جن اور انسان اور پاداش عمل یہ اور سرزنش اور ڈانت ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں کو ہو گی ان سے سوال ہو گا کہ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے ۔ یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا ۔ ائمہ سلف خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے ۔ بدی سے روکتے تھے لیکن رسول صرف انسانوں میں سے ہی آتے رہے ۔ ضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے کہ جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسی ہی ہے جیسے آیت ( مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ) 55 ۔ الرحمن:19 ) سے ( يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ) 55 ۔ الرحمن:22 ) تک کی آیتیں صاف ظاہر ہے کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں ۔ میٹھے پانی سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے اس طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل آیت ( اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣ۚ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۭ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ١٦٤ۚ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ) 4 ۔ النسآء:163 ) اور ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:26 ) پس ثابت ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا انحصار آپ ہی کی اولاد میں ہو رہا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں کہ آپ سے پہلے نبی ہوتے تھے اور پھر ان میں سے نبوت جھین لی گئی اور آیت اس سے بھی صاف ہے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں آتے جاتے تھے اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے فرماتا ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ) 12 ۔ یوسف:109 ) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا ہے جو شہروں کے ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی نازل فرمائی تھی ۔ چنانچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہے آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:29 ) جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف پھیرا جو قرآن سنتے رہے جب سن چکے تو واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے موسیٰ کے بعد کی نازل شدہ کتاب سنی جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہ حق دکھاتی ہے اور صراط مستقیم کی رہبری کرتی ہے ، پس تم سب اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی مانو اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں المناک عذابوں سے بچائے اللہ کی طرف سے جو پکارنے والا ہے اس کی نہ ماننے والے اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے نہ اس کے سوا اپنا کوئی اور کار ساز اور والی پا سکتے ہیں بلکہ ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔ ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ اس موقعہ پر جنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمن پڑھ کر سنائی تھی جس میں ایک آیت ( سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ ) 55 ۔ الرحمن:31 ) ہے یعنی اے جنو انسانوں ہم صرف تمہاری ہی طرف تمام تر توجہ کرنے کیلئے عنقریب فارغ ہوں گے ۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کو جھٹلا رہے ہو؟ الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کر لیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں ۔ نبیوں کا کام یہی رہا کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں ۔ اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے تیرے رسول ہمارے پاس آئے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے بھی متنبہ کر دیا تھا ۔ پھر جناب باری فرماتا ہے انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گذاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے ۔ معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہے گئے ۔ شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم
130۔ 1 رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم (علیہ السلام) کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 130۔ 2 میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الا نعام، 123) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔
[١٣٨] سلسلہ نبوت اب صرف انسانوں میں ہے :۔ انسان سے پہلے اس زمین پر جن ہی آباد تھے اور قرین قیاس یہی بات ہے کہ ان میں بھی رسول آتے ہوں گے۔ لیکن انسان کے زمین پر آباد ہونے کے بعد سلسلہ نبوت انسانوں سے ہی مختص ہوگیا۔ جو رسول انسانوں کے لیے ہوتا وہ جنوں کے لیے بھی ہوتا۔ انسانوں میں رسول آنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے جن نہیں۔ اور جن رسول سے استفادہ کرسکتے ہیں کیونکہ رسول بشر ہوتا ہے جو اپنی شکل بدل نہیں سکتا۔ لیکن اگر رسول جنوں میں سے ہوتے تو ان سے انسان استفادہ بھی نہ کرسکتا تھا۔ چناچہ رسول اللہ کا جنوں کے لیے بھی رسول ہونا قرآن میں دو مقامات سے ثابت ہے۔ سورة احقاف میں بھی ذکر آیا ہے اور سورة جن میں بھی۔
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ :” تم میں سے رسول “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول جن و انس میں سے انسان ہی ہوئے ہیں۔ افضل مخلوق فرشتے یا انسان ہیں۔ دیکھیے سورة یوسف (١٠٩) اور سورة فرقان (٢٠) جنوں کا نبی ہونا ثابت نہیں، علمائے سلف و خلف کی اکثریت کا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا، البتہ ان میں سے کئی منذرین گزرے ہیں، یعنی اپنی قوم کو خبردار کرنے والے، جو انسانوں کی طرف آنے والے رسولوں پر ایمان لاکر اپنی قوم کو پیغام پہنچاتے تھے۔ دیکھیے سورة احقاف (٢٩ تا ٣٢) اور سورة جن۔ دونوں میں جنوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اقرار کیا ہے اور اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے، بلکہ سورة احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے تھے۔ - اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْن : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے، پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔ (موضح) دیکھیے سورة انعام (٢٣ اور ٢٧ تا ٣٠) ، سورة حٰم السجدۃ (٢٠، ٢١) اور سورة یٰسٓ (٦٥) ۔
دوسری آیت میں ایک سوال و جواب کا ذکر ہے جو محشر میں جنات اور انسانوں کو مخاطب کرکے کیا جائے گا، کہ تم جو کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا ہوئے اس کا کیا سبب ہے ؟ کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں پہنچے جو تمہاری قوم میں سے تھے، جو میری آیات تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور آج کے دن کی حاضری اور حساب سے ڈراتے تھے ؟ اس کے جواب میں ان سب کی طرف سے رسولوں کے آنے اور پیغام حق سنانے کا اور اس کے باوجود کفر و نافرمانی میں مبتلا ہونے کا اقرار ذکر کیا گیا ہے، اور ان کی طرف سے کوئی وجہ اور سبب اس غلط کاری کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ حق تعالیٰ نے ہی اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ (آیت) وَغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا یعنی ان لوگوں کو دنیا کی زندگی اور لذتوں نے دھوکہ میں ڈال دیا، کہ وہ اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے جو درحقیقت کچھ نہ تھا، اور انجام و عاقیت سے غافل ہوگئے، بقول اکبر مرحوم - تھی فقط غفلت ہی غفلت، عیش کا دن کچھ نہ تھا - ہم اسے سب کچھ سمجھتے تھے وہ لیکن کچھ نہ تھا - اس آیت میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ بعض دوسری آیات میں تو یہ مذکور ہے کہ مشرکین سے جب محشر میں ان کے کفر و شرک کے متعلق سوال ہوگا تو وہ اپنے جرم سے مکر جائیں گے، اور رب الارباب کے دربار میں قسم کھا کر یہ جھوٹ بولیں گے کہ (آیت) واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین، ” یعنی قسم ہے ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ کی ہم مشرک ہرگز نہ تھے “۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کفر و شرک کا ندامت کے ساتھ اقرار کرلیں گے، ان دونوں میں بظاہر تعارض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے، مگر دوسری آیات میں اس کی تشریح و توضیح اس طرح موجود ہے کہ ابتداء میں جب ان سے سوال ہوگا تو مکر جائیں گے، مگر اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زبانیں بند کردیں گے، ہاتھوں، پیروں اور دوسرے اعضاء سے گواہی لیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے ان کو گویائی عطا ہوگی، اور وہ صاف صاف اس کے اعمال کا کچا چٹھا بیان کر دینگے اور اس وقت جن و انس کو یہ معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں اور کان اور زبان سب قدرت کے کارخانہ کی خفیہ پولیس کے افراد تھے۔ جنہوں نے سارے معاملات اور حالات کی سچی اور صحیح شہادت دیدی، تو اب ان کو انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی، اس وقت یہ سب لوگ صاف صاف اعتراف جرم کرلیں گے۔- کیا جنّات میں بھی رسول ہوتے ہیں - دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے جنّات اور انسانوں کی دونوں جماعتوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ کیا ہمارے رسول تمہارے پاس نہیں پہنچے جو تمہاری ہی قوم سے تھے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح انسانوں کے رسول انسان اور بشر بھیجے گئے ہیں اسی طرح جنّات کے رسول جنّات کی قوم سے بھیجے گئے ہیں۔- اس مسئلہ میں علماء تفسیر و حدیث کے اقوال مختلف ہیں بعض کا کہنا یہ ہے کہ رسول اور نبی صرف انسان ہی ہوئے اور ہوتے چلے آئے ہیں، جنّات کی قوم میں سے کوئی شخص رسول بلا واسطہ نہیں ہوا، بلکہ ایسا ہوا ہے کہ انسانی رسول اور پیغمبر کا کلام اپنی قوم کو پہنچانے کے لئے جنّات کی قوم میں کچھ لوگ ہوئے ہیں جو درحقیقت رسولوں کے قاصد اور پیغمبر ہوتے تھے، مجازی طور پر ان کو بھی رسول کہہ دیا جاتا ہے، ان حضرات کا استدلال قرآن مجید کی ان آیات سے ہے جن میں جنّات کے ایسے اقوال مذکور ہیں کہ انہوں نے نبی کا کلام یا قرآن سن کر اپنی قوم کو پہنچایا، (آیت) مثلاً ولوا الی قومھم منذرین، اور سورة جن کی (آیت) فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا یھدی الی الرشد فامنا بہ، وغیرہ۔ لیکن ایک جماعت علماء اس آیت کے ظاہری معنی کے اعتبار سے اس کی بھی قائل ہیں کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہر گروہ کے رسول اسی گروہ میں سے ہوتے تھے، انسانوں کے مختلف طبقات میں انسانی رسول آتے تھے، اور جنّات کے مختلف طبقات میں جنّات ہی میں سے رسول ہوتے تھے، حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے عالم کے انسانوں اور جنّات کا واحد رسول بنا کر بھیجا گیا اور وہ بھی کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں، بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سب کے رسول و پیغمبر ہیں۔- ہندوؤں کے اوتار بھی عموماً جنّات ہیں، ان میں کسی رسول و نبی ہونے کا احتمال۔- ائمہ تفسیر میں سے کلبی رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے اسی قوم کو اختیار کیا ہے، اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اسی قول کو اختیار فرماتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے جنّات کے رسول جنّات ہی کی قوم میں سے ہوتے تھے، اور جبکہ یہ ثابت ہے کہ زمین پر انسانوں سے ہزاروں سال پہلے سے جنات آباد تھے اور وہ بھی انسانوں کی طرح احکام شرع کے مکلف ہیں، تو ازروئے عقل و شرع ضروری ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے والے رسول و پیغمبر ہوں۔- حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہندوستان کے ہندو جو اپنی وید کی تاریخ ہزارہا سال پہلے کی بتلاتے ہیں اور اپنے مقداء و بزرگ جن کو وہ اوتار کہتے ہیں اسی زمانہ کے لوگوں کو بتاتے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ وہ یہی جنّات کے رسول و پیغمبر ہوں اور انہی کی لائی ہوئی ہدایات کسی کتاب کی صورت میں جمع کی گئی ہوں، ہندوؤں کے اوتاروں کی جو تصویریں اور مورتیاں مندروں میں رکھی جاتی ہیں وہ بھی اسی انداز کی ہیں، کہ کسی کے کئی چہرے ہیں، کسی کے بہت سے ہاتھ پاؤں ہیں، کسی کے ہاتھی کی طرح سونڈ ہے، جو عام انسانی شکلوں سے بہت مختلف ہیں، اور جنّات کا ایسی شکلوں میں متشکل ہونا کچھ مستبعد نہیں، اس لئے کچھ بعید نہیں کہ ان کے اوتار جنّات کی قوم میں آئے ہوئے رسول یا ان کے نائب ہوں اور ان کی کتاب بھی ان کی ہدایت کا مجموعہ ہو، پھر رفتہ رفتہ جیسے دوسری کتابوں میں تحریف ہوگئی، اس میں بھی تحریف کرکے شرک و بت پرستی داخل کردی گئی۔ - اور بہر حال اگر وہ اصل کتاب اور رسل جن کی صحیح ہدایات بھی موجود ہوتیں تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور رسالت عامہ کے بعد وہ بھی منسوخ اور ناقابل عمل ہی ہوجائیں اور مسخ و محرف ہونے کے بعد تو اس کا ناقابل عمل ہونا خود ہی واضح ہے۔
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ٠ ۭ قَالُوْا شَہِدْنَا عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ ١٣٠- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(١٣٠) تم لوگوں کے پاس کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام نہیں آئے اور جنات کے پاس بالخصوص وہ نو حضرات نہیں آئے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور پھر اپنی قوم کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لیے گئے تھے اور بھی کہا گیا کہ جنات کی طرف بھی ایک نبی یوسف (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے تھے جو تمہیں پڑھ کر میرے اوامرو نواہی سناتے تھے اور اس دن کے عذاب سے تمہیں ڈراتے تھے، جن وانس جواب دیں گے، بیشک ان حضرات نے آپ کے احکامات ہم تک پوری طرح پہنچا دیئے تھے مگر ہم نے ان کا انکار کیا اور ان منکرین حق کو دنیاوی سازوسامان نے دھوکا میں ڈال رکھا ہے اور یہ لوگ آخرت میں اللہ کا عذاب سہیں گے کہ دنیا میں وہ کافر تھے ،
آیت ١٣٠ (یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ ) - اب چونکہ یہ بات جن و انس دونوں کو جمع کر کے کہی جا رہی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو انسانوں میں سے رسول ہیں وہی جنات کے لیے بھی رسول ہیں۔- (وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَاط قالُوْا شَہِدْنَا عَآٰی اَنْفُسِنَا) - یہاں پر علٰی کے معنی مخالف گواہی کے ہیں۔ یعنی ہم اپنی جانوں کے خلاف خود گواہ ہیں۔- (وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُوْا عَآٰی اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ ۔ ) ۔- قرآن مجید میں میدان حشر کے جو مکالمات آئے ہیں وہ مختلف آیات میں مختلف قسم کے ہیں۔ مثلاً یہاں تو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ بیشک ہم کفر کرتے رہے ہیں۔ مگر اسی سورة میں پیچھے ہم نے پڑھا ہے : (ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ الاّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ) اس وقت ان کی کوئی چال نہیں چل سکے گی سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو مشرک نہیں تھے۔ چناچہ معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں بہت سے مراحل ہوں گے اور بیشمار گروہ مواخذے کے لیے پیش ہوں گے۔ یہ مختلف مراحل میں ‘ مختلف مواقع پر ‘ مختلف جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ ہونے والے مختلف مکالمات نقل ہوئے ہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :98 یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے رسول پر رسول آتے اور ہمیں حقیقت سے خبردار کرتے رہے ، مگر یہ ہمارا اپنا قصور تھا کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :99 یعنی بے خبر اور ناواقف نہ تھے بلکہ کافر تھے ۔ وہ خود تسلیم کریں گے کہ حق ہم تک پہنچا تھا مگر ہم نے خود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔
60: اِنسانوں میں تو پیغمبروں کا تشریف لانا واضح ہے۔ اس آیت کی وجہ سے بعض علما کا کہنا ہے کہ جنات میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبر آتے رہے ہیں۔ اور دوسرے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ باقاعدہ پیغمبر توجنات میں نہیں آئے، لیکن اِنسانوں میں جو پیغمبر بھیجے گئے، وہی جنات کو تبلیغ کرتے تھے، اور جو جنات مسلمان ہوجاتے وہ پھر انبیائے کرام کے نمائندے بن کر دوسرے جنات کو تبلیغ کرتے تھے، جیسا کہ سورہ جن میں تفصیل سے مذکور ہے۔ آیت کی رو سے دونوں احتمال ممکن ہیں، کیونکہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ اِنسانوں اور جنات دونوں کو تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا تھا اور وہ دونوں طرح ممکن ہے۔ 61: پیچھے آیت نمبر ۲۳ میں گذرا ہے کہ وہ شروع میں جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے، لیکن جب خود ان کے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دے دیں گے تو وہ بھی سچ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تفصیل کے لئے آیت ۲۳ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔