Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بے وقوف وہی ہے جو دین حنیف سے منہ موڑ لے ورنہ دین اسلام قدیمی ہے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے ۔ ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بےوقوف ہو اور آیت میں ہے اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے ، ابراہیم علیہ السلام اللہ کے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ، پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا یہ یاد رہے کہ حضور کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہیں اس لئے کہ حضور کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ، اسی لئے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے حدیث ( اصبحنا علی ملتہ الاسلام وکلمتہ الاخلاص و دین نبینا و ملتہ ابراہیم حنیفا و ما کان من المشرکین ) یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے حضور علیہ السلام سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جو یکسوئی اور آسانی والا ہے ، مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہودیہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیح کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن حضور نے جب دو بھیڑے ذبح کئے تو انی وجھت الخ ، کے بعد یہی آیت پڑھی ، آپ ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لئے کہ یوں تو ہر نبی اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ، سب کی دعوت اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 43- النحل:16 ) یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 43- النحل:16 ) ملت ابراہیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ، وہ دنیا میں بھی برگزیدہ رب تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعدار بن جا اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمیں کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ پس تم اسلام ہی پر مرنا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے یا اللہ تو نے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتداء میں پیدا کرنے والا تو ہی ہے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل رکھا ہے ، اللہ ہمیں ظالموں کے لئے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے اور آیت میں فرمان باری ہے ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5- المآئدہ:44 ) ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی اور احبار کو بھی اور فرمان ہے آیت ( وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ) 5- المآئدہ:111 ) میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو ۔ یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ حضور کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی اور اس پاک دین کا جھنڈا ابدالآباد تک لہراتا رہے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، بھائیوں کی ایک قسم تو علاقی ہے جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیافی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جدا گانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ بھی ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو ۔ پس کل انبیاء کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے ۔ اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے بعد نماز میں ( انی وجھت ) اور یہ آیت پڑھ کر پھر یہ پڑھتے ( اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی وانا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی لا حسن الاخلاق لا یھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیئھا لا یصرف عنی سیئھا الا انت تبارکت و تعالیٰت استغفرک واتوب الیک یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے ( مسلم )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٤] اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ تینوں فریق انہیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ سیدنا ابراہیم خالصتہ ایک اللہ ہی کی پرستش کرتے تھے۔ حتیٰ کہ مشرکین مکہ کو بھی یہ اعتراف تھا کہ ابراہیم بت پرست نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری سیدھی راہ یہی ہے اور اسی پر سیدنا ابراہیم گامزن تھے۔ لہذا تم لوگ اس دین میں الگ عقیدے گھڑ کر شامل نہ کرو، اور اس طرح الگ الگ فرقے نہ بنو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۔۔ : پوری سورت میں توحید کو دلائل سے ثابت کرنے اور مشرکین کی تردید کے بعد آخر میں خلاصہ چند حقائق کی صورت میں بیان فرمایا۔ ” قِــيَمًا “ یہ ” قِیَامٌ“ کے معنی میں مصدر ہے جسے مبالغے کے لیے دین کی صفت قرار دیا ہے، جیسے ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ ہے، یعنی زید بہت عادل ہے، گویا سراسر عدل ہے، یعنی یہ دین نہایت قائم، مضبوط اور سیدھا ہے۔ - وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : اس میں مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ کی تردید ہے جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ دین ابراہیم پر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارا دعویٰ غلط ہے، تمہاری اور ان کی کیا نسبت تم مشرک اور ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے بےزار اور ایک اللہ کی طرف ہو چکنے والے۔ ان کا دین تو سچا، سیدھا اور نہایت مضبوط دین اسلام تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے پسند فرمایا اور جس کی ہدایت میرے رب نے مجھے عطا فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ (وحی کے ذریعہ سے) بتلا دیا ہے کہ وہ ایک دین ہے (جو بوجہ ثبوت بدلائل کے) مستحکم (ہے) جو طریقہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) کا جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ (ابراہیم علیہ السلام) شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (اور) آپ (اس دین مذکور میں قدرے تفصیل کے لئے) فرما دیجئے کہ (اس دین کا حاصل یہ ہے کہ) بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو مالک ہے سارے جہان کا، اس کا (استحقاق عبادت یا تصرفات ربوبیت میں) کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی (دین مذکور پر رہنے) کا حکم ہوا ہے اور (حکم کے موافق) میں (اس دین والوں میں) سب ماننے والوں سے پہلا (ماننے والا) ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان باطل کی طرف بلانے والوں سے) فرما دیجئے کہ کیا (بعد وضوح حقیقت توحید و اسلام کے تمہارے کہنے سے) میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں (یعنی نعوذ باللہ شرک اختیار کرلوں) حالانکہ وہ مالک ہے ہر چیز کا (اور سب چیزیں اس کی مملوک ہیں اور مملوک شریک مالک نہیں ہوسکتا) اور (تم جو کہتے ہو کہ تمہارا گناہ ہمارے سر، سو یہ محض لغو بات ہے کہ کرنے والا پاک صاف رہے اور صرف دوسرا گنہگار ہوجاوے، بلکہ بات یہ ہے کہ) جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وہ اسی پر رہتا ہے، اور کوئی دوسرے کا بوجھ (گناہ کا) نہ اٹھاوے گا (بلکہ سب اپنی اپنی بھگتیں گے) پھر (سب کے عمل کر چکنے کے بعد) تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا، پھر وہ تم کو جتلا دیں گے جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے (کہ کوئی کسی دین کو حق بتاتا تھا اور کوئی کس کو، وہاں عملی اطلاع سے فیصلہ کردیا جاوے گا، کہ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو سزا ہوگی) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں صاحب اختیار بنایا (اس نعمت میں تو تماثل ہے) اور ایک کا دوسرے پر (مختلف چیزوں میں) رتبہ بڑھایا، (اس نعمت میں تفاضل ہے) تاکہ (ان نعمتوں سے) تم کو (ظاہراً ) آزماوے ان چیزوں میں جو کہ (نعم مذکور سے) تم کو دی ہیں (آزمانا یہ کہ کون ان نعمتوں کی قدر کرکے منعم کی اطاعت کرتا ہے اور کون بےقدری کرکے اطاعت نہیں کرتا، پس بعضے مطیع ہوئے، بعضے نافرمان ہوئے اور دونوں کے ساتھ مناسب معاملہ کیا جاوے گا، کیونکہ) بالیقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب جلد سزا دینے والا (بھی) ہے، اور بالقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا، مہربانی کرنے والا (بھی) ہے، (پس نافرمانوں کے لئے عقاب ہے اور فرمانبرداروں کے لئے رحم ہے، اور نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف آنے والوں کے لئے مغفرت ہے، پس مکلفین پر ضرور ہوا کہ دین حق کے موافق اطاعت اختیار کریں، اور باطل اور مخالفت حق سے باز آویں) ۔- معارف و مسائل - یہ سورة انعام کی آخری چھ آیتیں ہیں، جن لوگوں نے دین حق میں افراط وتفریط اور کمی بیشی کرکے مختلف دین بنائے تھے، اور خود مختلف گروہوں میں بٹ گئے تھے، ان کے مقابلہ پر ان میں سے پہلی آیتوں میں دین حق کی صحیح تصویر، اس کے بنیادی اصول اور بعض اہم فروع و جزئیات بیان کئے گئے ہیں، پہلی دو آیتوں میں اصول کا بیان ہے اور تیسری آیت میں ان کے اہم فروع کا ذکر ہے، اور دونوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے یہ ارشاد ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو یہ بات پہنچا دیں۔- پہلی آیت میں ارشاد ہے، قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ” یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بنادیا ہے “۔ اس میں اشارہ فرمایا کہ میں نے تمہاری طرح اپنے خیالات یا آبائی رسوم کے تابع یہ راستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ میرے رب نے مجھے یہ راستہ بنایا ہے، اور لفظ ” رب “ سے اس طرف اشارہ کردیا کہ اس کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے کہ وہ صحیح راستہ بتائے، تم بھی اگر چاہو تو اس کی طرف ہدایت کے سامان تمہارے لئے بھی موجود ہیں۔- دوسری آیت میں فرمایا دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اس میں لفظ ” قیم “ مصدر ہے، قیام کے معنی میں، اور مراد اس سے قائم رہنے والا مستحکم ہے، یعنی یہ دین مستحکم ہے، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، کسی کے شخصی خیالات نہیں، اور کوئی نیا دین و مذہب بھی نہیں جس سے کسی کو شبہ ہو سکے، بلکہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی دین ہے۔ خصوصیت سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام اس لئے فرمایا کہ دنیا کے ہر مذہب والے ان کی عظمت و امامت کے قائل ہیں، موجودہ فرقوں میں سے یہود و نصاریٰ ، مشرکین عرب آپس میں کتنے ہی مختلف ہوں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کی بزرگی و امامت پر سب متفق ہیں، یہی وہ مقام امامت ہے جو اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام کے طور پر ان کو دیا ہے (آیت) انی جاعلک للناس اماما۔- پر ان میں سے ہر فرقہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر قائم ہیں، اور ہمارا مذہب ہی ملت ابراہیم ہے۔ ان کے اس مغالطہ کو دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز کرنے والے اور شرک سے نفرت کرنے والے تھے، اور یہی ان کا سب سے بڑا شاہکار ہے، تم لوگ جب کہ شرک میں مبتلا ہوگئے تو یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو، نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور مشرکین عرب نے ہزاروں پتھروں کو خدا کا شریک مان لیا، تو پھر کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں رہا کہ وہ ملت ابراہیمی کا پابند ہے، وہاں یہ حق صرف مسلمان کو پہنچتا ہے جو شرک و کفر سے بیزار ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّنِيْ ہَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝ ٠ۥۚ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝ ٠ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ١٦١- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سد ہے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- قَيِّمُ- وماء روی، وعلی هذا قوله تعالی: ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف 40] ، وقوله : وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف 1- 2] ، وقوله : وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة 5] فَالْقَيِّمَةُ هاهنا اسم للأمّة القائمة بالقسط المشار إليهم بقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] ، وقوله : كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء 135] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] فقد أشار بقوله : صُحُفاً مُطَهَّرَةً إلى القرآن، وبقوله : كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 3] إلى ما فيه من معاني كتب اللہ تعالی، فإنّ القرآن مجمع ثمرة كتب اللہ تعالیٰ المتقدّمة .- اور آیت کریمہ : ۔ دِيناً قِيَماً [ الأنعام 161] یعنی دین صحیح ہے ۔ میں قیما بھی ثابت ومقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معامات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرات میں قیما مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صغیہ ہے جس طرح کہ قوم عدی مکان سوی لحم ذی ماء روی میں عدی سوی اور ذی وغیرہ اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمایا : ۔ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف 40] یہی دین ( کا ) سیدھا راستہ ) ہے ؛ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف 1- 2] اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی اور سلیس اتاری ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة 5] یہی سچا دین ہے ۔ میں قیمتہ سے مراد امت عادلہ ہے جس کیطرف آیت کریمہ : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] تم سب سے بہتر ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء 135] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ میں اشارہ پایاجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ میں صحفا مطھرۃ سے قرآن پاک میں کی طرف اشارہ ہے ۔ اور کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک میں تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے - ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ملت ابراہیمی - قول باری ہے ( قل اننی مدانی ربی الیٰ صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا) قول باری ( دینا قیما) کے معنی ” دین مستقیم “ ( سیدھا راستہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حضر ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ قرار دیا۔ حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا ہو۔ یہ قول حسن سے مروی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے اصل معنی میل یعنی ملان کے ہیں عربی میں ” رجل احنف “ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے قدموں میں پیدائشی طور پر آگے کی طرف جھکائو ہو یعنی ہر قدم دوسرے سے آگے کی طرف جھکا ہوا ہو۔ یہ پیدائشی طور پر ہو کسی عارضے کی بنا پر نہ ہو۔ اس لیے اس شخص کو حنیف کے نام سے موسوم کیا گیا جو مائل الی الاسلام ہو۔ اس لیے کہ اسمیں پیچھے کی طرف ہٹنا نہیں ہوتا۔- ایک قول ہے کہ اس کے اصل معنی استقامت کے ہیں۔ مائل القدم کو احنف تفائول یعنی نیم فال کے طور پر کہا جاتا ہے جس طرح سانپ کے ڈسے ہوئے کو تفائول کے طور پر سلیم یعنی سلامتی والا کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کی جو باتیں منسوخ نہیں ہوئیں وہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں اور یہودیوں اور نصرانیوں سے فرما دیجیے کہ میرے پروردگار نے مجھے اپنے دین کی وجہ سے عزت عطا فرمائی ہے اور مجھے دین حق کی دعوت دینے کا حکم دیا ہے یا یہ کہ مجھے دعوت حق کا طریقہ میرے پروردگار نے بتادیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے، اس میں کجی نہیں اور وہ مشرکوں کے دین پر نہیں تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦١ (قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰٹنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ج) (دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًاج وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ )- یہ خطاب واحد کے صیغے میں براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے پوری امت سے۔ ذرا غور کریں ٢٠ رکوعوں پر مشتمل اس سورت میں ایک دفعہ بھی یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ کے ساتھ اہل ایمان سے خطاب نہیں کیا گیا۔ کاش کہ ہم میں سے ہر شخص اس آیت کا مخاطب بننے کی سعادت حاصل کرسکے اور یہ اعلان کرسکے کہ مجھے تو میرے رب نے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے دی ہے۔ لیکن یہ تو تبھی ممکن ہوگا جب کوئی اللہ کی راہ ہدایت کو صدق دل سے اختیار کرے گا۔ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَاْ مِنْھُمْ ۔ آمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :142 ”ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ“ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے ۔ اگرچہ اس کو موسیٰ علیہ السلام کا طریقہ یا عیسیٰ علیہ السلام کا طریقہ بھی کہا جا سکتا تھا ، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف دنیا نے یہودیت کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف مسیحیت کو منسوب کر رکھا ہے ، اس لیے ”ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ“ فرمایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی اور عیسائی ، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں ، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے ۔ نیز مشرکین عرب بھی ان کو راست رو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انہیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بت پرست ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani