Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرارا دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] محاصرہ کے وقت مسلمانوں کا درخت کاٹنا اور مخالفین کا شورو غوغا :۔ مدینہ کے گرد بنو نضیر کا ایک نہایت خوبصورت باغ تھا۔ جسے بویرہ کہتے تھے اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو یہ درخت کام میں آڑے آرہے تھے۔ چناچہ جو جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انہیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے اپنی راہ صاف کرلی۔ جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت سیدنا حسان بن ثابتص نے یہ شعر پڑھا۔- وَھَانَ عَلٰی سَرَاۃِ بَنِی لُؤیٍّ ۔۔ حَرِیْقٌ بالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیْرٌ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر)- یعنی بنی لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔- جب راستہ صاف کرنے کی خاطر مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے تو اس پر مخالفین نے ایک شور بپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اصلاح فی الارض کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو بھی کھجوروں کا درخت کاٹا یا اسے اپنی جڑوں پر برقرار رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ رسول اللہ نے مسلمانوں کو جنگ کے موقعوں پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور اسے فساد فی الارض قرار دیا تھا۔ مگر بنو نضیر کی مسلسل بدعہدیوں کی وجہ سے ان کا استیصال ضروری ہوگیا۔ لہذا اس خاص موقعہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی تھی۔ اور چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکور نہیں جس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی ہوتی تھی۔ جسے عموماً وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے جو تخریبی کاروائی جنگی ضروریات کے لیے ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔- [٥] بنو نضیر کا اخراج :۔ بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنو نضیر بھی مدینہ سے جلاوطن اور رسوا کرکے نکال دیئے گئے۔ رہے بنو قریظہ، تو ان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورة احزاب کی آیت نمبر ٢٦ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث میں بھی اجمالاً ان کا ذکر آگیا ہے۔- سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بنونضیر اور بنو قریظہ نے جنگ کی تو آپ نے بنونضیر کو تو جلا وطن کیا اور بنوقریظہ کو وہیں رہنے دیا اور ان پر احسان کیا تاآنکہ بنوقریظہ نے جنگ کی (جنگ احزاب کے بعد) تو آپ نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو پہلے ہی آکر آپ سے مل گئے تھے۔ آپ نے انہیں امن دیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اور آپ نے تمام یہود کو جلاوطن کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام کے قبیلہ بنوقینقاع کے یہود بھی شامل تھے اور بنو حارثہ بھی۔ غرض مدینہ کے سب یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب اجلاء الیہود من الحجاز)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ ۔۔۔۔:” لینۃ “ کے متعلق تین قول ہیں ، ایک یہ کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” لینۃ “ برنی اور عجوہ کے سوا کھجور کا درخت ہے اور تیسرا قول یہ کہ ہر درخت کو ” لینۃ “ کہا جاتا ہے ، کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے اس میں ” لیونۃ “ ( نرمی) پائی جاتی ہے۔ ( شنقیطی) بنو نضیر کی بستیوں کے ساتھ ان کا ایک نہایت خوب صورت باغ تھا جسے ” بویرہ “ کہتے تھے ، اس میں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے (یہ آج کل بھی بویرہ کے نام سے معروف ہے جو مسجد قباء کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ شنقیطی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کیا تو بعض ضرورتوں اور حکمتوں کے پیش نظر بعض درختوں کو کاٹنے کا اور بعض کو جلانے کا حکم دیا اور بعض اسی طرح رہنے دیے ، جیسا کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا :( حرق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخل بنی النضیر وقطع وھی البویرۃ فنزلت :(ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ) (بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی النضیر۔۔۔۔: ٤٠٣١)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا دیئے اور کٹوا دیئے ۔ یہی بویرہ جگہ ہے (جس کا حسان (رض) نے ذکر کیا ہے ، جیسا کہ آگے آئے گا) تو یہ آیت اتری :(مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللہ ِ ) ( الحشر : ٦)” جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا “۔- درختوں کے کاٹنے اور جلانے پر یہود اور منافقین نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) درختوں کو کاٹ کر ” فساد فی الارض “ کا ارتکاب کر رہے ہیں ، جب کہ ان کا دعویٰ اصلاح کا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ تم نے جو بھی درخت کاٹا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے اذن سے تھا ، یعنی اگرچہ جنگ کے موقع پر عام حکم یہی ہے کہ درخت اور کھیت جلانے اور کاٹنے سے اجتناب کیا جائے ، مگر اس موقع پر جو درخت جلائے گئے یا کاٹے گئے یا باقی رہنے دیے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اذن سے ہوا ، اس لیے مخالفین کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔- ٢۔ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ :” الفسقین “ میں بنونضیر کے علاوہ انہیں عہد توڑنے اور لڑائی کے لیے ابھارنے والے یہودی ، مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سبھی شامل ہیں ۔ یعنی کھجوروں کے درخت کاٹنے ، جلانے یا باقی رکھنے کا عمل دوسری بہت سی مصلحتوں کے علاوہ اس لیے بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فاسقوں کو ذلیل کرے۔ کاٹنے اور جلانے میں ان کی تذلیل تو ظاہ رہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی زندگی بھر کی کمائی کو جلایا اور کاٹا گیا مگر وہ کاٹنے اور جلانے والوں کا ہاتھ نہ روک سکے۔ اس میں بنو نضیر، دوسرے یہودیوں ، منافقین مدینہ اور مشرکین مکہ سب کی ذلیل تھی کہ انہوں نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا اور اف تک نہ کرسکے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر حسان بن ثابت (رض) نے مشرکین مکہ پر طنزو تشنیع کے تیر ب راستے ہوئے کہا :- وھان علی سراۃ بنی لوی حریق بالبویرۃ مستطیر - ” بنولوی (قریش) کے سرداروں نے وہ آگ آسانی سے برداشت کرلی جو بویرہ کے مقام پر پھیل رہی تھی ( یعنی انہیں اس پر کوئی غصہ آیا نہ غیرت اور نہ ہی وہ حسب وعدہ بنو نضیر کی مدد کو پہنچے) “۔ ( بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی التضیر۔۔۔: ٤٠٢٢) اور جو درخت باقی رہے ان میں ان سب کی تذلیل یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے قبضے سے چھڑا سکیں۔- ٣۔” وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ “ ( اور تا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے) میں حرف عطف واؤ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبادت محذوف ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اذن اس لیے دیا تا کہ بنو نضیر کے محاصرے کے لیے راستہ صاف ہوجائے ، ان کے لیے کوئی چھپاؤ باقی نہ رہے ، محاصرے میں سختی پیدا کی جائے ، انہیں قلعوں سے نکل کر میدان میں آکر لڑنے پر ابھارا جائے اور تا کہ مسلمانوں کو عزت عطاء فرمائے اور تا کہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔- ٤۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر جنگی ضرورت کا تقاضا ہو تو درختوں اور کھیتوں کو کاٹا، جلایا اور عمارتوں کو گرایا جاسکتا ہے ، بلا ضرورت یہ کام جائز نہیں۔- ٥۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیئے گئے ، کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا کہ ” وہ اللہ کے اذن سے تھا “ وہ ” اذن “ قرآن میں نہیں بلکہ وحی خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہے، جسے حدیث کہتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ وحی الٰہی صرف قرآن تک محدود نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ، لفظ لینہ کجھور کے ہر درخت یا عجوہ کے علاوہ وہ باقی درختوں کے لئے بولا جاتا ہے، بنو نضیر کے باغات کجھور کے تھے جب قلعہ بند ہوگئے تو بعض صحابہ کرام نے ان لوگوں کو غیظ دلانے اور ان پر رعب ڈالنے کے لئے ان کی کھجوروں کے چند درختوں کو کاٹ کر جلا کر ختم کردیا اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے خیال کیا کہ انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی اور یہ درخت اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ آئیں گے تو کیوں ان کو ضائع کیا جائے وہ ان کے کاٹنے جلانے سے باز رہے، یہ ایک رائے کا اختلاف تھا، بعد میں جب آپس میں گفتگو ہوئی تو جن حضرات نے کچھ درخت کاٹے یا جلائے تھے ان کو یہ فکر ہوئی کہ شاید ہم گناہ گار ہوگئے کہ جو مال مسلمانوں کو ملنے والا تھا اس کو نقصان پہنچایا، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے دونوں فریق کے عمل کو جائز و درست فرمایا اور دونوں کو باذن اللہ میں داخل کر کے حکم الٰہی کی تعمیل قرار دیا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم درحقیقت اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے، منکرین حدیث کیلئے تنبیہ :- اس آیت میں ان درختوں کے کاٹنے جلانے یا ان کو باقی چھوڑنے کے دونوں مختلف عملوں کو باذن اللہ فرمایا ہے، حالانکہ قرآن کی کسی آیت میں دونوں میں سے کوئی بھی حکم مذکور نہیں، ظاہر تو یہ ہے کہ دونوں حضرات نے جو عمل کیا، وہ اپنے اجتہاد سے کیا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لی ہو مگر قرآن نے اس اجازت کو جو کہ ایک حدیث تھی اذن اللہ قرار دے کر واضح کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ کی طرف سے تشریع احکام کا اختیار دیا گیا ہے اور جو حکم آپ جاری فرما دیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم میں داخل ہے اس کی تعمیل قرآنی آیات کی تعمیل کی طرح فرض ہے۔- اجتہادی اختلاف کی دونوں جانبوں میں کسی کو گناہ نہیں کہہ سکتے :- دوسرا اہم اصول اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اجتہاد شرعی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان کا اجتہاد کسی مسئلے میں مختلف ہوجائے، ایک فریق جائز قرار دے اور دوسرا ناجائز، تو عنداللہ یہ دونوں حکم درست اور جائز ہوتے ہیں، ان میں سے کسی کو گناہ و معصیت نہیں کہہ سکتے اور اسی لئے اس پر نہی عن المنکر کا قانون جاری نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے کوئی جانب بھی منکر شرعی نہیں اور ولیخزی الفسقین میں درختوں کے کاٹنے یا جلانے والوں کے عمل کی توجیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بھی فساد میں داخل نہیں بلکہ کفار کو ذلیل کرنے کے قصد سے موجب ثواب ہے۔- مسئلہ : بحالت جنگ کفار کے گھروں کو منہدم کرنا یا جلانا اسی طرح درختوں، کھیتوں کو برباد کرنا جائز ہے یا نہیں اس میں ائمہ فقہا کے مختلف اقوال ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ سے بحالت جنگ ان سب کاموں کا جائز ہونا منقول ہے، مگر شیخ ابن ہمام نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت میں ہے جبکہ اس کے بغیر کفار پر غلبہ پانا مشکل ہو، یا اس صورت میں جبکہ مسلمانوں کی فتح کا گمان غالب نہ ہو، تو یہ سب کام اس لئے جائز ہیں کہ ان سے کفار کی طاقت و شوکت کو توڑنا مقصود ہے، یا عدم فتح کی صورت میں ان کے مال کو ضائع کرنا بھی ان کی قوت کو کمزور کردینے کے لئے اس میں داخل ہے (مظہری )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٥- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - لين - اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع .- ( ل ی ن ) اللین - کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- أصل - وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی:- أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح 9] .- ( ا ص ل ) اصل - الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مجتہد اپنے اجتہاد سے دشمن کے باغوں کو اجاڑ دے یا باقی رکھے اسے اختیار ہے - قول باری ہے (ما قطعتم من لیلۃ اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا۔ سو یہ دونوں اللہ ہی کے اذن سے تھا) ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت لینہ کہلاتا ہے البتہ عمدہ قسم کی عجوہ کھجور کا درخت اس میں داخل نہیں ہے۔- مجاہد اور عمرو بن میمون کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت لینہ کہلاتا ہے ……ایک قول کے مطابق کھجور کے عمدہ قسم کے درخت لینہ کہلاتے ہیں۔ ابن جریج نے مجاہد سے آیت کی تفسیر روایت کی ہے کہ بعض مہاجرین نے کھجور کے درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یہ درخت اب مسلمانوں کے مال غنیمت ہیں ۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے روکنے والوں کی تصدیق کردی اور کاٹنے والوں کو گناہ سے آزاد کردیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کاٹنے والوں اور کاٹنے سے انکار کرنے والے دونوں کی تصویب کردی۔ ان سب نے اجتہاد سے کام لے کر یہ طریق کار اختیار کیا تھا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہر مجتہد مصیب یعنی درست کار ہوتا ہے۔ زہری سے مروی ہے انہوں نے عروہ اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابنیٰ پر صبح کے وقت حملہ کرنے اور اسے آگ لگا دینے کا حکم دیا تھا۔- قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جب مرتدین کے خلاف جنگجو کاروائی شروع کی تو آپ نے انہیں قتل بھی کیا، انہیں گرفتار بھی کیا اور اس کے ٹھکانوں کو آگ بھی لگا دی ۔- عبداللہ بن ابی بکر بن عمروبن حزم نے روایت کی ہے کہ بنو نضیر جب قلعہ بند ہوگئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھجوروں کو کاٹنے اور آگ لگا دینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا۔” ابوالقاسم آپ تو تباہ کاری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا) الی آخرہا نازل ہوئی۔- عثمان بن عطاء نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو اسے جو زبانی ہدایت دی گئی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پھل دار درخت نہ کاٹے جائیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے درج بالا روایت کی یہ توجیہ کی ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فتح شام کو جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگا اور وہاں کی زمینیں اور درخت سب مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر مل جائیں گے اس لئے حضرت ابوبکر (رض) نے یہ چاہا کہ وہاں کے درخت وغیرہ مسلمانوں کے لئے باقی رہنے دیے جائیں۔- تاہم مسلمانوں کا لشکر جب دارالحرب پر حملہ آور ہوا اور جنگی کاروائیوں کے بعد وہاں سے واپس ہونے لگے تو بہتر یہی ہے کہ اہل حرب کے درختوں، فصلوں، گھروں کو آگ لگا کر تباہ کردے۔- اہل حرب کے مویشیوں کے متعلق بھی ہمارے اصحاب کا یہی وقل ہے کہ اگر ان مویشیوں کو ہانک کر ساتھ لانا ممکن نہ ہو تو انہیں ذبح کرکے جلا دیا جائے۔ جن چیزوں کے بارے میں لشکر اسلام کو توقع ہو کہ یہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن جائیں گی اگر وہ انہیں اس غرض سے چھوڑ دیں کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں تو ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے اور اگر وہ انہیں مشرکین کو غصہ دلانے کی خاطر آگ لگا دیں تو بھی جائز ہے۔- اس جواز کی دلیل آیت زیر بحث اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ طریق کار ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے سلسلے میں اختیار کیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور رسول اکرم نے ان لوگوں کا محاصرہ کرنے کے بعد اپنے صحابہ کرام کو عجوہ کھجور کے علاوہ ان کے اور کھجور کے درخت کاٹنے کا حکم دیا تو اس پر بنو نضیر نے طعن کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا عجوہ کھجور کے رہنے دیے تو یہ دونوں باتیں اللہ ہی کے حکم سے ہیں تاکہ بنو نضیر کو اللہ تعالیٰ ان کے درخت کٹوا کر ذلیل کرے۔- اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فتح کروا کر اموال بنو نضیر سے اپنے رسول کو دلوا دیے وہ رسول اکرم ہی کے ہیں تم نے نہ اس پر گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ کیوں کہ یہ جگہ مدینہ منورہ سے قریب تھی اس لیے پیادہ ہی چلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد کو یہود اور بنی نضیر پر مسلط کردیا اور وہ کامیاب کرنے اور غنیمت دلوانے پر قادر ہے۔- شان نزول : مَا قَطَعْتُمْ (الخ)- امام بخاری نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے بنی نضیر کے نخلستان کو جلا دیا تھا اور وادی بویرہ کو کاٹ ڈالا تھا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے۔- اور ابو یعلی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے ان کو کھجوروں کے درخت کاٹنے کی اجازت دے دی تھی پھر ان پر سختی فرمائی تو یہ لوگ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم پر گناہ ہے ان درختوں کے بارے میں جن کو ہم کاٹ دیں یا چھوڑ دیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن اسحاق نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے آپ سے بچ کر قلعوں میں پناہ لے لی رسول اکرم نے ان کے نخلستان کاٹنے اور جلا دینے کا حکم دیا تو ان لوگوں نے قلعوں میں سے پکارا محمد آپ فساد سے روکتے تھے اور اسے برا سمجھتے تھے تو پھر درختوں کو کاٹا اور جلایا کیوں جارہا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ - لِینہ ایک خاص قسم کی کھجور کے درخت کو کہتے ہیں۔ یہودیوں کی گڑھیوں اور حویلیوں کے گرد یہ درخت باڑ کی شکل میں کثرت سے موجود تھے۔ مسلمانوں نے جب ان کا محاصرہ کیا تو حملہ کے لیے راستے بنانے کی غرض سے حسب ِضرورت ان میں سے کچھ درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے اس عمل کو ہدفِ تنقید بنایا اور پروپیگنڈا کیا کہ یہ لوگ خود کو مومنین کہتے ہیں اور ان کے قائد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ لیکن ان لوگوں کی اخلاقیات کا معیار یہ ہے کہ پھل دار درختوں کو بھی کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہودیوں کے اس پراپیگنڈے کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود دیا۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مذکورہ اقدام پر اپنی منظوری ( ) کی مہر ثبت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ مسلمانوں نے یہ درخت جنگی ضرورت کے تحت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں کاٹے ہیں۔ چناچہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تو پھر سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے اس کی اجازت دی گئی تھی۔- وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ ’ اب اگلی آیات میں مال فے کا ذکر آ رہا ہے جو اس سورت کا اہم ترین مضمون ہے۔ چناچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مال فے کیا ہے اور یہ مال غنیمت سے کس طرح مختلف ہے ۔ مالِ غنیمت تو وہ مال ہے جو باقاعدہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہو ۔ اس سے پہلے سورة الانفال کی آیت ٤١ میں مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں حکم آچکا ہے۔ اس حکم کے مطابق مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہوگا ‘ جبکہ باقی چار حصے اس جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے مابین تقسیم کردیے جائیں گے ‘ اور اس تقسیم میں سوار کو پیدل کے مقابلے میں دو حصے ملیں گے۔ اس کے برعکس ” مالِ فے “ وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کسی جنگ کے بغیر ہی حاصل ہوجائے ‘ جیسے زیر مطالعہ واقعہ میں باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی ‘ مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور انہوں نے مرعوب ہو کر ہتھیار ڈال دیے۔ چناچہ اس مہم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمینیں اور دوسری تمام اشیاء مال فے قرار پائیں۔ آگے آیت ٧ میں مال فے کے بارے میں واضح کردیا گیا کہ یہ مال ُ کل کا کل اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ اس میں سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے غرباء و مساکین کو تو دیں گے لیکن عام مسلمانوں کو اس میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :9 یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جا سکے ، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا ۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور بنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فساد فی الارض سے منع کرتے ہیں ۔ مگر یہ دیکھ لو ، ہرے بھر ےپھل دار درخت کاٹے جارہے ہیں ، یہ آخر فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا ، ان میں سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں ہے ، بلکہ دونوں کو اللہ کا اذن حاصل ہے ۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کارروائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ہے کہ کسی فوج پر جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملک میں گھس کر کھیت ، مویشی ، باغات ، عمارات ، ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے ۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا ، فصلوں کو خراب نہ کرنا ، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا ۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ۔ ( البقرہ ۔ 205 ) ۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعوا منھا ما کان موضعاً للقتال ، مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ( تفسیر نیسابوری ) ۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا ، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں ، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے ۔ امام اَوزاعی ، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں ۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے ۔ ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی ، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اِذن کی بنا پر جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ، کفار کو مطمئن کرنا سرے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے ۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے ، یا بطور خود ، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا ، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا ، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے ۔ محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضور سے دریافت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضور نے خود اس کا حکم دیا تھا ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے ( ابن جریر ) ۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے ، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں ۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی ( ابن جریر ) ۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے ، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا ( نسائی ) ۔ فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا ۔ ان میں حضور اجتہاد پر عمل فرماتے تھے ۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی ، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی ، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :10 یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی ۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے ، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے ۔ ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا ۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی ۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا ، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں ، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی ۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں ۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے ۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے قلعے کا محاصرہ فرمایا تو آس پاس کے کچھ کھجور کے درخت کاٹنے پڑے تھے، اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ پھل دار درخت کاٹنا مناسب نہیں تھا، اس کے جواب میں اس آیت نے فرمایا کہ جو درخت کاٹے گئے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کاٹے گئے ہیں، اور جنگی حکمت عملی کے طور پر اگر کسی برحق جہاد میں ایسا کرنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔