127۔ 1 یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر و ضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان و ہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کار ساز ہے۔
[١٣٤] یعنی اللہ کے فرمانبردار بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ ایسی جائے رہائش عطا فرمائیں گے جہاں ہر تکلیف سے سلامتی اور حفاظت ہوگی وہ گھر قیامت کی رستاخیز ہولناکیوں سے اور دوزخ کی آگ کی گرمی سے محفوظ ہوگا وہاں ان پر اللہ کی طرف سے بھی سلامتی نازل ہوگی۔ فرشتے بھی ان کی سلامتی کی دعا کریں گے۔ آپس میں بھی وہ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ انہیں وہاں کسی مرض سے یا تکلیف سے یا غم واندوہ سے بھی دو چار نہ ہونا پڑے گا۔ بلکہ انہیں وہاں مسلسل اور لازوال نعمتیں مہیا ہوں گی۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) لَهُمْ دَار السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ یعنی جن لوگوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ قرآنی ہدایتوں کو خالی الذہن ہو کر نصیحت حاصل کرنے کے لئے دیکھتے اور سنتے ہیں، اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ان ہدایتوں کو قبول کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام کا انعام موجود اور محفوظ ہے، اس میں لفظ دار کے معنی گھر اور سلام کے معنی تمام آفتوں، مصیبتوں اور محنتوں سے سلامتی کے ہیں، اس لئے دار السلام اس گھر کو کہا جاسکتا ہے جس میں کسی تکلیف و مشقت اور رنج و غم اور آفت و مصیبت کا گزر نہ ہو، اور وہ ظاہر ہے کہ جنت ہی ہو سکتی ہے۔- اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ سلام اللہ جل شانہ کا نام ہے، اور دار السلام کے معنی ہیں اللہ کا گھر اور ظاہر ہے کہ اللہ کا گھر امن و سلامتی کی جگہ ہوتی ہے، اس لئے حاصل معنی پھر بھی یہی ہوگئے کہ وہ گھر جس میں ہر طرح کا امن و سکون اور سلامتی و اطمینان ہو، جنت کو دار السلام فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت ہی صرف وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہر قسم کی تکلیف، پریشانی اور اذیت اور ہر خلاف طبع چیز سے مکمل اور دائمی سلامتی حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں نہ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو کبھی حاصل ہوئی اور نہ بڑے سے بڑے نبی و رسول کو، کیونکہ دنیائے فانی کا یہ عالم ایسی مکمل اور دائمی راحت کا مقام ہی نہیں۔- اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان نیک بخت لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام ہے، رب کے پاس ہونے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ دار السلام یہاں نقد نہیں ملتا بلکہ جب وہ قیامت کے روز اپنے رب کے پاس جائیں گے اس وقت ملے گا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ دار السلام کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا، رب کریم اس کا ضامن ہے وہ اس کے پاس محفوظ ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس دار السلام کی نعمتوں اور راحتوں کو آج کوئی تصور میں بھی نہیں لاسکتا، رب ہی جانتا ہے، جس کے پاس یہ خزانہ محفوظ ہے۔- اور اس دوسرے معنی کی رو سے اس دار السلام کا ملنا قیامت اور آخرت پر موقوف نہیں معلوم ہوتا، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رب کریم جس کو چاہیں اسی عالم میں دار السلام نصیب کرسکتے ہیں، کہ تمام آفات اور مصائب سے امن نصیب فرما دیں، خواہ اس طرح کہ دنیا میں کوئی آفت و مصیبت ہی ان کو نہ پہنچے جیسا کہ انبیائے سابقین اور اولیاء اللہ میں اس کی بھی نظائر موجود ہیں، اور یا اس طرح کہ نعمائے آخرت کو ان کے سامنے مستحضر کرکے ان کی نگاہ کو ایسا حقیقت شناس بنادیا گیا جس سے دنیا کی چند روزہ تکلیف و مصیبت ان کی نظروں میں حقیر ناقابل التفات چیز نظر آنے لگتی ہے، مصائب کے پہاڑ بھی ان کے سامنے پرکاہ سے کم رہ جاتے ہیں - رنج راحت شد چو مطلب شدبزرگ گرد گلہ تو تیائے چشم گرگ - دنیا کی تکالیف کے بالمقابل جو انعامات ملنے والے ہیں وہ ان کے سامنے ایسے مستحضر ہوجاتے ہیں کہ یہ تکالیف بھی ان کو لذیز معلوم ہونے لگتی ہیں، اور یہ کوئی مستعبد نہیں، دیکھو آخرت کی دائمی نعمتیں تو بڑی چیز ہیں، یہ دنیا کی فانی اور چند روزہ راحت کا تصور انسان کے لئے کیسی کیسی محنت و مشقت کو لذیز بنا دیتا ہے، کہ سفارشیں اور رشوتیں پیش کرکے آزادی کی راحت کو قربان کرتا ہے، اور نیند و آرام کو ختم کرنے والی ملازمت و مزدوری کی محنت کو شوق سے طلب کرتا ہے، اور اس محنت کے مل جانے پر مسرور و شکر گزار ہوتا ہے، کیونکہ اس کے سامنے اکتیس دن پورے ہوجانے کے بعد حاصل ہونے والی تنخواہ کی لذت ہوتی ہے، وہ لذت اس ملازمت و مزدوری کی سب تلخیوں کو لذیز بنا دیتی ہے، قرآن کریم کی (آیت) ولمن خاف مقام ربہ جنتٰن۔ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والوں کو دو جنتیں ملیں گی، ایک آخرت میں دوسری دنیا میں، دنیا کی جنت یہی ہوتی ہے کہ اول تو اس کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے، ہر کام آسان ہوتا نظر آتا ہے، اور کبھی چند روزہ تکلیف و مشقت یا ناکامی بھی ہوتی ہے تو نعمائے آخرت کے مقابلہ میں وہ بھی ان کو لذیز نظر آتی ہے، جس سے یہ تکلیف بھی راحت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں نیک لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام ہونے کا جو ذکر ہے وہ دار السلام آخرت میں تو یقینی اور متعین ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ان کو دار السلام کا لفط دے دیا جائے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا : وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی ان کے اعمال صالح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کا متولی اور متکفل اور ناصر و مددگار ہوجاتا ہے، ان کی سب مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
لَہُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَہُوَ وَلِـيُّہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٢٧- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔
(١٢٧۔ ١٢٨) اور یہ حضرات دنیا میں جو نیکیاں کیا کرتے تھے، اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ ان کو ثواب اور اعزاز عطا فرمائے گا، یعنی تمام جن وانس کو جمع کرکے جنات سے کہیں گے کہ تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا ہے اور جنات سے تعلق رکھنے والے لوگ جو کہ بڑے جنوں میں سے تھے جب کسی وادی میں اترتے تھے یا کسی مقام پر شکار کھیلتے تھے وہاں کے سرکش جنوں سے پناہ چاہتے تھے جس سے وہاں وہ امن میں کے ساتھ اپنا کام کرلیتے تھے اب کہیں گے ہمارے پروردگار ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کیا اور اسی دوران ہمیں موت آپہنچی۔- انسانوں کا نفع تو جنات سے مطمئن ہونا اور جنات کا نفع ان کی قوم پر شرافت و بزرگی کا حاصل ہونا ہے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اے گروہ جن وانس تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہوگے، آپ کا پروردگار حکیم ہے کہ ان کے لیے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا فیصلہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی سزا سے بخوبی واقف ہے۔
آیت ١٢٧ (لَہُمْ دَار السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَہُوَ وَلِیُّہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔- دار السلام جنت کا دوسرا نام ہے۔ انہوں نے اپنی محنتوں ‘ قربانیوں ‘ مشقتوں اور اپنے ایثار کے سبب اللہ کی دوستی کمائی ہے اور ہمیشہ کے لیے دار السلام کے مستحق ٹھہرے ہیں۔
" سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :93 ”سلامتی کا گھر“ یعنی جنت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا ۔ "