Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سدھائے ہوئے کتوں کا شکار یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا ، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر ، اس کی دلیل آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) ہے یعنی جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھا لو اور اللہ کا نام اس پر لو ، اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ یہ کھلی نافرمانی ہے یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ، احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے آپ فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لئے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے اور حدیث میں ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو ، جنوں سے حضور نے فرمایا تھا تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے ، عید کی قربانی کے متعلق آپ کا ارشاد مروی ہے کہ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کر لے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر ے ، چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو ، الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قومی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ نے بھی سمجھا کر بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں؟ تو حضور نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تا کہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے ، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہو گا ، دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہ کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر ، کوئی حرج نہیں ۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام:145 ) بقول عطا ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممکن کی گئی ، اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ ( وانہ ) میں واؤ حالیہ یہ ۔ تو فسق فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا ، لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے ( وان الشیاطین ) سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ تو یقینا عاطفہ جملہ ہے ۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہو گا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہو جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس کا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو ۔ اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں حضور کا فرمان ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا ۔ اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ نے اجازت دی تو اگر بم اللہ کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور تحقیق کرنے کا حکم دیتے ، تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو ذبیحہ پر عمداً بسم اللہ نہ کہی جائے وہ حرام ہے اسی لئے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ، امام شافعی سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس حضرت ابو ہریرہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا اس سے اختلاف ہے ۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے واللہ اعلم ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھا لے ۔ یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبید اللہ خرزمی کی ہے ، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس سے موقوف روایت کرتے ہیں ۔ بقول امام بہیقی یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ شعبی اور محمد بن سیرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔ واللہ الموفق ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہو گئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھا لو ، پھر محمد بن سیرین سے یہی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے لیکن اس میں ضعف ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے ( یعنی وہ حلال ہے ) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے ، مردان بن سالم ابو عبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے ، واللہ اعلم ، میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے ، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہو گیا تو وہ حرما نہیں ہوتا ( واللہ اعلم مترجم ) عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے پھر فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے ۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔ ابن عباس کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو آنحضرت کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں ۔ چنانچہ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں؟ اس پر یہ آیت اتری اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے ۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھا لو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور ۔ اس پر یہ آیت اتری ، پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لئے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ، مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے ، اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرمایا اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قران کریم میں ہے آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:31 ) یعنی انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے ، ترمذی میں ہے کہ جب حضرت عدی بن حاتم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ نے فرمایا انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121۔ 1 یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے، حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَ اِنَّہُ لَفِسْق، ُ کو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں 121۔ 2 شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مرگیا (سوائے سمندری مچھلی کے وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] جس چیز پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے وہ قرآن کی متعدد آیات کی تصریح کے مطابق حرام ہے اور جس پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نیز اس کی دلیل سیدہ عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ ہمارے پاس لوگ گوشت بیچنے آجاتے ہیں۔ وہ نیا نیا اسلام لائے ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں لیا تھا ؟ آپ نے فرمایا تم خود بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اسے کھالیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید والتسمیہ۔ باب ذبیحہ الاعراب و نحو ہم) نیز دیکھئے اسی سورة کی آیت نمبر ١٣٨ کا حاشیہ۔- [١٢٧] عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا جس چیز کو ہم خود ماریں (ذبح کریں) اسے تو کھا لیں اور جسے اللہ مارے (یعنی مرجائے) اسے نہ کھائیں ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی، ابو اب التفسیر)- [١٢٨] حلت وحرمت کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ یعنی شرک صرف یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی پرستش کی جائے یا اسے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جائے یا اس کے نام کی قربانی یا نذر و نیاز دی جائے بلکہ اللہ کے سوا کسی کے حلال بتائے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کو حرام سمجھنا بھی شرک ہی ہوتا ہے کیونکہ حلال و حرام ٹھہرانے کے جملہ اختیارات صرف اللہ کو ہیں چناچہ جب یہ آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀) 9 ۔ التوبہ :31) نازل ہوئی تو عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) کہنے لگے یا رسول اللہ ہم لوگ اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ نے عدی سے پوچھا : کیا جس چیز کو وہ حلال کہتے یا حرام کہتے تو تم ان کی بات مان لیتے تھے ؟ عدی کہنے لگے : ہاں یہ تو تھا۔ آپ نے فرمایا : بس یہی رب بنانا ہے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- اس آیت میں مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وہ یہودیوں کی اس طرح کی گمراہ کن اور شرک میں مبتلا کرنے والی چالوں میں نہ آئیں اور اگر انہوں نے یہود کا کہنا مان لیا تو وہ بھی مشرک ہی بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ : پہلے اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ کے نام کا ذبیحہ حلال ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے، اس میں مردار اور وہ جانور تو آیت کے صاف الفاظ میں داخل ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے ہوں اور آیت گو لفظ عام ہونے کی وجہ سے ہر اس چیز کو شامل ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، خواہ وہ کھانے کی کوئی بھی چیز ہو، مگر فقہاء نے اس سے بالاجماع ذبیحہ مراد لیا ہے۔ (رازی) - یاد رہے اگر کسی ذبیحہ پر جان بوجھ کر اللہ کا نام ترک کردیا جائے تو وہ اکثر فقہاء کے نزدیک حرام ہے، مگر جب مسلمان ذبح کرتے وقت ” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ “ بھول جائے تو اس کا کھانا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے خطا اور نسیان معاف کردیا ہے۔ - وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭ: یعنی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا فسق ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٤٥) ۔- وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ ۔۔ : دیکھیے اسی سورت آیت کی (١١٣) کا حاشیہ (٢) ۔ - وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ : اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے والا بھی مشرک ہے، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنا لیا، یعنی تحلیل و تحریم کا حق کسی اور کے لیے تسلیم کرلیا، جب کہ یہ صرف اللہ کا حق ہے۔ (رازی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے اللہ کے پوجے، بلکہ شرک حکم میں بھی ہے کہ کسی اور کا مطیع ہو وے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۝ ١٢١ ۧ- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - وحی( اشاره)- وإمّا بإلقاء في الرّوع کما ذکر عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» «2» ، وإمّا بإلهام نحو : وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص 7] ، وإمّا بتسخیر نحو قوله :- وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] أو بمنام کما قال عليه الصلاة والسلام : «انقطع الوحي وبقیت المبشّرات رؤيا المؤمن» فالإلهام والتّسخیر - ( و ح ی ) الوحی - وحی کی تیسری صؤرت القاء فی لروع کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دیتا جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ۔ اور کبھی وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص 7] ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیر ی ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا : ۔ اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر بیشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر - جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ذبیحہ پر ترک تسمیہ اور اقوال فقہاء - قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے) آیت میں اسے جانور کا گوشت کھانے کی ممانعت ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسلمان ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اگر بھول کر بسم اللہ چھوڑ دے تو اس کا گوشت کھالیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں گوشت کھالیا جائے گا۔ اوزاعی سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ جو شخص بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو ایسے ذبیحہ کے گوشت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض)، حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، عطاء، سعید بن المسیب، ابن شہاب اور طائوس سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا گوشت کھا لینے میں کوئی حرک نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ ایسا ذبیحہ ملب اسلامیہ کے مطابق ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے۔ آپ کا یہ قول بھی ہے کہ جس طرح شرک کی صورت میں اللہ کے نام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسی طرح ملت اسلامیہ پر ہوتے ہوئے اللہ کا نام بھول جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ عطاء کا قول ہے کہ المسلم ، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے مسلمان کے نام المسلم میں، خود اللہ کا نام کا ذکر موجود ہے، المومن بھی اللہ کا ایک نام ہے اس لیے ذبح کرنے والے کے نام المومن میں اللہ کے نام کا ذکر موجود ہے۔ - ابن عمر (رض) کا خیال - ابو خلاد الصم نے ابن عجلان سے روایت کی ہے، انہوں نے نافع سے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے ایک غلام سے جب و جانور ذبح کرنے لگا، فرمایا ” اللہ کے بندے، بسم اللہ پڑھ لو “ غلام نے جواب دیا ” میں نے پڑھ لیا ہے “۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے پھر یہی کہا، اس نے پھر یہی جواب دیا، تیسری دفعہ بھی آپ نے اس سے یہی کہا اور اس نے یہی جواب دییا۔ جب اس نے جانور ذبح کرلیا تو حضرت ابن عمر (رض) نے اس کا گوشت نہیں کھایا۔ یونس بن عبید نے قریش کے ایک آزاد کردہ غلام سے روایت کی ہے ، اس نے اپنے والد سے ، کہ وہ حضرت ابن عمر (رض) کے ایک غلام کے پاس سے گزرے تھے جو ایک قصاب کی دکان پر کھڑا تھا۔ قصاب نے ایک بکری ذبح کی تھی لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تھا ۔ - حضرت ابن عمر (رض) نے اسے وہاں کھڑا کر کے یہ حکم دیا تھا کہ جب کوئی شخص گوشت خریدنے آئے تو اسے میری طرف سے کہہ دینا کہ اس شخص نے بکری درست طریقے سے ذبح نہیں کی ہے اس لیے اس کا گوشت نہ خریدو ۔ شعبہ نے حماد سے روایت کی ہے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ایک شخص جانور ذبح کرتا ہے لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا ہے تو مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ایسے جانور کے گوشت کی تحریم کی موجب ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو خواہ جان بوجھ کر نہ لیا گیا ہو یا بھول جانے کی بنا پر ایسا ہوا ہو۔ تا ہم ہمارے پاس ایسی دلالت موجود ہے جو یہ نشاندہی کرتی ہے کہ آیت میں نسیان مراد نہیں ہے ۔ یعنی نسیان کی بناء پر اگر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس سے گوشت کی حلت پر کوی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ جو لوگ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں بھی اس ذبیحہ کے گوشت کی حلت کے قائل ہیں ان کا قول آیت کے خلاف ہے۔ آیت کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایسے لوگوں کے پاس کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ علاوہ ازیں یہ قول ان تمام آثار و روایات کے خلاف جاتا ہے جس میں شکار اور ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا ایجاب مروی ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں نہی کے حکم سے وہ جانور مراد ہیں جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو شریک نے سماک بن حرب سے نقل کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آپ نے فرمایا ” مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ جس جانور کو تمہارا رب قتل کر دے اور وہ مرجائے اس کا گوشت تو تم نہیں کھاتے ہو لیکن جو جانور تم خود قتل کر دو اور ذبح کر تو اس کا گوشت کھالیتے ہو “۔ اس پر اللہ تعالیٰ ن یہ آیت نازل فرمای۔ ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد مردار ہے۔ اس پر سلسلئہ تلاوت میں یہ قول بارب بھی دلالت کرتا ہے۔ ( لیوحون الیٰ اولیاء ھم لیجادلوکم۔ شیاطین ساتھیوں کے دلوں میں شکوک اور اعتراضات القا کرتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑا کریں) جب یہ آیت مردار نیز ان جانوروں کے بارے میں ہے جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے تو اس کا حکم ان ہی صورتوں تک محدود رہے گا۔- اس میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور داخل نہیں ہوں گے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر آیت کا نزول کسی خاص سبب کے تحت ہوا ہو تو اس سے اس کے حکم کو اسی سبب کے اندر محدود کردینا لازم نہیں آتا بلکہ حکم کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے جب کہ حکم میں سبب سے بڑھ کر عموم موجود ہو۔ اگر آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح شدہ جانور مراد ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا ان کا ضرور ذکر کرتا۔ اور صرف ترک تسمیہ کے ذکر پر اقتصار نہ کرتا۔ جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین اپنے ذبائح پر اللہ کا نام لے بھی لیں پھر بھی ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ علاوہ ازیں آیت میں مشرکین کے دبائح مراد ہی نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کسی صورت میں بھی نہیں کھایا جاتا خواہ انہوں نے ان پر اللہ کا نام لیا ہو یا نا لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کی تحریم کو منصوص طریقے سے بیان کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے ( وما ذبح علی النصب اور ایسا جانور جو کس آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) نیز اگر آیت میں مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہوں پھر بھی ترک تسمیہ کی بناء پر ذبح کے عدم جواز پر آیت کی دلالت قائم رہے گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ترک تسمیہ کو ذبح ہونے والے جانور کے مردار ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہر ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ مردار ہے۔- علاوہ ازیں حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت بھی منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں تسمیہ مراد ہے۔ کافر کا ذبیحہ مراد نہیں ہے۔ یہ روایت اسرائیل نے سماک سے کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ انہوں نے قول باری ( وان الیاطین لیوحون الی اولیاء ھم) کی تفسیر میں فرمایا : ” مشرکین کہا کرتے تھے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے گا اس کا گوشت نہ کھائو، اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس کا گوشت کھالو۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ مشرکین کی طرف سے جھگڑا ترک تسمیہ کے بارے میں تھا، جبکہ آیت کا نزول تسمیہ کے ایجاب کے سلسلہ میں ہوا۔ اس کا نزول نہ تو مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کے بارے میں ہوا اور نہ مردار ہی کے بارے میں۔ جان بوجھ کر ترک تسمیہ کی بنا پر ذبح کا عمل فاسد ہوجاتا ہے اس پر یہ قول باری ( یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے،- کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو) تا قول باری ( واذکروا اسم اللہ علیہ ۔ البتہ اس پر الہل کا نام لے لو) یہ تو واضح ہے کہ آیت میں صیغہ امر ہے جو ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ کھانے والے پر اللہ کا نام لینا واجب نہیں ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ شکار کے دوران اللہ کا نام لینا مراد ہے۔ آیت میں جن سائلین کا ذکر ہے وہ سب مسلمان تھے انہیں شکار کا گوشت کھانے کی تسمیہ کی شرط پر اجازت دی گئی اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : ( فاذکرو اسم اللہ علیھا صواف۔ تم انہیں کھڑے کر کے ان پر اللہ کا نام لیا کرو) یعنی انہیں سخر یعنی ذبح کرنے کی حالت میں اس لیے قول باری ہے ( فاذا وجبت جنوبھا۔ پس جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں) حرف فاء تعقیب کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت عدی (رض) حاتم کی حدیث دلالت کرتی ہے ۔ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا تھا ( اذا رسلت کلبک المعلم وذکرت اسم اللہ علیہ فکل اذا سمک علیک، وان وجدت معہ کلیا اخروقد قتلہ لا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علیٰ کلبک ولم تذکرہ علی غیرہ۔ جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور اس پر اللہ کا نام لے لو۔ تو اس شکار کا گوشت کھالو جب کتا وہ شکار تمہارے لیے پکڑ رکھے ۔ - اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا دیکھو جبکہ شکار قتل ہوچکا ہو تو اس کا گوشت نہ کھائو۔ اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر اللہ کا نام لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا) حضرت عدی (رض) مسلمان تھے۔ آپ نے انہیں کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا تھا اور بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں انہیں یہ کہہ کر شکار کا گوشت کھانے سے روک دیا تھا کہ ( فلا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علی کلب، تو نہ کھا اسے بیشک تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے) زیر بحث آیت اس جانور کا گوشت کھانے سے نہی کی مقتضی ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور ترک تسمیہ سے نہی کی بھی مقتضی ہے۔- اس نہی کی تاکید پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( وانہ لفسق ایسا کرنا فسق ہے) یہ حکم دونوں صورتوں کی طرف راجع ہے یعنی ترک تسمیہ کی طرف اور اکل کی طرف بھی۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہاں وہ صورت مراد ہے جس میں جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو اس لیے کہ بھول جانے والے انسان کو فسق کا نشان لگانا درست نہیں ہوتا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے عبدالعزیز الدر اور دی نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کہ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عر کیا ” جب ہم بدوئوں کے ہاں رات گزارتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کھانے میں گوشت پیش کرتے ہیں چونکہ کفر سے ان کا زمانہ قریب ہے، اس لیے ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ آیا انہوں نے جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھا ہے یا نہیں “۔ - آپ نے جواب میں فرمایا ( سموا علیہ اللہ وکلوا، اس پر اللہ کا نام لے کر اسے کھالو) اگر تسمیہ ذبح کی شرط نہ ہوتی تو آپ سائلین سے یہ فرماتے کہ ” ترک تسمیہ سے تم پر گوئی گناہ لازم نہیں آتا “ لیکن آپ نے انہیں کھانے کا حکم دیا۔ اس لیے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کو جواز اور صحت پر محمول کیا جاتا ہے۔ فساد اور عدم جواز پر کسی دلالت کی بنا پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں اگر کسی مسلمان کا ترک تسمیہ مراد ہوتا تو جو شخص ایسے گوشت کا کھانا مباح سمجھتا ہے وہ ضرور فاسق کہلاتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ( وانہ لفسق) اب جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے والا مسلمان فسق کی علامت کا مستحق قرار نہیں پاتا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ آیت میں ترک تسمیہ مراد نہیں ہے بلکہ مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر قول باری (وانہ لفسق) مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کی طرف راجع ہے۔ اگر ان میں سے بعض کی تخصیص پر دلالت قائم ہوجاتی ہے تو یہ دلالت ذبیحہ کے سلسلے میں مسلمان پر تسمیہ کے ایجاب کے بارے میں آیت کے حکم کے بقا کے لیے مانع نہیں ہوگی۔ - نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص تسمیہ کے وجوب کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اسے جان بوجھ کر ترک کردیتا ہے وہ فاسق ہے، اسی طرح اس شخص پر بھی فسق کی علامت چسپاں ہوجائے گی جو اس اعتقاد کے باوجود اس قسم کے ذبیہ کا گوشت کھالے گا اس لیے کہ تسمیہ ذبح کی شرط ہے لیکن جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ اس حکم کا تعلق مردار سے ہے یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں سے ہے۔ مسلمانوں کے ذبائح سے نہیں ہے وہ فاسق نہیں کہلائے گا اس لیے کہ آیت کے حکم کی تاویل کی بناء پر اس سے فسق کی علامت زائل ہوجائے گی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب تسمیہ ایک ذکر کا نام ہے ذبح کے عمل کے دوران اور اس کی انتہا پر اس کا موجود ہونا واجب نہیں ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ابتداء میں بھی یہ واجب نہ ہو، اگر یہ واجب ہوتا تو پھر جان بوجھ کر ترک کرنے والے اور بھول کر ترک کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جس قیاس کا ذکر کیا ہے وہ محض ایک دعویٰ ہے۔- اس قیاس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایمان، شہادتین، تبلیہ اور استیذان وغیرہ کی صورتوں میں اس قیاس کا انتقاض لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ان امور میں نہ بقا کے دوران وجوب ہے اور نہ ہی انتہاء میں لیکن اس کے باوجود ابتداء میں اس کا وجوب ہے۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ بھول کر اگر بسم اللہ پڑھنا رہ جائے تو یہ ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس میں عمداً ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب ہے، بھول کر ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب نہیں ہے۔ سلسلہ تلاوت میں قول باری ( وانہ لفسق) بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔ فسق اس شخص کی صفت نہیں بن سکتا جو بھول کر تک تسمیہ کا مرتکب بنا ہو، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بھول جانے والا شخص نسیان کی حالت میں بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ اوزاعی نے عطاء بن ابی رباح سے۔ انہوں نے عبید بن عمیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( تجاوز اللہ عن امنی الخطاء والنسیان وما اسکرھوا علیہ ۔ اللہ نے میری امت سے خطاء اور نسیان کی بنا پر سززد ہونے والے افعال کا گناہ معاف کردیا ہے۔- اسی طرح اس فعل کا گناہ بھی جس پر مجبور کیا گیا ہو) جب بھول جانے والا شخص بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں تھا تو اس نے گویا ذبح کا عمل اسی طریقے پر سرانجام دیا جس کا اسے حکم ملا تھا اس لیے ترک تسمیہ اس کے اس عمل کو فاسد نہیں کرے گا۔ اس پر دوبارہ ذبح کے عمل کو لازم کرنا درست نہیں ہوگا اس لیے کہ اس عمل کو دوبارہ بروئے کار لانے کا وقت نہیں رہا ۔ بھول کر ترک تسمیہ کی صورت نماز میں تکبیر تحریمہ یا وضو وغیرہ بھول جانے کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ نماز کی صورت میں اسے یہ باتیں یاد آ جانے پر ایک اور فرض اس پر لازم ہوجاتا ہے لیکن ذبح کی صورت میں بھول جانے والے پر کسی اور فرض کا لزوم درست نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت تک ذبح کا محل و مقام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بسم اللہ پڑھنا اگر شرعی ذبح کی شرط ہوتا تو نسیان کی بنا پر اس کا سقول لازم نہ آتا جس طرح ذبح کرنے والا اوداج یعنی گردن کی رگیں نہ کاٹے تو ذبح کا عمل واقع نہیں ہوتا۔ یہ سوال دونوں گروہوں سے کیا جاتا ہے جو لوگ سرے سے تسمیہ کو ساقط کردینے کے قائل ہیں ان سے بھی اور جو لوگ نسیان کی حالت میں اسے واجب کرتی ہیں ان سے بھی ، جو لوگ تسمی کے اسقاط کے قائل ہیں وہ ہمارے خلاف یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہم سب نسیان کی حالت میں متفقہ طور پر ترک تسمیہ کے جواز کے قائل ہیں جبکہ نسیان ذبح کی شرطوں کو ساقط نہیں کرتا۔ جس طرح ذبح کے عمل میں اوداج کو قطع نہ کرنے سے عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذکاۃ یعنی ذبح میں تسمیہ شرط نہیں ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے اقئل ہیں وہ اسے اس صورت میں مشابہ قرار دیتے ہیں ججس میں ذبح کرنے والا حلقوم اور گردن کی رگیں بھول کر یا جان بوجھ کر نہ کاٹے۔ یہ بات ذبح کی صحت کے لیے مانع ہوتی ہے جن لوگوں نے بسم اللہ پڑھنے کی فرضیت کو سرے سے ساقط کردیا ہے ان سے وہ سوال درست نہیں ہے جو معترض نے اٹھایا ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے خیال میں ترک کلام نماز میں فرض ہے۔ اسی طرح وضو کرنا بھی نماز کا ایک فرض ہے۔ یہ دونوں چیزیں نماز کی شرائط میں داخل ہیں۔ پھر ان لوگوں نے بھول کر وضو نہ کرنے والے اور بھول کر نماز میں گفتگو کرنے والے کے درمیان فرق کیا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں نماز نہیں ہوگی اور دسوری صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی بلکہ درست ہوجائے گی اسی طرح روزے کی صحت کے لیے نیت شرط ہے نیز کھانا پینا چھوڑے رکھنا بھی روزے کی صحت کی شرط ہے ۔- اگر ایک شخص بھول کر روزے کی نیت نہیں کرتا تو اس کا روزہ درست نہیں ہوگا لیکن اگر وہ بھول کر کھا لیتا ہے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ یہ سوال سائل کے بیان کردہ اصل اور قاعدہ کی روشنی میں منتقض ہوجاتا ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے قائل ہیں اور انہوں نے اس پر گردن کی رگوں کے ترک قطع سے استدلال کی اے ان سے بھی یہ سوال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ گردن کی رگوں کو کاٹ دینا ہی ذبح کی صورت ہے جو جانور کی طبعی موت کے منافی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ذبیحہ اور مردار کے درمیان فرق واقع ہوتا ہے۔ اس عمل کے لیے تسمیہ کی شرط اس بناء پر نہیں ہے کہ یہ نفس ذبح ہے یعنی بسم اللہ پڑھنا ہی ذبح کا عمل کہلاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یاد ہونے کی صورت میں ذبح کرنے والا اس کے پڑھنے کا پابند ہے۔ یاد نہ وہنے کی صورت میں وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ اس لیے نسیان کی بناء پر بسم اللہ نہ پڑھنا شرعی جواز کے وجود میں آ جانے کے لیے مانع نہیں بنا۔ اس بنا پر یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢١ (وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ ط) ۔ - اس آیت کا تعلق بھی مشرکین عرب کے خود ساختہ اعتقادات اور توہمات سے ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام سرے سے لینا ہی نہیں چاہیے۔ یہ حکم ایک خاص مسئلے کے حوالے سے ہے ‘ جس کی وضاحت آگے آیت ١٣٨ میں آئے گی۔- (وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ) ۔- مشرکین مکہ اپنے غلط اعتقادات کی حمایت میں طرح طرح کی حجت بازی کرتے رہتے تھے ‘ مثلاً یہ کیا بات ہوئی کہ جو جانور اللہ نے مارا ہے یعنی ازخود مرگیا ہے وہ تو حرام قرار دے دیاجائے اور جس کو تم خود مارتے ہو یعنی ذبح کرتے ہو اس کو حلال مانا جائے ؟ اسی طرح وہ سود کے بارے میں بھی دلیل دیتے تھے کہ (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ٧) (البقرۃ : ٢٧٥) کہ یہ بیع بھی تو ربا (سود) ہی کی طرح ہے۔ جیسے تجارت میں نفع ہوتا ہے ایسے ہی سودی لین دین میں بھی نفع ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دس لاکھ کسی کو قرض دیے ‘ اس سے چار ہزار روپے ماہانہ منافع لے لیا تو وہ ناجائز اور دس لاکھ کا مکان کسی کو کرائے پردے کر چار ہزار روپے ماہانہ اس سے کرایہ لیا جائے تو وہ جائز اس طرح کے اشکالات بظاہر بڑے دلنشین ہوتے ہیں ‘ جن کے بارے میں یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کے شیاطین انہیں سکھاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلہ کریں ‘ تاکہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گمراہی کے راستے پر لے چلیں۔ لہٰذا تم ان کی اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہا کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :86 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ علمائے یہود جہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“ ۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیت کا جو ان نام نہاد اہل کتاب میں پائی جاتی تھی ۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شبہات ڈالیں اور انہیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :87 یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے ۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو ۔ اللہ کے ساتھ اگر دوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے ، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر و نہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani