Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جس پر اللہ کا کرم اس پہ راہ ہدایت آسان اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ) الخ ، یعنی اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا آیت ( وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ ) 49 ۔ الحجرات:7 ) اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دہی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس کا دل ایمان و توہید کی طرف کشادہ ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ دان کون سا مومن ہے ؟ فرمایا سب سے زیادہ موت کو یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیاریاں کرنے والا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کے دل میں ایک نور ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس کا سینہ کھل جاتا ہے لوگوں نے اس کی نشانی درریافت کی تو فرمایا جنت کی طرف جھکنا اور اس کی جانب رغبت کام رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا ضیقا کی ایک قرأت ( ضیقا ) بھی ہے ( حرجا ) کی دوسری ( حرجا ) بھی ہے یعنی گنہگار یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی تنگ جو ہدایت کے لئے نہ کھلے اور ایمان اس میں جگہ نہ پائے ، ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرجہ کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ ایک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ تو چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی ہی نہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے خود قرآن میں ہے آیت ( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22 ۔ الحج:78 ) اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے لا الہ الا اللہ کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے ، جیسے کسی پر آسمان پر جڑھائی مشکل ہو ، جیے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید و ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر شیطان مقرر کر دیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل کو تنگ کرتے رہتے ہیں ۔ نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں، الایہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لئے کھول دے۔ 125۔ 2 یعنی جس طرح سینہ تنگ کردیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کردیتا ہے، رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٢] انشراح صدر کیا ہے ؟ سینہ کھول دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ فراخدلی کے ساتھ اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی حقانیت پر اس کا دل مکمل طور پر مطمئن ہوجاتا ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور سینہ میں گھٹن پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی دعوت سنتے ہی اس کے دل میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے وہ اس دعوت کو سمجھنے اور اس میں غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا پھر اس کے اس رویہ سے یہ گھٹن دم بدم بڑھتی جاتی ہے۔ پھر اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ حق اس کے دل میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس وقت اسے اسلام کی کامیابی سے اتنی کوفت ہوتی ہے جیسے وہ بمشکل کسی بلندی یا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ رہا ہو اور سانس پھولنے کے باوجود وہ بلندی پر چڑھنے کے لیے مجبور ہو۔ - [١٣٣] سیدنا ابن عباس (رض) نے اس مقام پر رجس کا ترجمہ شیطان سے کیا ہے اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایسے شخص پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسے ایمان لانے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ نیز رجس کا معنی ناپاکی بھی ہے اور عذاب بھی۔ ترجمہ میں ناپاکی ہی معنیٰ لکھا گیا ہے اور اگر عذاب ہو تو اس سے مراد ہے کہ دنیا میں اس پر لعنت کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے اور آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ سخت تر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ ۔۔ : ” اسلام “ کا لفظی معنی ہے تابع ہوجانا، اپنے آپ کو سپرد کردینا۔ ” حَرَجًا “ نہایت تنگ، گھٹا ہوا، درختوں کا وہ جھنڈ جس میں کوئی چیز داخل نہ ہو سکے۔ ” حَرَجًا “ یہ ” صَعِدَ یَصْعَدُ “ (س) سے باب تفعل کا مضارع ہے، یعنی ” یَصَّعَّدُ “ اصل میں ” یَتَصَعَّدُ “ تھا، حروف زیادہ ہونے سے معنی میں ایک لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی مشکل سے چڑھ رہا ہے۔ - اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ رسالت کی طرح ہدایت و گمراہی بھی اس کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے نظام عدل کے مطابق جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ صحیح بات تسلیم کرنے کے لیے کھول دیتا ہے، اس کے لیے ہدایت کے راستے آسان کردیتا ہے، اسے حق قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور وہ آسانی سے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان کردیتا ہے اور جسے اس کی سرکشی کے باعث ہدایت نہیں دینا چاہتا اس کا سینہ حق قبول کرنے کے لیے تنگ اور نہایت گھٹا ہوا کردیتا ہے، جیسا کہ وہ بلندی کی طرف مشکل سے چڑھ رہا ہے، جوں جوں اوپر چڑھتا ہے، ایک تو چڑھائی کی وجہ سے دوسرے آکسیجن کے کم اور پھر ختم ہونے کی وجہ سے سانس ہی نہیں لے سکتا۔ جو لوگ حق سمجھ کر انکار کا راستہ اختیار کرنے والے ہیں ان پر ایمان کی طہارت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کفر کی گندگی چڑھتی چلی جاتی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٦، ٧) ، سورة توبہ (١٢٥) ، سورة لیل (٥ تا ١٠) اور سورة یونس (١٠٠) ۔ - شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اوپر فرمایا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ ایک آیت ( نشانی) دیکھیں تو ضرور یقین لے آئیں گے، اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لائیں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے ذکر کیے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات کو نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے، ان کو کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دین میں شرح صدر اور اس کی علامات - تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پانے والوں اور گمراہی پر جمے رہنے والوں کے کچھ حالات اور علامات بتلائی گئی ہیں، ارشاد فرمایا : فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ” یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں “۔ - حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرح صدر یعنی سینہ اسلام کے لئے کھول دینے کی تفسیر دریافت کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ایک روشنی ڈال دیتے ہیں، جس سے اس کا دل حق بات کو دیکھنے سمجھنے اور قبول کرنے کے لئے کھل جاتا ہے (حق بات کو آسانی سے قبول کرنے لگتا ہے اور خلاف حق سے نفرت اور وحشت ہونے لگتی ہے) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے جس سے وہ شخص پہچانا جائے جس کو شرح صدر حاصل ہوگیا ہے ؟ فرمایا کہ ہاں علامت ہے کہ اس شخص کی ساری رغبت آخرت اور اس کی نعمتوں کی طرف ہوجاتی ہے، دنیا کی بےجا خواہشات اور فانی لذتوں سے گھبراتا ہے، اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگتا ہے، پھر فرمایا وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ ۭ، یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں رکھنا چاہتے ہیں اس کا دل تنگ اور سخت تنگ کردیتے ہیں، اس کو حق بات کا قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ایسا دشوار ہوتا ہے جیسے کسی انسان کا آسمان میں چڑھنا۔- امام تفسیر کلبی نے فرمایا کہ ” اس کا دل تنگ ہونے کا مطلب ہے کہ اس میں حق اور بھلائی کے لئے کوئی راستہ نہیں رہتا “۔ یہ مضمون حضرت فاروق اعظم (رض) سے بھی منقول ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو اس کو وحشت ہونے لگتی ہے، اور جب کفر و شرک کی باتیں سنتا ہے تو ان میں دل لگتا ہے۔- صحابہ کرام کو دین میں شرح صدر حاصل تھا اس لئے شکوک و شبہات بہت کم پیش آئے - یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کو حق تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور بلا واسطہ شاگردی کے لئے منتخب فرمایا تھا ان کو اسلامی احکام میں شبہات اور وساوس کم سے کم پیش آئے، ساری عمر میں صحابہ کرام نے جو سوالات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کئے گئے وہ گنے چنے چند ہیں، وجہ یہ تھی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیض صحبت سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت کا گہرا نقش ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا، جس کے سبب ان کو شرح صدر کا مقام حاصل تھا ان کے قلوب خود بخود حق و باطل کا معیاد بن گئے تھے، حق کو آسانی کے ساتھ فوراً قبول کرتے اور باطل ان کے دلوں میں راہ نہ پاتا تھا، پھر جوں جوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک سے دوری ہوتی چلی گئی، شکوک و شبہات نے راہ پانی شروع کی، عقائد کے اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے۔- شکوک و شبہات کے دور کرنے کا اصلی طریقہ بحث و مباحثہ نہیں شرح صدر کی تحصیل ہے - اور آج پوری دنیا شکوک و شبہات کے گھیرے میں پھنسی ہوئی ہے، اور بحث و مباحثہ کی راہ سے اس کو حل کرنا چاہتی ہے جو اس کا صحیح راستہ نہیں - فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے پر سرا ملتا نہیں - راستہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اسلاف امت نے اختیار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور ان کے انعام کا استحضار کرکے اس کی عظمت و محبت دل میں پیدا کی جائے، تو شبہات خودبخود کافور ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خود قرآن کریم نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمائی ہے کہ (آیت) رب اشرح لی صدری، یعنی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر پھٹکار ڈال دیتا ہے، اور حق بات ان کے دل میں نہیں اترتی اور ہر برائی اور بیہودگی کی طرف دوڑ دوڑ کر جاتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ۝ ١٢٥- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- شرح - أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - [ طه 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه .- ( ش ر ح )- شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- رجس - الرِّجْسُ : الشیء القذر،- ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه :- إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب - ( ر ج س ) الرجس - پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ - جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے - ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٥) جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی دولت عطا کرنا چاہتے ہیں تو اس کا سینہ قبول اسلام کے لیے کشادہ کردیتے ہیں تاکہ وہ اسلام قبول کرے۔- اور جس کو گمراہ یا کافر ہی رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے سینہ کو تنگ اور بہت ہی تنگ کردیتے ہیں کہ اس کے دل میں نفوذ اور مجاز کے اعتبار سے بھی نور ایمانی کا کوئی شائبہ نہیں رہتا جیسا کہ کسی کو آسمان پر چڑھنے کے لیے مجبور کیا جائے۔- اسی طرح اس شخص کا سینہ اسلام کی طرف رہنمائی نہیں کرتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے، تکذیب ڈال دیتا ہے، پھر اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو ان کو عذاب دیتا ہے۔- اور یہ آپ کے پروردگار کا فیصلہ عدل والا ہے یا یہ کہ یہی آپ کے پروردگار کا صحیح راستہ اسلام ہے یا یہ کہ یہی آپ کے رب کا صحیح اور سیدھا دین ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے یعنی دین اسلام۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ (فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلاَمِ ج) ۔- یہ ایک غور طلب معنوی حقیقت ہے۔ شرح صدر اللہ کی وہ نعمت اور خاص عنایت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة الانشراح کی پہلی آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک بہت بڑے احسان کے طور پر کیا ہے : (اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ ) ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اس شرح صدر کے لیے دعا کرنی چاہیے : اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسلَامِ اے اللہ ‘ اے ہمارے ربّ تو ہمارے دلوں کو نور ایمان سے منور فرما دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی باطنی بصیرت مانگنی چاہیے جس کی وجہ سے اسلام کی ہرچیز ہمیں ٹھیک نظر آئے۔ اور جب ایک بندۂ مومن میں ایسی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے تو ہر قدم اور ہر موڑ پر اس کو اپنے اندر سے ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کے ہر عمل پر اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ انسان کی ایسی اندرونی کیفیت ہے جس میں اس کی فطرت سلیمہ اور نیکی کے جذبے کی آپس میں خوشگوار مطابقت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اسے دین کے کسی حکم سے کسی قسم کی کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ بقول غالبؔ : ؂- دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا - میں نے یہ جا ناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے - (وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ط) ۔- جیسے اونچائی پر چڑھتے ہوئے انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل شاید دھڑک دھڑک کر باہر ہی نکل آئے گا ‘ ایسے ہی اگر اللہ کی طرف سے انسان کو ہدایت کی توفیق عطا نہ ہوئی ہو تو اس کے لیے راہ حق پر چلنا دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔ ذرا سی کہیں آزمائش آجائے تو گویا اس کے لیے قیامت ٹوٹ پڑتی ہے اور ایک ایک قدم اٹھانا اس کے لیے دوبھر ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف وہ شخص جس کو اللہ نے شرح صدر کی نعمت سے نوازا ہے اس کے لیے نہ صرف حق کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے بلکہ اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر مشکل کو وہ شوق اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :92 سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن کردینا اور شکوک و شبہات اور تذبذب و تردد کو دور کر دینا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani