Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے ۔ فے کس مال کو کہتے ہیں؟ اس کی صفت کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے ۔ فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے ، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گذر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے ، اسے فے کہتے ہیں اور یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا ، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں ، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری روایت میں ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی ، سب اس کے تابع فرمان ۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے ، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے ( سنن و مسند وغیرہ ) ابو داؤد میں حضرت مالک بن اوس سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر ، اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی کا ، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے ، حضرت مالک فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھہرو ، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا ، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا ، پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ ) 59- الحشر:6 ) ، پڑھی اور فرمایا بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی ۔ پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد ابو بکر والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اے عباس تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علی اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر یقیناً راست گو ، نیک کار ، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے ، چنانچہ اس مال کی ولایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی ، آپ کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا ، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا ، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں ، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی ، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے ، حضرت انس کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا ، لیکن یہ سب حضرت ام ایمن کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں ، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں ، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا ، یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورہ انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گذر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ بن بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے ( یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں ) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے ( جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں ) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں؟ آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے ۔ فرمایا ( قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ممانعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل عمل ہیں اب سنو ) خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے ( یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں ) اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو ، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی ، آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے ( حضرت شعیب علیہ السلام ) نے کیا فرمایا تھا ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ 88؀ ) 11-ھود:88 ) یعنی میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں ، مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے ، یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے؟ اور جو قرآن میں موجود ہے ، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا ، آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی ، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ ، نسائی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن میں ، سبز ٹھلیا میں ، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجوریا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت کی ( یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو ، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] اموال فے میں مجاہدین کا حصہ کچھ نہیں :۔ اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ خالصتاً رسول اللہ کے لیے مختص ہوتا تھا جسے آپ اپنی ذات، اپنے گھر والوں رشتہ داروں اور دوسروں میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرتے تھے۔ لیکن جو اموال جنگ کئے بغیر ہی دستیاب ہوجائیں جنہیں اموال فے کہا جاتا ہے، وہ سارے کے سارے رسول اللہ کی تحویل میں دیئے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا عمر کہتے ہیں کہ بنی نضیر کے مال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے لڑائی کے بغیر اپنے پیغمبر کو دلا دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ اس قسم کے مال خاص رسول اللہ کے گنے جاتے تھے۔ ایسے اموال سے آپ اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچ نکال لیتے تھے اور باقی مال جہاد کے سامان کی تیاری اور گھوڑوں (وغیرہ) میں خرچ کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- واضح رہے کہ اس آیت میں افاء کا لفظ آیا ہے۔ فَاءَ (مادہ فئی) کا لغوی معنی بہتری یا اچھی حالت کی طرف لوٹنا یا واپس آنا ہے۔ اور افاء کے معنی لوٹا دینا ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے باغی اور نافرمان اپنے اموال کے حقدار نہیں ہوتے اور اللہ نے یہ اموال اپنے نافرمانوں سے چھین کر اپنے فرمانبرداروں کو پلٹا دیئے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَمَآ اَفَآئَ اللہ ُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ ۔۔۔۔:” فاء یفیء فیئا “ ( ض) جیسا کہ فرمایا :(حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللہ ِ ) ( الحجرات : ٩) ” یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔ “” افاء یفیی “ ( افعال) لوٹانا ۔ ” فے “ ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے ساتھ حاصل ہوں انہیں غنیمت کہا جاتا ہے ( بعض اوقات غنیمت پر بھی فے کا لفظ بول دیا جاتا ہے) ۔ ان اموال کو ” فے “ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کفار کا قبضہ ناجائز ہے ، جب مسلمان انہیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اموال واپس لیتے ہیں ۔” اوجفتم “ ” وجف یجف وجفا ووجیفا “ ( ض) ” الفرش “ گھوڑے کا دوڑنا۔” او جف یوجف ایجافا “ دواڑانا۔ ” خیل “ گھوڑوں کی جماعت۔ ” رکاب “ سواری کے اونٹوں کے لیے اسم جمع ہے۔- ٢۔” وما افاء اللہ علی رسولہ منھم “ اس جملے کا عطف ” ما قطعتم من لینۃ۔۔۔۔ “ پر ہے اور مقصد غزوۂ بنی نضیر میں مسلمانوں کو عطاء ہونے والی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت کا بیان ہے۔- ٣۔ بنو نضیر اپنی جلا وطنی کے ساتھ جو مکان ، باغات اور زمینیں چھوڑ گئے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کے جو اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واپس لوٹائے ہیں ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، کیونکہ تم نے انہیں گھوڑے یا اونٹ دوڑا کر یعنی جنگ کرکے حاصل نہیں کیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ کسی قابل ذکر لڑائی کے بغیر وہ سب اپنے رسول کو عطاء فرما دیئے ہیں ۔ یاد رہے کہ بنو نضیر کی بستیاں مدینہ سے صرف دومیل کے فاصلے پر تھیں اور مسلمانوں نے پیدل جا کر ہی ان کا محاصرہ کرلیا تھا ، صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہو کر گئے اور انہیں نے اس رعب کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا ، جنگ کیے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے حوالے کردیا۔- ٤۔ وَّلٰـکِنَّ اللہ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط ۔۔۔۔۔۔: یعنی بنو نضیر کے اموال پر قبضہ تمہارے گھوڑے یا اونٹ دوڑانے کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے دشمنوں میں سے جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ، وہ اس کے ڈالے ہوئے رعب کی وجہ سے لڑائی کے بغیر ہی اپنے آپ کو حوالے کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔- ٥۔ یہ پہلے اموال تھے جو جنگ کے بغیر محض محاصرے کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔ انہیں اصطلاح میں ” فے “ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بدر میں لڑائی کے نتیجے میں جو اموال حاصل ہوئے انہیں ” غنیمت “ کہا جاتا ہے۔ ان کی تقسیم کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ انفال میں بیان فرما دیا :(وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ) ( الانفال : ٤١)” اور جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے “۔ یعنی اس میں سے پانچواں حصہ اللہ ، اس کے رسول ، ذوی القربیٰ ، یتامی ٰ ، مساکین اور ابن سبیل کے لیے ہوگا اور باقی چار حصے لڑنے والوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ رہے اموال فے جو بنو نضیر سے حاصل ہوئے ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطاء فرمائے ہیں ۔ یہی معاملہ ان تمام بستیوں کا ہے جو بعد میں جنگ کے بغیر حاصل ہوئیں ، مثلاً بنو قریظہ کی بستیاں اور خیبر کے وہ علاقے جو جنگ کے بغیر فتح ہوئے ، مثلاً فدک وغیرہ ، ان سب کو مکمل طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں دے دیا گیا کہ آپ جس کو جتنا چاہیں دے دیں یا اپنے پاس رکھیں ۔ البتہ مستحقین کی چند اقسام متعین کردی گئیں کہ مال کی تقسیم انہی میں رہنی چاہیے۔ ان مستحقین کا بیان اگلی آیت میں فرمایا۔ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا :(کانت اموال بنی النضیر مما افاء اللہ علی رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل ولا رکاب ، فکانت لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاصۃ ، ینفق علی اھلہ منھا نفقۃ سنتہ ، ثم یجعل ما بقی فی السلاح والکراع ، عدۃ فی سبیل اللہ) (بخاری ، التفسیر ، باب قولہ :( ما افاء اللہ علی رسولہ): ٤٨٨٥)” بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور فے عطاء فرمائے تھے ، جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دواڑئے تھے اور نہ اونٹ ، چناچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص تھے ۔ آپ ان میں سے اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دیتے ، پھر جو باقی ہوتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اسلحے اور گھوڑوں میں صرف کردیتے تھے “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اوپر جو بیان ہوا وہ تو بنی نضیر کی جانوں کے ساتھ معاملہ تھا) اور ( ان کے اموال کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کا بیان یہ ہے کہ) جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے دلوا دیا سو ( اس میں تم کو کوئی مشقت نہیں پڑی، چنانچہ) تم نے اس پر (یعنی اس کے حاصل کرنے پر) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (مطلب یہ کہ نہ سفر کی مشقت ہوئی، کیونکہ مدینہ سے دو میل پر ہے اور نہ قتال کی اور برائے نام جو مقابلہ کیا گیا وہ غیر معتدبہ تھا کذافی الروح، اس لئے اس مال میں تمہارا استحقاق تقسیم و تملیک کا نہیں، جس طرح مال غنیمت میں ہوتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو (اپنے دشمنوں میں سے) جس پر چاہے (خاص طور پر) مسلط فرما دیتا ہے (یعنی محض رعب سے مغلوب کردیتا ہے، جس میں کسی کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑتی، چناچہ ان رسولوں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اموال بنی نضیر پر اسی طرح مسلط فرما دیا، اس لئے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں بلکہ اس میں مالکانہ تصرف کرنے کا مکمل اختیار آپ کو ہی ہے) اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے (پس وہ جس طرح چاہے دشمنوں کو مغلوب کرے اور جس طرح چاہے اپنے رسول کو اختیار اور تصرف دے اور جیسا اموال بنی نضیر کا یہ حکم ہے اسی طرح) جو کچھ اللہ تعالیٰ (اسی طور پر) اپنے رسول کو دوسری بستیوں کے (کافر) لوگوں سے دلوادے ( جیسا باغ فدک اور ایک جزو خبیر کا اسی طرح ہاتھ آیا) سو ( اس میں بھی تمہارا کوئی استحقاق ملکیت کا نہیں بلکہ) وہ (بھی) اللہ کا حق ہے (یعنی وہ جس طرح چاہے اس میں حکم دے جیسا کہ اور سب چیزوں میں اس کا اسی طرح کا حق ہے اور تخصیص حصر کے لئے نہیں) اور رسول کا (حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مال میں مالکانہ تصرفات اپنی صوابدید سے کرنے کا اختیار دے دیا ہے) اور (آپ کے) قرابت داروں کا (حق ہے) اور یتیموں کا (حق ہے) اور غریبوں کا (حق ہے) اور مسافروں کا (حق ہے یعنی یہ سب حسب صوابدید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مال کی مصرف ہیں اور ان میں بھی انحصار نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کو اپنی رائے سے دینا چاہیں وہ بھی اس میں شامل ہے اور مذکورہ اقسام کا خاص طور پر ذکر شاید اس لے کیا گیا کہ ان کے بارے میں یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جب شرکاء جہاد کا اس مال میں استحقاق نہیں تو یہ اقسام جو شریک جہاد بھی نہیں ان کا بھی حق نہیں ہوگا، مگر آیت میں ان کا ذکر خاص اوصاف یتیم، غریب، مسافر وغیرہ کے ساتھ کر کے اشارہ کردیا کہ یہ لوگ اپنے ان اوصاف کی وجہ سے اس مال کے مصرف باختیار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو سکتے ہیں، جہاد کی شرکت سے اس کا تعلق نہیں، پھر ان اوصاف میں ایک وصف ذوی القربی ٰ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریبی رشتہ داروں کا بھی ہے، ان کو اس مال میں سے اس لئے دیا جاتا تھا کہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار تھے، ہر مشکل کے وقت کام آتے تھے، یہ حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد منقطع ہوگیا، جیسا کہ سورة انفال میں اس کا بیان آ چکا ہے اور یہ حکم مذکور اس لئے مقرر کردیا) تاکہ وہ (مال فئی) تمہارے مالداروں کے قبضہ میں نہ آجائے ( جیسا جاہلیت میں سب غنائم و محاصل جنگ اصحاب اقتدار کھا جاتے تھے اور فقراء بالکل محروم رہ جاتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول کی رائے پر رکھا اور مصارف بھی بتلا دیئے کہ آپ باوجود مالک ہونے کے پھر بھی اہل حاجت و مواقع مصلحت عامہ میں صرف فرما دیں گے) اور (جب یہ معلوم ہوگیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے پر ہونے میں حکمت ہے تو) رسول تم کو جو کچھ دے دیاکریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز (کے لینے) سے تم کو روک دیں تم رک جایا کرو (اور بعموم الفاظ یہی حکم ہے تمام افعال و احکام میں بھی) اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالیٰ (مخالفت کرنے پر) سخت سزا دینے والا ہے (اور یوں تو فئی میں مطلقاً سب مساکین کا حق ہے لیکن) ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً و ظلماً ) جدا کردیئے گئے ( یعنی کفار نے ان کو اس قدر تنگ کیا کہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے اور اس ہجرت سے) وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضا مندی کے طالب ہیں ( کسی دنیوی غرض سے ہجرت نہیں کی) اور وہ (لوگ) اللہ اور اس کے رسول ( کے دین) کی مدد کرتے ہیں ( اور) یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں اور (نیز) ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو دارالاسلام (یعنی مدینہ) میں اور ایمان میں ان (مہاجرین) کے (آنے کے) قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں (مراد اس سے انصاری حضرات ہیں اور مدینہ میں ان کا پہلے قرار پکڑنا تو ظاہر ہے کہ وہ یہیں کے باشندے تھے اور ایمان میں پہلے قرار پکڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ سب انصار کا ایمان سب مہاجرین سے مقدم ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ مہاجرین کے مدینہ میں آنے سے پہلے ہی یہ حضرات مشرف باسلام ہوچکے تھے، خواہ اصل ایمان ان کا بعض مہاجرین کے ایمان سے مؤخر ہی ہو) جو ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو (مال غنیمت وغیرہ میں سے) جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ ( انصار بوجہ محبت کے) اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور (بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں کہ اطعام وغیرہ میں ان کو) اپنے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو (یعنی خود بسا اوقات فاقہ سے بیٹھے رہتے ہیں اور مہاجرین کو کھلا دیتے ہیں) اور (واقعی) جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جاوے ( جیسے یہ لوگ ہیں کہ حرص اور اس کے مقتضا پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رکھا ہے) ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کا (بھی اس مال فئی میں حق ہے) جو (دارالاسلام میں یا ہجرت میں یا دنیا میں) ان (مہاجرین و انصار مذکورین) کے بعد آئے ( یا آویں گے) جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو ( بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں (خواہ نفس ایمان یا ایمان کامل کہ موقوف ہجرت پر تھا) اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے ( یہ دعاء متقدمین کے علاوہ معاصرین کو بھی شامل ہے) اے ہمارے رب آپ بڑے شفیق رحیم ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٦- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّةوكما قال :إنّما الدّنيا كظلّ زائل والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- وجف - الوجیف : سرعة السّير، وأوجفت البعیر : أسرعته . قال تعالی: فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر 6] وقیل : أدلّ فأمّل، وأوجف فأعجف، أي : حمل الفرس علی الإسراع فهزله بذلک، قال تعالی: قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات 8] أي : مضطربة کقولک : طائرة وخافقة، ونحو ذلک من الاستعارات لها .- ( و ج ف ) الوجیف کے معنی تیز رفتاری کے ہیں اور اوجفت البعیر کے معنی ہیں میں نے اونٹ کو تیز دوڑایا ( قرآن میں ہے : ۔ فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر 6] کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ۔ مثل مشہور ہے ۔ ادل فامل و او جف فاعجف یعنی گھوڑے کو تیز دوڑا کرو بلا کردیا ۔ وجف الشئی کسی چیز کا مضطرب ہون ا۔ قلب واجف مضطرب دل جیسے فرمایا : ۔ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات 8]- خيل - الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل :- كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل - ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مال غنیمت - قول باری ہے (وما آفاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشآء اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فئے دلوایا سو تم نے اس کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہے غلبہ دے دیتا ہے)- فئے رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی سے ایلاء میں ہونے والے رجوع کو فی کہا جاتا ہے۔ چناچہ قول باری ہے (فان فائوا ، اگر وہ رجوع کرلیں) جب کوئی چیز کسی کو واپس کردی جائے تو کہا جاتا ہے ” افلوہ علیہ “ اس نے فلاں چیز اسے لوٹا دی۔- اس مقام پر فئے سے مراد اہل شرک کے وہ اموال ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھ آجاتے ہیں اس لئے مال غنیمت ، جزیہ اور خراج وغیرہ سب فئی میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب اہل شرک کے اموال ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ملکیت میں دے دیتا ہے۔ مال غنیمت اگر چہ فئے کی ایک قسم ہے تاہم اس کے اندر ایک خصوصیت ہوتی ہے جس میں فئی کے تحت آنے والے دوسر اموال اس کے ساتھ شریک نہیں ہوتے۔- وہ خصوصیت یہ ہے کہ اس مال کو اہل حرب سے بزور شمشیر جنگ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور پھر پانچواں حصہ نکالنے کے بعد غانمین کے درمیان حصوں کی صورت میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔- زہری نے مالک بن اوس بن الحدثان سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ” بنو نضیر کے تمام اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فئے کے طور پر دلوائے تھے ان اموال کے لئے مسلمانوں نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ۔ یہ تمام اموال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے اپنے اہل وعیال کو سال بھر کا خرچہ دیتے تھے اور جو کچھ باقی رہ جاتا اس سے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ حاصل کرتے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ فئی کی وہ صورت تھی جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا اس میں کسی کا حق نہیں رکھا گیا تھا، آپ جسے چاہتے دے سکتے تھے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے اپنے اہل وعیال کا سل بھر کا خرچ نکال لیتے اور باقی ماندہ حصے کہ ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کے حصول میں صرف کردیتے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طریقہ اس امر پر مبنی تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کردیا تھا وہ یہ کہ اسے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ اونٹ، مسلمانوں نے اسے بزور شمشیر حاصل نہیں کیا تھا بلکہ صلح کی بنیاد پر یہ سی کچھ حاصل ہوا تھا۔- فدک اور عرینہ کے دیہاتوں کا بھی یہی حکم تھا جیسا کہ زہری نے ذکر کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مال غنیمت سے ” صفی “ بھی حاصل ہوتا تھا یعنی وہ چیز جسے آپ مال غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرلیتے۔ اسی طرح آپ کو خمس میں سے بھی حصہ ملتا تھا۔ اس طرح آپ کو فئی میں سے درج بالا اموال حاصل ہوتے تھے۔- آپ ان سے اپنے اہل وعیال کے اخراجات پورے کرتے اور باقی رہ جانے والے مال کو مسلمانوں کی ضروریات میں صرف کردیتے۔ ان اموال میں کسی کا حق نہیں ہوتا تھا البتہ آپ جسے چاہتے ان میں سے کچھ دے دیتے۔- اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اہل شرک کے جن اموال پر مسلمان بروز شمشیر قبضہ نہ کریں بلکہ صلح کی بناپر ان کے ہاتھ لگیں انہیں بیت المال میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ انہیں جزیہ اور خراج کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔- کیونکہ ایسے مال کی حیثیت وہی ہوگی جو بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کی تھی جس کے حصول کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ اونٹ اور یہ تمام اموال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہوگئے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ وَمَـآ اَفَـآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ ” اور جو مال کہ ہاتھ لگا دیا ہے اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان (بنونضیر) سے “- فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ ” تو (اے مسلمانو ) تم نے اس پر نہیں دوڑائے گھوڑے اور نہ اونٹ “- وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُط ” لیکن مسلط کردیتا ہے اللہ اپنے رسولوں (علیہ السلام) کو جس پر چاہتا ہے۔ “- وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌ ۔ ” اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “- یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت اور قدرت سے بنونضیر کے حوصلے پست کردیے اور انہوں نے تم لوگوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس مہم میں ان کے خلاف تمہیں جنگ تو لڑنا ہی نہیں پڑی۔ لہٰذا تم پر واضح ہونا چاہیے کہ بنونضیر کی جلاوطنی کے نتیجے میں جو مال تمہارے ہاتھ لگا ہے وہ مال غنیمت نہیں ہے۔ اب اگلی آیت میں اس مال کے مصارف کے بارے میں حکم دیاجا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :11 اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا ، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے ، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا ۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ ( جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں ، دراصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں ۔ وہ اگر ان پر قابض و متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے ۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک ، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں ، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے ۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے ( پلٹا کر لائے ہوئے اموال ) قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :12 یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں ، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو ، اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں ، ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے ۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے ۔ اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے ۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں ، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے ، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں ۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ ( تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کارروائی لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں ۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں ۔ یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں ۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں ، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ وغیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں ۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الاَرَضِین والانھار لعُمّالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ۔ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے ( کتاب الخراج لابی یوسف صفحہ 24 ۔ کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59 ۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم ، صفحات 27 ۔ 28 ۔ 148 ) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ( یحیٰ بن آدم ، صفحہ 27 ) ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ( کتاب الخراج ، صفحہ 18 ) ۔ یہی رائے یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے ( صفحہ 27 ) ۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا ، ایک صاحب ، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں ۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے ، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ میں فوج کے ہاتھ آئیں ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْوۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزارھا و تصیر الدار دار الاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ ۔ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے ، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو ، وہ غنیمت ہے ، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دار الاسلام بن گیا ہو ، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے ۔ اس میں خمس نہیں ہے ۔ ( کتاب الاموال ، صفحہ 254 ) ۔ غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں ، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رعب اور ہیبت ہی کی وجہ سے ہوئی ہو ۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسری صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں ۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ وہ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکابٍ کی تعریف میں نہیں آتے ۔ رہے دوسری قسم کے اموال ، تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں ، کیونکہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: ’’فییٔ‘‘ اُس مال کو کہتے ہیں جو کوئی دُشمن ایسی حالت میں چھوڑجائے کہ مسلمانوں کو اس سے باقاعدہ لڑائی کرنی نہ پڑی ہو، بنو نضیر کے یہودیوں کو حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا مال ودولت ساتھ لے جانے کی اجازت دی تھی، اس لئے وہ جو کچھ ساتھ لے جاسکتے تھے، لے گئے ؛ لیکن ان کی جو زمینیں تھیں، ظاہر ہے کہ وہ ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے، اس لئے وہ چھوڑ کر گئے ۔یہ زمینیں مالِ فییٔ کے طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی یہ نعمت یاد دلارہے ہیں کہ یہ مال فیئی اﷲ تعالیٰ نے اُن کو اس طرح عطا فرمادیا کہ مسلمانوں کو باقاعدہ لڑائی کی محنت بھی اُٹھانی نہیں پڑی۔ آیت میں گھوڑوں اور اُونٹوں کو دوڑانے سے مراد لڑائی کی کاروائی ہے۔ اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اس مالِ فییٔ کے مصارف بیان فرمائے ہیں کہ اُسے کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔