107۔ 1 اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے (مزید دیکھئے سورة بقرہ آیت 253 اور سورة الانعام آیت 35 کا حاشیہ) ۔ 107۔ 2 یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مقصد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابو طالب کو ضرور مسلمان کرلیتے جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے
وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكُوْا ۭ۔۔ : یعنی آپ ان کی حماقتوں اور کفر سے متاثر نہ ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر ایمان و کفر دونوں کی استعداد رکھی ہے اور اس سے ان کا امتحان مقصود ہے کہ شکر گزار بنتے ہیں یا کفر اختیار کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو فرشتوں کی طرح بھی بنا سکتا تھا کہ وہ فطری طور پر مومن ہونے کے ساتھ کفر یا نافرمانی کر ہی نہیں سکتے، بلکہ ہر طرح فرماں بردار ہیں، لیکن یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔
پانچویں آیت میں اس کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کو تکوینی طور پر یہ منظور ہوتا کہ سب انسان مسلمان ہوجائیں تو یہ شرک نہ کرسکتے، لیکن ان کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ ان کو سزا ملے تو ایسا ہی سامان جمع کردیا، پھر آپ ان کو کیسے مسلمان بنا سکتے ہیں، اور آپ اس فکر میں پڑیں کیوں، ہم نے آپ کو ان کے اعمال کا نگران نہیں بنایا، اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اعمال پر عذاب دینے کے ہماری طرف سے مختار ہیں، اس لئے آپ کو ان کے اعمال سے تشویش نہ ہونی چاہئے۔
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكُوْا ٠ۭ وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا ٠ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ ١٠٧- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
(١٠٧) اور ان مذاق اڑانے والوں کا خیال نہ کیجیے ان میں ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبد یغوث، اسود بن حارث اور حارث بن قیس اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور آپ ان کے نگران اور مختار نہیں ہیں۔
آیت ١٠٧ (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْاط وَمَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا ج) - اگر اللہ کو اپنا جبر ہی نافذ کرنا ہوتا اور با لجبر ان سب کو ایمان پر لانا ہوتا تو اللہ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں تھا۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کی ذمہ داری ڈالی ہی نہیں گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر داروغہ یا نگران مقرر نہیں کیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ہے حق کو واضح کردینا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قرآن کے ذریعے انہیں خبردار کرتے رہیے ‘ اس کے ذریعے انہیں تذکیر کرتے رہیے ‘ اس کے ذریعے انہیں خوشخبریاں دیتے رہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بس یہ ذمہ داری ہے : (فَذَکِّرْقف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ) ( الغاشیہ) پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں یاد دہانی کرائیے ‘ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو یاد دہانی ہی کرانے والے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے اوپر نگران نہیں ہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :71 مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلغ بنایا گیا ہے ، کوتوال نہیں بنایا گیا ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھو ۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے ۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو ، اور نہ تمہاری ذمہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے ۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے ۔ اگر فی الواقع حکمت الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا ؟ مگر وہاں تو مقصود سرے سے یہ ہے ہی نہیں ۔ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے ۔ پس تمہارے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہو ۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انہیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں ۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو ۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انہیں چھوڑ دو ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :72 یہ نصحیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو کی گئ ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ مناظرے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقاءد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبودوں کو گالیاں دینے تک نوبت پہنچ جائے ، کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دور پھینک دے گی ۔
44: پیچھے آیت نمبر 35 میں بھی یہ مضمون آچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو سارے انسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنا دیتا، لیکن درحقیقت انسان کو دنیا میں بھیجنے کا بنیادی مقصد امتحان ہے، اور اس امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان زور زبردستی سے نہیں، بلکہ خود اپنی سمجھ سے کام لے کر ان دلائل پر غور کرے جو پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں، اور پھر اپنی مرضی سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لائے، انبیائے کرام ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں، اور آسمانی کتابیں اس امتحان کو آسان کرنے کے لیے نازل کی جاتی ہیں، مگر ان سے فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جن کے دل میں حق کی طلب ہو 45: چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے طرز عمل پر مغموم رہتے تھے، اس لیے آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ اپنا فرض ادا کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کے اعمال کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔