Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قیامت اور بےبسی اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار ، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا ، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دجال کا آنا ، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا ۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے ۔ حضرت ابو ذر سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوجھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہدیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بےنفع ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں حضور بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم کا آنا اور دجال کا نکلنا ، مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبر دست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہ گی ( مسلم وغیرہ ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گذاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہو گی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہو گا ۔ ( ابن مردویہ ) ایک حدیث میں حضور کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے ، ایک روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی یہی ہو گی اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے اور حدیث میں ہے لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہو گی اسے تہجد گذار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کر دین گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ ناگہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہو گیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہو گا ، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں اور روایت میں ہے کہ تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی ، حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الٰہی سے مغرب سے ہی نکلنا ہو گا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت تلات فرمائی ، طبرانی میں ہے کہ جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الہی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی ، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے اللہ اعلم ۔ حضور فرماتے ہیں ہجرت منقطع نہ ہو گی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے کہ بہت سے نشانات گذر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں ، سورج کا نکلنا دجال دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے ۔ ایک طویل مرفوع غیب منکر حدیث میں ہے کہ اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے ۔ اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعوی اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے ۔ ہاں ابن عباس یا وہیب بن منبہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا کاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بےسود ہو گا ، ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہو گا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہو گی جیسے کہ پہلے حدیثیں گذر چکیں برے لوگوں کے نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لیں گے بعد کام نہ آئیں گے ۔ پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی ہوتا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں جیسے اور آیت میں ہے ( ھل ینظرون الا الساعتہ ) الخ ، قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہے اس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آچکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں؟ اور آیت میں ہے ( فلما راوا باسنا ) ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بےسود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے اس وقت یہ ایمان لائیں گے، یا آپ کا رب ان کے پاس آئے۔ یعنی قیامت برپا ہوجائے اور اللہ کے ربرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے ؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے، جیسے قیامت کے قریب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا، تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے۔ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لاینفع نفسا ایمانھا لم تکن اٰمنت من قبل۔ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ 158۔ 2 یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہ ہوگا۔ 158۔ 3 اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیر مقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨١] فرشتہ آئے یا پروردگار، عام انسان ان کے دیدار تک کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورتوں میں اس پر فوراً موت واقع ہوجائے گی اور موت کے وقت کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور اگر انسان کوئی ایسا حسی معجزہ دیکھ لے جو اسے ایمان لانے پر مجبور بنا دے تو ایسا جبری ایمان بھی قابل قبول نہیں کیونکہ ایسی صورتوں میں ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں اور فائدہ ایمان بالغیب کا ہے۔ موجود اور آنکھوں دیکھی چیز پر تو سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ جب حقیقت سے پردہ اٹھ گیا تو پھر ایمان کے کیا معنی ؟ لہذا یقینی چیز یا کوئی یقینی علامت دیکھنے کے بعد اس پر ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :- ١۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو قیامت قائم نہ ہوگی۔ پھر جب لوگ سورج کو مغرب سے نکلتا دیکھ لیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر اس وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تین چیزیں ظاہر ہوں گی تو کسی کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو۔ دجال اور دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- اور موت کے وقت ایمان کے فائدہ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ دو باتوں پر ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایمان کے زبانی اقرار کی تصدیق تو اعمال صالحہ سے ہی ہوسکتی ہے۔ اور مرنے والے کو عمل کا وقت ہی نہیں ملتا لہذا مرتے وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ : کفار پر اسلام کے حق ہونے کے دلائل تو پوری طرح واضح ہوچکے تھے، مگر وہ صرف لاجواب کرنے کے لیے ایسی چیزیں دکھانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جن کا دنیا میں ہوتے ہوئے دکھایا جانا ممکن ہی نہیں، کیونکہ ان کے آنے کے بعد اپنے اختیار سے غیب پر ایمان کا موقع ہی باقی نہیں رہتا، نہ ان کے آنے کے بعد کسی کی مجال ہے کہ وہ ایمان نہ لائے، مگر اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ ان مطالبات کا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں اکٹھے نو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، جن میں نہایت گستاخانہ مطالبہ خود اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کا تھا : ( اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بنی إسرائیل : ٩٢ ] ” یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “ سورة فرقان میں بھی یہ مطالبہ ذکر فرمایا، جیسا کہ فرمایا : (ا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ ) [ الفرقان : ٢١ ] ” ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے ؟ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان پر حجت تو پوری ہوچکی، یعنی : ( فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ ) [ الأنعام : ١٥٧ ] اب دلیل کی تو نہ انھیں ضرورت ہے نہ ان کا مطالبہ، اب اس کے سوا انھیں کیا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں، یا تیرا رب خود آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آجائے۔ مگر فرشتے آئے تو موت یا عذاب لے کر آئیں گے، پھر ایمان کی مہلت کہاں ؟ جیسا کہ فرمایا : (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) [ الحجر : ٨ ] ” ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔ “ اور اللہ تعالیٰ آئے گا تو قیامت کے دن فیصلے کے لیے فرشتوں کے ساتھ آئے گا : (كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكا، وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢١، ٢٢ ] ” ہرگز نہیں، جب زمین کوٹ کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “ پھر تو دنیا کا کام ہی تمام ہوجائے گا، فرمایا : (ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ ) [ البقرۃ : ٢١٠ ] ” وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اللہ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام تمام کردیا جائے۔ “ اور تیرے رب کی بعض نشانیوں سے مراد خاص نشانیاں ہیں، جن کی تفصیل آرہی ہے۔ - بعض لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے آنے کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے آنے کا مطلب اس کے حکم کا یا عذاب کا آنا ہے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان کو پیدا فرما کر عرش پر بلند ہونے کے بھی منکر ہیں اور اس کے آسمان دنیا پر اترنے کے بھی، بلکہ عرش کو بھی نہیں مانتے۔ سورة حاقہ (١٧) میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا عرش آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔ یہاں لاجواب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ متشابہات سے ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا آنا پھر بھی نہیں مانتے۔ اللہ کے بندو تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سے بھی عاجز سمجھ لیا کہ تم اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہو جاؤ، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی مرضی سے آنا جانا ممکن ہی نہیں مانتے۔ یہ سب نتیجہ یونانی فلسفے اور ان کے خدا کے متعلق تصورات سے متاثر ہونے کا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، قیامت کے دن زمین پر آئے گا اور زمین اس کے نور سے روشن ہوجائے گی، مگر اس کا آنا مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ اس طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ - اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ : اس سے مراد صحیح احادیث کے مطابق قیامت کے قریب نمودار ہونے والی چند نشانیاں ہیں، جن میں سے سب سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگا، جب اسے لوگ دیکھیں گے تو جو بھی زمین پر ہوں گے ایمان لے آئیں گے، تو یہ وہ وقت ہوگا جب کسی جان کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہوگی۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب ( لا ینفع نفسا إیمانہا ) : ٤٦٣٥ ]- ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین نشانیاں جب نمودار ہوں گی تو کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا آنا اور زمین سے جانور کا نکلنا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الإیمان : ١٥٨ ]- عبد اللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلے نکلنے والی نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا ہے اور زمین سے ایک جانور کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا ہے۔ دونوں میں سے جو بھی پہلے ہوئی دوسری قریب ہی اس کے پیچھے ہوگی۔ “ [ مسلم، الفتن، باب فی خروج الدجال و مکثہ فی الأرض۔۔ : ٢٩٤١ ]- اس جانور کا ذکر سورة نمل (٨٢) میں بھی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مراد قیامت کی کوئی بھی بڑی نشانی ہے جس کے بعد اختیار ختم ہوجائے گا اور ایمان لانے اور توبہ کرنے کے بغیر چارہ ہی نہیں رہے گا، البتہ اکثر اہل ایمان کا رجحان مغرب سے سورج طلوع ہونے کی طرف ہے، جیسا کہ ہمارے استاد مولانا محمد عبدہٗ (رح) نے صرف اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ - يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ ۔۔ : طبری (رض) نے فرمایا کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی کافر کو جو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے ایمان نہ لایا ہو اس کے طلوع ہونے کے بعد اس کا ایمان لانا اسے کوئی نفع نہیں دے گا اور کسی مومن کو بھی، جس نے طلوع سے پہلے نیک عمل نہ کیا ہوگا طلوع کے بعد وہ اسے نفع نہیں دے گا، کیونکہ اس وقت ایمان اور عمل کا حکم اس شخص کے ایمان و عمل جیسا ہے جو موت کے غرغرہ کے وقت ایمان لائے یا عمل کرے، جبکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ) [ المؤمن : ٨٥ ] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ “ اور جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کا غرغرہ ( موت کے وقت گلا بولنا) شروع نہ ہو۔ (ترمذی : ٣٥٣٧) اور ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ جب کافر اس دن ایمان لائے گا تو اس سے قبول نہیں ہوگا لیکن جو اس سے پہلے مومن ہوگا تو اگر اپنے عمل میں درست ہوگا تو وہ بہت بڑی بھلائی پر ہوگا اور اگر درست نہیں ہوگا اور اس وقت توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور یہی مطلب ہوگا ( اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ۭ ) کا، یعنی اس کا نیک عمل اس وقت قبول نہیں ہوگا جب وہ اس سے پہلے اسے کرنے والا نہ ہوگا۔ - قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ : ایمان لانے اور نافرمانی ترک کرنے میں دیر کرنے والوں کے لیے شدید دھمکی ہے۔ دیکھیے سورة محمد (١٨) اور سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ لوگ (جو کہ بعد نزول کتاب و سنت و بینات و وضوحِ حق کے بھی ایمان نہیں لاتے اپنے ایمان لانے کے لئے) صرف اس امر کے منتظر (معلوم ہوتے) ہیں (یعنی ایسا توقف کر رہے ہیں جیسے کوئی انتظار کر رہا ہو) کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا ان کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آوے (جیسا قیامت میں حساب کے وقت واقع ہوگا) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی کوئی بڑی نشانی (منجملہ قیامت کی نشانیوں کے) آوے (مراد اس بڑی نشانی سے آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، مطلب یہ ہوا کہ کیا ایمان لانے میں قیامت کے وقوع یا قرب کا انتظار ہے سو اس کے متعلق سن رکھیں کہ) جس روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی (یہ) بڑی نشانی (مذکور) آپہنچے گی (اس روز) کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا ہو (بلکہ اسی روز ایمان لایا ہو) یا (ایمان تو پہلے سے بھی رکھتا ہو، لیکن) اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (بلکہ اعمال بد اور گناہوں میں مبتلا ہو، اور اس روز ان سے توبہ کرکے اعمال نیک شروع کرے تو اس کی توبہ قبول نہ ہوگی، اور اس سے قبل اگر معاصی سے توبہ کرتا تو مومن ہونے کی برکت سے توبہ قبول ہوجاتی، تو قبول توبہ منجملہ منافع ایمان کے ہے، اس وقت ایمان نے یہ خاص نفع نہ دیا اور جب علامت قیامت مانع ہوگئی قبول ایمان و توبہ سے تو خاص وقوع قیامت تو بدرجہ اولیٰ مانع ہوگا، پھر انتظار کا ہے کا، اور اگر اس توبیخ پر بھی ایمان نہ لاویں تو) آپ (تہدید مزید کے طور پر) فرما دیجئے کہ (خیر بہتر) تم (ان امور کے) منتظر رہو (اور مسلمان نہیں ہوتے تو مت ہو) ہم بھی (ان امور کے) منتظر ہیں (اس وقت تم پر مصیبت پڑے گی، اور ہم مومن انشاء اللہ تعالیٰ ناجی ہوں گے) ۔- معارف و مسائل - سورة انعام کا اکثر حصہ اہل مکہ اور مشرکین عرب کے عقائد اور اعمال کی اصلاح اور ان کی شبہات اور سوالات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔- اس تمام سورة اور خصوصاً پچھلی آیات میں مکہ اور عرب کے باشندوں پر واضح کردیا گیا کہ تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات و بینّات دیکھ چکے، پچھلی کتابوں اور پہلے انبیاء کی پیشینگوئیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق سن چکے، پھر ایک اُمِّی محض کی زبان سے قرآن کی آیات بینات سن چکے، جو ایک مستقل معجزہ بن کر آیا، اب حق و صدق کی راہیں تمہارے سامنے کھل چکیں، اور خدا تعالیٰ کی حجت تم پر تمام ہوچکی، اب ایمان لانے میں کس چیز کا انتظار ہے۔- اس مضمون کو اس آیت مذکورہ میں نہایت بلیغ پیرایہ میں اس طرح بیان فرمایا ،- (آیت) هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ، ” یعنی یہ لوگ کیا ایمان لانے میں اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کے فرشتے ان کے پاس پہنچ جائیں، یا میدان حشر کا انتظار کر رہے ہیں کہ جس میں جزاء و سزا کے فیصلہ کے لئے اللہ تعالیٰ آئے گا، یا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت کی بعض نشانیاں دیکھ لیں، رب کریم کا میدان قیامت میں فیصلہ کے لئے تشریف فرما ہونا قرآن مجید کی کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے، سورة بقرہ میں اسی مضمون کی آیت اس طرح آئی ہے : (آیت)- ہل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملئکۃ وقضی الامر،- ” یعنی کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس آجائے اور فرشتے آجائیں اور لوگوں کے لئے جنت و دوزخ کا جو فیصلہ ہونا ہے وہ ہو جائے “۔- اللہ تعالیٰ کا میدان قیامت میں تشریف فرما ہونا کس شان کس کیفیت کے ساتھ ہوگا اس کا عقل انسانی احاطہ نہیں کرسکتی، اس لئے صحابہ کرام اور اسلاف امت کا مسلک اس قسم کی آیات کے متعلق یہ ہے کہ جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اس پر ایمان لایا جائے اور یقین کیا جائے اور اس کی کیفیات کو علم الٓہی کے حوالہ کیا جائے، مثلاً اس آیت میں یہ یقین کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ میدان قیامت میں فیصلہ جزاء و سزاء کے لئے تشریف فرما ہوں گے، اور اس میں بحث اور فکر نہ کی جائے کہ کس کیفیت اور کس جہت میں ہوں گے۔- اس آیت میں آگے ارشاد فرمایا : (آیت) يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ، اس میں متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں سامنے آجانے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا اب ایمان لائے گا تو قبول نہیں ہوگا، اور جو شخص ایمان تو لا چکا تھا مگر عمل نیک نہیں کئے تھے وہ اب توبہ کرکے آئندہ نیک عمل کا ارادہ کرے گا تو اس کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی، خلاصہ یہ ہے کہ کافر اپنے کفر سے یا فاسق اپنے فسق و معصیت سے اگر اس وقت توبہ کرنا چاہے گا تو وہ توبہ قبول نہ ہوگی۔ سبب یہ ہے کہ ایمان اور توبہ صرف اس وقت تک قبول ہو سکتی ہے جب تک وہ انسان کے اختیار میں ہے، اور جب عذاب الٓہی کا اور حقائق آخرت کا مشاہدہ ہوگیا تو ہر انسان ایمان لانے میں اور گناہ سے باز آنے پر خود بخود مجبور ہوگیا، مجبوری کا ایمان اور توبہ قابل قبول نہیں۔- قرآن مجید کی بیشمار آیات میں مذکور ہے کہ اہل دوزخ دوزخ میں پہنچ کر فریاد کریں گے، اور بڑے بڑے وعدے کریں گے اگر ہمیں اب دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے تو ہم ایمان اور عمل صالح کے سوا کچھ نہ کریں گے، مگر سب کا جواب یہی ہوگا کہ ایمان وعمل کا وقت ختم ہوچکا، اور اب جو کچھ کہہ رہے ہو مجبور ہو کر کہہ رہے ہو اس کا اعتبار نہیں۔- اسی آیت کی تفسیر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جس وقت قیام کی آخری نشانیوں میں یہ نشانی ظاہر ہوگی کہ آفتاب مشرق کے بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا، اور اس کو دیکھتے ہی سارے جہان کے کافر ایمان کا کلمہ پڑھنے لگیں گے اور سارے نافرمان فرمان بردار بن جائیں گے، لیکن اس وقت کا ایمان اور توبہ قابل قبول نہ ہوگا (بغوی بسندہ عن ابی ہریرة (رض) ۔- اس آیت میں اتنی بات تو قرآنی تصریح سے معلوم ہوگئی کہ بعض نشانیاں ایسی واقع ہوں گے، جن کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، کسی کافر یا فاسق کی توبہ قبول نہ ہوگی، لیکن قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی، کہ وہ کونسی نشانی ہے۔- صحیح بخاری میں اسی آیت کی تفسیر میں بروایت ابوہریرہ (رض) یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک یہ واقعہ پیش نہ آجائے کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہو، جب لوگ یہ نشانی دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جس کے لئے قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ اس وقت کسی نفس کو ایمان لانا نفع نہیں دے گا “۔- اس کی تفصیل صحیح مسلم میں بروایت حذیفہ ابن اسید (رض) اس طرح نقل کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام علامات قیامت کا تذکرہ آپس میں کر رہے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، آفتاب کا جانب مغرب سے نکلنا، اور ایک خاص قسم کا دھواں، اور دابة الارض اور یاجوج و ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا، دجال کا نکلنا، اور تین جگہوں پر زمین کا دھنس جانا، ایک مشرق میں، ایک مغرب میں، ایک جزیرة العرب میں، اور ایک آگ جو عدن کے قعر سے نکلے گی اور لوگوں کو آگے آگے ہنکا کرلے چلے گی۔- اور مسند احمد میں براویت ابن عمر (رض) منقول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان آیات میں سب سے پہلے مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب اور دابة الارض نکلنا واقع ہوگا۔- امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے تذکرہ میں اور حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) یہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس واقعہ یعنی عرب سے آفتاب طلوع ہونے کے بعد ایک سو بیس سال تک دنیا قائم رہے گی (روح المعانی) - اس تفصیل کے بعد یہاں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب نازل ہوں گے تو روایات صحیحہ کے موافق آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیں گے، اور لوگ ایمان قبول کریں گے، اور پوری دنیا میں نظام اسلام رائج ہوگا، ظاہر ہے کہ اگر اس وقت کا ایمان مقبول نہ ہو تو یہ دعوت اور لوگوں کا اسلام میں داخلہ سب غلط ہوجاتا ہے۔- تفسیر روح المعانی میں تو اس کا یہ جواب اختیار کیا ہے کہ مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے کا واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تشریف لانے کے کافی زمانہ بعد ہوگا، اور اسی وقت دروازہ توبہ کا بند ہوگا۔- اور علامہ بلقینی رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایمان اور توبہ قبول نہ ہونے کا یہ حکم جو آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے وقت ہوگا آخر زمانہ تک باقی نہ رہے، بلکہ کچھ عرصہ کے بعد یہ حکم بدل جائے اور ایمان و توبہ قبول ہونے لگے۔ (روح المعانی) واللہ اعلم - خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں اگرچہ اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ جس نشانی کے ظاہر ہونے کے بعد توبہ قبول نہ ہوگی وہ کونسی نشانی ہے، مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے واضح ہوگیا کہ اس سے مراد آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع ہے۔ - اور قرآن کریم نے خود کیوں اس کی وضاحت نہ کردی ؟ تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس جگہ قرآن کا ابہام ہی غافل انسان کو چونکانے میں زیادہ مفید ہے کہ اس کو ہر نئے پیش آنے والے واقعہ سے اس پر تنبیہ ہوتی رہے اور توبہ میں جلدی کرے۔- اس کے علاوہ اس ابہام اور اجمال سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس پر تنبیہ ہوجائے کہ جس طرح پورے عالم کے لئے مغرب سے آفتاب طلوع ہونے پر توبہ کا دروازہ بند ہوجائیگا اسی طرح اس کا ایک نمونہ ہر انسان کے لئے شخصی طور پر توبہ کے منقطع ہوجانے کا اس کی موت کے وقت پیش آتا ہے۔- قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو واضح طور پر بھی بیان فرما دیا ہے :- (آیت) ولیست التوبة للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الئن،- ” یعنی ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آجائے تو کہتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں “۔- اس سے معلوم ہوا کہ نزع روح کے وقت جب سانس آخری ہو اس وقت بھی چونکہ فرشتے موت کے، سامنے آجاتے ہیں اس وقت بھی توبہ قبول نہیں ہوتی، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بھی اللہ کی طرف سے ایک اہم نشانی ہے، اس لئے آیت مذکورہ میں بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ میں یہ موت کا وقت بھی داخل ہے، جیسا کہ تفسیر بحر محیط میں بعض علماء کا یہ قول نقل بھی کیا ہے، اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے : من مات فقد قام قیامتہ، ” یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہوگئی “۔ کیونکہ دار العمل ختم ہوا اور جزائے اعمال کا کچھ نمونہ قبر ہی سے شروع ہوگیا، صائب نے اسی مضمون کو نظم کیا ہے - توبہ بارا نفس باز پسیں دست زدست بیخبر دیر رسیدی در محمل بستند - یہاں عربی زبان کے اعتبار سے یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں پہلے فرمایا اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ اور پھر اسی جملہ کا اعادہ کرکے فرمایا يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا، اس میں ضمیر سے کام لے کر کلام کو مختصر نہیں کیا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کلمہ میں جو بعض آیات مذکورہ ہیں وہ اور ہیں، اور دوسرے کلمہ کی بعض آیات اس سے مختلف ہیں، اس سے اس تفصیل کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے جو ابھی آپ نے بروایت حذیفہ ابن اسید (رض) پڑھی ہے کہ قیامت کی دس نشانیاں بہت اہم ہیں، اس میں سے آخری نشانی مغرب سے طلوع آفتاب ہے جو انقطاع توبہ کی علامت ہے۔ - آخر آیت میں ارشاد فرمایا : (آیت) قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ، اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ کی ساری حجتیں پوری ہوجانے کے بعد بھی اگر تمہیں موت یا قیامت کا انتظار ہے تو یہ انتظار کرتے رہو، ہم بھی اسی کا انتظار کریں گے کہ تمہارے ساتھ تمہارے رب کا کیا معاملہ ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِـيَہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ۝ ٠ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُہَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِہَا خَيْرًا۝ ٠ ۭ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۝ ١٥٨- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٨) کیا مکہ والے اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے فرشتے آئیں یا قیامت کے دن ان کا پروردگار ان کے پاس آئے یا مغرب سے سورج طلوع ہوجائے ،- جب مغرب سے آفتاب طلوع کیا جائے گا تو تب مہلت عمل ختم ہوجائے گی اس وقت کسی شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے ایمان نہ رکھتا ہوگا یا اس نشانی کے ظہور سے پہلے اس نے اپنے ایمان میں ابھی تک کوئی نیکی کا کام نہیں کیا ہوگا کیوں کہ جو شخص اس نشانی کو دیکھ کر ایمان لائے گا تو اسکا ایمان اور توبہ اور کوئی عمل بھی قبول نہیں ہوگا ماسوا اس کے کہ وہ اس وقت چھوٹا ہو یا یہ کہ پیدا ہوا ہو اور پھر مرتد ہوجائے اور نشانی کے بعد پھر اسلام قبول کرے تو اس نومسلم کا اسلام قبول ہوگا۔- اور جو شخص اس دن مومن گنہگار ہوگا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہوگی ایک قول کے مطابق وہ یہ کہ جو اس دن گنہگار ہوگا اور پھر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا یا چھوٹا ہوگا یا اس کے بعد پیدا ہوا ہوگا تو ان کا ایمان توبہ اور عمل ان کے لیے فائدہ مند ہوگا۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ تم قیامت کا انتظار کرو، ہم تو تمہارے عذاب کے منتظر ہیں خواہ قیامت کے دن ہو یا اس سے پہلے ہو یا یہ کہ آپ فرمادیجیے کہ تم میری موت کے منتظر رہو، میں تمہاری ہلاکت کا منتظر ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨ (ہَلْ یَنْظُرُوْنَ الاّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلآءِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ط) - دراصل یہ ان واقعات یا علامات کا ذکر ہے جن کا ظہور قیامت کے دن ہونا ہے۔ جیسے سورة الفجر میں فرمایا : (وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَلا یَوْمَءِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی ) قصۂ زمین برسر زمین کے مصداق روز محشر فیصلہ یہیں اسی زمین پر ہوگا۔ یہیں پر اللہ کا نزول ہوگا ‘ یہیں پر فرشتے پرے باندھے کھڑے ہوں گے اور یہیں پر سارا حساب کتاب ہوگا۔ چناچہ اس حوالے سے فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ سب علامات ظہور پذیر ہوجائیں ؟ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے :- (یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا) (لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا ط) - دراصل جب تک غیب کا پردہ پڑا ہوا ہے تب تک ہی اس امتحان کا جواز ہے۔ جب غیب کا پردہ ہٹ جائے گا تو یہ امتحان بھی ختم ہوجائے گا۔ اس وقت پھر جو صورت حال سامنے آئے گی اس میں تو بڑے سے بڑا کافر بھی عابد و زاہد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن جو شخص یہ نشانیاں ظاہر ہونے سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کا کچھ توشہ اس نے اپنے لیے جمع نہیں کرلیا تھا ‘ اس کے لیے بعد میں ایمان لانا اور نیک اعمال کرنا کچھ بھی سود مند نہیں ہوگا۔- (قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ) ۔- اب انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :139 یعنی آثار قیامت ، یا عذاب ، یا کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کر دینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی سوال باقی نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :140 یعنی ایسی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بے معنی ہے ، اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی بے معنی ، اس لیے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردے میں ہے ، مہلت کی رسی دراز نظر آرہی ہے ، اور دنیا اپنی ساری متاع غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت ، بس کھاؤ پیو اور مزے کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

84: اس سے مراد قیامت کی آخری نشانی ہے، جس کے بعد ایمان قبول نہیں ہوگا، کیونکہ معتبر ایمان وہی ہے جو دلائل کی بنیاد پر ایمان بالغیب ہو، کسی چیز کو آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانے سے امتحان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لئے یہ دُنیا پیدا کی گئی ہے۔