Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہم مزاج ہی دوست ہوتے ہیں لوگوں کی دوستیاں اعمال پر ہوتی ہیں مومن کا دل مومن سے ہی لگتا ہے گو وہ کہیں کا ہو اور کیسا ہی ہو اور کافر کافر بھی ایک ہی ہیں گو وہ مختلف ممالک اور مختلف ذات پات کے ہوں ۔ ایمان تمناؤں اور ظاہر داریوں کا نام نہیں ۔ اس مطلب کے علاوہ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام کفار جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ مالک بن دینار کہتے ہیں میں نے زبور میں پڑھا ہے اللہ فرماتا ہے میں منافقوں سے انتقام منافقوں کے ساتھ ہی لوں گا پھر سب سے ہی انتقام لوں گا ۔ اس کی تصدیق قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے بھی ہوتی ہے کہ ہم ولی بنائیں گے بعض ظالموں کا یعنی ظالم جن اور ظالم انس ۔ پھر آپ نے آیت ( وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ ) 43 ۔ الزخرف:36 ) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ہم سرکش جنوں کو سرکش انسانوں پر مسلط کر دیں گے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ اسی کو اس پر مسلط کر دے گا ۔ کسی شاعر کا قول ہے ۔ وما من یدالا ید اللہ فوقھا وما ظالم الا سیبلی بظالم یعنی ہر ہاتھ ہر طاقت پر اللہ کا ہاتھ اور اللہ کی طاقت بالا ہے اور ہر ظالم دوسرے ظالم کے پنجے میں پھنسنے والا ہے ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض کا ولی بنا دیتے ہیں اور بعض بعض سے ہلاک ہوتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بنایا اسی طرح ہم نے ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کردیتے ہیں اس ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا ۔۔ : یعنی جس طرح ہم نے جنات اور بعض انسانوں کو ایک دوسرے کا دوست بنادیا اسی طرح ہم ظالم اور فاسق و فاجر انسانوں کو ان کے اعمال کے سبب ایک دوسرے کا دوست بنا دیتے ہیں، جیسا کہ دیکھیے سورة توبہ ( ٦٧، ٧١) ۔ ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسی طرح ہم ( آخرت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنادیں گے کہ جس طرح وہ دنیا میں گناہوں کے ارتکاب میں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار تھے اسی طرح آخرت کا عذاب بھگتنے میں بھی وہ ایک دوسرے کے شریک حال ہوں گے۔ بعض نے ” َ نُوَلِّيْ “ کا ایک معنی یہ کیا ہے کہ ہم ظالموں میں سے بعض کو بعض پر والی اور حاکم بنا دیتے ہیں کہ جس طرح ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بعض کو بعض پر مسلط کردیا، اسی طرح دنیا میں ہم ظالموں کو بھی ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں کہ ظالم ماتحت پر ظلم کرتا ہے اور کمزور زبردست کا ظلم سہتا ہے، مگر آیات کے سیاق اور الفاظ ” َ اَوْلِيٰۗـؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ “ کی یہاں حاکم کے معنی کے ساتھ مناسبت محل نظر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (جس طرح دنیا میں گمراہی کے لحاظ سے سب میں تعلق و قرب تھا) اسی طرح (دوزخ میں) بعض کفار کو بعض کے قریب (اور مجتمع) رکھیں گے ان کے اعمال (کفریہ) کے سبب (یہ خطاب مذکور تو جن و انس کو باعتبار ان کے احوال متعلقہ باہم دگر کے تھا، آگے ہر ایک کو باعتبار احوال متعلقہ بذات خاص کے خطاب ہے کہ) اے جماعت جنات اور انسانوں کی (ہاں یہ تو بتلاؤ جو تم کفر و انکار کرتے رہے تو) کیا تمہارے پاس تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام (متعلق عقائد و اعمال کے) بیان کیا کرتے تھے اور تم کو اس آج کے دن (کے وقوع) کی خبر دیا کرتے تھے (پھر کیا وجہ کہ تم کفر و انکار سے باز نہ آئے) وہ سب عرض کریں گے کہ ہم سب اپنے اوپر (جرم کا) اقرار کرتے ہیں (ہمارے پاس کوئی وجہ عذر اور براءت کی نہیں، آگے اللہ تعالیٰ ان کو اس مصیبت کے پیش آنے کا سبب بتلاتے ہیں) اور ان کو (یہاں) دنیوی زندگانی نے بھول میں ڈال رکھا ہے (کہ دنیوی لذات کو مقصود اعظم سمجھ رکھا ہے آخرت کی فکر ہی نہیں) اور (اس کا ثمرہ یہ ہوا کہ وہاں) یہ لوگ مقر ہوں گے کہ وہ (یعنی ہم) کافر تھے (اور غلطی پر تھے، مگر وہاں کے اقرار سے کیا ہوتا ہے، اگر دنیا میں ذرا غفلت دور کردیں تو اس روز بد کا کیوں سامنا ہو، آگے رسولوں کے بھیجنے میں جس کا اوپر ذکر تھا اپنی رحمت کا اظہار فرماتے ہیں کہ) یہ (رسولوں کا بھیجنا) اسی وجہ سے ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب کسی بستی والوں کو (ان کے) کفر کے سبب (دنیا میں بھی) ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے (احکامِ الٓہیہ سے بوجہ رسولوں کے نہ آنے کے) بنجر ہوں (پس عذاب آخرت کہ اشد ہے بدرجہ اولیٰ نہ ہوتا، اس لئے رسولوں کو بھیجتے ہیں تاکہ ان کو جرائم کی اطلاع ہوجاوے پھر جس کو عذاب ہو استحقاق کی وجہ سے ہو، چناچہ آگے فرماتے ہیں) اور (جب رسول آگئے اور اطلاع ہوگئی پھر جیسا جیسا کوئی کرے گا) ہر ایک کیلئے (جن و انس صالح و طالح میں سے جزاء و سزاء کے ویسے ہی) درجے ملیں گے ان کے اعمال کے سبب اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ان کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے۔- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں لفظ نُوَلِّيْ کے عربی لغت کے اعتبار سے دو ترجمے ہو سکتے ہیں، ایک ملا دینے اور قریب کردینے کے اور دوسرے مسلط کردینے کے، ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے بھی دونوں طرح کی روایات میں اس کی تفسیر منقول ہے۔- محشر میں لوگوں کی جماعتیں اعمال و اخلاق کی بنیاد پر ہوں گی، دنیوی تعلقات کی بنیاد پر نہیں - حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ اور قتادہ رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے پہلا ترجمہ اختیار کرکے آیت کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے یہاں اجتماعی و حدتیں یعنی لوگوں کی جماعتیں اور پارٹیاں نسلی یا وطنی یا رنگ و زبان کی بناء پر نہیں بلکہ اعمال و اخلاق کے اعتبار سے ہوں گی، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار مسلمان جہاں کہیں ہوگا وہ مسلمانوں کا ساتھی ہوگا، اور نافرمان کافر جہاں کہیں ہوگا وہ کافروں کا ساتھی ہوگا، خواہ ان کی نسل اور نسب میں، وطن اور زبان میں، رنگ اور معاشرت میں کتنا ہی بعد اور اختلاف ہو۔ - پھر مسلمانوں میں بھی نیک، دیندار، دینداروں کے ساتھ ہوگا، اور گناہگار، بدکردار، بدکرداروں کے ساتھ لگا دیا جائے گا۔ سورة کورت میں جو ارشاد ہے (آیت) واذا النفوس زوجت، یعنی لوگوں کے جوڑ اور جماعتیں بنادی جائیں گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال و اخلاق کے اعتبار سے اہل محشر مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔- حضرت فاروق اعظم (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ” ایک قسم کے اعمال نیک یا بد کرنے والے ایک ساتھ کردیئے جائیں گے، نیک آدمی نیکوں کے ساتھ جنت میں، اور بد کردار کو دوسرے بدکرداروں کے ساتھ جہنم میں پہنچا دیا جائے گا “۔ اور اس مضمون کی توثیق کے لئے فاروق اعظم (رض) نے قرآن کریم کی ( آیت) احشروا الذین ظلموا وازواجھم سے استدلال فرمایا، جس کا مضمون یہی ہے کہ قیامت کے دن حکم ہوگا کہ ظالموں کو اور ان کے مناسب عمل کرنے والوں کو جہنم میں لے جاؤ۔- خلاصہ مضمون آیت مذکورہ کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں کا ساتھی بنا کر ایک جماعت کردیں گے، اگرچہ نسلی اور وطنی اعتبار سے ان میں کتنی بھی دوری ہو۔ - اور ایک دوسری آیت میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان فرما دی ہے کہ محشر میں یہ دنیوی اور رسمی تضاد جو آج لوگوں میں نسل، وطن، رنگ، زبان وغیرہ کی بنیادوں پر قائم ہیں، یہ سب یکسر ٹوٹ جائیں گے، (آیت) ویوم تقوم الشاعة، یعنی جب قیامت قائم ہوگی تو جو لوگ آپس میں متحد اور متفق ہیں وہ متفرق ہوجائیں گے۔- دنیا میں بھی اعمال و اخلاق کا اجتماعی معاملات میں اثر - اور یہ موجودہ رشتوں، ناطوں اور رسمی تنظیموں کا کٹ جانا روز قیامت میں تو واضح اور مکمل طور پر سب کے سامنے آہی جائے گا، مگر دنیا میں بھی اس کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ نیک آدمی کو نیکوں سے مناسبت ہوتی ہے، انہی کی جماعت اور سوسائٹی سے وابستہ ہوتا ہے، اور اس طرح نیک کاموں میں اس کے لئے راستے کھلتے نظر آتے ہیں، اور ارادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے، اسی طرح بدکردار کو اپنے ہی جیسے بدکرداروں سے تعلق اور انس ہوتا ہے وہ انھیں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، اور ان کی صحبت سے اس کی بدعملی و بدخلقی میں روز نیا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نیکی کے راستے اس کے سامنے سے بند ہوتے جاتے ہیں، یہ اس کے برے عمل کی نقد سزا اسی دنیا میں ملتی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ نیک و بد اعمال کی ایک جزاء سزاء تو آخرت میں ملے گی اور ایک جزاء سزا نقد اسی دنیا میں اس طرح مل جاتی ہے کہ نیک آدمی کو رفقاء کار بھی نیک اور دیانتدار نصیب ہوجاتے ہیں جو اس کے کام کو چار چاند لگا دیتے ہیں، اور برے اور بدنیت آدمی کو اعضاء وجوارح اور رفقاء کار بھی اسی جیسے ملتے ہیں جو اس کو اور بھی زیادہ گہرے غار میں دھکیل دیتے ہیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بادشاہ اور حاکم سے راضی ہوتے ہیں تو اس کو اچھے وزیر اور اچھا عملہ دیدیتے ہیں جس سے اس کی حکومت کے سب کاروبار درست اور ترقی پذیر ہوجاتے ہیں، اور جب کسی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو اس کو عملہ اور رفقاء کار برے ملتے ہیں، برے افسروں سے پالا پڑتا ہے، وہ اگر کوئی اچھا کام کرنے کا ارادہ بھی کرتا ہے تو اس پر قابو نہیں پاتا۔- ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ہاتھ سے سزا ملتی ہے - آیت مذکورہ کا یہ مفہوم ترجمہ کے اعتبار سے ہے، اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) ، عبداللہ بن زبیر (رض)، ابن زید (رض) مالک بن دینار وغیرہ سے اس آیت کی تفسیر دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے یہ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں پر مسلط کردیتا ہے، اور اس طرح ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ہاتھ سے سزا دلوا دیتا ہے۔- یہ مضمون بھی اپنی جگہ صحیح و درست اور قرآن و حدیث کے دوسرے ارشادات کے مطابق ہے، ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کما تکونون کذلک یؤ مر علیکم، یعنی جیسے تم ہوگے ویسے ہی حکام تم پر مسلط ہوں گے، تم ظالم و بدکار ہو گے تو تمہارے حاکم بھی ظالم و بدکار ہی ہوں گے اور تم نیک عمل و نیک کردار ہوگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے حکام نیک اور رحم دل منصف مزاج لوگوں کو بنادیں گے۔- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کا بھلا چاہتے ہیں تو ان پر بہترین حکام و امرا کا تسلط فرماتے ہیں، اور جب کسی قوم کا برا چاہتے ہیں تو ان پر بدترین حکام و سلاطین کو مسلط کردیتے ہیں (تفسیر بحر محیط) ۔- تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فقہاء نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ جب رعیت اور عوام اللہ تعالیٰ سے منحرف ہو کر ظلم و جور میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ظالم حکام مسلط کرکے ان کے ہاتھوں ان کو سزا دلواتے ہیں۔- اور ابن کثیر رحمة اللہ نے بروایت عبداللہ بن مسعود (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ من اعان ظالما سلطہ اللّٰہ علیہ، ” یعنی جو شخص کسی ظالم کے ظلم میں اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس کے ستانے کے لئے اس پر مسلط کردیتے ہیں، اور اسی کے ہاتھ سے اس کو سزا دلواتے ہیں “۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِـمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ١٢٩ ۧ- نولی - ۔ مضارع جمع متکلم۔ تولیۃ ( تفعیل) ہم حاکم بنا دیتے ہیں۔ ہم مسلط کردیتے ہیں۔ باہم دوست بنا دیتے ہیں۔- صاحب مدارک نے نولی بعض الظلمین بعضا کی تشریح تین طرح کی ہے :۔- (1) ایک کو دوسرے کے پیچھے دوزخ میں داخل کرنا۔ اس وقت نولی کا ماخذ موالاۃ ہوگا۔ کسی کام کا پیہم پے در پے کرنا۔- (2) ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر مسلط کرنا۔ اس وقت نولی کا ماخذ ولایۃ ہوگا۔ حکومت۔ غلبہ۔ تسلط۔ یہ قول عام اہل تفسیر کا ہے۔- (3) ایک کو دوسرے کا درست اور مددگار بنا دینا۔ اس وقت نولی کا ماخذ ولایۃ ہوگا۔ دوستی۔ مدد۔ قتادہ کا یہی قول ہے۔ ابن کثیر نے بھی یہی مطلب لیا ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٩) اور اسی طرح ہم مشرکین کو دنیا وآخرت میں بعض کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے افعال واقول شرکیہ کی وجہ سے یا یہ کہ مشرکوں میں سے ایک کو ایک پر غلبہ دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :97 یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہ سمیٹنے اور برائیوں کا اکتساب کرنے میں ایک دوسرے کے شریک تھے اسی طرح آخرت کی سزا پانے میں بھی وہ ایک دوسرے کے شریک حال ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: یعنی جس طرح ان کافروں پران کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شیاطین کو مسلط کردیا گیا جو انہیں بہکاتے رہے، اسی طرح ہم ظالموں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر دوسرے ظالموں کو مسلط کردیتے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی ملک کے لوگ بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ہیں توان پر ظالم حکمران مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم کے ظلم میں اس کی مدد کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ خود اسی ظالم کو مدد کرنے والے پر مسلط کردیتا ہے۔ (ابن کثیر) اس آیت کا ایک اور ترجمہ بھی ممکن ہے، اور وہ یہ کہ : ’’اسی طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنادیں گے۔‘‘ اُس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ شیاطین بھی ظالم تھے، اور ان کے پیچھے چلنے والے بھی۔ چنانچہ آخرت میں بھی ہم ان کو ایک دوسرے کا ساتھی بنادیں گے۔ بہت سے مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔