہ دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی اور نہ ہی اللہ نے کوئی ایسا قانون بنایا ہے۔ مگر اس شرعی حکم کی کچھ تفصیل نہیں دی گئی تھی۔ اب یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک انصاری اوس بن صامت اور اس کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ میں لڑائی جھگڑا ہوا تو اوس بن صامت نے غصہ میں آکر یہی ظہار کے الفاظ کہہ دیئے۔ جس کا فریقین میں معروف مفہوم ابدی طلاق تھا۔ بعد میں زوجین کو سخت ندامت بھی ہوئی اور چونکہ اولاد بھی تھی لہذا اس اولاد کے مستقبل نے کئی خطرات سامنے لاکھڑے کئے۔ خولہ بنت ثعلبہ رسول اللہ کے پاس حاضر ہوئی اور اس کا حکم پوچھا۔ لیکن چونکہ تاحال ظہار کا کوئی واضح حکم نازل نہ ہوا تھا اس لیے آپ نے فرما دیا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو اس پر حرام ہوگئی۔ اس پر خولہ آپ سے کہنے لگی : یارسول اللہ میرے خاوند نے طلاق کا لفظ تو نہیں بولا تھا۔ میں نے جوانی تو اس کے ہاں گزار دی۔ اب بڑھاپا کس کے پاس گزاروں گی۔ نیز میری اوس سے اولاد بھی ہے۔ اگر میں اس سے دستبردار ہوجاؤں تو اولاد بےتوجہی کی نذر ہوجائے گی اور اگر اپنے پاس رکھوں تو ان کے اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ وہ ساتھ ہی ساتھ روتی بھی جاتی تھی اور یہ کہتی بھی جاتی تھی کہ مجھے کوئی بہتر صورت بتائیے۔ اور یہ بھی کہ اللہ میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ نازل فرمائے۔ اللہ نے اس کی فریاد سن لی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی یہ ابتدائی آیات نازل فرمائیں۔ یہ اسی خستہ حالی میں واپس جارہی تھی کہ آپ نے اسے واپس بلا کر یہ آیات سنا دیں۔ جن میں صرف اسی کے مسئلہ کا حل موجود نہ تھا۔ بلکہ اس عورت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لیے اس بد رسم کو مٹا کر تمام بنی نوع انسان پر رحمت فرما دی۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) کے دل میں اس عورت کی بہت قدر و منزلت ہوگئی۔ ایک دفعہ سیدنا عمر اپنے دور خلافت میں کہیں جارہے تھے کہ خولہ مذکورہ نے راستہ ہی میں آپ کو بلایا اور کچھ بات کہنے لگی۔ سیدنا عمر کھڑے ہو کر بڑی توجہ سے سننے لگے۔ کسی نے پوچھا کیا بات ہے آپ اس بڑھیا کی بات بڑی توجہ سے سن کر اسے اتنی اہمیت دے رہے ہیں ؟ سیدنا عمر نے فرمایا : یہ وہ عورت ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سن لی تھی۔ عمر کی کیا مجال ہے کہ اس کی بات کی طرف توجہ نہ دے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ قَدْ سَمِعَ اللہ ُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا : یہ آیات خولہ بنت ثعلبہ (رض) کے بارے میں اتریں ۔ بعض روایات میں ان کا نام خویلہ اور بعض میں جمیلہ آیا ہے۔ ان کے خاوند اوس بن صامت انصاری (رض) تھے جو عباد ہ بن صامت (رض) کے بھائی تھے ، بوڑھے تھے اور خولہ کے ان سے بچے بھی تھے۔ انہوں نے کسی بات پر ناراض ہو کر ان سے ظہار کرلیا ، یعنی یہ کہہ دیا : ” انت علی کظھر امی “ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹ کی طرح ہے۔ “ جاہلیت میں جو شخص بیوی سے ظہار کرتا وہ اسے ماں ہی کی طرح ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتا تھا ۔ خولہ کے سامنے تو دنیا اندھیرا ہوگئی ، اس عمر میں کہاں رہوں گی ، بچوں کا کیا کروں گی ؟ باپ کے پاس رہے تو ضائع ہوجائیں گے ، میرے پاس رہے تو انہیں کہاں سے کھلاؤں گی ؟ وہ یہ شکایت لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں ۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) نے کہا میرے خاوند اوس بن صامت (رض) نے مجھ سے ظہار کرلیا تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی ، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس شکایت کرتی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے تھے اور فرماتے تھے ( اتق اللہ فانہ ابن عمک) ” اس کے بارے میں اللہ سے ڈر ، کیونکہ وہ تمہارا چچازاد ہے “۔ مگر میں نہیں ٹلی ، حتیٰ کہ ” قَدْ سَمِعَ اللہ ُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا “ سے کر کفارہ کے فرض کے بیان تک قرآن نازل ہوا ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( یعت رقبۃ) “ وہ ایک گردن آزاد کرے۔ “ اس نے کہا :” وہ تو اس کے پاس ہے نہیں ۔ ‘ ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( فیصوم شھرین متتابعین)” پھر دو ماہ پے در پے روزے رکھے “۔ اس نے کہا :” اے اللہ کے رسول وہ بڑا بوڑھا ہے ، روزے رکھ نہیں سکتا “۔ فرمایا :( فلیطعم ستین مسکینا)” پھر ساٹھ (٦٠) مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “ اس نے کہا : ” اس کے پاس کوئی چیز نہیں جس کا صدقہ کرے۔ “ کہتی ہیں کہ اس وقت کھجوروں کا ایک ٹوکر ا لایا گیا ، میں نے کہا : ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک اور ٹوکرے کے ساتھ اس کی مدد کردیتی ہوں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( قد احسنت اذھبی فاطعمی بھا عنہ ستین مسکینا وارجعی الی ابن عمک) (ابو داؤد ، الطلاق ، باب فی الظھار : ٢٢١٤، وقال الالبانی حسن)” تم نے بہت اچھا کیا ، جاؤ اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور اپنے چچا زاد کے پاس واپس چلی جاؤ “۔- ٢۔ قَدْ سَمِعَ اللہ ُ : حرف ’ ’ قد “ تحقیق کے لیے آتا ہے اور اس کام کے واقع ہونے کے لیے بھی جس کی توقع کی جا رہی ہو ۔ یہاں پہلے معنی کا تو محل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سننے میں کسی کو شک نہیں کہ اس کا یقین دلانے کے لیے حرف تحقیق لایا جائے ، تو مطلب یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرنے والی عورت اپنی فریاد سنے جانے کی جو توقع کر رہی تھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرمادی۔ سننے سے مراد یہاں صرف سن لیتا ہی نہیں بلکہ سننا اور سن کر مراد پوری کرنا ہے ، جیسے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی ، یعنی سن کر قبول فرمائی۔- ٢۔ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا : وہ جھگڑا یہی تھا کہ وہ کہتی تھی میرے بارے میں کوئی گنجائش نکالیں ، میرے خاوند نے مجھے طلاق نہیں دی ، صرف ” انت علی کظھر امی “ کہا ہے۔ اب میں بڑھاپے میں کہاں جاؤں اور بچوں کا کیا کروں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اکٹھے رہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔- ٤۔ وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللہ ِ ق :” شکا یشکو شکوی وشکایۃ “ اپنے دکھ تکلیف کا اظہار کرنا ۔ ” تشتکی “ ( افتعال) میں حرف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہے ، یعنی وہ جھگڑنے والی اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت شکایت کر رہی تھی اور اپنے دکھ درد کا شدت سے اظہار کر رہی تھی۔- ٥۔ وَ اللہ ُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللہ سَمِیْعٌم بَصِیْرٌ :” ان “ تعلیل کے لیے ہوتا ہے ۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ، کیونکہ اللہ تو سب کچھ سننے والا ، سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔” سمع “ ( سننا) وہ صفت ہے جس کے ساتھ آوازوں کا علم ہوتا ہے اور ” بصر “ ( دیکھنا) وہ صفت ہے جس کے ساتھ نظر آنے والی چیزوں کا علم ہوتا ہے ۔ یونان کے مشرک فلاسفہ سے متاثر ہو کر بعض مسلم متکلمین نے ان کا یہ قاعدہ مان لیا کہ محل حوادث حارث ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کو سمیع وبصیر ماننا ممکن نہ رہا ، کیونکہ اگر مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام چیزوں کو دیکھتا ہے تو سنائی دینے والی اور نظر آنے والی چیزیں تو حادث ہیں ، نبی سے نئی وجود میں آتی ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا ہو تو محل حوادث ہوگا اور ان کے قاعدے کے مطابق خود بھی حادث ہوگا ، ہمیشہ سے اور قدیم نہیں ہوگا ، اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سننے ، دیکھنے ، کلام کرنے اور ایسی تمام صفات کا یا تو انکار کردیا جن میں حدوث پایا جاتا ہے یا ان کی ایسی تاویل کردی جو در حقیقت انکار ہی ہے ، اکثر مفسرین نے یہی روش اختیار کی ہے۔ تفسیر جلالین کو دیکھ لیجئے ، اس میں ہے :” ان اللہ سمیع بصیر “ عالم “ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سننا ، دیکھنا اور جاننا تینوں الگ الگ صفات ہیں ، صرف عالم مان لینے سے سمیع وبصیر نہیں مانا جاسکتا اور یہ قاعدہ کہ ” محل حواث حادث ہوتا ہے “ قرآن مجید کے صریح الفاظ سے ٹکراتا ہے، اس لیے غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ رحمن کی آیت (٩٢) ( کل یوم ھو فی شان) کی تفسیر۔ اگر کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو سمیع وبصیر مانیں تو وہ بندوں کی مثل ٹھہرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ” علیم “ ماننے سے وہ بندوں جیسا نہیں ٹھہرتا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ” علیم “ کا لفظ بندوں پر بھی بولا ہے :( انا نبشرک بغلم علیم) ( الحجر : ٥٣) ( بیشک ہم تجھے ایک علیم لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں) تو سمیع وبصیر ماننے سے بندوں کی مثل کیسے بن جائے گا ؟ مزید دیکھئے سورة ٔ شوریٰ کی آیت (١١):(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ) کی تفسیر۔- ٦۔ ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا :( الحمد للہ الذی وسع سمعہ الاصوات ، لقد جاء ت المجادلۃ الی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وانا فی ناحیۃ البیت ، تشکور زوجھا وما اسمع ما تقول فانزل اللہ :(قَدْ سَمِعَ اللہ ُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا ) (ابن ماجہ ، المقدمۃ ، باب فیما انکرت الجھمیۃ، ١٨٨)” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی سماعت تمام آوازوں پر وسیع ہے ، وہ جھگڑنے والی عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی جب کہ میں گھر کے ایک طرف موجود تھی ، وہ اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی اور میں وہ نہیں سنتی تھی جو وہ کہہ رہی تھی ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :(قَدْ سَمِعَ اللہ ُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا )” یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی “۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے سننے کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔ اس لیے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن کے شروع ہی میں یہ حدیث اس بات میں ذکر فرمائی ہے جس کا عنوان ہے :” با فیما انکرت الجھمیۃ “ ” یہ بات ان چیزوں کو ثابت کرنے کے لیے ہے جن کا جہمیہ نے انکار کیا ہے ۔ “ اور امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کی ” کتاب التوحید “ کے ” باب قول اللہ تعالیٰ “ (وکان اللہ سمعیاً بصیراً ) “ کے تحت اسے اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصیر ثابت کرنے کے لیے ذکر فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سبب نزول - اس سورت کی ابتدائی آیات کے نزول کا سبب ایک خاص واقعہ ہے کہ حضرت اوس بن الصامت نے ایک مرتبہ اپنی بیوی خولہ کو یہ کہہ دیا کہ انت علی کظہر امی ” تو میرے حق میں ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت یعنی حرام ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ ابدی اور دائمی حرمت کے لئے بولے جاتے تھے، جو طلاق مغلظہ سے بھی زیادہ سخت ہے، حضرت خولہ یہ واقعہ پیش آنے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کا حکم شرعی معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئیں، اس وقت تک اس خاص مسئلے کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی تھی، اس لئے آپ نے قول مشہور کے موافق ان سے فرما دیا ما اراک الا قد حرمت علیہ یعنی میری رائے میں تو تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئیں، وہ یہ سن کر واویلا کرنے لگیں کہ میری جوانی سب اس شوہر کی خدمت میں ختم ہوگئی، اب بڑھاپے میں انہوں نے مجھ سے یہ معاملہ کیا، میں کہاں جاؤ ں ؟ میرا اور میرے بچوں کا گزارہ کیسے ہوگا ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ خولہ نے یہ عرض کیا کہ ما ذکر طلاقاً یعنی میرے شوہر نے طلاق کا تو نام بھی نہیں لیا تو پھر طلاق کیسے ہوگئی اور ایک روایت میں ہے کہ خولہ نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ اللھم انی اشکو الیک اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے خولہ سے یہ فرمایا مآ امرت فی شانک بشی حتی الان یعنی ابھی تک تمہارے مسئلے کے متعلق مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا (ان سب روایات میں کوئی تضاد و تعارض نہیں، سبھی اقوال صحیح ہو سکتے ہیں) اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، (کذافی الدر المنثور و ابن کثیر) اس لئے اس سورت کی ابتدائی آیات میں اس خاص مسئلے کا جس کا نام ظہار ہے حکم شرعی بیان فرمایا گیا، جس میں حق تعالیٰ نے حضرت خولہ کی فریاد سنی اور ان کے لئے آسانی فرما دی، ان کی وجہ سے حق تعالیٰ نے قرآن میں یہ مستقل احکام نازل فرما دیئے، اسی لئے حضرات صحابہ ان کا بڑا احترام کرتے تھے، ایک روز فاروق اعظم ایک مجمع کے ساتھ چلے جا رہے تھے، یہ عورت خولہ سامنے آ کر کھڑی ہوگئیں، کچھ کہنا چاہتی تھیں حضرت عمر نے راستہ میں ٹھہر کر ان کی بات سنی، بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس بڑھیا کی خاطر اتنے بڑے مجمع کو روکے رکھا، تو آپ نے فرمایا کہ خبر ہے یہ کون ہے ؟ یہ وہ عورت ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سنی، میں کون تھا کہ ان کی بات کو ٹال دیتا، واللہ اگر یہ خود ہی رخصت نہ ہوجاتی تو میں رات تک ان کے ساتھ یہیں کھڑا رہتا (ابن کثیر)- - خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملے میں جھگڑتی تھی (مثلاً یہ کہتی تھی ما ذکر طلاقاً یعنی اس نے طلاق کا صیغہ تو ذکر نہیں کیا پھر حرمت کیسے ہوگئی) اور (اپنے رنج و غم کی) اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتی تھی (مثلاً یہ کہا تھا اللھم انی اشکو الیک) اور اللہ تعالیٰ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ( اور) اللہ تعالیٰ (تو) سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے (تو اس کی بات کو کیسے نہ سنتا اور قد سمع اللہ سے خدا تعالیٰ کا مقصود اپنے لئے سمع ثابت کرنا نہیں بلکہ عورت کی تکلیف کو ختم کرنا اور اس کی عاجزی کو قبول کرنا ہے) تم میں جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں (مثلاً یوں کہہ دیتے ہیں انت علی کظہر امی) وہ (بیبیاں) ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ( اس لئے یہ الفاظ کہنے سے یہ عورتیں ان کی مائیں نہیں ہوگئیں تاکہ ہمیشہ کی حرمت مثل ماں کے ثابت ہوجائے اور کوئی دوسرا سبب بھی دائمی حرمت کا کسی دلیل سے متحق نہیں، مثلاً تحریم نسب، رضاع یا مصاہرة وغیرہ، پس دائمی حرمت کی نفی ہوگئی) اور وہ لوگ ( جو کہ بیبیوں کو ماں کہتے ہیں) بلاشبہ ایک نامعقول اور جھوٹ بات کہتے ہیں ( اس لئے گناہ ضرور ہوگا) اور ( اگر اس گناہ کا تدارک کردیا جاوے تو وہ گناہ معاف بھی ہوجائے گا کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ معاف کردینے والے بخش دینے والے ہیں اور (آگے اس تدارک کا بعض صورتوں کے اعتبار سے بیان ہے کہ) جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں، پھر اپنی کہی ہوئی بات ( کے مقتضا) کی ( جو تحریم زوجہ ہے) تلافی کرنا چاہتے ہیں (یعنی بیبیوں سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں) تو ان کے ذمہ ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے قبل اس کے کہ دونوں (میاں بی بی) باہم اختلاط کریں (صحبت سے یا اسباب صحبت سے) اس (کفارہ کا حکم کرنے) سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے (کفارہ سے علاوہ تکفیر سیئات کے یہ بھی نفع ہے کہ اس سے آئندہ کو تمہیں تنبیہ ہوجاوے گی) اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے (کہ کفارہ کے متعلق پوری بجا آوری احکام کی کرتے ہو یا نہیں پس کفارہ میں دو حکمتیں ہوگئیں، ایک گناہ کی معافی جس کی طرف اشارہ ہے لعفو غفور میں، دوسری زجر و تنبیہ جس کا تو عظون میں بیان ہے اور یہ دوسری حکمت بھی کفارہ کی تینوں قسموں میں ہے لیکن غلام یا لونڈی آزاد کرنا چونکہ کفارہ کے اقسام میں ذکراً مقدم ہے، اس لئے اس کو اس کے ساتھ ذکر کردیا گیا) پھر جس کو (غلام، لونڈی) میسر نہ ہو تو اس کے ذمہ پے در پے (یعنی لگاتار) دو مہینے کے روزے ہیں قبل اس کے کہ دونوں (میاں بی بی) باہم اختلاط کریں پھر جس سے یہ بھی نہ ہو سکیں تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے (آگے اس حکم کا مثل دیگر احکام کے واجب التصدیق ہونا اس لئے بیان فرماتے ہیں کہ اس حکم کا مقصد قدیم رسم اور جاہلیت کے حکم کو توڑنا ہے، اس لئے اہتمام مناسب ہوا پس ارشاد ہوا کہ) یہ حکم اس لئے (بیان کیا گیا) ہے تاکہ (اس حکم سے متعلق مصلحتوں کے حاصل کرنے کے علاوہ) اللہ اور رسول پر ایمان (بھی) لے آؤ (یعنی ان احکام میں ان کی تصدیق بھی کرو کہ ایمان سے متعلق مصالح بھی حاصل ہوں) اور (آگے مزید تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) یہ اللہ کی حدیں (باندھی ہوئی) ہیں (یعنی خداوندی ضابطے ہیں) اور کافروں کے لئے ( جو کہ ان احکام کی تصدیق نہیں کرتے بالخصوص) سخت درد ناک عذاب ہوگا ( اور مطلق عذاب عمل میں خلل ڈالنے والے کو بھی ہوسکتا ہے اور کچھ اسی حکم کی تخصیص نہیں بلکہ) جو لوگ اللہ اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں ( خواہ کسی حکم میں کریں جیسے کفار مکہ) وہ (دنیا میں بھی) ایسے ذلیل ہوں گے جیسے ان سے پہلے لوگ ذلیل ہوئے (چنانچہ کئی غزوات میں اس کا وقوع ہوا) اور (سزا کیسے نہ ہو کیونکہ) ہم نے کھلے کھلے احکام ( جن کی صحت اعجاز آیات سے ثابت ہے) نازل کئے ہیں ( تو ان کا انکار لامحالہ موجب سزا ہوگا اور یہ سزا تو دنیا میں ہوگی) اور کافروں کو (آخرت میں بھی) ذلت کا عذاب ہوگا ( اور آگے اس عذاب کا وقت بتلاتے ہیں کہ یہ اس روز ہوگا) جس روز ان سب کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا پھر ان سب کا کیا ہوا ان کو بتلا دے گا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے وہ محفوظ کر رکھا ہے اور یہ لوگ اس کو بھول گئے ہیں ( خواہ حقیقتہ یا باعتبار بےفکری بےالتفاتی کے) اور اللہ ہر چیز پر مطلع ہے (خواہ ان کے اعمال ہوں یا اور کچھ) ۔- معارف و مسائل - قد سمع اللہ الآیتہ، ان آیات کا سبب نزول جو اوپر بیان ہوچکا ہے اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ عورت جس کا ذکر اس آیت میں ہے وہ حضرت اوس ابن الصامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ ہیں، جن کے شوہر نے ان سے ظہار کرلیا تھا اور یہ اس کی شکایت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔- حق تعالیٰ نے اس کو یہ عزت بخشی کہ اس کے جواب میں قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں اور ان میں صرف ظہار کا حکم شرعی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا انتظام ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کی دلداری کے لئے شروع کلام میں فرما دیا کہ ہم اس عورت کی باتیں سن رہے تھے، جو اپنے شوہر کے معاملہ میں آپ سے مجادلہ کر رہی تھی، مجادلہ سے مراد وہ جھگڑا جس سے مراد ایک مرتبہ جواب دے دینے کے باوجود اپنی تکلیف کو بار بار بیان کر کے آپ کو متوجہ کرنا اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو یہ جواب دیا کہ تمہارے معاملہ میں مجھ پر کوئی حکم اللہ کا نازل نہیں ہوا تو اس پر غم زدہ کی زبان سے یہ نکلا کہ یوں تو آپ پر ہر چیز کے حکم نازل ہوتے رہتے ہیں میرے بارے میں کیا ہوا کہ وحی بھی رک گئی ؟ (قرطبی)- اور اللہ تعالیٰ سے فریاد شروع کی وتشتکی الی اللہ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں پاک ہے وہ ذات جس کا سماع تمام آوازوں کو محیط ہے، ہر ایک کی آواز سنتا ہے میں اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھی، جب خولہ بنت ثعلبہ اپنے شوہر کی شکایت بیان کر رہی تھیں مگر اتنے قریب ہونے کے باوجود ان کی بعض باتیں نہ سن سکی تھی، مگر حق تعالیٰ نے ان سب کو سنا اور فرمایا قد سمع اللہ (بخاری، ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْسَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِہَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللہِ۝ ٠ ۤ ۖ وَاللہُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۝ ١- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جس میں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- شكا - الشَّكْوُ والشِّكَايَةُ والشَّكَاةُ والشَّكْوَى: إظهار البثّ ، يقال : شَكَوْتُ واشْتَكَيْتُ «3» ، قال تعالی:َّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّه[يوسف 86] - ( ش ک و ) الشکو - واشکایتہ والشاۃ والشکولی کے معنی اظہار غم کے ہیں اور شکوت فاشکیت دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ [يوسف 86] کہ میں تو اپنے غم اور انددہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - حور - الحَوْرُ : التّردّد إمّا بالذّات، وإمّا بالفکر، وقوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق 14] ، أي : لن يبعث، وذلک نحو قوله : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 17] ، وحَارَ الماء في الغدیر : تردّد فيه، وحَارَ في أمره : تحيّر، ومنه :- المِحْوَر للعود الذي تجري عليه البکرة لتردّده، وبهذا النّظر قيل : سير السّواني أبدا لا ينقطع «1» ، والسواني جمع سانية، وهي ما يستقی عليه من بعیر أو ثور، ومَحَارَة الأذن لظاهره المنقعر، تشبيها بمحارة الماء لتردّد الهواء بالصّوت فيه کتردّد الماء في المحارة، والقوم في حَوْرٍ أي : في تردّد إلى نقصان، وقوله : «نعوذ بالله من الحور بعد الکور» أي : من التّردّد في الأمر بعد المضيّ فيه، أو من نقصان وتردّد في الحال بعد الزّيادة فيها، وقیل : حار بعد ما کار . والمُحاوَرَةُ والحِوَار : المرادّة في الکلام، ومنه التَّحَاوُر، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة 1] ، وكلّمته فما رجع إليّ حَوَاراً ، أو حَوِيراً أو مَحُورَةً أي : جوابا، وما يعيش بأحور، أي بعقل يحور إليه، وقوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] ، جمع أَحْوَرَ وحَوْرَاء، والحَوَر قيل : ظهور قلیل من البیاض في العین من بين السّواد، وأَحْوَرَتْ عينه، وذلک نهاية الحسن من العین، وقیل : حَوَّرْتُ الشّيء : بيّضته ودوّرته، ومنه : الخبز - الحُوَّارَى، والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل :- کانوا قصّارین وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] .- ( ح و ر ) الحور - ( ن ) کے اصل معنی پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات کے ہو یا بلحاظ فکر کے اور آیت کریمہ ؛إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق 14] اور خیال کر تھا کہ ( خدا کی طرف ) پھر کر نہیں آئے گا ۔ لن یحور ( سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا مرا د ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 17] جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاو گے ۔ حار الماء فی الغدید پانی کا خوض میں گھومنا ۔ حارفی امرہ کسی معاملہ میں متحری ہونا ۔ اسی سے محور ہے ۔ یعنی وہ لکڑی جس پر چرخی گھومتی ہے اور گھومنے کے معنی کے لحاظ سے کہاجاتا ہے ۔ سیر السوانی ابدا لا ینقطع کہ پانی کھیننچے والے اونٹ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ۔ محارۃ الاذن کان کا گڑھا ۔ یہ محارۃ الماء کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس میں آواز سے ہو اس طرح چکر کاٹتی ہے ۔ جیسے گڑھے میں پانی گھومتا ہے ۔ القوم فی حوار یعنی زیادتی کے بعد نقصان کیطرف لوٹ رہے ہیں حدیث میں ہے :۔ (101) نعوذ باللہ من الحور بعد الکور ہم زیادتی کے بعد کمی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یا کسی کام کا عزم کرلینے کے بعد اس میں تردد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اسہ طرح کہا جاتا ہے ( مثل) حار بعد ماکار زیادہ ہونے کے بعد کم ہوگیا ۔ المحاورۃ رالحوار ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا اسی سے تحاور ( تبادلہ گفتگو ) ہے قرآن میں ہے ۔ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة 1] اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ کلمتہ فما رجع الی حوار احویرا ومحورۃ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مایعیش باحور وہ عقلمند سے زندگی بسر نہیں کر رہا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں مستور ہیں ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ میں حور ، احور اور حواراء کی جمع ہے ۔ اور حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی بقول بعض آنکھ کی ساہی میں تھوڑی سی سفیدی ظاہر ہونے کے ہیں ۔ کہا جتا ہے ۔ احورث عینہ یعنی اس کی آنکھ بہت سیاہی اور سفیدی والی ہے ۔ اور یہ آنکھ کا انتہائی حسن سمجھاجاتا ہے جو اس سے مقصود ہوسکتا ہے حورت الشئی کسی چیز کو گھمانا ۔ سفید کرنا ( کپڑے کا ) اسی سے الخبز الحوار ہے جس کے معنی امید سے کی روٹی کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ظہار کے مسائل - قول باری ہے (قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا ۔ اللہ نے بیشک اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کررہی تھی) تا قول باری (وان اللہ لعفو غفور۔ اور بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے) ۔- سلیمان بن خالد نے ابو قلابہ سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایلا اور ظہار سے طلاق واقع ہوجاتی تھی اور یہی ان کی طلاق کا طریقہ تھا۔ جب اسلام آگیا تو ظہار اور ایلاء کے سلسلے میں اسلام کا اپنا حکم جاری ہوگیا۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ عورتیں ظہار کی وجہ سے حرام ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیتیں نازل فرمادیں۔- وہ عورت کون تھی جس نے اپنے شوہر کی طرف سے کیے جانے والے ظہار کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ردوقدح اور بحث کی تھی، اس بارے میں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ابواسحاق سے درج بالا آیت کی تفسیر میں بتایا کہ اس کا نزول ایک عورت کے سلسلے میں ہوا تھا جس کا نام حویلہ تھا۔- عکرمہ نے کہا ہے کہ اس کے والد کا نام ثعلبہ اور شوہر کا نام اوس بن الصامت تھا۔ اس کے شوہر نے اس سے کہہ دیا تھا کہ ” تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت سے فرمایا کہ ” میرے خیال میں تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ہو۔ “ اس وقت آپ اپنا سر دھو رہے تھے۔ عورت نے یہ سن کر کہا : ” اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کردے، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات پھر دہرائی۔ عورت نے بھی اپنی بات دہرائی۔ اس طرح کئی دفعہ ہوا۔- اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درج بالا آیتیں نازل ہوئیں۔ قتادہ نے کہا ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلے پھر اس کی طرف رجوع کرکے اس کے ساتھ ہم بستری کرنا چاہے تو باہم اختلاط کرنے سے پہلے ایک گردن آزاد کرے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ” میرے خیال میں تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ہو۔ “ میں یہ احتمال ہے کہ آپ نے اس سے طلاق والی تحریم مراد لی ہے جیسا کہ ظہار کا حکم ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہار والی تحریم مراد لی ہو۔ بہتر بات یہ ہے کہ اس سے طلاق والی تحریم مراد لی جائے۔ کیونکہ ظہار کا حکم اس آیت سے ماخوذ ہے اور آیت کا نزول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کے بعدہوا تھا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سے طلاق والی تحریم اور رفع نکاح مراد ہے۔- یہ بات اس چیز کی موجب ہے کہ یہ حکم آیت ظہار کے نزول سے پہلے شریعت میں ثابت تھا اگرچہ اس سے پہلے یہ زمانہ جاہلیت کا ایک حکم تصور ہوتا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنے درج بالا ارشاد کے ذریعے طلاق کا حکم سنادیا تھا تو اس حکم کے بعدبعینہ اسی خاتون کو ظہار کا حکم کیسے سنایا جبکہ آپ بعینہ اپنے اسی قول کے ذریعے طلاق کا حکم سنا چکے تھے۔ نسخ تو مستقبل میں حکم کا موجب ہوتا ہے بخلاف پہلے حکم کے کہ وہ ماضی میں ہوتا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ اس بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم کو معلق کردیا تھا چناچہ آپ نے فرمایا تھا (ماراک الاقد حرمت علیہ میرے خیال میں تم اس پر حرام ہوگئی ہو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطعیت کے ساتھ تحریم کی بات نہیں کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے سے یہ بتادیا ہو کہ یہ حکم عنقریب منسوخ ہوجائے گا اور یہ طلاق سے ظہار والی تحریم کی طرف منتقل ہوجائے گا۔- اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں یہ گنجائش رکھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی آیت نازل ہوجائے۔ اس بنا پر اس معاملے میں آپ کی طرف سے کوئی حکم لگانے کی بات ثابت نہیں ہوئی۔ پھر جب آیت نازل ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بموجب حکم عائد کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

حضرت محمد آپ کو اطلاع کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملہ میں جھگڑتی اور گفتگو کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی صورت حال پیش کرنے کے لیے آہ وزاری کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہاری اور اس عورت کی باہم گفتگو سن رہا تھا بیشک اللہ تعالیٰ اس کی بات کو سننے والا اور اس صورت حال کو دیکھنے والا ہے۔- شان نزول : قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ (الخ)- امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت عائشہ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں پاک ہے وہ ذات جس کی قوت سمع ہر ایک چیز پر محیط پر میں حضرت خولہ بنت ثعلبہ کی گفتگو سن رہی تھی اور مجھ سے بعض باتیں مخفی رہیں وہ اپنے خاوند کی رسول اکرم سے شکایت کر رہی تھیں اور فرما رہی تھیں یا رسول اللہ میری جوانی ختم کردی اور خاوند کے لیے میرا پیٹ خالی ہوگیا اب جب میں بڑھاپے کو پہنچ گئی ہوں اور میری اولاد بھی منقطع ہوگئی ہے تو میرے شوہرے نے مجھ سے ظہار کرلیا میں آپ سے اپنے معاملہ کی شکایت کرتی ہوں۔ چناچہ وہ اپنی جگہ سے پر نہیں ہٹیں یہاں تک کہ جبریل امین ان آیات کو لے کر نازل ہوگئے اور ان کے خاوند حضرت اوس بن صامت تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات (جو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ سے جھگڑ رہی ہے اپنے شوہر کے بارے میں “- وَتَشْتَـکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ” اور وہ اللہ سے بھی فریاد کر رہی ہے۔ “- وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ” اور اللہ سن رہا ہے آپ دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو۔ “- اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌم بَصِیْرٌ ۔ ” یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “- ” قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ “ کے معنی یہاں محض سن لینے کے نہیں ‘ بلکہ قبول کرلینے اور فریاد رسی کرنے کے ہیں۔ یہ ” ظہار “ کے معاملے کا ذکر ہے جو ایک صحابی حضرت اوس (رض) بن صامت انصاری اور ان کی بیوی حضرت خولہ (رض) بنت ثعلبہ کے درمیان پیش آیا۔ کسی شخص کا اپنی بیوی کو اپنی ماں یا اپنی ماں کے کسی عضو سے تشبیہہ دینا اصطلاحاً ” ظہار “ کہلاتا ہے ‘ مثلاً کسی کا اپنی بیوی کو یوں کہہ دینا کہ تم میرے لیے میری ماں کی طرح ہو یا میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ عربوں کے ہاں اس کے لیے یہ الفاظ کہے جاتے تھے : ” اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّی “ یعنی اب تجھ کو ہاتھ لگانا میرے لیے گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگانا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق ہی کی طرح سمجھا جاتا تھا ‘ بلکہ طلاق میں تو حالات و قرائن کے مطابق پھر بھی رجوع کی گنجائش تھی ‘ لیکن ظہار کی صورت میں میاں بیوی میں عمر بھر کے لیے علیحدگی ہوجاتی تھی اور وہ دوبارہ کبھی کسی بھی صورت میں میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے۔ - روایات میں مذکورہ معاملے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ حضرت اوس (رض) غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے ظہار کر بیٹھے۔ اس پر ان کی بیوی حضرت خولہ (رض) بنت ثعلبہ فریاد لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوس (رض) نے یہ کردیا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ‘ اب میں ان کو لے کر کہاں جائوں گی ؟ ان کو کیسے پالوں گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پریشانی کا کوئی حل بتائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں فرمایا ‘ اس لیے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توقف پر وہ بدستور اصرار کرتی رہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کچھ کریں ‘ میرا کیا بنے گا ؟ میرے بچے ہلاک ہوجائیں گے اسی کیفیت میں کبھی وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتیں کہ اے اللہ تو میری فریاد کو سن لے اور میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے روایات کے مطابق اس اصرار و تکرار کے دوران ہی زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں۔ پہلی آیت کا انداز خصوصی طور پر بہت شفقت بھرا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے اس خاتون کی اس بحث و تکرار کو سن لیا ہے جو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کر رہی ہے۔ حضرت خولہ (رض) بنت ثعلبہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا موج میں آیا اور ظہار کے بارے میں مستقل قانون بنا دیا گیا۔ یہ قانون اگلی تین آیات میں بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :1 یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کر لینا ہوتا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :2 عام طور پر مترجمین نے اس مقام پر مجادلہ کر رہی تھی ، فریاد کر رہی تھی ، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی ہو گی ، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی ، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے ۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظہار کا قصہ سنا سنا کر بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہو گئی تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہو جائیں گے ، عین اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں ۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے ۔ یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں ، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری ، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے ۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے ۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہی وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی ۔ ابن ابی حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا ۔ آپ فوراً رک گئے ۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے ۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین ، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا ۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے ۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ۔ خدا کی قسم ، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا ، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معذرت کر دیتا ۔ ابن عبدالبر نے اِستعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمر کو ملیں تو آپ نے ان کو سلام کیا ۔ یہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں اوہو ، اے عمر ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا ۔ اس وقت تم عمیر کہلاتے تھے ۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے ۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمر کہلانے لگے ۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے ۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے ، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے ۔ اس پر جارود عَبْدِی ، جو حضرت عمر کے ساتھ تھے ، بولے ، اے عورت ، تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی ۔ حضرت عمر نے فرمایا ، انہیں کہنے دو ، جانتے بھی ہو یہ کون ہیں؟ ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی ، عمر کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے ۔ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت خولہؓ ایک خاتون تھیں جو حضرت اوس بن صامت رضی اﷲ عنہما کے نکاح میں تھیں جو بوڑھے ہوچکے تھے، اور ایک مرتبہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو یہ کہہ دیا کہ: ’’تم میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہو‘‘ (یعنی میں نے تم کو اپنے اُوپر ماں کی پشت کی طرح حرام کرلیا ہے) جب کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ جملہ کہہ دے تو اسی کو ’’ظہار‘‘ کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے ظہار کے نتیجے میں میاں بیوی ہمیشہ کے لئے جدا ہوجایا کرتے تھے، اور پھر ان کے ملاپ کا کوئی راستہ نہیں رہتا تھا۔ اگرچہ حضرت اوس بن صامتؓ یہ جملہ جذبات میں آکر کہہ تو گئے تہے، لیکن بعد میں شرمندہ ہوئے تو یہ خاتون پریشان ہو کر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور آپ سے پوچھا کہ اس صورتِ حال کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں ابھی میرے پاس کوئی حکم نہیں آیا، اور یہ شبہ ظاہر فرمایا کہ شاید تم اپنے شوہر کے لئے حرام ہوچکی ہو۔ اس پر خاتون نے بار بار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ: ’’میرے شوہر نے مجھ سے طلاق کا کوئی لفط تو نہیں کہا‘‘، اُن کے اسی بار بار کہنے کو آیت میں بحث کرنے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے فریاد شروع کردی کہ: ’’یا اللہ میں آپ سے فریاد کرتی ہوں کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو ضائع ہوجائیں گے۔‘‘ پھر آسمان کی طرف سر اُٹھاکر بار بار کہتی ہی رہیں کہ: ’’یا اللہ میں آپ سے فریاد کرتی ہوں۔‘‘ ابھی وہ یہ فریاد کرہی رہی تھیں کہ یہ آیات نازل ہوگئیں جن میں ظہار کا حکم اور اُس سے رجوع کرنے کا طریقہ بتلایا گیا۔( خلاصہ از تفسیر ابن کثیر)۔