Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اہل بدعت گمراہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے شیئی تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور نے فرمایا وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس امت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ حضرت ابو ہریرہ کا قول ہو ۔ ابو امامہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں مراد اس سے اہل بدعت ہے ۔ اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضور جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ ) 42- الشورى:13 ) ہے ایک حدیث میں بھی ہے کہ ہم جماعت انبیاء علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا جیسے اور آیت میں ہے کہ مومنوں ، یہودیوں ، صابیوں اور نصرانیوں میں مجوسیوں میں مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق وتخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔ شیعا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٢] تفرقہ بازی کی بنیاد حب جاہ ومال ہوتی ہے :۔ فرقہ بازی ایسی لعنت ہے کہ ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیتی ہے اور ایسی قوم کی ساکھ اور وقار دنیا کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو عذاب ہی کی ایک قسم بتایا ہے اور دوسرے مقام پر فرقہ بازوں کو مشرکین کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقہ کا آغاز کسی بدعی عقیدہ سے یا عمل سے ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نبی یا رسول یا بزرگ اور ولی کو اس کے اصل مقام سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک بنادینا یا کسی کی شان کو بڑھا کر بیان کرنا یا کسی سے بغض وعناد رکھنا وغیرہ۔ یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے شدت سے منع فرمایا اور بدعی اعمال کا زیادہ تر تعلق سنت رسول سے ہوتا ہے۔ کسی سنت رسول کو ترک کردینا یا کسی نئے کام کا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کردینا وغیرہ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین میں اس کام کی پہلے کمی رہ گئی تھی جو اب پوری کی جا رہی ہے۔ پھر یہ فرقہ بازیاں عموماً دو ہی قسم و کی ہوتی ہیں ایک مذہبی جیسے کسی مخصوص امام کی تقلید میں انتہا پسندی۔ یا کسی معمولی قسم کے اختلاف کو اہم اور اہم اختلاف کو معمولی بنادینا۔ اور دوسرے سیاسی۔ جیسے علاقائی، قومی، لسانی اور لونی بنیادوں پر فرقہ بنانا۔ غرض جتنے بھی فرقے بنائے جاتے ہیں ان کی تہہ میں آپ کو دو ہی باتیں کارفرما نظر آئیں گی ایک حب مال اور دوسرے حب جاہ۔ اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا بھیڑوں کے کسی ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیئے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنا حب مال یا حب جاہ کسی کے ایمان کو برباد کرتے ہیں (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الرقاق الفصل الثانی)- نیز حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جماعت المسلمین اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو تو کیا کروں ؟ فرمایا تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ رہنا خواہ تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ یہاں تک کہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے۔ (بخاری۔ کتاب الفتن۔ باب کیف الا مر اذا لم تکن جماعۃ مسلم۔ کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ المسلمین عند ظھور الفتن)- نیز آپ نے فرمایا کہ میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ نجات پائے گا باقی سب جہنمی ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا : وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا ؟ فرمایا جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ ۔۔ : یعنی اصل دین شروع سے ایک ہی ہے جس کی بنیاد اللہ کی توحید، یوم آخرت اور انبیاء پر ایمان اور ان کی اطاعت پر ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (٥٢، ٥٣) ، سورة یونس (١٩) ، سورة انعام (١٥٣) اور سورة بقرہ (٢١٣) ۔ اپنے اپنے زمانے کے مطابق احکام میں کچھ فرق ہوسکتا ہے مگر اصل سب کا ایک اسلام ہی ہے۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہر شخص کے لیے آپ پر ایمان لانا اور آپ کے طریقے پر چلنا لازم قرار دے دیا۔ اب جو شخص بھی اپنا کوئی جدا راستہ اختیار کر کے الگ گروہ بنائے، خواہ وہ دہریہ ہو یا مشرک یا یہودی یا نصرانی، اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ ان سے بری ہیں اور آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح آپ کی امت میں سے اسلام قبول کرنے کے بعد جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام، یعنی قرآن و سنت کے علاوہ کوئی نیا طریقہ یعنی بدعت اختیار کر کے اپنا الگ گروہ بنالیں، آپ ان سے بری ہیں، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہود ٧١ یا ٧٢ فرقوں میں اور نصاریٰ بھی اتنے ہی فرقوں میں جدا جدا ہوگئے اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ٤٥٩٦۔ ترمذی : ٢٦٤٠۔ ابن ماجہ : ٣٩٩٢۔ ابن حبان : ٦٧٣١ ] معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : ” یاد رکھو، تم سے پہلے اہل کتاب ٧٢ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہوگئے اور یہ ملت ٧٣ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہوجائے گی، ٧٢ آگ میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور وہ جماعۃ ہے۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ٤٥٩٧۔ أحمد : ٤؍١٠٢، ح : ١٦٩٤٠ ] عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت میں ہے : ” وہ سب آگ میں ہوں گے مگر ایک ملت۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ وہ کون ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِیْ ) ” جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ “ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ہذہ الأمۃ : ٢٦٤١ ] اس حدیث کے مزید حوالوں اور صحت کے لیے دیکھیے ” السلسلۃ الصحیحۃ : ١؍٤٠٢ تا ٤١٤، ح : ٢٠٣، ٢٠٤“ - یاد رہے کہ سوچ اور اجتہاد کا اختلاف یا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے اختلاف تو صحابہ اور تابعین میں بھی پایا جاتا تھا، مگر وہ سب ایک ہی جماعت تھے، انھوں نے کسی شخصیت کی تقلید کی خاطر فرقے نہیں بنائے تھے۔ مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنا اپنا الگ پیشوا بنا کر اس کی ہر صحیح اور غلط بات کو دین قرار دے کر الگ فرقہ بنا لیا۔ یہ چیز مسلمانوں کے تین بہترین زمانوں میں نہیں تھی، پہلے انبیاء کی امتوں کو اسی چیز نے برباد کیا اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بگاڑ کا باعث بھی یہی بات بنی کہ قرآن و حدیث کا واضح حکم آنے کے بعد بھی کچھ لوگ اپنے دھڑے کی وجہ سے اپنے امام یا مرشد کی غلط باتوں پر اڑ کر الگ الگ ہوگئے اور مسلمانوں کا شخصیتوں کی بنیاد پر بنے ہوئے فرقوں کو چھوڑ کر کتاب و سنت پر جمع ہونا ایک خواب ہی رہ گیا جس کی تعبیر کسی زبردست خلیفہ یا مہدی یا مسیح (علیہ السلام) ہی کے ذریعے سے پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو (جن کے وہ مکلف ہیں) جدا جدا کردیا (یعنی دین حق کو بتمامہ قبول نہ کیا، خواہ سب کو چھوڑ دیا یا بعض کو اور طریقے شرک و کفر و بدعت کے اختیار کر لئے) اور (مختلف) گروہ گروہ بن گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے کوئی تعلق نہیں (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی الزام نہیں) بس (وہ خود اپنے نیک و بد کے ذمہ دار ہیں، اور) ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے (وہ دیکھ بھال رہے ہیں) پھر (قیامت میں) ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (اور حجت قائم کرکے استحقاق عذاب ظاہر کردیں گے) جو شخص نیک کام کرے گا اس کو (اقل درجہ) اس کے دس حصے ملیں گے (یعنی ایسا سمجھا جاوے گا کہ گویا وہ نیکی دس بار کی اور نیز ایک نیکی پر جس قدر ثواب ملتا اب دس حصے ویسے ثواب کے ملیں گے) اور جو شخص برا کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی (زیادہ نہ ملے گی) اور ان لوگوں پر (ظاہراً بھی) ظلم نہ ہوگا (کہ کوئی نیکی درج نہ ہو یا کوئی بدی زیادہ کرکے لکھ لی جاوے) ۔ - معارف و مسائل - سورة انعام کا بیشتر حصہ مشرکین مکہ کے خطاب اور ان کے سوال و جواب کے متعلق آیا ہے، جس میں ان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ صرف قرآن اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع میں منحصر ہے، جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء کے زمانہ میں ان کا اور ان کی کتاب و شریعت کا اتباع مدار نجات تھا، آج صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ کی شریعت کی پیروی مدار نجات ہے، عقل سے کام لو اور اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں بائیں کے غلط راستوں کو اختیار نہ کرو، ورنہ وہ راستے تمہیں خدا تعالیٰ سے دور کردیں گے۔- مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ایک عام خطاب ہے جس میں مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب داخل ہیں، ان سب کو مخاطب کرکے اللہ کے سیدھے راستے سے منحرف ہونے والوں کا انجام بد بیان کیا گیا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان غلط راستوں پر چلنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ پھر ان میں غلط راستے وہ بھی ہیں جو صراط مستقیم سے بالکل مخالف جانب لے جانے والے ہیں، جیسے مشرکین اور اہل کتاب کے راستے، اور وہ راستے بھی ہیں جو مخالف جانب میں تو نہیں مگر سیدھے راستے سے ہٹا کر دائیں بائیں لے جانے والے ہیں، وہ شبہات اور بدعات کے راستے ہیں، وہ بھی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتے ہیں۔ (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ،” یعنی وہ لوگ جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے، تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ جتلائے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے “۔- اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا کوئی تعلق نہیں، پھر ان کو یہ وعید شدید سنائی کہ ان کا معاملہ بس خدا تعالیٰ کے حوالے ہے وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے۔- دین میں تفرق ڈالنا اور فرقے بن جانا جو اس آیت میں مذکور ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اصول دین کے اتباع کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور خواہشات کے مطابق یا شیطانی مکر وتلبیس میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا دے یا بعض چیزوں کو چھوڑ دے۔- دین میں بدعت ایجاد کرنے پر وعید شدید - تفسیر مظہری میں ہے کہ اس میں پچھلی امتوں کے لوگ بھی داخل ہیں جنہوں نے اپنے اصول دین کو ترک کرکے اپنی طرف سے کچھ چیزیں ملا دی تھیں، اور اس امت کے اہل بدعت بھی جو دین میں اپنی طرف سے بےبنیاد چیزوں کو شامل کرتے رہتے ہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ : - ” میری امت میں بھی وہی حالات پیش آویں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے، جس طرح کی بد اعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے، بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے، میری امت کے تہتر (73) فرقے ہوجاویں گے جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے، فرمایا ما انا علیہ و اصحابی، یعنی وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گی وہ نجات پائے گی، (اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد نے بروایت ابن عمر (رض) نقل کیا ہے) “۔- اور طبرانی نے بسند معتبر حضرت فاروق اعظم (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت اور اپنی خواہشات و خیالات کے تابع نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں، یہی مضمون حضرت ابوہریرہ (رض) سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین میں نئے نئے طریقے اپنی طرف سے ایجاد کرنے کو بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ - امام احمد، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ نے بروایت عرباض بن ساریہ (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلافات دیکھیں گے، اس لئے (میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ) تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اس کے مطابق ہر کام میں عمل کرو، نئے نئے طریقوں سے بچتے رہو، کیونکہ دین میں نئی پیدا کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “۔- ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا (رواہ ابو داؤد و احمد) ۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ جماعت سے مراد اس حدیث میں جماعت صحابہ ہے، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن عطا فرمایا، اور قرآن کے علاوہ دوسری وحی عطا فرمائی، جس کو حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، پھر قرآن میں بہت سی آیات مشکل یا مجمل یا مبہم ہیں، ان کی تفسیر وبیان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ بیان کرنے کا وعدہ فرمایا، (آیت) ثم ان علینا بیانہ کا یہی مطلب ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات اپنے بلا واسطہ شاگرودں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ سکھلائیں، اس لئے جمہور صحابہ کا عمل پوری شریعت الٓہیہ کا بیان و تفسیر ہے۔- اس لئے مسلمان کی سعادت اسی میں ہے کہ ہر کام میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرے، اور جس آیت یا حدیث کی مراد میں اشتباہ ہو اس میں اس کو اختیار کرے جس کو جمہور صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہو۔ - اس مقدس اصول کو نظر انداز کردینے سے اسلام میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے کہ تعامل صحابہ اور تفسیرات صحابہ کو نظر انداز کرکے اپنی طرف سے جو جی میں آیا اس کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دیدیا، یہی وہ گمراہی کے راستے ہیں جن سے قرآن کریم نے بار بار روکا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر بھر بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا، اور اس کے خلاف کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔ - حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چھ آدمیوں پر میں لعنت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت کرے، ایک وہ شخص جس نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا (یعنی خواہ کچھ الفاظ بڑھا دیئے یا معنی میں ایسی زیادتی کردی جو تفسیر صحابہ کے خلاف ہے) دوسرے وہ شخص جو تقدیر الٓہی کا منکر ہوگیا، تیسرے وہ شخص جو امت پر زبردستی مسلط ہوجائے تاکہ عزت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے ذلیل کیا ہے اور ذلت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے عزت دی ہے، چوتھے وہ شخص جس نے اللہ کے حرام کو حلال سمجھا، یعنی حرم مکہ میں قتل و قتال کیا، یا شکار کھیلا، پانچویں وہ شخص جس نے میری عترت و اولاد کی بےحرمتی کی، چھٹے وہ شخص جس نے میری سنت کو چھوڑ دیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَى اللہِ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝ ١٥٩- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فرقہ پرستی - قول باری ہے ( ان الذین فرقوا دینھم و کالو شیعا۔ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ درگروہ بن گئے) مجاہد کا قول ہے کہ اس سے یہود مراد ہیں اس لیے کہ یہی لوگ مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کی مدد کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں اس لیے کہ نصاریٰ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے۔ یہود کا بھی یہ حال تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے کہ اس سے امت مسلمہ کے گمراہ لوگ مراد ہیں اس طرح آیت میں مسلمانوں کو اہل اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہونے سے ڈرایا گیا ہے۔ اور انہیں دین کے نام پر اکٹھے ہوجانے اور یگانگت قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس سے تمام مشرکین مراد ہیں۔ اس لیے کہ یہی لوگ اس برائی میں ملوث ہیں۔ آیت میں وارد لفظ ( دینھم) سے ایک قول کے مطابق وہ دین مراد ہے جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا تھا اور جسے ان کے لیے بطور دین قمرر کیا تھا۔ ایک قول کے مطابق اس سے وہ دین مراد ہے جس پر یہ لوگ قائم تھے اس لیے کہ دین سے جہالت کی بنا پر یہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے۔ آیت میں لفظ (شیعا) سے ایسے فرقے مراد ہیں جو کسی ایک بات پر ایک دوسرے کی موافقت کریں اور اس کے سوا دوسری باتوں میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں۔ اس کے اصل معنی ظاہر ہونے کے ہیں۔ عربوں کا محاورہ ہے ” شاع الخیر “ یعنی بھلائی ظاہر ہوگئی۔ ایک قول کے مطابق اس کے اصل معنی اتباع اور پیروی کے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ” شایعہ “ یعین اس نے اس کی پیروی کی۔ قول باری ہے ( لست منھم فی شی یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں) یعنی ان سے مکمل علیحدگی اور مقاطعہ ہے۔ ان کے فاسد مذاہب کی کسی امر پر تمہارا ان کے ساتھ اشتراک نہیں ہوسکتا۔ البتہ آپس میں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ مقاطعہ نہیں ہے اس لیے کہ کسی نہ کسی امر باطل پر ان کا اجتماع ہوجاتا ہے اگرچہ دوسرے معاملات میں ان کا آپس میں اختلاف رہتا ہے اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ آپ ان سب سے بری اور علیحدہ ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٩) جن لوگوں نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا یا یوم المیثاق کو جو انہوں نے اقرار کیا تھا اس کو ترک کردیا اور اگر ” فرقوا “ تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ کہ دین میں اختلاف کیا اور اس کو جدا جدا کردیا اور مختلف فرقے مثلا یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت بن گئے، آپ کا ان کے قتال سے کوئی واسطہ نہیں پھر اس کے بعد ان سے قتال کرنے کا حکم دیا یا یہ کہ آپ کے قبضہ میں مان کی توبہ اور ان کا عذاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کی نیکی اور برائی جتلا دیاے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْءٍ ط) ۔- یہ وہی وحدت ادیان کا تصور ہے جو سورة البقرۃ کی آیت ٢١٣ میں دیا گیا ہے : (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) کہ پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہوتے گئے اور مختلف گروہوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خود ساختہ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی میں پڑے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان گمراہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :141 خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، اور آپ کے واسطہ سے دین حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور رب مانا جائے ۔ اللہ کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور ان وسیع اصول و کلیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے ۔ یہی دین تمام انسانوں کو اول یوم پیدائش سے دیا گیا تھا ۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشات نفس کے غلبہ سے ، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی ۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے ۔ خود ساختہ قوانین بنائے ۔ جزئیات میں موشگافیاں کیں ۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا ۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا ۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوع انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی ۔ اب جو شخص بھی اصل دین حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کرلے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani