وحی کے مطابق عمل کرو حضور کو اور آپ کی امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وحی الہی کی اتباع اور اسی کے مطابق عمل کرو جو وحی اللہ کی جانب سے اترتی ہے وہ سراسر حق ہے اس کے حق ہونے میں زرا سا بھی شبہ نہیں ۔ معبود برحق صرف وہی ہے ، مشرکین سے درگزر کر ، ان کی ایذاء دہی پر صبر کر ، ان کی بد زبانی برداشت کر لے ، ان کی بد زبانی سن لے ، یقین مان کر تیری فتح کا تیرے غلبہ کا تیری طاقت و قوت کا وقت دور نہیں ۔ اللہ کی مصلحتوں کو کوئی نہیں جانتا دیر گو ہو لیکن اندھیرا نہیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت دیتا اس کی مشیت اس کی حکمت وہی جانتا ہے نہ کوئی اس سے باز پرس کر سکے نہ اس کا ہاتھ تھام سکے وہ سب کا حاکم اور سب سے سوال کرنے پر قادر ہے تو اس کے اقوال و اعمال کا محافظ نہیں تو ان کے رزق وغیرہ امور کا وکیل نہیں تیرے ذمہ صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہے جیسے فرمایا نصیحت کر دے کیونکہ تیرا کام یہی ہے تو ان پر داروغہ نہیں اور فرمایا تمہاری ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ۔
[١٠٨] پہلے بتایا جا چکا ہے کہ یہ سورة ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی (ماسوائے چھ آیات کے) اور اس وقت مسلمانوں پر سخت آزمائش کا دور تھا۔ اس وقت یہی حکم تھا کہ مشرکوں سے کنارہ کش رہا جائے۔ لیکن جب فتح مکہ کے بعد اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ تو پھر یہ حکم نہ رہا بلکہ ان کے ساتھ جنگ وجدال کا حکم ہوا۔ اور کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ جیسا کہ سورة توبہ کے آغاز میں مشرکین کے لیے احکام بیان ہوئے ہیں۔
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ ۔۔ : یعنی ان کے اس قسم کے بےبنیاد شبہات سے متاثر ہو کر دعوت و تبلیغ ترک نہ کرو۔ اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔
چوتھی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ہے کہ آپ یہ نہ دیکھیے کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا، آپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس طریق پر چلنے کے لئے آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے، جس میں بڑی چیز یہ اعتقاد ہے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، نیز اس وحی میں تبلیغ کا حکم بھی داخل ہے، اس پر قائم رہ کر مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے کہ افسوس انہوں نے کیوں قبول نہ کیا۔
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ٠ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ ١٠٦- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(١٠٦) آپ اس طریقہ پر چلتے رہیے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن حکیم کے حلال حرام پر عمل کرتے رہیے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی خالق ہے اور نہ رازق ہے۔
آیت ١٠٦ (اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ج) ۔- اس سورة میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار مخاطب کیا جا رہا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے یہ خطاب دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے امت کے لیے بھی ہے۔ مکی سورتوں ( دو تہائی قرآن) میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب بہت کم ملتا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ مکی دور میں مسلمان باقاعدہ ایک امت نہیں تھے۔ امت کی تشکیل تو تحویل قبلہ کے بعد ہوئی۔ اسی لیے تحویل قبلہ کے حکم کے فوراً بعد یہ آیت نازل ہوئی ہے : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط) (البقرۃ : ١٤٣) اب جبکہ مسلمانوں کو باقاعدہ امت کا درجہ دے دیا گیا تو پھر ان سے خطاب بھی براہ راست ہونے لگا۔ چناچہ سورة الحجرات جو ١٨ آیات پر مشتمل مدنی سورة ہے ‘ اس میں پانچ دفعہ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) کے الفاظ سے اہل ایمان کو براہ راست مخاطب فرمایا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف مکی سورتوں میں اہل ایمان سے جو بھی کہا گیا ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے واحد کے صیغے میں کہا گیا ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ پیروی کرو اس کی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کیا جا رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے ‘ تو یہ حکم صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ۔