[٧] اموال فے بیت المال کی ملکیت ہوتے ہیں :۔ سابقہ آیت میں حکم صرف بنو نضیر کی متروکہ جائیداد سے متعلق تھا۔ اس آیت میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو اموال بھی جنگی کارروائیوں کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں وہ بیت المال کی ملکیت متصور ہوں گے۔ اس میں مجاہدین کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ لہذا یہ اموال، اموال غنیمت سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان اموال پر مسلمانوں کے امیر کا تصرف حاکمانہ ہوتا ہے۔ اور اموال فے کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کے اموال پر ہوگا۔ اموال فے میں وہ جزیہ و خراج کی آمدنی بھی شامل ہے۔ جو ایک اسلامی ریاست کو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اموال فے کے مصارف کی مدات بھی بیان فرما دیں۔ رسول اللہ کی زندگی کے بعد آپ کے قرابتداروں پر خرچ کرنے کی مد باقی ہے یا ختم ہوگئی ؟ اس میں اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ بنو ہاشم اور بنومطلب پر اموال زکوٰۃ حرام ہیں اس لیے ایسے اموال سے ان کے محتاجوں کی خدمت کی جائے گی۔- [٨] اسلام کے معاشی نظام کے چند سنہری اصول :۔ اس مختصر سے جملہ میں اسلام کے معاشی نظام کو یوں بیان کیا گیا ہے جیسے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہو۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ اموال فے کو مجاہدین پر تقسیم نہ کیا جائے۔ جن میں سے اکثر پہلے ہی غنی ہوچکے ہیں محتاج اور مسکین نہیں رہے۔ اور دولت انہی میں تقسیم نہ کردی جائے بلکہ نادار لوگوں تک پہنچائی جائے تاہم اس میں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ غریبوں سے امیروں کی طرف۔ غریبوں سے امیروں کی طرف دولت کے بہاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ سود ہے۔ جس کی تمام تر شکلوں کو مکمل طور پر حرام کردیا گیا ہے۔ اور زکوٰۃ یعنی فرضی صدقہ، واجبی صدقات اور نفلی صدقات جن کا قرآن میں جگہ جگہ حکم اور ان کی ترغیب دی گئی ہے ان سب کا مقصد یہ ہے کہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ سرمایہ داری اور ارتکاز دولت پر اسلام کا قانون میراث کاری ضرب لگاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس کروڑوں اور اربوں کی مالیت بھی ہو تو وہ چند ہی نسلوں میں منتشر ہو کر سینکڑوں افراد میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دولت اگر چند سرمایہ داروں کے پاس جمع ہوجائے تو اس سے طبقاتی تقسیم بڑھتی جاتی ہے امیر دن بدن امیر تر اور غریب دن بدن غریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپس میں ان طبقوں میں منافرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو اور بڑے بڑے فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ دولت جس قدر تیزی سے گردش کرے گی اسی قدر قومی معیشت میں خوشحالی واقع ہوگی۔ تیسرے یہ کہ دولت کی گردش کی رفتار صرف اس وقت تیز ہوتی ہے جبکہ غریبوں کی امداد کرکے ان میں قوت خرید پیدا کی جائے اور اگر دولت امیروں کے پاس جمع ہوتی رہے تو گردش کی رفتار حیرت انگیز حد تک کم ہوجاتی ہے۔ ان امور کی تشریح ان حواشی میں بہت مشکل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے میرا مضمون اسلامی معیشت اور سود مطبوعہ سہ ماہی مجلہ منہاج اسلامی معیشت نمبر جنوری، اپریل ١٩٩٢ ئ - [٩] رسول اللہ کا فرمان یقینی شرعی حجت اور واجب الاتباع ہے :۔ یہ جملہ رسول اللہ کی سنت کو قابل حجت تسلیم کرنے پر قطعی دلیل مہیا کرتا ہے۔ لیکن مشہور منکر حدیث حافظ اسلم صاحب جیرا جپوری نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جملہ تو اموال فے کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ حدیث کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہاں آتیٰ کا لفظ جو نہی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے لوگوں نے غلط فہمی سے اسے امر یا قال کے معنی میں سمجھ لیا۔ حالانکہ یہ لفظ قرآن میں سینکڑوں جگہ آیا ہے اور کہیں ان معنوں میں مستعمل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہر جگہ اس کے معنی اعطاء یعنی دینے کے ہی ہیں۔ لہذا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (مقام حدیث ص ١٢٦)- اب دیکھیے کہ اتیٰ بمعنی اِعْطَاء ُ کی ضد منع ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اور نھیٰ کی ضد امر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نھیٰ کے مقابلہ میں امر کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ گویا حافظ صاحب صرف اپنے نظریہ کی تائید کے لیے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض فرما رہے ہیں کہ نھیٰ کے معنی نہ دینا کبھی نہیں ہوتا۔ پھر اگر قرآن کریم میں فی الواقع اتٰکُمْ کے مقابلہ نَھٰکُمْ کا لفظ ہی استعمال ہوتا تو بھی اسے اس خاص واقعہ یعنی مال فے کی تقسیم سے متعلق ہی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام اصول ہے کہ کسی خاص واقعہ میں کوئی حکم آجائے تو یہ حکم عام ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُم، کے مقابلہ میں نَھٰکُمْ کا لفظ استعمال کرکے اس شائبہ کو بالکل ہی ختم کردیا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس خاص واقعہ یا اسی جیسے بعد میں آنے والے دوسرے واقعات سے ہوسکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُمْ کے مقابلہ میں نَھَاکُمْ کا لفظ لا کر ایک طرف تو اس پیش آمدہ مسئلہ کا حل پیش کردیا اور دوسری طرف اس حکم میں ایسی عمومیت پیدا کردی جس سے صرف وہی لوگ لذت آشنا ہوسکتے ہیں جو عربی زبان کا کچھ ذوق رکھتے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ اصل میں غلط فہمی کا شکار کون ہے تو اس کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔- منکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب عبداللہ بن مسعود (رض) کی وضاحت :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ آپ نے گودنے والی، گدوانے والی، خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔ یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کی کنیت ام یعقوب تھی۔ وہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آکر کہنے لگی : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے انہوں نے کہا : میں تو اس پر ضرور لعنت کروں گا جس پر نبی اکرم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اس پر لعنت آئی ہے اس عورت نے کہا : میں نے تو سارا قرآن، جو دو تختیوں کے درمیان ہے، پڑھ ڈالا ہے، اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی آپ نے کہا : اگر تو نے (اچھی طرح) قرآن پڑھا ہوتا تو ضرور یہ مسئلہ پالیتی۔ کیا تو نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تمہیں حکم دے اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کرے اس سے باز رہو ؟ اس عورت نے کہا : ہاں یہ آیت تو قرآن میں موجود ہے سیدنا عبداللہ کہنے لگے۔ بس آپ نے ان باتوں سے منع کیا ہے وہ کہنے لگی : تمہاری بیوی بھی تو یہ کام کرتی ہے انہوں نے کہا : جاکر دیکھو تو جب وہ گئی تو وہاں کوئی بات نہ پائی۔ سیدنا عبداللہ (رض) کہنے لگے : اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی ؟ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تھے یا قبلہ حافظ صاحب ؟ پھر ام یعقوب نے جو اگر صحابیہ نہیں تو تابعیہ تو ضرور ہوگی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کا یہ استدلال سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو مال فے کی تقسیم سے متعلق ہے اور اٰتٰی کے معنی اعطاء ہوتا ہے بلکہ اس نے میں سمجھ گئی کا اقرار کرکے صحابہ کرام (رض) کے سمجھے ہوئے مفہوم کی تائید کردی۔ صحابہ میں یہ فہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منتقل ہوا۔ پھر صحابہ سے تابعین میں، ان سے تبع تابعین میں پھر محدثین میں، آخر وہ کون سا دور ہے جس میں اس مفہوم کو درست نہ سمجھا گیا ہو۔ جسے حافظ صاحب لوگوں کی غلط فہمی قرار دے رہے ہیں۔ اور وہ مفہوم یہ ہے کہ سنت رسول بھی شریعت کا حصہ ہے نیز یہ کہ صحابہ کرام (رض) ایسے احکام کو کتاب اللہ میں ہی شمار کرتے تھے۔- نیز آپ نے فرمایا کہ : عنقریب تم میں ایک پیٹ بھرا شخص اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے میری حدیثیں سن کر یہ کہے گا کہ ہمارے تمہارے درمیان قرآن (کافی) ہے اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال اور حرام کیے ہوئے کو حرام سمجھو۔ یاد رکھو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی (ترمذی۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد۔ بیہقی دارمی بحوالہ مشکٰوۃ) واضح رہے آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کے احکام بھی کسی صورت بجا نہیں لائے جاسکتے۔ لہذا جو شخص سنت یا حدیث کی حجیت کا قائل نہ ہو وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ بلکہ اسے بننا پڑتا ہے۔
١۔ مَآ اَفَآئَ اللہ ُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی :” القریٰ “ میں الف لام عہد کا ہے ، اس لیے ترجمہ ” ان بستیوں “ کیا گیا ہے۔- ٢۔ فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی ۔۔۔۔: اس آیت میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو اموال بھی جنگی کاروائیوں کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں وہ بیت المال کی ملکیت تصور ہوں گے ، ان میں سے مجاہدین کو کچھ نہیں ملے گا ، کیونکہ یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس اجتماع قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطاء فرمائی ہے۔ لہٰذا یہ اموال اموال غنیمت سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ، انہیں اموال فے کہا جاتا ہے اور ان کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کے اموال پر ہوگا ۔ اموال فے میں جزیہ و خراج کی آمدنی بھی شامل ہے جو ایک اسلامی ریاست کو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کی تقسیم کا مکمل اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطاء کیا گیا اور آپ کے بعد یہ اختیار مسلمانوں کے امیر کو حاصل ہوتا ہے ، جسے وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ مدات میں خرچ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اموال فے کی وہ مدات بھی بیان فرما دیں جہاں انہیں خرچ کیا جائے گا ۔ یہ وہی مدات ہیں جن میں اموال غنیمت کا خمس خرچ کیا جاتا ہے، اموال فے کا خمس نہیں بلکہ وہ پورے کے پورے انہی میں خرچ کیے جائیں گے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ انفال (٤١) کی تفسیر۔- ٣۔ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ ط :” دولۃ “ ” دال یدول دولۃ “ ( ن) ” الزمان “ زمانے کا ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنا ، جیسا کہ فرمایا :(وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ج ) ( آل عمران : ١٤٠)” اور یہ تو دن ہیں ، ہم انہیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ “” دولۃ “ وہ چیز جو ایک دوسرے سے لی جائے ، کبھی اس کے پاس ہو کبھی اس کے پاس ۔- ” تا کہ مال فے تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا ہو “ ۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ اموال فے کو مجاہدین پر تقسیم نہ کیا جائے ، جن کے اکثر پہلے ہی غنی ہوچکے ہیں ، محتاج اور مسکین نہیں رہے ، بلکہ انہیں نادار لوگوں تک پہنچایا جائے ، تا ہم اس میں اسلام کے معاشی نظام کی بنیاد بھی بیان کردی گئی ہے کہ مسلمانوں میں دولت کا بہاء فقراء سے اغنیاء کی طرف نہیں ہوتا کہ دولت مند زیادہ سے زیادہ دولت مند اور غریب زیادہ سے زیادہ غریب ہوتے چلے جائیں ، بلکہ دولت کا بہاؤ اغنیاء سے فقراء کی طرف ہوتا ہے اور اس سے پورے معاشرے کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ سود ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دے دیا ۔ دولت کی تقسیم کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی ، اموال غنیمت میں سے خمس نکالنے کا حکم دیا گیا ، مال فے سارا ہی پانچ مدات میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ، نفلی صدقات کی بار بار تلقین کی گئی ، بہت سی فروگزداشتوں پر کفارے رکھے گئے اور میراث کا ایسا قانون بنادیا کہ ہر مرنے والے کی دولت یکجا رہنے کے بجائے پھیل جائے۔ بخل کی شدید مذمت کی گئی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ۔ ان احکام پر عمل کیا جائے تو دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو ہی نہیں سکتی۔- ٤۔ وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج : سلسلہ ـ کلام کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اموال فے میں سے رسول تمہیں جو کچھ دے وہ لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ ۔ آپ کے فیصلے کو کسی چون و چرا اور ملال کے بغیر تسلیم کرلو ، چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ یہ تھا کہ بنو نضیر کے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کردیئے جائیں ، تا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں ، تو گویا انصار سے کہا جا رہا ہے کہ اگر رسول کسی موقع پر تمہیں نہ دے تو مطالبہ نہ کرو ، یہ رسول کی صواب دید پر ہے کہ وہ تمام مستحقین کو دے یا بعض کو زیادہ مستحق سمجھ کر دے اور دوسروں کو نہ دے۔ سیاق کے مطاب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مگر آیت کے الفاظ عام ہیں ، اس لیے یہ صرف اموال کی تقسیم تک محدود نہیں بلکہ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ ہر معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ” ما اتا کم الرسول فخذوہ وما منعکم فلا تاخدوہ “ کہ رسو ل تمہیں جو دے وہ لے لو اور جو نہ دے وہ نہ لو ، بلکہ فرمایا جس سے روک دے اس سے رک جاؤ ، جس سے منع کر دے اس سے باز آجاؤ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد آپ کے حکم کی اطاعت ہے، چناچہ اس آیت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو مستقل قانون کی حیثیت دے دی ہے اور یہ شرط نہیں رکھی کہ وہی حکم مانو جو قرآن مجید میں ہو ، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حکم بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو واجب العمل ہے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( دعونی ما ترکتکم ، انما ھلک من کانا قبلکم بسوالھم واختلافھم علی انبیائھم ، فاذا نھیتکم عن شی فاجتنبوہ ، واذ ا امرتکم بامر فاتوا منہ ما استطعم) ( بخاری ، الاعتصام ، بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء ، بسنن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٧٢٨٨)” مجھے اس وقت تک رہنے دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں ، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے سوال اور ان سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ۔ تو جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے دور رہو اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا کرسکتے ہو کرو۔ “ اور جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن مسعود (رض) نے بھی اس آیت سے یہی بات صحیح ہے ، چناچہ ان کے شاگرد علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا : ( لعن اللہ الواشمات والموتشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن ، المغیرات خلق اللہ) ” اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو جلد میں سوئی کے ساتھ نیل بھر کر نقش و نگار بنانے والی ہیں اور جو بنوانے والی ہیں اور جو چہرے کے بال اکھاڑنے والی ہیں اور جو خوب صورتی کے لیے سامنے کے دانتوں میں فاصلے بنانے والی ہیں ، اللہ کی پیدا کردہ شکل کو بدلنے والی ہیں “۔ بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی : ” مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے فلاں فلاں کا م کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے ؟ “ تو انہوں نے فرمایا :” میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب میں موجود ہے ؟ “ اس عورت نے کہا :” میں نے دو تختیوں کے درمیان جتنا قرآن ہے سارا پڑھا ہے ، مگر مجھے اس میں یہ بات نہیں ملی جو آپ کہہ رہے ہیں “۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” اگر تم اسے پڑھتی تو تمہیں ضرور مل جاتی ، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا :(وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج )” اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ “۔ اس نے کہا : ” کیوں نہیں ؟ “ فرمایا :” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے “۔ اس نے کہا :” میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ کے گھر والے یہ کام کرتے ہیں “۔ فرمایا :” جاؤ اور دیکھو “۔ وہ گئی ، دیکھا مگر اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز دکھائی نہ دی ، تو ( ابن مسعود (رض) نے ) فرمایا :” اگر وہ ( میری بیوی) ایسی ہوتی تو ہمارے ساتھ نہ رہتی “۔- (بخاری، التفسیر ، باب :( وما اتاکم الرسول فخذوہ): ٤٨٨٦)- ٥۔ وَاتَّقُو اللہ َط اِنَّ اللہ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : یعنی اللہ سے ڈرتے رہو اور یادر کھو اگر تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل نہ کی یا آپ کے منع کردہ سے باز نہ آئے تو اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔
معارف و مسائل - (آیت) وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ الآیہ، لفظ افاء فئی سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، اس لئے دوپہر کے بعد جو چیزوں کا سایہ مشرق کی طرف لوٹتا ہے اس کو بھی فئی کہا جاتا ہے، اموال غنیمت جو کفار سے حاصل ہوتے ہیں ان سب کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے باغی ہوجانے کی وجہ سے ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوجاتے ہیں اور ان کی ملکیت سے نکل کر پھر مالک حقیقی حق تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لئے ان کے حاصل ہونے کو افا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے اموال کو فئی ہی کہا جاتا، مگر جو مال جہاد و قتال کے ذریعہ حاصل ہوا اس میں انسانی عمل اور جدوجہد کو بھی ایک قسم کا دخل ہے، اس لئے اس کو تو لفظ غنیمت سے تعبیر فرمایا گیا ، (آیت) واعلموا انما غنمتم من شیئ، لیکن جس کے حصول میں جہاد و قتال کی بھی کوئی ضرورت نہ پڑی اس کو لفظ فئی سے تعبیر فرمایا گیا، اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ جو مال بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا ہے وہ مجاہدین و غانمین میں مال غنیمت کے قانون کے مطابق تقسیم نہیں ہوگا، بلکہ اس میں کلی اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہوگا جس کو جتنا چاہیں عطا فرما دیں یا اپنے لئے رکھیں، البتہ یہ پابندی لگا دی گئی کہ چند اقسام مستحقین کی متعین کردی گئیں کہ اس مال کی تقسیم انہیں اقسام میں دائر رہنی چاہئے، اس کا بیان اگلی آیت میں اس طرح فرمایا (آیت) مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى، اس میں اہل قریٰ سے مراد بنو نضیر اور ان جیسے دوسرے قبائل بنو قریظہ وغیرہ ہیں جن کے اموال بغیر قتال کے حاصل ہوئے، آگے مصارف و مستحقین کی پانچ قسمیں بتلائی گئیں ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے۔- آیات مذکوہ میں فئی کے احکام، اس کے مستحقین اور ان میں تقسیم کا طریقہ کار بیان فرمایا ہے سورة انفال کے شروع میں مال غنیمت اور فئی کا فرق واضح طور پر بیان ہوچکا ہے کہ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو کفار سے جہاد و قتال کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے اور فئی وہ مال ہے جو بغیر جہاد و قتال کے ان سے حاصل ہو، خواہ اس طرح کہ وہ اپنا مال چھوڑ کر بھاگ گئے یا رضا مندی سے بصورت جزیہ و خراج یا تجارتی ڈیوٹی وغیرہ کے ذریعہ ان سے حاصل ہوتا ہے۔- اس کی کچھ تفصیل شروع سورة انفال میں معارف (القرآن جلد چہارم صفحہ 174 میں اور مزید تفصیل اسی سورة انفال کی آیت 41 کے تحت معارف القرآن جلد چہارم صفحہ 236 میں لکھی جا چکی ہے )- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سورة انفال کی آیت 41 میں جو الفاظ خمس غنیمت کے متعلق آئے ہیں تقریباً وہی الفاظ یہاں مال فئی کے بارے میں ہیں، سورة انفال میں ہے (آیت) واعلموآ انما غنمتم من شی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل۔- ان دونوں آیتوں میں مال کے حقداروں میں چھ نام ذکر کئے گئے، اللہ، رسول، ذوی، القربیٰ ، یتیم، مسکین، مسافر، یہ ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ تو دنیا و آخرت اور تمام مخلوقات کا مالک حقیقی ہے، اس کا نام مبارک تو حصوں کے بیان میں محض تبرکاً اس فائدہ کے لئے ہے کہ اس سے اس مال کی شرافت و فضیلت اور حلال و طیب ہونے کی طرف اشارہ ہوجائے، حسن بصری، قتادہ، عطاء، ابراہیم، شعبی اور عام مفسرین کا یہی قول ہے (مظہری )- اللہ جل شانہ کا نام ذکر کرنے سے اس مال کی فضیلت و شرافت کی طرف اشارہ کس طرح ہوا اس کا تفصیلی بیان سورة انفال کی تفسیر میں ہوچکا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے لئے مال صدقہ جو مسلمانوں سے حاصل ہوتا ہے، وہ بھی حلال نہیں فرمایا، مال غنیمت اور فئی جو کافروں سے حاصل ہو اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کیسے حلال ہوا ؟ اس شبہ کا ازالہ اللہ جل شانہ کا نام اس جگہ ذکر کر کے اس طرح کیا گیا کہ درحقیقت ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس نے اپنے فضل سے ایک خالص قانون کے تحت انسانوں کو حق ملکیت دیا ہے، لیکن جو انسان باغی ہوجائیں ان کو صحیح راستہ پر لانے کے لئے اول تو انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی ہدایات بھیجی گئیں جو ان سے بھی متاثر نہیں ہوئے ان کو یہ حق دیا گیا کہ کم از کم اسلامی قانون کی اطاعت قبول کرلیں اور مقررہ جزیہ و خراج اپنے مال میں سے حکومت کو ادا کیا کریں، جن لوگوں نے اس سے بھی بغاوت کی ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال کا حکم ہوگیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی جان اور مال قابل احترام نہیں، ان کے اموال بحق حکومت الٰہیہ ضبط ہوگئے اور بذریعہ جہاد و قتال جو مال ان سے حاصل ہوا وہ کسی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں رہا بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملک میں واپس ہوگیا اور لفظ فئی میں اس مفہوم کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اس کے اصلی معنی لوٹنے ہی کے ہیں، اس مال کو فئے اس لئے کہا گیا کہ یہ اصل مالک حقیقی اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی طرف لوٹ گیا اب اس میں کسی انسانی ملکیت کا کوئی دخل نہیں، اس کے بعد جن مستحقین کو اس میں کوئی حصہ دیا جائے گا یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا، اس لئے ایسا ہی حلال طیب ہوگا جیسے پانی اور خود اگنے والی گھاس جو براہ راست حق تعالیٰ کا عطیہ انسان کے لئے ہے اور حلال طیب ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام اس جگہ ذکر کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ یہ سارا مال دراصل اللہ کا ہے، اس کی طرف سے مستحقین کو دیا جاتا ہے، یہ کسی کا صدقہ و خیرات نہیں۔- اب مستحقین اور مصارف کل پانچ رہ گئے، رسول، ذوی القربیٰ ، یتیم، مسکین، مسافر یہی پانچ مصارف مال غنیمت کے خمس کے ہیں، جس کا بیان سورة انفال میں آیا ہے اور یہی مصارف مال فئی کے ہیں اور دونوں کا حکم یہ ہے کہ یہ سب اموال درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے مکمل اختیار میں ہوتے ہیں وہ چاہیں تو ان سب اموال کو عام مسلمانوں کے مفاد کے لئے روک لیں اور بیت المال میں جمع کردیں، کسی کو کچھ نہ دیں اور چاہیں تقسیم کردیں، البتہ تقسیم کئے جاویں تو ان پانچ اقسام میں دائر رہیں (قرطبی)- خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام کے تعامل سے ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تو مال فئی آپ کے اختیار میں تھا، آپ کی صواب دید کے مطابق صرف کیا جاتا تھا، آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے اختیار اور صواب دید پر رہا۔- پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حصہ اس مال میں رکھا گیا تھا وہ آپ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا ذوی القربیٰ کو اس مال میں سے دینے کی دو وجہ تھیں، ایک نصرت رسول یعنی اسلامی کاموں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنا، اس لحاظ سے اغنیاء ذوی القربیٰ کو بھی اس میں حصہ دیا جاتا تھا۔- دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوی القربیٰ پر مال صدقہ حرام کردیا گیا ہے، تو ان کے فقراء و مساکین کو صدقہ کے بدلہ میں مال فئی سے حصہ دیا جاتا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد نصرت و امداد کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو یہ وجہ باقی نہ رہی، اس لئے اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی حصہ رسول کی طرح ختم ہوگیا، البتہ فقراء ذوی القربیٰ کا حصہ بحیثیت فقر و احتیاج کے اس مال میں باقی رہا اور وہ اس مال میں دوسرے فقراء و مساکین کے مقابلہ میں مقدم رکھے جاویں گے (کذا فی الہدایہ) اس کی پوری تفصیل سورة انفال میں آ چکی ہے۔- كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ، دولة، بضم دال اس مال کو کہا جاتا ہے جس کا آپس میں لین دین کیا جائے (قرطبی) (معنی آیت کے یہ ہیں کہ مال فئی کے مستحقین اس لئے متعین کردیئے) تاکہ ” یہ مال تمہارے مالداروں اور توانگروں میں گردش کرنے والی دولت نہ بن جائے “۔ اس میں اشارہ اس رسم جاہلیت کو مٹانے کی طرف ہے جس میں اس طرح کے تمام اموال پر رئیس خود قابض ومالک ہوجاتا تھا، غریبوں، مسکینوں کے حق کا اس میں کوئی حصہ نہ رہتا تھا۔ - اکتناز دولت پر اسلامی قوانین کی ضرب کاری :- حق تعالیٰ رب العالمین ہے، اس کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے انسانی ضروریات میں تمام انسانوں کا یکساں حق ہے، اس میں مومن و کافر کا بھی فرق نہیں کیا گیا، خاندانی اور طبقاتی امیر و غریب کا کیا امتیاز ہوتا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تقسیم دولت کا بہت بڑا حصہ جو انسان کی فطری اور اصل ضروریات پر مشتمل ہے اس کی تقسیم خود اپنے دست قدرت میں رکھ کر اس طرح فرمائی ہے کہ اس سے ہر طبقہ ہر خطہ ہر کمزور و قوی یکساں فائدہ اٹھا سکے، ایسی اشیاء کو اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے عام انسانی دستبرد اور قبضہ و تسلط سے مافوق بنادیا ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس پر ذاتی قبضہ جما سکے، ہوا، فضا، آفتاب، ماہتاب اور سیاروں کی روشنی، فضاء میں پیدا ہونے والے بادل ان کی بارش، یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیر انسان تھوڑی دیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا، ان سب کو قدرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایسا وقف عام بنادیا کہ کوئی بڑی سے بڑی حکوت و طاقت اس پر قبضہ نہیں جما سکتی، یہ چیزیں اللہ کی مخلوق کو ہر جگہ یکساں ملتی ہیں۔- اشیاء ضرورت کی دوسری قسم زمین سے نکلنے والا پانی اور کھانے کی چیزیں ہیں، یہ اگرچہ اتنی عام نہیں مگر اسلامی قانون میں پہاڑوں اور غیر آباد جنگلوں اور قدرتی چشموں کو وقف عام چھوڑ کر ایک خاص قانون کے تحت خاص خاص انسانوں کو زمین کے بعض حصوں پر جائز حق ملکیت بھی دیا جاتا ہے اور ناجائز قبضہ و تسلط جمانے والے بھی زمین پر قبضہ جما لیتے ہیں، لیکن قدرتی طور پر زمین کے فوائد کوئی بڑا سرمایہ دار بھی بغیر غریبوں، کسانوں، مزدوروں کو ساتھ لئے حاصل نہیں کرسکتا، اس لئے ایک گونہ قبضہ کے باوجود وہ اس میں دوسرے کمزور غریبوں کو حصہ دینے پر مجبور ہے۔- تیسری قسم سونا، چاندی، روپیہ پیسہ ہے، جو اصلی اور فطری ضروریات میں داخل نہیں، مگر حق تعالیٰ نے اس کو تمام ضروریات کی تحصیل کا ذریعہ بنادیا ہے اور یہ معاون سے نکالنے کے بعد خاص قانون کے تحت نکالنے والوں کی ملکیت ہوجاتا ہے اور ان سے ان کی ملکیت مختلف طریقوں پر دوسروں کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے اور اگر اس کی گردش پورے انسانوں میں خاطر خواہ ہوتی رہے تو کوئی انسان بھوکا ننگا نہیں رہ سکتا مگر ہوتا یہ ہے کہ مال سے صرف خود ہی فائدہ اٹھائے، دوسروں تک اس کا فائدہ نہ پہنچے، اس بخل و حرص نے دنیا میں اکتناز دولت اور سرمایہ پرستی کے پرانے اور نئے بہت سے طریقے ایجاد کرائے، جن کے ذریعہ اس دولت کی گردش صرف سرمایہ داروں اور بڑے لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی، عام غریب مساکین محروم کردیئے گئے جس کے رد عمل نے دنیا میں کمیونزم اور سوشلزم جیسے نامعقول طریقے ایجاد کئے۔- اسلامی قانون نے ایک طرف تو شخصی ملکیت کا اتنا احترام کیا کہ ایک شخص کے مال کو اس کی جان کے برابر اور جان کو بیت اللہ کی حرمت کے برابر قرار دیا اس پر کسی کے ناجائز تصرف کو شدت سے روکا، دوسری طرف جو ہاتھ ناجائز طور پر اس کی طرف بڑھا وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا، تیسری طرف ایسے تمام دروازے بند کردیئے کہ قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی چیزوں پر کوئی خاص شخص یا جماعت قبضہ کر کے بیٹھ جائے اور عوام کو محروم کر دے۔- کسب و اکتساب کے مروجہ طریقوں میں سود، سٹہ، جوا ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے ذریعہ دولت سمٹ کر چند افراد و اشخاص میں دائر ہو کر رہ جاتی ہے، ان سب کو سخت حرام قرار دے کر تمام معاملات تجارت اور کرایہ داری وغیرہ میں ان کی جڑ کاٹ دی اور جو دولت کسی شخص کے پاس جائز طریقوں سے جمع ہوئی اس میں بھی غریبوں فقیروں کے حقوق، زکوٰة، عشر، صدقتہ الفطر، کفارات وغیرہ مقرر فرائض کی صورت میں اور اس سے زائد رضا کارانہ صورت میں قائم فرما دیئے اور ان سب اخراجات کے بعد بھی جو کچھ انسان کے مرنے کے وقت تک باقی رہ گیا اس کو ایک خاص حکیمانہ اصول کے مطابق تقسیم کردیا کہ اس کا حق دار اسی مرنے والے کے رشتہ داروں کو اقرب فالا قرب کے اصول پر بنادیا اس کو عام فقراء میں تقسیم کرنے کا قانون اس لئے نہ بنایا کہ ایسا ہوتا تو مرنے والا اپنے مرنے سے پہلے ہی اس کو جا بےجا خرچ کر کے فارغ ہونے کی خواہش طبعی طور پر رکھتا، اپنے ہی خویش و عزیز کو ملتا دیکھ کر یہ داعیہ اس کے دل میں پرورش نہ پائے گا۔- یہ طریقہ تو کسب و اکتساب کے عام مروجہ طریقوں میں اکتناز دولت سے بچانے کا اختیار کیا، دوسرا طریقہ دولت حاصل ہونے کا جنگ و جہاد ہے، اس سے حاصل ہونے والے اموال میں وہ تقسیم شرعی جاری فرما دی جس کا ذکر کچھ سورة انفال میں گزرا ہے اور کچھ اس سورت میں بیان ہوا ہے، کیسے بےبصیرت ہیں وہ لوگ جو اسلام کے اس منصفانہ، عادلانہ اور حکیمانہ نظام کو چھوڑ کر نئے نئے ازموں کو اختیار کر کے امن عالم کو برباد کرتے ہیں۔- وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الایة، یہ آیت اگرچہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں آئی ہے اور اس سلسلے کے مناسب اس کا مفہوم یہ ہے کہ مال فئی میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مستحقین کے طبقات بیان کردیئے ہیں مگر ان میں کس کو اور کتنا دیں اس کی تعیین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صواب دید پر رکھی ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس آیت میں ہدایت دی گئی کہ جس کو جتنا آپ عطا فرما دیں اس کو راضی ہو کرلے لیں اور جو نہ دیں اس کی فکر میں نہ پڑیں، آگے اس کو اتقوا اللہ کے حکم سے موکد کردیا کہ اگر اس معاملے میں کچھ غلط حیلے بہانے بنا کر زائد وصول کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے وہ اس کی سزا دے گا۔- حکم رسول مثل حکم قرآن کے واجب التعمیل ہے :- لیکن الفاظ آیت عام ہیں، صرف اموال کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ احکام بھی اس میں داخل ہیں، اس لئے عام انداز میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی حکم یا مال یا اور کوئی چیز آپ کسی کو عطا فرما دیں وہ اس کو لے لینا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کے لئے تیار ہوجانا چاہئے اور جس چیز سے روک دیں اس سے رکنا چاہئے۔- بہت سے صحابہ کرام نے اسی عام مفہوم کو اختیار کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کو اس آیت کی بنا پر قرآن ہی کا حکم اور واجب التعمیل قرار دیا ہے، قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں اتی کے بالمقابل نہیٰ کا لفظ آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آتیٰ کے معنی یہاں امر کے ہیں جو نہیٰ کا صحیح مقابل ہے (اھ) اور قرآن کریم نے نہیٰ کے مقابل میں امر کے لفظ کو چھوڑ کر آتیٰ کا لفظ استعمال شاید اس لئے فرمایا تاکہ جس مضمون کے سیاق میں یہ آیت آئی ہے یعنی مال فئی کی تقسیم اس پر بھی آیت کا مضمون شامل رہے۔- حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اتار دو ، اس شخص نے کہا کہ آپ اس کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتاسکتے ہیں ؟ جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہو، حضرت ابن مسعود نے فرمایا ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں، پھر یہی آیت وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ پڑھ کر سنا دی، امام شافعی نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے ہر سوال کا جواب قرآن سے دے سکتا ہوں، پوچھو جو کچھ پوچھنا ہے، ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک محرم نے زنبور (تتنیا) مار ڈالا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ امام شافعی نے یہی آیت وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ تلاوت کر کے حدیث سے اس کا حکم بیان فرما دیا (قرطبی)
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ٠ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ٠ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ٠ ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ٠ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ٧ ۘ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّةوكما قال :إنّما الدّنيا كظلّ زائل والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- وابن السبیل للمسافر،- دولة- الدَّوْلَة والدُّولَة واحدة، وقیل : الدُّولَة في المال، والدَّوْلَة في الحرب والجاه . وقیل :- الدُّولَة اسم الشیء الذي يتداول بعینه، والدَّوْلَة المصدر . قال تعالی: كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر 7] ، وتداول القوم کذا، أي : تناولوه من حيث الدّولة، وداول اللہ كذا بينهم . قال تعالی: وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران 140] ، والدّؤلول :- الدّاهية والجمع الدّآلیل والدّؤلات - ( د و ل ) الدولۃ والدلۃ ۔ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی گردش کرنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ دولۃ کا لفظ مال وزور کے گھومنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور دولۃ لڑائی اور عزت دجاہ کے اولےٰ بدلنے پر ۔ بعض نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ دولۃ اسم ہے اور اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ لین دین کیا جائے اور دولۃ بضم الدال مصدر ہے یعنی لین دین کرنا قرآن میں ہے : ۔ كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ [ الحشر 7] تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے ۔ تداول القوم کذا کسی چیز کو دولت کیطرح باری باری لینا ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان اسے گما یا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ [ آل عمران 140] اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں اولتے بدلتے رہتے ہیں ۔ الدؤلول بڑی مصیبت ج الدآلیل والدؤ لاء۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔
قول باری ہے (ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئے دلوادے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا) تا آخر آیت - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اس فئے کا حکم بیان کیا جس کے حضول کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ ہی اونٹ اور پھر اس فئے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص کردیا تھا جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں بیان کر آئے ہیں۔- پھر اس فئے کا ذکر ہوا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے تھے۔ اس فئے کو اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ اصناف کے لئے مخصوص کردیا۔ یہ پانچ اصناف ہیں جن کا ذکر دوسری آیات میں بھی ہوا ہے۔ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ نمانمین کا اس فئے میں کوئی حصہ نہ ہو اور صرف ان غانمین کو حصہ ملے جو ان پانچ اصناف کے ذیل میں آتے ہیں۔- قتادہ کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں مال غنیمت ان پانچ اصناف کے لئے تھا لیکن پھر قول باری (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت ملے اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے) تا آخر آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جب عراق فتح کرلیا تو کچھ صحابہ کرام نے اس سرزمین کو غانمین کے درمیان تقسیم کردینے کا مطالبہ کیا ان میں حضرت زبیر (رض) اور حضرت بلال (رض) وغیرہما بھی شامل تھے۔ حضرت عمر (رض) نے انہیں جواب میں یہ فرمایا تھا کہ اگر میں عراق کو غانمین میں تقسیم کردوں تو آخر میں آنے والوں کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ حضرت عمر (رض) نے ان حضرات کے مقابلہ میں آیت زیر بحث سے تاقول باری (والذین جاو وا من بعدھم، اور ان لوگوں کا بھی حق ہے کو ان کے بعد آئے) استدلال کیا تھا۔ آپ نے اس سلسلے میں حضرت علی (رض) اور صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت سے مشورہ بھی کیا تھا۔- ان حضرات نے یہی مشورہ دیا تھا کہ عراق کی سرزمین غانمین میں تقسیم نہ کی جائے، یہاں کے باشندوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا جائے اور ان پر خراج عائد کردیا جائے۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے اسی پر عمل کیا اور صحابہ کی جماعت نے آیت زیر بحث سے استدلال میں آپ کی موافقت کی تھی۔- اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ اسے مفتوحہ سر زمینوں کے سلسلے میں غنیمت والی آیت کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ اگر امام المسلمین مفتوحہ سر زمین کی تقسیم کو مسلمانوں کے لئے زیادہ فائدہ مند اور بہتر سمجھے تو اسے تقسیم کردے اور اگر اس سر زمین پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھنے اور ان سے خراج وصول کرنے کو زیادہ سود مند دیکھے تو اس پر عمل کرلے۔- کیونکہ ایٓت زیر بحث کا حکم خراج وصول کرنے کے سلسلے میں اگر ثابت نہ ہوتا اور اس کے اول وآخر کی حیثیت یکساں نہ ہوتی تو صحابہ کرام (رض) حضرت عمر (رض) سے اس کا ضرور ذکر کرتے اور انہیں یہ بتاتے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔- لیکن جب ان حضرات نے آیت کے نسخ سے حضرت عمر (رض) کے مقابلہ میں استدلال نہیں کیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت کا حکم ان حضرات کے نزدیک ثابت تھا اور ان کی نظروں میں اس کے ساتھ حضرت عمر (رض) کا استدلال درست تھا۔- اس طرح دونوں آیتوں کو جمع کرنے کی صورت میں یہ مفہوم حاصل ہوا۔ جان لو جو کہ کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے ، اراضی کے سوا اموال میں اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور اراضی میں اللہ کے لئے پانچواں حصہ ہوگا۔ اگر امام المسلمین ایسا کرنا پسند کرے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جو اراضی بطور فئے دلوائے وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہوگی اگر امام المسلمین ان اراضی کو ان کے مالکوں کے قبضے میں رہنے دینا چاہیے۔ “ یہاں رسول (اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ذکر کا مقصد یہ ہوگا کہ یہ معاملہ آپ کو تفویض کردیا گیا ہے آپ جس شخص کو مناسب سمجھیں اس کا مصرف قرار دیں۔- حضرت عمر (رض) نے آیت زیر بحث کے الفاظ (کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم تاکہ وہ امال فی تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے) نیز (والذین جاوا من بعد ھم) اسے استدلال کرتے ہوئے فرمایا تھا ” اگر میں اس سرزمین کو غانمین کے درمیان تقسیم کردوں تو یہ تمہارے دولتمندوں ہی کے قبضے میں آجائے گی اور ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں رہے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (والذین جائوا من بعدھم) کے ذریعے اس میں ان لوگوں کا حق بھی رکھا ہے۔ “- جب حضرت عمر (رض) کی رائے میں آیت زیر بحث کی دلالت کا حکم برقرار رہا منسوخ نہیں ہوا۔ اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ اس امر میں اتفاق کیا کہ سرزمین عراق کے باشندوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھ کر ان سے خراج وصول کیا جائے تو آپ نے حضرت عثمان بن حنیف (رض) اور حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) کو زمینوں کی پیمائش کے لئے عراق روانہ کردیا۔- چنانچہ ان دونوں حضرات نے وہاں جاکر زمینوں کی پیمائش کرنے کے بعد ان پر متعین اندازوں کے مطابق خراج عائد کردیا اور گردنوں یعنی افراد پر جزیہ لگا دیا۔ جزیہ عائد کرنے کے سلسلے میں ان دونوں حضرات نے لوگوں کے تین طبقے بنادیے، ایک طبقہ وہ تھا جو سالانہ بارہ درہم ادا کرتا تھا، دوسرا چوبیس درہم اور تیسرا اڑتالیس درہم۔ حضرت عمر (رض) کے اس انتظام میں بعد میں آنے والے ائمہ مسلمین نے کوئی ردوبدل یا ترمیم وتنسیح نہیں کی۔ اس طرح اس انتظام پر سب کا اتفاق ہوگیا۔- مفتوحہ زمینوں کے بارے میں احکام - جن سرزمینوں کی بزور شمشیر فتح کیا جائے ان کے احکام کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام المسلمین کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو اس سرزمین کو اس کے باشندوں اور مال ودولت سمیت پانچواں حصہ نکالنے کے بعد غانمین کے درمیان تقسیم کردے اور اگر چاہے تو اس پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھے اور خراج عائد کردے۔- اس صورت میں یہ سرزمین اس کے باشندوں کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے لئے اس کیبیع وشراء جائز ہوگی۔- امام مالک کا قول ہے کہ جس سرزمین پر صلح ہوگئی ہو اگر اہل صلح اسے فروخت کریں تو ان کی یہ فروخت جائز ہوگی اور جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو اسے کوئی شخص نہیں خریدے گا۔ اس لئے کہ اہل صلح میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے وہ اپنی زمینوں اور اپنے مال کے زیادہ حق دار ہوں گے ۔ جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو وہاں کے باشندوں میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے وہ مسلمان ہونے کی بنا پر اپنی جانیں محفوظ کرلیں گے لیکن ان کی زمینیں مسلمانوں کی ہوں گی۔ کیونکہ ان کی پوری سرزمین مسلمانوں کے لئے فئے بن جاتی ہے۔ - امام شافعی کا قول ہے کہ جس سرزمین پر بزور شمشیر قبضہ کیا گیا ہو اس کا پانچواں حصہ وہاں کے باشندوں کو دے دیا جائے اور باقی چار حصے غانمین کو مل جائیں گے۔ پھر جو شخص بخوشی اپنے حق سے دست بردار ہوجائے گا۔ امام المسلمین کو اسے ان پر وقف کردینے کا اختیار ہوگا۔ اور جو شخص بخوشی دست بردار نہیں ہوگا وہ اپنے مال کا زیادہ حق دار قرار پائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مفتوحہ سر زمین یا تو غانمین کو دے دی جائے گی اور امام المسلمین کو اسے کسی حالت میں بھی ان سے الگ رکھنے کا اختیار نہیں ہوگا الایہ کہ کوئی شخص اپنے حق سے بخوشی دست بردار ہوجائے یا یا امام المسلمین کو یہ اختیار ہوگا کہ اس سرزمین پر وہاں کے باشندوں کو برقرار رکھتے ہوئے زمین پر خراج عائد کردے اور لوگوں پر جزیہ لگادے جس طرح حضرت عمر (رض) ے عراق کے دیہی علاقوں کے سلسلے میں طریقہ کار اختیار کیا تھا۔- جب تمام صحابہ کرام نے حضرت عمر (رض) کے اس اقدام کی تصویب کی تھی جو انہوں نے ارض سواد (عراق کے دہی علاقوں) کے انتظام کے سلسلے میں اٹھایا تھا، اگرچہ بعض حضرات نے ابتدا میں غانمین کے حق کو ساقط کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن پھر سب اس انتظام پر متفق ہوگئے تھے۔- تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غانمین نہ تو مفتوحہ سرزمین کی اور نہ ہی وہاں کے باشندوں کی گردنوں کی ملکیت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ البتہ اگر امام المسلمین ایسا کرنا پسند کرے تو پھر انہیں ملکیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اگر غانمین کو مفتوحہ سر زمین کی ملکیت حاصل ہوجاتی تو حضرت عمر (رض) انہیں چھوڑ کر دوسروں کو اس کا مالک قرار نہ دیتے۔- اور آپ نے قول باری (کید یکون دولۃ بین الاغنیآء منکم) نیز (والذین جآئو ا من بعدھم) سے جو استدلال کیا تھا غانمین اس استدلال کو ہرگز تسلیم نہ کرتے ۔ لیکن جب تمام لوگوں نے آیت سے حضرت عمر (رض) کے اس استدلال کو تسلیم کرلیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غانمین مفتوحہ سرزمین کی ملکیت کے حق دار نہیں ہوتے الایہ کہ امام المسلمین انہیں اس کی ملکیت دینا پسند کرے۔- نیز اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ امام المسلمین کو مشرکین کے قیدیوں کو قتل کردینے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ انہیں زندہ رکھ کر غانمین کے درمیان تقسیم بھی کرسکتا ہے۔ اگر ان قیدیوں میں غانمین کی ملکیت کا ثبوت ہوجاتا تو پھر امام المسلمین کو غانمین کے دوسرے اموال کی طرح ان قیدیوں کو تلف کرنے کا اختیار نہ ہوتا۔- جب امام المسلمین کو درج بالا دونوں اختیارات حاصل ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ک مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد غانمین کو نہ تو گردنوں کی اور نہ ہی زمینوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے الایہ کہ امام المسلمین ایسا کرنا چاہے۔- اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے سفیان ثوری نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے بشیر بن یسار سے اور انہوں نے سہل بن ابی حثمہ سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک حصے کی آمدنی اپنی ضروریات کے لئے مخصوص کردی تھی اور دوسرے حصے کو مسلمانوں کے درمیان اٹھارہ حصے فی کس کے حساب سے تقسیم کردیا تھا۔- اگر پورا خیبر غانمین کی ملکیت ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے نصف کو اپنی ضروریات کے لئے مخصوص نہ کرتے حالانکہ خیبر بزور شمشیر فتح ہوا تھا اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ آ نے مکہ بزور شمشیر فتح کیا تھا اور اس کے باشندوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں وہاں برقرار رہنے دیا تھا۔- اس طرح آیت کی دلالت ، اجماع سلف اور سنت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ امام المسلمین کو مفتوحہ زمینوں کو غانمین کے درمیان تقسیم کردینے یا انہیں وہاں کے باشندوں کی ملکیت میں رہنے دینے اور خراج عائد کردینے کا اختیار حاصل ہے۔- اس پر سہل بن صالح کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” عراق نے اپنے قفیز (ایک پیمانہ) اور درہم کی ادائیگی روک دی ، شام نے اپنے مد (ایک پیمانہ) اور دنیار کی اور مصر نے اپنے اردب (ایک بڑا پیمانہ) اور دینار کی۔ اور پھر اسی طرح ہوگئے جس طرح پہلے تھے۔ “- یہ روایت سنا کر حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا۔ اس روایت کی صداقت پر ابوہریرہ (رض) کا گوشت اور اس کا خون گواہ ہیں۔ “ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ زمینوں میں اللہ کے واجب حقوق کی ادائیگی سے لوگ با زرہیں گے اور اس طرح حقوق اللہ کی عدم ادائیگی کی بنا پر وہ زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ آئیں گے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے۔- یہ بات حضرت عمر (رض) کے اس طریق کار اور پالیسی کی صحت پر دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عراق کی زمینوں کے متعلق اختیار کیا تھا۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان زمینوں پر جو خراج عائد کیا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا ایسا حق ہے جس کی ادائیگی واجب تھی۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے سواد عراق کے متعلق حضرت عمر (رض) کی جس پالیسی کا ذکر کیا ہے اس پر اجماع نہیں ہوا تھا کیونکہ حبیب بن ابی ثابت وغیرہ سے ثعلبہ بن یزید الجمانی سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت علی (رض) کے پاس دیوان خانے میں گئے۔- حضرت علی (رض) نے ان سے فرمایا اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے لگ جائو گے تو میں عراق کی ساری دیہی زمینیں تمہارے درمیان تقسیم کردیتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سلسلے میں حضرت علی (رض) کے متعلق جو درست روایت ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کو سواد عراق تقسیم نہ کرنے اور وہاں کے باشندوں کو ان زمینوں پر برقرار رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔- اس لئے حضرت علی (رض) سے معترض نے جو روایت نقل کی ہے وہ اس پس منظر میں درست نہیں معلوم ہوتی۔ اس لئے کہ انہوں نے جب لوگوں کو خطاب کرکے یہ بات کہی تھی وہ یا تو وہی تھے جنہوں نے سواد عراق کو فتح کیا تھا اور اس بناء پر وہ اس کی ملکیت اور تقسیم کے حق دار بن گئے تھے اور امام المسلمین کو اس بارے میں کوئی اختیار نہیں تھا یا مخاطب وہ لوگ تھے جنہوں نے سواد عراف کو فتح نہیں کیا تھا یا حضرت علی (رض) نے لشکر کو یہ بات کہی تھی جس میں ملے جلے لوگ تھے، یعنی وہ بھی جو عراق کی فتح میں شریک تھے اور وہ بھی جو اس میں شریک نہیں تھے۔- اب جو لوگ فتح میں شریک نہ ہوئے ان سے یہ بات کہنی درست ہی نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ مال غنیمت غانمین کے سوا دوسروں کو دے دیا جائے۔ اور غانمین کو اس سے خارج کردیا جائے یا یہ کہ ان میں ملے جلے لوگ ہوں یعنی ایسے بھی جو فتح میں شریک ہوکر غنیمت کے حق دار بنے تھے اور ایسے بھی جو فتح میں شریک نہیں ہوئے تھے۔- یہ بھی پہلی صورت کی طرح ہے کیونکہ جو لوگ فتح میں شریک نہ ہوئے ہوں ان کے لئے مالی غنیمت میں حصہ مقرر کرنا اور مال غنیمت کو ان کے اور شریک ہونے والوں کے درمیان تقسیم کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ یا یہ کہ حضرت علی (رض) نے یہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو سواد عراق کی فتح میں شریک تھے دوسرے لوگ ان میں شامل نہیں تھے۔- اگر یہ بات اس طرح تھی اور یہی لوگ سوادعراق کے حق دار تھے، دوسرے نہیں تھے۔ نیز امام المسلمین کو اس بارے میں کوئی اختیار بھی نہ تھا تو پھر اس صورت میں حضرت علی (رض) کے لئے ان لوگوں کا حق دوسروں کو دے دینا جائز ہی نہ تھا۔- تاکہ اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کی گردن اتارنے پر آمادہ ہوجاتے کیونکہ حضرت علی (رض) کے تقویٰ اور پرہیزگاری سے یہ توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ جس حق کی حفاظت اور نگرانی کا فریضہ آپ پر عائد تھا اس میں کوتاہی کرتے ہوئے آپ وہ حق غیر مستحق کے قبضے میں چلے جانے کی اجازت دے دیتے۔- نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے صرف ان لوگوں کو مخاطب نہیں بنایا تھا جنہوں نے سواد عراق کو فتح کیا تھا۔ اس خطاب کی صرف ان لوگوں کے ساتھ تخصیص نہیں تھی بلکہ دوسرے بھی اس میں شامل تھے اور یہ یبات اسی روایت کے فساد کی دلیل ہے۔- مفتوحہ زمینوں کی ملکیت کے متعلق درج بالا سطور میں ہمارے بیان کردہ اصول کے ثبوت کے بعد نیز حضرت عمر (رض) اور تمام صحابہ کرام سے اس روایت کی صحت کے بعد جس کے مطابق آپ نے سواد عراق تقسیم نہیں کیا تھا بلکہ وہاں کے باشندوں کو ان زمینوں پر برقرار رکھ کر ان پر خراج عائد کردیا تھا، حضرت عمر (رض) کے انتظام کی نوعیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔- کچھ لوگ تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کو ان کی ملکیتوں پر برقرار رہنے دیا تھا، ان کے اموال ان کے قبضے میں رہنے دیے تھے اور انہیں غلام قرار نہیں دیا تھا۔ یہی وہ بات ہے جو ہم نے اس سلسلے میں اپنے اصحاب کے مسلک کے متعلق بیان کی ہے۔- کچھ دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آپ نے ان لوگوں کو ان کی اراضی پر اس شرط کے ساتھ برقرار رکھا تھا کہ یہ لوگ اپنی اراضی سمیت مسلمانوں کے لئے فئے تھے اور انہیں ان کی زمینوں کی ملکیت حاصل نہیں تھی۔ بعض دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آپ نے انہیں آزاد قرار دے کر ان کی زمینوں پر برقرار رکھا تھا اور ان کی زمینیں مسلمانوں کے مصالح کی خاطر وقف تھیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہل سواد میں سے جو شخص مسلمان ہوجاتا وہ آزاد ہوتا اور کوئی شخص اسے غلام نہیں بناسکتا تھا۔ حضرت علی (رض) کے متعلق روایت ہے کہ آپ کے عہد خلافت میں ایک دہقان یعنی زمیندار مسلمان ہوگیا تو آپ نے اس سے فرمایا تھا کہ اگر تم اپنی زمین پر قابض رہنا چاہو تو ہم تم سے جزیہ ہٹالیں گے اور تمہاری زمین سے جزیہ یعنی خراج لیں گے اور اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو گے تو ہم اس زمین کے زیادہ حق دار ٹھہریں گے۔- اسی قسم کی روایت حضرت عمر (رض) کے متعلق بھی ہے۔ نہرالملک کے علاقے کی ایک زمیندار فی جب مسلمان ہوگئی تو آپ نے اس سے یہی بات فرمائی تھی۔ اگر سواد عراق کے باشندے غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے ان سے غلامی زائل نہ ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ ان دونوں حضرات نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو تو ہم اس زمین کے زمین حق دار قرار پائیں گے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قول سے ان دونوں حضرات کا دراصل مقصد یہ تھا کہ اگر وہ اپنی زمینوں کو آباد رکھنے سے عاجز رہیں تو ہم انہیں آبادکریں گے اور فصلیں کاشت کریں گے تاکہ ان زمینوں پر واجب ہونے والے مسلمانوں کے حقوق یعنی خراج معطل ہوکر رہ جائیں۔- ہمارے نزدیک امام المسلمین ان لوگوں کو اراضی کے متعلق یہی اقدام کرے گا جو انہیں آبا د کرنے سے عاجز ہوجائیں۔ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل سواد میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں وہ آزاد ہوں گے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ان کے اراضی بھی ان کی ملکیت کے تحت ہوں گی جس طرح ان کی گردنیں اصل حالت یعنی آزادی پر برقرار رکھی گئی تھیں۔- ہمارے مخالفین کے نزدیک امام المسلمین کے لئے جس بنا پر یہ بات جائز ہے کہ وہ ان کی گردنوں سے غانمین کے حق کو منقطع کرکے ان کی زمینوں کو مسلمانوں کے لئے وقف کردے اور ان زمینوں کا خراج مسلمانوں کے مصالح میں صرف کرے اسی بنا پر اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ ان زمینوں پر ان کی ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا خراج مسلمانوں کے مصالح میں صرف کرے۔- کیونکہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان زمینوں سے ان پر قابضین کی ملکیت کی نفی کردیں جبکہ مسلمانوں کو ان زمینوں کی ملکیت کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ دولتوں حالتوں میں مسلمانوں کو صرف وہاں کے خراج پر حق حاصل ہوتا ا ہیں ان زمینوں کی ملکیت کا حق حاصل نہ ہوتا۔- یحییٰ بن آدم نے حسن بن صالح کی طرف سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے تو یہ سن رکھا ہے کہ جس مال پر مسلمان قتال کے ذریعے بزور شمشیر غالب آجائیں وہ مال غنیمت کہلاتا ہے اور جو مال صلح کی بنا پر حاصل ہو وہ فئے کہلاتا ہے۔- رہ گیا سواد عراق کا مسئلہ تو ہم نے اس کے متعلق سن رکھا ہے کہ پہلے نبطیوں کے قبضے میں تھا پھر اہل فارس اس پر قابض ہوگئے اور نبطی انہیں خراج ادا کرتے رہے۔ جب اہل فارس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے سواد عراق کی نیز جنگ نہ کرنے والے دہقانوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے مردوں پر جزیہ عائد کردیا اور ان کے قبضے میں جو زمینیں تھیں ان کی پیمائش کرکے ان پر خرا ج عائد کردیا۔ جو زمین کسی کے قبضے میں نہیں تھی اس پر خود قبضہ کرلیا اور یہ زمین امام المسلمین کے لئے ” صفی “ (مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے امام المسلمین اپنے لئے اس میں سے جو چیز الگ کرے وہ صفی کہلاتی ہے) بنی گئی۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حسن بن صالح نے گویا یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اہل فارس کی مملکت میں نبطی لوگ آزاد شہریوں کی حیثیت سے رہتے تھے اس لئے ان کی زمینوں پر ان کی ملکیت بحال تھی۔ پھر جب مسلمان اہل فارس یعنی ایرانیوں پر غالب آگئے اور ان ایرانیوں نے ہی مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا۔ نبطیوں نے مقابلہ نہیں کیا تھا تو ان کی زمینیں اور گردنیں اسی حالت پر باقی رہنے دی گئیں جس پر یہ ایرانیوں کے زمانے میں تھیں۔- چونکہ ان نبطیوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ نہیں لیا تھا اس لئے ان کی زمینیں اور گردنیں صلح کی بنا پر حاصل ہونے والی زمینوں کے معنی میں ہوگئیں۔ البتہ اگر یہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیتے تو اس صورت میں مسلمان ان کی زمینوں اور گردنوں کے مالک بن جاتے۔- حسن بن صالح کی یہ توجیہ اس صورت میں احتمال کے درجے میں قابل قبول ہوسکتی تھی۔ اگر حضرت عمر (رض) اپنے ان رفقاء کے مقابلہ میں جنہوں نے آپ سے سواد عراق کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا کتاب اللہ کی دلالت سے استدلال نہ کرتے۔ حضرت عمر (رض) نے جو استدلال کیا تھا وہ حسن بن صالح کی بیان کردہ توجیہ سے بالکل مختلف تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر (رض) نے سواد عراق کی اجارہ کے طور پر وہاں کے باشندوں کے حوالے اس لئے کردیا تھا کہ غانمین نے بطیب خاطر اس بات کو قبول کرلیا تھا۔ اجرت کو خراج کا نام دیا جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الخراج بالضمان خراج یعنی اجرت اور آمدنی کا استحقاق تاوان کی ذمہ داری کی بنیاد پر ہوتا ہے) آپ کی اس سے مراد خرید شدہ غلام کی اجرت ہے جب اسے عیب کی بنا پر واپس کردیا جائے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات کنی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے سواد عراق پر خراج عائد کرنے اور اسے غانمین کے درمیان تقسیم نہ کرنے کے سلسلے میں غانمین کی رائے اور ان کی رضامندی معلوم نہیں کی تھی۔ بلکہ آپ نے صرف صحابہ کرام سے مشورہ کیا تھا اور جن حضرات نے تقسیم کا مطالبہ کیا تھا ان کے سامنے اپنی بات کو دلائل سے واضح کردیا تھا۔- اگر حضرت عمر (رض) غانمین کی رضامندی اور ان کی خوشی معلوم کرتے تو یہ بات بھی روایات کے ذریعے اسی طرح منقول ہوتی ہے جس طرح رفقاء کے ساتھ آپ کی بحث واستدلال اور مراجعت منقول ہوئی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات منقول ہوئی ہے اور اس کا ذکر بھی ہے۔ اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” ہم لوگوں کے سردار تھے۔ ہمیں حضرت عمر (رض) نے سواد عراق کا چوتھائی عطا کیا تھا۔ ہم تین سالوں تک یہ چوتھائی ادا کرتے رہے۔- پھر جریر حضرت عمر (رض) کے پاس آئے ، آپ نے ان سے کہا : ” بخدا اگر میں تقسیم کرنے والا نہ ہوتا اور اس تقسیم کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو تم لوگ اسی طرح چوتھائی وصول کرتے رہتے جس طرح پہلے وصول کرتے رہے لیکن اب میرا خیال یہ ہے کہ تم لوگ اسے مسلمانوں کو واپس کردو۔ “- چنانچہ جریر نے ایسا ہی کیا اور حضرت عمر (رض) نے انہیں انعام کے طور پر اسی دینار دیے۔ پھر ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی امیر المومنین میری قوم نے آپ کے ساتھ ایک بات پر مصالحت کرلی ہے لیکن میں اس مصالحت پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گی جب تک آپ میری مٹھی سونے سے نہ بھردے گے، ایک نرم رفتار اونٹ اور ایک سرخ رنگ کی جھالردار چادر نہ دیں گے۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے یہ چیزیں اس عورت کو دے دیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ دلیل موجود نہیں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے انہیں زمینوں کی ملکیت بھی عطا کردی تھی۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے انہیں پہلے خراج کا چوتھائی عطا کیا تھا بعد میں یہ مناسب سمجھا کہ انہیں خراج کی بجائے صرف ان کے وظائف دیے جائیں جو تمام لوگوں کو دیے جاتے تھے تاکہ سب کے ساتھ یکسانیت کا برتائو ہوجائے۔- یہاں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کی رضامندی حاصل کرکے یہ قدم اٹھایا تھا جب کہ آپ نے یہ واضح کردیا تھا کہ آپ کی رائے میں ان سے اب یہ مراعات واپس لے کر مسلمانوں پر لوٹا دی جائے اور یہ بھی واضح کردیا تھا کہ آپ کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ آپ کے خیال میں یہ بات مسلمانوں کے حق میں بہتر اور زیادہ سود مند تھی۔- رہ گیا عورت کا معاملہ تو آپ نے یہ چیزیں اسے بیت المال سے دی تھیں کیونکہ آپ کے لئے ایسا کرنا جائز تھا ۔ آپ لوگوں کے قبضے سے سواد عراق کا خراج وغیرہ واپس لئے بغیر بھی انہیں بیت المال سے دے سکتے تھے۔ معترض کا یہ کہنا کہ خراج اجرت ہے کئی وجوہ سے غلط ہے۔- ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجارہ اگر ایک مدت کے لئے ہو تو جب تک مدت معلوم نہ ہو یہ درست نہیں ہوتا۔ نیز اہل سواد یا تو غلام تھے یا آزاد ، اگر غلام تھے تو آقا کا اپنے غلام سے اجارہ کرنا جائز نہیں ہوتا اور اگر آزاد تھے تو پھر کیسے جائز ہوگیا کہ ان کی گردنیں تو اصل جزیہ پر رہنے دی جاتیں اور ان کی اراضی ان کی ملکیت میں نہ رہنے دی جاتی۔- نیز اگر وہ غلام ہوتے تو ان کی گردنوں کا جزیہ لینا جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غلاموں پر کوئی جزیہ نہیں ہوتا۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کھجور اور دوسرے درختوں کا اجارہ جائز نہیں ہوتا جبکہ حضرت عمر (رض) نے کھجور کے درختوں نیز دوسرے اشجار کا خراج وصول کیا تھا جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ خراج اجرت نہیں ہے۔- خراجی زمین اور اس کا اجارہ - خراجی زمین کی خرید اور اسے اجارہ پر لینے کے جواز کے بارے میں فقہا، کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اوزاعی کا بھی یہی قول ہے امام مالک نے کہا ہے کہ میں خراجی زمین اجارہ پر لینے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ شریک نے بھی خراجی زمین کی خریداری کو مکرو سمجھا ہے انہوں نے کا ہے کہ خراجی زمین خرید کہ اپنی گردن پر ذلت نہ سوار کرلو۔- طحاوی نے ابن ابی عمران سے اور انہوں نے سلیمان بن بکار سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے المعانی بن عمران سے خراجی زمین میں فصل کاشت کرتے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے منع کردیا۔ اس پر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ خو د خراجی زمین میں کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا، بھتیجے برائی کی بات میں تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان خراجی زمین کرایہ پر لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس طرح ان کے جانوروں کو کرایہ پر لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔- امام شافعی نے یہ کہا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث (لا ینبغی لمسلم ان یودی الخراج ولا لمشرک ان یدخل المسجد الحرام کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ خراج ادا کرے اور کسی مشرک کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ مسجد حرام میں داخل ہوجائے) میں جزیہ کا خراج مراد ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے خراجی زمین خریدی تھی، حضرت ابن مسعود (رض) کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لاتت نروا الضیعۃ فترغبوا فی الدنیا زمینیں حاصل نہ کرو کہ پھر تمہیں دنیا سے رغبت پیدا ہوجائے گی ) حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا تھا۔” رازان کی بات رازان میں ہے اور مدینہ کی بات مدینہ میں ہے۔ “ حضرت ابن مسعود (رض) کی راذان میں زمین تھی اور رازذان خراج کا علاقہ تھا۔- یہ بھی روایت ہے کہ حضرت علی (رض) کے بیٹوں حضرت حسن (رض) اور حسین (رض) نے سواد عراق میں زمینیں خریدی تھیں۔ یہ بات دو معنوں پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ یہ زمینیں وہاں آباد لوگوں کی ملکیت تھیں اور دوسری بات یہ کہ مسلمان کے لئے ان کی خریداری مکروہ نہیں تھی۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے اہل خراج میں سے مسلمان ہوجانے والوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر یہ اپنی زمینوں پر آباد رہیں تو ان کی زمینوں سے خراج وصول کیا جائے گا۔- حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ذمیوں کی زمین کی خریداری کو ناپسند کیا تھا۔ انہوں نے یہ کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ذمی کافر کے گلے میں جو چیز لٹکادی ہے اسے اپنے گلے میں نہ لٹکائو۔ “ حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ ان کا قول ہے۔” اپنے گلے میں ذلت کو آویزاں نہ کرو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زمین کا خراج ذلت نہیں ہے کیونکہ ہمیں سلف کے مابین اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر ذمی کے قبضے میں خراجی زمین ہو اور وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی زمین سے خراج بدستور وصول کیا جائے گا۔ البتہ اس کے سر سے جزیہ ختم ہوجائے گا۔ اگر خراج میں ذلت ہوتی تو اسلام لانے کی وجہ سے اس سے خراج ساقط ہوجاتا ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (منعت العواق قفیزھا ودرھمھا عراق نے اپنے قفیر (ایک پیمانہ) اور اپنے درہم کی ادائیگی روک دی) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر بھی واجب ہے کیونکہ آپ نے یہ بتایا کہ مسلمان مستقبل میں اللہ کا حق ادا کرنے سے باز رہیں گے۔ - آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی ہے (وعدتم کما بداتم اور پہلی حات کی طرف لوٹ گئے ) ذلت مسلمانوں پر واجب نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلمانوں کی طرف سے کافروں پر واجب ہوتی ہے۔- قول باری (والذین تبو و الداروالایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ۔ اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے اور یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں) یعنی …واللہ اعلم …جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئے دلوائے وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا اور ان لوگوں کا جوان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یعنی انصار مدینہ۔- حضرات مہاجرین اگرچہ حضرات انصار سے پہلے اسلام لے آئے تھے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو حضرات مہاجرین کی ہجرت سے پہلے دارالاسلام اور ایمان میں قرار پکڑے ہوئے تھے اور یہ حضرات انصار تھے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ فدک خیبر عرینہ قریظہ اور نضیر کی بستیوں سے اپنے رسول کو دلوا دے تو وہ ابھی اللہ کا حق ہے اور رسول کا حق ہے یعنی جس طرح رسول اکرم چاہیں اس میں حکم دیں۔ چناچہ آپ نے فدک اور خیبر کا حصہ تو اللہ کی راہ میں مساکین کے لیے وقف کردیا تھا اور اس حصے کی نگرانی آپ کی زندگی میں آپ کے ہاتھ میں رہی اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر کے ہاتھ میں اور اسی طرح سے حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کے ہاتھوں میں رہی اور آج تک اسی طرح سے ہے اور قریضہ کے مال غنیمت کو آپ نے غریب مہاجرین کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیا تھا اور آپ نے بعض حصہ بنی عبدالمطلب کے غرباء کو دے دیا تھا اور بعض حصہ یتیموں اور بعض مساکین کو دے دیا تھا۔- اور مسافر بھی اس کے مصرف ہیں خواہ مسافر کسی مقام پر ٹھہرا ہو یا راہ گزر ہو تاکہ وہ مال فے تمہارے طاقتور لوگوں کے قبضہ میں نہ آجائے اور مال غنیمت میں سے رسول اللہ جو کچھ تمہیں دے دیا کریں وہ قبول کرلیا کرو یا یہ کہ رسول اکرم جس چیز کا تمہیں حکم دیا کریں اس پر عمل کیا کرو۔- اور حکم رسول کی بجا آوری میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جس وقت وہ سزا دے تو سخت سزا دینے والا ہے۔
آیت ٧ مَآ اَفَــآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی ” جو مال بھی ہاتھ لگا دے اللہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستیوں والوں سے “- فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا ” تو وہ ہے اللہ کے لیے ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ‘ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے “- واضح رہے کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مراد یہاں اسلامی ریاست ہے ۔ پھر چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا ذاتی ذریعہ معاش تو کوئی تھا نہیں ‘ اس لیے یہ مال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی اخراجات مثلاً ازواجِ مطہرات - کے نان نفقہ اور دوسری معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بھی تھا۔ اس کے علاوہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کی مد بھی رکھی گئی تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضے پورے کرسکیں ۔ اسی طرح اس مال میں ان تمام اقسام کے ناداروں اور محتاجوں کا بھی حق رکھا گیا جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ۔- کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَـآئِ مِنْکُمْج ” تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔ “- اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ معاشرے میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور اس کی گردش کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچیں۔ یہ اسلامی معیشت کا بہت اہم اور بنیادی اصول ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ نے مال فے زیادہ تر ناداروں اور محتاجوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مختص فرما دیا۔ مالِ فے بھی اگر مال غنیمت کی طرح تقسیم کیا جاتا تو یہاں بھی سواروں کو دوہرا حصہ ملتا اور ظاہر ہے جس شخص کے پاس گھوڑا یا اونٹ ہے وہ تو پہلے ہی سے کچھ خوشحال ہے۔ تو اس تقسیم سے مال فے کا بھی زیادہ تر حصہ خوشحال لوگوں کو ہی ملتا۔- واضح رہے کہ اسلام کے نظام عدل و قسط میں تمام انسانوں کو معاشی طور پر برابر کردینے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہونا عملی طور پر ممکن بھی نہیں ۔ ظاہر ہے ایک سپاہی اور سپہ سالار کسی طرح بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم اپنے تمام تردعو وں اور انقلابی نعروں کے باوجود ایسی ” معاشی مساوات “ کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی دنیا کو نہیں دکھا سکا۔ اس کے برعکس اسلام کا نظام معیشت معاشرے سے معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے اور امیر و غریب کے درمیان فرق و تفاوت کو کم سے کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے لیے اسلام ہر وہ دروازہ بند کردینے کا حکم دیتا ہے جس کی وجہ سے چند ہاتھوں میں ارتکازِ دولت کا خدشہ ہو اور ہر وہ راستہ کھولنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس سے گردش دولت کا رُخ امراء سے غرباء کی طرف پھرنے اور معاشی محرومیوں کے ازالے کا امکان ہو۔ آج معاشی پیچیدگیوں کی وجہ سے جدید معاشرے میں جو گھمبیر صورتحال جنم لے رہی ہے اس کا ادراک سب سے پہلے جس عالم دین کو ہوا وہ شاہ ولی اللہ دہلوی - تھے۔ شاہ ولی اللہ (رح) ایسی صورت حال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس ملک یا معاشرے میں تقسیم دولت کا نظام غیر منصفانہ ہوگا وہاں کچھ لوگ دولت کے انبار جمع کرکے مسرفانہ عیاشیوں اور بدمعاشیوں میں مبتلا ہوجائیں گے ‘ جبکہ محروم طبقے کے لوگ باربرداری کے جانور بن کر رہ جائیں گے۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا) (١) کہ محرومی اور احتیاج انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ گویا تقسیم دولت کا غیر منصفانہ نظام ایسی دودھاری تلوار ہے جس کی دو طرفہ کاٹ سے مذکورہ دونوں طبقوں کے افراد مذہبی و انسانی اقدار سے بیگانہ و بےنیاز ہو کر عملی طور پر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔ اُمراء کو تو اپنے اللوں تللوں سے ہی فرصت نہیں ملتی جبکہ غریب و نادار عوام دنیا ومافیہا سے بیخبر صبح سے شام تک کمرتوڑ مشقت میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آگے بڑھتا ہے اور محروم طبقے کے افراد کے دلوں میں ظالم استحصالی طبقے کے خلاف بغض و عداوت کی آگ سلگانا شروع کردیتا ہے : اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ (المائدۃ : ٩١) ” شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے “۔ تصور کریں اگر ایک سیٹھ صاحب کی بیٹی کی شادی کے موقع پر کروڑوں روپے کا اسراف صرف بےجا نمود و نمائش کی مد میں ہو رہا ہوگا تو یہ سب کچھ دیکھ کر اس کے اس غریب ملازم کے دل میں نفرت و عداوت کے کیسے کیسے جذبات پیدا ہوں گے جس کی بیٹی گھر میں بیٹھی صرف اس لیے بوڑھی ہو رہی ہے کہ وہ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ پھر ہمارے معاشرے میں جب ایک کروڑ پتی کی بیٹی لاکھوں کا جہیز لے کر دوسرے کروڑ پتی کی بہو بن جاتی ہے تو دولت مال داروں ہی کے مابین گردش میں رہتی ہے۔ - وَمَآ اٰتٰٹکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُج وَمَا نَہٰٹکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج ” اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جائو۔ “- ان الفاظ میں گویا اہل ایمان کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مال فے سے متعلق نئے قانون کے تحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں کو بخوشی قبول کریں۔ ظاہر ہے لشکر اسلام میں شامل لوگ تو بنونضیر کے علاقے سے حاصل ہونے والے مال و اسباب کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس میں سے حصے کی توقع کر رہے تھے۔ اب جب مذکورہ حکم کے تحت اس مال کو مال فے قرار دے کر اس کی تقسیم کا نیا قانون بنا دیا گیا تو لشکر کے شرکاء کو طبع بشری کے تحت ایک دھچکا تو ضرور لگا ہوگا۔ چناچہ اس حکم کے تحت بنونضیر کے محاصرے میں شامل اہل ایمان کو بالخصوص اور تمام اہل ایمان کو بالعموم دین کا بنیادی اصول بتادیا گیا کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر فیصلہ آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ معاملہ چاہے کوئی بھی ہو ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کو جو دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منع کردیں اس سے منع ہوجایا کرو۔- وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ “- اب اگلی آیات میں مال فے کی تقسیم کے بارے میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ جب یہ مال مذکورہ قانون کے تحت بیت المال میں آجائے گا تو اس کی تقسیم میں بنیادی طور پر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے گی۔ ظاہر ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس میں سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے وہی کچھ قبول کریں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انتہائی بنیادی ضروریات کے لیے ناگزیر ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اپنی ذات اور ازواجِ مطہرات - پر شروع دن سے ہی فقر طاری کر رکھا تھا ۔ سورة الاحزاب کے چوتھے رکوع میں واقعہ ایلاء کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ ازواجِ مطہرات (رض) کی طرف سے نان نفقہ بڑھانے کے مطالبے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (رض) سے علیحدگی اختیار فرما لی تھی۔ چناچہ مال فے کا بڑا حصہ کس کے لیے مختص کیا جائے گا :
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :13 پچھلی آیت میں صرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے ، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے ۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں ۔ ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے ۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرمائے تھے ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا ۔ امام شافعی سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے ، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصب رسالت کی بنا پر ۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے ، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے ۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے ، اور ان سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں ، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب ۔ یہ حصہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں ، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین ، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے ، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے ( یتامیٰ ، مساکین و ابن السبیل ) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے ، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا ۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باقر کا قول نقل کیا ہے کہ اگرچہ حضرت علی کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی ( کہ یہ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا ۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان دونوں حصوں ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے ۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں ۔ عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا ۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا ( کتاب الخراج 11 ، لابی یوسف ، صفحہ 19تا21 ) امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطلبی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر ، دونوں طرح کے اشخاص کو فَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے ، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے ۔ ( روح المعانی ) ۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے ، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے ۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدم رکھے ۔ ( حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر ) ۔ باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے ۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پانچ برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورہ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5 1مصالح مسلمین پر ، 5 1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر ، 5 1 مساکین پر اور 5 1 مسافروں پر صرف کیا جائے ۔ بخلاف اس کے امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں ، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :14 یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے ، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے ، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں ۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے ، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے ، اموال غنیمت میں خمس نکالنے کا حکم دیا گیا ، صدقات نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے ، مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے ، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدات دو ہیں ۔ ایک زکوٰۃ ، دوسرے فَے ۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرمائے ، مواشی ، اموال تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے ۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں ، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے ۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام ، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو ، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پائے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :15 سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموال بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں و چرا تسلیم کر لو ، جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو دیں وہ اسے لے لے ، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے ۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں ، اس لیے یہ صرف اموال فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ جو کچھ رسول تمہیں دے کے مقابلہ میں جو کچھ نہ دے کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں ، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ جس چیز سے وہ تمہیں روک دے ( یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ ۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو جو کچھ دے کے مقابلہ میں جو کچھ نہ دے فرمایا جاتا ۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کی اطاعت ہے ۔ یہی بات ہے جو خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم وما نھیتم عنہ فاجتنبوہ جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو ۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو ۔ ( بخاری ۔ مسلم ) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس میں مل جاتی ۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآ اٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَا نھٰکم عنہ فانتھوا ؟ اس نے عرض کیا ، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی ۔ ( بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد ۔ مسُند ابن ابی حاتم )