ہدعت کا آغاز مشرکین کی ایک نو ایجاد ( بدعت ) جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر یہ اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام کا ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک بنائے ہوئے ہیں ، اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا تو وہ تو بتوں کا ہو گیا لیکن اگر بتوں کے لئے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ کے نام والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے تھے ۔ کوئی ذبیحہ اپنے معبودوں کے نام کا کریں تو بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ کیسی بری تقسیم کرتے ہیں ۔ اولاً تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی کی ملکیت پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون؟ جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد؟ پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں سے تو بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بد ترین اصول ہیں ۔ ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی کہ اللہ کے لئے لڑکیاں اور اپنے لئے لڑکے تو تمہارے ہوں اور جن لڑکیوں سے تم بیزار وہ اللہ کی ہوں ۔ کیسی بری تقسیم ہے ۔
136۔ 1 اس آیت میں مشرکوں کے عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا اور وہ زمینی پیداوار اور مال مویشی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کرلیتے اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقرا اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقرر حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکال کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہو تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ 136۔ 2 یعنی اللہ کے حصہ کی کمی کی صورت میں بتوں کی مقررہ حصے میں سے صدقات و خیرات نہ کرتے۔ 136۔ 3 ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو وہ اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
[١٤٣] صدقہ و خیرات میں مشرکوں کی ناانصافیاں :۔ مشرکین نے صدقہ و خیرات کرتے وقت اللہ کا حصہ الگ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے بتوں یا دیوی دیوتاؤں کا الگ۔ ان کا پہلا ظلم تو یہ تھا کہ اس بات کے اعتراف کے باوجود کہ ان کی کھیتی اور مویشیوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کا بھی حصہ مقرر کردیا۔ اور دوسرا ظلم یہ تھا کہ وہ اپنے وہم و گمان کی بنا پر اپنے شارع خود ہی بن بیٹھے تھے اور ان کا زعم باطل یہ تھا کہ ہم اللہ کا حصہ تو اس لیے نکالتے ہیں کہ ہماری کھیتی اور مویشیوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور دوسرے معبودوں یعنی دیوی دیوتاؤں، فرشتوں، ستاروں کی ارواح اور پہلے بزرگوں کی روحوں کا حصہ اس لیے نکالتے ہیں کہ جو کچھ انہیں مل رہا ہے انہی کی نظر کرم کی وجہ سے مل رہا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر ان کا حصہ نکالتے تھے اور یہی چیز اصل شرک ہے۔ اس شکل میں اگر اللہ کے نام پر کچھ دیا بھی جائے تو قطعاً اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بےنیاز ہوں۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس نے میرے ساتھ غیر کو حصہ دار بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب تحریم الربا۔ بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ تعالیٰ لا یسئلون الناس الحافا)- [١٤٤] تیسرا ظلم وہ مشرک یہ کرتے تھے کہ اگر معبودوں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع ہوجاتی، فصل کم پیدا ہوتی یا طوفان سے تباہ ہوجاتی تو یہ کمی اللہ کے حصہ سے پوری کردیا کرتے تھے اور اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوتی تو اسے معبودوں کے حصہ سے پورا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اللہ کا حصہ کتنا مقرر کر رکھا تھا اور اپنے معبودوں کا کتنا ؟ یہ تفصیل کہیں نہیں ملتی۔ یہ بس ان کی اپنی ہی قیاس آرائیوں کے مطابق طے کیا گیا تھا۔ اللہ کا حصہ تو وہ فقیروں یتیموں وغیرہ میں تقسیم کردیتے اور معبودوں کا حصہ مندروں کے پجاریوں یا سرپرستوں کو۔ اور بتوں کے سامنے جو نذر و نیاز رکھی جاتی وہ بھی بالواسطہ ان پجاریوں کو ہی پہنچ جاتی تھی۔ ان مہنتوں اور پجاریوں نے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مشرکین کو یہ پٹی پڑھائی تھی کہ اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوجائے تو کوئی پروا نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے وہ اپنے خزانوں سے یہ کمی پوری کرسکتا ہے، مگر ان دیوی دیوتاؤں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع نہ ہونی چاہیے گویا اس مشرکانہ رسم میں وہ لوگ تین طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ (١) مالی عبادت میں اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک بنانا (٢) اللہ کا الگ اور معبودوں کا الگ حصہ مقرر کرنا۔ اس بات میں پروہتوں کا یہ شرک تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو شارع کی حیثیت دے رکھی تھی اور عام لوگوں کا شرک یہ تھا کہ وہ ان کی اس بات کو مذہبی طور پر تسلیم کرتے تھے۔ (٣) اس تقسیم میں بھی اللہ کے حق میں ناانصافی کرتے تھے اور اس جرم میں پروہت اور عام مشرک سب شریک تھے۔
وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ : قیامت اور جزا و سزا کے متعلق ان کے خیالات کی تردید کے بعد یہاں سے ان کی دوسری اعتقادی اور عملی حماقتوں اور جہالتوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جو مدت سے چلی آئی تھیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب تم عربوں کی جہالت معلوم کرنا چاہو تو سورة انعام کی آیت (١٣٠) سے لے کر (قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا) یعنی آیت (١٤٠) تک پڑھ لو۔ [ بخاری، المناقب، باب قصۃ زمزم و جہل العرب : ٣٥٢٤ ] ان میں سے پہلی جہالت یہ تھی کہ اپنی کھیتی اور چوپاؤں میں سے ایک حصہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے، یعنی مہمان نوازی، صلہ رحمی اور اللہ کو خوش کرنے والے کاموں کے لیے مقرر کیا ہوا تھا اور ایک حصہ اپنے داتاؤں، مشکل کشاؤں، ان کی شکل پر بنائے ہوئے بتوں، ان کے پروہتوں اور کاہنوں کے لیے۔ اگر کسی وجہ سے بتوں اور کاہنوں کا حصہ کم پڑجاتا تو اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے لے کر اس میں ڈال دیتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے، اس کو زیادہ مال کی کیا ضرورت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ کم پڑجاتا تو اس میں بتوں کے حصے میں سے کچھ نہ ڈالتے۔ اب بتائیے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں شریک بنانا کون سی کم جہالت تھی کہ اس سے بڑھ کر ان شرکاء کو خوش کرنے کے لیے کھیتی اور چوپاؤں کے حصے میں ان کو اللہ پر ترجیح دینے کی جہالت اختیار کرتے یہ اسی طرح ہے جیسے آج کل بعض مسلمان اللہ کا فرض زکوٰۃ اور عشر نہیں نکالیں گے، مگر اپنے فوت شدہ داتاؤں اور غریب نوازوں کی نیاز میں کبھی ناغہ نہیں آنے دیں گے اور عقیدہ یہ رکھیں گے کہ اگر اس میں کمی ہوگئی تو جانوروں کے تھنوں میں سے دودھ کے بجائے خون آئے گا۔ نام اس کا ایصال ثواب رکھیں گے، مگر ایصال ثواب تو اللہ کے نام پر صدقہ کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ بزرگوں کی قبروں پر چڑھاوے چڑھا کر اور اگر اللہ ہی کو خوش کرنا ہو تو غیر اللہ کی نذر و نیاز کے بجائے عشر اور زکوٰۃ نکالیں۔
چوتھی آیت میں مشرکین عرب کی ایک خاص گمراہی اور غلط کاری پر تنبیہ فرمائی گئی ہے، عرب کی عادت یہ تھی کہ کھیتی اور باغات سے نیز تجارتوں سے جو کچھ پیداوار ہوتی تھی، اس میں سے ایک حصہ اللہ کے لئے اور ایک حصہ اپنے بتوں کے لئے نکالا کرتے تھے، اللہ کے نام کا حصہ غرباء و فقراء و مساکین پر خرچ کرتے اور بتوں کے نام کا حصہ بت خانہ کے پجاریوں اور نگہبانوں پر صرف کیا کرتے تھے۔- اول تو یہی ظلم کم نہ تھا کہ ساری چیزیں پیدا تو خدا تعالیٰ نے فرمائی اور ہر چیز کی پیداوار اس نے عطا فرمائیں، پھر اس کی دی ہوئی چیزوں میں بتوں کو شریک کردیا، اس پر مزید ستم برستم یہ تھا کہ اگر کبھی پیداوار میں کچھ کمی آجائے تو اس کمی کو اللہ کے حصہ پر یہ کہہ کر ڈال دیتے کہ اللہ تعالیٰ تو مستغنی ہے وہ ہماری چیزوں کا محتاج نہیں، اور بتوں کا حصہ بھی پورا کرلیتے، اور خود اپنے استعمال کا حصہ بھی، اور کبھی ایسا ہوتا کہ بتوں کے حصہ میں سے یا اپنے حصہ میں سے کوئی چیز اللہ کے حصہ میں پڑجاتی تو اس کو حساب کرنے کے لئے اس میں سے نکال لیتے تھے اور اگر کبھی معاملہ برعکس ہوجائے کہ اللہ کے حصہ میں کوئی چیز اپنے حصہ یا بتوں کے حصہ میں پڑجائے تو اس کو وہیں رہنے دیتے اور یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کے حصہ میں سے کچھ کم بھی ہوجائے تو حرج نہیں قرآن کریم نے ان کی اس گمراہی اور غلط کاری کو ذکر کرکے فرمایا (آیت) سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ، یعنی ان لوگوں کا یہ فیصلہ کس قدر برا اور بھونڈا ہے کہ جس نے ان کو اور ان کی ساری چیزوں کو پیدا کیا، اول تو اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کردیا، پھر اس کے حصہ کو بھی دوسری طرف مختلف بہانوں سے منتقل کردیا۔ - کافروں کی اس تنبیہ میں مسلمانوں کے لئے عبرت - یہ تو مشرکین عرب کی ایک گمراہی اور غلط روش پر تنبیہ کی گئی ہے، اس کے ساتھ اس کے ضمن میں ان مسلمانوں کے لئے بھی ایک تازیانہ عبرت ہے جو اللہ کی دی ہوئی زندگانی اور اس کے بخشے ہوئے اعضاء وجوارح کی پوری توانائی کو مختلف حصوں میں بانٹتے ہیں، عمر اور وقت کا ایک حصہ اللہ اور اس کی عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں، حالانکہ حق تو اس کا یہ تھا کہ عمر کے سارے اوقات اور لمحات اسی کی عبادت اور اطاعت کے لئے وقف ہوتے، انسانی ضرورتوں اور مجبوریوں کے لئے اس میں سے کوئی وقت اپنے لئے بھی نکال لیتے، اور حق تو یہ ہے کہ پھر بھی اس کا حق شکر ادا نہ ہوتا، مگر یہاں تو حالت ہماری یہ ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے اگر ہم کوئی وقت اللہ کی یاد اور عبادت کے لئے مقرر بھی کرلیتے ہیں تو جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے اس میں نہ اپنے کاروبار میں کوئی حرج ڈالا جاتا ہے، نہ آرام کے اوقات میں، سارا نزلہ اس وقت پر پڑتا ہے جو نماز، تلاوت یا عبادت کے لئے مقرر کیا تھا، کوئی کام پیش آوے، یا بیماری یا کوئی دوسری ضرورت تو سب سے پہلے اس کا اثر اس وقت پر پڑتا ہے جو ہم نے ذکر اللہ یا عبادت کے لئے مخصوص کیا تھا، یہ کیسا غلط اور کتنی ناشکری اور حق تلفی ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو اور سب مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھیں۔
وَجَعَلُوْا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا ٠ ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕہِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللہِ ٠ ۚ وَمَا كَانَ لِلہِ فَہُوَيَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕہِمْ ٠ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ١٣٦- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- حرث - الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] ، - وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ، يتناول الحرثین .- ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - زعم - الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول .- ( ز ع م ) الزعمہ - اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔- شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔
بتوں کے چڑھاوے - قول باری ہے ( وجعلوا للہ مما ذراأ من الحرث والانعام نصیبا فقالو ھذا للہ بذعمھم و ھذا لشرکانئنا۔ ان لوگوں نے اللہ کے لیے خود اسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے۔ بزعم خود اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے) تا آخر آیت۔ حرث کھیتی کو کہتے ہیں اور اس زمین کو جسے زراعت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ گمراہ لوگوں کے ایک ٹولے نے اپنی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اللہ کے لیے اور ایک حصہ اللہ کے شریکوں کے لیے مقرر کرلیا اگر شریکوں کے لیے مقرر کردہ حصے میں سے کچھ اللہ کے لیے مقرر کردہ حصے کے ساتھ مل جاتا تو وہ اسے اپنے شریکوں پر لوٹا دیتے۔ اگر انہیں کبھی قحط کا سامنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کردہ حصے کو اپنے استعمال میں لاتے لیکن شریکوں کے لیے مقرر کردہ حصے کو ہاتھ نہ لگاتے، اسے اسی طرح باقی رہنے دیتے۔ ایک قول یہ ہے کہ اگر بتوں کے لیے مقرر کردہ حصہ ضائع ہوجاتا تو اس کے بدل کے طور پر اللہ کے لیے مقرر کردہ حصہ لے لیتے لیکن اگر اللہ کا حصہ ضائع ہوجاتا تو اس کی جگہ بتوں کا حصہ بدل کے طور پر نہ رکھتے، حسن اور سدی سے یہی روایت ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اللہ کے لیے مرر کردہ حصے میں سے لے کر اپنے بتوں پر خرچ کرتے تھے لیکن بتوں کے لیے مقرر کردہ حصے میں سے اللہ کے لیے خرچ نہ کرتے۔ بتوں کو ان کے شریکوں کے نام سے موسوم کیا گیا اس کی وجہ یہے کہ انہوں نے اپنے اموال کا ایک حصہ بتوں کے نام وقف کردیا تھا یہ حصہ ان بتوں پر صرف ہوتا تھا اس طرح انہوں نے اپنے بتوں کو بھی اپن مال و دولت میں حصہ دار بنا لیا تھا۔
(١٣٦) ان اونٹ گائے اور کھیتی میں سے ان لوگوں نے کچھ حصہ اللہ کے نام کا اور کچھ حصہ اپنے بتوں کے نام کا مقرر کیا ہے، پھر جو چیز ان کئے بتوں کی ہوتی ہے وہ اس حصہ کی طرف نہیں پہنچتی جو ان کے زعم میں اللہ کا ہے اور جو اللہ کا حصہ ہوتا ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتا ہے، اپنے لیے انہوں نے کیا ہی بدترین تجویز نکال رکھی ہے خود فریبی اور دلوں کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے ان کے قول وفعل کا یہ تضاد انہیں اچھا دکھائی دے رہا ہے۔
آیت ١٣٦ (وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا) - ایک بڑے خدا کو مان کر چھوٹے خداؤں کو اس کی الوہیت میں شریک کردینا ہی در اصل شرک ہے۔ اس میں بڑے خدا کا انکار نہیں ہوتا۔ جیسے ہندوؤں میں مہا دیو تو ایک ہی ہے جب کہ چھوٹی سطح پر دیوی دیوتا بیشمار ہیں۔ اسی طرح انگریزی میں بھی بڑے سے لکھے جانے والا ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ وہ ہے ‘ ہے ‘ ہے ‘ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے ‘ وہ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ہے ‘ وہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ اس کی صفات ہیں ‘ یہ اس کے ہیں۔ لہٰذا اس کے لیے تو بڑا ( ) ہی آئے گا ‘ لیکن چھوٹے سے لکھے جانے والے اور بیشمار ہیں۔ اسی طرح اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ اللہ تو ایک ہی ہے ‘ کائنات کا خالق بھی وہی ہے ‘ لیکن یہ جو دیویاں اور دیوتا ہیں ‘ ان کا بھی اس کی خدائی میں کچھ دخل اور اختیار ہے ‘ یہ اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات میں سے کچھ حصہ ان کو بھی سونپ رکھا ہے ‘ لہٰذا اگر ان کی کوئی ڈنڈوت کی جائے ‘ نذرانے دیے جائیں ‘ انہیں خوش کیا جائے ‘ تو اس سے دنیا کے کام چلتے رہتے ہیں۔ - اہل عرب کے معروف ذرائع معاش دو ہی تھے۔ وہ بکریاں پالتے تھے یا کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اپنے عقیدے کے مطابق ان کا طریقہ یہ تھا کہ مویشیوں اور فصل میں سے وہ اللہ کے نام کا ایک حصہ نکال کر صدقہ کرتے تھے جب کہ ایک حصہ الگ نکال کر بتوں کے نام پر دیتے تھے۔ یہاں تک تو وہ اپنے تئیں انصاف سے کام لیتے تھے کہ کھیتیوں کی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے اللہ کے لیے بھی حصہ نکال لیا اور اپنے چھوٹے خداؤں کے لیے بھی۔ اب اس کے بعد کیا تماشا ہوتا تھا وہ آگے دیکھئے :- (فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَآءِنَاج فَمَا کَانَ لِشُرَکَآءِہِمْ فَلاَ یَصِلُ اِلَی اللّٰہِج وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآءِہِمْ ط) - اب اگر کہیں کسی وقت کوئی دقت آگئی ‘ کوئی ضرورت پڑگئی تو اللہ کے حصے میں سے کچھ نکال کر کام چلا لیتے تھے مگر اپنے بتوں کے حصے کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ گویا بت تو ہر وقت ان کے سروں پر کھڑے ہوتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ بت ناراض ہوگئے تو فوراً ان کی شامت آجائے گی ‘ لیکن اللہ تو (معاذ اللہ) ذرا دور تھا ‘ اس لیے اس کے حصے کو اپنے استعمال میں لایا جاسکتا تھا۔ ان کی اس سوچ کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں دیہات میں ایک عام دیہاتی پٹواری کو ڈی سی کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ پٹواری سے اسے براہ راست سابقہ پڑتا ہے ‘ جب کہ ڈی سی کی حیثیت کا اسے کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ بہر حال یہ تھی وہ صورت حال جس میں ان کے شریکوں کے لیے مختص کیا گیا حصہ اللہ کو نہیں پہنچ سکتا تھا ‘ جب کہ اللہ کا حصہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا تھا۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :104 اوپر کا سلسلہ تقریر اس بات پر تمام ہوا تھا کہ اگر یہ لوگ نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی جاہلیت پر اصرار کیے جاتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اچھا ، تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقہ پر عمل کروں گا ، قیامت ایک دن ضرور آنی ہے ، اس وقت تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس روش کا کیا انجام ہوتا ہے ، بہرحال یہ خوب سمجھ لو کہ وہاں ظالموں کو فلاح نصیب نہ ہوگی ۔ اس کے بعد اب اس جاہلیت کی کچھ تشریح کی جاتی ہے جس پر وہ لوگ اصرار کر رہے تھے اور جسے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے ۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ تمہارا وہ ”ظلم “ کیا ہے جس پر قائم رہتے ہوئے تم کسی فلاح کی امید نہیں کر سکتے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :105 اس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اگاتا ہے ۔ نیز ان جانوروں کا خالق بھی اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں ۔ لیکن ان کا تصور یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل ان دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جنات ، اور آسمانی ستاروں اور بزرگان سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظر کرم رکھتے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصے نکالتے تھے ۔ ایک حصہ اللہ کے نام کا ، اس شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انہیں بخشے ۔ اور دوسرا حصہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ ان کی مہربانیاں ان کے شامل حال رہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں ، ان میں یہ دوسروں کی نذر و نیاز کیسی؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو ، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے ، دوسروں کی مداخلت اور ان کے توسط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انہیں اس کے ساتھ شریک کرتے ہو ۔ پھر اشارۃً دوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعم خود کر لیا ہے ، اپنے شارع خود بن بیٹھے ہیں ، آپ ہی جو حصہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کر لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دوسروں کے لیے طے کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں ۔ پس درحقیقت اس خود مختارانہ طریقہ سے جو حصہ یہ لوگ اپنے زعم باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے ۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :106 یہ لطیف طنز ہے ان کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انہیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے ۔ مثلاً جو غلے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گر جاتا تو وہ شریکوں کے حصہ میں شامل کر دیا جاتا تھا ، اور اگر شریکوں کے حصہ میں سے گرتا ، یا خدا کے حصے میں مل جاتا تو اسے انہی کے حصہ میں واپس کیا جاتا ۔ کھیت کا جو حصہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اس حصہ کی طرف پھوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصہ میں داخل کر دی جاتی تھی ، لیکن اگر اس کے برعکس صورت پیش آتی تو خدا کے حصہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا ۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصہ کھالیتے تھے مگر شریکوں کے حصہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہو جائے ۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصہ میں کچھ کمی آجاتی تو وہ خدا کے حصہ سے پوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصہ میں سے ایک حبہ بھی اس میں نہ ڈالا جاتا ۔ اس طرز عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں ۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے ، اس کے حصہ میں سے کچھ کمی بھی ہو جائے تو اسے کیا پروا ہو سکتی ہے ۔ رہے یہ شریک ، تو یہ بندے ہیں ، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں ، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہو جاتی ہے ۔ ان توہمات کی اصل جڑ کیا تھی ، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصہ خدا کے لیے نکالتے تھے ، وہ فقیروں ، مسکینوں ، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صرف کیا جاتا تھا ، اور جو حصہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پوجاریوں تک پہنچ جاتا تھا ۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصہ میں کمی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ، مگر”خدا کے پیاروں“ کے حصہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے ۔
66: یہاں سے آیت نمبر : ۱۴۴ تک عرب کے مشرکین کی کچھ بے بنیاد رسموں کا بیان ہے، ان لوگوں نے کسی معقول اور علمی بنیاد کے بغیر مختلف کاموں کو من گھڑت اسباب کی بنیاد پر حلال یا حرام قرار دے رکھا تھا۔ مثلا خود اپنی اولاد کوانتہائی سنگ دلی سے قتل کردیتے تھے۔ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اسے اپنے لئے بڑی شرم کی بات سمجھ کر اسے زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے، بعض لوگ اس وجہ سے بھی لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے اِنسانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ لڑکیاں رکھیں۔ لڑکوں کو بعض اس وجہ سے قتل کرڈالتے تھے کہ ان کو کہاں سے کھلائیں گے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ نذر مان لیتے تھے کہ ہمارا جو دسواں لڑکا ہوگا اسے اللہ یا بتوں کے نام پر ذبح کردیں گے۔ اس کے علاوہ اپنے مویشیوں اور کھیتوں کی پیداوار کے بارے میں بھی عجیب وغریب عقیدے گھڑ رکھے تھے۔ ان میں سے ایک کا بیان اس آیت میں ہے، اور وہ یہ کہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور مویشیوں کے دودھ یا گوشت میں سے کچھ حصہ تو اللہ کے نام رکھتے تھے (جو مہمانوں اور غریبوں میں تقسیم کیلئے ہوتا تھا) اور ایک حصہ اپنے بتوں کے نام کا نکالتے تھے جو بت خانوں پر چڑھا یا جاتا تھا، اور اس سے بت خانوں کے نگراں فائدہ اٹھاتے تھے۔ اول تو یہ بات ہی بیہودہ تھی کہ اللہ کے ساتھ بتوں کو شریک کرکے ان کے نام پر پیداوار کا کچھ حصہ رکھا جائے۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ تھی کہ جو حصہ اللہ کے نام کا رکھا تھا، اگر اس میں سے کچھ بتوں والے حصے میں چلا جاتا تو کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ اگر بتوں کے حصے میں سے کوئی چیز اللہ کے نام کے حصے میں چلی جاتی تو اسے فورا واپس کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔