[١٦٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اتمام حجت کردی ہے اور اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کی راہوں اور ان کے انجام سے پوری طرح مطلع کردیا ہے اور حلت و حرمت کے احکام بھی واضح کردیئے ہیں۔- [١٦٣] یہ مشرکوں کے اس عذر لنگ کا جواب ہے جو یہ ہے کہ فی الواقع اس کی مشیئت یہی ہے کہ تمہیں ہدایت نصیب نہ ہو لیکن یہ اس کی رضا نہیں۔ اور چونکہ اللہ اتمام حجت کرچکا ہے لہذا تمہیں تمہارے جرائم کی سزا ضرور دے گا۔
قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۔۔ : آپ ان سے کہہ دیں کہ پھر کامل دلیل تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو واقع کے عین مطابق ہے کہ اس کی مشیت، ارادہ اور اختیار الگ چیز ہے اور کسی کام پر راضی اور خوش ہونا الگ چیز ہے اور اس میں اس کی حکمت ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت اور گمراہی کا اختیار دے کر آزمایا ہے، اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا، پھر کوئی گمراہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، مگر یہ جبر ہوتا، جو اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہے۔ دیکھیے سورة ھود (١١٨، ١١٩) اور سورة یونس (٩٩) ۔
قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ٠ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ١٤٩- حجة- : الدلالة المبيّنة للمحجّة، أي : المقصد المستقیم الذي يقتضي صحة أحد النقیضین . قال تعالی: قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام 149] ، وقال : لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة 150] ، فجعل ما يحتجّ بها الذین ظلموا مستثنی من الحجة وإن لم يكن حجة، وذلک کقول الشاعر :- 104-- ولا عيب فيهم غير أنّ سيوفهم ... بهنّ فلول من قراع الکتائب - ويجوز أنّه سمّى ما يحتجون به حجة، کقوله تعالی: وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری 16] ، فسمّى الداحضة حجّة، وقوله تعالی: لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، أي : لا احتجاج لظهور البیان،- الحجۃ - اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام 149] کہدو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے ۔ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة 150]( یہ تاکید ) اس لئے کی گئی ہے ) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگا سکیں ۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ( وہ الزام دیں تو دیں ۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنیٰ کیا ہے گو اصولا وہ حجت میں داخل نہیں ہے ۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (100) ولا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن للول من قراع الکتاب ان میں صرف یہ عیب پایا جاتا ہے ک لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندا نے پڑنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری 16] اور جو لوگ خدا کے بارے ) میں بعد اس کے کہ اسے ( مومنوں نے ) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے ۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قراد دیا گیا ہے اور آیت کریمہ : لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
(١٤٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر تمہارے پاس تمہارے دعوے کے لیے کوئی دلیل نہیں تو پھر پوری اور اعتماد والی قطعی بات تو اللہ ہی کی رہی۔
آیت ١٤٩ (قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ج) ۔- تمہاری اس کٹ حجتی کے مقابلے میں حقیقت تک پہنچی ہوئی حجت صرف اللہ کی ہے۔ اس نے ہر طرح سے تم پر اتمام حجت کردیا ہے ‘ تمہاری ہر نامعقول بات کو معقول طریقے سے رد کردیا ہے ‘ مختلف انداز سے تمہیں ہر بات سمجھا دی ہے۔ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللہ البالغہ کا نام اسی آیت سے اخذ کیا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :125 یہ ان کے عذر کا مکمل جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے: پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی غلط کاری و گمراہی کے لیے مشیت الہٰی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ، اور اس کا انجام یہ ہوا ہے کہ آخر کار وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا برا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کررہے ہو یہ دراصل علم حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے ۔ تم نے محض مشیت کا لفظ کہیں سے سن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کرلی ۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ تم مشیت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر میشت الہٰی کے تحت چوری کر رہا ہے تو وہ مجرم نہیں ہے ، کیونکہ اس نے یہ فعل خدا کی مشیت کے تحت کیا ہے ۔ حالانکہ دراصل انسان کے حق میں خدا کی مشیت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر ، ہدایت اور ضلالت ، طاعت اور معصیت میں سے جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا ، خدا وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا ، اور پھر غلط یا صحیح ، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، خدا اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا اسے اس کام کا اذن اور اس کی توفیق بخش دے گا ۔ لہٰذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیت الہٰی کے تحت شرک اور تحریم طیبات کی توفیق پائی تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ تم لوگ اپنے ان اعمال کے ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو ۔ اپنے غلط انتخاب راہ اور اپنے غلط ارادے اور سعی کے ذمہ دار تو تم خود ہی ہو ۔ آخر میں ایک ہی فقرے کے اندر کانٹے کی بات بھی فرما دی کہ فِللّٰہ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ، فَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ یعنی تم اپنی معذرت میں یہ حجت پیش کرتے ہو کہ ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ، اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی ۔ پوری بات کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو کہ ” اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“ ۔ بالفاظ دیگر تم خود اپنے انتخاب سے راہ راست اختیار کر نے پر تیار نہیں ، بلکہ یہ چاہتے ہو کہ خدا نے جس طرح فرشتوں کو پیدائشی راست رو بنایا ہے اس طرح تمھیں بھی بنا دے ۔ تو بے شک اگر اللہ مشیت انسان کے حق میں ہوتی تو وہ ضرور ایسا کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی مشیت نہیں ہے ، لہٰذا جس گمراہی کو تم نے اپنے لیے خود پسند کیا ہے اللہ بھی تمھیں اسی میں پڑا رہنے دے گا ۔
80: یعنی تم تو فرضی دلائل پیش کررہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت پودی کردی ہے اور ان کے بیان کئے ہوئے دلائل دلوں میں اترنے والے ہیں ان کی تصدیق اس حقیقت نے بھی کردی ہے کہ جن لوگوں نے انہیں جھٹلایا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے شکار ہوئے، لہذا یہ بات توصحیح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توسب کو زبردستی ہدایت پر لے آتا لیکن اس سے تمہاری یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوتی تم اپنے اختیار سے پیغمبروں کے ناقال انکار دلائل کو قبول کرکے ایمان لاؤ۔