اللہ کے فیصلے اٹل ہیں حکم ہوتا ہے کہ مشرک جو کہ اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں آپس میں فیصلہ کرنے والا بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو تلاش کروں؟ اسی نے صاف کھلے فیصلے کرنے والی کتاب نازل فرما دی ہے یہود و نصاری جو صاحب کتاب ہیں اور جن کے پاس اگلے نبیوں کی بشارتیں ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تجھے شکی لوگوں میں نہ ملنا چاہیے ، جیسے فرمان ہے ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ) 10 ۔ یونس:94 ) یعنی ہم نے جو کچھ وحی تیری طرف اتاری ہے اگر تجھے اس میں شک ہو تو جو لگو اگلی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان سے پوچھ لے یقین مان کہ تیرے رب کی جانب سے تیری طرف حق اتر چکا ہے پس تو شک کرنے والوں میں نہ ہو ، یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا کچھ ضروری نہیں اسی لئے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا نہ میں شک کروں نہ کسی سے سوال کروں ، تیرے رب کی باتیں صداقت میں پوری ہیں ، اس کا ہر حکم عدل ہے ، وہ اپنے حکم میں بھی عادل ہے اور خبروں میں صادق ہے اور یہ خبر صداقت پر مبنی ہے ، جو خبریں اس نے دی ہیں وہ بلا شبہ درست ہیں اور جو حکم فرمایا ہے وہ سراسر عدل ہے اور جس چیز سے روکا وہ یکسر باطل ہے کیونکہ وہ جس چیز سے روکتا ہے وہ برائی والی ہی ہوتی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ ) 7 ۔ الاعراف:157 ) وہ انہیں بھلی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے کوئی نہیں جو اس کے فرمان کو بدل سکے ، اس کے حکم اٹل ہیں ، دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ۔ اس کا تعاقب کوئی نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور ان کی حرکات سکنات کو بخوبی جانتا ہے ۔ ہر عامل کو اس کے برے بھلے عمل کا بدلہ وہ ضرور دے گا ۔
[١١٨] اہل کتاب کی ثالثی ؟ یہ رسول اللہ کا خطاب مشرکین مکہ کو ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہود اور نصاریٰ دونوں اہل کتاب بھی ہیں اور عالم بھی ہیں لہذا آپ ان میں سے کسی کو ثالث تسلیم کرلیں۔ جو ہم میں فیصلہ کر دے کہ ہم میں کون حق پر ہے یا وہ صلح یا سمجھوتہ کی کوئی راہ نکال دیں۔ ان کی اس تجویز کا جواب یہ ہے کہ میرا حکم صرف اللہ تعالیٰ ہے جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت کی وہ ساری باتیں آگئی ہیں جو تورات اور انجیل میں ہیں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی کتابوں سے کیا سلوک کیا کن کن آیات کی وہ لفظی اور معنوی تحریف کرچکے ہیں اور کون کون سی آیات کو چھپا رہے ہیں۔ تو کیا میں اللہ کو چھوڑ کر ایسے غلط کار لوگوں کو اپنا منصف تسلیم کروں ؟ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔- [١١٩] الذین سے مراد اہل کتاب بھی ہوسکتے ہیں اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو اس بات میں ہرگز شک نہ ہونا چاہیے کہ اہل کتاب یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور حقائق پر مبنی ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں۔ اور الذین سے مراد مسلمان بھی ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں کہ صحابہ کرام (رض) کی جماعت قرآن کو ہدایت کا سرچشمہ، منزل من اللہ اور ٹھیک ٹھیک امر حق کی نشاندہی کرنے والی کتاب سمجھتی ہے۔
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا۔۔ : اوپر کی آیات میں یہ بتادیا کہ یہ کفار کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے، لہٰذا ان کے لیے آیات کا نازل کرنا بےفائدہ ہے۔ اب یہاں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مفصل کتاب نازل فرمائی ہے وہ آپ کی نبوت کے سچا ہونے پر دلیل کے لیے کافی ہے۔ کفار مکہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو مخالفت ہے اس کے بارے میں اہل کتاب یا کسی اور کو حکم بنا لیا جائے، پھر جو فیصلہ وہ دیں اسے تسلیم کرلیا جائے، اس آیت میں ان کی اس تجویز کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی اور منصف تلاش کروں۔- يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بالْحَقِّ : کیونکہ ان کے انبیاء بھی انھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت دیتے رہے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی آپ کی علامات موجود ہیں۔ - فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ : یعنی اس بارے میں کہ اہل کتاب کے دلوں میں قرآن کے سچا ہونے کا یقین ہے۔ خطاب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر اس سے مراد سارے مسلمان ہیں۔ (رازی)
خلاصہ تفسیر - (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میرے تمہارے درمیان جو مقدمہ رسالت میں اختلاف ہے کہ میں بحکم سرکاری اس کا مدعی ہوں اور تم منکر اور یہ مقدمہ اجلاس احکم الحاکمین سے میرے حق میں اس طرح طے اور فیصل ہوچکا ہے کہ میرے اس دعوے پر کافی ثبوت اور دلیل، یعنی قرآن معجز خود قائم فرما دیا ہے اور تم پھر بھی نہیں مانتے) تو کیا (تم یہ چاہتے ہو کہ اس خدائی فیصلہ کو کافی نہ قرار دوں اور) اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں، حالانکہ وہ ایسا (کامل فیصلہ کرچکا) ہے کہ اس نے ایک کتاب (جو اپنے اعجاز میں) کامل (ہے) تمہارے پاس بھیج دی ہے (جو اپنے اعجاز کی وجہ سے دلالة علی النبوة میں کافی ہے، پس اس کے دو کمال تو یہ ہیں، اعجاز و تنزیل من اللہ، اور اس کے علاوہ اور وجوہ سے بھی کامل، اور اس سے جو اور مقاصد ہدایت وتعلیم کے متعلق ہیں ان کے لئے کافی ہے، چنانچہ) اس کی (ایک یعنی تیسری) حالت (کمال کی) یہ ہے کہ اس کے مضامین (جو دین کے باب میں اہم ہیں) خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں اور (چوتھا وصف کمال اس کا یہ ہے کہ کتب سابقہ میں اس کی خبر دی گئی تھی جو علامت ہے اس کے مہتم بالشان ہونے کی، چنانچہ) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (یعنی تورات و انجیل) دی ہے وہ اس کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے واقعیت کے ساتھ بھیجا گیا ہے (اس کو جانتے تو سب ہیں، پھر جن میں حق گوئی کی صفت تھی، انہوں نے ظاہر بھی کردیا، اور جو معاند تھے وہ ظاہر نہ کرتے تھے) سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شبہ کرنے والوں میں نہ ہوں اور (پانچواں وصف کمال اس کا یہ ہے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا (یہ) کلام واقعیت اور اعتدال کے اعتبار سے (بھی) کامل ہے (یعنی علوم و عقائد میں واقعیت اور اعمال ظاہری اور باطنی میں اعتدال لئے ہوئے ہے، اور چھٹا وصف کمال اس کا یہ ہے کہ) اس کے (اس) کلام کا کوئی بدلنے والا نہیں (یعنی کسی کی تحریف و تغیر سے اس کا اللہ محافظ ہے (وانا لہ لحفظون) اور (ایسی کامل دلیل پر بھی جو لوگ تکذیب قلبی و زبانی سے پیش آویں) وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اقوال کو) خوب سن رہے ہیں (اور ان کے عقائد کو) خوب جان رہے ہیں (اپنے وقت پر ان کو کافی سزا دیں گے) اور (باوجود وضوح دلائل کے) دنیا میں زیادہ لوگ ایسے (منکر اور گمراہ ہی) ہیں کہ اگر (بالفرض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی راہ (راست) سے بےراہ کردیں (کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں چناچہ عقائد میں) وہ محض بےاصل خیالات پر چلتے ہیں اور (اقوال میں) بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں (اور ان کے مقابلہ میں بعض بندگان خدا راہ پر بھی ہیں اور) بالیقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ان کو (بھی) خوب جاننا ہے جو اس کی (بتلائی ہوئی) راہ (راست) سے بےراہ ہوجاتا ہے اور وہ (ہی) ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی (بتلائی ہوئی) راہ پر چلتے ہیں (پس گمراہوں کو سزا ملے گی راہ والوں کا انعام و اکرام ہوگا) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں اس کا ذکر تھا کہ مشرکین مکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے حق و صحیح ہونے پر کھلے کھلے معجزات اور دلائل دیکھنے اور جاننے کے باوجود ہٹ دھرمی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں قسم کے خاص معجزات ہمیں دکھا لئے جائیں تو ہم ماننے کو تیار ہیں، قرآن کریم نے ان کی کج بحثی کا یہ جواب دیا کہ جو معجزات یہ اب دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے لئے ان کا ظاہر کرنا بھی کچھ مشکل نہیں، لیکن یہ ہٹ دھرم لوگ ان کو دیکھنے کے بعد بھی سرکشی سے باز نہ آئیں گے، اور قانون قدرت کے ماتحت اس کا نتیجہ پھر یہ ہوگا کہ ان سب پر عذاب آجائے گا۔- اسی لئے رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مانگے ہوئے معجزات کے ظاہر کرنے سے شفقت کی بناء پر انکار کردیا، اور جو معجزات و دلائل اب تک ان کے سامنے آچکے ہیں انہی میں غور کرنے کی طرف ان کو دعوت دی، مذکورہ آیات میں ان دلائل کا بیان ہے جن سے بدیہی طور قرآن کریم کا حق اور کلام الٓہی ہونا ثابت ہے۔- پہلی آیت میں جو ارشاد فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان مقدمہ رسالت و نبوت میں اختلاف ہے، میں اس کا مدعی ہوں اور تم منکر، اور یہ مقدمہ احکم الحاکمین کے اجلاس سے میرے حق میں اس طرح طے اور فیصل ہوچکا ہے کہ میرے اس دعوے پر کافی ثبوت اور دلیل خود قرآن کا اعجاز ہے، جس نے تمام اقوام عالم کو چیلنج کیا کہ اگر اس کے کلام الٓہی ہونے میں کسی کو شبہ ہے تو اس کلام کی ایک چھوٹی سی سورت یا آیت کا مقابلہ کرکے دکھلاؤ جس کے جواب میں تمام عرب عاجز رہا، اور وہ لوگ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کو پست کرنے کے لئے اپنی جان، مال، اولاد، آبرو سب کچھ قربان کر رہے تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہ نکلا کہ قرآن کے مقابلہ کے لئے ایک دو آیت بنا کر پیش کردیتا، یہ کھلا ہوا معجزہ کیا قبول حق کے لئے کافی نہ تھا، کہ ایک امّی جس نے کہیں کسی سے تعلیم نہیں پائی اس کے پیش کئے ہوئے کلام کے مقابلہ سے پورا عرب بلکہ پورا جہان عاجز ہوجائے، یہ درحقیقت احکم الحاکمین کی عدالت سے اس مقدمہ کا واضح فیصلہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول برحق اور قرآن اللہ جل شانہ کا کلام ہے۔- پہلی آیت میں اسی کے متعلق فرمایا اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کے بعد میں کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد قرآن کی چند ایسی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو خود قرآن کریم کے حق اور کلام الٓہی ہونے کا ثبوت ہیں، مثلاً فرمایا : (آیت) وَّهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا جس میں قرآن کریم کے چار خصوصی کمالات کا بیان ہے، اول یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے، دوسرے یہ کہ وہ ایک کتاب کامل اور معجز ہے کہ سارا جہان اس کے مقابلہ سے عاجز ہے، تیسرے یہ کہ تمام اہم اور اصولی مضامین اس میں بہت مفصل واضح بیان کئے گئے ہیں، چوتھے یہ کہ قرآن کریم سے پہلے اہل کتاب یہود و نصاریٰ بھی یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا کلام حق ہے، پھر جن میں کوئی سچائی اور حق گوئی کی صفت تھی، انہوں نے اس کو ظاہر بھی کردیا، اور جو لوگ معاند تھے وہ باوجود یقین کے اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔- قرآن کریم کی ان چار صفات کو بیان کرنے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ، یعنی ان واضح دلائل کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شبہ کرنے والوں میں نہ ہوں، یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کسی وقت بھی شبہ کرنے والوں میں نہ تھے نہ ہوسکتے تھے، جیسا کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ” نہ میں نے کبھی شک کیا، اور نہ کبھی سوال کیا، معلوم ہوا کہ یہاں اگرچہ لفظوں میں خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، لیکن در حقیقت سنانا دوسروں کو مقصود ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اسناد کرنے سے مبالغہ اور تاکید کرنا منظور ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کہا گیا تو دوسروں کی کیا ہستی ہے جو کوئی شک کرسکیں۔
اَفَغَيْرَ اللہِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَاتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ١١٤- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- حَكَمُ- : المتخصص بذلک، فهو أبلغ . قال اللہ تعالی: أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114] ، وقال عزّ وجلّ : فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] ، وإنما قال : حَكَماً ولم يقل : حاکما، تنبيها أنّ من شرط الحکمين أن يتولیا الحکم عليهم ولهم حسب ما يستصوبانه من غير مراجعة إليهم في تفصیل ذلك، ويقال الحکم للواحد والجمع، وتحاکمنا إلى الحاکم . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، وحَكَّمْتُ فلان - اور حکم ( منصف ) ماہر حاکم کو کہاجاتا ہے اس لئے اس میں لفظ حاکم سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114]( کبو ) کیا میں خدا کے سوا اور منعف تلاش کردں ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کردو ۔ میں حاکما کی بجائے حکما کہنے سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ دو منصف مقرر کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں تفصیلات کی طرف مراجعت کئے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں خواہ وہ فیصلہ فریقین کی مرضی کے موافق یا ہو مخالف اور حنم کا لفظ واحد جمع دونوں پر بولاجاتا ہے ۔ ہم حاکم کے پاس فیصلہ لے گئے قرآن میں ہے ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ کے پاس لے جاکر فیصلہ کر آئیں ۔ حکمت فلان ۔ کسی کو منصف ان لینا ۔ قرآن میں سے : حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنایئں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے حکم بالباطل تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے باطل کو بطور حکم کے جاری کیا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے
(١١٤) جو مقدمہ رسالت میں اختلاف ہے تو کیا میں اس میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے علاوہ اور کسی کا فیصلہ تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہارے نبی پر ایک کامل کتاب جو حلال و حرام کو بیان کرنے والی ہے اور ایک ایک آیت جدا ہے نازل کردی ہے۔- اور جن حضرات کو ہم نے توریت کا علم دیا ہے وہ اپنی کتاب میں اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم آپ کے پروردگار کی طرف سے اوامرو نواہی کے ساتھ نازل کیا گیا ہے یا یہ کہ بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر قرآن کریم واقعیت کے ساتھ بھیجا گیا ہے، سو آپ اس چیز کا ہرگز شک نہ کریں کہ یہ اس کی سچائی سے بیخبر ہیں۔
آیت ١١٤ (اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا) - اب پھر یہ متجسسانہ سوال ( ) اسی پس منظر میں کیا گیا ہے کہ مشرکین مکہ اللہ کو مانتے تھے۔ چناچہ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اللہ جس کو تم مانتے ہو ‘ میں نے بھی اسی کو اپنا رب مانا ہے۔ تو کیا اب تم چاہتے ہو کہ میں اس معبود حقیقی کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا حکم تسلیم کرلوں ‘ اور وہ بھی ان میں سے جن کو تم لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ‘ جن کے بارے میں اللہ نے کوئی سند یا دلیل نازل نہیں کی ہے۔ سورة الزخرف میں اسی نکتہ کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے : (قُلْ اِنْ کَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلے اس کو میں پوجتا۔ یعنی جب میں اللہ کی پرستش کرتا ہوں تو اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتاتو کیا میں اس کی پرستش نہ کرتا ؟ چناچہ میں جو اللہ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں اور کسی کو اس کا بیٹا نہیں مانتاتو جان لیں کہ اس کا کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔ سمجھانے کا یہ انداز جو قرآن میں اختیار کیا گیا ہے بڑا فطری ہے۔ اس میں منطق کے بجائے جذبات سے براہ راست اپیل ہے۔ دروں بینی ( ) کی طرف دعوت ہے کہ اپنے دل میں جھانکو ‘ گریبان میں منہ ڈالو اور سوچو ‘ حقیقت تمہیں خود ہی نظر آجائے گی۔ - (وَّہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً ط) ۔ - (وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بالْحَقِّ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ ۔ ) ۔- اہل کتاب زبان سے اقرار کریں نہ کریں ‘ اپنے دلوں میں ضروریقین رکھتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :81 اس فقرہ میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خطاب مسلمانوں سے ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف یہ تمام حقیقتیں بیان کر دی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ فوق الفطری مداخلت کے بغیر حق پرستوں کو فطری طریقوں ہی سے غلبہ حق کی جدوجہد کرنی ہوگی ، تو کیا اب میں اللہ کے سوا کوئی اور ایسا صاحب امر تلاش کروں جو اللہ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور ایسا کوئی معجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پر مجبور ہو جائیں؟ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :82 یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو واقعات کی توجیہ میں آج گھڑی گئی ہو ۔ تمام وہ لوگ جو کتب آسمانی کا علم رکھتے ہیں اور جنہیں انبیاء علیہم السلام کے مشن سے واقفیت حاصل ہے اس بات کی شہادت دیں گے یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے ٹھیک ٹھیک امر حق ہے اور وہ ازلی و ابدی حقیقت ہے جس میں کبھی فرق نہیں آیا ہے ۔