مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا ، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے ، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ:257 ) ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت میں ہے ( افمن یمشی مکبا علی وجھہ ) یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے؟ اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے اور جگہ فرمان ہے اندھا اور بینا ، اندھیرا اور روشنی ، سایہ اور دوپ ، زندے اور مردے برابر نہیں ۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے ، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا ، جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے اور جیسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ۔
122۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت (مردہ) مومن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورة بقرہ 257، سورة ھود 24، سورة فاطر، 19، 22،
[١٢٩] ایک کافر اور ایماندار کی مثال :۔ یہاں مردہ سے مراد روحانی طور پر مردہ ہے۔ یعنی ایک شخص پہلے کافر تھا پھر وہ اسلام لے آیا اور اسے وحی کے علم کی روشنی نصیب ہوئی۔ لوگوں میں رہ کر وہ اسی روشنی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہا ہے اور دوسرا شخص کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اسے ان تاریکیوں سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں مل رہی تو کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہوسکتی ہے اور نکلنے کی راہ اس لیے نہیں ملتی کہ انہیں یہ تاریکیاں ہی روشنی معلوم ہونے لگتی ہیں اور ان کے برے کام انہیں بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں ہر بدکاری میں انہیں مزہ آتا ہے اور ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھنے لگتے ہیں۔
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ ۔۔ : یعنی وہ کافر تھا اسے مسلمان بنایا۔ (شوکانی) اوپر جانوروں کے مردوں کا ذکر تھا، یہاں کافر پر وہی مثال فرمائی، یعنی جب کافر تھے تو جہل اور کفر و شرک کے باعث سب مردے تھے، پھر جس کو ایمان ملا وہ زندہ ہوا اور روشنی اور راہ ہدایت پائی اور اس کے چہرے پر سب لوگ ایمان کی روشنی دیکھتے ہیں اور جس کو ایمان نہ ملا وہ اندھیروں میں پڑا رہا۔ (موضح) مسلمان اور کافر کے زندہ اور مردہ ہونے کا مضمون دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٧) ، سورة ہود (٢٤) اور سورة فاطر (١٩ تا ٢٢) میں۔ - كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : یعنی شیطان اپنے وسوسوں کے ذریعے سے ان کافروں کی نگاہ میں ان کے اعمال کو خوبصورت کر کے پیش کرتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ (یعنی گمراہ) تھا ہم نے اس کو زندہ (یعنی مسلمان) بنادیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور (یعنی ایمان) دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے (یعنی ہر وقت وہ اس کے ساتھ رہتا ہے، جس سے وہ سب مضرتوں سے مثل گمراہی وغیرہ محفوظ اور مامون دبے فکر پھرتا ہے تو) کیا ایسا شخص (بدحالی میں) اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ (گمراہی کی) تاریکیوں میں (گھرا ہوا) ہے (اور) ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا (مراد یہ کہ وہ مسلمان نہیں ہوا، اور اس کا تعجب نہ کیا جاوے کہ کفر پر باوجود اس کے ظلمت ہونے کے وہ کیوں قائم رہا، وجہ یہ کہ جس طرح مومنین کو ان کا ایمان اچھا معلوم ہوتا ہے) اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال (کفر وغیرہ) مستحسن معلوم ہوا کرتے ہیں (چنانچہ اسی وجہ سے یہ روسائے مکہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مہمل فرمائشیں اور شبہات و مجادلات پیش کرتے رہتے ہیں اپنے کفر کو مستحسن ہی سمجھ کر اس پر مصر ہیں) ۔ - معارف و مسائل - پچھلی آیتوں میں پہلے اس کا ذکر آیا تھا کہ مخالفین اسلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے کھلے کھلے معجزات دیکھنے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی سے نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے بعد قرآن نے بتلایا کہ اگر یہ لوگ واقعی حق طلب ہوتے تو جو معجزات ان کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں وہ ان کو راہ حق دکھانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھے، پھر ان معجزات کا بیان آیا۔- مذکورہ آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لانے والوں اور کفر و انکار کرنے والوں کے کچھ حالات و خیالات اور دونوں کے نیک و بد انجام کا بیان اور مومن و کافر اور ایمان و کفر کی حقیقت کو مثالوں میں سمجھایا گیا ہے، مومن اور کافر کی مثال زندہ اور مردہ سے اور ایمان و کفر کی مثال روشنی اور اندھیرے سے دی گئی ہے، یہ قرآنی تمثیلات ہیں جن میں کوئی شاعری نہیں ایک حقیقت کا اظہار ہے۔- مومن زندہ ہے اور کافر مردہ - اس تمثیل میں مومن کو زندہ اور کافر کو مردہ بتلایا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ انسان اور حیوانات اور نباتات وغیرہ میں اگرچہ حیات اور زندگی کی قسمیں اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن اتنی بات سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیں کرسکتا کہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کسی خاص مقصد کے لئے ہے، اور قدرت نے اس میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھی ہے، ارشاد قرآنی (آیت) اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی۔ میں اسی کا بیان ہے کہ اللہ جل شانہ نے کائنات عالم کی ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کو جس مقصد کے لئے پیدا فرمایا تھا اس تک پہنچنے کی اس کو پوری ہدایت دیدی، جن کے ماتحت ہر مخلوق اپنے اپنے وظیفہ زندگی اور اپنی اپنی ڈیوٹی کا حق ادا کر رہی ہے، اس عالم میں زمین، پانی اور ہوا اور آگ، اسی طرح آسمانی مخلوقات اور چاند، سورج اور کل ستارے اپنی اپنی ڈیوٹی پوری طرح پہچان کر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں، اور یہی اداء فرائض ان میں سے ہر چیز کی زندگی کا ثبوت ہے، اور جس وقت جس حال میں ان میں سے کوئی چیز اپنی ڈیوٹی ادا کرنا چھوڑ دے تو وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے، پانی اگر اپنا کام پیاس بجھا دینا اور میل کچیل دور کرنا وغیرہ چھوڑ دے تو وہ پانی نہیں کہلائے گا، آگ جلنا اور جلانا چھوڑ دے تو وہ آگ نہیں رہے گی، درخت اور گھاس اگنا اور بڑھنا پھر پھل پھول لانا چھوڑ دے تو وہ درخت اور نبات نہیں رہے گی، کیونکہ اس نے اپنے مقصد زندگی کو چھوڑ دیا، تو وہ ایک بےجان مردہ کی طرح ہوگئی۔- تمام کائنات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک انسان جس میں کچھ عقل و شعور ہو اس بات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوگا کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے، اور یہ کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی کو پورا کر رہا ہے، تو وہ زندہ کہلانے کا مستحق ہے، اور اس کو پورا نہیں کرتا تو وہ ایک مردہ لاش سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔- اب سوچنا یہ ہے کہ انسان کا مقصد زندگی کیا اور اس کے فرائض کیا ہیں، اور مذکور الصدر اصول کے مطابق یہ متعین ہے کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی اور ڈیوٹی کو ادا کر رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے، جن بےبصیرت لوگوں نے انسا کو دنیا کی ایک خودرو گھاس یا ایک ہوشیار قسم کا جانور قرار دے دیا ہے اور ان کے نزدیک ایک انسان اور گدھے کتے میں کوئی امتیاز نہیں، ان سب کا مقصد زندگی انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، پھر مرجانا ہی قرار دے لیا ہے، وہ تو اہل عقل و شعور کے نزدیک قابل خطاب نہیں، عقلاء دنیا خواہ کسی مذہب و ملت اور کسی مکتب خیال سے تعلق رکھتے ہوں ابتداء عالم سے آج تک انسان کے مخدوم کائنات اور فضل المخلوقات ہونے پر متفق چلے آئے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ افضل و اعلیٰ اسی چیز کو سمجھا اور کہا جاسکتا ہے، جس کا مقصد زندگی اعلیٰ و افضل ہونے کے اعتبار سے ممتاز ہو، اور ہر سمجھ بوجھ والا انسان یہ بھی جانتا ہے کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، رہنے سہنے، اوڑھنے پہننے میں انسان کو دوسرے جانوروں سے کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں، بلکہ بہت سے جانور اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کھاتے پیتے ہیں، اس سے بہتر قدرتی لباس میں ملبوس ہیں، اس سے بہتر ہوا و فضاء میں رہتے بستے ہیں، اور جہاں تک اپنے نفع نقصان کے پہچاننے کا معاملہ ہے اس میں بھی ہر جانور بلکہ ہر درخت ایک حد تک باشعور ہے، مفید چیزوں کے حاصل کرنے اور مضر چیزوں سے بچنے کی خاصی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے، اسی طرح دوسروں کے لئے نفع رسانی کے معاملہ میں تو تمام حیوانات اور نباتات کا قدم بظاہر انسان سے بھی آگے نظر آتا ہے کہ ان کے گوشت کھال ہڈی، پٹھے اور درختوں کی جڑ سے لے کر شاخوں اور پتوں تک ہر چیز مخلوق کے لئے کار آمد اور ان کی ضروریات زندگی پیدا کرنے میں بیشمار فوائد کی حامل ہے، بخلاف انسان کے کہ نہ اس کا گوشت کسی کے کام آتا ہے نہ کھال، نہ بال نہ ہڈی نہ پٹھے۔- اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں پھر حضرت انسان کس بناء پر مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات ٹھہرتے ہیں، اب حقیقت شناسی کی منزل قریب آپہنچی، ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان ساری چیزوں کے عقل و شعور کی رسائی صرف موجودہ زندگی کے وقتی اور ہنگامی نفع نقصان تک ہے، اور اسی زندگی میں وہ دوسروں کے لئے فائدہ بخش نظر آتی ہے، اس دنیا کی زندگی سے پہلے کیا تھا، اور بعد میں کیا آنے والا ہے، اس میدان میں جمادات، نباتات تو کیا کسی بڑے بڑے ہوشیار جانور کی عقل و شعور بھی کام نہیں دیتی، اور نہ اس میدان میں ان میں سے کوئی چیز کسی کیلئے کارآمد یا مفید ہوسکتی ہے، بس یہی وہ میدان ہے جن میں مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات انسان کو کام کرنا ہے، اور اسی سے اس کا امتیاز دوسری مخلوقات سے واضح ہوسکتا ہے۔- معلوم ہوا کہ انسان کا مقصد زندگی پورے عالم کی ابتداء و انتہاء کو سامنے رکھ کر سب کے نتائج اور عواقب پر نظر ڈالنا اور یہ متعین کرنا کہ مجموعی اعتبار سے کیا چیز نافع اور مفید ہے، اور کون سی چیز مضر اور تکلیف دہ ہے، پھر اس بصیرت کے ساتھ خود اپنے لئے بھی مفید چیزوں کو حاصل کرنا اور مضر چیزوں سے بچنا اور دوسروں کو بھی ان مفید چیزوں کی طرف دعوت دینا اور بری چیزوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے، تاکہ دائمی راحت و سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل ہوسکے، اور جب انسان کا مقصد زندگی اور کمال انسانی کا یہ معیاری فائدہ خود حاصل کرنا اور دوسروں کو پہنچانا ہے، تو اب قرآن کی یہ تمثیل حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ زندہ صرف وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، اور عالم کی ابتداء و انتہاء اور اس میں مجموعی اعتبار سے نفع و نقصان کو وحی الٓہی کی روشنی میں پہچانے، کیونکہ نری عقل انسانی نے نہ کبھی اس میدان کو سَر کیا ہے نہ کرسکتی ہے، بڑے بڑے عقلاء و حکماء اور فیلسوفان عالم نے انجام کار اس کا اقرار کیا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے - زیرکان موشگافان دہی - کردہ ہر خرطوم خطِّ ابلہی - اور جب مقصد زندگی کے اعتبار سے زندہ صرف وہ شخص ہے جو وحی الٓہی کا تابع اور مومن ہو تو یہ بھی متعین ہوگیا جو ایسا نہیں وہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے - زندگی از بہر اطاعت و بندگی است، بےعبادت زندگی شرمندگی ست - آدمیت لخم و شحم دپوست نیست، آدمیت جز رضائے دوست نیست - یہ قرآنی مثال تھی مومن و کافر کی کہ مومن زندہ اور کافر مردہ ہے، دوسری مثال ایمان و کفر کی نور و ظلمت کے ساتھ دی گئی ہے۔- ایمان نور ہے اور کفر ظلمت - ایمان کو نور اور کفر کو ظلمت اور اندھیرہ قرار دیا گیا ہے، ذرا غور کیا جائے تو یہ مثال بھی کوئی خیالی مثال نہیں، ایک حقیقت کا بیان ہے، یہاں بھی روشنی اور اندھیرے کے اصل مقصد پر غور کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی کہ روشنی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نزدیک و دور کی اشیاء کو دیکھ سکیں، جس کے نتیجہ میں مضر چیزوں سے بچنے اور مفید کا اختیار کرنے کا موقع ملے۔- اب ایمان کو دیکھو کہ وہ ایک نور ہے جس کی روشنی تمام آسمانوں اور زمین اور ان سب سے باہر کی تمام چیزوں پر حاوی ہے، صرف یہی روشنی پورے عالم کے انجام اور تمام امور کے صحیح نتائج کو دکھا سکتی ہے، جس کے ساتھ یہ نور ہو تو وہ خود بھی تمام نقصان دہ و مضر چیزوں سے بچ سکتا ہے، اور دوسروں کو بھی بچا سکتا ہے، اور جس کو یہ روشنی حاصل نہیں وہ خواہ اندھیرے میں ہے، مجموعہ عالم اور پوری زندگی کے اعتبار سے کیا چیز نافع ہے کیا مضر اس کا کوئی امتیاز نہیں کرسکتا، صرف پاس پاس کی چیزوں کو ٹٹول کر کچھ پہچان لیتا ہے، مگر بعد میں آنے والی دائمی زندگی کی اس کو کچھ خبر نہیں، نہ اس کے نفع و ضرر کا اسے کچھ ادراک ہے، قرآن کریم نے اسی مضمون کے لئے ارشاد فرمایا ہے :- (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوة الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون، یعنی یہ لوگ ظاہری دنیوی زندگی اور اس کے کھرے کھوٹے کو تو کچھ پہچانتے ہیں، مگر عالم آخرت سے قطعاً غافل ہیں۔- دوسری ایک آیت میں پچھلی منکر اور کافر امتوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے فرمایا ہے : (آیت) وکانوا مستبصرین، یعنی آخرت کے معاملہ میں ایسی شدید غفلت اور بےعقلی برتنے والے اس دنیا میں بیوقوف نادان نہ تھے، بلکہ مستبصرین، یعنی روشن خیال لوگ تھے، مگر یہ ظاہری سطحی روشن خیالی صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کے سنوارنے ہی میں کام دے سکتی تھی آخرت کی دائمی زندگی میں اس نے کچھ کام نہ دیا۔- اس تفصیل کو سننے کے بعد قرآن مجید کی آیت مذکور کو پھر ایک مرتبہ پڑھ لیجئے :- اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو پہلے مردہ یعنی کافر تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا، یعنی مسلمان بنادیا، اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور یعنی ایمان دے دیا جس کو لئے ہوئے وہ لوگوں میں پھرتا ہے، اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ وہ قسم قسم کی اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے، جس سے نکلنے نہیں پاتا، یعنی کفر کی اندھیریوں میں مبتلا ہے، وہ خود ہی اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچانتا، اور ہلاکت سے نہیں بچ سکتا دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتا ہے۔- نور ایمان کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے - اس آیت نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاس فرما کر اس طرف بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ نور ایمان صرف کسی مسجد یا خانقاہ یا گوشہ و حجرہ کے ساتھ مخصوص نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نور دیا ہے وہ اس کو لے کر سب جگہ لوگوں کے رزم دبزم میں لئے پھرتا ہے، اور ہر جگہ اس روشنی سے خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے، اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے، نور کسی ظلمت سے دب نہیں سکتا، جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی اندھیرے میں مغلوب نہیں ہوتا، ہاں اس کی روشنی دور تک نہیں پہنچتی، تیز روشنی ہوتی ہے تو دور تک پھیلتی ہے کم ہوتی ہے تو تھوڑی جگہ کو روشن کرتی ہے، مگر اندھیرے پر بہرحال غالب ہی رہتی ہے، اندھیری اس پر غالب نہیں آتی، وہ روشنی ہی نہیں جو اندھیری سے مغلوب ہوجائے، اسی طرح وہ ایمان ہی نہیں جو کفر سے مغلوب یا مرعوب ہوجائے، یہ نور ایمان انسانی زندگی کے ہر شعبہ ہر حال ہر دور میں اس کے ساتھ ہے۔- اسی طرح اس مثال میں ایک اور اشارہ یہ بھی ہے کہ جس طرح روشنی کا فائدہ ہر انسان و حیوان کو ارادہ و بےارادہ ہر حال میں کچھ نہ کچھ پہنچتا ہے، فرض کرو کہ نہ روشنی والا یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچے، نہ دوسرا یہ قصد کرکے نکلا ہے کہ اس کی روشنی سے مجھے فائدہ پہنچے، مگر جب روشنی کسی کے ساتھ ہوگی تو اس سے جبری اور قدرتی طور پر سب کو ہی فائدہ پہنچے گا، اسی طرح مومن کے ایمان سے دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا ہے، خواہ اس کو احساس ہو یا نہ ہو، آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ یعنی ان واضح کھلے ہوئے دلائل کے باوجود منکرین اور کفار جو بات کو نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ” ہر کس بخیال خویش خبطے دارد “۔ شیطان اور نفسانی خواہشات نے ان کی نظروں میں ان کے برے اعمال ہی کو خوبصورت اور بھلا بنا رکھا ہے جو سخت مغالطہ ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ٠ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٢٢- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ می کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(١٢٢) یہ آیت عمار بن یاسر (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی حضرت عمار پہلے صاحب ایمان نہ تھے پھر ہم نے ان کو ایمان کی بدولت عزت عطا کی اور ہم نے انکو ایسی معرفت عطا فرمائی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں یا یہ کہ ہم ان کو پل صراط پر ایک خاص نور عطا فرمائیں گے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان سے اس پر بلاخوف وخطر گزر جائیں گے،۔- تو کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو دنیا میں کفر کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور قیامت کے دن جہنم کے اندھیروں میں پڑا ہوگا وہ ابوجہل ہے اور دنیا میں کفر کی تاریکیوں اور آخرت میں جہنم کے اندھیروں سے وہ نکلنے ہی نہیں پاتا۔- جیسا کہ ابوجہل کو اپنے غلط اعمال وکردار اچھے معلوم ہوتے ہیں اسی طرح تمام کفار کو اپنے اعمال اچھے معلوم ہوا کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” او من کان میتا “۔ (الخ)- ابوالشیخ نے ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ آیت حضرت عمر فاروق (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نیز ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
آیت ١٢٢ (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ ) - اس سے معنوی حیات و ممات مراد ہے ‘ یعنی ایک شخص جو اللہ سے واقف نہیں تھا ‘ صرف دنیا کا بندہ بنا ہوا تھا ‘ اس کی انسانیت در حقیقت مردہ تھی ‘ وہ حیوان کی حیثیت سے تو زندہ تھا لیکن بحیثیت انسان وہ مردہ تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی ہدایت دی تو اب گویا وہ زندہ ہوگیا۔- (وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ط) (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) - مثال کے طور پر ایک وہ شخص تھا جسے پہلے ہوش نہیں تھا ‘ کبھی اس نے نظریاتی معاملات کی پیچیدگیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی ‘ لیکن پھر اس کو اللہ نے ہدایت دے دی ‘ نور قرآن سے اس کے سینے کو منور کردیا ‘ اب وہ اس نور میں آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ جیسے حضرت عمر (رض) کو حق کی طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت حمزہ (رض) بھی چھ سال بعد ایمان لائے۔ لیکن اب انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اللہ کے راستے میں سرفروشی کی مثالیں پیش کیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو ساری عمر انہی اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں انہیں موت آئی۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :88 یہاں موت سے مراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے ، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسر نہیں ہے ۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں ۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل ، نیکی اور بدی ، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :89 یعنی تم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہو کہ جس انسان کو انسانیت کا شعور نصیب ہو چکا ہے اور جو علم کی روشنی میں ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کو صاف دیکھ رہا ہے وہ ان بے شعور لوگوں کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرے گا جو نادانی و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :90 یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں ، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انہیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گرنا ہی پسند کرتے ہیں ۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھول نظر آتے ہیں ۔ انہیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اس سے بڑھ کر دوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اس امید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا ۔
54: یہاں روشنی سے مراد اسلام کی روشنی ہے اور ’’لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو‘‘ فرماکر اشارہ اس طرف کردیا گیا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اِنسان مذہبی عبادات کو لے کر دُنیا سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے، اور لوگوں سے میل جول چھوڑدے، بلکہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عام اِنسانوں کے درمیان رہے، ان سے ضروری معاملات کرے، ان کے حقوق ادا کرے، لیکن جہاں بھی جائے، اسلام کی روشنی ساتھ لے جائے، یعنی یہ سارے معاملات اسلامی احکام کے تحت انجام دے۔