بستیوں کے رئیس گمراہ ہو جائیں تو تباہی کی علامت ہوتے ہیں ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ہی کفار کو ہوشیار کرتا ہے ، فرماتا ہے کہ جیسے آپ کی اس بستی میں روسائے کفر موجود ہیں جو دوسروں کو بھی دین برحق سے روکتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے زمانے میں اس کی بستی میں کفر کے ستون اور مرکز رہے ہیں لیکن آخر کار و غارت اور تباہ ہوتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ نبیوں کا ہی اچھا رہتا ہے جیسے فرمایا کہ ہر نبی کے دشمن ان کے زمانے کے گنہگار رہے اور آیت میں ہے ہم جب کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے رئیسوں کو کچھ حکم احکام دیتے ہیں جس میں وہ کھلم کھلا ہماری نافرمانی کرتے ہیں پس اطاعت سے گریز کرنے پر عذابوں میں گھر جاتے ہیں ، وہاں کے شریر لوگ اوج پر آ جاتے ہیں پھر بستی ہلاک ہوتی ہے اور قسمت کا ان مٹ لکھا سامنے آ جاتا ہے ، چنانچہ اور آیتوں میں ہے کہ جہاں کہیں کوئی پیغمبر آیا وہاں کے رئیسوں اور بڑے لوگوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے رسالت کے منکر ہیں ، مال میں اولاد میں ہم تم سے زیادہ ہیں اور ہم اسے بھی مانتے نہیں کہ ہمیں سزا ہو اور آیت میں ہے کہ ہم نے جس بستی میں جس رسول کو بھیجا وہاں کے بڑے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو جس طریقے پر اپنے بڑوں کو پایا ہے ہم تو اسی پر چلے چلیں گے ، مکر سے مراد گمراہی کی طرف بلانا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لوگوں کو پھنسانا ہے جیسے کہ قوم نوح کے بارے میں ہے آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا ) 71 ۔ نوح:22 ) قیامت کے دن بھی جبکہ یہ ظالم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے جھوٹے لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم تو مسلمان ہو جاتے وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تمہیں ہدایت سے کب روکا تھا ؟ تم تو خود گنہگار تھے ، یہ کہیں گے تمہاری دن رات کی فتنہ انگیزیوں نے اور کفر و شرک کی دعوت نے ہمیں گمراہ کر دیا ، مکر کے معنی حضرت سفیان نے ہر جگہ عمل کے کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان کے مکر کا وبال انہی پر پڑے گا لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ، جن لوگوں کو انہوں نے بہکایا ان کا وبال بھی انہیں کے دوش پر ہو گا جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:13 ) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی ڈھوئیں گے ، جن کو بےعلمی کے ساتھ انہوں نے بہکایا تھا ۔ جب کوئی نشان اور دلیل دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جب تک اللہ کا پیغام فرشتے کی معرفت خود ہمیں نہ آئے ہم تو باور کرنے والے نہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوتے ؟ اللہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں دکھاتا ؟ حالانکہ رسالت کے مستحق کی اصلی جگہ کو اللہ ہی جانتا ہے ۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے رئیس پر یہ قرآن کیوں نہ اترا ؟ جس کے جواب میں اللہ عز وجل نے فرمایا کیا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کرنے والے وہ ہیں؟ پس مکے یا طائف کے کسی رئیس پر قرآن کے نازل نہ ہونے سے وہ آنحضرت کی تحقیر کا ارادہ کرتے تھے اور یہ صرف ضد اور تکبر کی بنا پر تھا ، جیسے فرمان ہے کہ تجھے دیکھتے ہی یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کہدیتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کیا کرتا ہے؟ یہ لوگ ذکر رحمن کے منکر ہیں ، کہا کرتے تھے کہ اچھا یہی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا رسول بنایا ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسخروں کا مسخرا پن انہی پر الٹا پڑا ، انہیں ماننا ہی پڑا تھا کہ آپ شریف النسب ہیں آپ سچے اور امین ہیں یہاں تک کہ نبوت سے پہلے قوم کی طرف سے آپ کو امین کا خطاب ملا تھا ۔ ابو سفیان جیسے ان کافر قریشیوں کے سردار نے بھی دربار ہرقل میں بھی حضور کے عالی نسب ہونے اور سچے ہونے کی شہادت دی تھی ۔ جس سے شاہ روم نے حضور کی صداقت طہارت نبوت وغیرہ کو مان لیا تھا ، مسند کی حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم سے اسمعیل کو پسند فرمایا ۔ اولاد اسماعیل سے بنو کنانہ کو پسند فرمایا ۔ بنو کنانہ سے قریش کو قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے ۔ فرمان ہے کہ یکے بعد دیگرے قرنوں میں سے میں سب سے بہتر زمانے میں پیغمبر بنایا گیا ۔ ایک مرتبہ جبکہ آپ کو لوگوں کی بعض کہی ہوئی باتیں پہنچیں تو آپ منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے پوچھا میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں مجھے بہتر بنایا ہے مخلوق کو جب دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان دونوں میں جو بہتر حصہ تھا اس میں کیا پھر قبیلوں کی تقسیم کے وقت مجھے سب سے بہتر قیبلے میں کیا پھر جب گھرداریوں میں تقسیم کیا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا پس میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں صلوات اللہ وسلامیہ علیہ حضرت جبرائیل نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا میں نے تمام مشرق و مغرب ٹٹول لیا لیکن آپ سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا ( حاکم بہیقی ) مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا اور سب سے بہتر دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا ۔ پھر مخلوق کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو سب سے بہتر دل والے اصہاب رسول پائے پس حضور کو اپنا خاص چیدہ رسول بنایا اور اصہاب کو آپ کا وزیر بنایا جو آپ کے دین کے دشمنوں کے دشمن ہیں ۔ پس یہ مسلمان جس چیز کو بہتر سمجھیں وہ اللہ وحدہ لاشریک کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جسے یہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے ۔ ایک باہر کے شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس کو مسجد کے دروازے سے آتا ہوا دیکھ کر مرعوب ہو کر لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ تو ان کے منہ سے بےساختہ یہ آیت نکلی کہ نبویت کی جگہ کو اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ، پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ اس عظیم الشان نبی کی نبوت میں شک شبہ کر رہے ہیں اطاعت سے منہ پھیر رہے ہیں انہیں اللہ کے سامنے قیامت کے دن بڑی ذلت اٹھانی پڑے گی دنیا کے تکبر کی سزا خواری کی صورت میں انہیں ملے گی جو ان پر دائمی ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جو لوگ میری عبادت سے جی چراتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ۔ انہیں ان کے مکر کی سزا اور سخت سزا ملے گی چونکہ مکاروں کی چالیں خفیہ اور ہلکی ہوتی ہیں اس کے بدلے میں عذاب علانیہ اور سخت ہوں گے ۔ یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کا پورا بدلہ ہے اس دن ساری چھپی عیاریاں کھل جائیں گی حضور کا ارشاد ہے کہ ہر بد عہد کی رانوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈا لہراتا ہو گا اور اعلان ہوتا ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے پس اس دنیا کی پوشیدگی اس طرح قیامت کے دن ظاہر ہو گی ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔
123۔ 1 اکابر اکبر کی جمع ہے مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں یہی مضمون سورة سبا کی آیات 31 تا 33 سورة زخرف 23 سورة نوح 22 وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ 123۔ 2 یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھے سورة عنکبوت 13 سورة نحل 25)
[١٣٠] کفار کے مکر انہی پر الٹ پڑتے ہیں :۔ یعنی جس طرح مکہ کے قریشی سردار مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کر رہے ہیں اور دوسروں کی انگے خت پر مکروفریب کر رہے ہیں۔ تو یہ بات صرف مکہ کے سرداروں سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر بستی کے سرداروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ حق کے راستہ میں روڑے اٹکاتے اور مکر و فریب کرتے ہی رہتے ہیں اور یہی لوگ اللہ کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں اور وہ یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ حق کی دعوت سے ان کی سرداری پر کاری ضرب لگتی ہے جیسے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ تو صریح جادو ہے اور اس کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جتنے مکر و فریب یہ چاہیں کر دیکھیں آخر خود ہی وہ اس جال میں پھنس جائیں گے مگر اس وقت انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ ۔۔ : ” اَکَابِرَ “ یہ ” اَکْبَرُ “ کی جمع ہے، ” مُجْرِمِیْنَ “ کا نون ” ہَا “ کی طرف اضافت کی وجہ سے گرگیا، یعنی مکہ کی طرح پہلے بھی ہم نے ہر بستی کے اکابر اور چودھری اور کھڑپینچ اس کے مجرموں کو بنادیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے مکر و فریب اور قوت و اقتدار کے ذریعے سے لوگوں کو ایمان سے روکتے رہے اور فسق و فجور میں پڑے رہے۔ انبیاء کے مقابلے میں بھی یہی لوگ آتے رہے، مگر آخر انجام ایمان والوں کے غلبے پر ہوا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، ہمیشہ کافروں کے سردار حیلے نکالتے ہیں، تاکہ عوام الناس پیغمبر کے مطیع نہ ہوجائیں، جیسے فرعون نے معجزہ دیکھا تو حیلہ نکالا کہ جادو کے زور سے سلطنت لینا چاہتا ہے۔ (موضح)- ۭوَمَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ : یعنی اس کا وبال خود ان پر پڑے گا، تو گویا اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور (یہ کوئی نئی بات نہیں، جس طرح مکہ کے روساء ان جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کے اثر سے دوسرے لوگ شامل ہوجاتے ہیں) اسی طرح ہم نے (پہلی امتوں میں بھی) ہر بستی میں وہاں کے رئیس ہی کو (اول) جرائم کا مرتکب بنایا، (پھر ان کے اثر سے اور عوام بھی ان سے مل گئے) تاکہ وہ لوگ وہاں (انبیاء کو ضرر پہنچانے کے لئے) شرارتیں کیا کریں، (جن سے ان کا مستحق سزا ہونا خوب ثابت ہوجاوے) اور وہ لوگ (گو اپنے خیال میں دوسروں کو ضرر پہنچاتے ہیں لیکن واقع میں) اپنے ہی ساتھ شرارت کر رہے ہیں (کیونکہ اس کا وبال تو انہی کو بھگتا پڑے گا) اور (غایت جہل سے) ان کو (اس کی) ذرا خبر نہیں اور (ان کفار مکہ کا جرم یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ) جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو (باوجود اس کے کہ وہ اپنے اعجاز کی وجہ سے دلالة علی النبوة میں کافی ہوتی، مگر یہ لوگ پھر بھی) یوں کہتے ہیں کہ ہم (ان نبی پر) ہرگز ایمان نہ لاویں گے، جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے (یعنی وحی و خطاب یا صحیفہ و کتاب جس میں ہم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم ہو، اور اس قول کا جرم عظیم ہونا ظاہر ہے، کہ تکذیب اور عناد اور استکبار اور گستاخی سب اس کو جامع ہے، آگے اللہ تعالیٰ اس قول کو رد فرماتے ہیں کہ) اس موقع کو تو خدا ہی خوب چانتا ہے جہاں اپنا پیغام (وحی کے ذریعہ سے) بھیجتا ہے (کیا ہر کس و ناکس اس شرف کے قابل ہوگیا، ” تانجشد خدائے بخشدہ “ آگے اس جرم کی سزا کا بیان ہے کہ) عنقریب ان لوگوں کو جنہوں کے یہ جرم کیا ہے خدا کے پاس پہنچ کر (یعنی آخرت میں) ذلت پہنچے گی (جیسا انہوں نے اپنے کو نبی کا مقابلہ میں عزت و نبوت کا مستحق سمجھا تھا) اور سزائے سخت (ملے گی) ان کی شرارتوں کے مقابلہ میں سو (اوپر جو مومن و کافر کا حال مذکور ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ) جس شخص کو اللہ تعالیٰ (نجات کے) راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اس کے سینہ ( یعنی قلب) کو اسلام (کے قبول کرنے) کے لئے کشادہ کردیتے ہیں (کہ اس کے قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کرتا اور وہ نور مذکور یہی ہے) اور جس کو (تکویناً و تقدیراً ) بےراہ رکھنا چاہتے ہیں اس کے سینہ (یعنی قلب) کو (اسلام کے قبول کرنے سے) تنگ (اور) بہت تنگ کردیتے ہیں (اور اس کو اسلام لانا ایسا مصیبت نظر آتا ہے) جیسے کوئی (فرض کرو) آسمان میں چڑھنا چاہتا ہو (اور چڑھا نہیں جاتا اور جی تنگ ہوتا ہے اور مصیبت کا سامنا ہوتا ہے، پس جیسا اس شخص سے چڑھا نہیں جاتا) اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر (چونکہ ان کے کفر اور شرارت کے سبب) پھٹکار ڈالتا ہے (اس لئے ان سے ایمان نہیں لایا جاتا) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت کے آخر میں یہ ذکر تھا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں جس طرح اچھے اور نیک اعمال کے ساتھ کچھ محنت و مشقت لگی ہوئی ہے ان کی راہ میں یہاں رکاوٹیں پیش آتی ہیں اسی طرح برے اعمال کے ساتھ چند روزہ نفسانی لذات اور خواہشات کا ایک فریب ہوتا ہے جو حقیقت اور انجام سے غافل انسان کی نظر میں ان برے اعمال ہی کو مزین کردیتا ہے، اور دنیا کے بڑے بڑے ہوشیار اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔- آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اس کا بیان ہے کہ اسی امتحان اور آزمائش کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ابتداء عالم سے یوں ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ ہر بستی کے رئیس و مالدار اور بڑے لوگ ہی حقیقت اور انجام سے غافل چند روز کی فانی لذتوں میں مست ہو کر جرائم کے مرتکب ہوا کرتے ہیں، اور عوام کی عادت یہ ہوتی ہے کہ بڑے لوگوں کے پیچھے چلنے اور ان کی نقل اتارنے ہی کو اپنی سعادت اور کامیابی سمجھتے ہیں، اور انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب علماء و مشائخ جو ان کو ان کے برے اعمال سے روکنا اور اس کے انجام کی طرف متوجہ کرتا چاہتے ہیں، یہ بڑے لوگ ان کے خلاف طرح طرح کی شرارتیں اور سازشیں اور ان کی دل آزاری کا سامان ہوتا ہے، لیکن انجام کے اعتبار سے ان سب کا وبال خود انہی کی طرف لوٹتا ہے، اور اکثر دنیا میں بھی اس کا ظہور ہوجاتا ہے۔- اس ارشاد میں مسلمانوں کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ دنیا کے بڑوں اور رئیسوں، مالداروں کی ریس نہ کریں، ان کے پیچھے چلنے کی عادت چھوڑیں، انجام بینی کو شعار بنائیں اور بھلے برے کو خود پہچانیں۔- نیز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی دینا مقصود ہے کہ رؤ سائے قریش جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر لگے ہوئے ہیں اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل گیر نہ ہوں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے، اور انجام کار وہ رسوا اور ذلیل ہوئے اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَۃٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْہَا لِيَمْكُرُوْا فِيْہَا ٠ ۭ وَمَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ١٢٣- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(١٢٣) جیسا کہ ہم نے اہل مکہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو استہزاء کرنے والا بنایا ہے، اسی طرح ہم ہر بستی میں ان کے سرداروں اور مالداروں کو پہلے مجرم بناتے ہیں تاکہ وہ وہاں گناہ اور فساد برپا کریں یا یہ کہ وہ انبیاء کرام کی تکذیب کریں اور جو کچھ وہ گناہ اور فساد برپا کرتے ہیں اس کا وبال بالآخر ان ہی کی جانوں پر پڑتا ہے۔
آیت ١٢٣ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا ط) - یہ وہی فلسفہ ہے جو قبل ازیں آیت ١١٢ میں بیان ہوا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ شیاطین انس و جن کو ہم خودہی انبیاء کی دشمنی کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ یہاں پر اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی کہ ہم ہر بستی کے اندر وہاں کے سرداروں اور بڑے بڑے چودھریوں کو ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ حق کے مقابلے میں کھڑے ہوں ‘ لوگوں کو سیدھے راستے سے روکیں ‘ اپنی چالبازیوں اور مکاریوں سے حق پرستوں کو آزمائش میں ڈالیں تاکہ اس عمل سے صاحب صلاحیت لوگوں کی صلاحیتیں مزید اجاگر ہوں ‘ ان کے جوہر کھلیں اور ان کی غیرت ایمانی کو جلا ملے۔ - (وَمَا یَمْکُرُوْنَ الاَّ بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ) انہیں یہ شعور ہی نہیں کہ ان کی چالبازیوں کا سارا وبال تو بآلاخر خود انہی پر پڑے گا۔ جیسے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ (رض) کے ساتھ ابو جہل نے جو کچھ کیا تھا اس کا وبال جب اس کے سامنے آئے گا تب اس کی آنکھ کھلے گی اور اس وقت تو یہ عالم ہوگا کہ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا
55: یہ مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ کافر لوگ ان کے خلاف جو سازشیں کررہے ہیں ان سے گھبرائیں نہیں اس قسم کی سازشیں ہر دور میں انبیاء کرام اور ان کے ماننے والوں کے خلاف ہوتی رہی ہیں ؛ لیکن بالآخر انجام اہل ایمان ہی کا بہتر ہوتا ہے اور دشمنوں کی سازشیں آخر کار خود انہی کو نقصان پہنچاتی ہیں، کبھی تواسی دنیا میں ان کا یہ نقصان ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا ؛ لیکن آخرت میں ان کو پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے خود اپنے حق میں کانٹے بوئے تھے۔