Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یوم حشر وہ دن بھی قریب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا ۔ جناب انسان عابد معبود سب ایک میدان میں کھڑے ہوں گے اس وقت جنات سے ارشاد ہو گا کہ تم نے انسانوں کو خوب بہکایا اور ورغلایا ۔ انسانوں کو یاد دلایا جائے گا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا وہ تمہارا دشمن ہے میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے لیکن تم نے سمجھ سے کام نہ لیا اور شیطانی راگ میں آ گئے اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انہوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور فائدہ حاصل کرتے رہے ، جاہلیت کے زمانہ میں جو مسافر کہیں اترتا تو کہتا کہ اس وادی کے بڑے جن کی پناہ میں میں آتا ہوں ۔ انسانوں سے جنات کو بھی فائدہ پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سردار سمجھنے لگے تھے موت کے وقت تک یہی حالت رہی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اچھا اب بھی تم ساتھ ہی جہنم میں جاؤ وہیں ہمیشہ پڑے رہنا ۔ یہ استثناء جو ہے وہ راجع ہے برزخ کی طرف بعض کہتے ہیں دنیا کی مدت کی طرف ، اس کا پورا بیان سورۃ ہود کی آیت ( خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ) 11 ۔ ہود:107 ) کی تفسیر میں آئے گا انشا اللہ ۔ اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے جنت دوزخ کا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ سب مشیت رب پر موقوف ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

128۔ 1 یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورة یٰسین میں فرمایا اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے (یٰسین۔ 60، 62) ۔ 128۔ 2 جنوں اور انسانوں نے ایک دوسر سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر تلذذ حاصل کرنا اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطان نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنادیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کی انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں ا۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھایا یہ ہی انسان جنات کا بیان کردہ جھوٹی اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔ 128۔ 3 یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٥] جنوں کا انسانوں کے سر چڑھنا :۔ سورة جن میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون سے ملتا جلتا مضمون بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ انسانوں کے اس فعل نے جنوں کی سرکشی کو اور بڑھا دیا۔ یعنی جن انسانوں کے سر پر چڑھ گئے۔ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا یا کسی سفر میں اسے جان کا خطرہ درپیش ہوتا تو وہ یوں کہتا میں اس جنگل کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا اور جو شخص اس سے پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو بھی پہنچتا تھا اور یہ بادشاہ کوئی شیطان یا جن ہی ہوا کرتا تھا۔ جو آدمیوں کی ایسی فریاد سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا اور کہتا میں جنوں کے علاوہ آدمیوں کا بھی سردار بن گیا۔- جن ایک غیر مرئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اکثریت برے لوگوں کی ہے جنہیں خبیث روحیں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ روحیں بعض دفعہ سفر میں اور بالخصوص ناپاک جگہوں میں کوئی بری سی شکل دھار کر انسانوں کو خوفزدہ کرتی ہیں اور ان پر اپنا رعب جماتی ہیں۔ ایسی بد روحوں کو ہمارے ہاں عموماً بھوت اور چڑیل کہا جاتا ہے۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت ہمیں جو دعا رسول اللہ نے سکھائی ہے وہ یوں ہے اے اللہ میں جنوں اور جننیوں (بد روحیں مذکر ہوں یا مونث) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب الدعاء عندالخلائ) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسی بد روحیں انسان کو تنگ اور پریشان کرسکتی ہیں۔- خ جنوں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا :۔ اب جنوں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی صحیح صورتیں تو ہمیں معلوم نہیں تاہم ایک مشہور و معروف صورت جو ہم دیکھتے ہیں وہ تسخیر جنات کی صورت ہے۔ جنوں کو مسخر کرنے والے انسانوں کو ہماری زبان میں عامل کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی مختلف سورتوں، آیتوں یا بعض دوسرے جنتروں منتروں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اور زکوٰۃ نکالنا، کی اصطلاح ان کے پورے عمل کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔ ان کے زکوٰۃ کے عمل کی یہ صورت ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص سورة جن کی زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ چالیس دن رات کو کسی جنگل میں جا کر مقررہ تعداد میں سورة مذکور کو پڑھے گا اور اپنے گرد ایک حصار یا گول دائرہ کھینچ لے گا اور یہ عمل چالیس دن تک برابر جاری رکھے گا اور ان دنوں میں فلاں فلاں کھانے یا فلاں کام کرنے سے پرہیز رکھے گا۔ جب وہ یہ عمل رات کو کر رہا ہوگا تو جن طرح طرح کی شکلیں بن کر اسے ڈرانے آتے رہیں گے۔ لیکن حصار کے اندر داخل ہو کر اس پر حملہ نہ کرسکیں گے۔ اگر اس دوران عامل جنوں سے ڈر گیا تو جن اس سے انتقام لیں گے۔ مثلاً بیمار کردیں گے، اپاہج بنادیں گے، پاگل بنادیں گے، اس سے چمٹ کر طرح طرح کی اذیتیں دیں گے یا جان ہی سے مار ڈالیں گے۔ یہ سزا وہ اس عامل کے اس وقت تک کیے ہوئے عمل کے مطابق دیں گے۔ اور اگر وہ عامل پوری دلجمعی سے اپنا عمل جاری رکھے اور بد روحوں سے ہرگز خوفزدہ نہ ہو اور چالیس دن کا کو رس پورا کرلے تو پھر وہ کامیاب ہے۔ کوئی نہ کوئی جن اس کا تابع بن جائے گا جس سے وہ طرح طرح کے کام لے سکتا ہے جب اس جن کی ضرورت پیش آئے تو ایک دفعہ سورة جن پڑھ کر اسے بلائے تو وہ حاضر ہوجائے گا اور عامل اس کو مطلوبہ کام پر مامور کر کے اس سے کام کروا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس عامل نے کوئی جن یا بدروح مسخر کرلی ہو وہ اسے مطلوبہ کام پر لگا کر دنیوی مفادات بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب کوئی جن کسی عورت کے جسم میں حلول کر کے اسے پریشان کر رہا ہو (یاد رہے کہ جن عموماً عورتوں کو ہی پڑتے ہیں مردوں کو کم ہی پڑتے ہیں) تو عامل کو بلایا جاتا ہے۔ وہ جن کو حاضر کر کے حالات معلوم کرتا، مریض کے علاج معالجہ کا وعدہ کرتا اور گھر والوں سے نذرانے وصول کرتا ہے یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ جن عموماً اس بستی میں عورتوں کو پریشان کرتے ہیں جہاں کوئی عامل رہتا ہو۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر عامل بعض دفعہ خود ہی جن ڈالتے ہیں پھر جب اسے علاج کے لیے بلایا جائے تو اپنے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ بہرحال جنوں کے انسانوں کو تنگ کرنے اور عاملوں کے کارناموں کے متعلق طرح طرح کی داستانیں مشہور ہیں اور کچھ واقعات دیکھنے میں بھی آتے رہتے ہیں اور حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔- [١٣٦] یہ سارا کاروبار چونکہ جادو سے ملتا جلتا ہے اور جنوں کے ذریعہ غیب کے حالات معلوم کرنے کا دھندا بھی اس میں شامل ہے۔ لہذا قرآن کی نظروں میں یہ بھی کفر ہے اسی لیے اللہ نے ایسے جنوں اور انسانوں کی سزا دوزخ مقرر کی ہے۔- [١٣٧] گناہوں کی سزا احوال و ظروف کو مدنظر رکھ کردی جاتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کے عذاب دوزخ کی مدت میں کمی بیشی عین انصاف کے مطابق ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ۚ: جنوں سے مراد یہاں شیطان جن ہیں۔ ان کا بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لینے کا مطلب انھیں گمراہ کر کے اپنے راستے پر لگا لینا ہے اور جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انھوں نے ان کو گمراہی کی دعوت دی اور انھوں نے اسے قبول کرلیا اور ان کی تعظیم و تکریم اور مصیبتوں کے وقت ان کو پکارنا شروع کردیا اور یہی شیاطین کی کامیابی ہے اور انسانوں کے جنوں سے فائدہ اٹھانے سے مراد ان سے آسمان کے فرشتوں سے سنی ہوئی خبریں، جو وہ جھوٹ ملا کر بتاتے ہیں، سن کر اپنی جھوٹی غیب دانی کا بازار چمکانا، جادو ٹونے میں ان سے مدد لینا وغیرہ ہے اور پھر لوگوں سے پیسے بٹورنا، مزید کئی فوائد حاصل کرنا اور انھیں گمراہ کرنا ہے۔ - قَال النَّارُ مَثْوٰىكُمْ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جو شخص بھی کسی جن سے کوئی غلط فائدہ اٹھائے یا قید کر کے اس سے کوئی مقصد حاصل کرے اس شخص اور جن دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شیطان جن کو نماز کے دوران آپ پر حملہ کرنے پر گرفتار کرلیا اور مسجد کے ستون سے باندھنے کا ارادہ کیا تو سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد کر کے اسے چھوڑ دیا کہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ……...) [ صٓ : ٣٤ تا ٤٠ ] مزید دیکھیے : سورة شعراء (٢٢١ تا ٢٢٣) اور سورة جن (٦) ۔- اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ: اس لفظ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جہنم آخر ختم ہوجائے گی اس کے جواب میں شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اللہ تو یہ اس لیے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اسی کے چاہنے سے ہے، وہ چاہے تو موقوف کرے مگر وہ چاہ چکا۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں میدان حشر کے اندر تمام جنات اور انسانوں کو جمع کرنے کے بعد دونوں گروہوں سے ایک سوال و جواب کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ شیاطین الجن کو خطاب کرکے ان کے جرم کا اظہار اس طرح فرمائیں گے کہ تم نے انسانوں کی گمراہی میں بڑا حصہ لیا ہے، اس کے جواب میں جنات کیا کہیں گے قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، ظاہر یہی ہے کہ علیم وخبیر کے سامنے اقرار کرنے کے سوا چارہ کیا ہے، مگر ان کا اقرار ذکر نہ کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ اس سوال پر وہ ایسے مبہوت ہوجائیں گے کہ جواب کیلئے زبان نہ اٹھ سکے گی (روح) ۔- اس کے بعد شیاطین الانس یعنی وہ لوگ جو دنیا میں شیطانوں کے تابع رہے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے رہے ان لوگوں کی طرف سے بارگاہ احکم الحاکمین میں ایک جواب ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ سوال شیاطین الانس سے نہیں کیا گیا، مگر ضمنی طور پر گویا وہ بھی مخاطب تھے، کیوں کہ انہوں نے بھی گمراہی پھیلانے کا وہی کام کیا تھا، جو شیاطین الجن کا کام تھا، اس ضمنی خطاب کی وجہ سے ان لوگوں نے جواب دیا، مگر ظاہر یہ ہے کہ خود انسان نما شیطانوں سے بھی سوال ہوگا، جس کا ذکر صراحةً اگرچہ یہاں نہیں ہے، مگر سورة یٰسین کی اس آیت میں مذکور ہے :) (آیت) الم اعھد الیکم یٰبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطٰن، ” یعنی اے بنی آدم کیا ہم نے تم سے رسولوں کے واسطے سے یہ نہ کہا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا “۔ - جس سے معلوم ہوا کہ انسانی شیطانوں سے بھی اس موقع پر سوال ہوگا اور وہ جواب میں اقرار کریں گے کہ بیشک ہم سے یہ جرم سرزد ہوا کہ ہم نے شیطانوں کی بات مانی اور یہ کہیں گے کہ بیشک جنی شیاطین نے ہم سے اور ہم نے ان سے دوستانہ تعلقات رکھ کر ایک دوسرے سے نفع حاصل کیا، انسانی شیطانوں نے تو ان سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ دنیا کی لذتیں حاصل کرنے کی راہیں سیکھیں، اور کہیں کہیں جنات شیاطین کی دہائی دے کر یا کسی دوسرے طریق سے ان سے امداد بھی حاصل کی، جیسے بت پرست ہندوؤں میں بلکہ بہت سے جاہل مسلمانوں میں بھی ایسے طریقے معروف ہیں جن کے ذریعہ شیاطین اور جنات سے بعض کاموں میں امداد لے سکتے ہیں، اور جنی شیطانوں نے انسانوں سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ ان کی بات مانی گئی، اور یہ انسان کو اپنے تابع بنانے میں کامیاب ہوگئے، یہاں تک کہ وہ موت اور آخرت کو بھول بیٹھے، اور اس وقت ان لوگوں نے اقرار کیا کہ جس موت اور آخرت کو ہم شیطان کے بہکانے سے بھول بیٹھے تھے اب وہ سامنے آگئی، اس پر حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا : (آیت) النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ ” یعنی تم دونوں گروہوں کے جرم کی سزا اب یہ ہے کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے، جس میں ہمیشہ رہو گے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس سے کسی کو نکالنا چاہے “ لیکن دوسری نصوص میں قرآن شاہد ہے کہ الہ بھی نہیں چاہے گا اس لیے ہمیشہ ہی رہنا پڑے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا۝ ٠ ۚ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ۝ ٠ ۚ وَقَالَ اَوْلِيٰۗـؤُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِيْٓ اَجَّلْتَ لَنَا۝ ٠ ۭ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۝ ١٢٨- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- ( معشر)- ، اسم جمع بمعنی الجماعة، وزنه مفعل بفتح المیم والعین ... ويجمع علی معاشر .- جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- استکثرتم - ۔ تم نے بہت زیادہ ( تابع) کرلیا۔ استکبار ( استفعال) سے ۔ کسی کام کو بہت زیادہ کرنا۔ اسی باب سے لفظ استحصال ہے بہت زیادہ وصول کرنا۔ یہاں استکثرتم من الانس سے مراد یہ ہے کہ انسانوں میں بہتوں کو تم ضلالت اور سرکشی کی طرف لے گئے تھے۔- اسْتَمْتَعَ :- واسْتَمْتَعَ : طلب التّمتّع . رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام 128] ، فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ [ التوبة 69] ، فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلاقِهِمْ [ التوبة 69]- اور استمتع کے معی کیس چیز سے نفع حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام 128] اے ہمارے پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔ فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ [ التوبة 69] وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے ۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھاچکے ہیں ۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم - ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًاج یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ج) - وہ جو تمہارے بڑے جن عزازیل نے کہا تھا : (وَلاَ تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ ) (الاعراف ) اور تو ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا۔ تو واقعی بہت سے انسانوں کو تم نے ہتھیا لیا ہے۔ یہ گویا ایک طرح کی شاباش ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دی جائے گی۔- (وَقَالَ اَوْلِیٰٓءُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ) - اس پر جنوں کے ساتھی انسانوں کی غیرت ذرا جاگے گی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ جنات نے ہمیں ہتھیا لیا ہے ‘ شکار کرلیا ہے۔ اس پر وہ بول اٹھیں گے : - (رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ) - ہم ان سے اپنے کام نکلواتے رہے اور یہ ہم سے مفادات حاصل کرتے رہے۔ ہم نے جنات کو اپنا مؤکل بنایا ‘ ان کے ذریعے سے غیب کی خبریں حاصل کیں اور کہانت کی دکانیں چمکائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :94 یہاں جنوں سے مراد شیاطین جن ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :95 یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے ناجائز فائدے اٹھائے ہیں ، ہر ایک دوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :96 یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی ، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی ۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ خود اپنے جرم کا ذمہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

57: اِنسان تو شیطانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ ان کے بہکائے میں آ کر اپنی نفسانی خوہشات کی تکمیل کی اور وہ گناہ کئے جن سے ظاہری طور پر لذت حاصل ہوتی تھی۔ اور شیطان اِنسانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ انہیں گمراہ کر کے خوش ہوئے کہ یہ لوگ خوب اچھی طرح ہمارے قابو میں آ گئے ہیں۔ در اصل وہ یہ کہہ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہوں گے، اور غالبا آگے معافی بھی مانگنا چاہتے ہوں گے، لیکن یا تو اس سے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، یا چونکہ معافی کا وقت گذر چکا ہوگا، اس لئے اﷲ تعالیٰ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ فرمائیں گے کہ اب معافی تلافی کا وقت گذر چکا، اب تو تمہیں جہنم کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔ 58: اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، لیکن بظاہر استثنا کے اس جملے سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ایک یہ کہ کافروں کے عذاب وثواب کا فیصلہ کسی سفارش یا اثر ورسوخ کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا تمام ترفیصلہ خود اﷲ تعالیٰ کی مشیت کی بنیاد پر ہوگا، اور یہ مشیت اس کی حکمت اور علم کے مطابق ہوگی جس کا ذکر اگلے جملے میں ہے۔ دوسری حقیقت جو اس استثنا سے ظاہر کی گئی ہے یہ ہے کہ کافروں کو ہمیشہ جہنم میں رکھنا (معاذاللہ) اﷲ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے، لہٰذا اگر بالفرض اس کی مشیت یہ ہوجائے کہ کسی کو باہر نکال لیا جائے تو یہ عقلی اعتبار سے ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی اُس مشیت کے خلاف کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی مشیت اس کے علم اور حکمت کے مطابق یہی ہو کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں۔