نیکی کا دس گنا ثواب اور غلطی کی سزا برابر برابر ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے کہ ( فلہ خیر منھا ) جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے ۔ اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کر سکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گذرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں ( بخاری مسلم نسائی وغیرہ ) ایک حدیث قدسی میں ہے نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کر دیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ برھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں ( مسلم مسند وغیرہ ) اس سے پہلے گذری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے ۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا اور حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کر دیا ۔ حضور فرماتے ہیں لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں ۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی ۔ بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بد بخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بے آبرو ، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا ، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا ۔ واجب کر دینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گذرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے ( ترمذی ) فرمان ہے کہ جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے ، ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لئے کہ وعدہ الٰہی میں ہے آیت ( مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) 6 - الانعام:160 ) جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے ۔ طبرانی میں ہے جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے ۔ فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے ( ترمذی ) ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گذری ۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں لیکن ان شاء اللہ یہ ہی کافی ہیں ۔
160۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔ 160۔ 2 یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔
[١٨٣] یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان اور رحمت ہے کہ نیکی کے بدلے میں صرف اتنی ہی نیکی کا اجر نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ اجر وثواب دیتا ہے مگر برائی کا بدلہ اسی قدر ہی دیتا ہے جتنی برائی ہو۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوجاتی ہے۔- خ نیکی کا بدلہ دس گنا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمانا سچ ہے کہ جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو (اے فرشتو ) اس کی ایک نیکی لکھ لو۔ پھر اگر وہ کرچکے تو اس کی دس نیکیاں لکھو۔ اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرے تو کچھ بھی نہ لکھو۔ اور اگر کرچکے تو ایک ہی برائی لکھو۔ اور اگر نہ کرے تو اس کے لیے بھی ایک نیکی لکھ دو ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے جو روایت ہے اس میں یوں ہے کہ جب کوئی شخص نیکی کا ارادہ کرنے کے بعد نیکی کرتا بھی ہے تو اللہ اسے دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں عطا کرتا ہے (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب من ہم بحسنۃ اوسیئۃ )
مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ۔۔ : اللہ تعالیٰ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے، اب اللہ تعالیٰ کا نیکی کرنے والوں پر اپنے فضل اور برائی کرنے والوں پر عدل کا بیان ہے۔ نیکی کرنے والوں کی نیکی میں دس گنا اضافہ کم از کم ہے، ورنہ وہ سات سو گنا سے لے کر بےحساب تک بھی بڑھایا جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے والے کی مثال ایک دانے کو سات سو دانوں تک بڑھانے کے ساتھ اپنی مرضی کے ساتھ اس سے بھی بڑھانے کی بات فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦١) خوشے کی مثال کا جہاد سے تعلق سمجھنے کے لیے سورة بقرہ (٢٧٣) اور سورة توبہ (٦٠) ملاحظہ فرمائیں۔ جہاد کے ساتھ دوسری نیکیوں میں سات سو سے بڑھ کر ثواب بھی قرآن میں مذکور ہے، فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “- وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : یعنی ایک بدی کا بدلہ ایک سے زیادہ کا نہیں دیا جائے گا۔- ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا : ” جو شخص نیکی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اگر کرے تو دس سے لے کر سات سو گنا سے بہت گنا تک لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے ایک پوری نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر برائی کا ارادہ کیا اور اسے کر بھی لیا تو اللہ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے، یا اللہ عزوجل اسے بھی مٹا دیتا ہے اور اللہ کے ہاں ہلاک نہیں ہوتا مگر جو سرے ہی سے ہلاک ہونے والا ہو۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب إذا ہم العبد بسیءۃ ۔۔ : ٢٠٧، ٢٠٨؍١٣١۔ بخاری : ٦٤٩١ ] اس مقام پر حافظ ابن کثیر (رض) نے ایک نفیس بات لکھی ہے کہ برائی چھوڑنے والا جو اسے نہیں کرتا، تین طرح کا ہوتا ہے، کبھی تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑتا ہے، اس پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے کہ برائی سے اللہ کے لیے رک جانا ایک عمل اور نیت ہے، جیسا کہ بعض صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے اسے میری خاطر چھوڑا ہے اور کبھی وہ غفلت یا بھول کی وجہ سے برائی نہیں کرتا، اسے نہ گناہ ہے نہ ثواب، کیونکہ اس کی نیت نہ خیر کی ہے نہ شر کی اور کبھی اپنی پوری کوشش کے باوجود بس نہ چلنے کی وجہ سے کر نہیں سکتا، تو یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے وہ برائی کی ہو، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ یہ تو قاتل ہے، مقتول کا کیا معاملہ ہے ؟ “ فرمایا : ” وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی حرص رکھتا تھا۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب : ( و إن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا ۔۔ ) : ٣١۔ مسلم : ٢٨٨٨ ]
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : (آیت) مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ- پچھلی آیت میں اس کا بیان تھا کہ صراط مستقیم سے منحرف ہونے والوں کو روز قیامت اللہ تعالیٰ ہی ان کے اعمال کی سزاء دیں گے۔- اس آیت میں آخرت کی جزاء و سزاء کا کریمانہ ضابطہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص ایک نیک کام کرے گا اس کو دس گنا بدلہ دیا جائے گا، اور جو ایک گناہ کرے گا اس کا بدلہ صرف ایک گناہ کے برابر دیا جائے گا۔- صحیح بخاری اور مسلم، نسائی اور مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا رب عزوجل رحیم ہے، جو شخص کسی نیک کام کا صرف ارادہ کرے اس کے لئے ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے، خواہ عمل کرنے کی نوبت بھی نہ آئے، پھر جب وہ اس نیک کام کو کرلے تو دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں، اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے، مگر پھر اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اور گناہ کا عمل بھی کرے تو ایک گناہ لکھ دیا جاتا ہے، یا اس کو بھی مٹا دیا جاتا ہے، اس عفو وکرم کے ہوتے ہوئے اللہ کے دربار میں وہی شخص ہلاک ہوسکتا ہے جس نے ہلاک ہونے ہی کی ٹھان رکھی ہے (ابن کثیر) ۔ - ایک حدیث قدسی میں بروایت ابوذر (رض) ارشاد ہے : - ” جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے، اور اس سے بھی زیادہ اور جو شخص ایک گناہ کرتا ہے تو اس کی سزا صرف ایک ہی گناہ کی برابر ملے گی، یا میں اس کو بھی معاف کر دونگا اور جو شخص اتنے گناہ کرکے میرے پاس آئے جن سے ساری زمین بھر جائے اور مغفرت کا طالب ہو تو میں اتنی ہی مغفرت سے اس کے ساتھ معاملہ کروں گا، اور جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں، اور جو شخص ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے میں اس کی طرف بقدر ایک باع کے آتا ہوں (باع کہتے ہیں دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کو) اور جو شخص میری طرف جھپٹ کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں “۔- ان روایات حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کی جزاء میں دس تک کی زیادتی جو اس آیت میں مذکور ہے ادنیٰ حد کا بیان ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں اور دیں گے، جیسا کہ دوسری روایات سے ستر گنا یا سات گنا تک ثابت ہوتا ہے۔- اس آیت کے الفاظ میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہاں لفظ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فرمایا ہے عمل بالحسنة نہیں فرمایا، تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ محض کسی نیک یا بدکام کرلینے پر یہ جزاء و سزاء نہیں دی جائے گی، بلکہ جزاء و سزاء کے لئے موت کے وقت تک اس عمل نیک یا بد عمل کا قائم رہنا شرط ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نیک عمل کیا، لیکن پھر اس کے کسی گناہ کی شامت سے وہ عمل حبط اور ضائع ہوگیا تو وہ اس عمل پر جزاء کا مستحق نہیں رہا، جیسے معاذ اللہ کفر و شرک تو سارے ہی اعمال صالحہ کو برباد کردیتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ ایسے ہیں جو بعض اعمال صالحہ کو باطل اور بےاثر کردیتے ہیں، جیسے قرآن کریم میں ہے (آیت) لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی ،” یعنی تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر باطل اور ضائع نہ کرو “۔- اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ کا عمل صالح احسان جتانے یا ایذاء پہنچانے سے باطل اور ضائع ہوجاتا ہے، اسی طرح حدیث میں ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنا نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں جو اعمال صالحہ نوافل اور تسبیح وغیرہ کے لئے ہیں، وہ دنیا کی باتیں کرنے سے ضائع ہوجاتے ہیں۔- اسی طرح برے اعمال سے اگر توبہ کرلی تو وہ گناہ نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے، موت کے وقت تک باقی نہیں رہتا، اس لئے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی عمل کرے نیک یا بد تو اس کو جزاء یا سزا ملے گی “۔ بلکہ یوں فرمایا کہ جو ” شخص ہمارے پاس لائے گا نیک عمل تو دس گنا ثواب پائے گا اور ہمارے پاس لائے گا برا عمل تو ایک ہی عمل کی سزا پائے گا “۔ اللہ تعالیٰ کے پاس لانا اسی وقت ہوگا جب یہ عمل آخر تک قائم اور باقی رہے، نیک عمل کو ضائع کرنے والی کوئی چیز پیش نہ آوے اور برے عمل سے توبہ و استغفار نہ کرے۔ - آخر آیت میں فرمایا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ، یعنی اس عدالت عالیہ میں اس کا امکان نہیں کہ کسی پر ظلم ہو سکے نہ کسی کے نیک عمل کے بدلے میں کمی کا امکان ہے، نہ کسی کے برے عمل میں اس سے زائد سزا کا احتمال ہے۔
مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا ٠ ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ١٦٠- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
نیکی کا دس گنا اجر - قول باری ہے (من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے) الحسنۃ اس چیز کا نام ہے جو حسن اور خوبی میں سب سے اونچے مپام پر ہو اس لیے کہ اس میں حرف تاء مبالغہ کے لیے ہے۔ اس کے تحت تمام فرائض اور نوافل آ جاتے ہیں تا ہم اس میں مباحات داخل نہیں ہیں اگرچہ وہ بھی حسن ہیں۔ اس لیے کہ مباح پر عمل کر کے ایک شخص نہ کسی تعریف کا مستحق قرار پاتا ہے اور نہ کسی ثواب کا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حسنۃ کی ترغیب دی ہے جو طاعت کے معنوں میں ہے۔ - فعل حسن اور حسنہ کا فرق - اس طرح احسان ( فرائض و نوافل کو بہترین طریقے سے سرانجام دینے کا نام ) کی بنا پر بھی ایک شخص تعریف کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ حسن کے تحت ہر مباح فعل آتا ہے اس لیے کہ ہر فعل حسن، مباح ہوتا ہے لیکن اس میں ثواب کا استحقاق نہیں ہوتا۔ لیکن اگر لفظ حسن پر حرف تاء داخل ہوجائے اور حسنۃ بن جائے تو یہ لفظ حسن کی اعلیٰ ترین صورتوں یعنی طاعات کے لیے اسم بن جاتا ہے۔ قول باری ( فلہ عشر امثالھا) کے معنی ہیں آرام و راحت اور لذت کے اعتبار سے دس گنا “ اس سے درجے کی بلندی کے لحاظ سے دس گنا مراد نہیں ہے۔ اس لیے کہ درجے کی بلندی اور عظمت طاعت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ نیکی کا اجر دس گنا دینا یہ محض فضل باری ہے، بندے کا اس پر کوئی استحقاق نہیں ہوتا۔ جس طرح ارشاد باری ہے ( لیوفیھم اجورھم و یذید ھم من فضلہ۔ تاکہ انہیں ان کا پورا پورا اجردے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی دے) عظمت اور بلندی کے لحاظ سے تفضیل یعنی اللہ کے فضل سے ملنے والا مرتبہ ثواب کے مرتبے کے برابر نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اگر یہ بات جائز ہوتی تو پھر بندوں کو کسی عمل کے بغیر ابتداء ہی سے جنت کی صورت میں یہ مرتبہ بخش دینا درست ہوتا۔ نیز وہ بندہ جسے اعلیٰ ترین انعامات سے نوازا گیا ہو اس بندے کے برابر ہوجاتا جسے کوئی بھی انعام نہ ملا ہو۔
(١٦٠) جو توحید کے ساتھ نیکی کرے تو اسے دس گناہ ثواب ہے اور جو شرک کے ساتھ برائی کرے تو اس کا بدلا دوزخ ہے، ان کی نیکیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انکی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
آیت ١٦٠ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا ج) (وَمَنْ جَآء بالسَّیِءَۃِ فَلاَ یُجْزٰٓی الاَّ مِثْلَہَا) - یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ بدی کی سزا بدی کے برابر ہی ملے گی ‘ لیکن نیکی کا اجر بڑھا چڑھا کردیا جائے گا ‘ دو دو گنا ‘ چارگنا ‘ دس گنا ‘ سات سو گنا یا اللہ تعالیٰ اس سے بھی جتنا چاہے بڑھا دے : (وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) (البقرۃ : ٢٦١) - (وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ )- اس دن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی اور کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔- اگلی دو آیات جو قُلْ سے شروع ہو رہی ہیں بہت اہم ہیں۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کو یاد رہنی چاہئیں۔