خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا اور مسئلہ ظہار حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت کے بارے میں اس سورۃ مجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں ، میں ان کے گھر میں تھی یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے ، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا ، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی ، میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو ، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آگئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی ، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کردیں ، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو وہ بوڑھے بڑے ہیں ، ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی ، جب وحی اترچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خولہ تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں ، پھر آپ نے آیت ( قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا Ǻ ) 58- المجادلة:1 ) تک پڑھ سنایا اور فرمایا جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس غلام کہاں؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق ( تقریباً چار من پختہ ) کھجوریں دے دیں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا میں نے کہا بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا ، جاؤ یہ ادا کردو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت ، پیار ، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو ( مسند احمد و ابو داؤد ) ۔ ان کا نام بعض روایتوں میں خولہ کے بجائے خولہ بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ بھی آیا ہے ، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ، واللہ اعلم ۔ اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے ۔ حضرت سلمہ بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ جو اب آ رہا ہے وہ اس کے اترنے کا باعث نہیں ہوا ہاں البتہ جو حکم ظہار ان آیتوں میں تھا انہیں بھی دیا گیا یعنی غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا یا کھانا دینا ، حضرت سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ خود ان کی زبانی یہ ہے کہ مجھے جماع کی طاقت اوروں سے بہت زیادہ تھی ، رمضان میں اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو دن میں روزے کے وقت میں بچ نہ سکوں میں نے رمضان بھر کیلئے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ، ایک رات جبکہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن کے کسی حصہ پر سے کپڑا ہٹ گیا پھر تاب کہاں تھی؟ اس سے بات چیت کر بیٹھا صبح اپنی قوم کے پاس آکر میں نے کہا رات ایسا واقعہ ہوگیا ہے تم مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور آپ سے پوچھو کہ اس گناہ کا بدلہ کیا ہے؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم میں اس کی بابت کوئی آیت اترے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات فرما دیں کہ ہمیشہ کیلئے ہم پر عار باقی رہ جائے ، تو جانے تیرا کام ، تونے ایسا کیوں کیا ؟ ہم تیرے ساتھی نہیں ، میں نے کہا اچھا پھر میں اکیلا جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے کہا جی ہاں حضور مجھ سے ایسا ہوگیا ۔ آپ نے پھر فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے پھر یہی عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے یہ خطا ہوگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا میں نے پھر اقرار کیا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں جو سزا میرے لئے تجویز کی جائے میں اسے صبر سے برداشت کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیجئے ، آپ نے فرمایا جاؤ ایک غلام آزاد کرو ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو صرف اس کا مالک ہوں اللہ کی قسم مجھے غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دو مہینے کے پے درپے روزے رکھو ، میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جاؤ صدقہ کرو میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس کچھ نہیں بلکہ آج کی شب سب گھر والوں نے فاقہ کیا ہے ، پھر فرمایا اچھا بنو رزیق کے قبیلے کے صدقے والے کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ صدقے کا مال تمہیں دیدیں تم اس میں سے ایک وسق کھجور تو ساٹھ مسکینوں کو دیدو اور باقی تم آپ اپنے اور اپنے بال بچوں کے کام میں لاؤ ، میں خوش خوش لوٹا اور اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں نے کشادگی اور برکت پائی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنے صدقے تم مجھے دیدو چنانچہ انہوں نے مجھے دے دیئے ( مسند احمد ابو داؤد وغیرہ ) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اوس بن صامت اور ان کی بیوی صاحبہ حضرت خویلہ بنت ثعلبہ کے واقعہ کے بعد کا ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ ظہار کا پہلا واقعہ حضرت اوس بن صامت کا ہے جو حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے ، ان کی بیوی صاحبہ کا نام خولہ بنت ثعلبہ بن مالک رضی الہ تعالیٰ عنہا تھا ، اس واقعہ سے حضرت خولہ کو ڈر تھا کہ شاید طلاق ہوگئی ، انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا ہے اور اگر ہم علیحدہ علیحدہ ہوگئے تو دونوں برباد ہو جائیں گے میں اب اس لائق بھی نہیں رہی کہ مجھے اولاد ہو ہمارے اس تعلق کو بھی زمانہ گزر چکا اور بھی اسی طرح کی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں ، اب تک ظہار کا کوئی حکم اسلام میں نہ تھا اس پر یہ آیتیں شروع سورت سے الیم تک اتریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ انہوں نے قسم کھاکر انکار کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے رقم جمع کی انہوں نے اس سے غلام خرید کر آزاد کیا اور اپنی بیوی صاحبہ سے رجوع کیا ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، واللہ اعلم ۔ لفظ ظہار ظہر سے مشٹق ہے چونکہ اہل جاہلیت اپنی بیوی سے ظہار کرتے وقت یوں کہتے تھے کہ انت علی کظھر امی یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، شریعت میں حکم یہ ہے کہ اس طرح خواہ کسی عضو کا نام لے ظہار ہو جائے گا ، ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اس میں کفارہ مقرر کردیا اور اسے طلاق شمار نہیں کیا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا ۔ سلف میں سے اکثر حضرات نے یہی فرمایا ہے ، حضرت ابن عباس جاہلیت کے اس دستور کا ذکر کرکے فرماتے ہیں اسلام میں جب حضرت خویلہ والا واقعہ پیش آیا اور دونوں میاں بیوی پچھتانے لگے تو حضرت اوس نے اپنی بیوی صاحبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا یہ جب آئیں تو دیکھا کہ آپ کنگھی کر رہے ہیں ، آپ نے واقعہ سن کر فرمایا ہمارے پاس اس کا کوئی حکم نہیں اتنے میں یہ آیتیں اتریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خویلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس کی خوشخبری دی اور پڑھ سنائیں ، جب غلام کو آزاد کرنے کا ذکر کیا تو عذر کیا کہ ہمارے پاس غلام نہیں ، پھر روزوں کا ذکر سن کر کہا اگر ہر روز تین مرتبہ پانی نہ پئیں تو بوجہ اپنے بڑھاپے کے فوت ہو جائیں ، جب کھانا کھلانے کا ذکر سنا تو کہا چند لقموں پر تو سارا دن گزرتا ہے تو اوروں کو دینا کہاں؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا وسق تیس صاع منگواکر انہیں دیئے اور فرمایا اسے صدقہ کردو اور اپنی بیوی سے رجوع کرلو ( ابن جریر ) اس کی اسناد قوی اور پختہ ہے ، لیکن ادائیگی غربت سے خالی نہیں ۔ حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، فرماتے ہیں خولہ بنت دلیج ایک انصاری کی بیوی تھیں جو کم نگاہ والے مفلس اور کج خلق تھے ، کسی دن کسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا تو جاہلیت کی رسم کے مطابق ظہار کرلیا جو ان کی طلاق تھی ۔ یہ بیوی صاحبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اس وقت آپ عائشہ کے گھر میں تھے اور ام المومنین آپ کا سر دھو رہی تھیں ، جاکر سارا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب کیا ہوسکتا ہے ، میرے علم میں تو تو اس پر حرام ہوگئی یہ سن کر کہنے لگیں اللہ میری عرض تجھ سے ہے ، اب حضرت عائشہ آپ کے سرمبارک کا ایک طرف کا حصہ دھو کر گھوم کر دوسری جانب آئیں اور ادھر کا حصہ دھونے لگیں تو حضرت خولہ بھی گھوم کر اس دوسری طرف آ بیٹھیں اور اپنا واقعہ دوہرایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ، ام المومنین نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ہے تو ان سے کہا کہ دور ہٹ کر بیٹھو ، یہ دور کھسک گئیں ادھر وحی نازل ہونی شروع ہوئی جب اتر چکی تو آپ نے فرمایا وہ عورت کہاں ہے؟ ام المومنین نے انہیں آواز دے کر بلایا ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے خاوند کو لے آؤ ، یہ دوڑتی ہوئی گئیں اور اپنے شوہر کو بلا لائیں تو واقعی وہ ایسے ہی تھے جیسے انہوں نے کہا تھا ، آپ نے استعیذ باللہ السمیع العلیم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس سورت کی یہ آیتیں سنائیں ، اور فرمایا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ، کہا دو مہینے کے لگاتار ایک کے پیچھے ایک روزے رکھ سکتے ہو؟ انہوں نے قسم کھاکر کہا کہ اگر دو تین دفعہ دن میں نہ کھاؤں تو بینائی بالکل جاتی رہتی ہے ، فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں لیکن اگر آپ میری امداد فرمائیں تو اور بات ہے ، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اعانت کی اور فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھلادو اور جاہلیت کی اس رسم طلاق کو ہٹا کر اللہ تعالیٰ نے اسے ظہار مقرر فرمایا ( ابن ابی حاتم و ابن جریر ) حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایلا اور ظہار جاہلیت کے زمانہ کی طلاقیں تھیں ، اللہ تعالیٰ نے ایلا میں تو چار مہینے کی مدت مقرر فرمائی اور ظہار میں کفارہ مقرر فرمایا ۔ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے لفظ منکم سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہاں خطاب مومنوں سے ہے اسلئے اس حکم میں کافر داخل نہیں ، جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ بہ اعتبار غلبہ کے کہہ دیا گیا ہے اس لئے بطور قید کے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں لے سکتے ، لفظ من نسائھم سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے ظہار نہیں نہ وہ اس خطاب میں داخل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس کہنے سے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے یا میرے لئے تو مثل میری ماں کے ہے یا مثل میری ماں کی پیٹھ کے ہے یا اور ایسے ہی الفاظ اپنی بیوی کو کہہ دینے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی ، حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے یہ تولد ہوا ہے ، یہ لوگ اپنے منہ سے فحش اور باطل قول بول دیتے ہیں اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشش دینے والا ہے ۔ اس نے جاہلیت کی اس تنگی کو تم سے دور کردیا ، اسی طرح ہر وہ کلام جو ایک دم زبان سے بغیر سوچے سمجھے اور بلا قصد نکل جائے ۔ چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے اے میری بہن تو آپ نے فرمایا یہ تیری بہن ہے؟ غرض یہ کہنا برا لگا اسے روکا مگر اس سے حرمت ثابت نہیں کی کیونکہ دراصل اس کا مقصود یہ نہ تھا یونہی زبان سے بغیر قصد کے نکل گیا تھا ورنہ ضرور حرمت ثابت ہو جاتی ، کیونکہ صحیح قول یہی ہے کہ اپنی بیوی کو جو شخض اس نام سے یاد کرے جو محرمات ابدیہ ہیں مثلاً بہن یا پھوپھی یا خالہ وغیرہ تو وہ بھی حکم میں ماں کہنے کے ہیں ۔ جو لوگ ظہار کریں پھر اپنے کہنے سے لوٹیں اس کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہار کیا پھر مکرر اس لفظ کو کہا لیکن یہ ٹھیک نہیں ، بقول حضرت امام شافعی مطلب یہ ہے کہ ظہار کیا پھر اس عورت کو روک رکھا یہاں تک کہ اتنا زمانہ گزر گیا کہ اگر چاہتا تو اس میں باقاعدہ طلاق دے سکتا تھا لیکن طلاق نہ دی ۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ پھر لوٹے جماع کی طرف یا ارادہ کرے تو یہ حلال نہیں تاوقتیکہ مذکورہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ مراد اس سے جماع کا ارادہ یا پھر بسانے کا عزم یا جماع ہے ۔ امام ابو حنیفہ وغیرہ کہتے ہیں مراد ظہار کی طرف لوٹنا ہے اس کی حرمت اور جاہلیت کے حکم کے اٹھ جانے کے بعد پس جو شخص اب ظہار کرے گا اس پر اس کی بیوی حرام ہو جائے گی جب تک کہ یہ کفارہ ادا نہ کرے ، حضرت سعید فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنی جان پر حرام کرلیا تھا اب پھر اس کام کو کرنا چاہے تو اس کا کفارہ ادا کرے ۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے کہ مجامعت کرنا چاہے ورنہ اور طرح چھونے میں قبل کفارہ کے بھی ان کے نزدیک کوئی حرج نہیں ۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یہاں مس سے مراد صحبت کرنا ہے ۔ زہری فرماتے ہیں کہ ہاتھ لگانا پیار کرنا بھی کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جائز نہیں ۔ سنن میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے مل لیا آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر رحم کرے ایسا تونے کیوں کیا ؟ کہنے لگا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاندنی رات میں اس کے خلخال کی چمک نے مجھے بےتاب کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب اس سے قربت نہ کرنا جب تک کہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ ادا نہ کردے ، نسائی میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ مرسل ہونے کو اولیٰ بتاتے ہیں ۔ پھر کفارہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، ہاں یہ قید نہیں کہ مومن ہی ہوجیسے قتل کے کفارے میں غلام کے مومن ہونے کی قید ہے ۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں یہ مطلق اس مقید پر محمول ہوگی کیونکہ غلام کو آزاد کرنے کی شرط جیسی وہاں ہے ایسی ہی یہاں بھی ہے ، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ ایک سیاہ فام لونڈی کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے ، اوپر واقعہ گزر چکاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہار کرکے پھر کفارہ سے قبل واقع ہو نے والے کو آپ نے دوسرا کفارہ ادا کرنے کو نہیں فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے یعنی دھمکایا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال کا عالم ہے ۔ جو غلام کو آزاد کرنے پر قادر نہ ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے کے بعد اپنی بیوی سے اس صورت میں مل سکتا ہے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کے بعد ، پہلے حدیثیں گزر چکیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدم پہلی صورت پھر دوسری پھر تیسری ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جس میں آپ نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو فرمایا تھا ۔ ہم نے یہ احکام اس لئے مقرر کئے ہیں کہ تمہارا کامل ایمان اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو جائے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کے محرمات ہیں خبردار اس حرمت کو نہ توڑنا ۔ جو کافر ہوں یعنی ایمان نہ لائیں حکم برداری نہ کریں شریعت کے احکام کی بےعزتی کریں ان سے لاپرواہی برتیں انہیں بلاؤں سے بچنے والا نہ سمجھو بلکہ ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔
2۔ 1 یہ اظہار کا حکم بیان فرمایا ہے کہ تمہارے کہہ دینے سے تمہاری بیوی تمہاری ماں نہیں بن جائے گی اگر ماں کے بجائے کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کی پیٹھ کی طرح اپنی بیوی کو کہہ دے تو یہ ظہار ہے یا نہیں ؟ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے بھی ظہار قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرے علماء اسے ظہار تسلیم نہیں کرتے پہلا قول ہی صحیح معلوم ہوتا ہے اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ پیٹھ کی جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ تو میری ماں کی طرح ہے پیٹھ کا نام نہ لے تو علماء کہتے ہیں کہ اگر ظہار کی نیت سے وہ مذکورہ الفاظ کہے گا تو ظہار ہوگا بصورت دیگر نہیں امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ اگر ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے گا جس کا دیکھنا جائز ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا امام شافعی (رح) بھی کہتے ہیں کہ ظہار صرف پیٹھ کی طرح کہنے سے ہی ہوگا۔ فتح القدیر۔ 2۔ 2 اسی لیے اس نے کفار کو اس قول منکر اور جھوٹ کی معافی کا ذریعہ بنادیا۔
[٢] ظہار سے نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ بیوی ماں بن سکتی ہے :۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے پر بیوی ماں نہیں بن جاتی بلکہ بیوی ہی رہتی ہے۔ اس لیے کہ مائیں تو صرف وہ ہیں جنہوں نے تمہیں جنا ہے۔ اب جو تم انہیں ماں کہہ کر واقعی ماں سمجھ بیٹھتے ہو تو یہ ایک خلاف واقعہ، خلاف حقیقت اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ اللہ نے تم پر بہت رحم فرما کر اس رسم کو ختم کردیا ہے۔ اور آئندہ جو شخص ایسی باتوں سے باز رہے گا تو اس کے سابقہ گناہوں کو معاف بھی کردینے والا ہے۔
١۔ اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰـتِہِمْ ط ۔۔۔۔۔۔:” یظھرون “” ظھر “ سے نکلا ہے جس کا معنی ” پیٹھ “ ہے ۔ عرب سواری کو ” ظھر “ کہتے ہیں ۔ یہ استعارہ ہے ، جس میں بیوی سے جماع کو گھوڑے وغیرہ کی پشت پر سوار ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ ” انت علی کظھر امی “ (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کا مطلب یہ ہے کہو جس طرح میرے لیے اپنی ماں پر سوار ہونا اور اس سے جماع حرام ہے ، اسی طرح تم بھی میرے لیے میری ماں کی طرح ہو۔ جاہلیت میں لوگ بیوی کو ماں کہہ دیتے تو اسے ماں کی طرح حرام قرار دے لیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اس رسم بد کو ختم کردیا ، فرمایا منہ کے ساتھ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی ، آدمی کی ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ احزاب (٤) کی تفسیر۔- ٢۔ وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ط :” منکرا “” انکر ینکر “ ( افعال) سے اسم مفعول ہے ، وہ بات جسے انسانی طبیعت یا عقل یا شرع نہ پہنچانتی ہو بلکہ اس کا انکار کرتی ہو ۔ ” زوا “ جھوٹ ۔ یعنی بیوی کو ماں کی طرح کہنے والے ایسی بات کہتے ہیں جو نہ انسانی طبیعت مانتی ہے، نہ عقل اور نہ ہی شرع، کیونکہ ماں کے ساتھ بیٹے کا رشتہ اکرام و احترام کا ہے ، جبکہ بیوی کے ساتھ خاوند کا رشتہ ایک خاص تعلق کا ہے جو ماں کے ساتھ سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ پھر جس عورت نے آدمی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ اس کا اس کے ساتھ مباشرت کا تعلق رہا ، اسے ماں کہنا بری بات اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔- ٣۔ وَاِنَّ اللہ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود ان سے بہتر در گزر کرنے والا اور ان پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ خصوصاً جب غلطی کرنے والا پلٹ آئے اور توبہ کر کے آئندہ ایسی باتوں سے باز رہے۔- ٤۔ اس آیت میں کئی چیزیں ظہار کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہیں ، پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ” ما ھن امھتھم “ ( وہ ان کی مائیں نہیں) ، اس میں ظہار کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا ہے ، دوسری اور تیسری یہ کہ اللہ نے ان کا نام منکر اور زور رکھا ہے اور چوتھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ” ان اللہ لعفو غفور “ ہے ، کیونکہ غفور و مغفرت گناہ ہی سے ہوتی ہے۔
(آیت) اَلَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــهِمْ ، یظاہرون، ظہار بکسر ظآ سے مشتق ہے جو بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلینے کی ایک خاص صورت کے لئے بولا جاتا ہے اور زمانہ اسلام سے پہلے رائج و معروف ہے، وہ صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو یہ کہہ دے انت علی کظہر امی یعنی تو مجھ پر ایسی حرام ہے جیسے میری ماں کی پشت، اس موقع پر پشت کا ذکر شاید بطور کنایہ کے ہے کہ اصل مراد تو بطن تھا ذکر پشت کا کردیا (کما ذکرہ القرطبی)- ظہار کی تعریف اور حکم شرعی :- اصطلاح شرع میں ظہار کی تعریف یہ ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی محرمات ابدیہ، ماں، بہن، بیٹی وغیرہ کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کو دیکھنا اس کے لئے جائز نہیں، ماں کی پشت بھی اس کی ایک مثال ہے، زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ دائمی حرمت کے لئے بولا جاتا تھا اور طلاق کے لفظ سے بھی زیادہ شدید سمجھا جاتا تھا، کیونکہ طلاق کے بعد تو رجعت یا نکاح جدید ہو کر پھر بیوی بن سکتی ہے مگر ظہار کی صورت میں رسم جاہلیت کے مطابق ان کے آپس میں میاں بیوی ہو کر رہنے کی قطعی کوئی صورت نہ تھی۔- آیات مذکورہ کے ذریعہ شریعت اسلامیہ نے اس رسم کی اصلاح دو طرح فرمائی، اول تو خود اس رسم ظہار کو ناجائز و گناہ قرار دیا، کہ جس کو بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا ہے اس کا طریقہ طلاق ہے، اس کو اختیار کرے، ظہار کو اس کام کے لئے استعمال نہ کرے کیونکہ یہ ایک لغو اور جھوٹا کلام ہے کہ بیوی کو ماں کہہ دیا، قرآن کریم نے فرمایا (آیت) مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ۭاِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَهُمْ ۭ، یعنی ان کے اس بیہودہ کلام کی وجہ سے بیوی ماں نہیں بن جاتی، ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے پیدا ہوا ہے، پھر فرمایا (آیت) وَاِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا، یعنی ان کا یہ قول جھوٹ بھی ہے کہ خلاف واقع بیوی کو ماں کہہ رہا ہے اور منکر یعنی گناہ بھی ہے۔- دوسری اصلاح یہ فرمائی کہ اگر کوئی ناواقف جاہل یا احکام دین سے غافل آدمی ایسا کر ہی بیٹھے تو اس لفظ سے حرمت ابدی شریعت اسلام میں نہیں ہوتی، لیکن اس کو کھلی چھٹی بھی نہیں دی جاتی کہ ایسا لفظ کہنے کے بعد پھر بیوی سے پہلے کی طرح اختلاط و انتفاع کرتا رہے، بلکہ اس پر ایک جرمانہ کفارہ کا لگایا گیا کہ اگر پھر یہ اپنی بیوی سے رجوع ہونا چاہتا ہے اور سابق کی طرح بیوی سے انتفاع چاہتا ہے تو کفارہ ادا کر کے اپنے اس گناہ کی تلافی کرے، بغیر کفارہ ادا کئے بیوی حلال نہ ہوگی
اَلَّذِيْنَ يُظٰہِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ ٠ ۭ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ ٠ ۭ وَاِنَّہُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ٠ ۭ وَاِنَّ اللہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ ٢- ظِّهَارُ- : أن يقول الرّجل لامرأته : أنت عليّ كَظَهْرِ أمّي، يقال : ظَاهَرَ من امرأته . قال تعالی: وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] ، وقرئ : يظاهرون أي : يَتَظَاهَرُونَ ، فأدغم،- الظھار کے معنی ہیں خاوند کا بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت کہا جاتا ہے ظاھر من امرء تہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں ۔ ایک قرات میں یظاھرون ہے جو اصل میں یتظاھرون ہے اور تاء ظاء میں مدغم ہے اور ایک قرات یظھرون ہے - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- إيلاء - وحقیقة الإيلاء والأليّة : الحلف المقتضي لتقصیر في الأمر الذي يحلف عليه . وجعل الإيلاء في الشرع للحلف المانع من جماع المرأة، وكيفيته وأحكامه مختصة بکتب الفقه . فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف 69] أي :- نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء - ایلاء والیۃ اس کو کہتے ہیں جس پر ( قسم کھانے والے کو ) تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع پر اٹھائی جائے اس قسم کو کیفیت اور احکام کا بیان کرنا کتب فقہ کے ساتھ مختص ہے اور آیت کریمہ :۔ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] ، كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] ، وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] وتَنْكِيرُ الشَّيْءِ من حيثُ المعنی جعْلُه بحیث لا يُعْرَفُ. قال تعالی: نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] وتعریفُه جعْلُه بحیث يُعْرَفُ.- اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة 79] اور برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے ۔ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت 29] اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو ۔ تنکر الشئی کے معنی کسی چیز بےپہچان کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل 41] اس کے تخت کی صورت بد ل دو ۔ - زور - الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو : ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده وقرئ : تَزْوَرُّ قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر :- جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ.- ( ز و ر ) الزور ۔- سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔- عفو - العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : أخذ البلی أبلادها وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر :- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره .- ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
قول باری ہے (وانھم لیقولون منکرا من القول وزورا۔ یہ لوگ یقینا ایک نامعقول بات اور جھوٹ کہہ رہے ہیں) یعنی…واللہ اعلم…- بیوی کو ماں کی پشت کے ساتھ تشبیہ دینا بڑی نامعقول بات ہے کیونکہ ماں تو اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے جبکہ اس کی بیوی اس کے قول کی بنا پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے جبکہ اس کی بیوی اس کے قول کی بنا پر ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ ایک نامعقول بات اور جھوٹ ہے۔- قول باری ہے (الذین یظاھرون منکم من نساء ھم تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں) یہ خطاب مسلمانوں کو ہے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ظہار صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ اہل ذمہ اس میں شامل نہیں ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (والذین یظاھرون من نساء ھم ثم یعودون لما قالوا ۔ وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کریں اور پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی) دوسری دفعہ جن لوگوں کا ذکر کیا ہے ان میں اہل ایمان کی تخصیص نہیں ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دوسری آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کا پہلی آیت میں ذکر ہوا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ ظہار کا معاملہ صرف اہل اسلام کے ساتھ خاص رکھا جائے اور اہل ذمہ وغیرہ اس میں داخل نہ ہوں۔ قول باری (ثم یعودون لما قالوا) کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔- معمر نے طائوس سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ اس سے وطی مراد ہے۔ جب وطی کرکے وہ حانث ہوجائے گا تو اس پر کفارہ ظہار لازم ہوجائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ تاویل آیت کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فتحریر رقبۃ من قبل ان یتما سا۔ دونوں کے باہم اختلاط سے پہلے ایک گردن آزاد کرنا ہوگا) دوسری طرف سفیان نے ابن ابی نجیح سے اور انہوں نے ظائوس سے روایت کی ہے کہ شوہر جب ظہار کے الفاظ اپنی زبان پر لائے گا اس پر ظہار لازم ہوجائے گا۔- حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ شوہر جب یہ کہے گا۔” انت علی کظھرامی “ (تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو) تو جب تک کفارہ ظہار ادا نہیں کرے گا اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ ابن شہاب اور قتادہ سے مروی ہے کہ ظہار کرنے کے بعد جب شوہر ہم بستر کرنا چاہے گا تو جب تک کفارہ ادا نہیں کرے گا اس کے قریب نہ جاسکے گا۔- فقہاء امصار کا عود یعنی واپسی کے مفہوم میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ ظہار کی وجہ سے ایسی تحریم واجب ہوجاتی ہے جسے صرف کفارہ دور کرسکتا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک عود یعنی واپسی کے معنی اس کے ساتھ ہم بستری کی اباحت حاصل کرنے کے ہیں۔ شوہر یہ اباحت اس وقت حاصل کرسکے گا جب وہ اس سے پہلے کفارہ ادا کرے گا ۔ بشر بن الولید نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرلے اور پھر اس کی موت واقع ہوجائے تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔- سفیان ثوری کا قول ہے کہ ظہار کرنے کے بعد بیوی اس کے لئے کفارہ ادا کرنے کے بعد ہی حلال ہوگی۔ اگر وہ اسے طلاق دے دے اور پھر اس سے نکاح کرلے تو کفارہ ادا کیے بغیر اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کرے گا۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے قول کے موافق ہے۔ ابن وہب نے امام مالک کی طرف سے یہ کہا ہے کہ ظہار کرنے کے بعد اگر وہ اسے عقدزوجیت میں رکھنے کا پکا ارادہ رکھتا ہو اور پھر اس سے ہم بستری بھی کرلے تو اس صورت میں اس پر کفارہ ظہار واجب ہوگا۔- اگر ظہار کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے اور اسے عقدزوجیت میں رکھنے کا پکار ارادہ نہ رکھتا ہو اور اس سے ہم بستری بھی کرلی ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کے بعدوہ اس سے نکاح کرلے تو کفارہ ظہار ادا کیے بغیر وہ اسے مس نہیں کرے گا۔- ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے ذکر کیا ہے کہ اگر شوہر ظہار کرلے پھر اس کے ساتھ ہم بستری کرلے اور بیوی کا انتقال ہوجائے تو اسے کفارہ ضرور ادا کرنا ہوگا کیونکہ اس نے ظہار کے بعدوطی کی تھی۔ اشہب نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ اگر شہار کرنے کے بعد اسے عقد زوجیت میں رکھنے کا پکا ارادہ کیے ہوئے ہو اور ا س سے ہم بسری بھی کرچکا ہو اور کفارہ کی تلاش میں ہو کہ اس کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو اس پر کفارہ واجب ہوگا۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ ظہار کرنے والا اگر بیوی کے ساتھ ہم بستری کا پکا ارادہ کرلے تو اس پر کفارہ لازم ہوجائے گا خواہ اس کے بعد وہ اسے چھوڑ دینے کا کیوں نہ ارادہ کرلے کیونکہ عود یعنی واپسی کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کے ساتھ ہمبستری کا پکا ارادہ کرلے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے اور پھر ہم بستری کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس پر ان کے خیال میں کفارہ عائد ہوجائے گا خواہ وہ روجوع کرے یا نہ کرے۔ اور اگر عورت کا انتقال ہوجائے تو جب تک کفارہ ادا نہیں کرے گا۔ اس کی میراث کا حق دار نہیں ہوگا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ ظہار کرنے کے بعد اگر شوہر کے لئے اسے طلاق دے دینا ممکن تھا اور اس نے طلاق نہیں دی تو اس صورت پر اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا خواہ عورت مرجانے یا زندہ رہے۔ بعض بےت کے لوگوں سے یہ منقول ہے کہ عود یعنی واپسی کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر دو مرتبہ ظہار کرکے اپنے قول کا اعادہ کردے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اور ابو العالیہ کی روایتوں میں یہ ذکر ہے کہ آیت کا نزول خولہ کے سلسلے میں ہوا تھا جب ان کے شوہر اوس بن الصامت نے ان سے ظہار کرلیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک گردن آزاد کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ میں نہیں کرسکتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر میں دن میں تین مرتبہ نہ کھالوں تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کھانا کھلانے کا حکم دیا۔- یہ روایت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جنہوں نے اس سلسلے میں شوہر کی طرف سے اسے عقد زوجیت میں رکھنے کے عزم اور اس کے ساتھ ہم بستری کا اعتبار کیا ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن الصامت سے یہ باتیں نہیں پوچھی تھیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے قول کے بطلان پر بھی دلالت ہورہی ہے جنہوں نے جماع کے ارادے کا اعتبار کیا ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن الصامت سے یہ بات نہیں پوچھی تھی۔- اسی طرح جن حضرات نے طلاق کا اعتبار کیا ہے ان کا قول بھی باطل ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن الصامت سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آیا تم نے اسے طلاق دے دی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ آیا تم نے ظہار کی یہ بات دو دفعہ دہرادی ہے اس لئے جو لو گ بات دودفعہ دہرانے کا اعتبار کرتے ہیں ان کا قول بھی باطل ہوگیا۔- جب یہ سب اقوال باطل ہوگئے تو ہمارے اصحاب کا قول ثابت ہوگیا اور وہ یہ کہ ظہار کا لفظ تحریم کو واجب کردیتا ہے اور یہ تحریم صرف کفارہ کے ذریعے رفع ہوسکتی ہے۔ قول باری (ثم یعودون لما قالوا) کے اندر دو احتمالات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے اس حالت کا ذکر ہوا ہے جس کے تحت یہ خطاب وارد ہوا۔ وہ حالت یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو ظہار کرنے کی عادت تھی۔- چنانچہ ارشاد ہوا (الذین یظاھرون منکم من نسآء ھم) یعنی اس حالت سے پہلے (ثم یعودون لما قالوا) اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے بعد وہ اس عادت کی طرف لوٹیں یعنی ظہار کرلیں جس طرح یہ قول باری ہے (فالینا مرجعھم ثم اللہ شھید، ہماری طرف انہیں لوٹ کر آنا ہے پھر اللہ تعالیٰ گواہ ہے) اس کے معنی ہیں ” اللہ تعالیٰ گواہ ہے۔ “- اس طرح نفس قول ہی اس عادت کی طرف لوٹنا شمار ہوگا جو ظہار کے بارے میں وہ اپنائے ہوئے تھے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (حتیٰ عاد کالعرجون القدیم یہاں تک کہ وہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی) اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ۔ امیہ بن ابی الصلت کا شعر ہے : ؎- ھذی المکارم لا قعبان من لبن - شیبا بماء فعادا بعد ا بوالا - یہ مکارم یعنی اعلیٰ کارنامے اور عمدہ اخلاق ہیں۔ دودھ کے دو پیالے نہیں ہیں جن کے ساتھ پانی ملا دیا گیا ہو اور پھر پیشاب بن گئے ہوں۔ مفہوم یہ ہے کہ جب تک دودھ تھن میں تھا وہ اس طرح نہیں تھا جب پیالوں میں آگیا اور استعمال ہوگیا تو پیشاب بن کر خارج ہوگیا۔- وما المراء الا کا لشھاب وضوئہ - یحوررما دا بعد اذ ھو ساطع - انسان ایک ٹوٹے ہوئے تارے اور اس کی چمک کی طرح ہے جو چمکنے کے بعد راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یحور کے معنی یرجع کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی ہیں کہ وہ راکھ بن جاتا ہے۔- اسی طرح قول باری (ثم یعودون لما قالوا) کا مفہوم ہے کہ یہ لوگ ظہار کی اس حالت میں پہنچ جاتے ہیں جس پر یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتے تھے۔- اس آیت کے اندر دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ظہار کے سلسلے میں اللہ کا حکم ہم بستری کی تحریم کا ایجاب ہے تاوقتیکہ کفارہ ادا نہ کیا جائے۔ جب ظہار ہم بستری کی تحریم کے ساتھ خاص ہے کسی اور چیز کے ساتھ نہیں نیز رفع نکاح میں اس کا کوئی کردار نہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ عود یعنی واپسی سے اس چیز کی اباحت حاصل کرنے کی طرف واپسی مراد لی جائے جو اس نے ظہار کے ذریعے حرام کردی تھی۔- اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے ۔ پھر وہ اس چیز کی طرف لوٹیں جس کے متعلق ظہار کی بات کہی گئی تھی یعنی ہم بستری کی اباحت حاصل کرنے کی طرف۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (العائد فی ھبتہ کا لکلب یعود فی قیئہ) ہبہ کرکے واپس کرلینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس چاٹ لیتا ہے، حالانکہ ہبہ کرنے والا ہبہ کی ہوئی چیز کی طرف واپس ہوتا ہے۔- یا جس طرح ہم کہتے ہیں : ” اللھم انت رجائو نا “ (اے اللہ تو ہماری امید ہے) یعنی تیری ذات وہ ہے جس سے ہم امید رکھتے ہیں۔ یا جس طرح یہ قول باری ہے (واعبد ربک حتی یاتیک الیقین اور آپ اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیے یہاں تک کہ آپ کو امر یقین پیش آجائے) یعنی وہ بات جس کا یقین ہے اور وہ موت ہے۔ شاعر کا قول ہے :۔- اخبر من لا قیت ان قدو فیتم - ولو شئت قال المنیاون اساوا - جن لوگوں سے میں ملتا ہوں انہیں یہ بتاتا ہوں کہ تم لوگوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ اگر میں چاہتاتو اس کے برعکس بھی خبردے سکتا تھا جسے سن کر لوگ یہ کہتے کہ تم نے بڑا برا کیا۔- وانی لراجیکم علی بطء سعیکم - کما فی بطون الحاملات جاء - تم لوگوں کی کوششوں کی سستی کے باوجودمجھے تم سے امید ہے جس حاملہ عورتوں کے بطون سے امید بندھی ہوتی ہے۔ یعنی جس طرح حاملہ عورت کے رحم میں موجود حمل سے امید کی جاتی ہے۔- یہاں رجاء بمعنی مرجو (اسم مفعول) ہے۔ اسی طرح قول باری (ثم یعودون لماقالوا) کے معنی ہیں لما حرموا (جس چیز کو انہوں نے حرام کردیا) اور پھر وہ اس کی اباحت طلب کریں تو ان پر کفارہ واجب ہوگا۔- جو لوگ بقاء علی النکاح کا اعتبار کرتے ہیں ان کا یہ قول دو وجوہ سے باطل ہے۔ ایک تو یہ کہ ظہار تحریم عقد نیز عورت کو عقد زوجیت میں رکھنے کی تحریم کا موجب نہیں ہوتا کہ پھر اس صورت میں عود یعنی واپسی اسے عقد زوجیت میں رکھنے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عود لامحالہ کسی ایسے معنی کے حکم کی طرف واپسی کا مقتضی ہے جس کا ایجاب پہلے ہوچکا ہو اس لئے امساک علی النکاح (عقد زوجیت میں رکھنے) میں اس کا اثر انداز ہونا جائز نہیں ہوگا۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری ہے (ثم یعودون) حرف ثم تراخی کا مقتضی ہے۔ اب جو شخص عود کو بقاء علی النکاح پر محمول کرتا ہے وہ شوہر کو ظہار کی بات کہنے کے فوراً بعد یعنی تراخی کے بغیر لوٹنے والا قرار دیتا ہے اور یہ چیز آیت کے مقتضیٰ کے خلاف ہے۔ جو شخص عود کو ہم بستری کے پکے ارادے پر محمول کرتا ہے اس کا قول بھی بےمعنی ہے کیونکہ ظہار کے سلسلے میں شوہر کے قول کا موجب تو وطی کی تحریم ہے نہ کہ عزیمت یعنی پکے ارادے کی تحریم۔- کسی ممنوع کام کا پکا ارادہ کرلینا اگرچہ خود ممنوع ہے، پھر بھی اس عزیمت کے حکم کا تعلق وطی کے ساتھ ہوتا ہے۔ الگ سے صرف عیزیمت کا کوئی حکم نہیں ہوتا۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصول کے اندر عیزیمت کی اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے ساتھ احکام کا تعلق ہوتا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ تما عقود نیز تحریم کا عزیمت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لئے صرف عزیمت کا کوئی اعتبار نہیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی ہے (ان اللہ عفا الامتی عما حدثت بہ انفسھا ما لم یکلموابہ اویعملوبہ۔ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے ان تمام خیالات اور وسوسوں کو معاف کردیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک وہ ان خیالات و وساوس کو الفاظ کا جامہ نہ پہنادیں یا عمل سے ان کا اظہار نہ کردیں)- اگر یہ کہا جائے کہ عودکو قول کے دو مرتبہ اعادے پر کیوں نہیں محمول کیا جاتا کیونکہ آیت کے الفاظ میں اس تعبیر کی گنجائش موجود ہے جس طرح یہ قول باری ہے (ولوردوا لعادوا لما نھوا عنہ اور اگر انہیں (دنیا میں) لوٹا دیا جاتا تو یہ لوگ پلٹ کر پھر وہی کام کرتے جس سے انہیں روکا گیا تھا) اس کے معنی ہیں ” یہ لوگ پھر اس طرح کے کام کرتے جن سے انہیں روکا گیا تھا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ سلف اور خلف سب کا اس پر اجماع ہے کہ آیت میں وہ معنی مراد نہیں ہیں جن کا معترض نے ذکر کیا ہے، اس بنا پر اس پول کا قائل اجماع کے دائرے سے خارج ہے۔ اس لئے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ - دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقل کے قائل آیت (ثم یعودون لمانھوا عنہ) کو ظہار کے قول اور لفظ کے دو دفعہ تکرار پر محمول کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” ثم یکررون القول مرتین (پھر وہ لوگ اس قول کو دو دفعہ دہراتے ہیں) اس طرح معترض کے قول کی بنا پر آیت میں اسیے معنی کا اثبات لازم آتا ہے جس کے آیت کے الفاظ مقتضی نہیں ہیں۔ یہ بھی جائز نہیں کہ آیت کے الفاظ کو تکرار قول کے مفہوم سے عبارت تسلیم کرلیا جائے۔- اگر معترض آیت کو اس معنی پر محمول کرے کہ ” ظہار کرنے والے اپنے پہلے قول جیسے قول کی طرف لوٹیں “ تو اس صورت میں آیت کے اندر ” لمثل القول “ (پہلے قول جیسے قول کی طرف) پوشیدہ ماننا لازم آئے گا اور یہ بات کسی دلالت کی بنا پر ہی درست ہوسکتی ہے اس لئے اس قول کا قائل اجماع کے دائرے سے خارج اور آیت کے حکم کا مخالف قرار دیا جائے گا۔- اگر یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ جب آیت کو وطی کی تحریم پر نیز اس امر پر محمول کرتے ہیں کہ وطی کی اباحت طلب کرنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے تو آپ بھی آیت کو اس کے ظاہر سے ہٹانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظہار نے جب وطی کی تحریم کو واجب کردیا تو وطی کی اباحت طلب کرنے والا شخص بعینہ وہی شخص ہوگا جس نے اپنے قول سے اسے حرام کردیا تھا اس لئے یہ کہنا جائز ہوگا اس نے جو کہا تھا اس کی طرف وہ عود کررہا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے ذریعے بعینہ اس وطی کی اباحت طلب کررہا ہے جسے اس نے حرام کردیا تھا اور اس طرح اس نے ایجاب تحریم کی جو بات کی تھی گویا اب وہ اس کی تلافی کی طرف لوٹ رہا ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، نکاح کے بعد وطی کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسری بار وطی کا حکم بایں معنی پہلی بار وطی کے حکم کی طرح ہوتا ہے کہ ان دونوں کا استحقاق ایک ہی سبب یعنی نکاح کی بنا پر پیدا ہوا تھا۔ شوہر نے اس وطی کو ظہار کرکے حرام کردیا تھا اس لئے یہ کہنا جائز ہے کہ اس کی اباحت طلب کرنے کے لئے اس کا اقدام گویا اس وطی کی طرف عود ہے جو اس نے حرام کردیا تھا۔ اس طرح یہ مفہوم آیت کے لفظ کے مطابق ہوگیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اگر اباحت کی طلب کفارہ کی موجب ہے تو یہ طلب یا تو عزیمت ہوگی یا وطی کے لئے اقدام یا ایقاع وطی ہوگی۔ اگر پہلی بات مراد ہوگی تو اس سے آپ پر نفس عزیمت کے ساتھ ہی وطی سے پہلے ایجاب کفارہ لازم ہوجائے گا جس طرح امام مالک (رح) اور حسن بن صالح کا قول ہے اگر اس سے ایقاع وطی مراد ہوگی تو اس صورت میں یہ بات ضروری ہوگی کہ ظہار کرنے والے کو وطی کے بعد ہی کفارہ لازم ہو جب کہ یہ بات آیت کے خلاف ہے اور یہ آپ کا مسلک بھی نہیں ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ا س سلسلے میں اصل بات وہی ہے جس کا ہم ذکر کر آئے ہیں یعنی وطی کی اباحت طلب کرنے کا اقدام ۔ اس صورت میں ظہار کرنے والے سے یہ کہا جائے گا کہ اگر تمہارا ارادہ وطی کا ہے اور تم نے جس چیز کو حرام کردیا تھا اس کی اباحت حاصل کرنے کے لئے لوٹ آئے ہو تو اب جب تک کفارہ ادا نہیں کرو گے اس وقت تک اس کے ساتھ ہم بستری نہ کرو۔- یہ اس بنا پر نہیں ہے کہ کفارہ واجب ہے بلکہ کفارہ رفع تحریم کے لئے شرط ہے ۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فاذا اقوات القران فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ جب تم قرآن مجید پڑھو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ پڑھ لو) یعنی قرات پر استعاذہ کا مقدم کرو۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم۔ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنا چہرہ دھولو) مفہوم یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے قیام کا ارادہ کرو اور تمہارا وضو نہ ہو تو نماز سے پہلے وضو کرلو۔- اسی طرح یہ ارشاد باری ہے (اذاناجیتم الرسول فقد موابین یدی نجوکم صدقۃ ، جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے قبل کچھ خیرات دے دیا کرو) یا یہ قول باری (اذا طلقتم النساء فطلقو ھن لعدتھن جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت پر طلاق دو ) مفہوم یہ ہے کہ طلاق دینے کا ارادہ کرو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا وضاحتوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظہار کفارہ واجب نہیں کرتا بلکہ وطی کی تحریم کو واجب کردیتا ہے اور یہ تحریم صرف کفارہ کے ذریعے مرتفع ہوتی ہے اس لئے اگر شوہر اس کے ساتھ ہمبستری کا ارادہ نہیں کرے گا اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر بیوی مرجائے یا زندہ رہے تو شوہر پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی کیونکہ ظہار کا حکم یہ ہے کہ اس سے صرف تحریم کا ایجاب ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ کفارہ ادا نہ کردے جب تک وہ کفارہ ادا نہیں کرے گا اس وقت تک اس کے ساتھ وطی کی ممانعت رہے گی۔- اگر وطی کرے گا تو ظہارہ اور کفارہ دونوں ساقط ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کے حکم کو نیز ظہار کی بنا پر واجب ہونے والے کفارہ کو اس امر کے ساتھ معلق کردیا ہے کہ کفارہ کی ادائیگی وطی سے قبل کی جائے چناچہ ارشاد ہے (من قبل یتما سا) اس لئے جب مسیس واقع ہوجائے گی تو شرط فوت ہوجائے گی اور آیت کی بنا پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔- اس لئے کہ ہر وہ فرض جسے کسی وقت کے اندر محدود کردیا گیا ہو یا کسی شرط پر معلق کردیا گیا ہو جب وہ قت نکل جائے گا یا شرط فوت ہوجائے گی تو اس صورت میں پہلیحکم کے تحت وہ فرض باقی نہیں رہے گا بلکہ دوسرے وقت میں اس جیسے فرض کے ایجاب کے لئے کسی اور دلالت کی ضرورت پڑجائے گی۔ جب مسیس یعنی ہم بسری کفارہ ادا کرنے سے پہلے واقع ہوجائے تو ظہار کا بھی یہی حکم ہوگا۔- تاہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا تھا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس کے ساتھ ہم بستری کرلی تھی پھر اس نے جب آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا (استغفر اللہ ولا تعد حتی تکفر اللہ سے استغفار کرو اور جب تک کفارہ ادا نہ کرو اس وقت تک دوبارہ ہم بستری نہ کرو) اسی طرح وطی کے بعد تحریم سنت کے ذریعے واجب ہوئی۔- جو شخص ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے بیوی سے ہم بستری کرلیتا ہے اس پر کتنا کفارہ واجب ہوگا اس بارے میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حسن، جابربن زید، ابراہیم نخعی اور سعید بن المسیب کا قول ہے کہ اس پر صرف ایک کفارہ واجب ہوگا ، مجاہد، طائوس، ابن سیرین اور دوسرے حضرات کا بھی یہی قول ہے۔- حضرت عمرو (رض) بن العاص، قبیصہ بن ذئویب، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس پر دو کفارے واجب ہوں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس کے ساتھ ہم بستری کرلی۔- یہ سن کر آپ نے اس سے فرمایا (استغفر اللہ ولا تعد حتی تکفر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر وطی کے بعد دو کفارے واجب نہیں کیے۔- ظہار کی توقیت میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ ” تم آج کے لئے مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ “ تو دن گزرنے کے ساتھ ظہار باطل ہوجائے گا۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اس کے اس قول سے ہمیشہ کے لئے ظہار واقع ہوجائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظہار کی تحریم اس وقت تک رہتی ہے جب تک کفارہ ادا نہ ہوجائے اس لئے ظہار کرنے والا اگر ظہار کو ایک وقت کے اندر محدود کردے تو اس کی یہ توقیت واجب ہوجائے گی کیونکہ ظہار اگر غیر موقت ہوتا تو کفارہ ادا کرنے کے باوجود بھی تحریم ختم نہیں ہوتی جس طرح طلاق کی صورت ہے۔ اس طرح ظہار کے مشابہ ہوگیا جسے حنث ختم کردیتا ہے۔ اس لئے قسم کی توقیت کی طرح ظہار کی توقیت بھی واجب ہے، ظہار طلاق کی طرح نہیں ہوتا کیونکہ طلاق کو کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ تین طلاقوں کی وجہ سے واقع ہونے والی تحریم بھی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح تک موقت ہوتی ہے۔ لیکن شوہر کی توقیت کی بنا پر وہ موقت نہیں ہوتی۔ مثلاً شوہر بیوی سے یہ کہہ دے ” انتطالق الیوم “ (تم پر آج کے دن کے لئے طلاق ہے) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طلاق دوسرے شوہر کی وجہ سے موقت نہیں ہوتی بلکہ پہلے شوہر کی طرف سے تین طلاق ہوجانے کے بعد جب دوسرا آدمی اس سے نکاح کرلیتا ہے تو اس دوسرے شوہر کی وجہ سے پہلے شوہر کو اس کے ساتھ نکاح کی صورت میں صرف مستقبل میں طلاق دینے کی سہولت حاصل ہوجاتی ہے۔- اس کی دی ہوئی پہلی تین طلاقیں بحالہ باقی رہتی ہیں اسے صرف ان طلاقوں کے علاوہ مزید طلاقیں دینے کی سہولت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس طرح طلاق کے اندر کسی حالت میں توقیت نہیں ہوتی جبکہ ظہار لامحالہ کفارہ کی ادائیگی تک موقت ہوتا ہے۔ اس لئے شرط کے ذریعے اس کی توقیت جائز ہے۔- فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ظہار پر ایلاء داخل ہوسکتا ہے یا نہیں ہمارے اصحاب ، حسن بن صالح، سفیان ثوری (ایک روایت کے مطابق) اور اوزاعی کا قول ہے کہ ظہار کرنے والے پر ایلاء داخل نہیں ہوسکتا خواہ وہ طویل عرصے تک اپنی بیوی سے الگ رہے۔- ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ آزاد آدمی کی صورت میں اظہار پر ایلاداخل نہیں ہوسکتا البتہ اگر ظہار کرنے والا بیوی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے اپنے ظہار سے واپس ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں اس کا ظہار پر ایلا داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر معاملہ غلام کا ہو تو اس کے ظہار پر ایلا داخل نہیں ہوگا۔- ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ اگر ظہار کرنے والا نقصان پہنچانا چاہتا ہو تو اس صورت میں ظہار پر ایلا داخل ہوجائے گا۔ بیوی کو نقصان پہنچانے کا پتہ اس طرح چل سکتا ہے کہ شوبہ کفارہ ادا کرنے کی قدرت کے باوجود کفارہ ادا نہ کرے۔ جب اس کا پتہ چل جائے تو اسے عدالت کی طرف سے آگاہ کرایا جائے گا کہ یا توکفارہ ادا کردے یا پھر اس کی بیوی کو طلاق دے دی جائے گی جس طرح ایلاء کرنے والے کو عدالت کی طرف سے آگاہ کیا جاتا ہے۔- سفیان ثوری سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایلاء ظہار پر داخل ہوجاتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظہار نہ تو طلاق سے کنایہ ہے اور نہ ہی طلاق صریح ہے۔ اس لئے ظہار کے ذریعے توقیف یعنی شرعی دلیل کے بغیر طلاق کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امن ادخل فی امرنا مالیس منہ فھورد، جو شخص ہمارے امر یعنی دین میں کوئی ایسی چیز داخل کرے گا جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا۔ )- اب جو شخص ظہار کرنے والے پر ایلاء داخل کرتا ہے وہ اس پر ایسی چیز داخل کرتا ہے جس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ایلاء کرنے والے پر نصاً یہ حکم عائد کردیا ہے کہ وہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق کا پکا ارادہ کرلے جبکہ ظہار کرنے والے پر ہم بستری سے قبل کفارہ کے ایجاب کا نصاً حکم عائد کیا ہے اس طرح ایلاء کرنے والے اور ظہار کرنے والے کا حکم الگ الگ منصوص ہے اس لئے ایک کو دوسرے پر محمول کرنا جائز نہیں ہوگا۔- کیونکہ منصوصات کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض کو بعض پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور بہ منصوص حکم اپنے دائرے کے اندر جاری رہتا ہے اور اسے صرف اس کے معنی پر محمول کیا جاتا ہے کسی اور کے معنی پر محمول نہیں کیا جاتا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ ایلا کے معنی مدت کے اندر ہم بستری کی صورت میں حنث کے وقوع اور کفارہ کے وجوب کے ہیں۔ جبکہ ہم بستری کے ساتھ کفارہ ظہار کا تعلق نہیں ہوتا۔- اس لئے ظہار نہ تو ایلا کے معنی میں ہے اور نہ ہی اس کے حکم میں نیزایلاء کرنے والا خواہ بیوی کو نقصان پہنچانے کا قصد کرے یا قصد نہ کرے دونوں صورتوں میں اس کے حکم کے اندر کوئی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ظہار کرنے والا ظہار کے ذریعے بیوی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے تو مدت گزر جانے کے بعد اسے ایلاء کا حکم لازم نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ظہار کرنے والا اگر نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو بھی اسے ایلاء کا حکم لازم نہ ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ نقصان پہنچانے کے ارادے کا ایلاء کے اندر اس لئے اعتبار نہیں کیا گیا کہ نفس ایلا نقصان پہنچانے کے قصد کی خبر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ دراصل مدت کے اندر ہم بستری سے باز رہنے کی قسم ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظہار میں بھی نقصان پہنچانے کا قصد ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی کفارہ کی ادائیگی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی تحریم ہوتی ہے۔ اس لئے جہاں تک نقصان پہنچانے کے قصد کا تعلق ہے ان دونوں کے مقتضیٰ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔- لونڈی سے ظہار کرنے کے مسئلے میں سلف کے مابین اور ان کے بعد آنے والے فقہاء امصار کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ عبدالکریم نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ اس امر پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ لونڈی سے ظہار نہیں ہوتا۔- ابراہیم ، شعبی اور سعید المسیب کا یہی قول ہے اور امام شافعی نیز ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔ ابن جبیر، نخعی، عطاء، طائوس اور سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ لونڈی سے ظہار ہوتا ہے۔ امام مالک ، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور حسن بن صالح کا یہی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے ظہار کرنے کی طرح اپنی لونڈی سے بھی ظہار کرسکتا ہے۔- حسن کا قول ہے کہ اگر ایک شخص اپنی لونڈی سے ہم بستری کرتا ہو تو وہ ظہار کرنے والا بن سکتا ہے اگر ہم بستری نہ کرتا ہو تو ظہار نہیں ہوگا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے (والذین یظاھرون من نسآء ھم) اس لفظ کا مصداق آزاد عورتیں ہیں لونڈیاں نہیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے (اونسآء ھن اوما ملکت ایمانھن) قول باری (او نسآء ھن) کا مفہوم آزاد عورتیں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس پر (او ما ملکت ایمانھن) کا عطف درست نہ ہوتا کیونکہ ایک چیز کا اس کی اپنی ذات پر عطف درست نہیں ہوتا۔- قول باری ہے (وامھات نساء کم اور تمہاری عورتیں کی مائیں) اس کا اطلاق بیویوں پر ہوتا ہے۔ لونڈیوں پر نہیں ہوتا۔ جب ظہار کا حکم آیت سے ماخوذ ہے اور آیت کا مقتضیٰ بیویوں تک محدود ہے، اس میں لونڈیاں داخل نہیں ہیں تو پھر لونڈیوں کے سلسلے میں ظہار کا ایجاب درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ جن عورتوں کے بارے میں ظہار کا حکم واردہوا ہے ان کے سوا دوسری عورتوں پر اس کے اثبات کے لئے قیاس کو کوئی دخل نہیں ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھئے ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ لوگ ظہار کے لفظ سے طلاق دے دیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس طلاق کو ایسی تحریم سے بدل دیا جسے کفارہ رفع کردیتا ہے اس لئے جب لونڈی کو طلاق دینا درست نہیں ہوتا اس سے ظہار کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔- ایک اور جہت سے بھی اس پر نظر ڈالیے۔ وہ یہ کہ ظہار قول کی جہت سے ایسی تحریم کا موجب ہے جس کی بنا پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ جبکہ قول کی جہت سے لونڈی کی تحریم درست نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی مشابہت ان تمام مملوکہ چیزوں مثلاً اشیائے خوردنی اور مشروبات کے ساتھ ہوگئی جنہیں اگر کوئی شخص قول کے ذریعے حرام کردے تو وہ حرام نہیں ہوتیں۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص اگر اپنے اوپر کوئی طعام یا مشروب حرام کرلیتا ہے تو وہ اس پر حرام نہیں ہوتا صرف اسے کھا لینے یا پی لینے کی صورت میں اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوجاتا ہے۔ ملک یمین یعنی لونڈیوں کی بھی یہی صورت ہے۔ یعنی آقا اگر اپنی لونڈی سے ظہار کرتا ہے تو اس ظہار کا درست نہ ہونا واجب ہے کیونکہ قول کی جہت سے اس کی تحریم درست نہیں ہوتی۔- ماں کے بغیر کسی اور عورت کے ذریعے ظہار کا حکم - اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ” تم مجھ پر میری ہمشیرہ یا میری کسی محرم خاتون کی پشت کی طرح ہو۔ “ تو آیا یہ ظہار ہوگا یا نہیں۔ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ یہ ظہار ہوگا۔ اگر وہ یہ کہے تم مجھ پر فلاں عورت کی پشت کی طرح ہو۔ “ اور وہ فلاں عورت شوہر کی محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس صورت میں ظہار نہیں ہوگا۔- سفیان ثوری، حسن بن صالح اور اوزاعی کا یہی قول ہے۔ امام مالک اور عثمان البتی کا قول ہے کہ ظہار محرم اور اجنبی دونوں عورتوں کے ذریعے درست ہے۔ اس بارے میں امام شافعی کے دو قول ہیں۔- ایک قول تو یہ ہے کہ ظہار صرف ماں کے لفظ سے درست ہوتا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ محرم عورتوں کے ذریعے بھی یہ درست ہوتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب ماں کے لفظ سے ظہار درست ہوتا ہے اور محرم عورتیں تحریم نکاح میں ماں کی طرح ہوتی ہیں اس لئے ان کے ذریعے بھی ظہار درست ہونا واجب ہے۔ کیونکہ تحریم کی جہت سے ماں اور دوسری محرم خواتین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ رضاعی ماں کے ذریعے بھی ظہار درست ہوتا ہے حالانکہ اس کے ساتھ کوئی نسبی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ ظہار کے درست ہونے کی وجہ تحریم نکاح ہے جو رضاعی ماں میں موجود ہوتی ہے اسی طرح تمام محرم خواتین میں بھی یہی سبب یعنی تحریم موجود ہوتا ہے۔ جابر بن زید، حسن، ابراہیم اور عطاء سے ہمارے اصحاب کے قول کی طرح روایت منقول ہے۔- شعبی کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ بیٹیوں، بہنوں، پھوپھیوں اور خالائوں کا ذکر کرنا بھول نہیں گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ظہار صرف ماں کے لفظ سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے (و الذین یظاھرون من نساء ھم)- ظاہر آیت ہر محرم عورت کے ذریعے ظہار کا مقتضی ہے کیونکہ آیت میں دوسری محرم خواتین کو نظر انداز کرکے صرف ماں کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ اس لئے جو شخص ظہار کا دائرہ صرف ماں کے لفظ تک محدود رکھے گا وہ کسی دلیل کے بغیر آیت کی تخصیص کردے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا (ما ھن امھا تھم ان امھا تھم الا الائی ولدنھم۔ یہ ان کی مائیں نہیں ہیں ان کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے) تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ماں کے لفظ کے ساتھ ظہار مراد ہے اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مائوں کا صرف اس لئے ذکر ہوا کہ آیت کا سلسلہ بیان ان پر مشتمل تھا لیکن اس قول باری (والذین یظاھرون من نساء ھم) کے ان تمام محرم خواتین کے لئے عموم بن جانے کی نفی نہیں ہوتی جن کی پشت کے ساتھ ظہار کرنے والا اپنی بیوی کو تشبیہ دے رہا ہو نیز یہ قول باری خود تمام محرم خواتین کے ذریعے ظہار کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔- اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سبب کو بیان کردیا جس کی بنا پر ظہار کا حکم لازم کیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوا (ما ھن امھاتھم ان امھاتھم الا الائی ولدنھم لیقولون منکرا من القول وزورا) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس نے لوگوں پر یہ حکم اس لئے لازم کیا کہ ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں بنتی ہیں اور ان کی یہ بات انتہائی نامعقول اور جھوٹ ہے۔- یہ چیز اس امر کی مقتضی ہے کہ ظہار کے اندر تمام محرم خواتین کے ذریعے اس حکم کا ایجاب ہوجائے۔ کیونکہ ایک شخص جب کسی اجنبی عورت کے نام سے ظہار کرے گا تو وہ نہ اس کی بہت بنے گی اور نہ ہی محرم رشتہ دار۔ اس کی یہ بات نامعقول اور جھوٹ اس لئے ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بضع کا مالک ہوتا ہے یعنی وہ اس سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے، بیوی اس کے لئے مباح ہوتی ہے جس کہ اس کی محرم خواتین ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوتی ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت سے آپ پر یہ لازم آتا ہے کہ اجنبی عورت کے ذریعہ ظہار کا ایجاب کردیں۔ کیونکہ آیت میں عموم ہے نیز آیت کا مضمون تمام محرم خواتین کے ذریعے ظہار کے جواز پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آیت نے محرم اور اجنبی عورتوں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے نیز اپنی بیوی کو اجنبی عورت کی پشت کے ساتھ تشبیہ دینا بھی تو ایک نامعقول بات اور جھوٹ ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لازم نہیں ہے۔ کیونکہ اجنبی عورت اس کے لئے کسی نہ کسی حال میں حلال ہوتی ہے اس لئے اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ ” تم مجھ پر اجنبی عورت کی پشت کی طرح ہو۔ “ تمام اوقات کے لئے تحریم کو لازم نہیں کرتا کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ اجنبی عورت کے بضع کا مالک بن جائے اس صورت میں وہ اجنبی عورت اس کی بیوی کی طرح اور اس کے حکم میں ہوجائے گی۔- نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ چیزوں اور اموال کے ذریعے تحریم درست نہیں۔ مثلاً بیوی سے یہ کہے تم مجھ پر فلاں شخص کے سامان یا فلاں شخص کے مال کی طرح ہو۔ “ اس لئے کہ شوہر کبھی اس مال کا مالک بھی بن سکتا ہے اور اسے اپنے لئے مباح کرسکتا ہے۔- اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرتا ہے لیکن ظہار میں پشت کا ذکر نہیں کرتا بلکہ کسی اور عضو کا ذکر کرتا ہے ۔ آیا یہ ظہار درست ہے یا نہیں، اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر وہ کہے ” تم مجھ پر میری ماں کے ہاتھ یا سر کی طرح ہو۔ “ یا کسی ایسے عضو کا نام لے جس پر نظر ڈالنا حلال ہو تو ایسی صورت میں اس کا ظہار درست نہیں ہوگا۔ لیکن اگر پیٹ یاران وغیرہ کا ذکر کرے تو ظہار ہوجائے گا کیونکہ ان اعضاء پر پشت کی طرح نظر ڈالنا حلال نہیں ہوتا۔- ابن القاسم کا قول ہے کہ امام مالک نے یہ قیاس کیا ہے کہ ماں کے ہر عضو کے ذریعہ ظہار درست ہوجائے گا ۔ سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر وہ کہے ” تم مجھ پر میری ماں کے ہاتھ یا سر کی طرح ہو “ تو ظہار ہوجائے گا کیونکہ ان اعضاء سے تلذذ کا حصول حرام ہے۔ - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کے حکم کو نصاً بیان کردیا ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہے ” تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو “ پشت پر نظر ڈالنا مباح نہیں ہوتا اس سے یہ ضروری ہوگیا وہ تمام اعضاء بھی پشت کے حکم میں ہوجائیں جن پر نظر ڈالنے کی اباحت نہیں ہے۔ رہ گئے وہ اعضاء جن پر نظر ڈالنے کی اباحت ہے…تو آیت میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو ان اعضاء کے ساتھ تشبیہ دے تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی کیونکہ ماں کے ساتھ مطلقاً تشبیہ دینے کی بنا پر تحریم واقع نہیں ہوتی۔ اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ان اعضا کے ساتھ تشبیہ کی صورت میں ظہار درست نہ ہو کیونکہ ظہار تو تحریم کا موجب ہوتا ہے۔- نیز جب ان اعضاء پر نظر ڈالنا اس کے لئے جائز ہے تو ان کی مشابہت ان تمام اشیاء کے ساتھ ہوگئی جن پر نظر ڈالنا مباح اور جائز ہوتا ہے مثلاً اموال اور مملوکہ اشیاء۔- ظہار کی وجہ سے بیوی کی حرمت کس چیز کے اندر ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حسن کا قول ہے کہ ظہار کرنے والااپنی بیوی کے فرج سے بچ کر ہم بستری کرسکتا ہے ۔ عطاء کا قول ہے کہ اس کے ساتھ بوس وکنار جائز ہے اس لئے کہ قول باری ہے (من قبل ان یتماسا)- زہری اور قتادہ کا قول ہے کہ اس قول باری سے نفس جماع مراد ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ظہار کرنے والا جب تک کفارہ ادا نہ کردے اس وقت تک نہ وہ اپنی بیوی کے قریب جاسکتا ہے نہ اسے ہاتھ لگا سکتا ہے نہ بوس وکنار کرسکتا ہے اور نہ ہی شہوت کے تحت اس کی شرمگاہ پر نظر ڈال سکتا ہے۔ امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔- انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کفارہ ادا کرنے تک وہ اس کے بالوں اور سینہ پر بھی نظر نہیں ڈال سکتا۔ کیونکہ یہ بات اسے بھلائی کی طرف آمادہ نہیں کرے گی۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ فرج سے بچ کر وہ اس کے ساتھ ہم بستری کرسکتا ہے البتہ جماع کرنے کی ممانعت ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ حائضہ عورت کی طرح ازار سے اوپر اوپر کی حلت ہے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ بوس وکنار اور تلذذ کے حصول سے احتیاطاً ممانعت ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب ارشاد باری ہے (من قبل ان یتما سا) تو یہ مسیس کی تمام صورتوں کی ممانعت کے لئے عموم ہوگا خواہ یہ ملس بالید ہو یا اس کے سوا کوئی اور صورت ہو۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (والذین یظاھرون من نساء ھم) اور ماں کی پشت کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینے کی وجہ سے شوہر پر تحریم کا حکم لازم کردیا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ تحریم مباشرت یعنی بوس وکنار لمس اور جماع سب کو عام ہوجائے جس طرح ماں کی پشت کا ملس، بوسہ وغیرہ بیٹے پر حرام ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں زیادہ بن ایوب نے، انہیں اسماعیل نے انہیں الحکم بن ابان نے عکرمہ سے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس کے ساتھ ہم بستری بھی کرلی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر سارا واقعہ بتادیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ جب تک کفارہ ادا نہ کرو بیوی سے دور رہو۔ اس حدیث کو معمر نے الحکم بن ابان سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ اس کے الفاظ ہیں :” جب تک کفارہ ادا نہ کردو اس کے قریب نہ جائو۔ “ یہ بات ہم بستری بوس وکنار اور ملس وغیرہ کے لئے مانع ہے۔- بیوی کا اپنے شوہر سے ظہار کرلینے کا بیان - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بیوی کا اپنے شوہر سے ظہار کرنا درست نہیں ہے۔ امام مالک، سفیان ثوری ، لیث اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، طحاوی نے ابن ابی عمران سے، انہوں نے علی بن صالح سے اور انہوں نے حسن بن زیادہ سے روایت کی ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر سے کہے کہ ” تم مجھ پر میری ماں یا میری بہن کی پشت کی طرح ہو۔ “ تو بیوی اپنے شوہر سے ظہار کرنے والی قرار پائے گی۔ - علی کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن الحسن سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بیوی پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں امام ابویوسف کے پاس آیا اور ان دونوں حضرات کا قول ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے فرمایا کہ یہ دونوں بزرگ علم فقہ کے شیوخ ہیں تاہم ان سے غلطی ہوگئی ہے۔- عورت کا اس طرح کہنا تحریم کا موجب ہے اور عورت پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا جس طرح اس کا یہ قول ہے جو وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے ” تم مجھ پر حرام ہو۔ “ اوزاعی نے کہا ہے کہ عورت کا یہ قول یمین ہے جس کا وہ کفارہ ادا کرے گی ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ عورت ایک گردن آزاد کرے گی اور ظہار کا کفارہ دے گی۔ اگر وہ ایسا نہ کرے بلکہ قسم کا کفارہ اداکرے تو ہمیں امید ہے کہ یہی کفارہ اس کے لئے کافی ہوجائے گا۔- مغیرہ نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ مصعب بن الزبیرنے عائشہ بنت طلحہ کو پیغام نکاح بھیجا، عائشہ نے پیغام سن کر کہا کہ اگر میں ان سے نکاح کرلوں تو وہ مجھ پر میرے باپ کی پشت کی طرح ہوں گے۔ لیکن جب مصعب کو گورنری مل گئی تو انہوں نے پھر پیغام نکاح بھیجا۔ عائشہ نے پیغام بھیج کر مسئلہ پوچھا۔ اس وقت مدینہ منورہ میں فقہاء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان حضرات نے یہ فتویٰ دیا کہ ایک گردن آزاد کرنے کے بعد وہ ان سے نکاح کرسکتی ہیں۔- ابراہیم نے اس سلسلے میں یہ کہا ہے کہ عائشہ نے جب یہ بات کہی تھی اگر اس وقت وہ کسی کے عقد زوجیت میں ہوتیں تو ان پر گردن آزاد کرنا لازم نہ ہوتا یعنی اپنے شوہر سے ان کا ظہار درست نہ ہوتا۔ لیکن جب انہوں نے یہ بات کہی تھی اس وقت وہ اپنی ذات کی مالک اور خود مختار تھیں یعنی کسی کی زوجیت میں نہیں تھیں۔- اوزاعی سے مروی ہے کہ اگر عورت یہ کہے۔ ” میں اگر فلاں مرد سے نکاح کرلوں تو وہ مجھ پر میرے باپ کی پشت کی طرح ہوگا۔ “ تو وہ ظہار کرنے والی قرار دی جائے گی۔ اگر وہ یہ بات کسی کی زوجیت میں ہوتے ہوئے کہتی تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوتا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا صورت میں عورت پر قسم کا کفارہ لازم ہونا جائز نہیں ہے کیونکہ مرد پر جو ظہار میں اصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس قول کی بنا پر قسم کا کفارہ لازم نہیں ہوتا تو عورت پر کس طرح لازم ہوگا۔ جس طرح مرد کا یہ کہنا کہ ” انت طالق “ طلاق کے سوا اور کسی مفہوم پر دلالت نہیں کرتا۔ اسی طرح عورت کے ظہار سے اس پر کوئی چیز لازم نہیں آتی۔- بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ عورت کا اظہار درست بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ظہار قول کے ذریعے تحریم کا موجب ہوتا ہے جب کہ عورت اس تحریم کی مالک نہیں ہوتی جس طرح وہ طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ کیونکہ طلاق اس تحریم کے لئے موضوع ہے جو قول کے ذریعے واقع ہوتی ہے۔- اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تم مجھ پر میرے باپ کی پشت کی طرح ہو۔ “ تو آیا ظہار ہوگا یا نہیں۔ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ ایک بےمعنی فقرہ ہے۔ جبکہ امام مالک کا قول ہے کہ اس فقرے کا قائل ظہار کرنے والا قرار دیا جائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کا حکم اس شخص پر لگایا ہے جو اپنی بیوی کو ماں کی پشت کے ساتھ تشبیہ دے یا اپنی کسی محرم خاتون کی پشت کے مشابہ قرار دے جس پر نظر ڈالنا اس کے لئے کسی بھی حال میں جائز نہیں ہوتا۔ جبکہ باپ کی پشت پر نظر ڈالنا اس کے لئے جائز ہوتا ہے اور اس معاملے میں باپ اور اجنبی شخص دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے۔- اگر شوہر یہ کہتا کہ ” تم مجھ پر اجنبی شخص کی پشت کی طرح ہو۔ “ تو اس کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہوتی اسی طرح باپ کی پشت کے ساتھ تشبیہ بھی ایک بےمعنی سی بات ہے۔- اگر شوہر اپنی بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کرے تو اس کے کفارہ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس پر ظہار کے بدلے ایک کفارہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں ظہار کیا ہو اور صرف تکرار کا ارادہ ہو تو اس صورت میں ایک کفارہ لازم ہوگا امام مالک کا قول ہے کہ اگر شوہر نے کئی نشستوں میں بیوی سے ظہار کیا ہو تو اس پر صرف ایک کفارہ لازم آئے گا۔ اگر ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کردے اور پھر ظہار کرلے تو اس پر پھر کفارہ لازم ہوگا۔- اوزاعی کا قول ہے کہ اس پر ایک کفارہ واجب ہوگا خواہ اس نے متعدد نشستوں میں ظہار کیا ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظہار جب ایسی تحریم کا سبب ہوتا ہے جو کفارہ سے رفع ہوتی ہے تو اس اصل پر ہر ظہار کے بارے میں ایک کفارہ واجب ہونا چاہیے تاہم فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر وہ ایک ہی نشست میں ظہار کے الفاظ کئی مرتبہ کہے اور اس کا مقصد صرف ان الفاظ کی تکرار ہو تو اس پر صرف ایک کفارہ واجب ہوگا کیونکہ الفاظ میں اس تکرار کا احتمال موجود ہے جس کا اس نے ارادہ کیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (والذین یظاھرون من نساء ھم) صرف ایک کفارہ کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ خواہ شوہر نے ظہار کے الفاظ کئی مرتبہ کیوں نہ کہے ہوں۔ کیونکہ آیت کے الفاظ صرف صرف ایک مرتبہ ظہار کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ ان میں کئی مرتبہ کا ظہار بھی داخل ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ رفع تحریم کے سلسلے میں کفارہ کا تعلق جب لفظ کی حرمت سے ہوتا ہے تو اس کی مشابہت قسم کے ساتھ ہوجاتی ہے اور قسم کا مسئلہ یہ ہے کہ جتنی بار ایک شخص قسم کھائے گا قسم توڑنے کی صورت میں اس پر اتنی بار کفارہ لازم آئے گا۔- اس سلسلے میں قول باری (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے) اس امر کا موجب نہیں ہے کہ متعدد بار قسموں کی صورت میں صرف ایک کفارہ پر اختصار کیا جائے۔- آیا ظہار کرنے والے کو کفارہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بیوی کے لئے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ شوہر کو کفارہ ادا کیے بغیر اپنے قریب آنے دے۔ طحاوی نے عباد بن العوام سے اور انہوں نے سفیان بن حسین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حسن اور ابن سیرین سے اس شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا تھا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا تھا اور پھر سستی کی بنا پر کفارہ ادا نہیں کیا تھا، انہوں نے کہا کہ عورت شوہر کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے یہی مسئلہ پوچھا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ عورت شوہر کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرے گی۔- امام مالک کا قول ہے کہ عورت پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو اپنے سے دور رکھے۔ امام المسلمین ان دونوں کے درمیان حائل ہوجائے گا۔ امام شافعی کا قول اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ شوہر کو کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا جائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ ہم بستری کرنے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر وہ انکار کرے تو بیوی اس کی پٹائی کرے گی۔ ہشام نے اس کی روایت کی ہے۔- یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ظہار کرنے والے شوہر کو کفارہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ بیوی کہ ہم بستری کا جو حق حاصل ہے شوہر اس حق کی ادائیگی کردے۔- ظہار کے کفارہ میں اگر کافر گردن آزاد کردی جائے تو آیا کفارہ ادا ہوجائے گا اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ عطاء، مجاہد، ابراہیم اور حسن (ایک روایت کے مطابق) کا قول ہے کہ کافر غلام آزاد کردینا بھی کافی ہوگا۔ ہمارے اصحاب ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ البتہ حسن سے ایک روایت منقول ہے کہ کفارات میں مومن گردن آزاد کرنا ضروری ہے اس کے بغیر کفارہ ادا نہیں ہوگا۔- امام مالک اور شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری (فتحریر رقبۃ) کافر گردن کے جواز کا مقتضی ہے۔ اسی طرح ظہار کرنے والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (اعتق رقبۃ۔ ایک گردن آزاد کردو) بھی اسی امر کا مقتضی ہے کیونکہ آپ نے ایمان کی شرط نہیں لگائی تھی۔- کفارہ ظہار کو کفارہ قتل پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ منصوص احکامات کو ایک دوسرے پر قیاس کرنے کا جواز ممتنع ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے نص پر اضافہ لازم آتا ہے جو ہمارے نزدیک نسخ کا موجب ہوتا ہے۔- اگر خدمت کے لئے رقبہ موجود ہو تو اس صورت میں روزے کے جواز کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ظہار کرنے والے کے پاس اگر خدمت کے لئے غلام یا لونڈی موجود ہو اور اس کے سوا اس کے پاس اور کچھ نہ ہو یا اس کے پاس ایک گردن خریدنے کے لئے پیسے موجود ہوں اور اس کے سوا اس کے پاس اور پیسے نہ ہوں تو اس صورت میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا اور اس سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔- امام مالک ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر اس کی خدمت کے لئے ایک غلام موجود ہو اور اس کے سوا اس کے پاس اور کچھ نہ ہو تو اس صورت میں اس کے لئے روزہ رکھنا جائز ہوگا۔ ارشاد باری ہے (فتحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین ایک گردن آزاد کرنا ہے جسے یہ میسر نہ ہو اسے دو مہینے مسلسل روزہ رکھنا ہوگا)- اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں گردن میسر ہونے کی صورت میں اس پر گردن آزاد کرنا واجب کردیا۔ اور گردن میسر نہ ہونے کی صورت میں کفارہ کو روزہ کی طرف منتقل کردیا۔ جب درج بالا صورت میں ظہار کرنے والے کو گردن میسر ہے تو اس کے لئے اس کے سوا اور کسی چیز کا جواز نہیں ہوگا۔- اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا صورت میں ظہار کرنے والے کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جس کے پاس پانی موجود ہو لیکن اسے پیاس کا خطرہ ہو تو اس وقت اس کے لئے تیمم کرنا جائز ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پیاس کے خطرے کی صورت میں وہ شخص پانی کو بچا لینے کا پابند ہوتا ہے اور پانی کا استعمال اس کے لئے ممنوع ہوتا ہے۔- لیکن سب کے نزدیک ظہار کی درج بالا صورت میں اس گردن کو آزاد کردینا ممنوع نہیں ہوتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ مذکورہ صورت میں ظہار کرنے والے کو کفارہ میں آزاد کرنے کے لئے گردن میسر ہوتی ہے۔- کفارہ ظاہر میں ام ولد، مدبر اور مکاتب وغیرہ کو آزاد کرنے کے بارے اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ام ولد، مدبر اور مکاتب کو اگر اس نے کتابت کی کچھ رقم ادا کردی ہو آزاد کرنا جائز نہیں ہے۔- اگر مکاتب نے کوئی رقم ادا نہ کی ہو تو اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ اگر ظہار کرنے والے نے اپنے باپ کو کفارہ میں آزاد کرنے کی نیت سے خرید لیا ہو تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح دوسرے تمام محرموں کا مسئلہ ہے۔ اگر کسی نے یہ کہا ہو کہ ” جو غلام بھی میں خریدوں گا وہ آزاد ہوجائے گا۔ “- پھر کفارہ میں آزاد کرنے کی نیت سے کوئی غلام خریدلے گا تو اس کی آزادی سے کفارہ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔- زفر کا قول ہے کہ مکاتب کو کفارہ میں آزاد کرنا کافی نہیں ہوگا خواہ اس نے کتابت کی رقم ادا نہ بھی کی ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ مکاتب، مدبر اور ام ولد کو آزاد کرنے سے کفارہ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اس غلام کی آزادی سے بھی کفارہ کی ادائیگی نہیں ہوگی جسے چندسالوں تک آزادی ملنے والی ہو۔ اسی طرح بیٹے یا باپ کو آزاد کرنے کی صورت ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مکاتب، مدبر اور ام ولد کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار کی ادائیگی نہیں ہوگی۔- عثمان البتی کا قول ہے کہ کفارہ ظہار اور کفارہ یمین میں مدبر اور ام ولد کو آزاد کردینا جائز ہے لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر ظہار کرنے والا اپنے باپ کو خرید کر کفارہ میں آزاد کردے تو اس کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ایسے شخص کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہوگا جس کی خریداری ہوتے ہی وہ خریدار پر آزاد ہوجاتا ہے۔- البتہ مدبر کو آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہوجائے گا مکاتب نے اگرچہ کتابت کی کوئی رقم ادا نہ بھی کی ہو اسے آزاد کرنے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا، یہی مسئلہ ام ولد کا ہے البتہ ایسے غلام کو آزاد کردینے سے کفارہ ادا ہوجائے گا جسے چند سالوں تک آزادی ملنے والی ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ام ولد اور مدبر (ایسا غلام جسے اس کے آقا نے یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو) کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں کفارہ کی جہت کے سوا دوسری جہتوں سے آزادی کے حق دار بن چکے ہوتے ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ان دونوں کو آزاد ہوجانے کا جو حق مل چکا ہے وہ انہیں فروخت کرنے کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے اور ان دونوں سے اس حق کو واپس لے لینا بھی درست نہیں ہوتا۔- اس لئے ظہار کرنے والے نے اگر ان دونوں کو کفارہ میں آزاد کردیا تو گویا اس نے ایسی آزادی دینے میں تعجیل سے کام لیا جس کا حق پہلے ہی ان دونوں کو حاصل ہوچکا تھا۔ یہ بات اس صورت کی طرح نہیں ہے جس میں آقا اپنے غلام سے کہہ دے کہ تم ایک ماہ ایک سال بعد آزاد ہو۔ کیونکہ آقا کے اس قول سے غلام کو کوئی ایسا حق حاصل نہیں جو اس کی فروخت کی راہ میں حائل ہوسکتا ہو۔- آپ نہیں دیکھتے کہ آقا کو اس غلام کی فروخت کی اجازت ہوتی ہے۔ مکاتب کی بیع اگرچہ جائز نہیں ہوتی لیکن عقد کتابت کو فسخ لاحق ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں مکاتب پھر سے مکمل غلام بن جاتا ہے۔ مکاتب کی بیع اسی طرح جائز نہیں ہے جس طرح بھاگے ہوئے غلام، رہن رکھے ہوئے غلام اور اجارہ پر دیے ہوئے غلام کی بیع جائز نہیں ہوتی۔- اس لئے یہ بات مکاتب کو کفارہ ظہار میں آزاد کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ جب ظہار کرنے والا مکاتب کو کتابت کی رقم کی ادائیگی سے پہلے آزاد کردیتا ہے تو وہ گویا اس رقم کو ساقط کردیتا ہے۔ اس صورت میں وہ گویا غیر مکاتب غلام کو آزاد کرتا ہے۔ اگر مکاتب نے کچھ رقم ادا کردی ہو تو اسے آزاد کرنے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے آزاد کرنے کی بنا پر اس کی ادائیگی فسخ نہیں ہوگی اس طرح اس کی آزادی کا ایک بدل آقا کو مل جائے گا اس لئے اس کی آزادی سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔- لیکن اگر اپنے غلام کے باپ کو خریدتے وقت کفارہ ادا کرنے کی نیت کرلے تو کفارہ ادا ہوجائے گا کیونکہ اس کی خریداری قبول کرتا اس کے قول کے مترادف ہے کہ ” انت حر “ (تم آزاد ہو) اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ارشاد ہے جس میں آپ نے فرمایا (لا یجزی ولد والدہ الان یعبدہ مملوکا فیشتریہ فیعتقہ، کوئی بیٹا اپنے کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا الا یہ کہ وہ اسے غلام پائے اور پھر اسے خرید کر آزاد کردے)- ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم ہے ” اس کی خریداری کے ذریعے اسے آزاد کردے۔ “ اس طرح گویا آپ نے اس کی خریداری کو اس کے قول ” انت حر “ کے مترادف قرار دیا اس لئے اس کا کفارہ ادا ہوگیا۔ کیونکہ یہ چیز اس بات کے مترادف تھی کہ کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہتا ” انت حر “۔- کفارہ ظہار کے سلسلے میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے کہ ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جور دیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ مد ہشام کے حساب سے ہر ایک کو ایک مددیا جائے گا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے مد کے حساب سے ایک تہائی کم دو مد ہے۔ گندم اسی حساب سے فی مسکین ادا کی جائے گی۔ (ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک مداہل عراق کے نزدیک دورطل اور اہل حجاز کے نزدیک ایک رطل اور تہائی کا ہوتا ہے۔ ایک رطل چالیس تولے کا ہوتا ہے)- جو کا حساب یہ ہے کہ اگر یہ شہر والوں کی خوراک ہو تو اس صورت میں اس کی فی کس ادائیگی گندم کے حساب سے ہوگی۔ یہی حساب کھجور کا بھی ہے۔ اگر جو اور گندم شہر والوں کی خوراک نہ ہو تو اس صورت میں ان دونوں میں سے کوئی جنس اتنی مقدار میں ہر مسکین کو دے گا جس سے جو اور کھجور کی صورت میں اوسط دجے کی شکم سیری ہوجائے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ ہر مسکین کو اس شہر کی خوراک کا ایک مدد دیا جائے گا خواہ وہ خوراک گندم ہو یا جو یا چاول یا کھجور یا پنیر وغیرہ، اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے مد کا اعتبار کیا جائے گا۔ بعد میں پیدا ہونے والے مدکا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن سلیمان الانباری نے، انہیں ابن ادریس نے ، محمد بن اسحاق سے، انہوں نے محمد بن عمرو بن عطاء سے، انہوں نے سلیمان بن یسار سے اور انہوں نے سلمہ بن ضخر (رض) سے وہ کہتے ہیں کہ مجھے عورتوں کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی سے ظہار کا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے انہوں نے بیوی کے ساتھ ہم بستری بھی کرلی تھی۔- پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاکر مسئلہ پوچھا۔ آپ نے انہیں ایک گردن آزاد کرنے کا حکم دیا، انہوں نے عرض کیا ” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے میں اس گردن (اپنی گردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے سوا اور کسی گردن کا مالک نہیں۔ “ آپ نے فرمایا۔ ” پھر دو ماہ مسلسل روزے رکھو۔ “ انہوں نے عرض کیا۔ اس وقت جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے وہ روزے کی وجہ سے ہوئی ہے۔- اس پر آپ نے فرمایا ” ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو ۔ “ انہوںں نے عرض کیا ۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا ہم نے خالی پیٹ رات گزاری ہے ہمارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ بنو زریق کے صدقات کے محصل کے پاس چلے جائو، وہ تمہیں صدقات میں وصول شدہ کھجور دے دیں گے ، اس میں سے ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو اور بقیہ کھجور تم اور تمہارے اہل وعیال کھالیں۔ (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے) ۔- اگر یہ کہا جائے کہ اسماعیل بن جعفر نے محمد بن ابی حرملہ سے اور انہوں نے عطاء بن یسار سے روایت کی ہے کہ خولہ بنت مالک بن ثعلبہ کے شوہر اوس بن الصامت نے ان سے ظہار کرلیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خولہ سے کہا کہ وہ اپنے شوہر سے کہے کہ وہ فلاں شخص کے پاس چلا جائے، اس کے پاس نصف وسق کھجور ہے۔ وہ اس سے یہ کھجور صدقہ کے طور پر لے لے اور پھر اسے ساٹھ مسکینوں پر صدقہ کردے۔- عبداللہ بن ادریس نے محمد بن اسحاق سے ، انہوں نے معمر بن عبداللہ بن حنظلہ سے، انہوں نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے اور انہوں نے خولہ سے روایت کی ہے کہ ان کے شوہر نے ان سے ظہار کرلیا تھا۔ انہوں نے جب اس کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے ان کے شوہر کو پندرہ صاع ساٹھ مسکینوں پر صدقہ کرنے کا حکم دیا۔- اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم نے محمد بن اسحاق کو حدیث روایت کی ہے جو انہوں نے محمد بن عمروبن عطاء سے روایت کی تھی جس میں یہ ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کا حکم دیا تھا۔ یہ روایت اولیٰ ہے کیونکہ اس میں معترض کی بیان کردہ روایت سے زائد بات بیان کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پندرہ صاع کی تعداد اعانت کے طور پردے دی ہو۔- اس روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ پندرہ صاع کفارہ کی کل مقدار تھی۔ یہ بات اسرائیل کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے جو انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے، انہوں نے یزید بن زید سے اس کی روایت کی ہے کہ خولہ کے شوہر نے ان سے ظہار کرلیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پندرہ صاع کھجور دے کر ان کی اعانت کی تھی۔- یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے کفارہ کے ایک حصے کا انتظام اعانت کے طور پر کردیا ہو۔- یہ بات یوسف بن عبداللہ بن سلام کی روایت میں بھی بیان کردی گئی ہے۔ یحییٰ بن زکریا نے اسے محمد بن اسحاق سے، انہوں نے معمر بن عبداللہ سے، انہوں نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے خولہ بنت مالک بن ثعلبہ نے بتایا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہار کا کفارہ ادا کرنے میں ان کے شوہروں کی اعانت فرمائی تھی۔- آپ نے کھجور کا ایک درخت انہیں عطا کیا اور خولہ کو ان سے حاصل ہونے والا کھجور مجموعی طور پر ساٹھ صاع یعنی ایک وسق بن گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ اسے صدقہ کردیں۔- اگر شہار کرنے والا مسکینوں کو کھانا کھلانے سے پہلے بیوی کے ساتھ ہم بستری کرلیتا ہے تو اس کے حکم میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ مظاہر پر اگرمسکینوں کو کھلانا فرض ہو تو اس صورت میں جب تک انہیں کھلا نہ دے ہم بستری نہ کرے۔- زید بن ابی الزرقاء نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ اگر کھلانے سے پہلے اس نے ہم بستری کا ارادہ کرلیا تو اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ المعافی اور الا شجعی نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ جب تک کھلا نہ دے اس وقت تک بیوی کے قریب نہ جائے۔ ظہار کرنے والے نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب روزہ رکھنے کی عدم استطاعت کا ذکر کیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ جب تک کفارہ ادا نہ کردو اس وقت تک بیوی کے قریب نہ جائو۔- نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ گردن آزاد کرنے سے پہلے اس کے لئے ہم بستری ممنوع ہے تو پھر گردن آزاد کرنے کی عدم استطاعت کی صورت میں اس ممانعت کا باقی رہنا واجب ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کھلانے سے پہلے آزاد کرنے کے لئے اسے کوئی گردن میسر آجائے۔- اگر وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرچکا ہوگا تو اس صورت میں گردن آزاد کرنے سے پہلے ہم بستری واقع ہوجائے گی۔ اس سے بچنے کے لئے ہم بستری کی ممانعت کا باقی رہنا ضروری ہے یہاں تک کہ مساکین کو کھلا کر فارغ ہوجائے۔
واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ بن مالک حضرت اوس بن صامت انصاری کے نکاح میں تھیں اور حضرت اوس جن کے زیر اثر تھے تو وہ حضرت خولہ کے پاس ایسی حالت میں آئے کہ جس حالت میں عورتوں کے پاس نہیں آیا جاتا انہوں نے انکار کیا اس پر حضرت اوس کو غصہ آیا اور بولے اگر میں اس کام کو کرنے سے پہلے گھر سے نکلوں تو، تو میرے حق میں ایسی ہے جیسی کہ میری ماں کی پشت مجھ پر حرام ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ اب اس کا حکم بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ عورتوں سے ظہار کرتے ہیں مثلا اپنی بیوی سے یوں کہہ دیتے : انت علی کظھر امی۔- تو وہ عورتیں ان کی مائیں نہیں ہیں حرمت ابدی میں تو ان کی مائیں وہی ہیں جنہوں نے ان کو پیدا کیا ہے یا دودھ پلایا ہے بلاشبہ یہ ظہار کے بارے میں ایک نامعقول اور جھوٹ بات کہتے ہیں اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے ان کو حرام کرنے والے سے فوری بدلہ نہیں لیتے اور تائب و نادم کو بخش دینے والے ہیں
آیت ٢ اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ ” (اے مسلمانو ) تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو مائیں کہہ بیٹھتے ہیں ‘ وہ ان کی مائیں نہیں بن جاتی ہیں۔ “- جس طرح کسی کو کوئی بیٹا کہہ دے تو وہ اس کا بیٹا نہیں بن جاتا اور جس طرح منہ بولے بیٹے کی کوئی قانونی و شرعی حیثیت نہیں اسی طرح زبان سے اگر کوئی اپنی بیوی کو اپنی ماں کہہ دے تو ایسے کسی دعوے یا جملے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔- اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اللّٰٓئِیْ وَلَدْنَہُمْ ” ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے۔ “- وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ” البتہ یہ لوگ ایک نہایت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ “- یہ لوگ اپنی بیویوں کو اپنی مائیں کہہ کر ایک نہایت بےہودہ ‘ شرمناک اور نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ پھر یہ بات جھوٹی بھی ہے کہ ان کی بیویاں ان کے لیے اب مائیں ہوگئی ہیں۔- وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ ۔ ” اور یقینا اللہ بہت معاف فرمانے والا ‘ بہت بخشنے والا ہے۔ “- ان الفاظ میں یہ اشارہ دے دیا گیا کہ ظہار سے متعلق چونکہ ابھی تک کوئی قانون نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ مذکورہ صحابی (رض) کو اس معاملے میں معاف فرما دے گا ‘ بلکہ اس سے پہلے جس کسی سے بھی یہ حرکت سرزد ہوئی ‘ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے گا۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :3 عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا اَنتِ عَلَیّ کَظَہرِ اُمیّ ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ۔ اس زمانے میں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں ، بہن ، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں ۔ اسی فعل کا نام ظِہار ہے ۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظَہر کہتے ہیں ، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظَہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا ، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ظِہار کہلاتا تھا ۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق ، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ صرف ازدواجی رشتہ توڑ رہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے ۔ اسی بناء پر اہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی ، مگر ظِہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :4 یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی ، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے ۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے ، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے ۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے ۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے ، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی ، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق ، قانون ، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے ۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :5 یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرناچاہئے ، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے ۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے ۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے ۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے ، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے ، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے ۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی ، نانی ، ساس ، دودھ پلانے والی عورت اور اَزواجِ نبی کو شامل کیا ہے ۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے ، کجا کہ عورت کو جو اسکی بیوی رہ چکی ہے ۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانونی حکم نکلا کہ ظِہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ حرکت تو ایسی ہے کہ اس پر آدمی کو بہت ہی سخت سزا ملنی چاہیے ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اول تو ظہار کے معاملہ میں جاہلیت کے قانون کو منسوخ کر کے تمہاری خانگی زندگی کو تباہی سے بچا لیا ، دوسرے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وہ سزا تجویز کی جو اس جرم کی ہلکی سے ہلکی سزا ہو سکتی تھی ، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ سزا کسی ضرب یا قید کی شکل میں نہیں بلکہ چند ایسی عبادات اور نیکیوں کی شکل میں تجویز کی جو تمہارے نفس کی اصلاح کرنے والی اور تمہارے معاشرے میں بھلائی پھیلانے والی ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں بعض جرائم اور گناہوں پر جو عبادات بطور کفارہ مقرر کی گئی ہیں وہ نہ محض سزا ہیں کہ عبادت کی روح سے خالی ہوں اور نہ محض عبادت ہیں کہ سزا کی اذیت کا کوئی پہلو ان میں نہ ہو ، بلکہ ان میں یہ دونوں پہلو جمع کر دیے گئے ہیں ، تاکہ آدمی کو اذیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ ایک نیکی اور عبادت کر کے اپنے گناہ کی تلافی بھی کر دے ۔
2: یعنی ایسا کہنا گناہ ہے، لیکن اگلے ہی جملے میں اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس گناہ سے توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اسے معاف فرما دیں گے۔