Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

معجزوں کے طالب لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور حضرت عیسیٰ مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ کی نبوت کو مان لیں گے ، آپ نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ کو سچا جاننے لگیں گے ۔ آپ کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ، آپ نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں جاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما ۔ اسی پر یہ آیتیں ( وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:111 ) تک نازل ہوئیں یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17 ۔ الاسراء:59 ) یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا ۔ انھا کی دوسری قرأت انھا بھی ہے اور لا یومنون کی دوسری قرأت لا تومنون ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ۔ اس صورت میں انھا الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی یشعر کم کا معمول ہو کر اور لا یومنون کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت ( قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ) 7 ۔ الاعراف:12 ) میں ۔ اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:95 ) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھا معنی میں لعلھا کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں انھا کے بدلے لعلھا ہی ہے ، عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ، امام ابن جرید رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ، واللہ اعلم پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت ( وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ) 35 ۔ فاطر:14 ) اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے؟ اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ، ہرگز نہ چھوڑیں گے ، یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لئے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے ۔ آمین ) ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 جھد ایمانہم، ای : حلفوا ایمانا مؤکدۃ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔ 109۔ 2 یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ علیہ السلام۔ احیائے موتی اور ناقہء خمود وغیرہ جیسا۔ 109۔ 3 ان کا یہ مطالبہ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنادیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جائے گا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہ فرمایا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١١] کفار مکہ کا معجزہ کا مطالبہ اور اس مطالبہ کے جواب :۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ اگر کوہ صفا خالص سونے کا بن جائے تو ہم یقینا ایمان لے آئیں گے اور بعض مسلمانوں کو یہ خیال آگیا کہ اگر ان کی یہ حجت پوری ہوجائے تو اچھی بات ہوگی۔ اس آیت میں اس پس منظر کو ملحوظ رکھا گیا ہے اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ان کفار کو ایسا معجزہ پیش کرنے سے صاف جواب دے دو ۔ اور کہہ دو کہ ایسا معجزہ دکھانا اللہ کے اختیار میں ہے، میرے اختیار میں کچھ نہیں اور مسلمانوں سے یوں خطاب فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ اگر انہیں ایسا معجزہ دکھا دیا جائے تو یہ لوگ ضرور ایمان لے ہی آئیں گی۔ یہ لوگ تو ایسے بدبخت ہیں کہ کوئی بھی معجزہ دیکھ لیں، ایمان نہیں لانے کے۔ لہذا ان سے کسی طرح کی خیر کی توقع مت رکھو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ۔۔ : مثلاً صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیا جائے، یا ان مطالبوں کو پورا کیا جائے جو ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں ذکر فرمائے ہیں۔ فرمایا ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں، میرے اختیار میں نہیں اور تمہیں کیا خبر کہ نیا معجزہ یا نشانی آ بھی جائے تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پچھلی آیات میں اس کا ذکر تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھلے ہوئے معجزات اور اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کے باجود ہٹ دھرم لوگوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا، اپنے انکار اور ضد پر جمے رہے، اگلی آیات میں اس کا ذکر ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا ایک نیا روپ یہ بدلا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خاص خاص قسم کے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ قریشی سرداروں نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ معجزہ دکھلا دیں کہ کوہ صفا پورا سونا ہوجائے تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کو مان لیں گے، اور مسلمان ہوجائیں گے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا معاہدہ کرو کہ اگر یہ معجزہ ظاہر ہوگیا تو تم سب مسلمان ہوجاؤ گے، انہوں نے قسمیں کھا لیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے کہ اس پہاڑ کو سونا بنا دیجئے، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) وحی لے کر آئے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں تو ہم ابھی اس پورے پہاڑ کو سونا بنادیں، لیکن قانون الٓہی کے مطابق اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو سب پر عذاب عام نازل کرکے ہلاک کردیا جائے گا، جیسی پچھلی قوموں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، کہ انہوں نے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کیا، وہ دکھایا گیا، اور وہ پھر بھی منکر ہوگئے، تو ان پر خدا تعالیٰ کا قہر و عذاب نازل ہوگیا، رحمة اللعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ان لوگوں کی عادات اور ہٹ دھرمی سے واقف تھے، بمقضائے شفقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب میں اس معجزہ کی دعا نہیں کرتا، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ، جس میں کفار کے قول کی نقل کی ہے، کہ انہوں نے مطلوبہ معجزہ ظاہر ہونے پر مسلمان ہوجانے کے لئے قسمیں کھالیں، اس کے بعد کی آیت اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ میں ان کے قول کا جواب ہے کہ معجزات اور نشانیاں سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اور جو معجزات ظاہر ہوچکے ہیں وہ بھی اسی کی طرف سے تھے، اور جن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان پر بھی وہ پوری طرح قادر ہے، لیکن ازروئے عقل و انصاف ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کے مدعی ہیں، اور اس دعوے پر بہت سے دلائل اور شہادتیں معجزات کی صورت میں پیش فرما چکے ہیں، اب دوسرے فریق کو اس کا تو حق ہے کہ ان دلائل اور شہادتوں پر جرح کرے ان کو غلط ثابت کرے، لیکن ان پیش کردہ شہادتوں میں کوئی جرح نہ کریں اور پھر یہ مطالبہ کریں کہ ہم تو دوسری شہادتیں چاہتے ہیں، یہ ایسا ہوگا جیسا عدالت میں کوئی مدعا علیہ مدعی کے پیش کردہ گواہوں پر تو کوئی جرح نہ کرے، مگر یہ کہے کہ میں تو ان گواہوں کی شہادت نہیں مانتا، بلکہ فلاں معیّن شخص کی گواہی پر بات مانوں گا، اس کو کوئی عدالت قابل سماعت نہ سمجھے گی۔- اسی طرح نبوت و رسالت پر بیشمار آیات بینات اور معجزات ظاہر ہوجانے کے بعد جب تک ان معجزات کو غلط ثابت نہ کریں ان کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ ہم تو فلاں قسم کا معجزہ دیکھیں گے جب ایمان لائیں گے۔- اس کے بعد آخر آیات تک مسلمانوں کو فہمائش اور خطاب ہی کہ تمہارا کام دین حق پر خود قائم رہنا اور دوسروں کو صحیح طریقہ سے پہنچا دینا ہے، پھر بھی اگر وہ ہٹ دھرمی کرنے لگیں تو ان کی فکر میں پڑنا نہیں چاہئے، کیونکہ زبردستی کسی کو مسلمان بنانا نہیں، اگر زبردستی بنانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ زبردست کون ہے، وہ خود ہی سب کو مسلمان بنا دیتے، اور ان آیات میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اگر ہم ان کے مانگے ہوئے معجزات کو بھی بالکل کھلے اور واضح طور پر ظاہر کردیں یہ جب بھی ایمان نہ لائیں گے، کیونکہ ان کا انکار کسی غلط فہمی یا ناواقفیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ضد اور عناد اور ہٹ دھرمی سے ہے، جس کا علاج کسی معجزہ سے نہیں ہوا کرتا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِہَا۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ۝ ٠ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٠٩- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - يَمِينُ ) قسم)- في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ.- الیمین - بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٩) ان مشرکوں میں سے جب بھی کوئی قسم کھاتا ہے تو بڑا زور لگا کر قسم کھاتا ہے کہ اگر ہماری فرمایش کردہ نشانی میں سے کوئی نشانی آجائے تو ہم اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان ہنسی اڑانے والوں سے فرما دیجیے کہ سب نشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور اے ایمان والوں تم حقیقت کو نہیں جانتے ہمیں خبر ہے جب ان کی فرمایش کردہ نشانی بھی آجائے گی تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔- شان نزول : (آیت) واقسموا باللہ جہد ایمانھم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی اور بولے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس عصا تھا جسے وہ پتھر پر مارتے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے اور قوم ثمود کے پاس اونٹنی تھی، لہٰذا آپ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لے کر آئیے تاکہ ہم آپ کی تصدیق کریں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کون سی چیز پسند کرتے ہو، جسے میں تمہارے پاس لے کر آؤں وہ بولے اس صفا پہاڑی کو سونے کا کردیجیے، آپ نے فرمایا اگر میں نے سونے کا کردیا تو تم میری تصدیق کرو گے، قریش نے کہا ہاں اللہ کی قسم۔- چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی، آپ کے پاس جبریل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور عرض کیا کہ اگر آپ چاہیں تو اللہ جل شانہ صفا پہاڑی کو سونے کا کردیں لیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی تصدیق نہیں کی تو ہم ان کو عذاب دیں گے۔- اور اگر آپ چاہیں تو چھوڑ دیں جس کو توبہ کرنا ہو وہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَءِنْ جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا ط) ۔- پھر ان کے اسی مطالبے کا ذکر آگیا کہ کس طرح وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر انہیں معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ لازماً ایمان لے آئیں گے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ یہ مضمون اس سورة مبارکہ کا عمود ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس سے پہلے تمام انبیاء معجزات دکھاتے رہے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ٰ نے اپنی قوم کو معجزات دکھائے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی معجزات دکھائے ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو معجزہ دکھایا ‘ تو پھر آپ معجزہ دکھا کر کیوں ہمیں مطمئن نہیں کرتے ؟ ان کے سردار اپنے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دکھائیے تو سہی ایک دفعہ معجزہ ‘ اسے دیکھتے ہی ہم لازماً ایمان لے آئیں گے۔ - (قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ ) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں صاف طور پر بتائیں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی معجزہ نہیں دکھانا چاہتا۔ ان کی اس طرح کی باتوں کا چونکہ مسلمانوں پر بھی اثر پڑنے کا امکان تھا اس لیے آگے فرمایا :- (وَمَا یُشْعِرُکُمْ لا اَنَّہَآ اِذَا جَآءَ تْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) ۔- یہ لوگ ایمان تو معجزہ دیکھ کر بھی نہیں لائیں گے ‘ لیکن معجزہ دیکھ لینے کے بعدان کی مہلت ختم ہوجائے گی اور وہ فوری طور پر عذاب کی گرفت میں آجائیں گے۔ اس لیے ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں معجزہ نہ دکھایا جائے۔ چناچہ ان کی باتیں سن سن کر جو تنگی اور گھٹن تم لوگ اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو اس کو برداشت کرو اور ان کے اس مطالبے کو نظر انداز کردو۔ اب جو آیت آرہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :74 نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور مِنَ اللہ ہونے کو مان لینے کو سوا کوئی چارہ نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :75 یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے ، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے ، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :76 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بے تاب ہو ہو کر تمنا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کردیتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہوجائے جس سے ان کے گمراہ بھائی راہ راست پر آجائیں ان کی اسی تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمہیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے طور پر موقوف نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :77 یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کے نقطہ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انہیں اس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مسلط ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

48: تشریح کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر 35 کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔