قرآن حکیم ہی صراط مستقیم کی تشریح ہے گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے اس دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ سیدھی اور صاف راہ جو بےروک اللہ کی طرف پہنچا دے یہی ہے ( مستقیما ) کا نصب حالیت کی وجہ سے ہے ۔ پس شرع محمدی کلام باری تعالیٰ ہی راہ راست ہے چنانچہ حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے ( ملاحظہ ہو ترمذی مسند وغیرہ ) جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم و عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ کی آیتیں آ چکیں ۔ ان ایمانداروں کیلئے اللہ کے ہاں جنت ہے ، جیسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔ وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کا کار ساز اور دلی دوست ہے ۔ حافظ و ناصر مویدو مولی ان کا وہی ہے ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان ، سرور اور خوشی ہی خوشی ہے ۔
وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ ۔۔ : ” َھٰذَا “ یعنی حکم برداری میں عقل کو راہ نہ دینا سیدھی راہ ہے۔ (موضح)
خلاصہ تفسیر - اور (اوپر جو اسلام کا ذکر ہے تو) یہی (اسلام) تیرے رب کا (بتلایا ہوا) سیدھا راستہ ہے (جس پر چلنے سے نجات ہوتی ہے، جس کا ذکر (آیت) فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ ، میں ہے، اور اسی صراط مستقیم کی توضیح کے لئے) ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے، (جس سے وہ اس کے اعجاز سے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کے مضامین پر عمل کرکے نجات حاصل کریں، یہی تصدیق و عمل صراط مستقیم کامل ہے، بخلاف ان کے جن کو نصیحت حاصل کرنے کی فکر ہی نہیں ان کے واسطے نہ یہ کافی نہ دوسرے دلائل کافی، آگے ان ماننے والوں کی جزاء کا ذکر ہے، جیسا نہ ماننے والوں کی سزا اوپر کئی جملوں میں مذکور ہے پس ارشاد ہے کہ) ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) سلامتی (یعنی امن وبقاء) کا گھر (یعنی جنت) ہے اور اللہ ان سے محبت رکھتا ہے، ان کے اعمال (حسنہ) کی وجہ سے اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کریں گے (اور ان میں سے بالخصوص کفار کو حاضر کرکے ان میں جو شیاطین الجن ہیں ان سے تو بیخاً کہا جاوے گا کہ) اے جماعت جنات کی تم نے انسانوں (کے گمراہ کرنے) میں بڑا حصہ لیا (اور ان کو خوب بہکایا یا اسی طرح انسانوں سے پوچھا جاوے گا (آیت) الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن الخ۔ غرض شیاطین الجن بھی اقرار کریں گے) اور جو انسان ان (شیاطین جن) کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ (بھی اقراراً کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ صحیح فرماتے ہیں واقعی) ہم میں ایک نے دوسرے سے (اس ضلال واضلال کے باب میں نفسانی) فائدہ حاصل کیا تھا (چنانچہ گمراہ انسانوں کو اپنے عقائد کفریہ و شرکیہ میں لذت آتی ہے اور گمراہ کنندہ شیاطین کو اس سے حظ ہوتا ہے کہ ہمارا کہنا چل گیا) اور (فی الحقیقت ہم ان کے بہکانے سے قیامت کے منکر تھے، لیکن وہ انکار غلط ثابت ہوا، چنانچہ) ہم اپنی اس معیّن میعاد تک آپہنچے جو آپ نے ہمارے لئے معیّن فرمائی، (یعنی قیامت آگئی) اللہ تعالیٰ (سب کفار جن وانس سے) فرماویں گے کہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو گے، (کوئی نکلنے کی سبیل و تدبیر نہیں) ہاں، اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (لیکن یہ یقینی ہے کہ خدا بھی نہیں چاہے گا اس لئے ہمیشہ رہا کرو) بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بڑی حکمت والا اور بڑا علم والا ہے (علم سے سب کے جرائم معلوم کرتا ہے اور حکمت سے مناسب سزا دیتا ہے) ۔- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا، ” یعنی یہ راستہ تیرے رب کا ہے سیدھا “۔ اس میں لفظ ھذٰا سے بقول ابن مسعود (رض) قرآن کی طرف اور بقول ابن عباس (رض) اسلام کی طرف اشارہ ہے (روح) معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن یا شریعت اسلام جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے، یہ راستہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا ہے، یعنی ایسا راستہ ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے اپنی حکمت بالغہ سے تجویز فرمایا اور اس کو پسند کیا ہے، اس میں راستہ کی اضافت و نسبت پروردگار کی طرف کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن اور اسلام کا جو دستور العمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا کچھ اللہ تعالیٰ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کے فائدہ کے لئے شان پروردگاری کے تقاضہ کی بنا پر ہے اس کے ذریعہ انسان کی ایسی تربیت کرنا مقصود ہے جو اس کی دائمی فلاح و بہبود کی ضامن ہو۔ - پھر اس میں لفظ رب کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص لفط و عنایت کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے یہ راستہ تجویز فرمایا ہے، اس نسبت کا لفط اہل ذوق ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک بندہ کو اپنے رب اور معبود کی طرف کوئی ادنیٰ نسبت حاصل ہوجانا بھی اس کے لئے انتہائی فخر کی چیز ہے، اور اگر رب الارباب اور معبود کائنات اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرے کہ میں تیرا ہوں تو اس کی قسمت کا کیا کہنا، حضرت حسن نظامی رحمة اللہ علیہ اسی مقام سے فرماتے ہیں - بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام، تو بزبان خود بگو کہ بندہ نواز کیستی - اس کے بعد اس قرآنی راستہ کا یہ حال لفظ مُسْتَقِـيْمًا سے بیان کیا گیا کہ یہ راستہ سیدھا راستہ ہے، اس میں بھی مستقیم کو صراط کی صفت کے طور پر لانے کے بجائے حال کے طریقہ سے ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ جو راستہ پروردگار عالم کا تجویز کیا ہوا ہے، اس میں بجز مستقیم اور سیدھا ہونے کے اور کوئی احتمال ہو ہی نہیں سکتا (روح و بحر)- اس کے بعد فرمایا (آیت) قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، یعنی ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے۔- فصلنا، تفصیل سے بنا ہے، تفِصیل کے اصلی معنی یہ ہیں یہ تجزیہ کر کے ایک ایک فصل کو الگ الگ بیان کیا جائے، اس طریقہ پر پورا مضمون ذہن نشین ہوجاتا ہے، اس لئے تفِصیل کا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، جس میں کوئی اجمال یا ابہام باقی نہیں چھوڑا، اس میں لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ اگرچہ قرآنی ارشاد بالکل واضح اور صاف ہیں، لیکن ان سے فائدہ انہی لوگوں نے اٹھایا جو نصیحت حاصل کرنے کے قصد سے قرآن میں غور کرتے ہیں، ضد اور عناد یا آبائی رسوم کی تقلید جامد کے پردے ان کے درمیان حائل نہیں ہوتے۔
وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا ٠ ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ١٢٦- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(١٢٦) ہم نے بذریعہ قرآن حکیم اوامرو نواہی اور اہانت و کرامت کو ایسے لوگوں کیلیے بیان کردیا ہے جو نصیحت حاصل کرکے ایمان لائیں کہا گیا ہے۔ (آیت) ” فمن یرد اللہ ان یھدیہ “۔ (الخ) یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوجہل کے موازنہ میں نازل ہوئی ہے یا یہ کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی اور ان مومنین کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے، سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور گھر سے مراد جنت ہے۔