شیطان کے چیلے جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بےوجہ قتل کر دیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ، قرآن نے فرمایا کہ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئیں پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔ لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ۔
137۔ 1 یہ اشارہ ہے ان کی بچیوں کے زندہ درگور کردینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔ 137۔ 2 یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔ 137۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقینا یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے ہی لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔
[١٤٥] قتل اولاد کی تین وجوہ :۔ دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ سے قتل کیا جاتا تھا۔- (١) بیٹیوں کو اس عار کی وجہ سے زندہ درگور کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ان کا داماد بنے گا جس کے آگے ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی اور اس لیے بھی کہ اگر وہ کسی دوسرے قبیلے میں چلی گئی یا بیاہی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ ان میں رائج قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔- (٢) اللہ پر عدم توکل۔ بعض لوگ اپنی اولاد کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اس لیے مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ برداشت نہ کرسکیں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور اس جرم میں آج کی دنیا کا تقریباً پورا معاشرہ شریک ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر برتھ کنٹرول، اسقاط حمل اور عورتوں اور مردوں کو بانجھ بنانے کے طریقے دریافت کر کے اس جرم کا علانیہ ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ کام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں اور اس فعل کو بہت مستحسن قرار دیا گیا ہے۔- (٣) بتوں کے نام پر منت۔ یعنی اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہوں تو میں ایک بیٹا فلاں بت کے حضور قربان کروں گا جیسا کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے بھی یہ منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بارہ بیٹے پیدا ہوئے تو ایک بیٹے کی قربانی دوں گا۔ پھر اس منت کا قرعہ آپ کے باپ عبداللہ کے نام نکلتا تھا جو بالآخر سو اونٹوں کی دیت کے مقابل ٹھہرایا مثلاً یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک بیٹا یا بیٹی فلاں بت کے حضور قربانی دوں گا۔- خ مبتدعین بھی دراصل اللہ کے شریک ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں شریکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی مندرجہ بالا صورتوں کو ایجاد کیا تھا اور جنہیں معاشرہ نے قبول کرلیا تھا۔ چونکہ شرعی نقطہ نظر سے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار اللہ کو ہے لہذا ان رسوم کے موجد اللہ کے شریک ٹھہرے۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ تھا کہ وہ ایسے کاموں کو جرم سمجھنے کی بجائے انہیں اچھے اور اپنی فلاح و بہبود کے کام سمجھتے تھے۔- [١٤٦] ہلاکت سے مراد دونوں طرح کی ہلاکت ہے اخلاقی بھی اور تمدنی بھی۔ اخلاقی اس لحاظ سے کہ قتل بذات خود ایسا شدید ترین جرم ہے جو انسان میں شقاوت اور سنگدلی پیدا کرتا ہے جس سے وہ مزید قتل پر دلیر ہوجاتا ہے اور قتل اولاد تو عام قتل سے بھی بڑا جرم ہوا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ قبائلی عرب میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اگر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو فوراً قتل و غارت شروع ہوجاتی۔ اس معاشرہ میں انتہا درجہ کی خون کی ارزانی واقع ہوچکی تھی اور اخلاقی انحطاط اس درجہ پیدا ہوگیا تھا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی تھی نہ مال اور نہ آبرو۔ اور تمدنی ہلاکت اس لحاظ سے کہ جو قوم اس طرح اپنی اولاد کو ختم کرنا شروع کر دے وہ اس دنیا میں کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ پھر ایسے کاموں کے نتیجہ میں آخرت میں ان کی ہلاکت ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔- [١٤٧] مشرکین مکہ کی بعض اچھی صفات :۔ مشرکین مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم کا پیروکار قرار دیتے تھے۔ پھر ان میں کچھ اچھی باتیں بھی موجود تھیں جن سے اس بات کا شبہ ہوتا تھا۔ مثلاً عبادات میں بیت اللہ کا طواف، صفا ومروہ کی سعی اور حج وعمرہ کی عبادات بجا لانا اگرچہ ان میں بھی کئی غلط رسوم اور عقائد شامل ہوچکے تھے اور اخلاقیات اور معاملات میں مہمان نوازی، عہد کی پابندی اور صدق مقال جھوٹ سے اجتناب، کسی کو امان دینا تو پھر اسے پوری ذمہ داری سے نبھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دور نبوی تک ان کا مذہب شرک و بدعات کے ملغوبہ میں دب کر رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحف ابراہیم محفوظ نہیں رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کا کوئی معیار نہ تھا کہ فلاں کام یا فلاں رسم کب شروع ہوئی اور اس کا کوئی شرعی جواز ہے یا نہیں۔ دوسری وجہ امتداد زمانہ ہے یعنی سیدنا ابراہیم سے لے کر آپ کی بعثت تک تین ہزار سال کی مدت۔ اس دوران بیشمار شرک و بدعات کے موجد پیدا ہوتے رہے اور اپنی اختراعات اس دین میں شامل کرتے رہے اور کوئی حقیقی معیار موجود نہ ہونے کی وجہ سے قوم انہیں دین کا جزو سمجھتی اور اس پر عمل پیرا ہوتی رہی۔- خ مشرکین مکہ میں آخرت کے انکار کا عقیدہ کب رائج ہوا ؟ ان امور کی تو کسی نہ کسی حد تک سمجھ آتی ہے مگر جس بات کا سراغ لگانا مشکل ہے وہ یہ بات ہے کہ مشرکین مکہ میں سے اکثر اللہ کے خالق ومالک ہونے کے تو قائل تھے مگر حشر و نشر، قیامت اور اخروی جزا و سزا کے منکر تھے۔ کسی نبی کے پیروکاروں میں ایمان کے ایسے لازمی جز کا مفقود ہوجانا بڑی حیرانگی کی بات ہے۔ ان مشرکین میں آخرت کے انکار کے عقیدہ کا موجد کون تھا اور یہ عقیدہ کس زمانہ میں ایجاد ہوا تھا، اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۔۔ : یہ ان کی دوسری جہالت اور گمراہی تھی، اس کا عطف ” َجَعَلُوْا “ پر ہے، یعنی جیسے کھیتی اور جانوروں میں سے انھوں نے اپنے شرکاء کا حصہ مقرر کیا، اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے شرکاء نے اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی خوش نما بنادیا اور عام طور پر ان کے سامنے تین چیزیں جواز کے بہانے کے طور پر رکھ دیں، ایک یہ کہ انھیں کہاں سے کھلاؤ گے، یعنی : ( ْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ ) [ بنی إسرائیل : ٣١ ] ” مفلسی کے ڈر سے۔ “ جیسا کہ آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی منصوبہ بندی کے نام پر یہ کام کر رہے ہیں، کفار کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ دوسرا لڑکی کا باعث عار ہونا، جیسا کہ فرمایا : (يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ) [ النحل : ٥٩ ] ” وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ “ اور تیسرا اپنے شریکوں کو خوش کرنے کے لیے اولاد کو ان کے نام پر ذبح کردینا جسے ہندو بھینٹ چڑھانا کہتے ہیں اور ان پروہتوں اور بت خانوں کے پجاریوں کو شریک اس لیے کہا کہ وہ انھیں اپنے نفع و نقصان میں دخیل سمجھتے تھے اور انھی کی ترغیب پر بچوں کو بھینٹ چڑھاتے تھے، جیسا کہ آج کل کئی قبروں کے پجاری یہ کام کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں کسی اور کا حکم ماننا بھی اسے شریک بنانا ہے اور سب سے بڑا شریک تو شیطان ہے جس کے خوش نما بنانے پر وہ اللہ کے ساتھ شرک اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ - لِيُرْدُوْهُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْهِمْ دِيْنَهُمْ ۭ ” لِيُرْدُوْهُمْ “ باب افعال سے ” اَرْدٰی یُرْدِیْ “ کا معنی ہے۔ ہلاک کرنا۔ ” لِيَلْبِسُوْا “ اگر ” لَبَسَ یَلْبِسُ (ض) “ ہو تو خلط ملط کرنا اور ” لَبِسَ یَلْبَسُ “ (س) ہو تو پہننا۔ اہل عرب اصل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے، لیکن شیطان نے آہستہ آہستہ بت پرستی، قتل اولاد اور بہت سی غلط باتیں ان کے دین میں داخل کردی تھیں۔ فرمایا کہ ان کے شرکاء نے یہ سب کچھ انھیں برباد کرنے اور ان کے دین کو خلط ملط کرنے کے لیے کیا۔ - وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ ۔۔ : مگر یہ جبر ہوتا اور اس اختیار کے خلاف ہوتا جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دے کر امتحان لے رہا تھا، اس لیے آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ان کی ان تمام حرکتوں کو افترا ( جھوٹ باندھنا ) قرار دیا۔
ربط آیات - پچھلی آیتوں میں مشرکین کے عقائد باطلہ شرکیہ کفریہ کا بیان تھا، ان آیات میں ان کی عملی غلطیوں اور جاہلانہ رسموں کا ذکر ہے، جن رسوم جاہلیت کا ذکر ان آیات میں آیا ہے وہ یہ ہیں، اول غلہ اور پھل میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام کا نکالتے ہیں اور کچھ بتوں اور جنّات کے نام کا، پھر اگر اتفاق سے اللہ کے حصہ میں سے کچھ بتوں کے حصہ میں مل جاتا تو اس کو اسی طرح ملا رہنے دیتے تھے، اور معاملہ برعکس ہوتا تو اس کو نکال کر پھر بتوں کے حصہ کو پورا کردیتے تھے اور بہانہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کا حصہ کم ہوجانے سے اس کا کوئی ضرر نہیں، اور شرکاء محتاج ہیں، ان کا حصہ نہ گھٹنا چاہئے، اس رسم بد کا بیان آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں آچکا۔- دوسری رسم یہ تھی کہ بحیرہ، سائبہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑتے اور یہ کہتے تھے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہے، اس میں بھی بتوں کا حصہ یہ تھا کہ عبادت ان کی تھی، اور اللہ کا حصہ یہ ہوا کہ اس کو خوشنودی اللہ کی سمجھتے تھے۔- تیسری رسم، اپنی دختری اولاد کو قتل کر ڈالنے کی تھی، چوتھی رسم، کچھ کھیت بتوں کے نام وقف کردیتے اور کہتے کہ اس کا اصل مصرف فقط مرد ہیں، عورتوں کو اس میں سے کچھ دینا نہ دینا ہماری مرضی پر ہے، ان کو مطالبہ کا حق نہیں۔- پانچویں رسم، اسی طرح کا عمل مواشی جانوروں میں کرتے تھے کہ بعض کو مردوں کے لئے مخصوص قرار دیتے تھے۔- چھٹی رسم، جن چوپایہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تو ان پر سواری اور باربرداری کو حرام سمجھتے تھے۔- ساتویں رسم، بعض چوپایہ جانور مخصوص تھے جن پر کسی موقع میں بھی اللہ کا نام نہ لیتے تھے نہ دودھ نکالنے کے وقت، نہ سوار ہوتے وقت، نہ ذبح کرنے کے وقت۔- آٹھویں رسم، یہ تھی کہ جن جانوروں کا نام بحیرہ یا سائبہ رکھ کر بتوں کے نام پر چھوڑتے ان کے ذبح کے وقت اگر بچہ پیٹ سے زندہ نکلتا تو اس کو بھی ذبح کرلیتے، مگر اس کو صرف مردوں کے لئے حلال عورتوں کے لئے حرام سمجھتے تھے اور اگر بچہ مردہ نکلا تو وہ سب کے لئے حلال ہوتا تھا۔- نویں رسم، بعض جانوروں کا دودھ بھی مردوں کے لئے حلال عورتوں کے لئے حرام سمجھتے تھے۔- دسویں رسم، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی چار قسم کے جانوروں کی تعظیم کو عبادت سمجھتے تھے۔ - (یہ سب روایات درمنثور اور روح المعانی میں حضرت ابن عباس، مجاہد، ابن زید اور سدی سے بتخریج ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن ابی شیبہ، ابن حمید منقول ہیں) (از بیان القرآن) - خلاصہ تفسیر - اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں (شیاطین) نے اپنی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (جیسا کہ جاہلیت میں لڑکیوں کو قتل یا زندہ درگور کردینے کی رسم تھی) تاکہ (اس فعل قبیح کے ارتکاب سے) وہ (شیاطین) ان (مشرکین) کو (بوجہ استحقاق عذاب کے) برباد کریں اور تاکہ ان کے طریقہ کو مخبوط کردیں (کہ ہمیشہ غلطی میں پھنسے رہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ان حرکات شنیعہ سے مغموم نہ ہوں، کیونکہ) اگر اللہ تعالیٰ کو (انکا بھلا) منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اور جو کچھ یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں (کہ ہمارا یہ فعل بہت اچھا ہے) یوں ہی رہنے دیجئے (کچھ فکر نہ کیجئے ہم آپ سمجھ لیں گے) اور وہ اپنے خیال (باطل) پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ (مخصوص) مواشی ہیں اور (مخصوص) کھیت ہیں، جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (جیسا رسم چہارم و پنجم میں مذکور ہوا) اور (یوں کہتے ہیں کہ یہ مخصوص) مواشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی ہے (جیسا رسم ششم میں مذکور ہوا) اور (یوں کہتے ہیں کہ یہ مخصوص) مواشی ہیں جن پر (اللہ کا نام نہیں لینا چاہئے، چناچہ اسی اعتقاد کی وجہ سے ان پر) یہ لوگ اللہ کا نام نہیں لیتے (جیسا رسم ہفتم میں مذکور ہوا، اور یہ سب باتیں) محض اللہ پر افتراء باندھنے کے طور پر (کہتے ہیں، افتراء اس لئے کہ وہ ان امور کو موجب خوشنودی حق تعالیٰ سمجھتے تھے) ابھی اللہ تعالیٰ کو ان کے افتراء کی سزا دیتا ہے (ابھی اس لئے کہا کہ قیامت جو کہ آنے والی ہے دور نہیں اور کچھ کچھ سزا تو مرتے ہی شروع ہوجائے گی) اور وہ (یوں بھی) کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں (سے نکلتی) ہے (مثلاً دودھ یا بچہ) مردہ ہو تو اس (سے منتفع ہونے کے جواز) میں (مرد و عورت) سب برابر ہیں (جیسا رسم ہشتم ونہم میں مذکور ہوا) ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کی (اس) غلط بیانی کی سزا دئے دیتا ہے (غلط بیانی کی وہ ہی تقریر ہے جو افتراء کی گزری، اور اب تک جو سزا نہیں دی تو وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ وہ حکمت والا ہے (بعض حکمتوں سے مہلت دے رکھی ہے، اور ابھی سزا نہ دینے سے کوئی یوں نہ سمجھے کہ ان کو خبر نہیں، کیونکہ) وہ بڑا علم والا ہے (اس کو سب خبر ہے، آگے بطور خلاصہ اور انجام کے فرماتے ہیں کہ) واقعی خرابی میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے (ان افعال مذکورہ کو طریقہ بنا لیا کہ) اپنی اولاد کو محض براہ حماقت بلا کسی (معقول و مقبول) سند کے قتل کر ڈالا اور جو (حلال) چیزیں ان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کو دی تھیں ان کو (اعتقاداً یا عملاً ) حرام کرلیا (جیسا اوپر کے رسوم و رسم دہم میں کہ منشاء سب کا متحد ہے مذکور ہوا اور یہ مجموعہ) محض اللہ پر افتراء باندھنے کے طور پر (ہوا، جیسا کہ اوپر قتل اولاد میں یفترون اور تحریم انعام میں افتراء جدا جدا بھی آچکا ہے) بیشک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور (یہ گمراہی جدید نہیں بلکہ قدیم ہے، کیونکہ پہلے بھی) کبھی راہ پر چلنے والے نہیں ہوئے (پس ضَلَّوا میں خلاصہ طریق کا اور ماکانُوا میں اس کی تاکید اور خَسِرُوا میں خلاصہ انجام بد کا کہ عذاب ہے ذکر کیا گیا)
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ١٣٧- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(١٣٧) اسی طرح شیاطین نے ان کی لڑکیوں کے قتل کرنے کو مستحسن بنادیا ہے تاکہ وہ ان کو برباد کرے اور ان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین کو مخلوط کردے۔- اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو اپنا یہ طریقہ مستحسن نہ معلوم ہوتا اور نہ اس طرح یہ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے (لیکن اللہ نے اپنی مشیت خاص کے تحت انہیں محدود اختیار دے رکھا ہے) اور جو کچھ یہ غلط باتیں بناتے ہیں کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے دفن کرنے کا حکم دیا ہے آپ انہیں ان کی حالت پر یوں ہی رہنے دیجیے ،
آیت ١٣٧ (وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ ) - اس میں اشارہ ہے مشرکین کے ان اعتقادات کی طرف جن کے تحت وہ اپنے بچوں کو جنوں یا مختلف بتوں کے نام پر قربان کردیتے تھے۔ آج بھی ہندوستان میں اس طرح کے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کسی نے اپنے بچے کو دیوی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ - (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ ) ۔- دین کو مشتبہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے عقائد اور ایسی چیزیں بھی دین میں شامل کردی جائیں جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قتل اولاد بھی اس کی مثال ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ وہ دین اور مذہب کے نام پر ہی کرتے تھے۔ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دیں کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :107 یہاں”شریکوں“ کا لفظ ایک دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اوپر کے معنی سے مختلف ہے ۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ”شریک“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسط کو یہ لوگ نعمت کے حصول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکر نعمت کے استحقاق میں انہیں خدا کے ساتھ حصہ دار بناتے تھے ۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ”شریک“ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتل اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا ۔ انہیں شریک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے ۔ لہٰذا جس طرح کسی دوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے ، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے ۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں ، خواہ ان کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور رب کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا جن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے ۔ قتل اولاد کی تین صورتیں اہل عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ( ۱ ) لڑکیوں کا قتل ، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے ، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں ۔ ( ۲ ) بچوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابل برداشت بوجھ بن جائیں گے ۔ ( ۳ ) بچوں کو اپنے معبودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :108 یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے ۔ اس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جو ہر انسانیت تو درکنار جوہر حیوانیت تک باقی نہیں رہتا ۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتل اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے ، جس سے نوع انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے ، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدن کے کارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی ، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں انہیں ختم کر ڈالتی ہے ۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصوم بچوں پر یہ ظلم کرتا ہے ، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں الٹی چھری سے ذبح کرتا ہے ، اور جو نوع انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دشمنی کرتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :109 زمانہ جاہلیت کے عرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کر رہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے ۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام سے سیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشوا ، قبائل کے سردار ، خاندانوں کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا اضافہ کرتے چلے گئے جنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزء سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی ۔ چونکہ روایات میں ، یا تاریخ میں ، یا کسی کتاب میں ایسا کوئی ریکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیز یں کس زمانہ میں کس نے کس طرح اضافہ کیں ، اس وجہ سے اہل عرب کے لیے ان کا پورا دین مشتبہ ہو کر رہ گیا تھا ۔ نہ کسی چیز کے متعلق یقین کے ساتھ یہی کہہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جزء ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا ، اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھا دیں ۔ اسی صورت حال کی ترجمانی اس فقرے میں کی گئی ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :110 یعنی اگر اللہ چاہتا کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ کی مشیت یہی تھی کہ جو شخص جس راہ پر جانا چاہتا ہے اسے جانے کا موقع دیا جائے ، اسی لیے یہ سب کچھ ہوا ۔ پس اگر یہ لوگ تمہارے سمجھانے سے نہیں مانتے اور ان افترا پردازیوں ہی پر انہیں اصرار ہے تو جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دو ، ان کے پیچھے پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں ۔
67: اس کی تشریح کے لئے دیکھئے اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۱۱۲ کا حاشیہ۔