سودا بازی نہیں ہو گی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور آپ کے ماننے والوں کو مشرکین کے معبودوں کو گالیاں دینے سے منع فرماتا ہے گو کہ اس میں کچھ مصلحت بھی ہو لیکن اس میں مفسدہ بھی ہے اور وہ بہت بڑا ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ مشرک اپنی نادانی سے اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے ایسا ارادہ ظاہر کیا تھا اس پر یہ آیت اتری ، قتادہ کا قول ہے کہ ایسا ہوا تھا اس لئے یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی گئی ۔ ابن ابی حاتم میں سدی سے مروی ہے کہ ابو طالب کی موت کی بیماری کے وقت قریشیوں نے آپس میں کہا کہ چلو چل کر ابو طالب سے کہیں کہ وہ اپنے بھتیجے ( حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو روک دیں ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ اب ہم اسے مار ڈالیں گے تو ممکن ہے کہ عرب کی طرف سے آواز اٹھے کہ چچا کی موجودگی میں تو قریشیوں کو چلی نہیں اس کی موت کے بعد مار ڈالا ۔ یہ مشورہ کر کے ابو جہل ابو سفیان نضیر بن حارث امیہ بن ابی خلف عقبہ بن ابو محیط عمرو بن عاص اور اسود بن بختری چلے ۔ مطلب نامی ایک شخص کو ابو طالب کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے آنے کی خبر دیں اور اجازت لیں ۔ اس نے جا کر کہا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابو طالب نے کہا بلالو یہ لوگ گئے اور کہنے لگے آپ کو ہم اپنا بڑا اور سردار مانتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں ستار کھا ہے وہ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بلا کر منع کر دیجئے ہم بھی اس سے رک جائیں گے ، ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا آپ تشریف لائے ابو طالب نے کہا آپ دیکھتے ہیں آپ کی قوم کے بڑے یہاں جمع ہیں یہ سب آپ کے کنبے قبیلے اور رشتے کے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیں یہ بھی آپ کو اور آپ کے اللہ کو چھوڑ دیں گے ۔ آپ نے فرمایا خیر ایک بات میں کہتا ہوں یہ سب لوگ سوچ سمجھ کر اس کا جواب دیں ۔ میں ان سے صرف ایک کلمہ طلب کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر یہ میری ایک بات مان لیں تو تمام عرب ان کا ماتحت ہو جائے تمام عجم ان کی مملکت میں آ جائے بڑی بڑی سلطنتیں انہیں خراج ادا کریں ، یہ سن کر ابو جہل نے کہا قسم ہے ایک ہی نہیں ایسی دس باتیں بھی اگر آپ کی ہوں تو ہم ماننے کو موجود ہیں فرمائیے وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بس لا الہ الا اللہ کہہ دو ۔ اس پر ان سب نے انکار کیا اور ناک بھوں چڑھائی ۔ یہ بات دیکھ کر ابو طالب نے کہا پیارے بھتیجے اور کوئی بات کہو دیکھو تمہاری قوم کے سرداروں کو تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی آپ نے فرمایا چچا جان آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں اللہ کی قسم مجھے اسی ایک کلمہ کی دھن ہے اگر یہ لوگ سورج کو لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں کوئی اور کلمہ نہیں کہوں گا یہ سن کر وہ لوگ اور بگڑے اور کہنے لگے بس ہم کہہ دیتے ہیں کہ یا تو آپ ہمارے معبودوں کو گالیاں دینے سے رک جائیں ورنہ پھر ہم بھی آپ کو اور آپ کے معبود کو گالیاں دیں گے اس پر رب العالمین نے یہ آیت اتاری ، اسی مصلحت کو مد نظر رکھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے ۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی کیسے دے گا ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دے دوسرا کے باپ کو ، یہ کسی کی ماں کو گالی دے وہ اس کی ماں کو ، پھر فرماتا ہے اسی طرح اگلی امتیں بھی اپنی گمراہی کو اپنے حق میں ہدایت سمجھتی رہیں ۔ یہ بھی رب کی حکمت ہے یاد رہے کہ سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے وہ انہیں ان کے سب برے بھلے اعمال کا بدلہ دے گا اور ضرور دے گا ۔
108۔ 1 یہ سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے (صحیح مسلم)
[١٠٩] کسی بڑے فتنہ سے بچنے کے لئے کوئی اچھا کام چھوڑ دینا یا چھوٹنا فتنہ گوارا کرلینا :۔ صبر و ضبط سے کام لو اور غصہ میں آ کر ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو ورنہ ردعمل کے طور پر تمہارے معبود حقیقی اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیں گے اور بالواسطہ تم خود ہی اللہ کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے حالانکہ ان کے معبودوں کے برا ہونے میں کوئی شک نہیں اور ان کو برا کہنے میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے اس آیت سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی اچھے کام کے کرنے سے اس کے ردعمل کے طور پر کسی بڑے فتنہ کا خوف ہو تو اس اچھے کام کو چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اس سے بھی آگے یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کسی چھوٹے فتنہ سے بچنے کی صورت میں کسی بڑے فتنہ کے بپا ہونے کا خطرہ ہو تو اس چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلینا چاہیے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مکہ میں کچھ مسلمان اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے ہجرت نہیں کر رہے تھے اور مشرکین مکہ کے پاس ہی پناہ لیے ہوئے تھے۔ جب ان مشرکوں کی مسلمانوں سے جنگ ہوتی تو مشرک ان ہجرت نہ کرنے والوں کو اپنی فوج کے آگے کردیتے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة توبہ) اب اگر مسلمانوں کی فوج ان مسلمانوں کو مارے تو ان کے قتل کی مجرم بنتی ہے اور نہ مارے تو سارے مسلمان مرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان مسلمانوں کو مار دینا ہی قرین صواب ہے اور اللہ نے ایسے ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں پر سخت نکیر فرمائی ہے۔- خ جمہوری نظام پر تبصرہ اور ووٹ ڈالنے کی حیثیت :۔ موجودہ دور میں اس کی مثال کسی جمہوری نظام سیاست میں الیکشن کے دوران ووٹ ڈالنے کا مسئلہ ہے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ جمہوری نظام اسلام اور اسلامی نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ جمہوری نظام میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ ہی ہوسکتا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے مقتدر اعلیٰ کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں سمجھوتہ ہونا ناممکن ہے اگرچہ پاکستان کے دستور میں یہ الفاظ لکھ دیئے گئے ہیں کہ مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے مگر اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کرلیا جائے تو موجودہ جمہوری نظام کا از خود جنازہ نکل جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظام میں پانچ باتیں ایسی ہیں جن میں سے کسی ایک کے بغیر بھی جمہوریت کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی اور یہ باتیں شرعاً ناجائز ہیں اور وہ یہ ہیں۔- ١۔ سیاسی پارٹیوں کے وجود کا ضروری ہونا۔- ٢۔ طلب امارت یعنی نمائندہ اسمبلی بننے کے لیے از خود درخواست دینا۔ پھر اس کے لیے ہر جائز و ناجائز ذرائع سے تگ و دو کرنا۔- ٣۔ کثرت رائے کو معیار حق قرار دینا۔- ٤۔ حق بالغ رائے دہی۔ یعنی ہر کس و ناکس کو بشمول خواتین ووٹ کا حق دینا اور - ٥۔ ہر کس و ناکس کے ووٹ کی قیمت برابر قرار دینا۔- اس صورت حال میں مناسب تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ ڈال کر اس نظام کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کی جائے مگر اس سے بھی بسا اوقات یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کوئی دین سے بےزار عنصر ہی برسراقتدار نہ آجائے لہذا جو پارٹی دینی لحاظ سے نسبتاً بہتر ہو اس سے تعاون کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کا جواز صرف اس حد تک ہی ہے کہ ایک بڑے فتنہ کے سدباب کے لیے ایک چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلیا جاتا ہے یہ تو اس کا وقتی علاج ہے اور اصل علاج یہ ہے کہ اس کا فرانہ نظام سیاست کو بدلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جائے جو انبیائے کرام کا شیوہ رہا ہے۔- [١١٠] ہر فرقہ اپنے ہی عقائد و اعمال میں کیوں خوش رہتا ہے ؟ یہ دنیا چونکہ دارالامتحان ہے اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کردیئے ہیں کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور و طریق پر نازاں رہتی ہے اللہ نے انسانی دماغ کی ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو اور غلطی کی طرف جانے کی اس میں گنجائش نہ ہو۔ البتہ اللہ کے پاس جا کر جب حقائق سامنے آجائیں گے تو ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں جو کام وہ کرتا رہا ہے کیسا تھا ؟ اس دنیا میں اگر کوئی فرقہ حق کی مخالفت میں بھی سر گرم ہو تو اسے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔ : یہ آیت سد ذرائع کی دلیل ہے، یعنی اگر ایک جائز کام کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اس جائز کام کو بھی چھوڑنا ضروری ہے۔ یعنی اگر تم مشرکین کے معبودوں کو گالی دو گے تو وہ جہالت سے اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے اور تم اس کا سبب بنو گے۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے ماں باپ کو گالی دینے سے منع فرمایا کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے۔ [ بخاری، الأدب، باب لا یسب الرجل والدیہ : ٥٩٧٣ ]- كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ ۔۔ : یعنی انسان کی عادت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو، چاہے وہ در حقیقت اچھا ہو یا برا، اچھا ہی سمجھتا ہے، یعنی : (ۭ كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ) [ المؤمنون : ٥٣ ] ” ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔ “ لیکن انسان میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ وہ برے کام کو پوری آزادی سے چھوڑ کر نیک راستہ اختیار کرسکتا ہے، دنیا کا ہر کام اللہ کے چاہنے سے ہوتا ہے، وہ نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ انسانوں کو امتحان کے لیے اچھے برے دونوں کاموں کا اختیار دینا بھی اس کی مرضی اور حکمت سے ہے، مگر وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور برے کاموں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھیے سورة زمر (٧) ۔
خلاصہ تفسیر - اور دشنام مت دو ان (معبودان باطلہ) کو جن کی یہ (مشرک) لوگ خدا (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، کیونکہ (تمہارے ایسا کرنے سے) پھر وہ براہ جہل حد سے گذر کر (یعنی غصہ میں آکر) اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے (اور اس کا تعجب نہ کیا جائے کہ ایسی گستاخی کرنے والوں کو ساتھ کے ساتھ سزا کیوں نہیں مل جاتی، کیونکہ) ہم نے (دنیا میں تو) اسی طرح ( جیسا ہورہا ہے) ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل (بھلا ہو یا برا ہو) مرغوب بنا رکھا ہے (یعنی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنا طریقہ پسند ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ عالم اصل میں ابتلاء و امتحان کا ہے، پس اس میں سزا ضروری نہیں) پھر (البتہ اپنے وقت پر) اپنے رب ہی کے پاس ان (سب) کو جانا ہے، سو (اس وقت) وہ ان کو جتلا دے گا جو کچھ بھی وہ (دنیا میں) کیا کرتے تھے (اور مجرمین کو سزا دے دے گا) اور ان (منکر) لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے (یعنی ہمارے) پاس (یعنی ان کے فرمائشی نشانوں میں سے) کوئی نشان (ظہور میں) آجاوے تو وہ (یعنی ہم) ضرور ہی اس (نشان) پر ایمان لے آویں گے (یعنی نشان ظاہر کرنے والے کی نبوت کو مان لیں گے) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ نشان سب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں (وہ ان میں جس طرح چاہے تصرف فرما دے دوسرے کو دخل دینا اور فرمائش کرنا بےجا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ کس کا ظاہر ہونا حکمت ہے اور کس کا ظاہر نہ ہونا حکمت ہے، البتہ بعثت رسل کے وقت مطلقاً کسی نشان کو ظاہر کردینا اس میں حکمت یقینی ہے، سو اللہ تعالیٰ بہت سے نشان صدق دعو ٰی رسالت محمدیہ پر ظاہر فرما چکے ہیں جو کہ دلالت کے لئے کافی ہیں، بس یہ ان کی فرمائش کا جواب ہوگیا) اور (چونکہ مسلمانوں کے دل میں خیال تھا کہ خوب ہو اگر یہ نشان ظاہر ہوجاویں، شاید ایمان لے آویں ان کو خطاب فرماتے ہیں کہ) تم کو اس کی کیا خبر (بلکہ ہم کو خبر ہے) کہ وہ (فرمائشی) نشان جس وقت (ظہور میں) آجاویں گے یہ لوگ (غایت عناد سے) جب بھی ایمان نہ لاوینگے اور (ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے) ہم بھی ان کے دلوں کو (حق طلبی کے قصد سے) اور ان کی نگاہوں کو (حق بینی کی نظر سے) پھیر دیں گے (اور ان کا یہ ایمان نہ لانا ایسا ہے) جیسا یہ لوگ اس (قرآن) پر (کہ معجزہ عظیمہ ہے) پہلی دفعہ (جبکہ وہ آیا) ایمان نہیں لائے (تو اب ایمان نہ لانے کو بعید مت سمجھو) اور (تقلیب ابصار یعنی نگاہوں کو بےکار کرنے کا مطلب ظاہری تقلیب نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ) ہم ان کو ان کی سر کشی (وکفر) میں حیران (سرگرداں) رہنے دیں گے (ایمان کی توفیق نہ ہوگی کہ یہ معنوی تقلیب ہے) اور (ان کے عناد کی تو یہ کیفیت ہے کہ) اگر ہم (ایک فرمائشی نشان کیا کئی کئی اور بڑے بڑے فرمائشی نشان بھی ظاہر کردیتے، مثلاً یہ کہ) ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (لو لا انزل علینا الملائکة) اور ان سے مردے (زندہ ہو کر) باتیں کرنے لگتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (فاتوا بآبائنا) اور (یہ تو صرف اتنا ہی کہتے ہیں (آیت) (تاتی باللہ والملائکة قبیلا) ہم (اسی پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ) تمام موجودات (غیبیہ) کو (جس میں جنت و دوزخ سب کچھ آ گیا) ان کے پاس ان کی آنکھوں کے رو برو دلا کر جمع کردیتے، (کہ سب کو کھلم کھلا دیکھ لیتے) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے، ہاں مگر خدا ہی چاہے (اور ان کی تقدیر بدل دے) تو اور بات ہے (پس جب ان کے عناد و شرارت کی یہ کیفیت ہے اور خود بھی وہ اس کو جانتے ہیں کہ ہماری نیت اس وقت بھی ایمان لانے کی نہیں تو اس کا مقتضایہ تھا کہ نشانوں کی فرمائش نہ کرتے کہ محض بےکار ہے) لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں (کہ ایمان لانے کا تو قصد نہیں پھر خواہ مخواہ کی فرمائشیں کہ جہالت ہونا اس کا ظاہر ہے) اور (یہ لوگ جو آپ سے عداوت کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت رکھتے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے، کچھ آدمی (جن سے اصل معاملہ تھا) اور کچھ جن (ابلیس اور اس کی اولاد) جن میں سے بعضے (یعنی ابلیس اور اس کا لشکر) دوسرے بعضوں کو (یعنی کافر آدمیوں کو) چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں (مراد اس سے کفر و مخالفت کی باتیں ہیں کہ ظاہر میں نفس کو بھلی معلوم ہوتی تھیں، اور باطن میں مہلک تھیں، اور یہی دھوکہ ہے، جب یہ کوئی نئی بات نہیں تو اس کا غم نہ کیجئے کہ آپ کے ساتھ یہ لوگ ایسے معاملات کیوں کرتے ہیں، اصل یہ ہے کہ اس میں بعضی حکمتیں ہیں، اس وجہ سے ان کو ایسے امور پر قدرت بھی ہوگئی ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ (یہ) چاہتا (کہ یہ لوگ ایسے امور پر قادر نہ رہیں) تو (پھر) یہ ایسے کام نہ کرسکتے (مگر بعض حکمتوں سے ان کو قدرت دے دی ہے) سو (جب اس میں حکمتیں ہیں تو) ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ (دین کے بارہ میں) افتراء پردازی کر رہے ہیں (جیسے انکار نبوت جس پر عداوت مرتب ہے) اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رہنے دیجئے (اس کی فکر وغم میں نہ پڑئیے، ہم خود متعین وقت پر مناسب سزاء دیں گے کہ ان حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے) اور (وہ شیاطین ان کافر آدمیوں کو اس لئے وسوسہ میں ڈالتے تھے) تاکہ اس (فریب آمیز بات) کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجاویں جو آخرت پر (جیسا چاہئے) یقین نہیں رکھتے (مراد کافر لوگ ہیں، اگرچہ اہل کتاب ہوں، کیونکہ جیسا چاہئے ان کو بھی یقین نہیں، ورنہ انکار نبوت پر جس پر قیامت میں سزاء ہوگی کبھی جرأت نہ کرتے) اور تاکہ (میلان نفسانی کے بعد) اس کو (اعتقاد قلبی سے بھی) پسند کرلیں اور تاکہ (اعتقاد کے بعد) مرتکب (بھی) ہوجاویں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس میں ایک اہم اصولی مسئلہ کی ہدایت دی گئی ہے کہ جو کام خود کرنا جائز نہیں اس کا سبب اور ذریعہ بننا بھی جائز نہیں۔- آیت کا شان نزول ابن جریر کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم ابو طالب مرض الموت میں تھے تو قریش کے مشرک سردار جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اور ایذاء رسانی میں لگے ہوئے تھے، اور قتل کی سازشیں کرتے رہتے تھے، ان کو یہ فکر ہوئی کہ ابو طالب کی وفات ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن جائے گی، کیونکہ ان کے بعد اگر ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کریں گے تو یہ ہماری عزت شرافت کے خلاف ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ ابو طالب کے سامنے تو ان کا کچھ بگاڑ نہ سکے، ان کے موت کے بعد اکیلا پا کر قتل کردیا، اس لئے اب وقت ہے کہ ہم مل کر خود ابو طالب ہی سے کوئی فیصلہ کن بات کرلیں۔- یہ بات تقریباً ہر لکھا پڑھا مسلمان جانتا ہے کہ ابو طالب اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہ صرف محبت بلکہ عظمت و جلالت بھی ان کے دل میں پیوست تھی، اور آپ کے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر رہتے تھے۔- چند قریشی سرداروں نے یہ مشورہ کر کے ابو طالب کے پاس جانے کے لئے ایک وفد مرتب کیا، جس میں ابو سفیان، ابو جہل، عمروبن عاص وغیرہ قریشی سردار شامل تھے، ابو طالب سے اس وفد کی ملاقات کے لئے وقت لینے کا کام ایک شخص مطّلب نامی کے سپرد ہوا، اس نے ابوطالب سے اجازت لے کر اس وفد کو وہاں پہنچایا۔- وفد نے ابو طالب سے کہا کہ آپ ہمارے بڑے اور سردار ہیں، اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اور ہمارے معبودوں کو سخت تکلیف اور ایذاء پہنچا رکھی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو بلا کر سمجھا دیں کہ وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں تو ہم اس پر صلح کرلیں گے کہ وہ اپنے دین پر جس طرح چاہیں عمل کریں، جس کو چاہیں معبود بنائیں، ہم ان کو کچھ نہ کہیں گے۔- ابو طالب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ یہ آپ کی برادری کے سردار آئے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اور ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیں، برا بھلا نہ کہیں، اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کو چھوڑ دیں گے، اس طرح باہمی مخالفت ختم ہوجائے گی۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا یہ بتلاؤ کہ اگر میں تمہاری یہ بات مان لوں تو کیا تم ایک ایسا کلمہ کہنے کے لئے تیار ہوجاؤ گے جس کے کہنے سے تم سارے عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم کے لوگ بھی تمہارے تابع اور باج گزار بن جائیں گے۔- ا بوجہل بولا کہ ایسا کلمہ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں، بتلائیے وہ کیا ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لَآ اِلٰہَ الاَّ اللہ یہ سنتے ہی سب برہم ہوگئے، ابوطالب نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرے بھتیجے اس کلمہ کے سوا کوئی اور بات کہو، کیونکہ آپ کی قوم اس کلمہ سے گھبرا گئی ہے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چچا جان میں تو اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا کلمہ نہیں کہہ سکتا، اگر وہ آسمان سے آفتاب کو اتار لاویں اور میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا ہرگز نہ کہوں گا، مقصود یہ تھا کہ ان کو مایوس کردیں۔- اس پر یہ لوگ ناراض ہو کر کہنے لگے یا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں (بتوں) کو برا کہنے سے باز آجائے، ورنہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی گالیاں دیں گے اور اس ذات کو بھی جس کا رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو بتلاتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بتوں کو برا نہ کہیں جن کو ان لوگوں نے خدا بنا رکھا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگیں اپنی بےراہ روی اور بےسمجھی سے۔- اس میں وَلَا تَسُبُّوا لفظ سَبّ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں گالی دینا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنے فطری اخلاق کی بناء پر پہلے ہی اس کے پابند تھے، کبھی بچپن میں بھی کسی انسان بلکہ کسی جانور کے لئے بھی گالی کا لفظ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر جاری نہیں ہوا، ممکن ہے بعض صحابہ کرام کی زبان سے کبھی کوئی سخت کلمہ نکل بھی گیا ہو جس کو مشرکین مکہ نے گالی سے تعبیر کیا، اور قریشی سرداروں کے اس وفد نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس معاملہ کو رکھ کر یہ اعلان کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو سب وشتم کرنے سے باز نہ آئیں گے تو ہم آپ کے خدا کو سب وستم کریں گے۔- اس پر قرآنی حکم یہ نازل ہوا، جس کے ذریعہ مسلمانوں کو روک دیا گیا، کہ وہ مشرکین کے معبودات باطلہ کے متعلق کوئی سخت کلمہ نہ کہا کریں، اس آیت میں یہ بات خاص طور سے قابل نظر ہے کہ اس سے پہلی آیت میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہو رہا تھا، مثلاً ارشاد ہے : (آیت) اتبع ما اوحی الیک من ربک، اور (آیت) واعرض عن المشرکین اور (آیت) وما جعلنک علیہم حفیظا اور (آیت) ما انت علیہم بوکیل، ان تمام صیغوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخاطب تھے، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایساکریں یا ایسا نہ کریں، اس کے بعد اس آیت میں طرز خطاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھیر کر عام مسلمانوں کی طرف کردیا گیا، فرمایا وَلَا تَسُبُّوا اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی کسی کو گالی دی ہی نہیں تھی، ان کو براہ راست اس کلام کا مخاطب بنانا ان کی دل شکنی کا سبب ہوسکتا ہے، اس لئے خطاب عام کردیا گیا، اور تمام صحابہ کرام بھی اس میں احتیاط فرمانے لگے (کذا فی البحر المحیط)- رہا یہ معاملہ کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بتوں کا تذکرہ سخت الفاظ میں آیا ہے، اور وہ آیات منسوخ بھی نہیں، ان کی تلاوت اب بھی ہوتی ہے۔- اس کا جواب یہ ہے کہ آیات قرآنی میں جہاں کہیں ایسے الفاظ آئے ہیں وہ بطور مناظرہ کسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں وہاں کسی کی دل آزاری نہ پیش نظر ہے، اور نہ کوئی سمجھدار انسان ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس میں بتوں کو برا کہنا یا مشرکین کو چڑانا منظور ہے، اور یہ ایک ایسا کھلا ہوا فرق ہے جس کو ہر زبان کے اہل محاورہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کبھی کسی شخص کا کوئی عیب یا برائی کسی مسئلہ کی تنقیح کے لئے ذکر کی جاتی ہے، جیسے عام طور پر عدالتوں میں ہر روز سامنے آتا رہتا ہے، لیکن عدالت کے سامنے ہونے والے بیان کو دنیا میں کوئی آدمی یہ نہیں کہتا کہ فلاں نے فلاں کو گالی دی ہے، اسی طرح ڈاکٹروں اور حکیموں کے سامنے انسان کے بہت سے ایسے عیب بیان کئے جاتے ہیں کہ ان کو دوسری جگہ اور دوسری طرح کوئی بیان کرے گا تو گالی سمجھی جائے، لیکن بغرض علاج ان کے بیان کرنے کو کوئی گالی دینا نہیں کہتا۔- اسی طرح قرآن کریم نے جا بجا بتوں کے بےحس وبے شعور اور بےعلم وقدرت اور بےبس ہونے کو اس پیرایہ میں بیان فرمایا ہے کہ سمجھنے والے حقیقت کو سمجھ لیں، اور نہ سمجھنے والوں کی غلطی یا کوتاہ نظری واضح ہوجائے، جس کے نتیجہ میں ارشاد ہوا ہے ضعف الطالب والمطلوب،” یعنی یہ بت بھی کمزور ہیں اور ان کے چاہنے والے بھی کمزور “ یا یہ ارشاد ہوا ہے (آیت) انکم وما تعبدون من دون اللّہ حصب جہنم،” یعنی تم اور جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں “۔ یہاں بھی کسی کو برا بھلا کہنا مقصود نہیں، گمراہی اور غلطی کا انجام بد بیان کرنا مقصود ہے، اور فقہاء رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو بھی مشرکین کو چڑانے کے سبب سے پڑھے تو اس کے لئے اس وقت یہ تلاوت کرنا بھی سبِّ ممنوع میں داخل اور ناجائز ہے، جیسے مواضع مکروہہ میں تلاوت ِقرآن کا ناجائز ہونا سب کو معلوم ہے۔ (روح المعانی)- خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک اور قرآن کریم میں تو نہ پہلے کبھی ایسا کلام آیا تھا جس کو لوگ گالی سمجھیں، اور نہ آئندہ آنے کا کوئی خطرہ تھا، ہاں مسلمانوں سے اس کا امکان تھا ان کو اس آیت نے ایسا کرنے سے روک دیا۔- اس واقعہ اور اس پر قرآنی ہدایت نے ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا، اور چند اصولی مسائل اس سے نکل آئے۔- کسی گناہ کا سبب بننا بھی گناہ ہے :- مثلاً ایک اصول یہ نکل آیا کہ جو کام اپنی ذات کے اعتبار سے جائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجہ میں لوگ مبتلائے معصیت ہوتے ہوں وہ کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے، کیونکہ معبودات باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم از کم جائز تو ضرور ہے، اور ایمانی غیرت کے تقاضہ سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو، مگر چونکہ اس کے نتیجہ میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس برائی کا سبب بن جائیں گے، اس لئے اس جائز کام کو بھی منع کردیا گیا۔- اس کی ایک اور مثال بھی حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو کسی شخص سے ممکن ہی نہیں کہ اپنے ماں باپ کو گالی دے، فرمایا کہ ہاں انسان خود تو ان کو گالی نہیں دیتا، لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے، تو اس گالی دلوانے کا سبب یہ بیٹا بنا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔- اسی معاملہ کی ایک دوسری مثال عہد رسالت میں یہ پیش آئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ بیت اللہ شریف زمانہ جاہلیت کے کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا تو قریش مکہ نے بعثت ونبو ّت سے پہلے اس کی تعمیر کرائی، اس تعمیر میں چند چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف ہوگئیں، ایک تو یہ کہ جس حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے یہ بھی بیت اللہ کا جز ہے، تعمیر میں اس کو سرمایہ کم ہونے کی بناء پر چھوڑ دیا، دوسرے بیت اللہ شریف کے دو دروازے شرقی اور غربی تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا باہر نکلنے کے لئے، اہل جاہلیت نے غربی دروازہ بند کرکے صرف ایک کردیا، اور وہ بھی سطح زمین سے بلند کردیا، تاکہ بیت اللہ شریف میں داخلہ صرف ان کی مرضی و اجازت سے ہوسکے، ہر شخص بےمحابانہ جاسکے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی تعمیر کے بالکل مطابق بنا دوں، مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عام عرب ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دلوں میں کچھ شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لئے میں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔- ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا ایک اطاعت اور کار ثواب تھا، مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارادہ کو ترک فرما دیا اس واقعہ سے بھی یہی اصول مستفاد ہوا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی مفسدہ لازم آتا ہو تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔- لیکن اس پر ایک قوی اشکال ہے، جس کو روح المعانی میں ابو منصور سے نقل کیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد و قتال لازم فرمایا ہے، حالانکہ قتال کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کے ارادہ کرے گا تو وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے، اور مسلمان کا قتل حرام ہے، تو اس اصول پر جہاد بھی ممنوع ہوجانا چاہئے، ایسے ہی ہماری تبلیغ اسلام اور تلاوت قرآن پر نیز اذان اور نماز پر بہت سے کفار مذاق اڑاتے اور مضحکہ بناتے ہیں، تو کیا ہم ان کے اس غلط رویہ کی بناء پر اپنی عبادات سے دستبردار ہوجائیں گے۔- اس کا جواب خود ابو منصور نے یہ دیا ہے کہ یہ اشکال ایک ضروری شرط کے نظر انداز کردینے سے پیدا ہوگیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ جائز کام جس کو لزوم مفسدہ کی وجہ سے منع کردیا گیا ہے اسلام کے مقاصد اور ضروری کاموں میں سے نہ ہو، جیسے معبودات باطلہ کو برا کہنا، اس سے اسلام کا کوئی مقصد متعلق نہیں، اسی طرح بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا اس پر بھی کوئی اسلامی مقصد موقوف نہیں، اس لئے جب اس پر کسی دینی مفسدہ کا خطرہ لاحق ہوا تو ان کاموں کو ترک کردیا گیا، اور جو کام ایسے ہیں کہ اسلام میں خود مقصود ہیں، یا کوئی مقصد اسلامی اس پر موقوف ہے اگر دوسرے لوگوں کی غلط روی سے ان پر کوئی مفسدہ اور خرابی مرتب بھی ہوتی نظر آئے تو ان مقاصد کو ہرگز ترک نہ کیا جائے گا، بلکہ اس کی کوشش کی جائیگی کہ یہ کام تو اپنی جگہ جاری رہیں اور پیش آنے والے مفاسد جہاں تک ممکن ہو بند ہوجائیں۔- یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور امام محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ دونوں حضرات ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لئے چلے، وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے، اس کو دیکھ کر ابن سیرین واپس ہوگئے، مگر حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے ضروری کام کیسے چھوڑ دیں، نماز جنازہ فرض ہے اس کو اس مفسدہ کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکا، ہاں اس کی کوشش تابمقدور کی جائے گی کہ یہ مفسدہ مٹ جائے۔ یہ واقعہ بھی روح المعانی میں نقل کیا گیا ہے۔- اس لئے خلاصہ اس اصول کا جو آیت مذکورہ سے نکلا ہے یہ ہوگیا کہ جو کام اپنی ذات میں جائز بلکہ اطاعت وثواب بھی ہو مگر مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اگر اس کے کرنے پر کچھ مفاسد لازم آجائیں تو وہ کام ترک کردینا واجب ہوجاتا ہے، بخلاف مقاصد شرعیہ کے کہ وہ لزوم مفاسد کی وجہ سے ترک نہیں کئے جاسکتے۔- اس اصول سے فقہاء امت نے ہزاروں مسائل کے احکام نکالے ہیں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کا بیٹا نافرمان ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس کو کسی کام کے کرنے کے لئے کہوں گا تو انکار کرے گا اور اس کے خلاف کرے گا جس سے اس کا سخت گناہگار ہونا لازم آئے گا تو ایسی صورت میں باپ کو چاہئے کہ اس کو حکم کے انداز میں کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کو نہ کہے، بلکہ نصیحت کے انداز میں اس طرح کہے کہ فلاں کام کرلیا جائے تو بہت اچھا ہو، تاکہ انکار یا خلاف کرنے کی صورت میں ایک جدید نافرمانی کا گناہ اس پر عائد نہ ہوجائے (خلاصہ الفتاوٰی)- اسی طرح کسی کو وعظ و نصیحت کرنے میں بھی اگر قرائن سے یہ معلوم ہوجائے کہ وہ نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی ایسا غلط انداز اختیار کرے گا، جس کے نتیجہ میں وہ اور زیادہ گناہ میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسی صورت میں نصیحت ترک کردینا بہتر ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے صحیح بخاری رحمة اللہ علیہ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب رکھا ہے باب من ترک بعض الاختیار مخافة ان یقصر فھم بعض الناس فقعوا فی اشد منہ، یعنی بعض اوقات جائز بلکہ مستحسن چیزوں کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم فہم عوام کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہ ہو۔ - مگر جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں خواہ فرائض و واجبات ہوں یا سنن مؤ کدہ یا دوسری قسم کے شعائر اسلامی، اگر ان کے ادا کرنے سے کچھ کم فہم لوگ غلطی میں مبتلا ہونے لگیں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، بلکہ دوسرے طریقوں سے لوگوں کی غلط فہمی اور غلط کاری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، ابتداء اسلام کے واقعات شاہد ہیں کہ نماز و تلاوت اور تبلیغ اسلام کی وجہ سے مشرکین مکہ کو اشتعال ہوتا تھا، مگر اس کی وجہ سے ان شعائر اسلام کو کبھی ترک نہیں کیا گیا، بلکہ خود آیت مذکورہ کے شان نزول میں جو واقعہ ابوجہل وغیرہ رؤ ساء قریش کا ذکر کیا گیا ہے اس کا حاصل یہی تھا کہ قریشی سردار اس پر صلح کرنا چاہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یہ کام کسی حال میں نہیں کرسکتا اگرچہ وہ آفتاب و ماہتاب لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دیں۔- اس لئے اس مسئلہ کی تنقیح اس طرح ہوگئی کہ جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں اگر ان کے کرنے سے کچھ لوگ غلط فہمی یا غلط کاری کا شکار ہوتے ہوں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، ہاں جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہیں، اور ان کے ترک کردینے سے کوئی دینی مقصد فوت نہیں ہوتا ایسے کاموں کو دوسروں کی غلط فہمی یا غلط کاری کے اندیشہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائیگا۔
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ٠ۭ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ٠۠ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٠٨- سبب - السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر :- فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب - بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب - «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر :- ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم - «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر :- لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»- والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح .- ( س ب ب ) السبب - اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
بُتوں کو بُرا بھلا نہ کہو - قول باری ہے ( ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم اور ( اے ایمان والو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں) سدی کا قول ہے کہ بتوں کو گالیاں نہ دو کہ پھر اس کے جواب میں مشرکین کو تمہارے لیے شریعت نازل کرنے والی ذات کے خلاف بدزبانی کا موقعہ ہاتھ آ جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ تم بتوں کو برا بھلا نہ کہو کہ اس کے سبب پیدا ہونے والا غصہ اور جہالت ان مشرکین کو اس ذات کے خلاف بدزبانی کرنے پر نہ اکسا دے جس کی تم بندگی کرتے ہو۔ اس کے اندر اس بات کی دلیل موجود ہے کہ حق پرست پر، شفہاء اور باطل پرستوں کے خلاف بدزبانی سے گریز کرنا لازم ہے۔ اس لیے کہ نادان لوگ مقابلے میں اس کے خلاف سبت و شتم پر بہت جلد اتر آئیں گے جو بظاہر ان لوگوں کو معصییت پر آمادہ کرنے اور اکسانے کی ایک صورت ہے۔
(١٠٨) کیوں کہ یہ لوگ حد سے گزر کر غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے، اس سے پہلے ان مشرکوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم اور تمہارے معبودان باطل سب دوزخ کا ایندھن ہیں، مگر اس حکم کو ایک حکمت خاص کے سبب آیت قتال نے منسوخ کردیا جیسا کہ ہم نے ان لوگوں کو ان کا دین وعمل مرغوب بنا رکھا ہے اسی طرح ہر ایک طریقہ والے کو ان کا عمل اور طریقہ مرغوب بنارکھا ہے، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جتلا دے گا، جو کچھ یہ کرتے تھے۔- شان نزول : (آیت) ” ولا تسبوا الذین “۔ (الخ)- حافظ عبدالرزاق (رح) نے بواسطبہ معمر (رح) ، قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کو برا بھلا کہتے تھے تو کفار غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کو برا مت کہو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں۔
آیت ١٠٨ (وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ ط) ۔- یعنی کہیں جوش میں آکر ان کے بتوں کو برابھلا مت کہو ‘ کیونکہ وہ ان کو اپنے معبود سمجھتے ہیں ‘ ان کے ذہنوں میں ان کی عظمت اور دلوں میں ان کی عقیدت ہے ‘ اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ غصے میں آکر جواباً اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں۔ لہٰذا تم کبھی ایسا اشتعال آمیز انداز اختیار نہ کرنا۔ یہاں ایک دفعہ پھر نوٹ کیجیے کہ یہ خطاب مسلمانوں سے ہے ‘ لیکن انہیں یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ - (کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ) - جس طرح ہر کوئی اپنے عقیدے میں خوش ہے اسی طرح یہ مشرکین بھی اپنے بتوں کی عقیدت میں مگن ہیں۔ ظاہر بات ہے وہ ان کو اپنے معبود سمجھتے ہیں تو ان کے بارے میں ان کے جذبات بھی بہت حساس ہیں۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں مناسب انداز سے سمجھائیں ‘ انذار ‘ تبشیر ‘ تذکیر اور تبلیغ وغیرہ سب طریقے آزمائیں ‘ لیکن ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :73 یہاں پھر اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو امور قوانین فطرت کے تحت رونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رونما ہوتا ہے ۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔
46: اگرچہ جن دیوتاوں کو کافر و مشرک لوگ خدا مانتے ہیں، ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے، لیکن اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کافروں کے سامنے ان کے لئے نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کافر لوگ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کا سبب تم بنوگے، اور جس طرح اﷲ تعالیٰ کی شان میں خود گستاخی کرنا حرام ہے، اسی طرح اس کا سبب بننا بھی ناجائز ہے۔ اس آیت سے فقہائے کرام نے یہ اصول نکالا ہے کہ کوئی کام بذات خود توجائز یا مستحب ہو، لیکن اندیشہ ہو کہ اس کے نتیجے میں کوئی دوسرا شخص گناہ کا ارتکاب کرے گا توایسی صورت میں وہ جائز یا مستحب کام چھوڑدینا چاہئے۔ تاہم اس اصول کے تحت کوئی ایسا کام چھوڑنا جائز نہیں ہے جو فرض یا واجب ہو۔ مزید تفصیل کے لئے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع فرمائیں۔ یہاں یہ بھی واصح رہے کہ اہل عرب اگرچہ اﷲ تعالیٰ کو مانتے تھے اور اصل میں تو وہ خود بھی اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، لیکن ضد میں آکر ان سے ایسی حرکت سرزد ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا، چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ سے یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ ہمارے بتوں کو برا کہوگے تو ہم آپ کے رب کو برا کہیں گے۔ 47: یہ درحقیقت ایک ممکن سوال کا جواب ہے اور وہ یہ کہ اگر کافر لوگ اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں توان کو دُنیا میں ہی میں سزا کیوں نہیں دے دی جاتی۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ دُنیا میں توان لوگوں کی ضد کی وجہ سے ہم نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے کہ یہ اپنے طرز عمل کو بہت اچھا سمجھ رہے ہیں۔ لیکن آخر کار ان سب کو ہمارے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا تھی۔