110۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے (ابن کثیر)
[١١٢] یعنی اگر یہ لوگ معجزہ دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو قرآن بذات خود کیا کم معجزہ تھا جس کے کھلے کھلے چیلنج کے باوجود یہ سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورة بھی پیش نہ کرسکے اور اب اگر مزید ہم انہیں کوئی معجزہ دکھائیں گے تو پھر بھی ان کی یہ کیفیت ہوگی۔ یہ پھر اسی طرح بصارت اور بصیرت کے لحاظ سے اندھے بن جائیں گے جس طرح پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔- رہی یہ بات کہ اللہ نے ان کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی کہ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے تو اس کے متعلق پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار پر انسان کا مواخذہ ہوگا۔ رہے ان اسباب کے نتائج تو نتائج پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہذا نتائج کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ اور عمل کرنے والوں کی طرف بھی اور قرآن میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔
وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ ۔۔ : یعنی اس سے پہلے معجزے دیکھ کر جب یہ ایمان نہیں لائے تو اب کیسے لائیں گے ؟ جو شخص حق واضح ہونے کے بعد ہٹ دھرمی سے ایک دفعہ انکار کردیتا ہے، پھر وہ مسلسل انکار ہی کرتا رہتا ہے۔ اس کے اس بد عمل کی وجہ سے آئندہ ایمان لانے کی توفیق اس سے چھین لی جاتی ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٧٤) اور سورة انفال (٢٤) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی جن کو اللہ ہدایت دیتا ہے وہ پہلی دفعہ ہی حق کی بات سن کر انصاف سے قبول کرلیتے ہیں اور جس شخص نے پہلے ہی ضد سے ٹھان رکھی ہے کہ مانے گا ہی نہیں، وہ معجزہ دیکھ کر بھی کوئی حیلہ بنا لیتا ہے، مثلاً فرعون نے کتنے ہی معجزے دیکھے پر وہ ایمان نہ لایا۔ (موضح)
وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ كَـمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّنَذَرُہُمْ فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ ١١٠ۧ- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔
(١١٠) اور ہم بھی ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو پھیردیں گے جیسا کہ یہ قرآن کریم پر جو کہ پہلا عظیم الشان معجزہ ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خبر دینے پر بھی ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں اندھے سرگرداں رہنے دیں گے۔
آیت ١١٠ (وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) - اس قاعدے اور قانون کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اگر وہ ان کو استعمال کرتا ہے تو ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو علم سکھائیں گے تو آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔ آپ آنکھ کا استعمال کریں گے تو آنکھ صحت مند رہے گی ‘ اس کی بصارت برقرار رہے گی۔ اگر آنکھ پر پٹی باندھ دیں گے تو دو چار مہینے کے بعد بصارت زائل ہوجائے گی۔ انسانی جوڑوں کو حرکت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ‘ اگر آپ کسی جوڑ پر پلاسٹر چڑھا دیں گے تو کچھ مہینوں کے بعد اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ جو صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اگر وہ اس کا استعمال نہیں کرے گا تو وہ صلاحیت تدریجاً زائل ہوجائے گی۔ اسی طرح حق کو پہچاننے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو باطنی طور پر صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اب اگر ایک شخص پر حق منکشف ہوا ہے ‘ اس کے اندر اسے پہچاننے کی صلاحیت موجود ہے ‘ اس کے دل نے گواہی بھی دی ہے کہ یہ حق ہے ‘ لیکن اگر کسی تعصب کی وجہ سے ‘ کسی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب اس نے اس حق کو دیکھنے ‘ سمجھنے اور ماننے سے انکار کردیا ‘ تو اس کی وہ صلاحیت قدرے کم ہوجائے گی۔ اب اس کے بعد پھر دوبارہ کبھی حق کی کوئی چنگاری اس کے دل میں روشن ہوئی تو اس کا اثر اس پر پہلے سے کم ہوگا اور پھر تدریجاً وہ نوبت آجائے گی کہ حق کو پہچاننے کی وہ باطنی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سورة البقرۃ آیت ٧ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ) اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر ‘ اور ان کی آنکھوں کے آگے پردے ڈال دیے ہیں ‘ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اس لیے کہ جب ضد اور تعصب کی بنا پر وہ لوگ سمجھتے بوجھتے حق کا مسلسل انکار کرتے رہے تو ان کی حق کو پہچاننے کی صلاحیتیں سلب ہوگئیں۔ اب وہ اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس کو کہتے ہیں۔ ہر معاملے میں واپسی کا ایک وقت ہوتا ہے ‘ لیکن وہ وقت گزر جانے کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔- یہی فلسفہ یہاں دوسرے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں پر حق منکشف ہوا ‘ اللہ نے حجت قائم کردی ‘ انہوں نے حق کو پہچان لیا ‘ ان کے دلوں ‘ ان کی روحوں اور باطنی بصیرت نے گواہی دے دی کہ یہ حق ہے ‘ اس کے بعد اگر وہ اس حق کو فوراً مان لیتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ انہوں نے نہیں مانا تو اللہ نے فرمایا کہ اس کی سزا کے طور پر ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ اب وہ سو معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔- (وَّنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ۔ ) ۔- یہی لفظ یَعْمَھُوْنَ ہم سورة البقرۃ کی آیت ١٥ میں پڑھ چکے ہیں ‘ جبکہ وہاں آیت ١٨ میں عُمْیٌ بھی آیا ہے۔ عَمِہَ یَعْمَہُ بصیرت سے محرومی یعنی باطنی اندھے پن کے لیے آتا ہے اور عَمِیَ یَعْمٰی بصارت سے محرومی یعنی آنکھوں سے اندھا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ہم چھوڑ دیں گے ان کو ان کی باطنی ‘ ذہنی ‘ نفسیاتی اور اخلاقی گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے۔