105۔ 1 یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ڔ وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان :5-4) کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعوٰی کر کے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ کر رکھا ہے حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعوٰی کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے بیان و تشریح ہے تاکہ ان پر حجت بھی ہوجائے۔
[١٠٧] قرآن میں ایسی آیات الٰہی بہت سے مقامات پر مذکور ہیں جو مختلف اوقات میں، مختلف ماحول میں اور مختلف انداز بیان سے نازل ہوتی رہیں۔ اگرچہ ان میں حقائق وہی ہیں جو پہلے بھی بیان ہوچکے ہیں۔ اس طرح نئے نئے پیرایہ میں دلائل بیان کرنے کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ آیات الٰہی میں غور و فکر کرنے والوں کو کسی وقت بھی ہدایت نصیب ہوسکتی ہے اور دوسرے یہ کہ متعصب اور معاند لوگوں کی کج فہمی کھل کر سامنے آجائے جو یہ بات تو کسی صورت ماننے کو تیار نہیں کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے بلکہ اس کے علاوہ ہر غیر معقول صورت بتانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اور ایسی کڑیاں ملانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے یہ ثابت کرسکیں کہ اس امی نے ایسا کلام یقینا کسی عالم سے پڑھا ہے۔
وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ : یہاں تک اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا اثبات تھا، اب نبوت کو ثابت کرنے کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ہم ایسے ہی مختلف طریقوں کے ساتھ بار بار دھراتے ہیں، کبھی مومنوں کو خوش خبری، کبھی کافروں کو تنبیہ، کبھی گزشتہ قوموں کے واقعات کے ذریعے سے نصیحت اور کبھی کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کے احکام، تاکہ جو لوگ عقل و فہم رکھتے ہیں، وہ ان کے ذریعے سے راہ ہدایت پائیں اور مخالفین پر حجت ہو۔ - وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ : یعنی ہم آیات کو پھیر پھیر کر اس لیے بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے عقل و فہم والے راہ ہدایت پائیں گے تو دوسری طرف ضدی اور آباء و اجداد کے رسم و رواج سے چمٹے رہنے والے کافر و مشرک آپ سے یہ کہہ کر گمراہ ہوں گے کہ یہ قرآن جسے تم ہمارے سامنے پڑھ رہے ہو، تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا، بلکہ تم نے کسی سے پڑھا اور سیکھا ہے۔ مشرکین کے اسی قسم کے اقوال کئی دوسری آیات میں مذکور ہیں، مثلاً سورة فرقان (٤، ٥) اور سورة مدثر (١٨ تا ٢٥) ( رازی، قرطبی) ” وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ “ کی واؤ سے دیگر حکمتوں کی طرف اشارہ ہے جنھیں قصداً حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ ان سب کا بیان بہت طویل تھا۔ واؤ کے بعد ایک حکمت بیان فرما دی گئی۔ - وَلِنُبَيِّنَهٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرنے کی پہلی حکمت یہ بیان فرمائی کہ کفار اور عناد رکھنے والے یہ کہیں کہ تم نے یہ قرآن کسی سے پڑھ لکھ کر سیکھ لیا ہے، تاکہ اس طرح زیادہ گمراہ ہوں، یہاں دوسری حکمت بیان کی ہے ” تاکہ اہل علم کے لیے بیان اور فہم حاصل ہو۔ “ (رازی)
توحید و رسالت پر جو واضح دلائل پچھلی آیت میں بیان ہوچکے ہیں، تیسری آیت میں ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا : (آیت) وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ یعنی ہم اسی طرح دلائل کو مختلف پہلووں سے بیان کرتے ہیں۔- اس کے بعد فرمایا گیا : (آیت) وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ جس کا حاصل یہ ہے کہ سارا ہدایت کا سامان معجزات اور دلائل بےمثل کتاب قرآن اور ایک اُمّی محض کی زبان مبارک سے ایسے علوم و حقائق کا اظہار جن سے ساری دنیا کے فلاسفر اور حکماء عاجز ہیں، ایسا بلیغ کلام جس میں قیامت تک آنے والے جن و بشر کو چیلنج کیا گیا کہ اس کی ایک چھوٹی سی سورت جیسا کلام کوئی بنا سکے تو لائے اور ساری دنیا اس سے عاجز رہی، یہ سب حق بینی کا سامان ایسا تھا کہ ہر ہٹ دھرم منکر کو بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں پر گر جانا چاہئے تھا، لیکن جن لوگوں کی طبیعت میں زیغ اور کجی تھی، وہ یہ کہنے لگے کہ درست یعنی یہ علوم تو آپ نے کسی سے پڑھ لئے ہیں۔- ساتھ یہ بھی فرما دیا (آیت) وَلِنُبَيِّنَهٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ جس کا حاصل یہ ہے کہ دانشمند جن کی سمجھ درست اور فہم سلیم ہے ان کے لئے یہ بیان نافع و مفید ثابت ہوا، خلاصہ یہ ہے کہ سامان ہدایت تو سب کے سامنے رکھا گیا مگر کج فہموں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا، سلیم الفہم لوگ اس کے ذریعہ دنیا کے رہبر بن گئے۔
وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَہٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ١٠٥- تَّصْرِيفُ- والتَّصْرِيفُ کالصّرف إلّا في التّكثير، وأكثر ما يقال في صرف الشیء من حالة إلى حالة، ومن أمر إلى أمر . وتَصْرِيفُ الرّياح هو صرفها من حال إلى حال . قال تعالی: وَصَرَّفْنَا الْآياتِ [ الأحقاف 27] ، وَصَرَّفْنا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ [ طه 113] التصریف بمعنی صرف ہے لیکن اس میں تکثیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی کی طرف پھیرنے یا ایک امر سے دوسرے امر کی طرف تبدیل کرنے کے لئے آتا ہے اور ( تصریف الریاح ) کے معنی ہیں ہواؤں کے رخ کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : وَصَرَّفْنَا الْآياتِ [ الأحقاف 27] اور آیات کو لوٹا لوٹا کر بیان کردیا ۔ وَصَرَّفْنا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ [ طه 113] اور اس میں طرح طرح کے وعید بیان کردیئے ہیں ۔- درس - دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ- [ الأعراف 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب .- ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معیر مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔
(١٠٥) ہم ان لوگوں کے لیے توحید کے دلائل طریقہ سے بیان کرتے ہیں تاکہ منکرین یہ نہ کہہ سکیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے یا منکرین یہ نہ کہہ سکیں کہ ان باتوں کو آپ نے خود بنا لیا ہے یا ابی فکیھتہ مولی قریش سے پڑھ لیا ہے کہ یہ منکریہ نہ کہہ سکیں کہ جبر ویسار مولی قریش سے انہوں نے سیکھ لیا ہے اور اگر درست تاء کے سکون کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ ہم ان دلائل کو ان حضرات کے لیے جو منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں خوب ظاہر کردیں۔
آیت ١٠٥ (وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ ) - ہم اپنی آیات بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں ‘ اپنی دلیلیں مختلف اسالیب سے پیش کرتے ہیں تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور یہ تسلیم کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمجھانے کا حق ادا کردیا ہے۔ دَرَسَ ‘ یَدْرُسُ کے معنی ہیں لکھنا اور لکھنے کے بعد مٹانا ‘ پھر لکھنا ‘ پھر مٹانا۔ جیسے بچے شروع میں جب لکھنا سیکھتے ہیں تو مشق کے لیے بار بار لکھتے ہیں۔ (اس مقصد کے لیے ہمارے ہاں تختی استعمال ہوتی تھی جو اب متروک ہوگئی ہے۔ ) یہاں تدریجاً بار بار پڑھانے کے معنی میں یہ لفظ (دَرَسْتَ ) استعمال ہوا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :70 یہ وہی بات ہے جو سورہ بقرہ رکوع ۳ میں فرما دی گئی ہے کہ مچھر اور مکڑی وغیرہ چیزوں کی تمثیلیں سن کر حق کے طالب تو اس صداقت کو پالیتے ہیں جو ان تمثیلوں کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے ، مگر جن پر انکار کا تعصب مسلط ہے وہ طنز سے کہتے ہیں کہ بھلا اللہ کے کلام میں ان حقیر چیزوں کے ذکر کا کیا کام ہو سکتا ہے ۔ اسی مضمون کو یہاں ایک دوسرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ۔ کہنے کا مدعا یہ ہے کہ یہ کلام لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے انسان ممیز ہو جاتے ہیں ۔ ایک طرح کے انسان وہ ہیں جو اس کلام کو سن کر یا پڑھ کر اس کے مقصد و مدعا پر غور کرتے ہیں اور جو حکمت و نصیحت کی باتیں اس میں فرمائی گئی ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بخلاف اس کے دوسری طرح کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ اسے سننے اور پڑھنے کے بعد ان کا ذہن مغز کلام کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اس ٹٹول میں لگ جاتا ہے کہ آخر یہ امی انسان یہ مضامین لایا کہاں سے ہے ، اور چونکہ مخالفانہ تعصب پہلے سے ان کے دل پر قبضہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے ایک خدا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کے امکان کو چھوڑ کر باقی تمام ممکن التصور صورتیں وہ اپنے ذہن سے تجویز کر تے ہیں اور انہیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس کتاب کے ماخذ کی تحقیق کرلی ہے ۔
43: ہٹ دھرم قسم کے کافروں کو بھی یہ کہتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ کلام خو آنحضرتﷺ نے گھڑلیا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، اور کسی کتاب سے خود ٖپڑھ کر یہ کلام نہیں بناسکتے، لہذا وہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے یہ کلام کسی سے سیکھا ہے اور اسے اللہ کا کلام قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ؛ لیکن کس سے سیکھا ہے وہ بھی نہیں بتاسکتے تھے، کبھی کبھی وہ ایک لوہار کا نام لیتے تھے جس کی تردیدسورۂ نحل میں آنے والی ہے۔