حجت تمام جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر ، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دیئے اس لئے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے ، فرماتا ہے آیت ( وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ ) 35 ۔ فاطر:24 ) یعنی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو اور آیت میں ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو اور جگہ ہے ہم رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کیا کرتے ۔ سورۃ تبارک میں ہے جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آ گاہ کرنے والے نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے آئے تھے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے ، ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے ۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا ۔ خواہ انسان ہو خواہ جن ہو ۔ بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے ۔
131۔ 1 یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورة فاطر آیت، 42۔ سورة نحل 62، سورة بنی اسرائیل 15 اور سورة ملک 8، 9 وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔
[١٣٩] اللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ لوگوں کو ان کے گناہوں کے انجام سے خبردار کیے بغیر انہیں اس دنیا میں تباہ کر ڈالے یا آخرت میں عذاب دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بیشمار انبیاء لوگوں کی ہدایت اور انہیں ڈرانے کے لیے بھیجے اور قرآن میں ایک جگہ فرمایا (وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ) 35 ۔ فاطر :24) یعنی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی ڈرانے والا نہ بھیجا گیا ہو۔ اور یہ ڈرانے والے جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہوتے تھے۔ پھر جس جس نے ان انبیاء کی دعوت پر لبیک کہا اور اعمال صالحہ بجا لایا۔ تو ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق درجات عطا ہوں گے۔
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ : یعنی ان کے پاس کوئی پیغمبر یا اس کا نائب نہ پہنچا ہو اور اس نے انھیں حقیقت حال سے آگاہ نہ کردیا ہو۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٥) ۔
تیسری آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسانوں اور جنّات میں رسول بھیجنا اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ کسی قوم پر ویسے ہی عذاب نہیں بھیج دیتے جب تک کہ ان کو پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ بیدار نہ کردیا جائے اور ہدایت کی روشنی ان کے لئے نہ بھیج دی جائے۔
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ ١٣١- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
(١٣١) اور یہ رسولوں کے بھیجنے کا سلسلہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا پروردگار کسی بستی والوں کو شرک و گناہ اور ظلم کی بنا پر اس حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ وہ اوامرو نواہی اور تبلیغ رسل سے بیخبر ہوں۔
آیت ١٣١ (ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ ) - اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور انہوں نے اپنی قوموں میں رہ کر انذار ‘ تذکیر اور تبشیر کا فرض ادا کردیا۔ پھر بھی اگر اس قوم نے قبول حق سے انکار کیا تو تب ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ ایسا نہیں ہو تاکہ اچانک کسی بستی یا قوم پر عذاب ٹوٹ پڑا ہو ‘ بلکہ اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں یہ قاعدہ ‘ کلیہ اس طرح بیان فرمایا ہے : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) یعنی وہ عذا بِ استیصال جس سے کسی قوم کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر کے نسیاً منسیا کردیا جاتا ہے ‘ وہ کسی رسول کی بعثت کے بغیر نہیں بھیجا جاتا ‘ بلکہ رسول آکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا بالکل مبرہن کردیتا ہے۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ کفر پر اڑے رہتے ہیں ان کو پھر تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :100 یعنی اللہ اپنے بندوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ اس کے مقابلے میں یہ احتجاج کرسکیں کہ آپ نے ہمیں حقیقت سے تو آگاہ کیا نہیں ، اور نہ ہم کو صحیح راستہ بتانے کا کوئی انتظام فرمایا ، مگر جب ناواقفیت کی بنا پر ہم غلط راہ پر چل پڑے تو اب آپ ہمیں پکڑتے ہیں ۔ اس حجت کو قطع کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں تاکہ جن و انس کو صاف صاف خبردار کر دیا جائے ۔ اب اگر لوگ غلط راستوں پر چلتے ہیں اور اللہ ان کو سزا دیتا ہے تو اس کا الزام خود ان پر ہے نہ کہ اللہ پر ۔
62: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان بستی والوں کی کسی زیادتی کی وجہ سے ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کو اس وقت تک گوارا نہیں تھا جب تک انہیں انبیائے کرام کے ذریعے متوجہ نہ کردیا جائے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ زیادتی نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے سے متوجہ کیے بغیر لوگوں کو ہلاک کردے۔