115۔ 1 اخبار اور واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام و مسائل کے اعتبار سے عادل ہے، یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل و انصاف پر مبنی ہے، کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جس میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔ 115۔ 2 یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔ 115۔ 3 یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا۔
[١٢٠] قرآن پاک کی تمام تر خبریں سچی اور احکام معتدل ہیں :۔ یعنی اس کتاب میں توحید باری تعالیٰ پر اتنے دلائل دیئے جا چکے ہیں کہ جن سے حق نکھر کر سامنے آچکا ہے۔ آپ کے پروردگار کے فرامین سچائی اور انصاف کے ساتھ پورے ہوچکے۔ اس کتاب کی تمام تر خبریں سچی ہیں اور اس کے احکام معتدل اور منصفانہ ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان احکام و فرامین میں کسی طرح کا رد و بدل کرسکے یا اس میں سے کسی آیت کو چھپا سکے یا اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرسکے۔- واضح رہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کو سرسری طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق اخبار یا خبر دینے سے ہوتا ہے جو وہ گزشتہ قوموں اور انبیاء کے حالات ہوں یا آئندہ کے متعلق پیش گوئیاں ہوں مثلاً قیامت سے پیشتر کون کون سے فتنے یا حوادث پیش آنے ہیں اور خواہ ان کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہو جیسے دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے حضور پیشی اور اپنے اپنے اعمال کی باز پرس اور جنت اور دوزخ وغیرہ کے حالات کا بیان اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اوامرو نواہی بیان کیے جاتے ہیں خواہ اللہ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے یا خواہ معاشرتی اور تمدنی احکام ہوں یا معاشی یا سیاسی ہو یا عائلی زندگی سے متعلق ہوں۔ قرآن کریم میں پہلی قسم سے متعلق جو خبریں دی گئی ہیں وہ مکمل اور ٹھوس حقائق پر مبنی اور سچی ہیں۔ اور دوسرے حصہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ افراط وتفریط سے پاک اور نہایت معتدل اور متوازن ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کی خود باتیں سننے والا اور ان کے ہر طرح کے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ ۔۔ : یہاں کلمہ اور کلمات سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن معجزہ ہونے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سچا ہونے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو ہی قسم کے ہیں، خبریں یا احکام۔ یہاں ” صِدْقًا “ کا تعلق خبروں سے ہے اور ” َعَدْلًا ۭ“ کا تعلق احکام سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام خبریں، خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ہو یا گزشتہ واقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے، وہ سب پورے طور پر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عدل و انصاف پر مشتمل ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں ان شیطانی وساوس یا عقلی شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ (رازی) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلے میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں دخل دے رہے ہیں۔ - لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ: یعنی نہ تو اس قسم کے شبہات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور نہ اس کے اوامرو نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے اور نہ جیسے تورات و انجیل میں تحریف ہوئی، قرآن میں ہو سکے گی۔ (رازی)
دوسری آیت میں قرآن حکیم کی اور دو امتیازی صفات کا بیان ہے جو قرآن کے کلام الٓہی ہونے کا کافی ثبوت ہے وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا یعنی کامل ہے کلام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا، سچائی اور انصاف اور اعتدال کے اعتبار سے، اس کے کلام کو کوئی بدلنے والا نہیں۔- لفظ ثَمَّت میں کامل ہونے کا بیان ہے، اور کَلِمَتُ رَبِّکَ سے مراد قرآن ہے (بحر محیط عن قتادہ (رض) قرآن کے کل مضامین دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن میں تاریخ عالم کے عبرت آموز واقعات و حالات اور نیک اعمال پر وعدہ اور برے اعمال پر سزا کی وعید بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں انسان کی صلاح و فلاح کے لئے احکام بیان کئے گئے ہیں، ان دونوں قسموں کے متعلق قرآن مجید کی یہ دو صفتیں بیان فرمائیں، صدقاً وعدلاً ، صدق کا تعلق پہلی قسم سے ہے، یعنی جتنے واقعات و حالات یا وعدہ و عید قرآن میں بیان کئے گئے ہیں وہ سب سچے اور صحیح ہیں، ان میں کسی غلطی کا امکان نہیں، اور عدل کا تعلق دوسری قسم یعنی احکام سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے تمام احکام عدل پر مبنی ہیں، اور لفظ عدل کا مفہوم دو معنی کو شامل ہے، ایک انصاف جس میں کسی پر ظلم اور حق تلفی نہ ہو، دوسرے اعتدال کہ نہ بالکل انسان کی نفسانی خواہشات کے تابع ہوں، اور نہ ایسے جن کو انسانی جذبات اور اس کے فطری ملکات برداشت نہ کرسکیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام احکام الٓہیہ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہیں نہ ان میں کسی پر ظلم ہے، اور نہ ان میں ایسی شدت اور تکلیف ہے جس کو انسان برداشت نہ کرسکے، جیسے دوسری جگہ ارشاد ہے : (آیت) لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا، یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ کسی عمل کی تکلیف نہیں دیے “۔ اس کے ساتھ ہی اس آیت میں لفظ تَمَّت لا کر یہ بھی بتلا دیا کہ صرف یہی نہیں کہ قرآن کریم میں صدق و عدل کی صفات موجود ہیں، بلکہ وہ ان صفات میں ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہے۔- اور یہ بات کہ تمام قرآنی احکام تمام اقوام دنیا کے لئے اور قیامت تک آنے والی نسلوں اور بدلنے والے حالات کے لئے انصاف پر بھی مبنی ہوں اور اعتدال پر بھی، یہ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو صرف احکام خدا وندی ہی میں ہوسکتا ہے، دنیا کی کوئی قانون ساز اسمبلی تمام موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کا نہ پورا اندازہ لگا سکتی ہے، اور نہ ان سب حالات کی رعایت کرکے کوئی قانون بنا سکتی ہے، ہر ملک و قوم اپنے ملک اور اپنی قوم کے بھی صرف موجودہ حالات کے پیش نظر قانون بناتی ہے، اور ان قوانین میں بھی تجربہ کرنے کے بعد بہت سی چیزیں عدل و اعتدال کے خلاف محسوس ہوتی ہیں، تو ان کو بدلنا پڑتا ہے، دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں یا آئندہ حالات کی پوری رعایت کرکے ایسا قانون وضع کرنا جو قوم ہر ملک ہر حال میں عدل و اعتدال کی صفات لئے ہوئے ہو، یہ انسانی فکر و نظر سے بالاتر ہے، صرف حق جل و علا شانہ، کے ہی کلام میں ہوسکتا ہے، اس لئے یہ پانچویں صفت قرآن کریم کی کہ اس میں بیان کئے ہوئے گزشتہ اور آئندہ کے تمام واقعات اور وعدہ وعید سب سچے ہیں، ان میں خلاف واقع ہونے کا ادنیٰ شبہ نہیں ہوسکتا، اور اس کے بیان کئے ہوئے تمام احکام پوری دنیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عدل و اعتدال لئے ہوئے ہیں، نہ ان میں کسی پر ظلم ہے، نہ اعتدال و میانہ روی سے سرِ مو تجاوز ہے، یہ بجائے خود قرآن کے کلام الٓہی ہونے کا مکمل ثبوت ہے۔- چھٹی صفت یہ بیان فرمائی کہ (آیت) ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ، یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں، بدلنے کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی اس میں غلطی ثابت کرے، اس لئے بدلا جائے، یا یہ کہ کوئی دشمن زبردستی اس کو بدل ڈالے، اللہ تعالیٰ کا کلام ان سب چیزوں سے بالا تر اور پاک ہے اس نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ (آیت) انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون، ” یعنی ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ پھر کس کی مجال ہے کہ خدا کی حفاظت کو توڑ کر اس میں کوئی غیر تبدل کرسکے، چناچہ چودہ سو برس اس پر گزر چکے ہیں، اور ہر قرن ہر زمانہ میں قرآن کے مخالف اس کے ماننے والوں کی نسبت تعداد میں بھی زیادہ رہے ہیں، قوت میں بھی، مگر کسی کی مجال نہیں ہوسکی کہ قرآن کے ایک زبر زیر میں فرق پیدا کرسکے، ہاں بدلنے کی ایک تسیری صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو منسوخ کرکے بدل دیا جائے، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری پیغمبر اور قرآن آخری کتاب ہے، اس کے بعد نسخ کا کوئی احتمال نہیں، جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ یعنی اللہ جل شانہ اس تمام گفتگو کو سنتے ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں، اور سب کے حالات اور اسرار سے واقف ہیں ہر ایک کے عمل کا بدلہ اس کے مطابق دیں گے۔
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ٠ ۭ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ ٠ ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔
(١١٥) قرآن کریم اور اس میں مذکور اوامرو نواہی واقعیت اور اعتدال کے اعتبار سے کامل ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کا شک نہیں یا یہ کہ آپ کے پروردگار کی مدد اس کے اولیاء کے ساتھ ضروری ہے اس طرح کہ ان کے اقوال میں سچائی اور افعال میں استدلال ہوگا۔
آیت ١١٥ (وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً ط) ۔- آپ کے رب کی بات اس کی مشیت کے مطابق مکمل ہوچکی ہے ‘ جیسے سورة المائدۃ آیت ٣ میں فرمایا : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط)