3۔ 1 اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔ 3۔ 2 یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں 1۔ ایک غلام آزاد کرنا 2۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔
١۔ وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِ ھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔:” ثم یعودون لما قالوا “ کی تفسیر میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں ان پر پہلی بار کوئی مؤاخذہ نہیں ، البتہ اگر یہی بات دوبارہ کریں تو ان پر یہ کفار ہے ، مگر یہ بات اس لیے درست نہیں کہ آیت جس واقعہ پر نازل ہوئی اس میں خاوند نے خولہ (رض) کو ایک ہی بار ” انت علی کظھر امی “ کہا تھا۔ دوسری مرتبہ یا بار با ایسا کہنے کا کہیں ذکر نہیں ، اس لیے آیت کا وہی مطلب درست ہوگا جو صحیح حدیث کے مطابق ہو ، چناچہ ” یعودن لما قالوا “ کا مطلب فراء اور بعض مفسرین نے تو یہ لیا ہے کہ یہاں ” لام “ بمعنی ” عن “ ہے ، یعنی پھر وہ اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی ہے ، تو ان پر یہ کفارہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ یہاں ’ ’ لام ‘ ‘” الیٰ “ کے معنی میں ہے ، کلام میں کچھ عبارت حذف بھی ہے اور ” ما قالوا “ کا مطلب ” ما حرموا “ ہے : ” ای ثم یعودون الی تحلیل ما حرموا “ یعنی پھر دوبارہ لوٹیں اس کو حلال کرنے کی طرف جسے انہوں نے حرام کہا ہے “۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں الفاظ میں ابہام کیوں رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماں کہنے کے بعد پھر اس سے بیو ی والا معاملہ کرنا ایک قسم کی کراہت رکھتا ہے ، اس لیے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے بجائے کنایہ سے کام لیا ہے۔- ٢۔ ظہار کا کفارہ مقرر کرنے سے ظاہر ہے کہ یہ طلاق نہیں بلکہ بیوی کو اپنے آپ پر حرام قرار دینے کے قبیل سے ہے ۔ عام معاملات میں حلال کو اپنے آپ پر حرام کرنے کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ( دیکھئے تحریم : ١، ٢) مگر منکر و زور بات ہونے کی وجہ سے ظہار کا کفارہ سخت ہے۔ اب ظہار کرنے والے کے سامنے دو ہی صورتیں ہیں ، اگر وہ بیوی سے قطع تعلق پر مبصر ہے تو زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک اس کا انتظار کیا جائے گا کہ کفار ادا کر کے دوبارہ تعلق استوار کرلے ( دیکھئے بقرہ : ٢٢٦) پھر اسے کہا جائے گا کہ یا اسے طلاق دو یا کفارہ ادا کر کے اسے بیوی بنا کر رکھو ۔ پھر اگر وہ اپنی بات سے رجوع پر تیار ہو تو کفارو بالترتیب تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے ، اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ہاتھ لگانے یعنی جماع سے پہلے ایک گردن آزاد کرے۔ یہ شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہوجائے گا ۔- ٣۔ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ط :” رقبۃ “ کا معنی گردن ہے ، مراد لونڈی یا غلام ہے، یعنی جزبول کر کل مراد لیا گیا ہے ، تو ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے۔ پہلے کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہوجائے اگ ۔- ٤۔ ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِہٖ ط : یعنی ہاتھ لگانے سے پہلے گردن آزاد کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس سے تمہیں آئندہ کے لیے نصیحت ہوگی کہ ایسا کام نہیں کیا کرتے۔- ٥۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : یعنی اگر تم ظہار کے بعد گردن آزاد کیے بغیر ایک دوسرے کو ہاتھ لگاؤ گے تو کسی اور کو خبر ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ہر کام سے پوری طرح با خبر ہے ، تم نہ اس سے چھپ سکتے ہو اور نہ اس کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔- ٦۔ بیوی کو ماں کی طرح اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے پر جو کفارہ ہے اگر اسے بہن یا بیٹی یا کسی بھی ایسی عورت کی طرح حرام کہہ دے جس سے نکاح حرام ہے تو اس پر بھی وہی کفارہ ہے ، کیونکہ نکاح کی حرمت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ، اس لیے جو حکم ماں کہنے کا ہے وہی سب کا ہوگا ۔
اگلی آیت میں (آیت) وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا کا یہی مطلب ہے، یعودون لما قالوا میں حرف لام کو عن کے معنی میں لیا گیا، یعنی رجوع کرتے ہیں وہ اپنے قول سے اور حضرت ابن عباس سے یعودون کی تفسیر بلفظ یندمون بھی منقول ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول کہنے کے بعد وہ اپنے قول پر نادم ہوجائیں اور پھر بیوی سے اختلاط کرنا چاہیں (مظہری)- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفارہ کا وجوب بیوی کے ساتھ اختلاط حلال ہونے کی غرض سے ہے اس کے بغیر حلال نہیں، خود ظہار اس کفارہ کی علت نہیں، بلکہ ظہار کرنا ایک گناہ ہے جس کا کفارہ توبہ و استغفار ہے، جس کی طرف آیت کے آخر میں وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ سے اشارہ کردیا گیا ہے، اس لئے اگر کوئی شخص ظہار کر بیٹھے اور اب بیوی سے اختلاط نہیں رکھنا چاہتا تو کوئی کفارہ لازم نہیں، البتہ بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے، اگر وہ مطالبہ کرے تو کفارہ ادا کر کے اختلاط کرنا یا پھر طلاق دے کر آزاد کرنا واجب ہے، اگر یہ شخص خود نہ کرے تو بیوی حاکم اسلام کی طرف مراجعت کر کے شوہر کو اس پر مجبور کرسکتی ہے، یہ سب مسائل کتب فقہ میں مفصل لکھے گئے ہیں - فتحریر رقبة الایة، یعنی کفارہ ظہار کا یہ ہے کہ ایک غلام یا لونڈی آزاد کرے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو دو مہینے کے لگار تار مسلسل روزے رکھے اور کسی بیماری یا ضعف کے سبب اتنے روزوں پر بھی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یعنی دونوں وقت پیٹ بھرائی کھانا ساٹھ مسکینوں کو کھلاوے اور کھانا کھلانے کے قائم مقام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو فی کس ایک فطرہ کی مقدار گندم یا اس کی قیمت دیدے، فطرہ کی مقدار ہمارے موجودہ وزن کے اعتبار سے پونے دو سیر گندم ہیں اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔- ظہار سے متعلقہ احکام اور اس کے کفارہ کے مفصل مسائل کتب فقہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔- حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کی واویلا اور فریاد پر جب آیات مذکورہ اور کفارہ ظہار کے احکام نازل ہوئے اور شوہر سے دائمی مفارقت و حرمت سے بچنے کا راستہ نکل آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے شوہر کو بلایا، دیکھا کہ ضعیف البصر بوڑھا آدمی ہے، آپ نے اس کو نازل شدہ آیات اور کفارہ کا حکم سنایا کہ ایک غلام یا لونڈی آزاد کردو، اس نے کہا کہ یہ میری قدرت میں نہیں کہ غلام خرید کر آزاد کروں آپ نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو، اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول برحق بنایا، میری حالت یہ ہے کہ اگر دن میں دو تین مرتبہ کھانا نہ کھاؤں تو میری نگاہ بالکل ہی جاتی رہتی ہے، آپ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، اس نے عرض کیا کہ یہ بھی میری قدرت میں نہیں بجز اس کے آپ ہی کچھ مدد کریں، آپ نے اس کو کچھ غلہ عطا فرمایا، پھر کچھ دوسرے لوگوں نے جمع کردیا اس طرح ساٹھ مسکینوں کو فطرے کی مقدار دے کر کفارہ ادا ہوگیا (ابن کثیر)
وَالَّذِيْنَ يُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّـتَـمَاۗسَّا ٠ ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ٣- ظِّهَارُ- : أن يقول الرّجل لامرأته : أنت عليّ كَظَهْرِ أمّي، يقال : ظَاهَرَ من امرأته . قال تعالی: وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] ، وقرئ : يظاهرون أي : يَتَظَاهَرُونَ ، فأدغم،- الظھار کے معنی ہیں خاوند کا بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت کہا جاتا ہے ظاھر من امرء تہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں ۔ ایک قرات میں یظاھرون ہے جو اصل میں یتظاھرون ہے اور تاء ظاء میں مدغم ہے اور ایک قرات یظھرون ہے - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- تحریرُ- : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] .- التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
اب اللہ تعالیٰ ظہار کے کفارے کے بارے میں بیان فرماتے ہیں جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر کے ان کو خود حرام کرلیتے ہیں اور پھر اپنی اس کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ذمہ ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اس سے پہلے کہ دونوں میاں بیوی باہم اختلاط کریں اس آزادی سے تمہیں ظہار کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔- اور اللہ تعالیٰ کو کفارہ ظہار کی ادائیگی اور عدم ادائیگی کی پوری خبر ہے۔
آیت ٣ وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُـوْا ” اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کربیٹھیں ‘ پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے واپس لوٹنا چاہیں “- فَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّـتَمَآسَّا ” تو ایک غلام کا آزاد کرنا ہوگا ‘ اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو مس کریں۔ “- یعنی اس معاملے کا کفارہ ادا کرو اور پھر سے میاں بیوی کی طرح رہو - ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ ” یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :7 یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آئے تھے ، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضور نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں ، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں ۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اَوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہو گئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے لیے راویوں نے کَانَ بِہ لَمَمٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ لَممَ عربی زبان میں دیوانگی کو نہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں غصے میں پاگل ہو جانے کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کر چکے تھے ، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہو گیا ۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے؟ حضور نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو ۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا تم اس پر حرام ہو گئی ہو ۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں ۔ بار بار انہوں حضور سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں ، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے ۔ مگر ہر مرتبہ حضور ان کو وہی جواب دیتے رہے ۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا ( اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا ) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہو گا ۔ انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی ، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے ۔ آپ نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا ۔ انہوں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے ، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو 60 آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو ۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضور نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفا رہ ادا کر سکیں ( ابن جریر ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ابی حاتم ) ۔ ظہار کا دوسرا واقعہ سلمہ بن صخر بَیاضی کا ہے ۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا ۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بے صبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا ۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے ۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا عرض کیا ۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو ۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں ۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں ۔ حضور نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بےکھائے سوئے ہیں ۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصلِ زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ 60 آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں ( مسند احمد ، ابوداؤد ۔ ترمذی ) ۔ تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کر لی ۔ بعد میں حضور سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو ( ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ۔ ابن ماجہ ) ۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے ۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا یہ تیری بہن ہے؟ مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا ( ابوداؤد ) ۔ یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :8 اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی ۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے : ایک مفہوم ان کا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں ۔ ظاہریہ اور بکیر بن الاشج ، اور یحیٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں ، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے ، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے ۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے ۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہو جائے؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آ جائے ، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے ، یا اس کی بیوی مر جائے ، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو ۔ فقہاء میں سے طاؤس ، مجاہد ، شعبی ، زہری ، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک کرنا چاہے جو اس نے کہی ہے ۔ بالفاظ دیگر عَادَ لِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کر لیا ۔ چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لیے حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے ۔ بالفاظ دیگر عَادَ لِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہو گیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا ۔ اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :9 بالفاظ دیگر یہ حکم تمہاری تادیب کے لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اور تم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کا ارتکاب نہ کرے ۔ بیوی سے لڑنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح لڑو ۔ طلاق ہی دینا ہو تو سیدھی طرح طلاق دے دو ۔ یہ آخر کیا شرافت ہے کہ آدمی جب بیوی سے لڑے تو اسے ماں بہن بنا کر ہی چھوڑے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :10 یعنی اگر آدمی گھر میں چپکے سے بیوی کے ساتھ ظہار کر بیٹھے اور پھر کفارہ ادا کیے بغیر میاں اور بیوی کے درمیان جب سابق زوجیت کے تعلقات چلتے رہیں ، تو چاہے دنیا میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو ، اللہ کو تو بہرحال اس کی خبر ہو گی اللہ کے مواخذہ سے بچ نکلنا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔
3: یہاں سے ظہار کا حکم بیان فرمایا جارہا ہے، اور وہ یہ کہ ظہار کے بعد میاں بیوی کے لئے اپنے مخصوص تعلقات یعنی جماع، بوس وکنار وغیرہ جائز نہیں رہتے، البتہ ظہار سے رُجوع ہوسکتا ہے، جس کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بحال ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے لئے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ ان آیتوں میں کفارہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے لئے ایک غلام کو آزاد کرنا ممکن ہو تو اُس کے ذمے واجب ہے کہ وہ غلام آزاد کرنے کی صورت میں کفارہ ادا کرے ؛ لیکن اگر کسی کو غلام کی قدرت نہ ہو، (جیسے کہ آج کل غلاموں کا وجود ہی نہیں رہا) تو اس کو دو مہینے متواتر روزے رکھنے ہوں گے، اور اگر کوئی شخص بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے بھی نہ رکھ سکے تو وہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادے، تو اس سے بھی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ کفارہ ادا کرنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں۔