[٣] ظہار کرنا گناہ کبیرہ ہے :۔ آیت نمبر ٣ اور ٤ میں ظھار کا کفارہ یا ایسے معاملات کا حل شرعی بتایا جارہا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ظہار سے اگرچہ طلاق واقع نہیں ہوجاتی تاہم یہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔ پھر کفارہ کے طور پر اس گناہ کی تین سزائیں بتادیں۔ کہ ان میں سے جو سزا کسی کے حالات کے مطابق ہو وہ اسے دی جائے۔ ان کی ترتیب یہ ہے۔- ظہار کا کفارہ :۔ (١) ایک غلام آزاد کرنا، (٢) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا یا (٣) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ ان آیات میں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں۔- ظہار سے متعلق احکام : ١۔ لڑائی جھگڑا زوجین کے درمیان ہوتا ہے لیکن ظہار کے لفظ خاوند بولتا ہے۔ اس لیے سزا صرف خاوند کے لئے ہے۔ بیوی کے لیے کوئی کفارہ یا سزا نہیں۔- ٢۔ ان تمام سزاؤں کی نوعیت عبادات کی ہے۔ غلام آزاد کرنا اور مسکینوں کو کھانا کھلانا یہ مالی نفلی عبادتیں ہیں۔ اور روزے رکھنا بدنی عبادت، گویا کفارہ بھی عبادات کی شکل میں تجویز ہوا ہے۔ تاکہ انسان کے نفس میں پاکیزگی اور تقویٰ پیدا ہو۔ کفارہ میں حدی جرائم کی طرح کوئی بدنی سزا نہیں ہوتی۔- ٣۔ یہ کفارہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے قول سے رجوع کرنا چاہے اور زوجین مل بیٹھنا چاہیں اور مرد رجوع نہ کرنا چاہے تو پھر سیدھی طرح طلاق دے دے۔ جو شرعی ہدایات کے مطابق ہو۔ ظہار تو بالکل بےہودہ اور ہیرا پھیری کی بات ہے۔ اس سے توبہ کرے اور طلاق دے دے۔- ٤۔ آج کل غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ لہذا آج اگر کوئی ظہار کرے تو کفارہ کی دوسری یا تیسری صورت سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا۔- ٥۔ یہ اختیار ظہار کرنے والے کے حالات کے مطابق ہوگا۔ مثلاً ایک امیر شخص نے ظہار کیا تو اس کے لیے دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی سزا تجویز کی جائے گی۔ کیونکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کے لیے کوئی سزا نہیں۔ اسی طرح غریب کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا مشکل ہے۔ اور روزے رکھنے میں وہ کوئی سزا محسوس نہیں کرے گا۔- ٦۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی عذر شرعی مثلاً مرض یا ضروری سفر وغیرہ کی بنا پر روزوں کے تسلسل میں انقطاع واقع ہوجائے تو وہ انقطاع شمار نہ ہوگا۔ انقطاع اسی وقت شمار ہوگا جب وہ دیدہ دانستہ بغیر کسی عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دے۔- ٧۔ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا یا اس کا ہم قیمت غلہ ہے۔ جو غلہ کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی نقد قیمت کی صورت میں بھی۔- بعض علماء کے نزدیک ایک ہی مسکین کو ساٹھ دنوں کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرنے سے بھی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس معاملہ میں شریعت نے کفارہ ادا کرنے والے کی سہولت کو ملحوظ رکھا ہے۔- ٨۔ صحبت سے پہلے کفارہ کی ادائیگی لازمی ہے۔ ادائیگی سے قبل بیوی مرد پر حلال نہ ہوگی۔- کفارہ دینے والے کے حالات ملحوظ رکھنا ضروری ہے :۔ اب خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ یہ ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے اسے پڑھ کر سنائیں اور فرمایا کہ اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔ خولہ نے جواب دیا : یارسول اللہ وہ تو نادار ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا : اس سے کہو : دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔ خولہ نے کہا : وہ تو بوڑھاو ناتوان ہے۔ اسے یہ طاقت بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ خولہ کہنے لگی۔ اسے تو اتنا بھی مقدور نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : میں ایک عرق (ایک پیمانہ) کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔ اس پر خولہ نے کہا۔ میں بھی ایک وسق کھجور دے کر اس کی مدد کروں گی۔ آپ نے فرمایا : یہ بہت بہتر ہے۔ جا اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ سلوک کر۔ چناچہ خولہ نے ایسا ہی کیا۔- اس سے معلوم ہوا کہ تیسری صورت میں، نادار کفارہ دینے والے کی صدقہ وغیرہ کی صورت میں مدد بھی کی جاسکتی ہے اور کرنا چاہیے۔- [٤] ظہار کی آیات کن کن چیزوں پر ثبوت فراہم کرتی ہیں ؟۔ یعنی اللہ کی حدود یا ضابطے یہ ہیں کہ ظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی، دوسرا یہ کہ ظہار کرنا کوئی ایسی معمولی بات نہیں جس پر کچھ بھی مواخذہ نہ ہو۔ بلکہ فی الواقع یہ ایک گناہ کا کام ہے۔ تیسرا یہ کہ اس گناہ کا ازالہ صرف کفارہ ادا کرنے سے ہوسکتا ہے۔ اور انکار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کفارہ ادا کئے بغیر ہی اپنی بیوی سے صحبت شروع کردے یا اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود بھی اپنی بیوی سے صحبت کرنا حرام ہی سمجھتا رہے۔- واضح رہے کہ ان آیات سے مندرجہ ذیل باتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (١) اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کے بندوں کے حالات سے ہر وقت مطلع ہونے پر، (٢) رسول اللہ کے اللہ کا رسول ہونے پر، (٣) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے پر اور (٤) اس بات پر کہ تمام تر احکام الٰہی بندوں کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس قانون نے جہاں ایک طرف جاہلیت کے دستور کے مطابق جدائی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کردیا، وہاں اس رواج کو ایسا بےلگام بھی نہیں چھوڑا کہ جو چاہے ظہار کرتا پھرے اور اس پر کوئی پابندی نہ ہو۔ بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرکے ہر حال میں بندوں کے مصالح کو ملحوظ رکھا۔
١۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ج : اس سے معلوم ہوا کہ اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے تو روزوں سے کھانا کھلاناے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا ۔- ٢۔ فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ : پھر جو شخص ہاتھ لگانے سے پہلے دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ظہار کرنے والا خود کمزوری کی وجہ سے پے در پے اتنے روزے نہ رکھ سکتا ہو یا شدت شہوت کی وجہ سے اتنے دن صبر نہ کرسکتا ہو ، ” فمن لم یسطع “ میں دونوں شامل ہیں ، جیسا کہ سلمہ بن صخر بیاضی (رض) نے اپنی بیوی کو ماہ رمضان گزرنے تک کے لیے ماں کہہ دیا ، پھر کسی رات اس سے جماع کر بیٹھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( حررقبۃ) ایک گردن آزاد کرو “۔ انہوں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا :” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میرے پاس اس گردن کے سوا کوئی گردن نہیں “۔ فرمایا :( فصم شھرین متتابعین) ” پھر وہ ماہ پے در پے روزے رکھ “۔ انہوں نے کہا :” مجھ پر روزوں ہی کی توجہ سے تو یہ مصیبت آئی ہے۔ “ فرمایا :( فاطعم وسفا من تمر بین ستین مسکینا) (ابو داؤد ، کتاب الطلاق ، باب فی الظھار : ٢٢١٣)” پھر ساتھ مسکینوں میں ایک و سق کھجور تقسیم کر دو “۔- ٣۔ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ط : اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھانا کھلانے سے یا ساٹھ دنوں کا کھانا دینے سے یہ کفار ادا نہیں ہوگا ، بلکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا پڑے گا ، خواہ ایک وقت میں کھلا دے یا مختلف وقتوں میں ۔ آیت کے الفاظ کے مطابق اس کا بلا تکلف مطلب یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک دفعہ پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ ( شوکانی) ۔- ٤۔ ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ ط : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے مراد ان کے احکام کے سچا ہونے پر یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا ہے ، کیونکہ ایمان میں تصدیق ، اقرار اور عمل تینوں چیزیں شامل ہیں۔- ٥۔ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہ ِ ط : یعنی ظہار کا حرام ہونا اور اس سے رجوع کی صورت میں اس پر کفارہ لازم ہونا اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، جن سے تجاوز حرام ہے۔- ٦۔ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ :” الکافرین “ انکار کرنے والے ۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کے حکموں کو نہیں مانتے وہ حقیقت میں کافر ہیں ، چاہے دنیوی احکام میں اور مرد م شماری کی رو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔
(آیت) ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ- اس آیت میں لتومنوا فرمایا اور مراد ایمان سے شرائع و احکام پر عمل کرنا اور پھر فرمایا کہ یہ کفارہ وغیرہ کے احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان میں تجاویز کرنا حرام ہے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اسلام نے نکاح، طلاق، ظہار اور دوسرے سب معاملات میں جاہلیت کی رسوم کو مٹا کر ان کی جگہ معتدل اور صحیح طریقوں کی تعلیم دی ہے، تم اس پر قائم رہو اور جو لوگ ان حدود شرعیہ کے منکر اور کافر ہیں ان کو درد ناک سزا ملے گی ،
فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَـاۗسَّا ٠ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ٠ ۭ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ٠ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ ٠ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٤- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- صوم - الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ- «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار :- صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً- [ مریم 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] .- ( ص و م ) الصوم - ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ.- ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔- متتابعین - : اسم فاعل تثنیہ مذکر تتابع ( تفاعل) مصدر سے بمعنی پے در پے لگاتار - «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] - ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - والحدید - معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ.- ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - حدید - لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
اور پھر جو شخص غلام یا لونڈی آزاد کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کے ذمہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنے ہیں اس سے پہلے کہ دونوں باہم اختلاف کریں اور پھر کسی کمزوری کی وجہ سے روزے بھی نہ رکھے جاسکیں تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے کہ ہر ایک مسکین کو آدھا صاع گیہوں کا یا ایک صاع جو کا یا کھجور کا دے۔- اور یہ کفارہ ظہار کا حکم اس لیے ہے تاکہ فرائض خداوندی اور سنن نبوی پر ثابت قدم رہو یہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرائض ظہار ہیں۔- اور جو اللہ تعالیٰ کی حدود کا انکار کرتے ہیں ان کو سخت دردناک عذاب ہوگا کہ اس درد کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی ابتدا سورت سے لیکر یہاں تک یہ آیات حضرت خولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ان کے خاوند حضرت اوس نے کسی چیز پر ان سے ناراض ہو کر ان سے ظہار کرلیا تھا پھر اس پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کفارہ ظہار کا حکم دیا۔ چناچہ حضور نے حضرت اوس سے فرمایا ایک غلام آزاد کردو تو انہوں نے عرض کیا اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ اگر میں دن میں ایک دو مرتبہ نہ کھاؤں تو میری نگاہ بھی جاتی رہے اور ممکن ہے کہ میں مرجاؤں حضور نے فرمایا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو انہوں نے فرمایا اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ سن کر حضور نے ان کو ایک کھجور کا ٹوکرا دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کو مساکین میں تقسیم کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان خود سے زیادہ اور کسی کو محتاج نہیں سمجھتا۔ چناچہ آپ نے ان ہی کو اس کے کھانے کا حکم دے دیا اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا، چناچہ جس چیز کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اس کی طرف انہوں نے رجوع فرمایا اس بات میں ان کی رسول اکرم اور ایک اور شخص نے مدد فرمائی۔
آیت ٤ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ” تو جو کوئی (غلام) نہ پائے وہ دو مہینوں کے روزے رکھے لگاتار ‘ اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔ “- یعنی دو ماہ کے روزے اس طرح متواتر رکھے جائیں کہ درمیان میں کسی دن کا روزہ چھوٹنے نہ پائے۔ - فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ” تو جو کوئی یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “- اگر کوئی شخص کمزور ہے ‘ ضعیف العمر ہے یا ایسا مریض ہے کہ دو ماہ کے لگاتار روزے رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں تو وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ اس کے لیے اوسط معیار وہی ہوگا جو سورة المائدۃ کی آیت ٨٩ میں قسم کے کفارے کے ضمن میں بیان ہوا ہے : مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ یعنی جس معیار کا کھانا متعلقہ شخص اپنے اہل و عیال کو معمول کے مطابق کھلاتا ہے ‘ ویسا ہی کھانا وہ ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔ - ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ” یہ اس لیے تاکہ تم ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر۔ “- اس فقرے پر میں بہت عرصہ سوچ بچار کرتا رہا ‘ بالآخر مجھے اس بارے میں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ جب کوئی شخص کفارہ کو اللہ کا قانون سمجھتے ہوئے اس کی سختی برداشت کرتا ہے تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان سے عمل صالح پیدا ہوتا ہے ‘ اسی طرح عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ‘ جیسے کہ سورة الحجرات میں فرمایا گیا :- یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ - ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو ‘ بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے ‘ اگر تم سچے ہو۔ “- یعنی تم لوگ اسلام میں داخل ہو کر گویا ایمان کے راستے پر چل پڑے ہو۔ اس بارے میں تم اللہ کا احسان مانو کہ وہ تمہیں ایمان کے راستے پر لے آیا ہے۔ اگر تم اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے ہوئے اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرتے رہو گے تو تم ایمان تک بھی ضرور پہنچ جائو گے۔ یہاں ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص غلطی کے بعد توبہ کرتے ہوئے کفارہ ادا کرے گا تو اللہ کے قانون پر عمل درآمد کرنے کی وجہ سے اس کے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول مزید راسخ اور پختہ ہوجائے گا۔ - وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ ” اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں ‘ اور کافروں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔ “
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :11 یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ۔ فقہائے اسلام نے اس آیت کے الفاظ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں ، اور اسلام کے اصولِ عامہّ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں : ( 1 ) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہو جاتی تھی ۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بے معنی اور بے اثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَو کا تعلق جاری رکھے ، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے ، کجا کہ اس کے زبان پر لائے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے ۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے ۔ تیسرے یہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے ، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے ۔ ( 2 ) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے ۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے ۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو ، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے ، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو ۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : الف ۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا ، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے ۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہو گیا ہو ، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جائے گا ۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا ۔ بخلاف اس کے حضرت عثمان کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے ۔ احناف میں سے امام طحاوی اور کَرْخی اس قول کو ترجیح دیتے ہیں اور امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہو گا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو ، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ ب ۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ظہار صرف اس شوہر کا معتبر ہے جو مسلمان ہو ۔ ذمیوں پر ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے ، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا ۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذمی اور مسلمان ، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے ، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے ۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ ج ۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کر سکتی ہے؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے ، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں ، تو کیا یہ بھی ہو گا ؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار کے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں ( اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِھِمْ ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے ۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھی نہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کر لے ۔ یہی رائے سفیان ثوری ، اسحٰق بن راہویہ ، ابو ثور اور لَیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایسا قول بالکل بے معنی اور بے اثر ہے ۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے ۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا ، کیونکہ عورت کا ایسے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے ۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے ۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ ، تو یہ ظہار ہو گا ، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قَسم کے معنی میں ہو گا جس سے کفارۂ یمین لازم آئے گا ۔ بخلاف اس کے حسن بصری ، زہری ، ابراہیم نخعی ، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہنے سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آئے گا ، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہو گا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے ۔ ابراہیم نخعی اسکی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا ۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ ۔ ( وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ ) ۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہو گئیں ۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے ، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے ۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا ، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہو گیا ۔ ( 3 ) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس نے غصے میں ، یا مذاق مذاق میں ، یا پیار سے ایسا کہا ، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی ۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں ، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے ، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے ۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے ۔ ( 4 ) ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جا سکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہو سکتا ہے ۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا ۔ یہی حضرت عمر کا فتویٰ ہے ۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کر لیا ۔ حضرت عمرنے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہو گا ۔ مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں ، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں ، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا ۔ یہی رائے سعید بن المسیب ، عروہ بن زبیر ، عطاء بن ابی رباح ، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بے معنی ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ ( 5 ) ۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہو سکتا ہے؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے ، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آئے گا ، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہو جائے گا ۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بے معنی ہے ۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جائے گا ، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہو گی ، کیونکہ جو حرمت واقع ہو چکی ہے وہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی ۔ ( 6 ) ۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہو گی ، کفارہ لازم آ جائے گا ۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ ۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہو گا ۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا ۔ ( 7 ) ۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گئے ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں ، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گئے ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے ، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو ۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو ، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی ، کفارہ ایک ہی لازم ہو گا ۔ یہی قول شعبی ، طاؤس ، عطاء بن ابی رباح ، حسن بصری ، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہو گا ، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے ۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی ہے ۔ ( 8 ) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جائے ، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہونگے ۔ یہی رائے حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، عروہ بن زبیر ، طاؤس ، عطاء ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری ، اور ابن شہاب زہری کی ہے ۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا ۔ ربیعہ ، اوزاعی ، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی رائے ہے ۔ ( 9 ) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہو گی ۔ ( 10 ) ۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر چہ یہ گناہ ہے ، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے ، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے ، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہو گا ۔ حضرت عمرو بن عاص ، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر ، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے ۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے ۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضورؐ کا فیصلہ بیان ہوا ہے ۔ ( 11 ) ۔ بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے ، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بے بھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے ، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے ، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت ، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں ۔ جیسے بیوی کی بہن ، اس کی خالہ ، اس کی پھوپھی ، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو ۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو ، ظہار ہو گا ۔ البتہ بیوی کے ہاتھ ، پاؤں ، سر ، بال ، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے ، یا بیوی کو اس کے سر ، ہاتھ ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے ، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے ، ظہار نہیں ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں ، یعنی ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں ، جیسے رضاعی ماں ، بہن ، ساس اور بہو ، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں ، جیسے سالی ۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہو گا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا ۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہو گی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جائے ۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے ، یا ماں کے ہاتھ ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے ، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا ، یا بیوی کے سر ، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا ، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے ، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو ، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے ، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے کہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے ، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے ، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو ، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے ، حلال نہیں ہے ۔ حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں ، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں ، مثلاً ساس ، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں ، ( مثلاً سالی ) ، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آ جاتا ہے ۔ البتہ بال ، ناخن ، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں ۔ ( 12 ) ۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے صریح ظہار ہے کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں ، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جائے گا ۔ حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت ( بیوی ) کو حرام عورت ( یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت ) سے تشبیہ دی گئی ہو ، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے ، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے ۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے ۔ اگر کہے کہ تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے ، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق ۔ اگر کہے کہ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے طلاق بائن ، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بے معنی ہے ۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے ۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کا اظہار فرمایا تھا ، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا ۔ اگر کہے کہ تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے طلاق ، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے ۔ اگر کہے کہ تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے تو نیت پوچھی جائے گی ۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے ۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے ۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے ۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بے معنی ہے ، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا ، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے ۔ شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک ، یا میرے ساتھ ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ۔ یا تیرا جسم ، یا تیرا بدن ، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے ۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہو گا ۔ حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے ، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو ، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جائے گا ۔ مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے ، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں ۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ میرے لیے میری ماں جیسی ہے ، یا میری ماں کی طرح ہے مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے ۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ تو میری ماں ہے تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے ، اور پیار محبت کی بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار ، اور اگر کہے تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گے ۔ یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میری ماں کی بیٹھ مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گئے ہوں ، یا نیت کچھ بھی نہ ہو ۔ الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں ، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے ، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے ۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے ، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی ( ) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے ، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے ، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ ( تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے ) ۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں ، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں ۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کر سکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت ، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں ۔ ( 13 ) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد غور ہے ۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جائے اور عَود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عَود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ عَود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آ جائے ، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جائے اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کر لی تھی وہ پہلے کفارہ دے ، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی ۔ امام مالکؒ کے اس معاملہ میں تین قول ہیں ، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا ۔ اس کے بعد عَودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے ۔ امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیانکیا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے ۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے ۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے ، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے ۔ امام شافعؒی کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بنائے رکھنا ، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عَود ہے ۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کر لی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے ۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا ، تو اس نے عَود کر لیا اور اس پر کفارہ واجب ہو گیا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آ جائے گا ، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے ، اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو ۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعیؒ کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا ۔ ( 14 ) قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو مَس کریں ۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے ، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا ۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں ، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں ، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے ۔ ( 15 ) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا ۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو ، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو ، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کر لے ، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی ۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کر چکا ہے ، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی ۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے ۔ ( 16 ) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے ، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ عے تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے ۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹائے جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کر لی ہے ۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے ۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے ، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے ، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی ، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا ، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے ۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے ، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا ( احکام اِیلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حواشی 245 تا 247 ) ۔ شافعیہ کے نزدیک اگر چہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو ، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہو جاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے ۔ ( 17 ) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے ۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب 60 مسکینوں کو کھانا کھال سکتا ہے ۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہو جائے ۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کر سکے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے ۔ ( 18 ) قرآن مجید کفارہ میں رَقَبہ آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا اطلاق لونڈی اور غلام دونوں پر ہوتا ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔ شیر خوار بچہ بھی اگر غلامی کی حالت میں ہو تو اسے آزاد کیے جا سکتے ہیں یا صرف مومن غلام ہی آزاد کرنا ہو گا ۔ حنفیہ اور ظاہریہ کہتے ہیں غلام خواہ مومن ہو یا کافر ، اس کا آزاد کر دینا کفارہ ظہار کے لیے کافی ہے ، کیونکہ قرآن میں مطلق رَقَبہ کا ذکر ہے ، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ مومن ہی ہونا چاہیے ۔ بخلاف اس کے شافعیہ ، مالکیہ اور حنابلہ اس کے لیے مومن کی شرط لگاتے ہیں ، اور انہوں نے اس حکم کو ان دوسرے کفاروں پر قیاس کیا ہے جن میں رقبہ کے ساتھ قرآن مجید میں مومن کی قید لگائی گئی ہے ۔ ( 19 ) غلام نہ پانے کی صورت میں قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ۔ اس فرمان الٰہی پر عمل کرنے کی تفصیلات مختلف فقہی مذاہب میں حسب ذیل ہیں : الف ۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ مہینوں سے مراد ہلالی مہینے ہیں ۔ اگر طلوع بلال سے روزوں کا آغاز کیا جائے تو دو مہینے پورے کرنے ہوں گے ۔ اگر بیچ میں کسی تاریخ سے شروع کیا جائے تو حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ 60 روزے رکھنے چاہئیں ۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ پہلے اور تیسرے مہینے میں مجموعی طور پر 30 روزے رکھ اور بیچ کا ہلالی مہینہ خواہ 29 کا ہو یا 30 کا ، اس کے روزے رکھ لینے کافی ہیں ۔ ب ۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ روزے ایسے وقت شروع کرنے چاہییں جب کہ بیچ میں نہ رمضان آئے نہ عیدین نہ یوم النحر اور ایام تشریق ، کیونکہ کفارہ کے روزے رکھنے کے دوران میں رمضان کے روزے رکھنے اور عیدین اور یوم الجحر اور ایام تشریق کے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے پڑیں گے ۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ بیچ میں رمضان کے روزے رکھنے اور حرام دنوں کے روزے نہ رکھنے سے تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ ج ۔ دو مہینوں کے دوران میں خواہ آدمی کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑے یا بلا عذر ، دونوں صورتوں میں حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے ۔ یہی رائے امام محمد باقر ، ابراہیم نخعی ، سعید بن جبیر اور سفیان ثوری کی ہے ۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک مرض یا سفر کے عذر سے بیچ میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے اور اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا ، البتہ بلا عذر روزہ چھوڑ دینے سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کفارہ کے روزے رمضان کے فرض روزوں زیادہ موکد نہیں ہیں ۔ جب ان کو عذر کی بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں یکہ ان کو نہ چھوڑا جا سکے ۔ یہی قول حضرت عبداللہ بن عباس ، حسن بصری ، عطاء بن ابی رَبَاح ، سعید بن المسیب ، عمرو بن دینار ، شعبی طاؤس ، مجاہر ، اسحاق بن راہویہ ، ابر عبید اور ابو ثور ہے ۔ د ۔ دومہینوں کے دوران میں اگر آدمی اس بیوی سے مباشرت کر بیٹھے جس سے اس نے ظہار کیا ہو ، تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے کیونکہ ہاتھ لگانے سے پہلے دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( 20 ) قرآن اور سنت کی رو سے تیسرا کفارہ ( یعنی 60 مسکینوں کا کھانا ) وہ شخص دے سکتا ہے جو دوسرے کرنے ( دو مہینے کے مسلسل روزوں ) کی قدرت نہ رکھتا ہو ۔ اس حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے فقہاء نے جو تفصیلی احکام مرتب کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں : الف ۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک روزوں پر قادر نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی یا تو بڑھاپے کی وجہ سے قادر نہ ہو ، یا مرض کے سبب سے ، یا اس سبب سے کہ وہ مسلسل دو مہینے تک مباشرت سے پرہیز نہ کر سکتا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اس دوران میں کہیں بے صبری نہ کر بیٹھے ۔ ان تینوں عذرات کا صحیح ہونا اس احادیث سے ثابت ہے جو اَوْس بن صامت انصاری اور سلمہ بن صخر بیاضی کے معاملہ میں وارد ہوئی ہیں ۔ البتہ مرض کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان تھوڑا سا اختلاف ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ مرض کا عذر اس صورت میں صحیح ہو گا جب کہ یا تو اس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو ، یا روزوں سے مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر روزوں سے ایسی شدید مشقت لاحق ہوتی ہو جس سے آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ دو مہینے کے دوران میں کہیں سلسلہ منقطع نہ کرنا پڑے ، تو یہ عذر بھی صحیح ہو سکتا ہے ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر آدمی کا گمان غالب یہ ہو کہ وہ مستقبل میں روزہ رکھنے کے قابل ہو سکے گا تو انتظار کر لے ، اور اگر گمان غالب اس قابل نہ ہو سکنے کاہو تو مسکینوں کو کھانا کھلا دے ۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ روزے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ بالکل کافی عذر ہے ۔ ب ۔ کھانا صرف ان مساکین کو دیا جا سکتا ہے جن کا نفقہ آدمی کے ذمہ واجب نہ ہوتا ہو ۔ ج ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ کھانا مسلمان اور ذمی ، دونوں قسم کے مساکین کو دیا جا سکتا ہے ، البتہ حربی اور مستامن کفار کو نہیں دیا جا سکتا ۔ مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ صرف مسلمان مساکین ہی کو دیا جا سکتا ہے ۔ د ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ کھانا دینے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کھانا دینا ہے ۔ البتہ کھانا دینے کے مفہوم میں اختلاف ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ دو وقت کی شکم سیری کے قابل غلہ دے دینا ، یا کھانا پکا کر دو وقت کھلا دینا ، دونوں یکساں صحیح ہیں ، کیونکہ قرآن مجید میں اِطعام کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خوراک دینے کے بھی ہیں اور کھلانے کے بھی ۔ مگر مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ پکا کر کھلا نے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ غلہ دے دینا ہی ضروری قرار دیتے ہیں غلہ دینے کی صورت میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ وہ غلہ دینا چاہیے جو اس شہر یا علاقے کے لوگوں کی عام غذا ہو ۔ اور سب مسکینوں کو برابر دینا چاہیے ۔ ھ ۔ حنفیہ کے نزدیک اگر ایک ہی مسکین کو 60 دن تک کھانا دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے ، البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک ہی دن اسے 60 دنوں کی خوراک دے دی جائے ۔ لیکن باقی تینوں مذاہب ایک مسکین کو دینا صحیح نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک 60 ہی مساکین کو دینا ضروری ہے ۔ اور یہ بات چاروں مذاہب میں جائز نہیں ہے کہ 60 آدمیوں کو ایک وقت کی خوراک اور دوسرے 60 آدمیوں کو دوسرے وقت کی خوراک دی جائے ۔ و ۔ یہ بات چاروں مذاہب میں سے کسی میں جائز نہیں ہے کہ آدمی 30 دن کے روزے رکھے اور 30 مسکینوں کو کھانا دے ۔ دو کفارے جمع نہیں کیے جا سکتے ۔ روزے رکھنے ہوں تو پورے دو مہینوں کے مسلسل رکھنے چاہییں ۔ کھانا کھلانا ہو تو 60 مسکینوں کو کھلایا جائے ۔ ز ۔ اگر چہ قرآن مجید میں کفارہ طعام کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے ہیں کہ یہ کفارہ بھی زوجین کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ادا ہونا چاہیے ، لیکن فحوائے کلام اس کا مقتضی ہے کہ اس تیسرے کفارے پر بھی اس قید کا اطلاق ہو گا ۔ اسی لیے ائمہ اربعہ نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے کہ کفارہ طعام کے دوران میں آدمی بیوی کے پاس جائے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ جو شخص ایسا کر بیٹھے اس کے متعلق حنابلہ یہ حکم دیتے ہیں کہ اسے از سر جو کھانا دینا ہو گا ۔ اور حنفیہ اس معاملہ میں رعایت کرتے ہیں ، کیونکہ اس تیسرے کفارے کے معاملے میں مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَا سَّا کی صراحت نہیں ہے اور یہ چیز رعایت کی گنجائش دیتی ہے ۔ یہ احکام نقہ کی حسب ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں : فقہ حنفی: ہدایہ ۔ فتح اقدیر ۔ بدایع الصنائع ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ فقہ شافعی: المنہاج للنوَوِی مع شرح مغنی المحتاج ۔ تفسیر کبیر ۔ فقہ مالکی: حادیۃ الد سَوقی علی اشرح الکبری ۔ ہدایۃ المجتہد ۔ احکام القرآن ابن عربی ۔ فقہ حنبلی: المغنی لابن قدامہ ۔ فقہ ظاہری: المحلّیٰ لا بن حزُم ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :12 یہاں ایمان لانے سے مراد سچے اور مخلص مومن کا سا رویہ اختیار کرنا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آیت کے مخاطب کفار و مشرکین نہیں ہیں ، بلکہ مسلمان ہیں جو پہلے ہی ایمان لائے ہوئے تھے ان کو شریعت کا ایک حکم سنانے کے بعد یہ فرمانا کہ یہ حکم تم کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو سننے کے بعد بھی جاہلیت کے پرانے رواجی قانون کی پیروی کرتا رہے اس کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہو گا ۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب زندگی کے کسی معاملہ میں اس کے لیے ایک قانون مقرر کر دے تو وہ اس کو چھوڑ کر دنیا کے کسی دوسرے قانون کی پیروی کرے ، یا اپنے جنس کی خواہشات پر عمل کر تا رہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :13 یہاں کفر سے مراد منکر خدا و رسالت نہیں ہے ، بلکہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول کو ماننے کا اقرار و اظہار کرنے کے بعد بھی وہ طرز عمل اختیار کرے جو ایک کافر کے کرنے کا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ دراصل کافروں کا کام ہے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد بھی اپنی مرضی چلاتے رہیں ، یا جاہلیت کے طریقوں ہی کی پیروی کرتے رہیں ۔ ورنہ سچے دل سے ایمان لانے والا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ یہی بات سورہ آل عمران میں بھی حج کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد فرمائی گئی ہے کہ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ العٰلَمِیْنَ ، اور جو کفر کرے ( یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے ) تو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔ ان دونوں مقامات پر کفر کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ جو شخص بھی ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے تعلق رکھے ، یا یہ سمجھے کہ ظہار ہی سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے ، یا استطاعت کے باوجود حج نہ کرے ، اسے قاضی شرع کافر و مرتد ٹھہرا دے اور سب مسلمان اسے خارج از اسلام قرار دے دیں ۔ بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے لوگوں کا شمار مومنین میں نہیں ہے جو اس کے احکام کو قول یا عمل سے رد کر دیں اور اس امر کی کوئی پروا نہ کریں کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا حدود مقرر کی ہیں ، کن چیزوں کو فرض کیا ہے ، کن چیزوں کو حلال کیا ہے اور کیا چیزیں حرام کر دی ہیں ۔