Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غلط سوچ سے باز رہو مشرک لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ کو معلوم ہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے ۔ اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے یا کفر کے کاموں کی ہمیں قدرت ہی نہ دے پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ جاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے ، جیسے ان کا یہی قول آیت ( لوشاء الرحمن ) میں اور سورۃ نحل میں ہے ۔ اللہ فرماتا ہے اسی شبہ نے ان سے پہلی قوموں کو تباہ کر دیا اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان کے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے؟ رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ یوں ہٹا دیئے جاتے ؟ اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضامندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو ۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکل پچو باتیں اللہ کے ذمے گھڑ لیتے ہو ۔ وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے ، ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے ، ہدایت و گمراہی کی تقسیم میں بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے ، سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مومنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے ، فرمان ہے آیت ( وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَي الْهُدٰي فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) 35- الانعام:6 ) اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو راہ حق پر جمع کر دیتا اور آیت میں ہے اگر تیرے رب کی چاہت ہوتی تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دیتا ، یہ تو اختلاف سے نہیں ہٹیں گے سوائے ان لوگوں کے جن پر تیرا رب رحم کرے بلکہ انہیں اللہ نے اسی لئے پیدا کیا ہے تیرے رب کی یہ بات حق ہے کہ میں جنات اور انسان سے جہنم کو پر کر دونگا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نافرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے ، تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو ۔ اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا ۔ ان منکرین قیامت ، منکرین کلام اللہ شریف کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے۔ 148۔ 2 اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا، عذاب الٰہی سے اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔ 148۔ 3 یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو لیکن ان کے پاس دلیل کہاں ؟ وہاں تو صرف اوہام و ظنون ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٠] مشیت الہٰی اور رضائے الہٰی کا فرق :۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور قصور کا اعتراف کرلینے کی بجائے اسے کسی دوسرے کے سر تھوپنے اور خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی کوئی اور ایسی وجہ تلاش کرتا ہے جس سے اس کے ذمہ کوئی الزام نہ آئے اور یہ صرف یہود ہی کی بات نہیں بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسا ہی جواب دیتے رہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے ذکر ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا جواب دیتے رہیں گے۔ اور اس غرض کے لیے سب سے عمدہ بہانہ مشیت الٰہی کا ہوتا ہے حالانکہ مشیئت الٰہی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے مشیئت الٰہی میں یہ بات ہو کہ یہ مشرکین اسی طرح شرک میں پھنس کر اور اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کر کے دنیا میں بھی عذاب کے مستحق قرار پائیں اور آخرت میں بھی۔ مشیئت الٰہی کو اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال بنانے والے عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بہت فرق ہے۔ مثلاً اللہ کی رضا اس بات میں ہے کہ سب لوگ اس کے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی شخص کفر و شرک یا ظلم و زیادتی کی راہ اختیار نہ کرے مگر اس کی مشیئت یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا امتحان لیا جائے۔ اسی لیے اللہ نے انسان کو قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار عطا کی، پھر اسے اسلام اور کفر و شرک اور نیکی اور بدی کی راہیں الگ الگ سمجھا دیں۔ پھر جو شخص اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ کا فرمانبردار ہو اسے اس کا اچھا بدلہ ملے اور جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرے اسے اس کی سزا ملے۔ پھر ان دونوں گروہوں میں حق و باطل کا معرکہ بھی مشیئت الٰہی ہے کسی کا ہدایت قبول کرنا مشیئت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی۔ اور کفر و شرک اختیار کرنا مشیئت الٰہی تو ہے مگر رضائے الٰہی ہرگز نہیں ہے۔- خ مشیت کو بہانہ بنانے والے :۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انسان کو مشیئت الٰہی کی بات اس وقت یاد آتی ہے جب وہ اللہ کے حقوق کو پامال کر رہا ہو۔ لیکن جب اس کے اپنے حقوق تلف ہو رہے ہوں تو وہ کبھی مشیئت الٰہی کے عذر کو قبول نہیں کرتا مثلاً کسی کے گھر چوری ہو یا ڈاکہ پڑے تو وہ یہ کبھی نہ کہے گا کہ چونکہ مشیئت الٰہی ہی یہ تھی اس لیے چور یا ڈاکو کا کیا قصور ہے ؟ لہذا اسے کچھ نہ کہنا چاہیے اسے اس وقت وہ اختیار یاد آجاتا ہے جو مجرم نے جرم کرتے وقت استعمال کیا لہذا اسے مجرم اور خود اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ حالانکہ مشیئت الٰہی کے اسی ضابطہ کے مطابق اسے اپنے آپ کو مظلوم بھی نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ مشیئت الٰہی ہی ایسی تھی۔- خ مشیت ٨ الہی کا بہانہ اس وقت نہیں ہے جب جرم اپنا ہو :۔ مشیئت الٰہی کو بہانہ بنانے کی مثال اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ سیدنا علی کے گھر تشریف لائے اور سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ کے درمیان بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ اس گفتگو کے دوران آپ نے سیدنا علی سے پوچھا کیا تم تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے ہو ؟ سیدنا علی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ ہماری روحیں تو اللہ کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ اگر وہ واپس بھیج دے تو ہم نماز پڑھ لیں گے۔ اس جواب پر رسول اللہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے (وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 54؀) 18 ۔ الكهف :54) یعنی انسان اپنی اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- غور فرمائیے سیدنا علی نے مشیئت الٰہی کا سہارا لیا تو آپ نے سیدنا علی کے اس قول کو غلط قرار نہیں دیا۔ بلکہ آپ کو افسوس اس بات پر ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے۔ اسے وہ کیوں بھول گئے ؟- [١٦١] یعنی انہیں مشرکانہ رسوم و رواج کے لیے تمہارے پاس کتاب الٰہی سے کوئی دلیل ہے۔ جن کا ذکر سابقہ آیات میں ہوچکا اور ظاہر ہے کہ جب کوئی علمی دلیل نہ ہو تو باقی صرف ظن و گمان ہی رہ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۔۔ : یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود اللہ کی مرضی اور ارادہ یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انھیں حرام ٹھہرائیں، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے یہ کام ہو ہی نہیں سکتے تھے، یہ دلیل ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ خوش ہے، لہٰذا یہ صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انھوں نے اللہ کی مشیت، مرضی اور ارادے کو شرک کے اور بعض حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لینے کے صحیح اور حق ہونے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا، گویا ان کے کہنے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں پر خوش ہے اور انھیں پسند کرتا ہے اور وہ درست ہیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ ) [ الزمر : ٧ ]” اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بےپروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا۔ “ یعنی کفر اور ناشکری اللہ کے ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتی مگر وہ نہ اس پر راضی ہے نہ اسے پسند کرتا ہے۔ مشیت و ارادہ اور رضا و محبت ایک دوسرے کو لازم نہیں، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے تحت ہو رہا ہے لیکن وہ ہر چیز پر راضی نہیں ہے رضا اس کی شریعت کی پابندی کا نام ہے اور ارادہ و مشیت اس کی تکوین ہے یعنی اس کا کائنات کو چلانے کا نظام ہے۔ تکوینی طور پر وہ کیا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں جانتا اور نہ جان سکتا ہے، تشریعی طور پر وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے یہ بتانے کے لیے اس نے پیغمبر بھیجے اور ہر شخص اسے جان سکتا ہے اس لیے ہم شریعت پر عمل کے پابند ہیں۔- كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی در حقیقت یہ بات کہنا اور اللہ کی تقدیر اور مشیت کو اس کے خوش ہونے کی دلیل قرار دینا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب (جھٹلانا) ہے۔ ان سے پہلے لوگ بھی اسی بہانے کو بنیاد بنا کر رسولوں کو جھٹلاتے آئے ہیں۔ - حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا : یعنی ان کا یہ عذر قطعی غلط اور بےبنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان سے پہلے لوگوں پر ان کے جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا ؟ (ابن کثیر)- ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ ۔۔ : یعنی تم جو یہ عذر پیش کر رہے ہو وہ کسی عقلی یا علمی بنیاد پر قائم نہیں ہے، اگر تمہارے پاس علم کی کوئی بات ہے تو لاؤ اور پیش کرو۔ کبھی دنیا کی کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے بھی تم نے تقدیر کو بہانہ بنا کر جدوجہد کو ترک کیا ہے، یا اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے بتادیا ہے کہ میں نے آئندہ اس طرح کرنا ہے۔ جب تمہیں معلوم ہی نہیں کہ تقدیر میں کیا ہے تو یہ بہانہ یا شبہ محض تمہارا وہم و گمان ہے اور تم لوگ صرف اٹکل لگا کر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہو، جب کہ حقیقت کی دنیا میں وہم و گمان کی کچھ حیثیت نہیں۔ دیکھیے سورة نجم (٢٣ اور ٢٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ مشرکین یوں کہنے کو ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو (بطور رضا کے یہ امر) منظور ہوتا (کہ ہم شرک اور تحریم نہ کریں، یعنی اللہ تعالیٰ عدم شرک و عدم تحریم کو پسند کرتے اور شرک و تحریم کو ناپسند کرتے) تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم (اور نہ ہمارے بزرگ) کسی چیز کو (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) حرام کہہ سکتے (اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس شرک و تحریم سے ناراض نہیں، اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ یہ استدلال اس لئے باطل ہے کہ مستلزم تکذیب رسل کو ہے، پس یہ لوگ رسول کی تکذیب کر رہے ہیں، اور جس طرح یہ کر رہے ہیں) اسی طرح جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی (رسولوں کی) تکذیب کی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا (خواہ دنیا میں، جیسا اکثر کفار سابقین پر نزول عذاب ہوا ہے، یا مرنے کے بعد تو ظاہر ہی ہے، اور یہ اشارہ ہے اس طرف کہ ان لوگوں کے کفریات کے مقابلہ میں صرف قولی جواب اور مناظرہ پر اکتفاء نہ کیا جاوے گا، بلکہ مثل کفار سابقین عملی سزا بھی دی جاوے گی، خواہ دنیا میں بھی یا صرف آخرت میں، آگے دوسرے جواب دینے کے لئے ارشاد ہے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ کیا تمہارے پاس (اس مقدمہ پر کہ صدور کی قدرت دینا مستلزم رضا ہے) کوئی دلیل ہے (اگر ہے) تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو (اصل یہ ہے کہ دلیل وغیرہ کچھ بھی نہیں) تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں کرتے ہو (اور دونوں جواب دے کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ پس (دونوں جوابوں سے معلوم ہوا کہ) پوری حجت اللہ ہی کی رہی (اور تمہاری حجت باطل ہوگئی) پھر (اس کا مقتضا تو یہ تھا کہ تم سب راہ پر آجاتے مگر اس کی توفیق خدا ہی کی طرف سے ہے) اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ (راست) پر لے آتا (مگر حق تعالیٰ کی بہت سے حکمتیں ہیں، کسی کو توفیق دی کسی کو نہیں دی، البتہ اظہار حق اور اعطاء اختیار ارادہ سب کے لئے عام ہے، آگے دلیل نقلی کے مطالبہ کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ (اپنی دلیل عقلی کا حال تو تم کو معلوم ہوا اچھا اب کوئی صحیح دلیل نقلی پیش کرو مثلاً ) اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر (باقاعدہ) شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان (مذکورہ) چیزوں کو حرام کردیا ہے، (باقاعدہ شہادت وہ ہے جو مبنی ہو مشایدہ پر یا ایسی دلیل قطعی پر جو افادہ یقین میں برابر ہو مشاہدہ کے، جیسا کہ (آیت) اَم کُنتُم شھداء اذ وصکم۔ اس طرف مشیر ہے) پھر اگر (اتفاق سے کسی کو فرضی جھوٹے گواہ بنا کرلے آویں اور) وہ (گواہ اس کی) گواہی (بھی) دیدیں تو (چونکہ وہ شہادت یقینا بےقاعدہ اور محض سخن سازی ہوگی، کیونکہ مشاہدہ بھی مفقود اور مشاہدہ کا مماثل بھی مفقود، اس لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شہادت کی سماعت نہ فرمائیے اور (جب ان کا مکذب ہونا جیسا کہ ولاَحَرَّمنَا اور کَذٰلِکَ کَذب الخ دال ہے، ثابت ہوگیا تو اے مخاطب) ایسے لوگوں کے باطل خیالات کا (جن کا بطلان ابھی ثابت ہوچکا) اتباع مت کرنا جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (اور اسی سبب سے نڈر ہو کر حق کی تلاش نہیں کرتے) اور وہ (استحقاق معبودیت میں) اپنے رب کے برابر دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں (یعنی شرک کرتے ہیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا۝ ٠ ۭ قُلْ ہَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا۝ ٠ ۭ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ۝ ١٤٨- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - خرص - الخَرْص : حرز الثّمرة، والخَرْص : المحروز، کالنّقض للمنقوض، وقیل : الخَرْص الکذب في قوله تعالی: إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الزخرف 20] ، قيل : معناه يکذبون . وقوله تعالی: قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات 10] ، قيل : لعن الکذّابون، وحقیقة ذلك : أنّ كلّ قول مقول عن ظنّ وتخمین يقال : خَرْصٌ ، سواء کان مطابقا للشیء أو مخالفا له، من حيث إنّ صاحبه لم يقله عن علم ولا غلبة ظنّ ولا سماع، بل اعتمد فيه علی الظّنّ والتّخمین، کفعل الخارص في خرصه، وكلّ من قال قولا علی هذا النحو قد يسمّى کاذبا۔ وإن کان قوله مطابقا للمقول المخبر عنه۔ كما حكي عن المنافقین في قوله عزّ وجلّ : إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون 1] .- ( خ ر ص ) الخرض پھلوں کا اندازہ کرنا اور اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہا جاتا ہے یہ بمعنی مخروص ہے ۔ جیسے نقض بمعنی منقوض بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب آجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑار ہے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات 10] اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں ۔ کے معنی بقول بعض یہ ہیں کہ جھولوں پر خدا کی لعنت ہو ، اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ انداز غلط ہو یا صحیح ۔ کیونکہ تخمینہ کرنے والا نہ تو علم یا غلبہ ظن سے بات کرتا ہے اور نہ سماع کی بنا پر کہتا ہے ۔ بلکہ اس کا اعتماد محض گمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تخمینہ کرنیوالا پھلوں کا تخمینہ کرتا ہے اور اس قسم کی بات کہنے والے کو بھی جھوٹا کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ واقع کے مطابق ہی کیوں نہ بات کرے جیسا کہ منافقین کے بارے میں فرمایا :۔ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ( ازراہ انفاق ) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں ۔ اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق ( دل سے نہ اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مشرکین کا غلط استدلال - قول باری ہے ( سیقول الذین اشرکوا لو شآء اللہ ما اشرکنا ولا ابائونا یہ مشرک لوگ ( تمہاری ان باتوں کے جواب میں) ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ) تا قول باری ( کذلک کذب الذین من قبلھم ۔ ایسی ہی باتیں بنا بنا کر ان سے پہلے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا) اس میں مشرکین کو ان کے اس قول میں جھوٹا قرار دیا گیا ہے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا “ اس لیے کہ قول باری ہے ( کذلک کذب الذین من قبلھم) جو شخص حق کو جھٹلائے گا وہ اس کے جھٹلانے میں خود جھوٹا ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ کفار اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں۔- اگر اللہ تعالیٰ شرک چاہتا تو یہ لوگ اپنے اس قول میں جھوٹے نہ قرار دیے جاتے۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک نہیں چاہتا۔ اس کی مزید تاکید اپنے اس قول سے فرمائی ہے ( ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو) یعنی تم جھوٹ بکتے ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ان سے شرک نہیں چاہتا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ چاہا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے ایمان لے آئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان سے زبردستی ایمان چاہتا تو وہ اس پر بھی قادر تھا لیکن اس صورت میں وہ ثواب اور مدح کے مستحق قرار نہ پاتے۔ انسانی عقول کی بھی اس امر پر دلالت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منصوص طریقے سے بیان فرما دیا ہے کہ شرک اور قبائح کا ارادہ کرنے والا سفید اور بیوقوف ہوتا ہے جس طرح شرک کا حکم دینے والا سفیہ اور بیوقوف ہوتا ہے۔ یہ اس لیے کہ شرک کا ارادہ کرنا شرک کی دعوت دینے کے مترادف ہے جس طرح شرک کا حکم دینا شرک کی دعوت دینے کے برابر ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جو باتیں پسند کی ہیں ان کی اس نے انہیں دعوت دی ہے اور انہیں ان کی ترغیب بھی دی ہے۔ اسی بناء پر یہ باتیں طاعت کہلاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پانے بندوں کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان کی انہیں دعوت بھی دی ہے اور اگر بندے ان پر عمل کرلیں تو یہ طاعت شمار ہوتی ہے۔- البتہ شرک کے علم کی یہ حیثیت نہیں ہے اس لیے کہ کسی چیز کا علم اس بات کا موجب نہیں ہوتا کہ اس کا جانے والا دوسروں کو اس کی دعوت بھی دے ، نہ ہی یہ بات اس چیز کو مستلزم ہوتی ہے کسی دوسرے کا وہ فعل جو علم میں آجائے اسے طاعت قرار دیا جائے جبکہ علم رکھنے والے نے اس کا ارادہ ہی نہ کیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مشرکین کے اس استدلال کی تردید کی ہے جو وہ اپنے شرک کے حق میں یہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے شرک چاہا حالانکہ یہ کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ اگر انہیں ان کے اس قول میں جھوٹا قرار دینا مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ کذلک کذب الذین من قبلھم ہوتے یعنی لفظ کذب تخفیف کے ساتھ ہوتا۔ تشدید کے ساتھ نہ ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے کفر چاہتا تو نہ صرف ان کا استدلال درست ہوتا بلکہ ان کے کفرو شرک کا یہ فعل طاعت کہلاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے ذریعے ان کا استدلال باطل کردیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان کے استدلال کے بطلان کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نہیں چاہا تھا نیز اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قول میں دو وجوہ کی بناپر جھوٹا قرار دیا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ بتایا کہ وہ حق کی تکذیب کرتے ہں اور حق کی تکذیب کرنے والا اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ خود جھوٹا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری ( وان انتم الا تخرصون) کے معنی ہیں ” تم جھوٹ بولتے ہو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٨) یہ تو اس بات کے مدعی ہیں کہ کھیتی اور مویشی کی حرمت کا ہمیں حکم دیا گیا اور ہم پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔ جیسا کہ آپ کی قوم نے آپ کی تکذیب کی اسی طرح اور رسولوں کی تکذیب کی گئی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمائیے کہ اس تحریم کے تم جو دعویدار ہو اس پر ہی کوئی دلیل ہو تو ہمارے سامنے ظاہر کرو تم لوگ تو کھیتی اور مویشی کی حرمت میں محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم جھوٹ ہی بولتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ (سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآء اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلآَ اٰبَآؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ ط) ۔- یعنی مشرکین مکہ اس طرح کے دلائل دیتے تھے کہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ حرام نہیں ہیں اور ہم نے خواہ مخواہ ان کو حرام ٹھہرا دیا ہے ‘ ایسا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ آخر اللہ تو عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرہے ‘ اس کا تو ہمارے ارادے اور عمل پر کلی اختیار تھا۔ لہٰذا یہ سب کام اگر غلط تھے تو وہ ہمیں یہ کام نہ کرنے دیتا اور غلط رستہ اختیار کرنے سے ہمیں روک دیتا۔ اس طرح کی کٹ حجتیاں کرنا انسان کی فطرت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :124 یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں ۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھہرا رکھا ہے انہیں حرام ٹھیرائیں ۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں ، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے ۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

79: یہ پھر وہی بے ہودہ دلیل ہے جس کا جواب بار بار دیا جاچکا ہے یعنی یہ کہ اگر اللہ کو شرک ناگوار ہے تو وہ ہمیں شرک پر قدرت ہی کیوں دیتا ہے ؟ جواب بار بار دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اپنی قدرت کے ذریعے زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا؟ دنیا تواسی امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ کون شخص اپنی سمجھ اور اپنے اختیار سے وہ صحیح راستہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں بھی رکھ دیا ہے اور جس کی طرف رہنمائی کے لئے اتنے سارے پیغمبر بھیجے ہیں۔